Chahaton Ki Kahkashan Season 1 Online Reading

 





Chahton Ki Kahkashan

Novel    By Kaniz Fatma

چاہتوں کی کہشاں

از قلم کنیز فاطمہ






کالی رات اپنے پر پھیلائے دھیرے دھیرے روشنی کی طرف گامزن تھی۔

عالمگیر نے گیٹ کے اندر گاڑی کو پورچ تک لا کر گیراج میں پارک کی اور گاڑی کا دروازہ کھول کر اندرونی سمت بڑھ گیا۔

وه آہستہ  قدموں سے چل کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا کیونکہ اس وقت رات کے ۳ بج رہے تھے اور وہ امی کو اس وقت ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتا تھا۔حالانکہ وہ اُن سے ملنے ہی آیا تھا۔

کل جب مرتضٰی نے کال کر کے اُسے امی کی طبیعت کا بتایا تو وہ اپنے سارے کام جلدی جلدی ختم کر کے گھر کے لیے روانہ ہو گیا تھا لیکن کام اتنا زیادہ تھا کہ جلدی جلدی کرتے بھی اُسے رات کے ۱۲ بج گئے تھے۔اور اب گھر پہنچتے پہنچتے رات کے ۳ بج چکے تھے۔

ابھی وہ کمرے کی طرف بڑھ ہی رہا تھا کے اُس کی نظر دوسرے کمرے پر کھڑی امی پر پڑی وہ مسکراتا ہوا انکی طرف بڑھا اور اپنی پیشانی انکی سامنے جھکا دی۔جسے  رحمت بیگم نے بہت پیار سے چوم لیا۔اور اُسکے بیشانی پر آتے بالوں کو اپنے ہاتھوں سے صحیح کیے۔

اب وہ انکی گلے لگ کراُنھیں سلام کرنے کے ساتھ ساتھ انکی عافیت دریافت کر رہا تھا۔

" السلام و علیکم امی، کیسی ہیں آپ؟ اور مجھے کیوں نہیں بتایا اپنی طبیعت کی خرابی کا؟ امی آپ شاید یہ بھول رھیں ہیں کہ میں آپ کی اکلوتی اولاد ہو۔ اگر مرتضٰی نہ بتاتا تو مجھے تو پتہ ہی نہیں لگتا۔"

اُس نے شکایت کرنے والے انداز میں کہا۔

بات وہ رحمت بیگم سے کر رہا تھا لیکن مسکرا کر دیکھ عشنا کو رہا تھا جو کہ رحمت بیگم کے  پیچھے کھڑی نظریں جھکائے زمین میں  نجانے کیا تلاش کر رہی تھی۔وہ چونکہ رحمت بیگم کے کندھے پر سر رکھے کھڑا تو با آسانی اُسے دیکھ سکتا تھا۔

"ارے بیٹا۔۔،طبیعت کا کیا ہے۔۔یہ بڑھاپا خود ہی ایک بیماری ہے۔اب تو یہ سب لگا ہی رہتا ہے۔۔مرتضٰی نے خام خہ ہی تمہیں پریشان کیا۔۔بس میرے گٹھنوں میں ذرا درد تھا اور اسنے نجانے تم سے کیا کہ دیا کے تم یو بھاگے آئے ہو۔۔۔میری جان کتنی بار کہا ہے کہ رات کو سفر نہ کیا کرو۔صبح آجاتے؟"

ایسا نہیں تھا کے وہ بیٹے کو دیکھ کر خوش نہیں تھی، وه بس چاہتی تھیں کے وہ رات میں اتنا لمبا سفر نہ کیا کرے۔وہ انکی اکلوتی اولاد تھا اُسے دیکھ کر وہ کیوں کر نہ خوش ھوتیں۔شوہر کے بعد اُن کے پاس وہ ہی تو  اُنکی زندگی کی کل پونجي تھا۔جسے دیکھ کو وہ جیتی تھیں۔ اُنہوں نے جان بوجھ کر اُسے اپنی بیماری کا نہیں بتایا تھا کیونکہ پرسو ہی انکی اُس سے فون پر بات ہوئی تھی اور اسنے اُنھیں اپنے کسی نئے پروجیکٹ کا بتایا تھا اور یہ بھی کہ آج کل وہ کتنا بزی ہے۔

وہ اپنے بیٹے کے ترقّی کی راہوں میں رکاوٹ نہیں بننا چاہتی تھی۔وہ ایسی ہی تھی۔سدا کی سادہ اور سب سے محبت کرنے والی خاتون۔اور اپنے بیٹے میں تو انکی جان بستی تھی۔

عالمگیر اُن سے الگ ہوا اور عشنا کی طرف مسکرا کر  دیکھا اور ایک ادا سے سلام کیا۔

"السلام و علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ"

عشنا نے نظریں اٹھا کر اُسے دیکھا تو وہ اُسے ھنوز مسکرا کر دیکھے جا رہا تھا۔اُن کی نظریں ملیں اور اسنے سٹپٹا کر اس پر سے نظر ہٹا لی اور پھر  سے نیچے دیکھنے لگی اور آہستہ سے جواب دیا

"وعلیکم اسلام"

"بیٹا،رات بہت ہو گئی ہے،اب آپ آرام کرو"

رحمت بیگم نے اُسے مخاطب کیا تو وہ عشنا سے نظریں ہٹا کر رحمت بیگم کو دیکھنے لگا

"جی امی،اب آپ بھی آرام کریں۔ویسے ایک بات تو بتائیں۔آپ کو کیسے پتہ کے میں آیا ہو؟ وہ بھی اس وقت؟ میں نے تو کوئی آواز نہیں کی۔۔۔"

"ماں کا دل بتا دیتا ہے بیٹا"

وہ اسکا گال تھپکتے ہوئی کہ کر کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔

عشنا نے بھی قدم کچن کی جانب بڑھا دیے۔اور وہ جو اپنے کمرے کی طرف جانے کے لیے قدم اٹھا ہی رہا تھا اُسے کچن میں جاتا دیکھ مسکرایا اور نفی میں گردن ہلاتا کمرے میں چلا گیا۔اُسے پتہ تھا وہ اُس کے لیے کھانا گرم کرنے جا رہی ہے۔

"عشنا بیٹا،تم کچن میں کہاں جا رہی ہو؟ "

عشنا  نے رحمت بیگم کی آواز پر پلٹ کر اُنھیں دیکھا 

"وہ۔۔۔وہ پھوپھو ۔۔۔میں۔۔۔۔۔میں کھانا گرم کرنے جا رہی تھیں۔۔۔۔شاید اُنھیں بھوک لگی ہو۔۔۔"

اسنے تھوک نگلتے ہوئے بڑی مشکل سے لفظ ادا کیے 

"لیکن عالمگیر نے تو نہیں کہا کے اسے بھوک لگی ہے؟"

"وہ ۔۔۔۔وہ پھوپھو۔۔۔وہ۔۔ میں ۔۔۔۔۔  مجھے لگا۔۔۔۔"

اُسے سمجھ نہیں آیا کے کیسے بتائے اُنھیں کے اکثر وہ رات کو کھانا نہیں کھاتا۔اور آج جبکہ وه اتنی رات کو گھر آیا تھا تو دیر تک کام بھی کیا ہوگا تب ہی اتنی دیر سے آیا ہے اور کام میں اسکا جنون بھی وہ جانتی تھی۔ کام کرتے وقت نہ اُسے کھانے  کا ہوش رہتا تھا اور نہ پینے کا۔اور نہ ہی کوئی اُسکے پاس ہوتا تھا جو اُسے ٹوک سکے۔اکیلے رہ کر وہ دن بہ دن لاپرواہ ہوتا جا رہا تھا۔ 

رحمت بیگم مسکرائی اور اپنے کمرے میں چلیں گئی-

اسنے گہری سانس ہوا کے سپرد کی اور کچن میں آ کر کھانا گرم کرنے کے بعد ٹیبل پر رکھ ہی رہی تھی کے عالمگیر کچن میں داخل ہوا۔اُسکے کام کرتے ہاتھ وہی تھم گئے ۔

"کیا ہو گیا؟ کوئی بھوت دیکھ لیا کیا؟"

وہ اُسے یوں ساکت اور جامد دیکھ کر اُسے چھیڑنے والے انداز میں بولا۔

" نہ۔۔۔ ہی۔۔۔نہیں تو۔۔۔وہ میں۔۔۔" وہ  اُسکے نظروں سے پزل ہوتے ہوۓ مینمینائی۔

وہ یوں ہی نظریے جھکائے کھڑی تھی اور وہ اُسے مسکراتی نظروں سے دیکھتا ہوا اُسکے بالکل قریب آ چکا تھا۔عشنا کی سانسیں تھم گئیں۔

اچانک وہ جھکا اور اُسکے کمر کے پیچھے ہاتھ ڈال کر کیبنیٹ پر سے گلاس اٹھاتا کچن میں رکھی چھوٹی سی ڈائننگ ٹیبل پر آ بیٹھا۔

عشنا نے اپنے سانسوں کو بحال کرتے اُسے گھور کر دیکھا ۔

"کیا ہوا بھئی؟ میں تو بس گلاس لے رہا تھا۔۔۔۔۔ اب کھانا کھلانا ہے یہ پھر تمہاری اس گھوری سے ہی پیٹ بھر لوں؟"

اسنے مسکرا کر کہا

وہ جلدی سے آگے بڑھی اور کھانا سرو کرنے لگی۔

"یہ قیمہ تم نے بنایا ہے؟"

عالمگیر نے نوالہ منہ میں رکھ کا پوچھا۔

"جی۔۔۔۔"

اسنے اثبات میں سر ہلا دیا۔نظریں اسکی اب بھی نیچے تھی۔وہ عالمگیر کی نظروں کی تاب جو نہ پاتی تھی۔

لیکن عالمگیر کی اگلی حرکت نے اُسے نظریں اٹھانے پر مجبور کر دیا تھا۔

وہ اُسکا دایاں ہاتھ پکڑ کر اُس پر اپنے لب رکھ چکا تھا ۔

اسنے سٹپٹا کر اپنا ہاتھ کھینچا اور کچن  کے دروازے کی طرف بڑھنا چاہا لیکن عالمگیر اسکی کلائی تھام کر اسکی اس کوشش کو ناکام بنا چکا تھا۔

عشنا نے ناراض نظروں سے اُسے دیکھا.

"اچھا بابا نہیں کہتا کچھ۔۔۔۔یہاں بیٹھ تو جاؤ۔۔۔جب تک میں کھانا کھاتا ہوں۔۔۔تم جانتی ہو اکیلے ہونے کی وجہ سے میں وہاں بھی صحیح سے کھانا نہیں کھاتا۔اب یہاں تو میرے ساتھ رہو۔"

"میں بیٹھ جاتی ہو لیکن آپ نے پھر کچھ ایسی ویسی حرکت کی تو میں چلی جاؤنگی ۔۔۔"

وہ انگلی اٹھا کر اُسے وارن کرنے کے انداز میں بولی تو عالمگیر نے  مسکرا کراثبات میں سر ہلا دیا۔

عشنا بھی مسکرا دی اور اسکے سامنے والی چیئر پر بیٹھ گئی اور اُسکے کھانا ختم کرنے کا انتظار کرنے لگی۔

"ویسے تم یہاں کب سے ہو؟ اور مجھے بتایا کیوں نہیں؟"

وہ کھانا کھاتے ہوۓ اُس سے باتیں بھی کرتا جا رہا تھا ۔

"کل ہی آئی ہوں ابو کے ساتھ۔ابو نے پھوپھو کو فون کیا تھا تو اُنہوں نے بتایا کے اُنکے گھٹنوں میں کا فی درد ہے تو ابو مجھے یہاں چھوڑ گئے"

اسنے جواباً کہا

"اوہ۔۔تو مطلب میں صحیح وقت پر آیا ہوں"

وہ مسکرا کر گویا ہوا

"کیا مطلب؟"

اُس نے استہفامیاں نظروں سے اُسے دیکھا

" تو کتنے دن رہنے کا ارادہ ہے؟" 

اسنے اُسکے سوال کو نظر انداز کر کے پوچھا

"پتہ نہیں۔۔۔اب آپ آ ہی گئے ہیں تو سوچ رہی ہوں کل ابو کو کال کر کے بلا لوں کہ وہ آکر مجھے۔۔۔۔"

"خبردار۔۔۔۔۔"

ابھی اُسکے بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کے وہ ڈانٹنے کے انداز میں اُس سے بولا

"خبردار جو مامو کو کال کی تو۔۔۔۔۔میرے رہتے اگر تم یہاں نہیں رہ سکتی تو میں صبح ہی یہاں سے چلا جاتا ہوں۔۔۔"

وہ  غصے سے کہتا ہوا اٹھا اور کچن کے داخلی دروازے کی طرف بڑھا۔

"سنیے۔۔۔۔آئی ایم سوری۔۔۔۔۔میرا وہ مطلب نہیں تھا۔۔۔میں تو بس مذاق کر رہی تھی۔۔۔۔۔آئی ایم سوری نا۔۔۔۔۔۔۔"

وہ منّت بھری لہجے میں بولی تو

وہ زیرِ لب مسکرایا اور ا اسکی طرف بڑھا اور اُسکے داہنے گال پر ایک ہلکی سی جسارت کر دی۔

وہ اپنے گال پر ہاتھ رکھے اُسے دیکھنے لگی تو وہ مسکرا کر اُسے چائے لانے کہا کہ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔

وہ چلتی ہوئی گیس چولہے کی طرف آئی اور چائے کا پانی چولہے پر رکھا۔

وہ زیرِ لب مسکرائی ۔۔۔اور اپنے ہاتھ گال پر رکھ کر اُسکے لمس کو محسوس کرنے لگی۔۔۔اُسکا دایاں گال اب بھی اُسکے لمس سے دھیک رہا تھا۔

چائے بنانے کے بعد وہ کپ ٹرے میں رکھے اُسکے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔اُسے پتہ تھا وہ چائے پی کر اب تہجد کے بعد تلاوت کرنے اور فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد ہی سوئےگا۔

وہ چائے لے کر کمرے میں داخل ہوئی تو کمرا خالی تھا لیکن واش روم سے پانی گرنے کی آواز آ رہی تھی۔یقیناَ وہ وضو کر رہا تھا۔

اسنے چائے ٹیبل پر رکھ دی

"چائے ٹیبل پر رکھی ہے"

اسنے اونچی آواز میں کہا۔

"ٹھیک ہے۔ میں آتا ہوں"

اُسکا جواب سنتے ہی وہ کمرے سے نکل گئی اور اپنے کمرے میں آ کر خود بھی وضو کرنے واشروم میں چلی گئی۔

اُسے بھی تہجد کی نماز ادا کرنی تھی۔ اور اللہ کی  نعمتوں کا شکر بھی تو بجا لانا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


وہ فجر کی نماز پڑھ کر ابھی فری ہوا تھا۔

مصلح کو فولڈ کرتا وہ بیڈ کی طرف بڑھا اور تکیہ صحیح کر کے لیٹ کر سونے کی کوشش کرنے لگا۔

رات بھر جاگنے کی وجہ سے اُسکی آنکھیں کے ڈورے سرخ ہو رہے تھے۔ابھی اسنے آنکھیں بند ہی کی تھی اُسکا فون بجنے لگا۔اسنے ہاتھ بڑھا کر بیڈ پر پڑا موبائل اٹھایا تو اُسکے مینجر کی کال آ رہی تھی۔

اسنے کال رسیو کر کے مینیجر کی بات سنی اور اُسے چند ایک ہدایات دے کر کال منعقد کردی۔ویسے تو وہ بہت سے کام کال رات ہی نپٹا آیا تھا لیکن جس پروجیکٹ پر وہ آج کل کام کر رہا تھا اُسکی عدم موجودگی سے اُس پر اثر پڑ سکتا تھا۔

لیکن یہاں بات اُسکی ماں کی تھی۔وہ اُنھیں اس حالت میں تنہا نہیں چھوڑ سکتا تھا۔لیکن وہ اپنے بزنس میں بھی کسی بھی طرح کی لاپرواہی برداشت نہیں کرتا تھا۔اُسے اپنے بزنس سے بہت محبت تھی کیونکہ یہ بزنس اُسکے ابو کی دن رات کی انتھک محنت کا نتیجہ تھی جیسے اُس نے آسمان کی اونچائوں تک اپنے دن رات کو صرف کر کے پہنچایا تھا۔اُسے آج بھی یاد تھا جب اُسکے ابو کے اچانک انتقال کی وجہ سے اُسکے امی ،اسکا بزنس اور وہ خود کس طرح سے ڈھہ گیا تھا۔

اُسکی عمر ہی کیا تھی اُس وقت۔

صرف ۱۶ سال کی عمر میں اسنے نہ صرف اپنی امی اپنے بزنس بلکہ خود کو بھی سنبھالا تھا۔اپنی اسٹڈیز کے ساتھ بزنس دیکھنا اتنا آسان تو نہ تھا لیکن یہ اسکی دن رات کی انتھک محنت کا ہی نتیجہ تھا کے وہ نہ صرف بزنس ایڈمنسٹریشن کی ماسٹرز ڈگری لینے میں کامیاب ہو چکا تھا بلکہ اپنے بزنس کو بھی ایک اعلیٰ مقام پر پہنچا چکا تھا۔

آج اسکا شمار ملک کے مشہور اور معروف ینگ انٹرپرنور میں کیا جاتا تھا۔اسنے محض ۲۶ سال کی عمر میں ہی بہت سے بزنس اور بزنس مین کو پیچھے چھوڑتا کافی آگے بڑھ چکا تھا۔

عشنا نماز ادا کرنے کے بعد سونے کا ارادہ ترک کرکے لون میں چلی آئی اور ننگے پاؤں گھاس پر چلنے لگی۔

شبنم کے قطرے جو کہ گھاس پر صبح کی تازگی لیے پھیلے تھے اُسکے پیروں میں ایک عجیب سی ٹھنڈک پیدا کر رہے تھے۔وہ آنکھیں بند کئے اُس ٹھنڈک کو اپنے اندر اتارنے میں مصروف تھی جب ہی پھوپھو کی آواز پر وہ پیروں میں سلیپر فساتے اندر کی طرف بڑھ گئی۔

"جی پھوپھو۔۔۔ آپ نے بلایا؟"

اُس نے اندر آتے ہی اُنھیں مخاطب کیا۔

"جی بیٹا جان،میں یہ پوچھ رہی تھی کے عالمگیر نے کھانا کھا لیا تھا؟"

"جی پھوپھو۔۔۔اور ابھی وہ کچھ دیر پہلے ہی سوئے ہیں۔۔"

اسنے اُنھیں تسلی دیتے ہوئے کہا اور کچن کی طرف بڑھ گئی تاکہ اُنکے لیے ناشتہ بنا سکے۔اسنے ناشتہ تیار کر کے ڈائننگ ٹیبل پر اُن کے سامنے رکھا تو وہ مسکرا کر اخبار کنارے رکھتے ناشتے کی طرف متوجہ ہو گئیں۔

"بیٹا تم بھی تو ناشتہ کرو نا۔۔"

اُنہوں نے پیار سے اُسے بھی ناشتہ کرنے کی تنقید کے حالانکہ کے وہ جانتی تھی کے وہ عالمگیر کے ساتھ ناشتہ کرنا چاہتی تھی لیکن انہیں یہ بھی پتہ تھا کہ اب عالمگیر کم سے -۵ ۴ گھنٹوں بعد ہی اٹھے گا۔آخر کو ساری رات کا جاگا ہوا تھا۔ اس لیے وہ چاہتی تھیں کے وہ تب تک خود کو بھو کھا نہ رکھے۔

"جی۔۔۔جی۔۔۔وہ پھوپھو۔۔۔وُہ میں۔۔۔وہ میں۔۔۔۔۔"

"بیٹا، عالمگیر کے اٹھنے میں ابھی وقت ہے،تم ناشتہ کر لو،جب وہ اٹھے تو اُسکے ساتھ پھر سے کر لینا"

اُنہوں مسکرا کر اُسکی مشکل آسان کر دی۔

لیکن اُنکی اس بات پر وہ جھینپ کر کچن میں چلی گئی اور پانی سے بھاری بوتل نکل کر گلاس میں انڈیل کر وہی کھڑے کھڑے ہی پینے لگی۔

اور من میں سوچنے لگی کے پھوپھو کو کیسے پتہ؟  افف اللہ۔۔۔ وہ کیا سوچتی ہونگی میرے بارے میں۔

وہ اپنے چہرے کے تاثرات کو بحال کر کی پھر سے ٹیبل پر آئی اور سر جھکا کر ناشتہ کرنے لگی۔

ناشتہ کرنےکے بعد وہ اٹھی اور ملازمہ کے سر پر کھڑے رہ کر گھر کی صفائی کا کام ختم کیا اور کچن میں آگئی تاکہ لنچ کی تیاری کر سکے۔

صبح کے ۱۱ بج چکے تھے۔ وہ آج لنچ میں چکن دو پیازہ اور شاہی ٹکڑا بنانا چاہتی تھی کیونکہ یہ ڈشیز عالمگیر کو بہت پسند تھی۔اسنے جلدی جلدی تیاری شروع کر دی کیونکہ کہ عالمگیر اب کسی بھی وقت اٹھ سکتا تھا۔

ابھی وہ پیاز کاٹ کر مڑی ہی تھی کے کچن میں انٹر ہوتے عالمگیر سے بری طرح ٹکڑا گئی۔اُسے لگا جیسے وہ کسی پہاڑ سے ٹکڑا گئی ہو،اُسے دن میں تارے نظر آ گئے۔ اپنے سر کو مسلتے اسنے عالمگیر کو دیکھا تو وہ کھیلا کھیلا تروتازہ  اُسکے سامنے کھڑا تھا۔

اُسکے گیلے بالوں کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ وہ ابھی ابھی نہا کر آرہا ہے اور ہمیشہ کی طرح وائٹ شرٹ اور بلو جینز میں اُسکا کثرتِی بدن اُسے دلکش بنا رہا تھا۔

جیل لگے بالوں کے ایک طرف سیٹ کیے ہاتھوں میں قیمتی گھڑی پہنے وہ اپنے شاندار وجاہت کے ساتھ اُسکے سامنے کھڑا تھا۔

عشنا آنکھوں میں پسندیدگی کے ملے جلے تاثرات لیے اُسے دیکھے جا رہی تھی۔لیکن اُسکی آنکھوں سے رواں آنسوں کو دیکھ کر عالمگیر ایک پل کو ساکت رہ گیا۔وجہ اُسکی آنکھوں سے بہتے بےتحاشہ آنسو تھے جو اُسکے پیاز کاٹنے کی وجہ سے مسلسل  بہے جا رہے تھے۔

عالمگیر نے بے چین ہو کر اُسکا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں بھر کر  اُسکا چہرہ اونچا کر کے اپنے چہرے کے سامنے کیا 

"وہ ۔۔۔میں۔۔۔پیاز۔۔میں ۔۔پیاز کاٹ رہی تھی تو۔۔۔میں رو نہیں رہی۔۔۔"

وہ اُسکی بے چین نظروں کہ مفہوم سمجھتے ہوۓ گھبرا کر بولی۔

عالمگیر نے ایک گہری سانس ہوا کے سپرد کی اور  مسکرا کر سر کو نفی میں دعائیں بائیں جننبش دی اور جھک کر اُسکے دونوں آنکھوں پر باری باری اپنے تشنہ لب رکھ دیئے"

عشنا کو لگا جیسے اچانک اُسکی جلتی ہوئی آنکھوں میں ٹھنڈک اتر گئی ہو۔وه یوں ہی آنکھیں بند کیے اُسکے سحر میں کھوئے کھڑی تھی جب اسنے آہستہ سے اپنے ہاتھ اُسکے گال سے ہٹا  کر دو قدم کے فاصلے پر کھڑا ہو گیا۔

"تم نے تو مجھے ڈرا ہی دیا تھا پاگل لڑکی۔۔۔میں نے سوچا کیا ہو گیا جو تم یوں بے تحاشہ رونے کا شغل فرما رہی ہو، وہ بھی صبح صبح۔۔۔ اور یہ بتاؤ جب تمہاری آنکھوں میں اتنی جلن ہو رہی تھی تو کیا ضرورت تھی اتنی ڈھیر ساری پیاز کاٹنے کی؟"

وہ پیاز کی ٹرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا جہاں ڈھیر ساری پیاز کٹی رکھی تھی۔

"وہ ۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔وہ میں ۔۔۔لنچ بنا رہی تھی تو ۔۔۔"

"منہ کھولو۔۔۔۔آ۔۔۔۔۔۔۔ "

اسنے قریب آکر اُس کے منہ کی طرف اشارہ کر کے کہا تو وہ کنفیوژ ہوتے ہوئے اُسے دیکھنے لگی۔۔۔

"بھئی منہ کھولو۔۔۔۔۔مجھے دیکھنا ہے کہ کہیں تمہاری زبان میں کوئی زخم تو نہیں۔۔۔"

"مطلب؟ک۔۔۔۔۔کیا۔۔ ہوا میری زبان کو۔۔۔میری ۔۔میری زبان ایک دم ٹھیک ہے۔۔۔۔" 

اسنے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے اسے باور کرنا ضروری سمجھا۔

"منہ تو کھولو۔۔ اسنے اُسکی تھوڑی پکڑ کر منہ کھولنے چاہا تو اسنے اُسکا ہاتھ ہٹا کر منہ کھول کر اُسے دیکھا دیا۔

"آ۔۔۔۔۔  "

وہ مسکرا کر اُسے دیکھنے لگا۔۔۔

"کیا ہوا۔۔۔دیکھنا نہیں اب۔۔۔"

"دیکھ لیا بھئی۔۔ ۔۔اب بند کرو اسے، ورنہ مکھی چلی جائے گی۔۔ "

وہ قہقہہ لگا کر ہنسا۔

"آپ۔۔۔۔آپ بہت۔۔۔آپ بہت۔۔۔ "

اُس سے جملہ پورا نہ ہو پایا

"میں بہت کیا۔۔۔ بتاؤ۔۔۔ "

وہ اُسکا پورا جملہ سننے کے لیے بضد تھا۔

"آپ نے خود ہی کہا۔۔۔پھر۔۔۔پھر خود ہی میرا۔۔ میرا مذاق بنا رہے ہیں۔۔۔"

" میں تم پر تو نہیں ہنس رہا۔۔۔۔۔"

"تو پھر؟"

"میں تو تمہاری معصومیت پر ہنس رہا ہوں"

اسنے مسکرا کر کہا۔

"آپ... آپ کیا کہ رھیں ہیں مجھے۔۔۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا"

اسنے ناسمجھی سے اُسے دیکھا

"میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کے کہیں تمہارے زبان پر کوئی زخم تو نہیں ہے جہاں تمہارے یہ لفظ اٹک اٹک جاتے ہیں۔ کوئی فقرہ تم بنا اٹکے پورا نہیں بولتی"

اُسکی باتیں سن کر وہ تذبذب کا شکار ہو گئی اور گردن جھکا کر دوپٹے کا کونا توڑنے لگی۔

اسنے اُسکے دوپٹہ مروڑتے ہاتھوں کو تھاما تو عشنا نے نظریں اٹھا کر اُسے دیکھا۔

"کیوں ڈرتی ہو اتنا۔۔۔۔۔؟ میں کوئی بھوت تو نہیں۔۔۔۔۔اور نہ ہی کوئی غیر ہوں جو تم یوں ڈرتی رہو۔پتہ ہے نہ میں کون ہوں تمہارا۔۔۔ ؟"

اسنے سوالیہ انداز میں اُس سے پوچھا۔ اُسکے ہاتھوں کو ہنوز اپنی گرفت میں لیے کھڑا وہ اُس سے سوال کر رہا تھا۔

"بولو۔۔۔ "

 اسنے پھر پوچھا تو وہ گڑبڑا کے بولی 

" کزن۔۔۔۔کزن۔۔۔۔"

 وہ گڑبڑا کر بولی۔

 ابھی وہ کچھ کہنے ہی لگا تھا تب ہی پھوپھو کچن میں داخل ہوئی۔ اسنے جلدی سے اُسکے ہاتھوں کو اپنی گرفت سے آزاد کیا اور امی کو ناشتے کا کہ کر لاؤنج میں آ کے ٹی وی آن کر کے خبریں سننے لگا۔

کچھ دیر بعد وہ ٹرے میں ناشتہ سجائے لاؤنج میں داخل ہوئی اور ٹرے میز پر رکھ کر اُسکے متوجہ ہونے کا انتظار کرنے لگی۔لیکن وہ ہنوز ٹی وی دیکھنے میں مگن تھا جیسے اسنے اُسکے آنے کا کوئی نوٹس ہی نہیں لیا تھا۔ 

وہ بے چین نظروں سے اُسے دیکھے جا رہی تھی۔اچانک ٹی وی پر  کمرشلز نشر ہونے لگے تو اسنے ٹی وی سے نظریں ہٹا کر ناشتے پر مرکوز کر لی اور انہماک سے ناشتہ کرنے لگا۔

اسنے اُسکی طرف دیکھا تک نہ تھا-

جیسے کہ وہ وہاں موجود ہی نہیں تھی۔

عشنا نے اُسکے لیے اسپشلی قیمے بھرے پراٹھے بنائے تھے اور ساتھ ہی اورنج جوس جو اُسے بے حد پسند تھا۔

پراٹھا ختم کرنے کے بعد وہ ہاتھ ٹشو سے پونچھتا جوس کا گلاس لبوں سے لگا چکا تھا۔چائے پینے کا اُسکا کوئی ارادہ نہ تھا۔

اُس نے جوس کا گلاس جیسے ہی ٹیبل پر رکھا اُسکا سیل بجنے لگا۔وہ سیل کی طرف متوجہ ہو گیا اور کال آن کر کے بات کرنے لگا۔اور بات کرتے ہوئے اچانک کھڑا ہوا اور لون میں نکل گیا۔شاید اُسکے آفس سے کال تھی۔

عشنا جھک کر برتن اٹھانے لگی اور ایسا کرتے اُسکی آنکھ سے دو موتی نکل کر فرش پر گر گئے۔

وہ برتن لے کر کچن میں آئی جہاں پھوپھو ملازمہ کو کچھ ہدایات دے رہی تھیں۔ وہ سر جھکا کر جلدی جلدی لنچ تیار کرنے لگی۔

اچانک عالمگیر دروازے پر نمودار ہوا اور پھوپھو کو مخاطب کرکے بولا

"امی، میں ذرا کام سے باہر جا رہا ہوں۔جلدی ہی آ جاؤنگا"

کہنے کے ساتھ ہی اسنے ایک خفا نظر عشنا پر بھی ڈالی جو کہ حیران کھڑی اُسے ہی دیکھ رہی تھی۔

"بیٹا جو بھی کام ہو وہ لنچ کے بعد کر لینا ۔کچھ دیر ٹھہر کر لنچ کر لو پھر چلے جانا ۔عشنا نے سب تمہاری پسند کا بنایا ہے۔"

رحمت بیگم نے کہا

"امی،میں نے ابھی اتنا ہیوی ناشتہ کیا ہے،اب تو لنچ کے لیے پیٹ میں گنجائش ہی نہیں ہے "

اُس نے بےبسی سے ماں کو دیکھیے ہوئے کہا۔

"اچھا ٹھیک ہے میں لنچ تک واپس آنے کی کوشش کرونگا"

کہنے کے ساتھ اسنے اپنا سر ماں کے سامنے جھکا دیا جیسے جانے کہا عندیہ چاہتا ہو۔وہ جب بھی کہیں کام سے جاتا اور راحت بیگم گھر پر ہوتی تو ایسے ہی اپنی پیشانی پر اُن کی دعا لے کر ہی نکلتا تھا۔

راحت بیگم نے اُسکے جھکے سر کو دیکھا تو اُسکی پیشانی چوم کر اُسے ڈھیروں ڈھیر دعائیں بھی دی۔

وہ اُنھیں اللہ حافظ کہتا باہر پورچ میں آکر گاڑی لے کر گیٹ کے باہر نکل گیا۔

عشنا نے کچن کی کھڑکی سے یہ منظر صاف دیکھا تھا۔اُسے یہ بھی پتہ تھا کے وہ ناراض ہو گیا ہے لیکن اسنے تو اپنی ناراضگی دور کرنے کہ موقع دیئے بغیر باہر نکل گیا تھا۔

گھر ہوتا تو وہ اُسے مانانے کے کچھ جتن کرتی۔

وہ چپ چاپ آنسوؤں پیتی لنچ تیار کر کے اپنے کمرے میں آگئی۔

تھوڑی دیر بعد وہ فریش ہو کر اپنے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے ہو کر بال بنا رہی تھی اور آئینے میں اپنے عکس کو دیکھ کر بس عالمگیر کو ہی سوچے جا رہی تھی۔

کچھ بھی تو خاص نہیں تھا اُس میں۔یہ پھر وہ خود کو ہی کچھ خاص نہیں لگتی تھی۔ کیونکہ جس طرح عالمگیر اُس سے اپنی بےپناہ چاہت کا اظہار گاہے بگاہے کرتا رہتا تھا اس سے تو وہ اندازہ ہی نہیں لگا پائی تھی کہ وہ سچ میں اُس کے لیے اتنی ہی خاص تھی یہ پھر وہ صرف اُسے خوش دیکھنے کے لیے۔۔۔۔لیکن اسنے کبھی بھی عالمگیر کے کسی عمل کو ایسا نہ پایا تھا جہاں اُسے لگا ہو کہ وہ بس دکھاوا کر رہا ہے۔اُس نے تو ہمیشہ ہی اُسکے انداز میں چاہتوں کے شدّتوں کا والہانہ پن چسپا پایا تھا۔

اُسکی آنکھوں  میں ڈھکے چھُپے جذبوں سے بھی تو وہ نہ آشنا نا تھی۔

عالمگیر کے ہر انداز میں محبت وہ دیکھ سکتی تھی،جس سے وہ اُسے بہت محبت کرنے والا پا چکی تھی اب تک اُسے یقین ہو چلا تھا کے وہ اُس سے کتنی شدّت سے محبت کرتا ہے۔لیکن اگر وہ اُس سے اتنی شدّت سے محبت کرتا تھا تو وہ کیا تھا جو اُس نے مرحا کی بارات والی رات اُس کی آنکھوں سے جھلکے موتی کی صورت دیکھے تھے۔وہ بری طرح کنفیوژ ہو چکی تھی۔

لیکن اب تو ان سب کو گزرے ۲ سال ہو چکے تھے۔شاید وہ سب بھول چکا ہو۔اسنے اپنے اندر اٹھتے سوالات کو تھپکی دے کر سلا دیا۔لیکن گاہے بگاہے یہ سوالات اُسکے دل میں اُبھرتے رہتے تھے لیکن وہ ہمیشہ عالمگیر کی محبت کو اُن پر قادر پاتی تھی۔

لیکن مسئلہ پھر وہی تھا۔اگر چاچو کو پتہ لگ گیا کہ وہ ۔۔وہ اور عالمگیر۔۔۔نہیں۔۔اُسکے آگے وہ کچھ سوچنا نہیں چاہتی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دن آہستہ آہستہ شام کی طرف رواں دواں تھا۔

دوپہر کے 4 بج رہے تھے اور عشنا لان میں رکھی چیئر پر بیٹھی گیٹ کی طرف چہرہ کیے عالمگیر کا انتظار کر رہی تھی

عالمگیر صبح کا گیا اب تک نہیں لوٹا تھا۔

وہ ایک بجے پھوپھو کو لنچ کروا کر ،دوا دے کر اُنھیں آرام کرنے کی تلقین کر کے خود ظہر کی نماز ادا کر کے لان میں آ کر اُسکا انتظار کرنے لگی تھی لیکن ۴ بج گئے تھے اور وہ اب تک نہیں آیا تھا ۔

وہ  کھڑی ہو کر یوں ہی بے مقصد وہاں ٹہلنے لگی کچھ ہی دیر بعد عالمگیر اپنی کار سمیت گیٹ کے اندر داخل ہوا۔

گاڑی پُورچ میں روک کر وہ نکلا اور عشنا پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالتا گھر کے اندروی دروازے کی طرف بڑھ گیا۔

اندر جاتے اُسکے لبوں پر ایک دل فریب مسکراہٹ نے احاطہ کر رکھا تھا۔

اُسے عشنا کا یوں اُسکا انتظار کرنا بہت اچھا لگا تھا۔ لیکن اُسکا اب بھی اپنی ناراضگی ختم کرنے كا کوئی ارادہ نہیں تھا۔

وہ امی کے کمرے کی طرف بڑھ گیا تاکہ اُنکی خیریت دریافت کر سکے لیکن انکو سوتا دیکھ دبے قدموں باہر نکل کر لاؤنج عبور کرتا اپنے کمرے میں آ کر فریش ہونے کی غرض سے واشروم میں چلا گیا۔

عشنا جو اُسے آتا دیکھ کر اُسکی طرف بڑھ رہی تھی لیکن اُسکا یوں اُسے نظر انداز کر کے اندر چلے جانا اُسے برا  تو لگا لیکن اُسے پتہ تھا کہ وہ اُسکی نامکمل فقرے کی وجہ سے ناراض ہے اور عشنا اُسکی ناراضگی کو دور کرنا چاہتی تھی۔

وہ کچن میں آکر اُسکے لیے چائے بنانے لگی اور جب  چائے  بن گئی تو اُسے ٹرے میں رکھ کر اُسکے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔

اسنے دروازے پر دستک دی لیکن جواب ندارد۔اسنے دھیرے سے دروازے کا ہینڈل گھمایا تو دروازہ کھولتا چلا گیا۔

عشنا نے کمرے میں چاروں اور نظریں گھما کر دیکھا لیکن وہ کہیں نظر نہیں آیا۔ وہ ٹرے لے کر تذبذب سے کھڑی تھی جب اُسے عالمگیر واشروم سے باہر آتا نظر آیا۔

وہ چینج کر کے تولیے سے چہرہ رگڑتا کمرے میں آیا اور اُسے دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔

"تم...؟  یہاں...؟ کوئی کام تھا؟"

وہ کہتا ہوا اُس سے دو قدم کے فاصلے پر آ رکا اور ساتھ ہی تولیہ بیڈ پر اچھال دیا۔

"وہ۔۔۔وہ میں۔۔۔میں آپ کے۔۔آپ کے لیے چائے لائی تھی۔۔۔"

اسنے رک رک کر جملہ پورا کیا۔دراصل وہ اُسکی نظروں سے خائف ہو رہی تھی۔

"مجھے ابھی طلب نہیں۔۔لے جاؤ" 

کہتا وہ بیڈ کے کنارے جا بیٹھا۔  وہ اپنے سوال کے جواب میں یہ تو نہیں سننا چاہتا تھا۔ اس لیے برہمی سے اُسے چائے کے لیے منع کرتا بیڈ کے کنارے پر ٹک گیا۔

عشنا چائے ٹیبل پر رکھ کر اُسکے سامنے دو زانو آ بیٹھی اور آنسوؤں سے بھری نظر اٹھا کر اُسے دیکھا۔

"خبر دار۔۔۔۔۔خبردار جو تم روئی تو۔۔۔۔۔۔"

وہ تیز لہذے میں کہتا اُسے شانو سے تھام کر اپنے برابر بیٹھا چکا تھا 

"I ۔۔۔۔ I am ۔۔۔۔I am sorry۔۔۔

Please forgive me

میں تو۔۔۔۔میں تو بس ایسے ہی کہ رہی تھی۔۔۔مجھے پتہ ہے کہ آپ ۔۔کہ آپ۔۔۔آپ میرے۔۔۔۔"

اُسے  یہ فقرہ پورا کرنا اس وقت دنیا کا سب سے مشکل کام لگ رہا تھا۔

"میں تمہارا کیا۔ ۔؟ بولو۔۔۔ میں بھی تو جانو کے تم میرے بارے میں کیا سوچتی ہو ۔۔۔ بتاؤ مجھے میں تمہارا کیا؟"

وہ اُسے بولنے پر اکسا رہا تھا۔

ناراضگی تو اسنے اُسکے اپنے سامنے دو زانوں بیٹھتے ہی ختم کر دی تھی۔اب تو بس اُس سے باتیں کرنا چاہتا تھا۔

وہ ایسا مرد نہیں تھا جو عورت کو اپنے سامنے جھکا دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔وہ تو بس اُسکی معصوم ادا پر مر مٹا تھا۔

"آپ۔۔۔آپ جانتے ہیں سب۔۔۔ پھر بھی۔۔۔پھر بھی مجھے تنگ کرتے ہیں۔۔۔۔۔"

اسنے خفگی سے اُسے دیکھا کیونکہ وہ اُسکے چہرے کا احاطہ کرتی  مسکان دیکھ چکی تھی۔اور اُسے یہ بھی پتہ تھا کہ اُسکی ناراضگی دور کرنے میں وہ کامیاب ہو چکی ہے۔

"میں۔۔میں جاتی ہوں ۔۔۔مجھے کام ہے۔۔۔۔" 

کہ کر وہ جانے لگی لیکن عالمگیر نے اُسکی کلائی تھام کر اُسے پھر سے بیڈ پر بیٹھا دیا۔

"چپ چاپ بیٹھی رہو۔جب تک میں نہیں کہتا کمرے سے نکلنے کی ہمت بھی مت کرنا۔۔۔۔"

"آپ۔۔۔۔آپ مجھے۔۔۔آپ مجھے ڈانٹ رہے ہیں؟"

اسنے آنسو بھری آنکھوں سے اُس سے پوچھا۔

" مامو کا کنسٹرکشن بزنس کیسا چل رہا ہے"

عالمگیر نے اُسکے سوال کو نظر انداز کر کے مامو کے بارے میں پوچھا۔

"کنسٹرکشن۔۔۔۔کون سا کنسٹرکشن بزنس ؟"

ابو۔۔ابو تو ایک۔۔۔وہ تو مینس کپڑوں کی شو روم چلاتے ہیں نا۔آپکو نہیں۔۔۔ معلوم؟

اسنے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے اُس سے استفسار کیا

"وہ تو جانتا ہو میں۔۔لیکن مجھے لگا اُسکے علاوہ بھی اُنہوں کنسٹرکشن بزنس بھی شروع کر دیا ہے۔"

"ایسا.... ایسا کیوں کر لگا۔۔۔۔ آپکو؟"

"ہممم۔۔۔۔تو مطلب مامو کا خرچہ کافی بڑھ گیا ہے۔۔۔۔۔"

وہ ھنوز مسکرا کر کہ رہا تھا۔

"مطلب۔۔۔؟میں۔۔۔میں سمجھ۔۔۔میں سمجھ نہیں پا رہی۔۔۔۔۔۔"

اسنے کنفیوژ ہوتے ہوئے کہا۔

"کیونکہ تمہارے ان جملوں کی ٹوٹ فوٹ کی مرمت میں کافی سرمایہ صرف ہو جاتا ہوگا نہ اُنکا۔ ۔۔۔"

وہ شرارت سے بولا

پہلے تو وہ کنفیوژ ہو کر اُسکی بات کا مطلب سمجھنے لگی اور جب سمجھ آئی تو بولی

"آپ۔۔۔۔آپ میرا مزاق۔۔اڑا رہیں ہیں؟"

کہتے ساتھ ہی اسنے ایک مكا اُس کے بازو پر دے مارا

"اففف اللہ۔۔۔۔۔کتنی ظالم ہو تم۔۔۔کتنی زور سے مارا ہے ظالم لڑکی۔۔۔۔۔اللہ جی میرا ہاتھ۔۔۔۔"

وہ اپنے بازو کو سہلاتا جھوٹ موٹھ کی اداکاری کرتے ہوئے گویا ہوا۔

" آئی۔۔۔آئی ام سوری۔۔۔۔۔زیادہ۔۔۔زیادہ زور سے لگ گئی کیا۔۔۔"

اسنے بے چین ہو کر پوچھا اور ساتھ ہی اُسکا بازو سہلانے لگی۔

"یہاں نہیں، یہاں سہلاؤ تو درد میں کچھ افاقہ بھی ہو۔۔۔"

وہ اُسکا ہاتھ اپنے بازو سے ہٹاتا اپنے دل کے مقام پر رکھ کر بولا تو اسنے سٹپٹا کر ہاتھ کھینچ لیا اور چہرے دوسری طرف موڑ کے اپنے دوپٹے کا کونا مروڑنے لگی۔ایسا کرتے اُسکے ہونٹوں پر ایک دل فریب مسکراہٹ نے احاطہ کر رکھا تھا۔

عالمگیر کو اُسکی یہ ادا شرارت کرنے پر اکسانے لگی۔

وه اٹھا اور اسکے بازوں کو تھام کر اسے اپنے مقابل کھڑا کر کے اُسکی ٹھوڑی کو پکڑ کر چہرہ اونچا کیا 

"نہ کرو لڑکی ۔۔۔نہ کرو۔۔ورنہ میں اپنے آپ پر اختیار کھو دونگا۔۔۔تمہاری ان ہی ادائوں پر تو میں۔۔۔۔۔"

وہ اُسکے چہرے کو دیکھتے ہوئے بول رہا تھا جبکہ اُسکی نظریں اب بھی نیچے تھی۔وہ اُسکی آنکھوں میں جھلکتے جذبوں کی  تپش اپنی جھکی نظروں سے بھی محسوس کر سکتی تھی ۔ اُسکی آخری بات پر اسنے بنا کچھ کہے اُسکے سینے پر  اپنا سر رکھ دیا۔

عالمگیر اُسکی اس حرکت پر اپنی بات بھول کر اُس کے گرد باہوں کا گھیرا تنگ کر کے اُسکے سر پر اپنے لب رکھ چکا تھا۔

عشنا نے عالمگیر کے بازؤں کا لمس اپنی کمر پر محسوس کرتے ہی اُسکی شرٹ کو اُسکی بیک سے مٹھیوں میں جکڑ لیا۔

بہت دیر تک دونوں اس فسوں خیز لمہوں میں کھوئے رہے ۔

نجانے کتنے ہی لمحے یوں ہی اُنکی محبت کی نظر ہو گئے۔ جب عالمگیر جھک کر اُسکے کان میں شرگوشیانہ انداز میں بولا

"Do you love me......?"

وہ اب بھی محبت کا اظہار اس کے منہ سے سننے کہا متظر تھا۔حالانکہ اُسکے عمل سے وہ بخوبی جان گیا تھا کے جس طرح وہ اُس سے بے انتہا محبت کرتا ہے،اُسکی طرح عشنا بھی پور پور اُسکی محبت میں ڈوب چکی ہی۔لیکن وہ اِس دل کا کیا کرتا جو اظہار محبت سننے کا متمنّی تھا۔

اُسکی بات سنتے ہی وہ  اُس سے الگ ہوئی اور گھور کر اُسے دیکھا

وہ ھنوز محبت پاش نظروں سے اُسے دیکھے جا رہا تھا۔

"آپ بہت۔۔۔آپ۔۔آپ بہت زیادہ ۔۔۔۔بہت ۔۔۔۔۔"

"آج تو تم مجھے  بتا ہی دو کہ میں بہت کیا۔۔۔۔۔"

 کہتا وہ اُسکے قریب آنے لگا تو وہ دو قدم پیچھے ہٹی۔

لیکن وہ اُسکی کلائی تھام کر اُسے اپنے سامنے کر چکا تھا۔ 

وہ جانتا تھا کے وہ اُسکی اس بات کا جواب نہیں دیگی تو دوسرا سوال کر بیٹھا۔

"اچھا اب بتاؤ وہ کیا حرکت تھی؟

اُسکا اشارہ اسکی،اپنے سامنے دو زانوں بیٹھنے والے حرکت کی طرف تھا۔

"وہ ۔۔۔وہ میں۔۔۔وہ آپ ۔۔۔آپ مجھے دیکھ جو نہیں رہے تھے۔۔۔ میں۔۔۔میں ۔۔میں کیا کرتی؟"

وہ الٹا  اُس سے سوال کرنے لگی ۔

"دیکھو۔۔۔۔جب نیکسٹ ٹائم میں تم سے ناراض ہو جاؤں تو بس مجھے آ کر زور سے ہگ کر لینا ۔۔۔میں فوراً مان جاؤنگا۔۔۔"

وہ شرارت سے  ایک آنکھ دبا کر بولا

"آپ ۔۔۔آپ نا۔۔سچ میں۔۔۔۔سچ میں بہت۔۔۔۔۔"

"میں کیا بولو۔۔۔۔۔ اب جب تک تم بتا نہیں دیتی کہ میں کیا۔۔۔تب تک ایسے ہی کھڑی رہنا"

وہ اُسکی کلائی کو مضبوطی سے تھام کر بولا

"آپ۔۔آپ بہت۔۔۔۔آپ بہت ڈیش ہے"

اُس نے اٹک اٹک کر فقرہ مکمل کیا۔

اُسکی بات پر عالمگیر کا کہکہ بے ساختہ تھا۔

عشنا کے لبوں پر بھی ہنسی رینگ گئی۔جسے چھپانے کی کوشش میں وہ سر جھکائے اپنے ہونٹ کاٹنے لگی۔

"اچھا اب شرمانا چھوڑو اور کھانا کھلاو مجھے۔۔۔بہت زورو سے بھوک لگی ہے۔۔اور تم اتنی بے مروّت ہو کہ بجائے کھانا کھلانے کے ۔۔یہ۔۔۔یہ چائے اٹھا لائی ہو۔۔۔"

عالمگیر کو اُسکا یہ شرمایا،گھبرایا سا روپ اپنے  حواسوں پر سلب ہوتا محسوس ہو رہا تھا۔اگر وہ یوں ہی اُسکے سامنے کھڑی رہتی تو شاید وہ اپنے جزبوں کو اسپر آ شکار کر دیتا۔جو کہ وہ نہیں چاہتا تھا کیونکہ ابھی صحیح وقت نہیں آیا تھا۔اور وہ ہر کام صحیح وقت پر کرنے کا عادی تھا۔

"بے مروت اور میں۔۔۔۔؟"

اسنے اپنے سینے پر انگلی رکھ کر اُس سے پوچھا

" اگر میں ۔۔اگر میں بے مروت ہوتی نا تو یہ چائے بھی نہیں لاتی۔۔۔اور نا ہی آپ کے پسند کے کھانے بناتی۔۔۔اتنی محنت سے میں نے کھانا بنایا تھا ۔۔خود تو کام کا کہ کر چلے گئے اور مجھے بے مروت ہونے کا طعنہ مار رھیں ہے۔آپ کی وجہ سے میں بھی اب تک بھوکی بیٹھی ہوں۔اور آپ مجھے بے مروت کہ رھیں ہیں۔۔؟"

وہ  دونوں کمر پر ہاتھ رکھے لڑاکا عورتوں کی طرح بولی تو عالمگیر جو حیران نظروں سے اُسے دیکھ رہا تھا اُسکی بھوکے رہنے والی بات پر مسکرا دیا۔

مطلب وہ اُسکے لیے صبح سے بھوکی بیٹھی تھی۔اُسکی ان ہی ادائوں پر تو وہ مر مٹا تھا ورنہ دو سال پہلے اُس بھیانک رات کے بعد وہ اس قدر بکھرا تھا کہ اُسے لگا تھا کے اب وہ زندگی میں کبھی خوش نہیں رہ پائیگا۔تب عشنا ہی تھی جو اُسے دوبارہ زندگی کی طرف لائی تھی۔دوبارہ اُس نے اُسے ہنسنا بولنا سکھایا تھا۔ 

وہ آگے بڑھ کر اُسکی پیٹھ سہلانے لگا تو وہ کنفیوژ ہو کر اسے دیکھنے لگی جیسے پوچھ رہی ہو 

"یہ کیا کر رھیں ہے؟"

"بھئی میں چیک کر رہا تھا کہیں تمہارا تنففوس نا پھول گیا ہو۔ آخر کو کل رات سے اب تک اتنے  زیادہ جملے تم نے ایک ساتھ بولے ہیں۔وہ بھی بنا اٹکے۔"

وہ اُسے چھیڑ نے والے انداز بولا تو وہ اُسے گھورتی ہوئی کمرے سے نکل کر کچن میں آ گئی اور کھانا گرم کرنے لگی۔ 

عالمگیر بھی اُسکے پیچھے کچن میں آ گیا اور کچن کی چھوٹی سی ڈائننگ ٹیبل پر چیئر کھینچ کر بیٹھ گیا۔

عشنا کھانا گرم کر کے ٹیبل پر لگانے لگی اور پھر اُسکی پلیٹ میں چکن دو پیازہ نکال کر چپاتی کا ہوٹ پوٹ اُسکی طرف بڑھایا۔

عالمگیر نے مسکرا کر ایک چپاتی لی اور چکن کے ساتھ لپیٹتا منہ میں رکھا۔

چکن اتنا زبردست بنا تھا کہ منہ میں رکھتے ہی اُسے دل کھول کر مسکرانے پر مجبور کر گیا۔کتنا ذائقہ ہے اس لڑکی کے ہاتھ میں۔وہ دل ہی دل میں سوچنے لگا۔ ساتھ ہی اسنے دوسرا نوالہ بنا کر اُسکے منہ کی طرف بڑھایا تو وہ جو اُسکے مقابل بیٹھی ایک ہاتھ ٹیبل پر رکے اُسپر ٹھوڑی ٹکائے اُسے کھاتا دیکھ رہی تھی تھی نوالہ اپنے سامنے دیکھ کر جھجھکتے ہوئے منہ کھول کر نوالہ کھانے لگی۔

عشنا جلدی سے اپنی پلیٹ میں سالن نکالنے لگی کیونکہ عالمگیر تیسرا نوالہ بھی اُسے ہی کھلا چکا تھا۔  

عالمگیر اُسے کھاتا دیکھ خود بھی چکن کے ساتھ پوری طرح انصاف کرنے لگا۔لیکن اسنے آخری نوالہ پھر بھی عشنا کی طرف بڑھایا تو عشنا نے شرارت سے مسکراتے ہوۓ نوالہ منہ میں لیتے ہوئے اُسکی شہادت کی انگلی کا کونا ذرا سا دانتوں سے دبا دیا۔

"آہ۔۔۔۔ "

 وہ زور سے ہاتھ کھینچ کر جھٹکنے لگا تو عشنا پریشان ہو کر اُسکا ہاتھ تھام کر اُسکی شہادت کی وہی انگلی جسے اسنے کاٹا تھا سہلانے لگی

" آئی ام ۔۔۔آئی ایم سوری۔۔۔۔زیادہ  زور سے لگ گئی؟۔۔۔میں تو۔۔۔میں تو  بس مذاق میں ۔۔۔۔" 

وہ پریشان ہو کر بولی

" اللہ۔۔۔دیکھو کتنا درد ہو رہا ہے۔۔۔اب میں یہ شاہی ٹکڑا کیسے کھاؤں گا؟ پتہ ہے مجھے کتنا پسند ہے۔۔۔میں کب سے اُسے دیکھ رہا تھا کے ابھی کھاؤں گا۔۔۔لیکن شاید میری قسمت میں اسے کھانا لکھا ہے نہیں ہے۔۔۔ "

وہ اور ایکٹنگ کے سارے ریکاڈ توڑتا ہوا اُس سے بولا ۔اسنے اتنی زور سے بھی نہیں کاٹا تھا۔اور کاٹ بھی لیتی تو کونسا اُسے اتنا زیادہ درد ہوتا جتنا کہ وہ شور مچا رہا تھا۔دراصل وہ شاہی ٹکڑا عشنا کے ہاتھوں سے کھانا چاہتا تھا۔

"میں۔۔۔میں کھیلا دیتی ہو۔ ۔۔" 

عشنا نے شاہی ٹکڑا کا ایک پیس اٹھا کر اُسے کھلایا جسے وہ مزے سے کھانے لگا ۔

" یہ بھی تم نے بنایا ہے؟"

عالمگیر نے پوچھا

عشنا جو کے دوسرا پیس اُسکی طرف بڑھا رہی تھی ۔۔جلدی سے اپنا ہاتھ کمر کے پیچھے کر کے اثبات میں  سر ہلا دیا۔

اُسکی اس ادا پر وہ دل کھول کر مسکرایا  اور اُسکا ہاتھ کمر کے پیچھے سے نکال کر اُس میں موجود شاہی ٹکڑا کھانے لگا۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عالمگیر عشنا کے ہاتھوں سے  شاہی ٹکڑے کا آخری بائٹ کھانے کے بعد ہاتھ ٹشو سے پونچھتا کھڑا ہوا تو اُسکا سیل بج اٹھا۔وہ اُسے آن کرتے کان سے لگاتا کال سننے لگا۔اُسکے منیجر کی کال تھی۔

"اوہ۔۔۔آئی سی۔۔۔اوکے۔۔۔تم میٹنگ کی تیاری کرو۔۔۔۔اوکے اوکے۔۔۔۔۔۔اوکے بائے۔۔۔۔"

وہ آخری کلمات کہتا کال کٹ کرکے مڑا تو عشنا کو آنکھوں میں سوال لیے کھڑا پایا۔

"امی کہا ہیں؟"

وہ اُسکی سوالیہ نظروں سے آنکھیں چرا کر بولا

"وہ سو رھیں تھیں۔شاید اب جاگ گئیں ہوں۔ لیکن آپ کو کیا ہوا؟"

وہ اُسکے پریشان چہرے کو دیکھتے ہوئے بولی۔

"چلو،میں دیکھ لیتا ہوں۔تم چائے بنا دو اچھی سی۔۔۔۔"

وہ زبردستی کی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر اُسکا گال تھپکتا راحت بیگم کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔

عالمگیر کو کل ایک ضروری میٹنگ  کے لیے رات کو ہی اسلام آباد کے لیے نکلنا تھا۔میٹنگ جو کہ 3 دن بعد تھی اچانک کل ہونا طے پا گئی تھی۔ وہ جو یہ دو دن یہاں امی کے پاس رہنے کے ارادے سے آیا تھا۔اچانک اس میٹنگ کا سن کر پریشان ہو گیا تھا۔ 

اگر صرف امی کی بات ہوتی تو وہ اُنھیں سمجھا دیتا یہ پھر اُسے اُنھیں کبھی سمجھانا ہی نہیں پڑا تھا۔اُنہوں نے کبھی اُسے روکا نہیں تھا حالانکہ وہ اُنکی اکلوتی اولاد تھا۔لیکن وہ یہ بھی جانتی تھیں کہ اُس نے اس بزنس کو کتنی محنت مسشقت کے بعد اس مقام پر پہنچا تھا۔

 اس دفعہ مسئلہ تو اُسے عشنا کا تھا۔ ابھی تو عشنا اُس پر کھلنے لگی تھی ۔ نجانے اُسکے جانے کا سن کر وہ کیسا ریاکٹ کریگی۔

وہ یہی سوچ کر پریشان ہو گیا تھا۔

"ارے بیٹا،آؤ آؤ۔۔۔۔کب آئے؟ کام ہو گیا تمہارا؟ اور کھانا کھایا تم نے؟"

اُنہوں ایک ساتھ ڈھیر سارے سوال کر ڈالے۔

وہ چلتا ہوا اُنکے بیڈ پر اُنکے سامنے آ کر بیٹھ گیا اور سر انکی گود میں رکھ دیا۔

"جی امی،  ابھی ابھی آیا ہوں اور کھانا بھی کھا لیا،کام  بھی ہی گیا ۔۔۔لیکن امی، امی مجھے۔۔۔۔"

وہ اُنکے سارے سوالوں کا جواب دیتا،آخری بات پر رک گیا

"ہا بیٹا بولو۔۔۔کیا کہنا چاہتے ہو؟"

" امی میں کہ رہا تھا کہ۔۔مجھے رات ہی نکلنا ہے اسلام آباد کے لیے۔"

لیکن بیٹا رات میں کیوں؟ صبح چلے جانا۔تمہیں پتہ تو ہے مجھے تمہارا رات میں یوں اتنا لمبا سفر کرنا کتنا پریشان کرتا ہے؟"

" I know Ammi.....

لیکن کل صبح ایک ضروری میٹنگ ہے اور مجھے اُسکی تیاری بھی کرنی ہے جس کے لیے مجھے صبح سے پہلے وہاں پہونچنا ہوگا"

وہ اُنھیں سمجھانے والے انداز میں بولا۔

"ارے عشنا بیٹا، وہاں کیوں کھڑی ہو؟ اندر آ جاؤ"

عالمگیر عشنا کا نام سن کر ایک جھٹکے سے اٹھا۔ وہ اُسے آرام سے اکیلے میں بتانا چاہتا تھا لیکن اب وہ جان گئی تھی تو ۔۔۔

عشنا جو کال کے بعد اُسکا پریشان چہرہ دیکھ چکی تھی اُسکی وجہ بھی وہ کمرے میں داخلی دروازے پر سن چکی تھی اور وہ کچھ دیر میں چلا جائیگا یہ سن کر اندر ہی اندر بے چین ہو چکی تھی۔اُسکی آنکھیں بس چھلکنے کے لیے تیار تھی۔بڑی مشکل سے اسنے اپنے آنسوؤں کو پلکوں کی باڑ سے نکلنے سے روکا اور باری باری چائے سرو کی۔

اس سارے عمل کے درمیان عالمگیر کی نگاہیں عشنا کے چہرے کا ہی طواف کرتی رہی۔وہ جانتا تھا کے وہ اپنے آنسوؤں کو روکنے کے کوشش میں ہلکان ہو رہی ہے۔

"بیٹا تم بھی تو بیٹھو،ہمارے ساتھ چائے پیو۔۔۔"رحمت بیگم نے عشنا کو خاموش کھڑے دیکھ کر کہا۔

"نہیں پھوپھو ابھی دل نہیں کر رہا۔ میں بعد میں پی لونگی"

وہ کہ کر کمرے سے جانے لگی تو رحمت بیگم نے اُسے پھر پکارنا چاہا تو عالمگیر نے اُنھیں منع کر دیا ۔

عشنا باہر نکلتے وقت عالمگیر کی آخری بات سن چکی تھی جو پھوپھو کو اُسے روکنے سے منع کر رہا تھا۔اسنے نظریں اٹھا کر اُسے دیکھا اور کمرے سے نکل گئی۔عالمگیر پشت چونکہ دروازے کی سمت تھی اس لیے عشنا کا مڑنا اور اور آنکھوں کی شکایت   کو وہ دیکھ  نا پایا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عشنا کچن میں آکر فرش پر بیٹھتی چلی گئی اور گھٹنوں میں سر دیئے زارو قطار رونے لگی۔

اُسے پتہ تھا کہ وہ ذیادہ دن کے لیے نہیں آیا لیکن نجانے کیوں اُسکے دل نے ایک موہد سی خواہش کر بیٹھا کے جب تک وہ یہاں تھی تب تک عالمگیر یہی رہتا۔اُسکے آس پاس 

 لیکن وہ یہ بھی جانتی تھی کے وہ بہت کم ہی لاہور آتا تھا ۔وہ بھی جب سے پھوپھو نے لاہور والے گھر میں رہنے کی ضد کی تھے۔وجہ اُسکا اسلام آباد میں پھیلا ہوا بزنس تھا۔وہ پھوپھو سے بھی تو مہینے میں دو یا تین بار ہی ملنے آ پاتا تھا وہ بھی صرف ایک یہ دو دن کے لیے۔ 

اُسکا اسیکڈول ہی نہیں اتنا ٹائیٹ ہوتا تھا کے وہ چاہ کر بھی وقت نہیں نکال پایا تھا۔

جب اُسکے لیے اپنی امی کے لیے بھی وقت نکلنا مشکل تھا تو وہ تو پھر بھی۔۔۔وہ تو ابھی۔۔ 


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عالمگیر عشنا کے آنکھوں میں شکایت کو واضح طور پر دیکھ چکا تھا۔ اُسکی آنسوؤں سے بھری آنکھیں اُسکے دل کو بے چین کر چکی تھی لیکن اس وقت وہ امی کے پاس رکنا چاہتا تھا۔ویسے بھی کل سے ابھی تک وہ اُنھیں ٹائم نہیں سے سکا تھا۔ اور اب جبکہ اُسے تھوڑی دیر میں چلے ہی جانا تھا تو وہ کچھ وقت امی کے ساتھ گزارنا چاہتا تھا ۔اُسکا ارادہ رات کو ڈنر کے بعد دیر تک امی سے باتیں کرنے کہ تھا لیکن اُسکی روانگی کی وجہ سے سب کچھ الٹا پلٹ ہو گیا تھا۔

وہ دیر تک بیٹھا امی سے باتیں کرتا رہا۔پھر جب امی مغرب کی نماز ادا کرنے کے لیے اٹھیں تو وہ بھی مسجد کی طرف روانہ ہو گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عشنا نے مشکل سے خود کو سنبھالا اور ڈنر بنانے لگی۔گھر میں ہر کام کے لیے ملازم موجود تھا لیکن اسنے آتے ہی کُک کو چھٹی دے دی تھی۔وہ چاہتی تھی جب تک یہاں ہے،اپنے ہاتھوں سے کھانا بنا کر پھوپھو کو کھلایا کرے۔

ڈنر ریڈی کرنے کے بعد ملازمہ کو چند ہدایت دے کر وہ کمرے میں آ کر نماز ادا کرنے لگی۔پھوپھو کوئی کتاب پڑھ رہی تھیں۔

"پھوپھو،کھانا لے آؤ آپ کے لیے؟" 

اسنے مصلح فولڈ کرتے ہوئی اُن سے پوچھا۔

"نہیں بیٹا،عالمگیر کو آ جانے دو، سب ساتھ مل کر کھا لینگے۔ ویسی بھی ٹھوڑی دیر بعد تو اسنے چلے ہی جانا ہے۔"

اُنہوں گہری سانس لے کر کہا۔

 وہ جی کہتی کمرے سے نکل گئی

 اُسکا رخ کچن کی طرف تھا کہ دیکھ سکے ملازمہ نے کچن صاف کیا کے نہیں۔ اسنے کچن میں آ کر دیکھا تو سب کام ہو چکا تھا۔وہ دوبارہ کمرے کی سمت بڑھنے لگی تو عالمگیر کے کمرے کا دروازہ کھولا دیکھ کر اُسکے کمرے میں آ گئی۔

کمرہ خالی پڑا تھا۔شاید وہ ابھی تک لوٹا نہیں تھا۔ وہ چلتی ہوتی بیڈ کے پاس آ رکی اور بیڈ پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ابھی تھوڑی دیر پہلے وہ دونوں یہیں بیٹھ کر باتیں کر رہے تھے۔ پھر وہ اُس جگہ کھڑی ہو گئی جہاں عالمگیر اُسے بازؤں میں سمیٹے کھڑا تھا۔

اُسکی آنکھیں بھیگنے لگی اور آنکھیں دھندلا گئی ۔دھندلی آنکھوں سے اسنے بیڈ پر پڑے تولیہ کو دیکھا جو  اسنے عالمگیر  کے ہاتھ میں دیکھا تھا جب وہ واشروم سے باہر آیا تھا اور اس سے باتیں کرتے اسنے اسے بیڈ پر اچھال دیا تھا۔

وہ چلتی ہوئی بیڈ کے پاس آئی اور اُس تولیہ کو اٹھا لیا اور اُسے چہرے کے سامنے کیا۔تولیہ اب تک اُس کی خوشبو سے معطر تھا۔وہ تولیہ میں منہ چھپائے روتے روتے فرش پر بیٹھتی چلی گئی۔وہ یوں ہی بیٹھے روئے جا رہی جب اسنے اُسے کندھوں سے تھام کر اپنے مقابل کھڑا کیا اور آہستہ سے تولیہ اُسکے چہرے سے ہٹایا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عالمگیر ابھی ابھی گھر آیا تھا ۔اُسکا ارادہ عشنا سے بات کرنے کا تھا وہ اُسے  ڈھونڈھتا ہوا کچن میں آیا لیکن اُسے وہاں نا پا کر امی کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔امی کی طبیعت کی وجہ سے عشنا اُنکے کمرے میں ہی رکی ہوئی تھی۔ورنہ اُسکے لیے عالمگیر نے ایک الگ کمرا تیار کروا رکھا تھا۔

وہ کمرے میں آیا تو امی کو نماز ادا کرتا دیکھ لاؤنج میں آ کر سوچنے لگا کے وہ کہاں ہوگی۔لان میں۔۔۔لیکن نہیں۔۔۔اگر لان میں ہوتی تو اندر آتے وقت وہ اُسے دیکھ چکا ہوتا۔لان میں تو کوئی نہیں تھا۔

ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کے اُسکی نظر اپنے کمرے کے کھلے دروازے کی طرف پڑی وہ فوراً کمرے میں آیا اور عشنا کو تولیہ میں منہ دیئے فرش پر بیٹھا پایا ۔

عالمگیر اُسکے قریب آیا اور اُسے شانو سے تھام کر اپنے مقابل کھڑا کیا۔تولیے سے چہرہ ڈھکا ہونے کے باوجود وہ جانتا تھا کہ وہ رو رہی ہے۔اسنے آہستہ سے تولیہ ہٹایا تو دم بخود رہ گیا۔

اُسکی سرخ آنکھیں اُسکے بے تحاشا رونے کی گواہی دے رہے تھے ۔ و نا جانے کب سے یوں ہی رو رہی تھی

عالمگیر نے تڑپ کر اُسے اپنے سینے میں بھینچ لیا۔

عشنا نے اُسکا لمس پاتے ہی اپنے  ہاتھوں سے اُسکے بازؤں کو تھام کر اور زوروں شوروں سے رونا شروع کر دیا۔

عالمگیر کو اُسکا اس طرح رونا بہت کچھ باور کرا گیا تھا۔

عالمگیر کو عشنا کے آنسو اپنے دل پر گرتے محسوس ہوۓ۔ اسنے جھک کر اُسکے کان میں شارگوشیانہ انداز میں کہا

"میں امی اور مامو سے بات کرتا ہو۔۔۔میں اب تمہیں خود سے اور دور نہیں رکھ سکتا۔میں جانے سے پہلے اُن سے بات کر لیتا ہُوں ۔۔۔ "

عشنا نے بھیگی پلکیں اٹھا کر اُسے دیکھا۔ عالمگیر اب بھی اُسے اپنے حصار میں لیے کھڑا تھا۔

"لیکن۔۔۔لیکن آپ نے۔۔۔آپ نے کہا تھا۔۔۔کہ۔۔۔کہ میری اسٹڈیز ۔۔۔آپ میری اسٹڈیز کے بعد۔۔۔۔"

"ہاں کہا تھا لیکن تب میں یہ نہیں جانتا تھا کے تم مجھے اس قدر دیوانہ بنا دوگی۔۔۔۔۔۔"

"نہیں۔۔۔نہیں۔۔۔آپ نے۔۔۔لیکن۔۔۔لیکن آپ نے کہا تھا۔۔۔آپ نے کہا تھا کہ ۔۔۔میری اسٹڈیز کے بعد۔۔۔آپ۔۔۔۔"

"ہاں بھئی کہا تو تھا۔۔۔لیکن اب لگتا ہے غلط کیا۔۔۔تمہیں کافی پہلے یہاں آ جانا چاہیے تھا۔۔۔اگر اُس وقت میں تمہاری بات نہ مانتا تو ۔۔۔۔۔"

"آپ۔۔۔۔ یہ کیا کہ رہے ہیں۔۔۔۔۔آپ جانتے ہیں ابھی مجھے۔۔۔ابھی مجھے ماسٹرز۔۔۔ماسٹرز بھی کرنا ہے۔۔۔۔اور ابھی۔۔۔ابھی تو میرا۔۔لاسٹ یئر بھی کمپلیٹ نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔"

"بہت کر لی تم نے اسٹڈیز۔۔۔۔اب اور نہیں۔۔۔جو کرنا ہے اس گھر میں آ کر کر لینا۔۔۔"

"لیکن ۔۔۔۔لیکن بعد میں کیسے۔۔۔۔سب کہتے ۔۔۔بعد میں بہت مشکل ہوتا ہے ۔۔۔۔"

"ارے یار ۔۔۔میں نے کونسی تمہاری کتابیں پھاڑ دینی ہے کہ مشکل ہوگا۔۔۔"

وہ چہرے پر شرارت سجائے بولا ۔ ہاتھ اسنے اب بھی  اُسکی کمر سے نا ہٹائے تھے۔

"دیکھو۔۔۔۔میں تو یہاں پر ہوتا نہیں ہوں۔۔۔ایک دو دن کے لیے آیا کرونگا۔۔پھر اسلام آباد چلا جاؤنگا۔۔۔تو تمہاری اسٹڈیز میں  میری وجہ سے کوئی پروبلم نہیں ہوگی لیکن جب میں یہاں آؤنگا تو تم ہمیشہ مجھے یہ ملوگی۔ ۔۔

ابھی وہ بول ہی رہا تھا کے اُسکا سیل بجنے لگا۔وہ ویسے ہی کھڑے اپنے پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالتا کال ریسیو کر کے بات کرنے لگا۔

"ہیلو۔۔۔ہا۔۔۔۔اوکے۔۔۔تم نے دیکھ لیا ہے۔۔۔اوکے بھیجو۔۔۔ہا۔۔نہیں۔۔بس تھوڑی دیر میں نکل رہا ہو۔۔انشاء اللہ 12 بجے تک پہنچ جاؤں گا۔"

عشنا جو اُسے کال سنتے دیکھ اُس کی شرٹ کے بٹن سے کھیل رہی تھی عالمگیر کی آخری بات پر  اُسے پھر رونا آ گیا۔

عالمگیر جو ابھی بات کر ہی رہا تھا اپنی شرٹ پر نمی محسوس کر کے اسنے آخری کلمات کہتے کال منعقد کر دی اور سیل جیب میں رکھتا عشنا کہ چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں بھر کر اپنے چہرے کے سامنے کیا تو اُسکے آنسوؤں سے بھیگے چہرے کو دیکھ کر بے چین ہو گیا۔

"عشنا ۔۔۔۔عشنا۔۔جان۔۔۔تم اس طرح رو کر مجھے کمزور بنا رہی ہو۔۔۔تمہیں پتہ ہے کتنی مشکل سے خود کو سمجھایا ہے میں نے؟۔۔۔جان تمہیں میری کمزوری نہیں میری طاقت بننا ہے۔۔۔۔پلیز اس طرح تو نہ روؤ۔۔۔پلیز جان۔۔۔۔"

وہ بہت دل گرفتگی سے اُسے دیکھتے ہوئے کہ رہا تھا۔ 

"میں۔۔۔میں آپ کی۔۔۔۔۔میں آپ کی کمزوری نہیں۔۔۔میں آپکی طاقت بننا چاھتی ہوں۔۔۔۔"

عشنا نے بھیگی آنکھوں کے ساتھ مسکرا کر کہا۔

عالمگیر نے اپنے دل میں ڈھیروں سکون اترتا محسوس کیا۔

اسنے آہستہ سے جھک کر عقیدت کے ساتھ اپنے لب اُسکے ماتھے پر رخ کر اُسے معتبر کر دیا۔

عشنا نے آہستہ سے اپنی آنکھیں بند کر لی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عشنا  ملازمہ کے ساتھ ٹیبل پر کھانا لگا رہی تھی اور عالمگیر اور پھوپھو ٹیبل پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔

اُس نے آخر کار خود کو عالمگیر کو جاتا دیکھنے کے لیے تیار کر ہی لیا تھا۔

وہ پھوپھو کو کھانا سرو کرنے لگی۔

"عشنا میرے لیے گرین ٹی بنا دو۔میں کھانا نہیں کھاونگا۔

"لیکن بیٹا تھوڑا سا تو کھا لو،ابھی اتنی دور جانا ہے تم نے اور اگر رات کو بھوک لگی تو؟ وہاں کون بنا کر دیگا تمہیں اتنی رات کو؟

اُنہوں  نے فکرمندانہ انداز میں کہا۔

"امی میں کوئی بچہ تھوڑی نہ ہوں۔ راستے سے کچھ لیتا ہوا جاؤنگا۔آپ فکر ہی نا کریں۔"

اسنے امی کی فکر بھرے انداز کو دیکھ کر مسکرا کر کہا ، گویا اُنکی فکر کم کرنی چاہی۔

"عالمگیر تم دن بہ دن لاپرواہ ہوتے جا رہے ہو اپنی صحت کو لے کر۔کتنے کمزور ہو گئے ہو تم۔ وہاں ٹھیک سے کھانا نہیں کھاتے کیا؟"

"کیا روایتی ماؤں والا ڈائیلاگ مارا ہے آپ نے امی۔۔۔واہ۔۔۔۔میں تو فین ہو گیا آپ کا۔۔۔"

"بدماش۔۔۔۔مذاق اڑاتا ہے ماں کا۔۔۔؟"

اُنہوں اُسکے کان کھینچتے ہوئے کہا تو وہ دل کھول کر مسکرایا۔

عشنا بھی اُنھیں دیکھ کر مسکرائی اور کچن میں آ کر عالمگیر کے لیے گرین ٹی بنانے لگی۔

وہ گرین ٹی لیے کر آئی تو پھوپھو اور عالمگیر باتیں کر رہے تھے۔پھوپھو کھانا کھا رہی تھی اور  وہ اُنھیں اسلام آباد کی باتیں بتا رہا تھا۔

عالمگیر نے گرین ٹی لی اور گھونٹ گھونٹ بھرنےلگا۔

 عشنا دوبارہ سے کچن میں گئی اور تھوڑی دیر بعد اپنے اور پھوپھو کے مشترکہ کمرے کی طرف بڑھ گئی۔

عالمگیر پھوپھو سے باتیں کر رہا تھا لیکن وہ عشنا کو بھی گاہے بگاہے دیکھے جا رہا تھا۔جو کبھی کچن تو کبھی کمرے میں جا رہی تھی۔عشنا واپس آئی اور پھر کچن میں چلی گئی۔

دراصل عالمگیر چاہتا تھا جیتنے دیر اُسکے جانے  میں بچے ہے اتنی دیر عشنا اُسکی نظروں کے سامنے رہے۔لیکن وہ تھی کے ٹک کے بیٹھ ہی نہیں رہی تھی۔

رحمت بیگم کھانا کھا چکی تو وہ اور عالمگیر اپنے  اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔

عالمگیر بس کچھ ہی دیر میں نکلنے کا ارادہ رکھتا تھا اس لیے کمرے میں آ کر شاور لے کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا اپنے بال سیٹ کرنے لگا۔

ہمیشہ کی طرح اسنے بال کو جیل لگا کر ایک طرف کیا۔خود پر پرفیوم چھڑکا اور اپنا لیپ ٹاپ بیگ کندھے پر ڈال کر گھڑی پہنتا امی کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔

وہ کمرے میں آیا تو عشنا امی کو دوا کھیلا رہی تھی۔اُنہوں دوا کھا کر پانی پیا اور عالمگیر کو آتا دیکھ اُسکی طرف بڑھی ۔

عشنا عالمگیر کے کمرے میں آتے ہی کمرے سے باہر نکل گئی تھی۔

وہ بھی چلتا ہوا اُنکے سامنے آ رکا اور اُنھیں گلے لگایا اور اُن سے الگ ہو کر اپنا سر اُنکے سامنے جھکا دیا ۔

"اللہ میرے بچّے کو بہت سی کامیابی دے۔ ہمیشہ خوش رہو۔آباد رہو۔کامیابی تمہارے قدم چومے۔"

اُنہوں اُسکا ماتھا چومتے ڈھیر ساری دعائیں دے دی۔

"اچھا امی ،تو میں چلوں۔۔؟"

اُس نے مسکرا کر پوچھا۔

"چلو بیٹا میں باہر تک تمہارے ساتھ چلتی ہو ں"

"امی۔۔باہر بہت ٹھنڈھ ہے اور آپ کے گھٹنوں میں آج کل اتنا درد ہے۔۔آپ کہاں ٹھنڈک میں باہر تک جائینگی۔۔آپ آرام کریں۔۔میں چلا جاؤنگا۔"

اسنے اُنکی طبیعت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کہا۔

"ٹھیک ہے بیٹا جاؤ۔۔اللہ تمہیں اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ وہاں پہنچ کر مجھے کال یہ میسیج ضرور کر دینا"

اُنہوں پھر اُسے دعا دی اور کال یہ میسیج کرنے کی ہدایت بھی دی۔وہ اُنھیں باہوں کے گھیرے میں لیے بیڈ تک آیا تو رحمت بیگم تکیہ ٹھیک کرتے لیٹ گئی اور آنکھیں موند لی۔وہ اُن کا کمبل ٹھیک کرکے کمرے سے باہر آ گیا۔

عالمگیر کمرے سے باہر آیا تو عشنا کو اپنا منتظر پایا۔وہ چلتا ہوا اُسکے قریب آیا تو اُسکے ہاتھ ایک شاپر دیکھ کر سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھا۔

" آپ نے کھانا نہیں کھایا تو ۔۔۔۔تو میں نے کھانا پیک کر دیا ہے۔آپ وہاں پہنچ کر کھا لینا۔باہر سے کھانا لینے یہ کھانے کی ضرورت نہیں۔"

عشنا نے اُسکی آنکھوں میں چپھے سوال کو پڑھ کر اُسے بتایا تھا۔

"میں کیا اسکول جا رہا ہوں جو تم مجھے ٹفن پیک کر کے دے رہی ہو؟"

وہ اپنے پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈال کر شرارت سے بولا

"آپ ۔۔۔آپ جو بھی۔۔۔جو بھی سمجھیں۔آپ نے باہر کا کچھ نہیں کھانا۔بس۔۔۔۔۔"

"عشنا یار میں نہیں کھا رہا باہر کا، بٹ میں یہ ٹفن ویفین بھی نہیں لے کر جا رہا۔ میں نے تو ویسے ہی کہ دیا تھا امی سے کہ کچھ لے لونگا راستے سے تا کہ وہ پریشان نہ ہو۔۔۔"

"میں کچھ نہیں جانتی۔ آپ جائینگے تو یہ ٹفن لے کر جائینگے ورنہ کوئی نہیں جانا آپ نے کہیں۔۔۔۔"

"ہائے۔۔۔۔۔ "

عالمگیر نے دل پر ہاتھ رکھ ایک گہری سانس لی

"ایک دم بیویوں والا انداز ہے تمہارا تو۔پھر سے کہنا کیا کہا۔۔۔۔؟"

اُس نے ایک ادا سے سوال کیا۔

عشنا اُسکی بات پر ذرا سا جھینپی۔

" میں نے کہا آپ جائینگے تو یہ ٹفن لے کر کے جائینگے ورنہ نہیں۔۔۔"

عشنا نے ناک چڑھا کر کہا ۔

"اچھا بابا لے جاتا ہو۔۔۔یہ ناک تو نہ پھیلاؤ۔۔۔"

اسنے عشنا کی ناک کھینچ کر کہا 

"آہ۔۔۔کیا کر رھیں ہیں"

اسنے اپنی ناک سہلای۔

 وہ اُسے دیکھ کر مسکرایا اور ایک ہاتھ میں شاپر اور دوسرے ہاتھ میں عشنا کا ہاتھ پکڑ کر پورچ کی طرف بڑھ گیا۔

عالمگیر نے گاڑی کا دروازہ کھول کر اپنا لیپ ٹاپ بیگ اور ٹفن کا شاپر احتیاط سے بیک سیٹ پر رکھا اور دروازہ بند کرتا عشنا کی طرف مڑا۔

عشنا نظر جھکائے اپنے آنسوؤں کو روکنے کی سعی کر رہی تھی

"آہ۔۔۔۔ تو بلا آخر جدائی کی گھڑی آ ہی گئی۔"

عشنا نے دل میں سوچا۔

عالمگیر اپنے اور اُس  کے درمیان دو قدم کے فاصلے کو طے کرتا اُسکے مقابل آ کھڑا ہوا۔

"عشنا۔۔۔۔۔"

عالمگیر نے ہولے سے اُسے پُکارا تو عشنا نے نظریں اٹھا کر اُسے دیکھا۔عالمگیر کی آنکھیں بھی ضبط کی شدّت سے سرخ پڑ رہی تھیں۔

عشنا کے آنکھوں سے آنسو ٹوٹ ٹوٹ کر اُسکے رخسار بھیگونے لگے ۔

عالمگیر نے اُسکے رخسار پر بہتے آنسوؤں کو اپنی ہتھیلی کی پشت سے صاف کیے تو اسنے بے ساختہ ہی اُسکے سینے سے لپیٹ کر رونا شروع کر دیا۔

کتنا مشکل تھا عالمگیر لیے اپنی جان سے پیاری محبوبہ کو اس طرح بلکتے دیکھنا۔وہ تو اُسے پریشان تک نہیں دیکھ سکتا تھا حتٰی کہ آنسو بہاتا دیکھنا۔

اسنے ایک ہاتھ سے اُسکی پیٹھ سہلاتے دوسرے ہاتھ سے اُسکے سر کو سہلاتے اُسے ریلیکس کرنے کی کوشش کی۔

تھوڑی دیر بعد جب وہ رو چکی تو اس سے الگ ہو کر اُسکا ایک ہاتھ تھام کر اُسکی ہتھیلی سامنے کی اور اس پر ایک پیکٹ رکھ دیا۔

عالمگیر نے ناسمجھی سے اُسے دیکھا۔وہ گفٹ ریپ میں لپٹا ایک چھوٹا سا ڈبا تھا۔

عالمگیر کو گرین ٹی دینے کے بعد پہلے وہ کچن میں گئی تاکہ اُسکے لیے ٹفن میں کھانا پیک کر سکے۔ کھانا پیک کرنے کے بعد وہ کمرے میں یہ پیکٹ لانے گئی تھی جو  وہ گھر سے لائی تھی۔اسنے کہاں سوچا تھا کہ یہ تحفہ وہ عالمگیر کو خود اپنے ہاتھوں سے دیگی۔

پچھلے ہفتے ہی تو ابو نے اُسے بتایا تھا کہ وہ لاہور آیا ہوا ہے۔اب کہاں وہ اتنی جلدی دوبارہ چکر لگائیگا۔

عشنا نے تو سوچا تھا جانے سے پہلے چپکے سے اُسکے کمرے رکھ دیگی تا کہ جب بھی وہ لاہور آئے تو اُسے یہ مل جائے۔

عالمگیر پیکٹ لیے کھڑا اُسے سوالیہ نظروں سے دیکھیں جا رہا تھا۔

"تحفہ۔۔۔تحفہ ہے آپ کے لیے۔ ۔میری طرف سے۔۔۔۔"

عشنا نے دھیمی آواز میں کہا 

"کیا ہے اس میں۔۔۔؟"

عالمگیر نے سوال کیا۔

"آپ۔۔۔آپ خود ہی دیکھ لیں نہ۔۔۔"

عشنا نے کہا ، تو عالمگیر گفٹ ریپر کھولنے لگا۔اندر ایک بلیو کالر کی نفیس سے ٹائی رکھی تھی۔اسنے ہلکے سے ٹائی پیکٹ سے نکلی اور عشنا کے ہاتھ میں رکھ کر خود اُسکے مقابل کھڑا ہو گیا۔

"ظالم لڑکی پہلے کیوں نہیں دی؟  چلو اب پہناؤ اسے۔۔۔"

اسنے سوال کرنے کے ساتھ ساتھ اُسے حکم بھی دیا۔

"ابھی۔۔۔؟ میرا مطلب ہے ابھی تو آپ اسلام آباد جا رھیں ہیں نہ۔۔

آپ اسے کل میٹنگ میں پہنا۔۔"

عشنا نے کہا

"لیکن تم تو نہیں ہوگی نہ وہاں۔۔۔پھر مجھے یہ ٹائی کون پہنائے گا؟"

"اچھا ۔۔۔؟ اب تک کیا میں آپ کو ٹائی پہناتے آئی ہوں؟ یہ اس سے پہلے آپ ٹائی نہیں پہنتے تھے؟۔"

"ظالم لڑکی اُن سب ٹائی میں وہ بات کہاں جو تمہاری اس ٹائی میں ہے۔اور پہلے کیو نہیں دی ؟ پہلے دیتی تو فرصت سے میں یہ ٹائی تم سے پہن ہی لیتا۔تم جتنا بھی نہ نہ کرتی۔اور اچھا ایک بات تو بتاؤ۔ یہ تحفہ کب لیا؟ کل سے تو میں نے تمہیں کہیں باہر جاتے نہیں دیکھا؟

یہ تمہیں  پہلے سے پتہ تھا کیا میں آنے والا ہوں ۔۔۔؟

عالمگیر نے پوچھا۔

"نہیں۔۔۔مجھے پتہ تو نہیں تھا کہ آپ آئینگے اور میں آپکو اپنے ہاتھوں سے اسے دے سکونگی۔ میں نے تو سوچا تھا گھر جانے سے پہلے اسے آپ کے کمرے میں رکھ دونگی۔جب آپ آئینگے تو دیکھ لینگے۔"

" ٹھیک ہے۔۔۔میں اسے سنبھل کے رکھونگا۔۔۔جب ہم اگلی  بار  ملینگے نا تب تم مجھے یہ باندھنا۔

"میں نے رکھنے کے لیے تو نہیں دیا نہ۔۔۔۔میں نے سوچا تھا آپ اسے کل میٹنگ میں پہنے گے۔" 

عشنا نے اُسکے کالر کے بٹن کو چھیڑتے ہوئے نظریں جھکائے جھکائے کہا۔

" ٹھیک ہے کل پہن لونگا ۔۔لیکن نیکسٹ ٹائم جب ہم ملینگے تو تم مجھے یہ اپنے ہاتھوں سے پھناؤگی۔۔۔got it؟"

وہ آرڈر دینے والے انداز میں بولا۔

"اپنی جان کی خواہش کو میں ادھورا رکھ سکتا ہوں بھلا؟ لیکن جان تم نے بھی پھر میری خواہش پوری کرنی ہے"

عالمگیر نے اُسے دیکھتے ہوئے کہا۔

"ٹھیک ہے۔۔"

عشنا نے لب کاٹتے ہوئے ہاں کہ دیا۔

چلو ایک اچھی سے سمائل دو تا کہ میں جا سکوں۔

عشنا نے نظریں اٹھا کر اپنی آنسوؤں سے لبریز آنکھوں سے اُسے دیکھا۔

عالمگیر نے اُسکے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر اُن پر ہلکا سا دباؤ ڈالا۔جیسے اُسے رونے سے بعض رکھنے کی کوشش کی ہو۔

عالمگیر نے اُسے گلے لگا کر اُسکا ماتھا چُوما  اور جھٹکے سے مڑ کر گاڑی میں بیٹھا اور گاڑی کو گیٹ سے باہر نکال لے گیا۔

اگر وہ اور تھوڑی دیر عشنا کو ایسے روتا دیکھتا تو کبھی اُسے یوں چھوڑ کر نہیں جا پاتا۔

اُسکا جانا ضروری نہیں ہوتا تو وہ جاتا ہی نہیں۔چھوٹا موٹا نقصان تو  وہ سہ لیتا لیکن اگر وہ کل کی میٹنگ اٹینڈ نہ کرتا تو اسکو کروڑوں  نقصان ہونے کا خطرہ تھا اور وہ یہ خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عالمگیر کے جاتے ہی عشنا بھاگتی ہوئی اندر آئی اور بجائے اپنے اور پھوپھو کے مشترکہ کمرے میں جانے کہ وہ عالمگیر کے کمرے میں آ کر اُس کے بیڈ پر گر رونے لگی۔وہ یہاں نہیں تھا لیکن اُسکا احساس تو باقی تھا۔ 

یہ بیڈ جہاں وہ سویا تھا۔وہ ڈریسنگ ٹیبل،جہاں وہ کھڑا ہو کر تیار ہوا تھا۔وہ پرفیوم کی بوتل جو اسنے خود پر چھڑکنے کے لیے ہاتھوں میں تھامی تھی۔اس کمرے کی ہر چیز میں ہی تو اُسکا احساس باقی تھا۔

وہ وہی لیٹے لیٹے لاشعوری طور پر اُسکی کال کا انتظار کرنے لگی۔

عالمگیر نے جانے سے پہلے اُس سے کال کرنے کا تو نہیں کہا تھا لیکن پتہ نہیں کیوں اُسے لگتا تھا کے وہ اسلام آباد پہنچ کر اُسے کال ضرور کریگا۔

وہ ابھی ابھی تو نکلا تھا۔اسلام آباد پہنچنے میں اُسے کم سے کم بھی 3 سے 4 گھنٹے لگنے والے تھے۔لیکن وہ ابھی سے ہی موبائل ہاتھ میں لیے اُسکی کال کا انتظار کرنے لگی۔ وہ یوں ہی موبائل پراُنگلیاں پھیر رہی تھی اور نجانے کیوں ریڈیو آن کر لیا۔ وہاں کوئی شو چل رہا تھا۔ اور ریڈیو پر ریڈیو جوکی کی آواز گونج رہی تھی۔

"السلام و علیکم دوستوں۔۔۔۔

یہ ہے FM 89.4۔ 

اور میں ہوں آپکا دوست ساحل علی۔

 کیسے ہیں آپ سب؟

اُمید ہے آپ سب خوش و خرم ہونگے۔ اور اگر کوئی خوش نہیں تو کال کیجئے اپنے ہوسٹ اینڈ دوست ساحل علی کو۔۔اور شیئر کیجئے اپنے دل کی بات ۔

اور خوش ہیں تو اپنی خوشی میں ہمیں بھی کیجئے شامل۔۔

آپ کے دوست کو انتظار رہیگا اپنے پیارے پیارے لسنرز کی کال کا۔

تو اٹھائے فون اور لگائیے کال میرے نمبر پر جو ہ ہے۔۔۔۔"

ریڈیو جوکی اپنی بات ختم کر کے اپنا نمبر نوٹ کرانے لگا ۔

عشنا ویسے ہی لیٹی رہی۔

اب ریڈیو پر گانا بجنے لگا۔

اسنے بے دلی سے ریڈیو بند کرنا چاہا تو اُسے ریڈیو جوکی کا بتایا نمبر یاد آیا۔اُس نے بنا کچھ سوچے وہ نمر ڈائل کر دیا۔

کچھ دیر رنگ جاتی رہی لیکن کسی نے کال ریسیو نہیں کی تو وہ کال بند کرنے لگی تب ہی کال آن ہو گئی۔

"السلام و علیکم۔۔جی کون ۔۔۔۔"

ریڈیو جوکی کی آواز فون سے اُبھری تو اسنے آہستہ سے سلام کا جواب دیا

"وعلیکم السلام۔۔۔"

"تو بتائیے محترمہ۔۔۔کیا شیئر کرنا چاہتی ہیں آپ۔۔۔کوئی خوشی کی بات یہ کوئی ایسی بات جس نے آپ کو کیا ہے اُداس۔۔۔"

"مجھے کچھ شیئر نہیں کرنا ہے۔مجھے بس کسی کو ایک پیغام دینا ہے۔"

"اوووو ۔۔۔تو یہ دل کا معاملہ ہے۔۔۔۔"

ریڈیو جوکی نے اپنے انداز میں مسکراکر او کو ذرا لمبا کھینچا۔

"تو محترمہ آپ اپنا نام اور آپ جسے پیغام دینا چاہتی ہیں انکا نام بتا دیجئے تاکہ ہمارے اتنے ساری لسٹرنز میں سے آپ کا پیغام آپ جسے دینا چاھتی ہے اُنھیں مل جائے۔

" نہیں۔۔۔وہ جان جائینگے۔۔۔"

"اچھا تو ہماری پیاری سے لسٹنر اپنا نام ڈسکلوز نہیں  کرنا چاہتی۔۔۔چلیں خیر ہے۔۔۔۔

تو بتائیے کیا کہنا چاہتی ہیں آپ۔؟

ریڈیو جوکی نے سوال کیا۔

"I will wait for you......."

"اوہو ۔۔۔ کیا بات ہے۔۔۔تو جناب مسٹر ایکس وائے زی۔۔۔ اگر آپ ہمارا شو سن رھیں ہیں تو ہماری لسٹرنس کے پیغام کا جواب ضرور دیجئے گا۔ تو محترمہ آپ مسٹر ایکس وائی زی کو کوئی سونگ ڈیڈیکیٹ کرنا چاہیں گی؟"

ریڈیو جوکی نے اپنی بات کے اختتام میں اُس سے پھر سوال کیا

"جی۔۔۔"

اُس نے سونگ کا نام بتا کر کال منعقد کر دی اور سیل لے کر پھر سے عالمگیر کی کال کا ویٹ کرنے لگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عالمگیر گاڑی چلاتے وقت مسلسل عشنا کو ہی سوچے جا رہا تھا۔ اُسے اُسکا رونا یاد آ رہا تھا۔ پتہ نہیں وہ چپ بھی ہوئی ہوگی یہ نہیں۔ کہیں اب بھی رو نہ رہی ہو۔۔وہ مسلسل  پریشانی کے عالم میں گاڑی کو ڈرائیو کر رہا تھا۔

 ابھی تک وہ لاہور کی حدود سے باہر نہیں نکلا تھا۔ عشنا کو سوچتے ہوئے اسنے یوں ہی ریڈیو آن کر دیا تو اس پر کوئی شو چل رہا تھا۔اُسکا مقصد صرف عشنا کی طرف سے دھیان ہٹانا تھا ۔وہ اسلام آباد پہنچ کر عشنا کو کال کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔شاید وہ ابھی اُسے کال کر لیتا تو واپس گھر چلا جاتا۔وہ شاید اسلام آباد جا ہی نہیں پاتا۔اُس لیے اپنے دل پر زبر کرتے اسنے ریڈیو کی طرف دھیان لگا دیا۔

ریڈیو جوکی کی آواز گاڑی میں گونجنے لگی۔

"السلام و علیکم دوستوں۔۔۔۔

یہ ہے FM 89.4۔ 

اور میں ہوں آپکا دوست ساحل علی۔

 کیسے ہیں آپ سب؟

اُمید ہے آپ سب خوش و خرم ہونگے۔ اور اگر کوئی خوش نہیں تو کال کیجئے اپنے ہوسٹ اینڈ دوست ساحل علی کو۔۔اور شیئر کیجئے اپنے دل کی بات۔

اور آپ خوش ہو تو اپنی خوشی میں ہمیں بھی شامل کیجئے۔۔

آپ کے دوست کو انتظار رہیگا اپنے پیارے پیارے لسنرز کی کال کا۔

تو اٹھائے فون اور لگائیے کال میرے نمبر پر جو ہی۔۔۔۔"

ریڈیو جوکی نے اپنا نمبر نوٹ کرا کر سونگ پلے کر دیا۔سونگ کے اختتام پر ایک بار پھر ریڈیو جوکی کی آواز گونجی ۔عالمگیر نے بے دلی سے ریڈیو بند کرنا چاہا لیکن اگلی آواز پر ٹھٹھک کر رک گیا۔

وہ عشنا کی آواز تھی۔اُسکی آواز وہ لاکھوں میں پہچان سکتا تھا۔ اور اُسکی آواز میں گھلی نامی بھی اُسے باور کرا گئی تھی کے وہ اب تک روتی رہی ہے۔ عالمگیر نے اپنا نچلا لب دانتوں میں دبا کر ایک گہری سانس خارج کی اور ہاتھ بڑھا کر ریڈیو کا والیوم بڑھا دیا۔ وہ اسٹیئرنگ پر  ہاتھوں کو جمائے عشنا اور ریڈیو جوکی کے درمیان ہو رہی گفتگو کو سننے لگا۔

"السلام و علیکم۔۔جی کون ۔۔۔۔"

ریڈیو جوکی نے کہا۔

"وعلیکم السلام۔۔۔"

عشنا کی آواز آئی۔

"تو بتائیے محترمہ۔۔۔کیا شیئر کرنا چاہتی ہیں آپ۔۔۔کوئی خوشی کی بات یہ کوئی ایسی بات جس نے آپ کو کیا ہے اُداس ۔۔۔"

"مجھے کچھ شیئر نہیں کرنا ہے۔مجھے بس کسی ایک پیغام دینا ہے۔"

"اوووو ۔۔۔تو یہ دل کا معاملہ ہے۔۔۔۔"

ریڈیو جوکی نے اپنے انداز میں مسکراکر او کو ذرا لمبا کھینچا اور بولا۔

"تو محترمہ آپ اپنا نام اور آپ جسے پیغام دینا چاہتی ہیں انکا نام بتا دیجئے تاکہ ہمارے اتنے سارے لسٹرنز میں سے آپ کا پیغام آپ جسے دینا چاھتی ہے اُنھیں مل جائے۔

" نہیں۔۔۔وہ جان جائینگے۔۔۔"

عشنا کی آواز آئی۔

عالمگیر کی دلچسپی بڑھی۔

"اچھا تو ہماری پیاری سے لسٹنر اپنا نام ڈسکلوز نہیں  کرنا چاہتی۔۔۔چلیں خیر ہے۔۔۔۔

تو بتائیے کیا کہنا چاہتی ہیں آپ۔؟

ریڈیو جوکی نے سوال کیا۔

"I will wait for you......."

"اوہو ۔۔۔ کیا بات ہے۔۔۔تو جناب مسٹر ایکس وائے زی۔۔۔ اگر آپ ہمارا شو سن رھیں ہیں تو ہماری لیسنر کے پیغام کا جواب ضرور دیجئے گا۔ تو محترمہ آپ  مسٹر ایکس وائی زی کو کوئی سونگ ڈیڈیکیٹ کرنا چاہیں گی ؟"

ریڈیو جوکی نے اپنی بات کے اختتام میں پھر سوال کیا

"جی۔۔۔"

عشنا نے سونگ کا نام بتایا اور اب ریڈیو پر اُسکا بتایا ہوا سونگ چلنے لگا۔


از لا توں اپنے دل دے وچ

بس تیری یاد وسائی ہوئی اے

میرے وچ میرا کچھ وی نئ

جند تیرے ای نام لائی ہوئی اے

تینوں تکیا بنا نئ دل رجدا

محلے وچوں کوچ نا کری

تینوں تکیا بنا نئ دل رجدا

محلے وچوں کوچ نا کری

تینوں تکیا بنا نئ دل رجدا

محلے وچوں کوچ نا کری

تیرا جانا سینے تیر وانگوں وجدا

محلے وچوں کوچ نا کری

تینوں تکیا بنا نئ رجدا

محلے وچوں کوچ نا کری

تیرے نینا وچ رب سچا وسدا

تیرا پیار سانوں ایہو پیا دسدا

محلے وچوں کوچ نا کری

تیرے بنا نئ پیار ساڈا سجدا

محلے وچوں کوچ نا کری

وے ماہیا۔۔۔

محلے وچوں کوچ نا کری

میرے سامنے آ کے بیٹھا رہ

میرے سامنے آ کے بیٹھا رہ

توں زلف سجا کے بیٹھا رہ

آج نین ملا کے بیٹھا رہ

آج نین ملا کے بیٹھا رہ

مینوں کول بٹھا کے بیٹھا رہ

تینوں تکیا

ہو تینوں…


عالمگیر کے چہرے پر ایک مسکراہٹ نے احاطہ کر لیا۔

وہ مسلسل مسکرائے جا رہا تھا۔اُسے عشنا کے پیغام کا مطلب بھی سمجھ آ گیا تھا۔

15 دونوں بعد اُسکے کالج میں انّول دے کا فنکشن تھا اور عشنا چاہتی تھی کے وہ بھی وہاں اُسکے  ساتھ ہو۔

"پاگل لڑکی۔۔۔۔جب میں سامنے تھا تب نہیں بتایا۔۔۔اب سارے شہر کو بتا دیا۔۔۔"

وہ زیرِ لب بڑبڑایا۔ مسکراہٹ اب بھی اُسکے چہرے سے جُدا نہیں ہوئی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مصطفیٰ صاحب لاہور کے ایک جانے مانے رؤساء میں سے ایک تھے۔ وہ نہایت سادہ دل انسان تھے۔ بیشبہا دولت ہونے کے باوجود اُنھیں کسی بھی طرح کا گھمنڈ نا تھا۔جو کہ اکثر رؤساء کی شان ہوتا ہے۔

وہ کی کو مانے والے، پانچ وقت نمازِ انسان تھے۔

اُنکی بیگم صالحہ بیگم بھی اُن ہی طرح نہایت سادہ دل اور پانچ وقت نمازِ خاتون تھی۔

اُنکی 3 اولاد تھی۔ 

رحمت بیگم جو کے مصطفیٰ صاحب اور صلحہ بیگم کی سب سے بڑی اور اکلوتی بیٹی تھی اس لیے گھر بھر کی لایڈلی تھی۔مصطفیٰ صاحب اور صلحہ بیگم کے ساتھ ساتھ دونوں بھائی بھی اُن پر  اپنی جان چھڑکتے تھے۔ 

پھر تھے ابراہیم صاحب جو کہ مصطفیٰ صاحب کی ہی طرح نہایت سادہ انسان تھے۔

اور سب سے چھوٹے تھے ہارون صاحب جو غصے کے تیز ہونے کے ساتھ ساتھ ضدی بھی تھے۔


رحمت بیگم کی شادی مصطفیٰ صاحب کے دوست  سمشر فاروق کے بیٹے  سجّاد فاروق سے ہوئی تھی۔

شمشیر فاروق بھی اپنے زمانے کے مشہور رؤسا میں سے ایک تھے۔لیکن سجّاد صاحب نے آب و اجداد کی دولت پر زندگی گزارنے کے بجائے اپنا بزنس کرنا بہتر جانا جسکے لیے وہ اپنے آبائی گھر جو کے لاہور میں تھا کو چھوڑ کر اسلام آباد منتقل ہو گئے تھے۔لیکن وقتاً فوقتاً وہ لاہور بھی آیا کرتے تھے۔ 

رحمت بیگم شادی کے بعد اپنے سسرال اسلام آباد شفٹ ہو گئی۔ سجّاد صاحب کا  آبائی گھر چونکہ لاہور میں ہی تھا تو اکثر انکا لاہور آنا جانا لگا رہتا تھا ۔ انکا ایک ہی بیٹا تھا عالمگیر سجّاد فاروق۔ جو گھر بھر کا لاڈلا تھا۔ چونکہ سجّاد صاحب بھی اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھے اس لیے شمشیر صاحب اور روہیلہ بیگم (سجّاد صاحب کی امی) اُس سے بہت پیار کرتے تھے۔ 16 سال کی عمر تک عالمگیر نے بہت سی محبتیں سمیٹی لیکن اُن خوشیوں کی عمر بہت کم ثابت ہوئی۔سجّاد صاحب کی اچانک کار ایکسڈنٹ میں موت نے اُسکے سارے گھر کو ہلا کر رکھ دیا۔ وہ کسی میٹنگ سے لوٹ رہے تھے جب اُنکی کار کی ٹککر ایک ٹرک کے ساتھ ہو گئی اور وہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے۔ اُسکے گھر پر تو مانو قیامت ہی ٹوٹ پڑی تھی۔ رحمت بیگم ایک دم خاموش خاموش رہنے لگی۔ سجّاد صاحب کے والد بھی اپنے اکلوتے بیٹے کا صدمہ برداشت نہیں کر سکے اور 2 مہینے بعد ہی خالقِ حقیقی سے جا ملے۔  یہ غم اتنا بڑا تھا کہ روہیلہ بیگم کو ایسا ہارٹ اٹیک آیا کے وہ اپنی جان کی بازی ہار گئیں۔ہر طرف صف ماتم بچھی تھی۔ 

وہ لوگ ابھی سجّاد صاحب کے صدمے سے ہی نہ اُبھرے تھے   کے اچانک شمشیر صاحب اور روہیلہ بیگم کی موت نے ہر کسی کی آنکھوں کو اشکبار کر دیا ۔

ہارون صاحب اور ابراہیم صاحب اُن کے غم میں ساتھ ساتھ رہے۔ اُن دونوں نے ہی اس غم کی گھڑی میں راحت بیگم اور عالمگیر کو سنبھالا۔

عالمگیر اُس وقت   12th کے ایگزام کی تیاری کر رہا تھا۔اُسے ہمیشہ سے ہی MBA کرنا تھا۔لیکن ان سب کے بعد اُسے اپنا خواب پورا کرنا مشکل لگ رہا تھا۔کیونکہ ابّو کے انتقال کے بعد اُسکا بزنس بھی کافی لوث میں جا رہا تھا۔ وہ کبھی کبھی بابا کے ساتھ آفس آ جایا کرتا تھا لیکن اس طرح سرا بزنس سنبھالنے میں اُسے بہت دشواری ہو رہی تھی۔ لیکن چونکہ وہ بزنس ہی پڑھ رہا تھا تو اسنے جلد ہی بزنس کو ٹیک اور کر کے اُسے لوث میکنگ سے پروفیٹ مکینگ بنانے میں کامیاب ہو چکا تھا۔ساتھ ہی وہ اپنی اسٹڈیز بھی جاری رکھے ہوئے تھا۔

عشنا سجّاد صاحب کے انتقال پر صرف دو دن کے لیے آئی تھی کیونکہ اُسکے ایگزامس  ہو رہے تھے اور شمشیر صاحب اور روہیلہ بیگم کے انتقال پر بھی صرف ایک دن کے لیے آئی تھی۔ کیونکہ اُسکی کلاسیس شروع ہو گئی تھی۔ اور چونکہ وہ لوگ اسلام آباد رہتے 

تو اُسکی اُن سے بس سلام دعا تک ہی بات ہو پاتی تھی۔


 ابراہیم صاحب جنکی شادی صالحہ بیگم نے اپنی بھانجی کوثر سے کروائی تھی۔کوثر بیگم ایک بہت اچھی بیوی اور بہو ثابت ہوئی تھی۔

ابراہیم صاحب اور کوثر بیگم ہم مجاز تھے جِس کی وجہ سے اُنکی زندگی بہت اچھی گزر رہی تھی۔ اُنکی دو بیٹیاں، ملیحہ اور عشنا تھی۔عشنا ملیحہ سے 6 سال چھوٹی تھی۔ ملیحہ کی شادی غفران سے ہوئی تھی جو کے دبئی میں رہتے تھے۔ شادی کے بعد وہ بھی دبئی چلی گئی تھی۔ کبھی  کبھار ہی اُسکا پاکستان آنا ہوتا تھا۔ عشنا چونکہ ملیحہ سے کافی چھوٹی تھی تو اُن دونوں میں زیادہ فرینکنس نہیں تھی۔

چونکہ ملیحہ ابراہیم صاحب اور کوثر بیگم کی پہلی اولاد تھی تو ابراہیم صاحب اور کوثر بیگم کو اُس سے بہت محبت تھی۔ عشنا سے بھی وہ لوگ اتنی ہی محبت کرتے تھے لیکن کہیں نہ کہیں ملیحہ کو ہر چیز میں زیادہ ترجیح ملتی آئی تھی۔

یہی وجہ تھی کہ عشنا نے شروع سے ہی ہوسٹل میں رہ کر پڑھنے کو ترجیح دی تھی۔وہ شروع سے ہی بورڈنگ اسکول میں رہ کر پڑھائی کرتی آ رہی تھی۔

لیکن ملیحہ کی شادی کے بعد ابراہیم صاحب اور کوثر بیگم نے جب اُسے اپنے ساتھ رکھنا چاہا تو اسنے اُنھیں منع کر کے ہوسٹل میں ہی رہنا پسند کیا۔

ابراہیم صاحب کو اُس  وقت شدّت سے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔لیکن اب عشنا اُن سے اتنی بد دل ہو گئی تھی کے اُسے ماننا آسان نہ تھا۔جب ملیحہ کی شادی ہوئی تب وہ 10th کلاس میں تھی۔ ابراہیم صاحب چاہتے تھے کے وہ اپنے آگے کی پڑھائ لاہور آ کر کرے۔ لیکن اُس کا ارادہ اسلام آباد کے کسی بڑے کالج سے اپنی پڑھائی مکمل کرنے کا تھا۔

لیکن جب اسنے لاہور آنے سے منع کر دیا تو ابراہیم صاحب نے بھی صاف کہ دیا کہ اب وہ کسی ہوسٹل میں نہیں رہیگی۔اُسے رحمت بیگم کے پاس رہنا ہوگا۔ عشنا کو بھی اُنکی بات مانتے ہیں بنی۔

ہارون صاحب کی شادی اُنکی کلاس فیلو  شاہین بیگم سے ہوئی تھی۔ہارون صاحب غصے کے تھوڑے تیز تھے۔اُنھیں غصّہ بہت آتا تھا۔ اُن کا شمار اپنے حلقہ احباب میں دلکش وجیہہ اور خوبصورت مردوں میں کیا جاتا تھا۔اُنکی اُسی خوبصورتی پر شاہین بیگم مر مٹی تھی۔اور اپنی فیملی کی بغاوت کے باوجود ہارون صاحب سے کورٹ میریج کر کے اُنکے گھرآ گئیں تھی۔لیکن تھوڑے ہی دنوں بعد انکو اندازہ ہو گیا تھا کے وہ زیادہ دن اس ماحول میں نہیں رہ سکتی اس لیے اُنہوں ہارون صاحب کو منا کر کراچی شفٹ ہونے کا فیصلہ کر لیا تھا۔

ہارون صاحب کے اس عمل سے مصطفیٰ صاحب اور صلحہ بیگم بہت دل برداشتہ ہوئے لیکن اُنہوں نے اُنھیں جانے سے روکا نہیں اور اُنکے حصے کی پراپرٹی انکو سونپ دی۔جس سے انھونے کراچی میں  اپنا بزنس سٹارٹ کر دیا۔

اُنکی ایک ہی بیٹی تھی مرحہ ہارون جو کراچی کے ایک مشہور کالج سے    تھی۔ کر رہی BA

اُسے پڑھائی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔لیکن ماما بابا کے اسرار پر وہ BA کی ڈگری لینے پر رضامند ہو گئی تھی۔

اُسے پڑھائی کے علاوہ دیگر سرگرمیوں میں زیادہ  دلچسپی تھی۔جیسے کون سے کپڑے فیشن میں ہے؟ کونسی نئی مووی ریلیز ہو رہی ہے؟ شاپنگ کے لیے دبئی جانا ہے یہ سنگاپور؟

وہ ایک خودسر اور مغرور لڑکی کے طور پر کالج بھر مشہور تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رحمت بیگم کی اُجڑی ہوئی حالت دیکھ دیکھ کر مصطفیٰ صاحب اندر ہی اندر گھلنے لگے تھے۔اور نتیجہ اُنھیں کینسر جیسے بیماری نے اپنے لپیٹ میں لے لیا۔ابراہیم صاحب نے انکا بہت علاج کروایا لیکن بے سُود۔وہ اُنھیں لے کر لندن تک گئے لیکن شاید قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ علاج کے دوران ہی وہ اپنی سانس ہار گئے ۔

ابراہیم صاحب کا بہت سا سرمایہ اُنکے علاج میں لگ گیا ۔ اور اب اُنکے حالات ویسے نہیں رہے تھی ۔ انھونے بچے ہوئے روپیوں سے ایک چھوٹا سا مینس کپڑوں کا شوروم کھول لیا۔زندگی اچھی گزرنے لیکن پہلے جیسی بات نہ رہی۔

ہارون صاحبِ نے جب مصطفیٰ صاحب کے علاج کے لیے پیسے دینے چاہئے تو ابراہیم صاحب نے اُنھیں سختی سے منع کر دیا تھا۔وہ مصطفیٰ صاحب کا علاج خود کروانا چاہتے تھے۔


۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔۔۔


3 سال پہلے


"امی....کیا ہو گیا ہے آپ کو۔۔۔۔میں۔۔۔میں مرحہ سے شادی نہیں کر سکتا۔"

عالمگیر جو ابھی ابھی آفس سے آیا تھا راحت بیگم کو اتنی رات تک جاگتا دیکھ کر اُنکے پاس آیا۔عموماً 10 بجے تک وہ سو جایا کرتی تھیں اور آج تو 11 بج رہے تھے۔

وہ اکثر رات کو لیٹ ہی آتا تھا اس لیے کُک اُس کے آنے کا انتظار کر کے اُسے کھانا کھلانے کے بعد ہی اپنے کواٹر میں جاتا تھا۔

لیکن آج اُسے کُک کہیں نظر نہیں آیا بلکہ راحت بیگم کو اپنا انتظار کرتا دیکھ اُسے اندازہ ہو گیا تھا کے ضرور کچھ خاص بات ہے۔

 راحت بیگم نے اُسکے سلام کا جواب دے کر اُسے چینج کرکے آنے کا کہا اور خود کھانا گرم کرنے کچن میں آ گئیں۔ عشنا آج کل لاہور اپنے گھر گئی ہوئی تھی۔اُسکے کالج میں  ایک ہفتے کی چھٹی تھی تو ابراہیم صاحب نے اُسے لاہور آنے کا کہا جسے اسنے صفائی سے منع کر دیا یہ کہ کر کے اُسے اسٹڈی کرنی ہے۔لیکن جب ابراہیم صاحب خود اُسے لینے اسلام آباد آ گئے تو وہ اُنھیں منع نہیں کر سکی اور اُنکے ساتھ چلی گئی تھی۔

عالمگیر پر سوچ نگاہوں سے اُنھیں دیکھتا اپنے کمرے میں گیا اور چینج کر کے کچن میں آیا تو راحت بیگم ٹیبل پر کھانا لگا رہی تھی۔

اسنے کھانا کھاتے کھاتے اُنھیں دیکھا اور پوچھا

" کیا بات ہے؟"

"بیٹا آج ابراہیم کا فون آیا تھا اور کچھ دن پہلے ہارون کا بھی فون آیا تھا۔"

"امی۔۔۔اس میں اتنا پریشان ہونے والی کیا بات ہے؟ مامو لوگ تو اکثر آپ کو کال کرتے رہتے ہیں نہ۔۔۔۔؟"

"ہاں بیٹا، لیکن اس بار بات کچھ اور ہے۔۔۔ ہارون اور ابراہیم دونوں نے  مجھے کال کی تھی اور اُنہوں نے کہا کہ۔۔۔"

"امی۔۔۔۔۔مامو لوگوں نے ایسا کیا کہ دیا جو آپ اس قدر پریشان ہو رھیں ہیں؟"

عالمگیر نے  کھانے سے ہاتھ روک کر کہا۔

"بیٹا ۔۔۔وہ۔۔۔وہ۔۔۔ہارون چاہتا ہے کے تم مرحہ سے جب کی ابراہیم چاہتا ہے کے تم عشنا سے شادی کر لو۔۔۔۔۔"

عالمگیر کو اپنے آس پاس دھماکے ہوتے ہوئے محسوس ہوئے۔

"امی....کیا ہو گیا ہے آپ کو۔۔۔۔میں۔۔۔میں مرحہ سے شادی نہیں کر سکتا۔"

"تو ٹھیک ہے پھر عشنا سے کر لو۔۔۔میں ابراہیم کو کال کر کے بولا لیتی ہوں۔"

"امی۔۔۔۔۔"

عالمگیر نے حیران ہو کر کہا

"امی ۔۔۔آپ کو پتہ ہے عشنا کتنی چھوٹی ہے ابھی۔۔۔اور آپ۔۔آپ کیسے ایسا سوچ سکتی ہیں۔۔وہ مجھے سے کم سے کم 7 سال چھوٹی ہے۔"

"ہاں تو کیا ہوا۔۔۔یہ ایج ڈفرینس کوئی بڑی بات نہیں ہے۔۔۔میں بھی تمہارے ابّو سے 9 سال چھوٹی تھی۔ ایج سے کچھ فرق نہیں پڑتا بیٹا۔۔۔"

"لیکن امی آپ یہ بھی تو دیکھیں کے وہ ابھی صرف 16 سال کی ہے۔۔۔اُسکی شادی۔۔۔آپ لوگ ایسا سوچ بھی کیسے سکتے ہیں۔۔۔"

عالمگیر ڈائننگ ٹیبل سے اٹھ کر لاؤنج میں آ گیا تھا۔ راحت بیگم بھی اُسکے پیچھے آئیں۔

"اگر ایج کا کی وجہ سے تم منع کر رہے ہو تو مرحہ میں کیا برائی ہے بیٹا۔۔۔تم مرحہ کیلئے ہاں بول دو۔۔ "

راحت بیگم نے اُسے قائل کرنا چاہا۔

"امی آپ دونوں مامو کو منع کر دیں۔۔میں عشنا یہ مرحہ دونوں میں سے کسی سے شادی نہیں کر سکتا۔"

عالمگیر کا انداز حتمی تھا۔

" بیٹا میں کیسے اپنے بھائیوں کا دل توڑ دوں؟ تم مرحہ یہ عشنا میں سے ایک کے لیے ہاں بول دو تاکہ میں بات کر سکوں۔۔۔بیٹا میں اب تمہاری شادی کر دینا چاہتی ہُوں ۔۔پتہ نہیں اب کتنی زندگی بچی ہے۔۔۔بیٹا پلیز ہاں بول دو۔۔میں مرنے سے پہلے تمہارے سر پر سہرے کے پھول کھلے دیکھنا چاھتی ھوں۔"

"امی۔۔۔امی آپ یہ کیسی باتیں کر رہیں ہیں۔۔۔آپ جانتی ہیں نہ کے اب آپ کے علاوہ میرے پاس اور کوئی نہیں ہے پھر بھی آپ ۔۔۔آپ ایسی بات کیسے کر سکتی ہے۔۔۔"

عالمگیر تڑپ کے اُنکے پاس آیا اور اُنھیں لے کر صوفے پر بیٹھ گیا۔

"امی۔۔۔میں آپ سے ایک بات کرنا چاہتا ہوں۔۔"

"ہاں بیٹا بولو۔۔۔"

عالمگیر صوفے سے اٹھا اور اُنکے پیرو کے پاس بیٹھ کر اپنا سر انکی گود میں رکھ دیا۔

"امی میں۔۔۔میں سنبل سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔"

"بیٹا یہ سنبل کون ہے؟"

عالمگیر کی بات سن کر راحت بیگم پریشان ہو گئی تھی۔ اب وہ اپنے بھائیوں کو کیا جواب دینگی یہی سوچ کر انکا دل ڈوبنے لگا۔شوہر اور ساس سسر کے بعد بھائیوں کا ہی سہارا تھا ۔وہ اُنھیں ناراض نہیں کر سکتی تھی۔عالمگیر کے منہ سے کسی اور لڑکی کا نام سن کر پریشان تو ہوئیں لیکن بھائیوں کی خوشی کے لیے وہ اپنے اکلوتے بیٹے کی خوشیوں کا قتل نہیں کر سکتی تھیں۔ اس لیے رسان سے پوچھا۔

"امی وہ میری کلاس فیلو تھی۔اب اپنے ابّو کے ساتھ اُنکے بزنس کو دیکھتی ہے۔ہم نے MBA  ایک ساتھ کیا ہے۔"

"بیٹا ۔۔۔تم نے کبھی بتایا نہیں اُسکے بارے میں ۔۔۔ "

راحت بیگم نے سکے بالوں میں اُنگلیاں چلاتے ہوئے پوچھا۔

"امی مجھے خود ہی نہیں پتہ تھا ۔۔۔۔وہ تو اکثر مجھ سے کہتی رہی کے وہ مجھے چاہنے لگی ہے لیکن میرے پاس ان فوذولیات میں پڑنے کا وقت کہاں تھا ۔اور ویسے بھی ساری یونیورسٹی میں ہی میں ایک اکّھڑ مجاز اور اکڑو کے نام سے مشہور تھا۔مجھے لگا تھا یہ اُسکا وقتی اُبال ہے۔۔کچھ دنوں میں وہ مجھ سے بد دل ہو کر اپنی راہیں الگ کر لےگی۔لیکن ایسا نہیں ہوا امی۔۔۔وہ اب بھی مجھ سے اتنی ہی محبت کرتی ہے۔۔۔۔"

"اور تم؟ کیا تم بھی اُس سے محبت کرتے ہو؟" 

راحت بیگم نے اُسکے دل کی بات جاننی چاہی۔

"میں۔۔۔امی میں ۔۔میں بھی اُسے چاہتا ہو۔۔۔"

"اچھا ۔۔۔تو تم  یونیورسٹی میں دو سال تک انکاری کیوں رہے؟"

"پتہ نہیں امی۔۔۔ لیکن کچھ دنوں پہلے۔۔۔"

وہ ہچکچا کر رکا۔

"کچھ دنوں پہلے کیا۔۔۔؟"

راحت بیگم نے تجسّس سے پوچھا۔

"کچھ دنوں پہلے ہی مجھے احساس ہوا کے میں بھی اُس سے پیار کرتا ہوں۔"

عالمگیر نے نظریں جھکا کر کہا۔

"ٹھیک ہے، تم اُسکے گھر کا بتاؤ میں بات کرتی ہوں اُسکے گھر والوں سے"

"سچ میں امی؟ آپ اُسکے گھر جائینگی؟"

"ہاں بیٹا، تمہاری خوشی میں ہی میں ہی میری خوشی ہے ۔"

"ٹھیک ہے میں کل ہی اُس سے بات کر کے آپ کو بتا دونگا"

عالمگیر نے کہا اور اٹھ کر کمرے میں چلا گیا۔

راحت بیگم نے اُسے جاتے دیکھا۔

اُنہوں نے اُسکی اور سنبل کی شادی کے لیے ہاں کہ دی تھی لیکن انہیں عالمگیر کے چہرے پر کوئی خوشی کیوں نظر نہیں آئی ؟ شاید میرا وہم ہو۔ یہی سوچتے 

ہوئے وہ  اپنے کمرے میں آکر سونے کے لیے لیٹ گئیں۔


عالمگیر اپنے کمرے میں آ کر یہاں وہاں ٹہلنے لگا اور کچھ دنوں پہلے کی اُسکی اور سنبل کی باتیں اُسکے ذہین میں چلنے لگی۔

کچھ دنوں پہلے وہ ایک ریستوران میں میٹنگ کے لیے گیا تھا۔

 سنبل بھی شاید کسی میٹنگ میں آئی تھی۔ وہ جب پارکنگ میں آیا تو سنبل بھی اُسکے پیچھے آ گئی۔ شاید سنبل نے عالمگیر کو اندر دیکھ لیا تھا۔وہ گاڑی میں بیٹھ ہی رہا تھا جب اُسکی آواز پر مڑ کر اُسے دیکھا۔

"السلام و علیکم"

"وعلیکم السلام سنبل ۔۔۔تم یہاں؟"

"میں یہاں ایک میٹنگ کے لیے آئی تھی۔اور غالباً تم بھی کسی میٹنگ کے لیے آئے تھے۔میں نے دیکھا تھا تمہیں کچھ لوگوں کے ساتھ۔"

"ہاں میں ایک میٹنگ کے لیے ہی آیا تھا۔"

اُس نے کہا۔

"چلو پھر ڈنر کرتے ہیں ساتھ"

سنبل نے عالمگیر کا بازو پکڑ کر اُسے ریستوران کے اندر لے جانا چاہا۔

"نہیں مجھے کہیں پہنچنا ہے۔پھر کبھی سہی"

عالمگیر نے سہولیت سے اپنا بازو اُسکے ہاتھوں سے نکال کر کہا۔

"کہیں پہنچنا ہے یہ میرے ساتھ ڈنر نہیں کرنا چاہتے؟"

سنبل نے اپنے دونوں ہاتھ سینے پر باندھ کر کہا۔

"جو بھی سمجھ لو ۔۔۔"

کہ کر وہ مڑا

"نہیں عالمگیر۔۔۔۔اب اور نہیں۔۔۔تم مجھے اب اور  ڈی گریٹ نہیں کر سکتے۔تم سمجھتے کیا ہو اپنے آپ کو ہاں؟ دو سال۔۔۔ میں پورے دو سال یونیورسٹی میں تمہارے پیچھے  خوار ہوئی ہوں۔۔اور تم۔۔۔مجھے بےعزت کرتے آئے ہو۔۔۔لیکن اب اور نہیں۔۔"

وہ جنونی انداز میں بولتے ہوئےاپنے پرس میں سے ایک شیشی نکال کر اُسے منہ کے اندر انڈیل چکی تھی۔

عالمگیر سکتے کے عالم میں اُسے دیکھے جا رہا تھا۔

سنبل نے شیشی خالی کر کے زمین پر پھینک دی اور زور زور سے ہنسنے لگی۔

"اب تم میری اور بے عزتی نہیں کر پاوگے۔اب میں تمہیں کبھی نہیں میلونگی۔۔۔"

 کہتے ساتھ ہی وہ زمین پر ڈھہ جاتی اگر عالمگیر اُسے بروقت سنبھال نا لیتا۔

سنبل کے بوتل پھینکتے ہی عالمگیر نے جھک کر شیشی اٹھائی تھی۔اُس چھوٹی سی بوتل پر پوزیشن لکھا ہوا تھا۔وہ بوتل جیب میں رکھتا اُس کی طرف بڑھا لیکن اُسے گرتا دیکھا اُسے بازؤں میں بھر کر اپنی کار کی بیک سیٹ پر لیٹا کر خود ڈرائیونگ سیٹ پر آ کر گھڑی کو تیزی سے ہسپتال کی طرف  لے جانے لگا۔

سنبل کی حالت خراب ہوتی جا رہی تھی۔

وہ گاڑی کو ہسپتال کے گیٹ اندر لا کر سنبل کو بازوں میں اٹھائے اندر کی سمت بڑھا۔

ہسپتال کا عملہ فوراً اُسکی طرف لپکا اور اُسے لیے ایمرجنسی کی طرف بڑھ گیا۔

"اگر سنبل کو کچھ ہو گیا تو؟

نہیں نہیں۔۔۔اُسے کچھ نہیں ہوگا۔۔۔۔لیکن اگر اُسے کچھ ہو گیا تو میں اپنے آپ کو کبھی معاف نہیں کر سکونگا۔۔۔

"یہ اللہ اُسے صحت دینا۔"

عالمگیر شدید پریشانی کے عالم میں آپریشن تھیٹر کے سامنے کھڑا اللہ سے سنبل کے بچ جانے کی دعائیں کر رہا تھا۔

"ارے عالمگیر تم یہاں؟"

انسپیکٹر مراد نے عالمگیر کو آپریشن تھیٹر کے سامنے کھڑے دیکھا تو اُس سے پوچھنے لگا۔دراصل وہ ایک ایکسڈنٹ کیس کے سلسلے میں یہاں آیا تھا۔

 اور عالمگیر کو دیکھ کر اُس کی طرف آ گیا تھا۔

انسپیکٹر مراد ایک ایماندار پولیس آفیسر تھا۔ اور اُسکی اور عالمگیر کی ملاقات ایک بزنس پارٹی میں ہوئی تھی۔  چونکہ دونوں لگ بھاگ ایک ہی عمر کے تھی تو دونوں میں جلدی دوستی ہو گئی تھی۔

پارٹی کے دوران دونوں کی آپس میں اچھی خاصی جان پہچان بھی ہو چکی تھی۔

اور اب وقتاً فوقتاً اُن کی ملاقات کسی پارٹی کسی سیمینار میں ہوتی رہتی تھی۔ کبھی کبھی انسپیکٹر مراد عالمگیر کے آفس بھی آجاتا اُس سے ملنے۔

"مراد تم یہاں؟ کیسے۔۔۔۔۔۔؟"

"ہاں میں یہاں ایک ایکسڈنٹ کیس کی وجہ سے آیا تھا اور تم؟ تمہارا کوئی ایڈمٹ ہے یہاں؟

Is everything okay?"

انسپیکٹر مراد نے فکرمندی سے پوچھا۔

" مراد وہ دراصل ایسا ہے کے۔۔۔۔"

عالمگیر نے سرا قصہ انسپیکٹر مراد کو کہ سنایا۔

"ہممم۔۔۔۔"

مراد نے ہنکرا بھرا۔

ابھی وہ لوگ بات کر ہی رہے تھے جب ایک ڈاکٹر آپریشن تھیٹر کے باہر آیا۔

"دیکھیے یہ ایک پولیس کیسے ہے ۔جب تک پولیس نہیں۔۔۔۔"

ڈاکٹر ،یہ رہا میرا آئی ڈی کارڈ 

I am inspector Muraad  Zahangeer


آپ علاج شروع کیجئے۔۔باقی کی کروائی میں دیکھ لونگا"

مراد چونکہ اس وقت سیول کپڑوں میں تھا اس لیے اُسے ڈاکٹر کو اپنا کارڈ دیکھا کر تعارف کروانا پڑا تھا۔

ڈاکٹر اوکے کہتا واپس آپریشن تھیٹر میں چلا گیا۔

"تھینک یو سو مچ یار۔۔۔تو نے بہت ہیلپ کی۔۔۔"

"کچھ نہیں ہوتا یار۔۔۔آخر یہ میری ڈیوٹی ہے۔"

تو یہی رک میں فورملیٹیس پوری کر کے ابھی آتا ہوں۔"

مراد کہتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔

عالمگیر وہاں رکھی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گیا۔ اور اپنے ہاتھوں پر سر گرا لیا۔

تھوڑی دیر بعد آپریشن تھیٹر کا دروازہ کھولا اور ڈاکٹر نے اُسے بتایا کے اب سنبل ٹھیک ہے۔

اسنے ایک گہری سانس لے کر ڈاکٹر کا شکریہ ادا کیا اور اُسے کب تک ہوش آئیگا پوچھا

"تھوڑی دیر میں ہم اُنھیں روم میں شفٹ کر دنیگے اور کچھ دیر میں اُنھیں ہوش آ جائیگا۔

You don't worry. she is fine now.

آپ اُنھیں صحیح وقت پر ہسپتال لے آئے تھے ۔"

ڈاکٹر اُسے تسلی دیتا وہاں سے چلا گیا۔

تھوڑی دیر بعد سنبل کو روم میں شفٹ کر دیا گیا۔ وہ اور انسپیکٹر مراد جب کمرے میں داخل ہوئے تو سنبل بےہوش تھی۔ابھی تک اُسے ہوش نہیں آیا تھا۔

دونوں اُسکے بیڈ کے قریب آ کر رکے تب سنبل نے آہستہ سے اپنی آنکھیں کھول دی۔

اور عالمگیر کو دیکھتے ہی زوروں سے چلنے لگی۔

"کیوں بچایا مجھے؟ ہاں؟ کیوں؟ اور بے عزت کرنا باقی ہے کیا؟

مرنے کیوں نہیں دیا مجھے؟"

اُس کا انداز جنونی تھا۔

"دیکھو سنبل۔۔۔"

عالمگیر نے اُسے سمجھانا چاہا۔

نہیں سننا مجھے کچھ۔۔تم مجھ سے پیار نہیں کرتے نہ تو کیوں بچایا مجھے۔۔۔؟ کیوں لے کر آئے ہسپتال۔۔۔۔؟ کیوں۔۔۔۔؟ میں ایسی زندگی کا کیا کروں جِس میں تم میرے ساتھ نہیں ہو؟ نہیں جینا مجھے۔۔۔ اگر تم مجھ سے شادی نہیں کر سکتے تو میں جینا بھی نہیں چاھتی۔۔۔ "

"سنبل میری بات تو سنو یار پلیز۔۔۔"

عالمگیر التجائیا انداز میں بولا۔

"کہا نا۔۔۔۔۔۔ نہیں سننا مجھے کچھ۔۔۔ چلے جاؤ یہاں سے۔۔۔تم نے ایک بار نہیں ۔۔بار بار میری تذلیل کی ہے۔۔۔اب اور نہیں۔۔اب میں اور نہیں سہ سکتی۔۔۔میں مر جانا چاہتی ہوں۔۔۔۔آج تو تم نے بچا لیا مجھے ۔۔۔لیکن کب تک۔۔مجھے اب جینا ہی نہیں ہے۔۔۔۔۔"

"مجھ سے شادی کے بعد بھی نہیں۔۔۔۔؟"

سنبل جو اپنے ہاتھوں سے ڈرپ نوچ کے پھینک رہی تھی اُسکے ہاتھ عالمگیر کی بات پر رک گئے۔ وہ حیرت سے اُسے دیکھنے لگی۔۔

"مجھے خیرات نہیں چاہیے ۔۔"

سنبل بولی۔

"سنبل میں بھی تم سے محبت کرتا ہوں۔۔۔پلیز خود کو اذیت مت دو۔۔۔۔۔۔۔پلیز میری بات مان لو۔۔۔"

عالمگیر نے پھر التجا کی۔

"تم۔۔۔۔تم سچ کہہ رہے ہو عالمگیر؟"

سنبل نے حیرت اور خوشی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ پوچھا۔

"ہاں سنبل۔۔۔میری غلطی تھی جو تمہیں میں نے اتنی ازیت دی۔۔۔اب تم مجھ سے وعدہ کرو کے اب تم ایسا کچھ نہیں کروگی۔۔۔؟"

عالمگیر نے کہا۔

"نہیں۔۔۔نہیں۔۔اب میں ایسا کچھ نہیں کروں گی۔۔۔میں تو۔۔۔مجھے تو اب تمہارے ساتھ اپنی زندگی گزارنی ہے۔۔"

سنبل نے آنسوؤں سے بھیگی آنکھوں کے ساتھ کہا۔

"اچھا سنو۔۔۔میں نے تمہارے گھر کال کر دی۔۔تمہارے گھر والے بس آتے ہی ہونگے۔۔۔تو تم ریلیکس ہو جاؤ اور ریسٹ کرو۔۔"

عالمگیر نے بتایا۔

ان ساری باتوں کے درمیان مراد کھڑا اُنھیں باتیں کرتا دیکھ رہا تھا اور عالمگیر کی شادی والی بات  سن کر اُسے جھٹکا ہی تو لگا تھا۔کہاں سنبل اُسے تھوڑی دیر پہلے ایک ضدی اور خود سر لڑکی لگ رہیں تھی جو اپنی ضد کی خاطر اپنی جان کی بازی لگانے سے بھی باز نہیں آئی تھی اور کہاں اب وہ کھڑا اُس سے شادی کے وعدے کر رہا تھا۔ لیکن مراد  نے سنبل کے سامنے اُس سے کچھ بھی پوچھنے سے اجتناب کیا۔

"سنبل بیٹا۔۔۔۔کیا ہوا تمہیں؟

کیسی ہو میری جان؟"

ایک بڑی عمر کے صاحب کمرے میں داخل ہوئے تو عالمگیر اور مراد نے مڑ کر دروازے کی سمت دیکھا۔سنبل بھی وہی دیکھ کے مسکرا رہی تھی۔

"ابّو۔۔۔آئی ایم پرفیکٹلی فائن۔۔۔دیکھیے۔۔۔

اسنے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیر کر آفاق صاحب کو مطمئن کرنا چاہا۔ جو اب اُسکے سرہانے کھڑے اُسے دیکھے جا رہے تھے۔

"لیکن بیٹا تمہیں ہوا کیا تھا؟"

آفاق صاحب اب سنبل کے سرہانے کھڑے اُس سے استفسار کر رہے تھے۔

"ابّو ریلیکس۔۔۔ان سے ملیے۔۔یہ ہیں میرے بہت اچھے دوست عالمگیر ۔۔اور یہ۔۔۔؟"

وہ مراد کو دیکھ گڑبڑائی اور عالمگیر کو دیکھا۔جیسے پوچھ رہی ہو کے یہ کون ہے۔

"یہ ہیں انسپیکٹر مراد۔۔۔۔ایک بہت اچھے پولیس آفیسر اور میرے بہت عزیز دوست۔۔۔ اکچولی یہ یہاں ایک کیس کے سلسلے میں آئے تھی میں نے انہیں دیکھا تو ان کو روک لیا۔"

"اوہ۔۔۔۔۔۔"

سنبل نے سمجھتے ہوئے کہا۔

"If I am not wrong، you are Mr.Aalmgeer Sajjad right? The business tycoon?"


آفاق صاحب نے عالمگیر کو دیکھ کر پوچھا 

"جی۔۔۔۔"

"Oh... I am honoured... I was seeking to meet you but couldn't...but finally we have met...."

فاروق صاحب نے آگے بڑھ کر عالمگیر سے مصافحہ کیا اور پھر مراد کی طرف بڑھ کر اُس سے ہاتھ ملایا۔ اور پھر سے سنبل کی طرف متوجہ ہوئے۔

"لیکن بیٹا آپ کو ہوا کیا تھا۔۔۔"

"Nothing Abbu, I was gone for dinner with Aalamgeer, when we were returning I was fainted. Aalamgeer took me to the hospital. That's it."

"You okay?

فاروق صاحب نے پھر سے پوچھا۔

"يس ابّو، آئی ایم فائن۔۔۔"

اسنے اُنھیں یقین دلانا چاہا۔

عالمگیر نے پہلے حیرت سے اُسے دیکھا پھر 

"میں ڈاکٹر سے بات کر کے ڈسچارج کے پیپر بنوا کے آتا ہوں"

 کہا اور مراد کے ساتھ باہر نکل گیا۔

"عالمگیر یہ کیا تھا اندر۔۔۔"

 مراد نے اُسکے ساتھ کوریڈور میں چلتے ہوئے استفسار کیا۔

"کیا۔۔۔۔"

عالمگیر نے ناسمجھی کے عالم پوچھا۔

"وہی۔۔۔جو تم نے اندر سنبل سے کہا۔۔۔۔"

"اچھا وہ۔۔۔۔۔"

اُسکے وہ کہنے پر مراد نے گھور کر اُسے دیکھا۔

"کیا ۔۔۔۔ہاں میں شادی کرنا چاہتا ہو سنبل سے ۔۔۔"

"اچھا۔۔۔۔۔اور وہ میں تم سے پیار کرتا ہوں؟ وہ کیا تھا؟ تم اُس سے پیار کرتے ہو؟ ابھی تھوڑی دیر پہلے تک تمہیں وہ ایک خودسر اور ضدی لڑکی لگ رہی تھی۔ اتنی جلدی پیار بھی ہو گیا؟"

مراد نے بات کے اختتام پر اُسے طنز کیا۔

"دیکھو مراد ۔۔۔۔میں تم سے جھوٹ نہیں بولنا چاہتا۔لیکن پیار کا کیا ہے یار۔۔۔۔وہ تو شادی کے بعد ہو ہی جائیگا۔ اور تم نے اُسکی باتیں نہیں سنی تھی؟ اگر میں اُسے منع کر دیتا تو وہ پھر اپنی جان لینے کی کوشش کرتی۔اور میں یہ نہیں چاہتا۔"

"یار ۔۔تم اپنی زندگی کیوں بّرباد کرنا چاہتے ہو؟ شی ڈونٹ ڈیسرویو پرسن لائک یو۔۔۔"

"اوہ کم آن مراد۔۔۔۔شی اس کویٹ گڈ گرل۔۔۔۔"

عالمگیر نے جیسے خود کو تسلی دی ۔

"میں پھر بھی کہونگا یار۔۔۔تو ایک بار پھر سوچ لے۔۔۔"

"میں نے سوچ لیا ہے "

اُسکا انداز حتمی تھا۔

وہ دونوں ڈاکٹر کے کیبن میں انٹر ہوئے تو ڈاکٹر نے اُنھیں سنبل کے لیے چند ہدایات کے ساتھ یہ بھی کہا کے 

"اُن کا مائنڈ ابھی اسٹبل نہیں ہے، تو آپ لوگ انکا دھیان رکھیں۔وہ دوبارہ بھی اپنی جان لینے کی کوشش کر سکتی ہیں"

عالمگیر نے مڑ کر مراد کو ایک نظر دیکھا تھا۔

"اوکے ڈاکٹر۔۔۔وی ول ٹیک کیئر آف ہر۔۔۔"

عالمگیر نے کہا اور اُن سے مصافحہ کر کے مراد کے ساتھ کیبن سے باہر آ گیا اور ریسیپشنسٹ کی طرف بڑھ گیا تاکہ ڈسچارج کی فورملیٹیس کو پورا کر سکے۔

ساری فورملٹی پوری کر کے عالمگیر نے سنبل کو ڈسچارج کروایا اور اُسے فاروق صاحب کے ساتھ روانہ کر کے خود بھی مراد سے الوداع کہا کر گھر  آ گیا۔

مراد کو تو اسنے کہ دیا تھا۔لیکن خود؟ کیا وہ خود اپنے فیصلے پر مطمئن تھا؟

وہ ساری رات اسی كشمکمش میں گھرا رہا۔

اور آج پھر جب اسنے امی سے سنبل کی بات کی تو امی تو مان گئی لیکن کیا وہ سنبل کے ساتھ کبھی خوش رہ سکےگا؟

انہی سوچوں کے زیرِ اثر آج پھر وہ ساری رات جاگتا رہا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


حال


عالمگیر کار کو گیٹ کے اندر لا کر اُترا اور لیپ ٹاپ بیگ اور ٹفن والا شاپر بیک سیٹ سے نکال کر گھر  کے اندرونی سمت بڑھ گیا۔

اندر آکر وہ پہلے کچن میں گیا اور شاپر وہاں رکھ کر خود کمرے میں آ کر اُس نے لیپ ٹاپ بیگ بیڈ پر رکھا اور  فریش ہونے واشروم میں چلا گیا ۔کچھ دیر بعد وہ واشروم سے نکلا اور کچن میں گیا اور ٹفن کھول کے کھانا نکلالا۔

کھانا ابھی تک گرم ہی تھا۔ اور نہ بھی ہوتا تو وہ ڈرائیونگ کر کے اتنا تھک گیا تھا کے کھانا کھانے تک کی سکت نہیں رکھتا تھا۔لیکن چونکہ عشنا نے اُسے اتنے پیار سے کھانا پیک کر کے دیا تھا تو وہ اُسے برتن میں نکالنے لگا۔

اُسے عشنا کا حکم دینے والا انداز یاد آیا تو وہ مسکراتے ہوئے ٹفن کا ایک ایک  ڈبا کھولنے لگا۔

عشنا نے اُسے کیا کیا دیا تھا۔

بادام کا حلوہ

چکن سٹیو

چکن رول

چکن کباب

چکن پلاؤ

ہی چیز چکن کی تھی کیونکہ عالمگیر کو چکن بہت پسند تھا۔

وہ دل کھول کر مسکرایا اور کھانا پلیٹ میں نکال کر لاؤنج میں آکر صوفے پر بیٹھ کر کھانے لگا ۔ساتھ ہی اُس نے امی کو اپنے پہنچنے کا میسیج بھی کر دیا۔اب وہ سوچ رہا تھا عشنا کو کال کریں یا نہیں۔ کہیں وہ سو نہ گئی ہو۔۔۔ پھر اسنے سوچا ایک بار کال کر لیتا ہو۔ اگر جاگی ہوئی تو کال ریسیو کر لے  گی اور اگر نہ جگی ہوئی تو؟

لیکن دل کے کسی گوشے میں اُسے یہ بھی یقین تھا کہ وہ اُس کی کال کا انتظار کرتے اب بھی جاگ رہی ہوگی۔ یہی سوچتے وہ چکن رول منہ میں رکھتا اُسکا نمبر ڈائل کرنے لگا۔

اُسکے لبوں پر مسکراہٹ رینگ گئی کیونکہ ایک ہی بیل پر کال ریسیو کر لی گئی تھی۔شاید وہ فون ہاتھوں میں لیے ہی بیٹھی تھی۔

"السلام و علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ"

عالمگیر نے مسکرا کر سلام کیا۔

"وعلیکم السلام۔۔۔۔"

عشنا کی دھیمی آواز آئی۔

"خیر سے پہنچ گئے آپ؟ کھانا کھا لیا؟ تھک تو نہیں گئے؟"

عشنا نے ایک ساتھ کئی سوال کر دیے۔

"کیا بات ہے ۔۔۔۔"

عالمگیر نے حیران ہوتے ہوئے بات جاری رکھی۔

"اتنا سارا تم بنا اٹکے بول گئی۔۔۔تم عشنا ہی ہو نہ؟"

آخر میں اُسکا انداز شرارتی ہو گیا۔

"جی۔۔۔میں عشنا ابراہیم ہی بات کر رہی ہوں۔۔۔۔"

"غلط۔۔۔۔عشنا ابراہیم نہیں۔۔۔عشنا عالمگیر۔۔۔اس نام کی عادت ڈال لو۔ مستقبل میں تمہیں اپنا تعارف اسی نام سے جو کروانا ہے۔۔"

"کھانا کھا لیا آپ نے؟"

اسنے عالمگیر کی بات کو نظر انداز کر کے اس سے کھانے کے بارے میں پوچھا۔

" ہاں ابھی پہنچا ہو اور اب کھانا ہی کھا رہا ہوں۔تم بتاؤ...کیا کر رہی تھی؟ سوئی کیوں نہیں؟"

" وہ۔۔۔وہ میں۔۔میں۔۔۔۔"

اُسے کوئی جواب نہ بن پڑا۔

"اچھا یہ بتاؤ یہ ریڈیو پر کسے پیغام دیا جا رہا تھا؟"

اسنے جواب نہ پا کر دوسرا سوال کیا۔ساتھ ساتھ وہ چمچ سے کھانا بھی کہا رہا  تھا۔

" وہ۔۔وہ آپ نے سنا؟"

" ہاں سن لیا۔۔۔تو بتاؤ کیا کس کے لیے تھا وہ پیغام؟ میرے لیے تو نہیں تھا۔میرے لیے ہوتا تو تم مجھے گھر پر ہی بتا دیتی۔۔۔ایسے ریڈیو پر پورے شہر کو تو نہ بتاتی۔۔۔۔چلو اب بتا بھی دو۔۔۔کون ہے وہ؟"

عالمگیر نے اُسے چھیڑتے ہوئے کہا۔

" وہ۔۔۔وہ پیغام۔۔۔وہ۔۔۔"

عشنا کو سمجھ ہی نہیں آیا کے اُسے کیسے بتائے کے وہ پیغام اُسکے لیے ہی تھا۔اور وہ جو سوچے بیٹھی  کے اگر اسنے شو سنا تو جان جائیگا کے وہ پیغام اُسکے لیے ہی ہے۔لیکن عالمگیر کے ایسے پوچھنے پر اُسے برا لگا ۔اسنے کیسے ریڈیو جوکی سے دھڑلے سے کہا تھا کہ وہ جان جائینگے اور عالمگیر کو سمجھ ہی نہیں آئی۔

"بتا بھی دو عشنا۔۔۔اب تو مجھے اُس سے جلن ہو رہی ہے۔۔۔کون ہے وہ خوش نصیب۔۔۔؟"۔

عالمگیر چہرے پر مسکراہٹ سجائے لگاتار اُسے چھیڑ رہا تھا۔

"وہ ۔۔۔وہ میں نے آپ کے لیے ۔۔۔آپ کے لیے تھا وہ پیغام"

اسنے اٹک اٹک کر کہا

"میرے لیے۔۔۔؟ تو تب کیوں نہیں کہا جب میں گھر سے نکل رہا تھا؟ اور میرے جاتے ہی تم میرا انتظار کرنے لگی؟"

" ہاں وہ آپ کے لیے تھا۔۔۔۔ میں بولنا بھول گئی تھی"

اسنے صفائی دی

"اوہ۔۔۔چلو صحیح ہے۔۔۔ویسے سچ میں تم  میرا انتظار کروگی؟"

عالمگیر نے پوچھا۔

"ہاں۔۔۔"

عشنا نے آہستہ سے کہا۔

"ٹھیک ہے میں نیکسٹ منتھ چکر لگانے کی کوشش کرونگا ۔ ابھی تو بہت کام ہے یار۔۔سانس لینے کی بھی فرصت نہیں۔"

عالمگیر نے اُسے بتایا۔حالانکہ وہ جانتا تھا کے عشنا نے اُسے اینول ڈے کا کہا تھا لیکن عالمگیر کا ارادہ اُسے سرپریز دینے کا تھا

عشنا کے دل کو کچھ ہوا۔اُسے لگا تھا شاید عالمگیر اُس سے پوچھے گا کے وہ کب اُسکا انتظار کریگی تب وہ اُسے اینول ڈے پر آنے کا کہے گئی لیکن اُسکا بیزی اسکیڈول سن کر اُس نے کچھ نہیں بتایا۔

"ٹھیک ہے اب آپ آرام کیجئے تھک گئے ہونگے۔"

عشنا نے دھیمے سے کہا۔

ٹھیک ہے عشنا ۔۔۔چلو پھر نیکسٹ منتھ ملتے ہیں انشاء اللہ۔۔۔اپنا بہت سارا خیال رکھنا اور اپنا وعدہ مت بھول جانا۔ اب جب ہم ملینگے تب تمہیں میری خواہش پوری کرنی ہے۔اوکے؟

عالمگیر نے آخری کلمات کہتے آخر میں اُسے اُسکی اپنی خواہش یاد دلائی تو عشنا نے جی کہ کر کال منعقد کر دی اور پھوپھو کے کمرے میں آ کر سونے کے لیے لیٹ گئی۔ 

عالمگیر نے کال منعقد کی اور کچن میں برتن رکھ کر کمرے میں آ گیا اور لیپ ٹاپ کھول کر یی میل چیک کرنے لگا۔ابھی اُسے میٹنگ کی تیاری بھی کرنی تھی ۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


حال


صبح کی تازگی ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ عالمگیر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا تیار ہو رہا تھا۔ اُس نے بالوں کو جیل لگا کر ایک سائڈ کیا خود پر پرفیوم چھڑکا اور عشنا کی دی ہوئی ٹائی نکال کر پہننے لگا۔

ایسا کرتے وہ مسلسل مسکرا رہا تھا۔وہ اُسے سوچنے میں اس قدر کھویا تھا کہ اپنے موبائل کے بجنے کا بھی علم نہیں ہوا۔

اسنے ٹائی کی ناٹ کو صحیح کی اور ہاتھوں میں گھڑی پہن کر اپنا کوٹ اٹھا کر پہننے لگا۔

تھوڑی دیر بعد اُس نے اپنا لیپ ٹاپ  بیگ اٹھایا اور رومال اور موبائل لے کر  کمرے سے نکلنے لگا۔

تھوڑی دور جا کر کمرے میں واپس آیا اور ایک بار پھر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا ڈریسنگ مرر میں خود کا جائزہ لیا۔ہمیشہ کی طرح وہ بہت ہینڈسم لگ رہا تھا۔

وہ مسکرایا اور مسکرا کر پینٹ کی جیب سے اپنا موبائل نکال کر گردن سے ٹائی کے اختمام تک کی ایک پکچر کلک کی اور اُسے عشنا کے موبائل پر واٹساپ کر دی۔پکچر سینڈ کرنے کے بعد اسنے دیکھا عشنا کا میسیج اُس میں جگمگا رہا تھا جو اسنے شاید فجر کے بعد بھیجا تھا

"Best of luck"

 وہ  مسکرایا اور عشنا کو

 "Thanks" 

ٹائپ کر  کے بھیج ہی رہا تھا کہ اُسکے منیجر کی کال آنے لگی

وہ فون کان سے لگاتا بات کرتے کرتے پورچ تک آیا اور گاڑی میں بیٹھ کر آفس کی طرف رواں دوا ہو گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عشنا رحمت بیگم کو ناشتہ کروا کر ملازمہ کے سر پر کھڑی اُس سے صفائی کروا رہی تھی ۔اسنے عالمگیر کے لیے نماز کے بعد بہت ساری دعائیں کی تھے۔اور پھر اُسے

 "BEST OF LUCK"

کا میسیج بھی کر دیا تھا لیکن ابھی اسنے عالمگیر کا میسیج نہیں دیکھا تھا ۔اُسے لگا ہی نہیں تھا کہ وہ جواب بھی دیگا کیونکہ وہ میٹنگ میں بیزی ہو سکتا ہے۔

سب کام ختم کر کے وہ کمرے میں آئی اور موبائل اٹھا کر دیکھا تو اُس میں عالمگیر کے دو میسیجز تھے ۔ایک  ٹائی کی پکچر تھی جسے دیکھ کر اُس کے لبوں پر دلکش مسکراہٹ نے احاطہ کر لیا۔ اُسے لگا عالمگیر نے اُسکی ٹائی کو پہن کر اُسے معتبر کر دیا ہو۔وہ ٹائی کو موبائل  سکرین سے ہی ٹچ کرنے لگی۔جیسے محسوس کرنا چاہا ہو۔ اور پھر اُسکا 

"Thanks"

کا میسیج دیکھ کر خوش ہو گئی۔مطلب اتنے بیزی ہونے کے باوجود اسنے اُسے میسیج کر کے تھینکس کہا تھا۔مطلب وہ اُسکے لیے کتنی خاص تھی یہ سوچ سوچ کر وہ مسکرانے لگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


3 سال پہلے


عالمگیر تیز تيز  آفس کے زینے سے نیچے کی طرف بڑھ تھا تب ہی اُسکا موبائل بجنے لگا۔موبائل پر جگمگا رہے نمبر کو دیکھ کر وہ تھوڑا کوفت میں مبتلا ہوا اور کال ریسیو کر لی۔

"السلام و علیکم"

عالمگیر نے کال ریسیو کرتے ہی سلام کیا۔

"وعلیکم السلام۔۔۔۔"

سنبل نے ایک ادا سے جواب دیا

"کہو۔۔۔کیسے فون کیا۔۔۔"

عالمگیر اب کار میں بیٹھ کر گاڑی کو سٹارٹ کرتے اُس سے پوچھ رہا تھا۔

"کیوں۔۔۔۔؟ میں تمہیں کال نہیں کر سکتی کیا۔۔۔؟"

سنبل نے برا مناتے ہوئے پوچھا۔

"کر سکتی ہو یار۔۔۔لیکن میں ذرا ایک میٹنگ میں جا رہا تھا۔۔۔اُسکے لیے میں الریڈی لیٹ ہو گیا ہوں اس لیے پوچھ رہا ہوں۔۔۔

If you don't mind, can I call you later?"


( اگر تمہیں برا نا لگے تو میں تمہیں بعد میں کال کروں؟)

عالمگیر نے احتیاط سے پوچھا۔پتا نہیں اُسے کس بات کا برا لگ جائے۔

"Sure۔۔۔ don't forget to call me back۔۔۔۔"

(کیوں نہیں۔۔۔لیکن مجھے  کال کرنا بھولنا نہیں۔۔)

سنبل نے کہ کر کال منعقد کر دی۔

عالمگیر بھی کال ڈسکنیکٹ کرتا کار کو تیزی سے ڈرائیو کرنے لگا۔میٹنگ کسی پارٹی کے آفس میں تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عالمگیر رات 11 بجے گھر پہنچا تو کمرے میں جا کر چینج کیا اور نماز ادا کر کے سونے کے لیے لیٹ گیا۔ اُسکا کھانا کھانے کا ارادہ نہ تھا۔یہ شاید اُسکی بھوک ہی مر گئی تھی۔ دوپہر میں بھی بس برائے نام ہی لنچ کیا تھا۔

ابھی وہ بیڈ پر لیٹا ہی تھا کے اُسے یاد آیا کہ آج سنبل سے بات کرنی تھی تاکہ وہ امی کو اُسکے گھر لے جا سکے۔ 

یہی سوچتے وہ بیڈ سے اٹھا اور سنبل کو کال لگاتے ہوئے کھڑکی کے پاس آ رکا۔کھڑکی سے آتی ٹھندی ہوا اُسکے چہرے کو چھوتی کمرے میں منتقل ہو رہی تھی۔اُسے یہ ہوا بہت بھلی معلوم ہو رہی تھی۔

4 بیل کے بعد کال ریسیو کر لی گئی اور دوسری طرف سے سنبل کی چّہیکتی ہوئی آواز گونجی۔  

" زہے نصیب۔۔۔۔۔"

اسنے ایک ادا سے کہا۔

"سنبل۔۔۔۔۔"

عالمگیر کچھ کہنا ہی چاہتا تھا کے سنبل نے اُسکی بات کاٹتے ہوئے پھر سے بولنا شروع کر دیا۔

"میٹنگ ختم ہو گئی آپ کی؟ ویسے بڑی لمبی نہیں چلی یہ میٹنگ؟" 

"یار سنبل۔۔۔۔میری بیک ٹو بیک میٹنگ لائن اپ تھیں۔۔۔ٹائم نہیں ملا۔۔۔ابھی ٹائم ملا ہے تو کال کر رہ ہو نہ۔۔۔"

اُسکی آواز میں ہلکے سے غصے کا عنصر بھی شامل تھا۔

"اچھا بابا ۔۔۔ناراض کیوں ہوتے ہو۔۔۔میں تو مذاق کر رہی تھی۔۔۔"

سنبل نے سنبھل کر کہا۔

"سنبل تم نے اپنے گھر میں ہمارے بارے میں بات کی؟"

عالمگیر نے پوچھا

"نہیں۔۔۔ابھی تو نہیں۔۔۔کیوں پوچھا تم نے۔۔۔؟"

سنبل کے سوال پر اُسے حیرت ہوئی۔۔۔۔مطلب وہ اُسکے لیے اپنی جان دینے تک اتر آئی تھی اور اب۔۔جب کی اسنے اُس سے شادی کے لیے حامی بھر لی تو۔۔تو اُس نے اب تک آپ نے گھر میں اُسکا ذکر تک نہیں کیا۔۔۔۔اُسے سنبل کے انداز کچھ مشکوک لگے ۔

" سنبل میں نے امی سے بات کی ہے تمہارے بارے میں اور وہ مان بھی گئیں ہیں۔۔۔اور وہ تمہارے گھر تمہارے والدین سے ملنے آنا چاھتی ہیں تاکہ ہمارے رشتے کی بات کو آگے بڑھا سکے۔"

عالمگیر نے اُسے تفصیل سے بتایا۔

"اوہ۔۔۔تم نے آنٹی سے بات بھی کر لی۔۔۔اور وہ مان بھی گئیں۔۔۔۔او عالمگیر۔۔۔۔آئی ایم سو ہپپی۔۔۔۔ تم ایسا کرو آنٹی کو لے کر پرسو ہمارے گھر آ جاؤ۔۔۔۔پرسو سنڈے ہے ابو بھی گھر پر ہونگے تو آنٹی اُن سے آرام سے بات کر لینگی "

سنبل نے خوشی خوشی ساری پلاننگ کرتے عالمگیر کو بتایا۔

" نہیں۔۔۔پہلے تم اپنے والدین سے بات کرو اُسکے بعد ہی ہم آئینگے۔"

عالمگیر کو ایسے جانا کچھ عجیب لگا۔

"چل عالمگیر۔۔۔میرے ابّو میری کوئی بات نہیں ٹالتے۔۔۔۔تم بس پرسو آ رہے ہو آنٹی کے ساتھ۔۔۔that's final۔۔۔"

سنبل نے آرڈر دینے کے انداز میں کہا۔

"لیکن سنبل۔۔۔۔"

عالمگیر نے پھر کہنا چاہا لیکن سنبل نے اُسکی بات کاٹ دی اور بولی

"No more discussion Aalmgeer۔۔۔۔"

اور كال کاٹ دی۔

عالمگیر حیرت سے موبائل کو گھور کر اُسے بیڈ پر اچھال دیا اور خود بھی سونے کے لیے لیٹ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عالمگیر صبح فجر کی نماز ادا کر  کے لوٹ رہا تھا جب اُسے عشنا لان میں پھولوں کی کیاریوں میں پانی کا پائب لیے کھڑی نظر آئی۔

"لیکن یہ تو لاہور گئی میں تھی ۔۔۔۔"

عالمگیر نے دل میں سوچا اور عشنا کی طرف بڑھ کر اُسے پُکارا

"عشنا۔۔۔۔"

عشنا کو پھول بہت پسند تھے اور جب سے وہ یہاں آئی تھی اکثر ہی ان پھولوں کے آس پاس ہوتی۔اُسے پھوپھو کے گھر کا یہ گوشہء بہت پسند تھا جہاں انواع و اقسام کے پھول اپنی بہار دیکھا رہے تھے۔

عشنا جو مگن انداز میں پھولوں کو پانی دے رہی تھی عالمگیر کے اچانک پکارنے پر ڈر کر مڑی اور ساتھ ہی پائپ کا منہ بھی عالمگیر کی طرف کیا جِس سے اُسکے سارے کپڑے بھیگ گئے۔ عالمگیر کچھ کہتا اُس سے پہلے ہی وہ پائپ زمین پر پھینک کر بھاگنے لگے۔

"رکو۔۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُسے بھاگتے دیکھا تو اُسے روک لیا کیونکہ اگر وہ اسی طرح بھاگتے اندر جاتی تو اُسے خدشہ تھا کہ وہ کسی اور کو یہ خود ضرور نقصان پہنچا دیتی۔

عشنا اُسکی آواز پر رکی ضرور لیکن مڑی نہیں۔ ایسے ہی اُسکی سمت پیٹھ کیے کھڑی رہی۔

عالمگیر کو اُسکے اس انداز پر ہنسی آ گئی۔وہ اپنی ہنسی چھپاتا اُسکی سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔

عشنا نے ڈر کر اُسے دیکھا۔

"وہ۔۔۔وہ عالمگیر بھائی۔۔۔ وہ۔۔۔وہ میں۔۔۔آئی ایم سوری۔۔۔وہ مجھ سے غلطی سے۔۔۔۔وہ۔۔۔آپ مجھے معاف کر دیں پلیز۔۔۔میں آئندہ کبھی نہیں آؤنگی یہاں۔۔۔۔"

"عشنا یار کیا ہو گیا ہے۔۔۔میں نے کچھ بھی تو نہیں کہا تمہیں۔۔۔it's okay۔۔۔

غلطی میری ہی تھی۔مجھے یوں اچانک تمہیں پکارنا نہیں چاہیے تھا۔

"تھنکس عالمگیر بھائی۔۔۔" 

کہ کر وہ پھر جانے لگی 

"ارے۔۔۔۔میرے سر پر کیا سینگھ لگے ہیں اور میں تمہیں مار دونگا جو تم بار بار بھاگ رہی ہو۔۔۔۔؟"

عالمگیر نے برا مناتے ہوئے کہا۔

" نہیں۔۔۔۔نہیں۔۔۔عالمگیر بھائی۔۔۔وہ تو میں۔۔۔میں۔۔۔ مجھے کالج کے لیے ریڈی ہونا تھا۔۔۔۔اس لیے۔۔۔"

بروقت اُسے بہانہ سوجھ گیا۔

"اوکے جاؤ۔۔۔"

 عالمگیر نے جیسے  ہی کہا اسنے سر پٹ دوڑ لگا دی۔

"پاگل ہے بالکل۔۔۔میں کچھ کہ رہا تھا اسکو۔۔۔۔اور امی چاہتی تھی کے میں۔۔۔میں اس سے۔۔۔۔وہ ایسا سوچ بھی کیسے سکتی ہیں۔۔۔"

وہ بڑبڑاتا ہوا اپنے کمرے میں آ کر آفس کی تیاری کرنے لگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عالمگیر گاڑی کے پاس کھڑا رحمت بیگم کا انتظار کر رہا تھا اُسے اور اُنھیں آج سنبل کے گھر جانا تھا۔

تھوڑی دیر بعد رحمت بیگم عشنا کے ساتھ آتے دکھائی دی۔

پھل مٹھائیاں اور دیگر تحائف رحمت بیگم نے پہلے ہی گاڑی میں رکھوا دیا تھا

"امی عشنا کو کیوں۔۔۔میرا مطلب ہے۔۔۔"

"بیٹا آج سنڈے ہے۔۔۔اسے ہم گھر میں اکیلا چھوڑ کر کیسے جا سکتے ہیں ؟"

راحت بیگم  نے سمجھانے والے انداز میں کہا۔

وہ سر کو اثبات میں جنبش دیتا کار کا دروازہ کھول کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔ راحت  بیگم دروازہ کھول کر بیک سیٹ پر بیٹھ گئیں اور عشنا کو فرنٹ سیٹ پی بیٹھنے کو کہا۔

عشنا تذبذب سے فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھی اور اپنا دوپٹہ احتیاط سے سمیٹ کر دروازہ بند کیا۔

عشنا نے گھٹنوں تک آتی گھیر دار فروک زیبِ تن کر رکھی تھی ساتھ چوڈیدار پائجامہ اور کامدار دوپٹہ تھا۔ دوپٹہ سر پر سلیقے سے جمائے وہ بہت معصوم اور دلکش لگ رہیں تھی۔ایک پل کو تو عالمگیر اُسے دیکھتا رہ گیا۔ پھر خود کو سرجانش کرتا گاڑی ڈرائیو کرنے لگا۔

ڈرائیونگ کے دوران بھی اُسکی نظریں بھٹک بھٹک کر عشنا کے چہرے کا طواف کرتی رہیں۔

وہ لوگ فاروق ہاؤس پہنچے تو سنبل اور فاروق صاحب  اور سنبل کی امی فرحت بیگم بھی ساتھ کھڑی نظر آئیں۔

عالمگیر گاڑی سے اُترا اور امی کی لیے بیک سیٹ کا دروازہ کھول دیا۔ راحت بیگم بھی گاڑی سے باہر آ گئیں۔ عشنا بھی فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھول کر باہر  آئی اور چلتی ہوئی اُنکے پاس کھڑی ہو گئی۔

عالمگیر  نے گاڑی کی ڈیگی کھولی تو فاروق صاحب کے اشارے سے ملازم گاڑی کی طرف بڑھے اور سارا سامان نکال کر اندر لے جانے لگے

فاروق صاحب نے بڑھ کر عالمگیر  کو گرم جوشی سے گلے لگایا۔ فرحت بیگم  بھی آگے بڑھ کر رحمت بیگم اور عشنا سے ملی۔

رحمت بیگم فرحت بیگم کے ملنے کے بعد آگے بڑی اور سنبل کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگی۔

سنبل بظاھر تو اُن سے مل رہی تھی لیکن اُسکی نظر مسلسل ساتھ کھڑی عشنا پر تھی۔ اُسے عشنا کی خوبصورتی سے خوف آنے لگا۔

سب لوگ اندر کی طرف بڑھ گئے تو سنبل نے عالمگیر کا ہاتھ تھام کر اُسے روکا۔

عالمگیر نے حیرت سے اُسے دیکھا تو وہ کہنے لگی۔

"یہ لڑکی  کون ہے؟"

"میری کزن ہے"

عالمگیر نے اُسے بتایا۔

"تو یہ یہاں کیا کر رہی ہے؟ ابھی تو صرف شادی کی بات کرنے آئے ہو۔۔۔کونسا آج شادی ہے جو تم اپنے رشتےدار ساتھ لے کر آگئے"

"اوہ کم آن سنبل۔۔۔وہ یہاں اسلام آباد میں پڑھائی کر رہی ہے۔اُسکی فیملی لاہور میں ہوتی ہے۔ ہم یہاں آ رہے تھے تو اُسے گھر پر اکیلا چھوڑنا ہمیں ٹھیک نہیں لگا تو ہم اُسے بھی ساتھ لے آئے۔"

عالمگیر نے اُسے ڈیٹیل میں بتایا۔

"مطلب۔۔۔یہ تمہارے ساتھ۔۔تمہارے گھر میں رہتی ہے؟"

سنبل نے حیرت سے پوچھا۔

"ہاں تو۔۔۔؟ اب وہ اتنی چھوٹی ہے ۔۔ ہمارے ہوتے ہوئے اُسے ہوسٹل میں تو نہیں رکھ سکتے نا۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُسے بتایا ۔ اب وہ اُسے یہ تو نہیں بتا سکتا تھا کے وہ ہمیشہ سے ہی ہوسٹل میں رہتی آئی ہے اور مامو کی ضد کی وجہ سے ہمارے ساتھ رہ رہی ہے۔ورنہ اُسکا ارادہ تو اب بھی ہوسٹل میں ہی رہنے کا تھا۔

"لیکن وہ۔۔۔"

سنبل نے کچھ کہنا چاہا  تو عالمگیر نے اُسے ٹوک دیا۔

"یار کیا ہو گیا ہے۔۔۔اتنی چھوٹی سی تو ہے وہ اور۔۔۔۔"

عالمگیر کی بات ختم ہونے سے پہلے ہی سنبل بولی۔

"اور کافی خوبصورت بھی ہے۔"


"Shut up Sunbul....she is Just a cousin of mine. that's it... don't think anything else."

(چپ رہو سنبل۔۔۔وہ صرف میری کزن ہے اور کچھ نہیں ۔۔کچھ اور مت سوچوں)

عالمگیر کہتا ہوا گھر کے اندر آ گیا۔ سنبل بھی بیچھے آئی۔

وہ لوگ صوفے پر بیٹھے باتیں رہے تھے جب سنبل اور عالمگیر اندر آ کر صوفے پر بیٹھ گئے۔سنبل اُسکے ساتھ ہی بیٹھی گئی ۔

عشنا ایک سنگل صوفے پر بیٹھی اپنے ہاتھوں کو ایک دوسرے میں پیوست کیے نجانے کیا سوچ رہی تھی۔اُسے اپنا آپ یہاں بے معنی لگ رہا تھا۔

راحت بیگم چائے وغیرہ کا انتظام دیکھنے کیچن میں چلی گئی عالمگیر کی ایک کال آ گئی تو وہ سب کو ایکسکیوز کرتا کال سننے ایک طرف چلا گیا۔فاروق صاحب رحمۃ بیگم سے باتیں کرنے لگے تو سنبل اٹھ کر عشنا  کے پاس والے صوفے پر بیٹھ گئی اُسکا ارادہ عشنا سے بات کرنے کا تھا۔

"تو۔۔۔تم عالمگیر کی کزن ہو۔۔۔؟"

"جی۔۔۔"

عشنا نے دھیرے سے چہرہ اٹھا کر اُسے دیکھا۔اُسے سنبل کی نظریں کچھ عجیب لگی۔

"تو کیا پڑھ رہی ہو؟ "

سنبل نے پھر سوال کیا 

"میں ابھی 12th میں ہوں ۔۔"

"اوہ۔۔۔آئی سی۔۔ تو سنا ہے تمہیں اکیلے رہنے سے ڈر لگتا ہے اس لیے تم ہوسٹل میں نہیں رہتی۔"

"میں تو شروع سے ہی ہوسٹل میں رہتی آئی ہو۔۔وہ تو اس بار ابّو کی ضد کی وجہ پھوپھو کے یہاں رہ رہی ہو۔ورنہ اس بار بھی میں نے کہا تھا ابو کو میں کے میں ہوسٹل میں ہی رہوں گی ۔"

"اوہ۔۔۔اچھا۔۔۔"

"مطلب عالمگیر نے مجھے جھوٹ بولا۔"

سنبل نے دل میں سوچا۔

تب ہی عالمگیر کال ختم کرتا اُنکے بیچ آ بیٹھا۔ راحت بیگم بھی ملازموں سمیت چائے اور دیگر لوازمات لیے داخل ہوئی۔

وہ باری باری سب کو چائے سرو کرنے لگیں تو عشنا نے چائے کے لیے معذرت کر لی۔

"آنٹی میں چائے نہیں پیتی۔۔۔"

تو بیٹا کچھ اور منگوائیں آپ کے لیے۔۔۔۔کافی پیوگی؟

راحت بیگم نے پیار سے پوچھا۔تو اسنے ہاں کہ دیا اُسے اُنھیں منع کرتے اچھا نہیں لگا۔ لیکن وہ اُنھیں یہ بھی نہیں کہ سکتی تھی کے اُسے خود کے ہاتھوں کی کافی ہی پسند ہے۔

ملازم نے کافی لا کر اُسے دی تو وہ گھونٹ گھونٹ بھرنے لگی۔

کافی اچھی تھی لیکن ویسی نہیں جیسی وہ پیتی تھی اس لئے 2 گھونٹ بھر کر مگ واپس رکھ دیا۔سنبل اُسے ہی دیکھ رہی تھی

"کیا ہوا ؟ کافی پسند نہیں آئی؟"

سنبل نے جانچتی نظروں سے اُسے دیکھتے ہوۓ پوچھا۔

"نہیں ۔۔۔ اچھی ہے وہ دراصل مجھے اپنے ہاتھ کی ہی کافی پینے کی عادت ہے اس لیے۔۔۔"

عشنا نے معصومیت سے کہا

"اوہ۔۔۔تو تمہیں کچن کے کام بھی آتے ہیں"

سنبل نے حیرت سے پوچھا

"جی۔۔ایکچولی اسکول کے بعد خالی ٹائم میں ہمارے اسکول ہوسٹل کے پاس ایک کوکنگ سینٹر تھا ۔وہاں سے میں  نے کوکنگ کا کورس کیا ہے۔"

"اوہ۔۔۔.تو تم اپنی پھوپھو  اور اپنے بھائی کو کھانا بنا کر بھی کھلاتی ہو۔۔۔"

سنبل جیسے کچھ جاننا چاہتی ہو۔

"نہیں ۔۔۔پھوپھو تو مجھے کچھ کرنے ہی نہیں دیتی۔۔۔"

"اچھا۔"

"سنبل بیٹا ۔۔۔یہاں آو میرے پاس۔۔۔"

رحمت بیگم نے اُسے اپنے پاس بلا یہ تو سنبل اٹھ کر اُنکے پاس آ گئی۔

رحمت بیگم نے اُسکا ہاتھ تھاما اور اپنی خاندانی انگوٹھی اُسے پہننا چاہا تو سنبل نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا 

"آنٹی یہ آپ کیا کر رھیں ہیں۔"

"بیٹا یہ ہماری خاندانی انگوٹھی ہے ۔ اور اس لیے۔ ۔۔"

"وہ کم آن آنٹی ۔۔انگوٹھی پہننا ہے تو عالمگیر یہ مجھے پہنائے نہ۔"

سنبل نے گردن کڑا کر کہا

"ہاں ہاں بیٹا کیوں نہیں۔۔۔آؤ عالمگیر۔۔۔تم ہی پہنا دو۔"

رحمت بیگم نے اپنی جھینپ مٹانے کو عالمگیر کو مخاطب کیا۔

عالمگیر کو سنبل کی بات بری تو لگی لیکن کچھ بولا نہیں

"اوہ نو آنٹی۔۔۔میری انگیجمنینٹ ایسے چھپ چھپا کے تو نہیں ہوگی

میری انگیجمنینٹ میں سارے شہر کے لوگ دیکھیں گے"

"سنبل بیٹا۔۔"

فاروق صاحب نے کچھ کہنا چاہا تو اسنے اُنھیں ٹوک دیا

"ابّو پلیز۔۔۔۔میں اپنی شادی کا ہر فنکشن انجوئے کرنا چاہتی ہوں۔"

"کوئی بات نہیں فاروق صاحب۔ تو بتائیں کب رکھنا ہے انگیجمنٹ؟"

رحمت بیگم نے پوچھا۔

"نیکسٹ سنڈے رکھ لیتے ہیں"

فاروق صاحب بیٹی کی بتمیزی سے بڑی طرح شرمندہ جھوٹ ہوتے بولے۔

"وہ نو ابّو۔۔۔نیکسٹ نہیں نیکسٹ ٹو نیکسٹ سنڈے۔ مجھے شاپنگ بھی تو کرنی ہے۔ اور  میں شاپنگ  کرنے کے لیے دبئی جانا چاہتی ہو۔"

"ٹھیک ہے  پھر 15 دن کے بعد ہی کر لیتے ہیں۔"

رحمت بیگم نے اپنی رضامندی ظاہر کی ۔

"ٹھیک ہے پھر۔"

فاروق صاحب اور راحت بیگم نے بھی اثبات میں سر ہلایا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔




حال


"عشنا بیٹا کیا بات ہے؟ ایسے کیوں بیٹھی ہو؟"

عشنا کافی دیر سے لاؤنج میں اکیلی بیٹھی ایک ہی پوزیشن میں نہ جانے کیا سوچ رہی تھی۔ 

رحمت بیگم نے اپنے کمرے کی کھڑکی سے اُسے ایسے بیٹھا دیکھا تو اُسکے پاس آ کر پوچھا۔

"کچھ نہیں پھوپھو۔۔۔وہ ابّو کی کال آئی تھی۔ وہ مجھے لینے آ رہے ہیں۔۔۔"

"تو بیٹا اس میں اتنا پریشان ہونے والی کیا بات ہے۔جاؤ جا کر تیاری کرو۔"

"لیکن پھوپھو آپ کی طبیعت۔۔۔۔"

اسنے نظریں نیچے کر کے کہا۔

بیٹا ۔۔۔میری طبیعت اب ٹھیک ہے ۔تم فکر مت کرو اور جانے کی تیاری کرو۔۔۔شاباش۔۔۔ویسی بھی میری وجہ سے تمہاری اسٹڈیز کا بھی نقصان ہوا ہے۔۔۔"

راحت بیگم نے فکرمندی سے کہا۔

"نہیں پھوپھو۔۔۔ یہ تو میرا فرض ہے۔۔۔۔"

عشنا نے اُنھیں دیکھتے ہوئے کہا۔

"بالکل بیٹا۔۔۔۔تمہیں ہی تو  اب اس گھر کو اور عالمگیر کو سنبھالنا ہے۔"

رحمت بیگم نے اُسے چھیڑا تو وہ جھینپ کر اُنکے گلے لگ گئی۔

"جاؤ۔۔۔جا کر تیار ہو جاؤ۔۔۔"

وہ اُسے الگ کر کے اُسکا گال ٹھپکتے ہوئے بولیں۔

عالمگیر کو گئے 7 وا دن تھا اور رحمت بیگم کی طبیعت بھی کافی سنبھل چکی تھی تو عشنا کو جانے کو کہا کیونکہ اُسکی اسٹڈیز کا نقصان ہو رہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


3 سال پہلے


"ہیلو۔۔۔۔"

عالمگیر لیپ ٹاپ پر انہماک سے بیٹھا کام کر رہا تھا اُسکے ہاتھ مسلسل کی بورڈ پر چل رہی تھی۔تب ہی اُسکا موبائل رنگ ہوا۔اسنے ایک ہاتھ سے موبائل اٹھا کر کان سے لگایا اور ہیلو کہا لیکن دوسری طرف مکمل خاموشی تھی۔

اسنے موبائل چہرے کے آگے کر کے  نمبر دیکھا کال کسی انجان نمبر  سے آئی تھی۔ اُس نے موبائل سائڈ پر رکھ دیا اور پھر سے لیپ ٹاپ پر نظریں مرکوز کر دی۔

ابھی چند ہی سیکنڈ گزرے تھے کہ موبائل ایک بار پھر بج اٹھا۔ اُس نے  ہاتھ روک کر موبائل کو دیکھا کال پھر اُسی نمبر سے آ رہی تھی۔اُس نے ماتھے پر سلوٹیں لاتے موبائل آن کر کے کان سے لگا کر پھر سے کہا

"ہیلو۔۔۔۔"

لیکن جواب پھر ندارد۔

وہ جھنجھلا گیا۔

"بھئ جب بولنا نہیں تو کال کیوں کی ہے؟ آپ کی طرح سب فارغ تو نہیں۔۔۔۔"

جواب اب بھی نہیں آیا۔

اُس نے موبائل کو چہرے کے سامنے کیا اور ایک بار پھر ہیلو کہا لیکن جواب نہ پا کر کال بند ہی کرنے لگا تھا تب ہی موبائل پر آواز گونجی۔

"ہیلو۔۔۔۔ہیلو۔۔۔۔آ۔۔۔۔۔۔عالم۔۔۔۔عالمگیر بھائی۔۔۔۔۔"

عالمگیر نے چونک کر موبائل پر شو ہو رہے نمبر کو دیکھا وہ آواز سن کر پہچان چکا تھا کہ کال کے دوسرے طرف کون ہے۔اب وہ پوری طرح سے موبائل کی طرف متوجہ ہو چکا تھا۔

"کون۔۔۔۔"

عالمگیر نے تصدیق کرنے چاہی۔

"اوش۔۔۔۔عشنا۔۔۔۔میں عشنا ۔۔۔با۔۔۔بات کر رہی ہوں۔۔۔۔"

عشنا نے بمشکل کہا۔

"بولو۔۔۔"

عالمگیر کو بےتحاشہ حیرت نے آ گھیرا۔ اس سے پہلے عشنا نے کبھی اُسے کال نہیں کی تھی۔یہ ایسا موقع ہی نہیں آیا تھا ۔ اس لیے عالمگیر کے پاس اُسکا نمبر محفوظ نہیں تھا۔

عشنا کو ایسا کیا کام آ گیا کہ اسنے مجھے کال کی  ہے۔یہی سوچتے وہ اُسکے جواب کا انتظار کرنے لگا۔

دوسری طرف تھوڑی دیر خاموشی رہی پھر آواز اُبھری۔

"وہ۔۔۔ہماری گاڑی۔۔۔ہماری گاڑی خراب ہو گئی ہے۔۔۔تو آپ اختر چاچا کو بھیج دیں نہ پلیز"

اسنے رک رک کر آخر اپنی بات کہ ہی دی۔

عالمگیر نے عشنا کی بات سنتے ہی  اپنے ہاتھ پر بندھی گھڑی کو دیکھا جو 3 بجا رہی تھی۔عمومًا عشنا 1 بجے تک گھر آ جاتی تھی اور آج تو 3 بج رہے تھے۔ اور اختر چاچا؟ وہ ہی تو اُسے کالج لیجانے اور لانے کے کام کرتے تھے۔جب سے عشنا اُن کے ساتھ رہ رہی تھی ایک گاڑی اور ایک بزرگ ڈرائیور جن کا نام اختر بیگ تھا انہیں عالمگیر نے عشنا کے لیے منتخب کر دیا تھا۔ لیکن پھر عشنا نے ایسا کیوں کہا کے میں اختر چاچا کو بھیج دوں؟ اور اسنے کہا ہماری گاڑی۔۔۔مطلب وہ کسی کے ساتھ۔۔۔لیکن کس کے ساتھ تھی عشنا ۔۔۔وہ بھی اتنی دیر تک؟

عالمگیر عشنا کی بات سن کر سوچوں میں گم تھا جب کافی دیر تک عالمگیر کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا تو اسنے پھر سے اُسے پُکارا۔

"آ۔۔۔عالم۔۔۔۔عالمگیر بھائی۔۔۔"

عالمگیر اپنی سوچوں سے باہر آیا ۔

"ہاں۔۔۔کہا ہو تم؟"

اُس نے عشنا سے جگہ کا پوچھا اور لیپ ٹاپ بند کر کے اپنا کوٹ اٹھاتا آفس سے باہر نکل کر پارکنگ  میں کھڑی اپنی کار کی طرف آیا اور  سن گلاسز لگاتا ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی کو عشنا کے بتائے ہوئے ایڈریس پر لے جانے لگا۔ ساتھ ہی اسنے اختر چاچا کو بھی اسی جگہ پر کار لانے کو کہا جو اسنے عشنا کے لانے اور کے جانے لے منتخب کر رکھی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عشنا مسلسل کار کے پاس کھڑی اپنی کار کا انتظار کرنے لگی۔

آج کالج سے نکلتے وقت اُس کی کچھ سہیلیاں زبردستی اُسے شاپنگ کے لیے اپنے ساتھ لے گئیں تھیں۔عشنا نے اُنھیں منع بھی کیا لیکن وہ بضد تھیں تو اُسے مانتے ہیں بنی۔اُس نے گیٹ پر کھڑے اختر  چاچا کو گھر بھیج دیا تھا اور ساتھ پھوپھو کو اطلاع دینے کی بھی تاکید کر دی تھی۔

وہ اختر چاچا کو مال میں آنے کا کہ رہی تب ہی اُسکی ایک دوست مہوش نے اُس سے کہا تھا کہ وہ اُسے ڈراپ کر دیگی۔اس لیے ڈرایور کو نہ بلائے۔

اب جب وہ لوگ شاپنگ کر کے گھر کے لیے نکلے تو راستے  میں گاڑی خراب ہو گئی تھی اور ڈرائیور اُسے ٹھیک کرنے سے قاصر تھا۔

وہ ساری لڑکیاں تھی اور راستہ بھی سنسان پڑا تھا۔سب پریشان ہو کر اپنے گھر میں کسی نا کسی کو کال کر رہی تھیں لیکن کوئی بات نہیں بن پائی تو اُس نے پھوپھو کو کال کی لیکن انکا نمبر بند جا رہا تھا اور لینڈ بزی تھا بہت دیر سے ۔ اور اختر چاچا کا نمبر اُس کے پاس تھا نہیں۔ابھی تک کبھی ایسا موقع ہی نہیں آیا تھا ہمیشہ وہ وقت سے پہلے موجود ہوئے تھے۔ اب مجبوراً عالمگیر کو کال کرنا پڑی تھی۔

اب وہ مسلسل اختر چاچا کے آنے کا انتظار کر رہی تھی 

تب ہی ایک کار اُسکے پاس آ کر رکی۔

عشنا  نے تذبذب سے کار سے نکلتے عالمگیر کو دیکھا۔ 

"میں نے  تو اختر چاچا کو بھیجنے کو کہا تھا۔۔۔یہ یہاں خود کیوں آ گئے۔۔۔۔" 

عشنا نے آنکھیں بڑی کر کے اُسے دیکھا اور تھوک نگلتے ہوئے سوچا

عالمگیر اپنا سن گلاسز نکالتے چلتا ہوا عشنا کے قریب آ کر رکا۔

"آپ یہاں اس وقت کیا کر رہیں ہیں۔۔۔۔اور اختر چاچا کو گاڑی گھر لے جانے کو کیوں کہا تھا؟"

عالمگیر نے آنکھوں کو پُتلیاں سکیڑ کر اُسے دیکھا۔

"وُہ۔۔۔۔وہ ۔۔۔آ۔۔۔عالم۔۔۔۔عالمگیر بھائی۔۔۔میں۔۔۔۔"

ابھی وہ اُسے اپنے شاپنگ کا بتانے ہی لگی تھی کے اختر چاچا کار سمیت وہاں پہنچ گئے اور عالمگیر کے پاس آ کر ادب سے سلام کیا۔

"روکو ۔۔۔"

عشنا جو اختر چاچا کو کار سمیت آتا دیکھ چکی تھی فوراً کار کی طرف بڑھی۔ لیکن عالمگیر نے اُسے روک دیا۔

"آپ ان سب کو انکے انکے گھر ڈراپ کریں اور پھر گھر پہنچیں۔ عشنا چلو۔"

عالمگیر اختر چاچا کو کہتا آخر میں عشنا کو مخاطب کر کے بولا تو عشنا پریشان سے کھڑی رہی۔

عشنا یہ سوچ سوچ کے پریشان تھی کے وہ اُسے اپنے اتنی دیر باہر رہنے کا کیا بتائیگی اور اب یہ اُسکے ساتھ چلنے کا حکم۔۔۔۔وہ پریشان ہی تو ہو گئی تھی۔

"عشنا۔۔۔۔سنا نہیں تم نے؟ کار میں آ کر بیٹھو ۔۔"

عالمگیر نے اس بار ڈپٹ کر کہا تو وہ مہوش کی کار سے شاپنگ باغ نکالتی اُن سب سے الوداعی کلمات کہتے عالمگیر کی کار کی طرف آئی اور بیک سیٹ کا دروازہ کھول کر بیگ رکھے اور خود بھی بیٹھ گئی۔

"میں تمہارا ڈرائیور نہیں ہوں جو تم جا کر پیچھے بیٹھی ہو۔ آگے آ کر بیٹھو۔"

عالمگیر جو سن گلاسز لگائیے ڈریسنگ سیٹ پر بیٹھا اُسکا کار میں بیٹھنے کا انتظار کر رہا تھا اُسے بیک سیٹ پر بیٹھتا دیکھ کر غصے سے بولا۔

"محترمہ کو میں ڈرائیور نظر آتا ہوں۔۔۔"

وہ زیرِ لب بڑبڑایا۔

وہ اُس کے غصے سے خائف ہو کر جلدی سے آ کر فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی ۔

اُسکے بیٹھتے ہی عالمگیر نے گاڑی آگے بڑھا دی۔

"شاپنگ پر جانا تھا تو امی یہ ڈرائیور کے ساتھ چلی گئی ہوتی۔۔۔ایسے اکیلے ۔۔۔۔"

عالمگیر نے دھیمے لہجے میں کہا۔

"I am sorry۔۔۔۔۔

میں نے۔۔۔۔میں نے۔۔۔ مہوش کو منع بھی کیا تھا۔۔۔لیکن۔۔۔۔

لیکن وہ نہیں مانی۔۔۔زبردستی مجھے۔۔۔۔۔" 

اُسکے آنکھوں سے تواتر سے آنسوؤں بہنے لگے۔

عالمگیر نے اُسے روتا دیکھا تو کار سائڈ پر روک کر اس کی طرف مڑ کر بیٹھ گیا اور جیب سے رومال نکل کر اُس کی طرف بڑھایا۔

"میں نے ایسا تو کچھ نہیں کہا جو تم اس قدر رو رہی ہو۔۔۔"

عالمگیر کو نا جانے کیوں اُسکا رونا پریشان کر گیا۔

"عشنا نے آہستہ سے اُس سے رومال لے کار آنسو صاف کیے اور اُسے دیکھا جو چہرے سے پریشان لگتا تھا 

"وہ میں ۔۔۔میں۔۔۔"

"شّش۔۔۔۔۔۔کم آن۔۔۔۔۔ رونا بند کرو۔۔۔۔۔اچھا بتاؤ لنچ کر لیا؟"

عالمگیر نے اُسے چپ رہنے کا کہ کر اُس سے لنچ کا پوچھا۔

"نہیں۔۔۔"

"کیوں۔۔۔۔جہاں تم لوگ شاپنگ کر رہے تھے وہاں کھانے پینے کے لیے کچھ نہیں ملتا تھا؟"

عالمگیر نے مجاکاً پوچھا۔

"وہ ۔۔۔وہ دیر ہو رہی۔۔۔دیر ہو رہی تھی تو ۔۔۔مہوش نے کہا تھا لیکن۔۔۔لیکن میں نے منع کر دیا تھا۔"

"افف۔۔۔یہ لڑکی بھی نہ۔۔۔"

اُس نے دل میں سوچا اور کار اسٹارٹ کر کے ریسٹورینٹ کی طرف موڑ دی۔کام کی زیاتی کی وجہ سے وہ بھی لنچ نہیں کر پایا تھا۔اُسکا ارادہ عشنا کے ساتھ لنچ کرنے کا تھا۔

کار ایک ریسٹورینٹ کے پاس روک کر وہ سن گلاسز کو آنکھوں سے ہٹاتا کار سے نکلا اور آ کر عشنا کی طرف کا دروازہ کھولا۔

عشنا نے پہلے سامنے نظر آتے ریسٹورینٹ اور پھر فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولے کھڑے عالمگیر کو سوالیہ انداز میں دیکھا۔

"چلو۔۔۔لنچ کرتے ہیں۔۔۔۔۔ میں نے بھی لنچ نہیں کیا ابھی تک۔۔۔"۔

عالمگیر نے اُسے بتانا ضروری سمجھا۔

"نہیں۔۔۔وہ۔۔۔وہ پھوپھو انتظار۔۔۔انتظار کر رہی ہوں گی۔۔"

عشنا نے منع کرنا چاہا۔

"جلدی نکلو کار سے ۔۔۔میں نے امی کو انفورم کر دیا ہے۔"

عالمگیر کہتا ریسٹورینٹ کے داخلی دروازے کی طرف بڑھ گیا تو اُسے بھی ناچار کار سے نکلنا پڑا۔

وہ بھی چلتی ہوئی عالمگیر کے پاس ریسٹورینٹ کے اندر آ گئی۔

عالمگیر اُسے ایک ٹیبل پر بیٹھا نظر آیا۔ وہ اُسکے سامنے والی چیئر پر بیٹھ گئی تو عالمگیر مینو دیکھنے لگا۔

اسنے مینو دیکھنے کے بعد اُسکی طرف بڑھایا تو عشنا نے مینو تھام لیا۔

اُسے کچھ کھانے کا دل نہیں چاہ رہا تھا۔ وہ بس جلد سے جلد گھر پہنچنا چاہتی تھی ۔وہ یوں ہی مینو لیے اُسے دیکھے جا رہی تھی چونکی تو تب جب عالمگیر نے ٹیبل کو اپنی انگلیوں سے زار سا بجایا۔ عشنا نے نظر اٹھا کر اُسے دیکھا تو وہ آگے کی طرف جھکا اُسے غور سے دیکھ رہا تھا۔

عشنا نروس ہونے لگی۔

" کیا کھاوگی ؟"

عالمگیر نے مسکرا کر پوچھا

"کچھ۔۔۔کچھ نہیں۔۔۔آپ اپنے لیے منگوا لیں۔۔۔"

عالمگیر کی مسکراہٹ سمٹی۔

"چلو۔۔۔میں تمہیں گھر چھوڑ دیتا ہوں۔۔۔"

عالمگیر اکثر ہی لنچ اسکیپ کر دیتا تھا۔کبھی کسی میٹنگ وغیرہ میں ہوتا،تو کبھی کوئی کان کال میں بیزی رہتے اکثر ہی اُسکا لنچ رہ جاتا تھا۔آج عشنا کے اب تک بھوکے رہنے کا سن کر نجانے اُسے کیا سوجھی تھی کے اُسے لیے ریسٹورینٹ میں آ گیا۔شاید اُسے عشنا کے بھوکے رہنے کی فکر تھی اسلئے جیسے ہی اسنے کھانے سے منع کیا وہ کھڑا ہو گیا ۔

"بریانی۔۔۔۔بریانی کھانا ہے مجھے۔۔۔"

عشنا نے اُسے ایسے اٹھتا دیکھا تو شرمندگی نے اُسے آ گھیرا۔اُس کے انکار کی وجہ سے وہ بھی بھوکا اٹھ گیا تھا۔

عالمگیر کے چہرے پر مسکراہٹ رینگ کر معدوم ہو گئی۔ وہ دوبارہ  چیئر پر بیٹھا اور ویٹر کی طرف اشارہ کر کے اُسے پاس بلایا اور آرڈر نوٹ کروانے لگا۔

اسنے اپنے لیے مٹن کڑاہی اور نان بنگوایا تھا جب کے عشنا کے لیے بریانی ۔ساتھ کولڈ ڈرنکس اور کباب بھی ۔

عالمگیر کو چکن بہت پسند تھا لیکن وہ باہر چکن کھانے سے اجتناب کرتا تھا۔

عشنا تذبذب سی بیٹھی کھانا آنے کا انتظار کرنے لگی۔

"عشنا ۔۔۔۔"

"عالمگیر کی آواز پر عشنا نے نظریں اٹھا کر اُسے دیکھا تو وہ بھی اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔

وہ اپنا ہاتھ باہم پھنسائے گود میں رکھے پریشان لگتی تھی

"is there any problem?"

(کوئی پریشانی ہے؟)

عالمگیر کے پوچھنے پر وہ کچھ کہنے ہی لگی تھی کہ کھانا آ گیا۔دونوں چپ ہو گئے۔

ویٹر کھانا لگا کر جا چکا تھا۔اب دونوں کھانے کی طرف متوجہ ہو چکے تھے۔عالمگیر کھانا کھاتے ہوئے بھی عشنا کو ہی دیکھ رہا تھا جو برائے نام ہی کھا رہی تھی۔ عالمگیر کو اندازہ ہو گیا کے وہ یہاں کنفرٹیبل فیل نہیں کر رہی۔ اس لیے اسنے بھی جلدی سے کھانا ختم کیا اور بل منگوا لیا۔اُسکا ارادہ اُسے آئس کریم کے لئے پوچھنے کا تھا لیکن عشنا کی پریشان شکل دیکھ کر اسنے اپنا ارادہ ترک کر دیا۔

بل آیا تو وہ بل پے کر کے کھڑا ہو گیا۔عشنا بھی ساتھ تھی۔دونوں باہر کی طرف آ گئے جہاں اُنکے کار کھڑی تھی۔عالمگیر ابھی سیڑھیاں اتر ہی رہا تھا کہ اُسکا سیل بجنے لگا۔اسنے فون جیب سے نکال کر نمبر دیکھا تو آفس سے کال آ رہی تھی۔اسنے عشنا کو کار میں بیٹھنے کا کہا اور کال آن کر کے کان سے لگا لیا۔

"بولو۔۔۔ہاں۔۔۔اوکے۔۔۔میں تھوڑی دیر میں پہونچ رہا ہو۔۔۔۔نہیں میں ۔۔۔"

ابھی اُسکی بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کے اسنے دیکھا ایک بچہ دوڑتا ہوا آیا اور عشنا جو کار میں بس بیٹھنے ہی والی تھی اُس سے بری طرح ٹکڑا  گیا۔

عشنا جو اپنی دھن میں کار کا دروازہ کھولنے کے لیے ہاتھ بڑھا رہی تھی بچّے کے ٹکرانے سے اپنا بیلنس برقرار نہیں رکھ سکی اور وہ زمین بوس ہو جاتی  اگر عالمگیر جو اُسے گرتے دیکھتا اُسکی طرف تیزی سے آ کر اُسے تھام نہ لیتا۔

عشنا نے اس اچانک افتداد پر ڈر کر آنکھیں بند کر لی تھی اور دونوں ہاتھوں کی مٹھی بنا کر آنکھوں پر رکھ لیا۔ لیکن جب کسی کے بازؤں کا لمس اپنی کمر پر محسوس کر کے آنکھیں کھولیں تو عالمگیر کو خود پر جھکا پایا ۔عالمگیر جو اُسے اپنے بازوں میں سمیٹ چکا تھا اُسکی آنکھ پر موجود ہاتھوں کی موٹھیوں کو دیکھ کر محویت سے اُسے دیکھے جا رہا تھا۔اُسکا انداز اتنا معصومانہ تھا کہ عالمگیر کو اپنا دل ڈوبتا محسوس ہوا۔

عشنا عالمگیر کو اپنی طرف دیکھتے پا کا کر ایک جھٹکے سے کھڑی ہوئی اور اپنے کپڑے ہاتھوں سے ٹھیک کرنے لگی ۔

عالمگیر نے گڑبڑا کر اپنی نظروں کا رخ دوسری طرف کر لیا لیکن سامنے کھڑی سنبل کو دیکھ کر اُسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔وہ سینے پر ہاتھ باندھے اُن دونوں کو ہی دیکھ رہی تھی۔شاید وہ عشنا کا گرنا اور عالمگیر کو اُسے سنبھلنا  دیکھ چکی تھی۔

عشنا فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھول کر بیٹھ گئی۔اُس نے سنبل کو نہیں دیکھا تھا۔

سنبل چلتی ہوئی عالمگیر کے پاس آ کر رکی اور اُسکی شرٹ پر پڑنے والی سلوٹیں جھاڑنے کے انداز میں ٹھیک کرنے لگی۔ اُسکے انداز میں اس قدر شدّت تھی کے عالمگیر کو محسوس ہوا جیسے وہ عشنا کا لمس اُسکے بدن سے مٹانا چاہتی ہو۔

"She was felling down، she might get hurt if I haven't save her"

"(وہ گر رہی تھی۔اُسے چوٹ لگ جاتی اگر میں اُسے سنبھل نہ لیتا)"

"ہاں۔۔۔دیکھا میں نے۔۔۔اچھا کیا تم نے۔۔۔ یہاں کیسے؟ "

سنبل نے اُسکی بات کو نظر انداز کر کے اس سے یہاں ہونے کہا پوچھا۔

"لنچ کرنے آیا تھا یار۔۔۔"

اسنے بتایا ۔

"اتنی لیٹ؟ "

اسنے گھڑی دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"یار ایکچُلی بات۔۔۔۔"

اُسکی بات ابھی پوری نہیں تھی کے اُسکا سیل پھر بجنے لگا۔وہ اُس سے ایکیوز کرتا کال سننے لگا۔

سنبل چلتی ہوئی کار کی طرف آئی اور عشنا کو کڑی نظروں سے گھورا۔عشنا جو نروس سی اپنے گود میں رکھے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی۔ کسی کی نظریں خود پر محسوس کر کے نظریں اٹھائی تو سنبل کو دیکھ کر کو سٹپٹا گئی اور کار سے نکلنے لگی تب ہی عالمگیر  آتا دیکھ روک گئی۔عالمگیر کال ختم کر کے اُنکے پاس آ گیا۔ 

سنبل جو کار کی بیک سیٹ پر پڑے شاپنگ بیگز کو دیکھ چکی تھی عالمگیر کو دیکھ کر پوچھنے لگی۔

"اوہ۔۔۔تو شاپنگ کرتے دیر ہو گئی ۔اس لیے اتنا لیٹ ہو گیا لنچ کرنے میں۔۔۔"

"سنبل پلیز۔۔یہ اپنی۔۔۔جانے دو۔۔

I am getting late. Will meet you later.

(مجھے دیر ہو رہی۔تم سے بعد میں ملتا ہُوں)

عالمگیر نے کہنے کے ساتھ ہی ڈرائیونگ سیٹ کی طرف بڑھ کر دروازہ کھولتا کار میں بیٹھا اور سن گلاسز آنکھوں پر لگاتا کار آگے بڑھا لے گیا۔

عالمگیر کو اپنی صفائی دینا اچھا نہیں لگا تھا۔

سنبل نے غصے میں اُسے جاتا دیکھا اور خود بھی اپنی کار کی طرف بڑھ گئی۔

عالمگیر نے عشنا کو گھر ڈراپ کیا اور خود آفس آ گیا۔

وہ سنبل کی باتوں سے بری طرح ڈسٹرب ہو گیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


حال


"عشنا بیٹا۔۔۔۔ تیار ہو گئی؟"

رحمت بیگم نے پوچھا۔

جی پھوپھو بس 2 منٹ میں آئی۔ عشنا کہتے ہوئے الماری کی طرف آئی اور کپڑے بیگ میں رکھنے لگی۔

ابراہیم صاحب اُسے لینے آئی تھے اور لاؤنج میں بیٹھے اُسکا انتظار  کر رہے تھے۔

عشنا بیگ میں سامان رکھنے کے بعد کمرے سے نکلی لیکن لاؤنج میں ابراہیم صاحب کے پاس جانے سے پہلے عالمگیر کے کمرے کی طرف آئی اور اُسکے کمرے کو نظر بھر کے دیکھنے لگی۔  اُسکے کچھ گنٹو کے قیام نے اس کمرے کو کس قدر اپنی خوشبو سے معطر کر دیا تھا۔ وہ کمرے کی ایک ایک چیز کو دیکھ رہی تھی۔اُسکا بیڈ۔۔۔اُسکی الماری۔۔۔اُسکا ڈریسنگ ٹیبل۔۔۔کمرے کا گوشہ گوشہ اُسکی یاد سے بھرا تھا۔ وہ چلتی ہوئی ڈریسنگ ٹیبل کے پاس آئی اور اُس پر رکھی پرفیوم کی بوتل کو اٹھا کر اپنے ناک کے پاس لے جا کر سونگھنے لگی۔۔۔اُسکی خوشبو۔۔۔یہی خوشبو تو عشنا کو خود سے آتی محسوس ہوتی تھی جب جب وہ اُسے اپنے حصار میں لیتا تھا۔اُس نے آہستہ سے آنکھوں میں آتے آنسوؤں کو ہاتھوں کی پشت سے صاف کیا اور بوتل کو اپنے بیگ میں رکھ کر لاؤنج میں آ گئی۔

ابراہیم صاحب اُسے دیکھتے ہی کھڑے ہو گئے اور عشنا کے ہاتھوں سے بیگ لے کر رحمت بیگم کی طرف متوجہ ہوئے 

"اچھا آپا۔۔۔تو ہم چلتے ہیں۔۔۔"

"ٹھیک ہے ابراہیم۔۔ سنبھل کے جانا اور پہنچتے ہی کال کر دینا۔"

اب وہ لوگ کار کے پاس کھڑے تھے اور رحمت بیگم ابراہیم صاحب کو ہدایت دے رہیں تھیں۔

"ٹھیک ہے آپا۔۔۔"

انھونے رحمت بیگم سے کہا۔

عشنا رحمت بیگم کے گلے لگی اور جب الگ ہوئی تو اُنہوں نے اُسکے گال چوم کر اپنا خیال رکھنے کی تاکید کی ۔

وہ اثبات میں سر ہلاتی کار میں ابراہیم صاحب کے ساتھ بیٹھ گئی۔ڈرائیور نے اُنکے بیٹھتے ہی کار آگے بڑھا لی ۔عشنا نے کار سے ہاتھ نکال کر ہاتھ ہلایا تو رحمت بیگم نے بھی مسکرا کر ہاتھ ہلایا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


حال


"السلام و علیکم"

عشنا کالج گیٹ کے اندر آئی تو تھوڑی ہو دور کھڑی اپنی دوستوں کی ٹولی نظر آئی تو وہ چلتی ہوئی اُن کے پاس آئی اور انہیں سلام کیا۔

"وعلیکم السلام۔۔۔۔وعلیکم اسلام۔۔۔ آج تو بڑے بڑے لوگ کالج آئیں ہیں۔۔۔"

نازیہ نے ہاتھ ہوا میں ذرا سا اونچا کر کے چہرے کے زاویئے کو ذرا سا ستائشی بنا کر کہا۔

"بکو مت۔۔۔۔"

کہنے کے ساتھ ہی اسنے ایک دھموکا اُسکی کمر پر جڑ دیا تو وہ بلبلا اٹھی۔

کرن اور شازیہ کھلکھلا کر ہنسی جس میں عشنا کی ہنسی بھی شامل تھی لیکن نازیہ کے گھور کر دیکھنے پر انکی ہنسی پر بریک لگ گیا۔

"ہائے ظالم ۔۔۔۔کمر توڑ دی میری۔۔۔"

وہ اپنی پیٹھ سہلاتے ہوئے بولی۔

"ویسے یار تم تھیں کہاں؟ پروفیسر امتیاز 2 دنوں سے تمہارا پوچھ رہے ہیں۔

"میں پھوپھو کی طرف گئی تھی۔ اُن کی طبیعت خراب تھی نہ۔۔۔اور وہ اکیلی بھی تھیں تو۔۔۔۔اور تم بتاؤ ۔۔۔ویئر امتیاز میرا کیوں پوچھ رہے تھے؟"

عشنا نے اُنھیں اپنے نا آنے کی وجہ بتائی اور ساتھ ہی سوال بھی کیا۔

"کیوں؟ عالمگیر بھائی نہیں آئے تھے؟"

ایک دن نازیہ کا سیل فون بیٹری ختم ہو جانے کے باعث بند ہو گیا تھا اور وہ دیر  تک ڈرائیور کا انتظار کرتی رہی لیکن جب کافی  دیر تک ڈرائیور نہیں آیا تو اسنے عشنا کے سیل سے اُسے کال کی تھی ۔ڈرائیور نے بتایا کہ وہ ٹریفک میں پھنس گیا ہے تو نازیہ نے اُسے جلدی آنے کی ہدایت دیتے کال کاٹ دی تھی۔

عشنا جو چہرے کا رخ شازیہ اور کرن کی طرف کیے انکی کوئی بات سن رہی تھی تو اُسے اپنی طرف متوجہ نہ پا کر نازیہ نے ایسے ہی اُسکی پکچر  گیلری اوپن کر لی۔اُس میں عشنا کے ابراہیم صاحب، کوثر بیگم اور ایک تصویر رحمت بیگم کی بھی تھی جو عالمگیر کے ساتھ موجود تھی۔

نازیہ نے اُس تصویر کو دو انگلیوں سے زوم کیا اور غور سے دیکھنے لگی۔

"ہو گئی کال؟ کیا کہا ڈرائیور نے؟"

عشنا شازیہ اور کرن اب تینوں ہی نازیہ کی طرف متوجہ ہوئی تو عشنا نے ڈرائیور کا پوچھا۔ اور سیل اُسکے ہاتھ سے لینا چاہا  جو اُس نے ہاتھ کمر کے پیچھے کر کے اُسکی کوشش کو ناکام بنا دیا تھا۔

"یہ کیا بتمیزي ہی؟"

اسنے کھا جانے والی نظروں سے اُسے دیکھتے ہوئے کہا۔

"ایک شرط پر ملےگا فون۔۔۔"

اُس نے فون واپس کرنے کے لئے شرط رکھی۔

"شٹ اپ نازیہ۔۔۔۔میرا فون واپس کرو۔۔۔"

اسنے غصے میں کہا۔

پہلے بولو شرط منظور؟

وہ اپنے مطالبے پر قائم رہی۔

شازیہ اور کرن بھی دلچسپی سے اُنھیں دیکھنے لگیں۔

"مرو۔۔۔۔فوٹو کیا شرط ہے۔۔۔بتاؤ کیا زمانہ آگیا ہے۔۔۔کسی کو مدد کرنے جاؤ تو لوگ آگے سے شرطیں رکھتے ہیں"

اسنے میں منہ ٹیڑھا کر کے کہا تھا۔

نازیہ نے جھٹ موبائل اُسکے سامنے کیا اور بولی۔

"یہ ہینڈسم کون ہے "

اسنے عالمگیر کو اور زوم کر کے عشنا کے سامنے کیا تھا۔

"یہ۔۔یہ میرے۔۔۔یہ میرے پھوپھو کے بیٹے ہے ۔۔۔عالمگیر۔۔۔۔"

اسنے تھوک نگلا اور بولی تھی۔

اوہو۔۔۔کیا بات ہے۔۔۔ہائے کتنے ہینڈسم ہے  نہ۔۔۔۔اللہ مجھے کیوں نہیں دیا ایسا پیار کزن۔۔۔۔"

اُس نے ستائشی نظروں سے موبائل سکرین پر جمی عالمگیر کی تصویر کو دیکھ کر کہا تھا۔کرن اور شازیہ بھی آگے آ کر تصویر کو دیکھنے لگیں۔

"یار سچ میں کتنے  ہینڈسم ہیں۔۔۔"

کرن اور شازیہ نے بھی تعریف کی۔

"عالمگیر کے بارے میں تبصرے کرتا دیکھ اُسکی شدید غصّہ آیا جو وہ بر وقت سنبھالے ہوئے تھی۔

اس سے پہلے کے وہ لوگ کوئی اور تبصرے کرتے اسنے موبائل جھپٹنے والے انداز میں نازیہ کے ہاتھ سے لیا۔

عشنا کے موبائل چھین لینے پر نازیہ اٹھلا کے بولی تھی۔

"اوہو۔۔۔۔تو اب لوگوں کو یہ بھی نہیں پسند کہ ہم، بقول اُنکے۔۔۔۔"

بقول اُنکے پر زور دیا گیا تھا

انکے پھوپھو کے بیٹے کو دیکھیں بھی۔۔۔ہائے اللہ جی۔۔۔۔ہمیں بھی کوئی ایسا کزن دیا ہوتا آپ نے تو ہم بھی اپنی سہیلیوں میں ایسے ہی اتراتے۔"

عشنا اپنے آپ کو لانت ملامت کرنے لگی کے اسنے اس نازیہ کی بچی کو فون دیا ہی کیوں۔

تب ہی سے وہ تینوں اسے عالمگیر کے نام سے چھیڑنے لگی تھیں۔

آج جب اُس نے اُنھیں بتایا کہ اُسکے اتنے دن کالج نہ آنے کی  وجہ پھوپھو کے  گھر جانا تھا تو بس۔۔۔۔اُنہیں پھر موقع مل گیا ۔

"وہ بہت بزی ہوتے ہیں۔۔۔اُنھیں وقت نہیں مل پاتا زیادہ اس لیے۔۔۔"

عشنا نے عالمگیر کا بتایا۔

"اوہو۔۔۔اُن۔۔۔۔۔۔۔۔"۔

نازیہ نے اُن کو ذرا لمبا کھینچا تو وہ دونوں بھی ہنس دی۔

عشنا کی بات  نے اُن کی ہنسی کو مکمل نہ ہونے دی۔

"مرو تم لوگ۔۔۔" 

کہتی وہ کلاس کی طرف بڑھ گئی تھی جو تھوڑی ہی دیر میں شروع ہونے والی تھی۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

3 سال پہلے


"ہارون میری بات سمجھنے کی کوشش کرو۔۔۔"

رحمت بیگم نے ہارون  صاحب کو کال کی تھی تاکہ اُنھیں عالمگیر اور سنبل کی انگیجمنٹ میں انوائٹ کر سکیں۔ اب صرف 10 دن رہ گئے تھے اُنکی انگیجمینٹ میں۔

ہارون صاحب نے اُنکی بات سنتے ہی اُنھیں بری طرح جھڑک دیا تھا۔

"آپا۔۔۔آپ ۔۔۔آپ میری بیٹی کو ٹھکرا کر کسی غیر لڑکی سے عالمگیر کی منگنی کر رہی ہیں اور آپ چاہتی ہیں میں بے غیرتوں کی طرح اس میں شرتکت بھی کروں؟"

"ہارون میری بات سمجھنے کی کوشش کرو۔۔۔عالمگیر اور سنبل ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔۔۔۔میں کیسے ۔۔۔۔اور اسنے صرف مرحہ ہی نہیں عشنا کے لیے بھی منع کر دیا ہے۔"

رحمت بیگم نے بےبسی سے کہا

"اوہ۔۔۔تو ابراہیم کی وجہ سے ہوا ہے یہ۔۔۔۔اُس نے عشنا جب دیکھا کے میں نے آپ سے مرحہ کے لیے کہا ہے تو اسنے عشنا کیلئے آپ سے کہ دیا۔۔۔وہ۔۔۔بھائی ہو کر میرے پیٹھ میں۔ خنجر گھوپنا  اُس  نے؟"

وہ غصے میں بولے۔

"نہیں ہارون۔۔۔وہ سنبل کو اپنے یونیورسٹی کے دونوں سے پسند کرتا ہے۔"

اُنہوں نے جیسے صفائی دی ہو۔

"عالمگیر نے میری بیٹی کے لیے منع کیا ہے۔۔۔آپا آپکا بیٹا کیا سمجھتا ہے کہ وہ میری بیٹی کو ٹھکرا دے گا تو میری بیٹی بیٹھی رہیگی؟ یہ اُسکی خام خیالی ہے۔۔میری بیٹی کے لیے بیسوں رشتے آئے ہیں لیکن اس سب پر میں نے آپ کو اور عالمگیر کو ترجیح دی تھی۔لیکن اس نے۔۔۔اُس نے میری  بیٹی کے لیے منع کر کے مرحہ کو ہی نہیں مجھے بھی ٹھیس پہنچائی ہے۔اور آپا یاد رکھیں۔۔۔دوسروں کو ٹھیس پہنچانے والے خود بھی کبھی خوش نہیں رہتے۔۔۔۔"

"ہارون۔۔۔۔"

رحمت بیگم نے تڑپ کر اُنھیں پُکارا۔

"ہارون ۔۔تم میرے بیٹے کو بددعا دے رہے ہو؟"

"آپا جب دل کو ٹھیس پہنچتی ہیں نہ تو دعائیں نہیں نکلا کرتی"

ہارون صاحب نے کہا اور کال کاٹ دی۔

رحمت بیگم صوفے پر بیٹھی ہاتھوں میں سر کو گرا گئیں۔

اگر ہارون اس طرح سے بد دل ہے تو ابراہیم ۔۔۔تو کیا ابراہیم بھی مجھے اسی طرح۔۔۔

رحمت بیگم کچھ دیر یوں ہی بیٹھی رہیں اور کچھ سوچتے ہوئے ابراہیم صاحب کو کال ملا دی۔

دوسری طرف ابراہیم صاحب نے کال ریسیو کرتے ہی اُنھیں سلام کیا اور ساتھ ہی اُنکی خیریت بھی دریافت کی۔

"السلام و علیکم آپا۔۔۔۔کیسی ہیں آپ۔۔۔؟"

"ابراہیم تم بھی ہارون کی طرح مجھے برا بھلا کہ سکتے ہو۔۔"

اُنہوں نے بھیگی ہوئی آواز میں کہا

"آپا یہ کیا ہو گیا ہے آپ کو؟ میں کیوں کہونگا آپ کو برا بھلا۔"

ابراہیم صاحب نے حیرت سے پوچھا

"کیونکہ عالمگیر نے عشنا اور مرحہ دونوں کے لیے انکار کر دیا ہے اور وہ اپنی کلاس فیلو سنبل کو پسند کرتا ہے ۔"

رحمت بیگم نے اُنہیں بتایا۔شاید وہ خود کو ابراہیم صاحب کی باتیں سننے کے لئے تیار کر چکی تھیں۔

"مرحہ۔۔۔۔کیا ہارون نے آپ سے مرحہ کے لیے بات کی تھی۔۔۔؟"

ابراہیم صاحب کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔

"ہاں،تمہارے بات کرنے سے کچھ دن پہلے اُس نے مجھ سے عالمگیر کے لیے مرحہ کا کہا تھا۔"

اُنہوں نے بتایا۔

"تو آپا ۔۔آپ نے مجھے بتایا کیوں نہیں۔۔۔اگر آپ مجھے بتا دیتیں تو میں اپنی عشنا کے بارے میں بات ہی نہیں کرتا ۔۔۔آپا آپ تو جانتی ہیں نہ ہارون کو۔۔۔وہ غصے کا کتنا تیز ہیں۔ اُسے یہ نہ لگے کے میں نے جان بوجھ کر عشنا کے لیے عالمگیر کا رشتہ مانگا ہے۔"

اُنہوں نے پریشان ہوتے ہوئے کہا 

"ابراہیم میں نے سوچا تھا پہلے عالمگیر سے بات کر لوں پھر تمہیں اور سب کو بتاونگی لیکن اُسکے پہلے ہی تم نے عشنا کے لیے کہا تو میں نے تمہیں مرحہ کا نہیں بتایا۔"

اُنہوں ساری بات بتا دی۔

"لیکن جب میں نے عالمگیر سے دونوں رشتوں میں سے کسی ایک لیے ہاں کہنے کو کہا تب اسنے مجھے بتایا کہ۔۔۔"

وہ رکیں

"اسنے مجھے بتایا کہ وہ اپنی کلاس فیلو سنبل کو پسند کرتا ہے۔ اب تم ہی بتاؤ ابراہیم۔۔۔میں کیسے اپنے بچّے کی خوشیوں کے بیچ میں آؤں؟ اگر وہ  اور سنبل  ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں تو کیا عالمگیر کو عشنا یہ پھر مرحہ کے لیے مجبور کرنا ٹھیک ہوگا؟ اور اگر مان لو ہم نے اُسے مجبور کر بھی دیا تو کیا یہ بچیوں کے ساتھ زیادتی نہیں ہوگی؟"

اُنہوں نے بھیگی آواز میں کہا۔

"آپا آپ صحیح کہ رہیں ہیں۔مجھے کوئی پروبلم نہیں ہے۔اگر عالمگیر کسی اور کو پسند کرتا ہے تو ٹھیک ہے۔ اللہ اُسے خوش اور آباد رکھے۔ آپ بالکل بھی فکر نہ کریں ۔ میں آپ کے ساتھ ہوں۔تو بتائیے کب کی تاریخ رکھی ہے شادی کی؟ بھئی میرے اکلوتے بھانجے کی شادی ہے۔ اُسکی شادی کو سارا شہر دیکھے گا۔"

ابراہیم صاحب جوش سے بولے۔

"جیتے رہو ابراہیم۔۔۔۔تم نے آج اپنی آپا کا مان رکھ لیا۔"

اُنہوں نے دوپٹے سے آنسوؤں صاف کرتے ہوئے کہا۔

"آپا کیسی باتیں کرتی ہیں۔ ابراہیم میرے بیٹے جیسا ہے۔"

اُنہوں نے فخریہ انداز میں کہا۔

"بالکل۔۔۔"

رحمت بیگم نے مسکرا کر کہا۔

"تو بتائیے کب کی تاریخ رکھی ہے؟"

ابراہیم صاحب نے پھر سے پوچھا۔

"ابھی تو اگلے اتوار کو منگنی رکھی ہے۔ تم کوثر اور امّا کو لے کر آ جانا۔ سجاد کے بعد تم اور ہارون ہی تو میرے کُل رشتےدار ہو۔"

اُنکی آنکھیں پھر  سے  بھیگ گئیں ۔

"کیوں نہیں آپا۔۔۔ضرور۔۔۔ہم ضرور آئینگے۔۔۔ہم اگلے جمعہ تک پہنچ جائیگی۔"

اُنہوں نے رحمت بیگم کو تسلی دی۔

"شکریہ ابراہیم۔۔۔"

"آپا اس میں شکریہ والی کیا بات ہے ۔۔؟ اچھا سنیں۔۔غلطی سے بھی ہارون کو یہ مت بتانا کے میں آپ نے عشنا کی بات کی تھی۔ورنہ آپ تو جانتی ہی ہیں وہ کس قدر جذباتی ہے۔"

اُنہوں نے راحت بیگم کو بتانا ضروری سمجھا۔

"لیکن ابراہیم۔۔۔"

وہ رکیں۔

"لیکن کیا آپا۔۔ آپ نے کہیں۔۔۔"

ابراہیم صاحب نے پریشانی سے پوچھا۔

"ابراہیم۔۔۔تھوڑی دیر پہلے ہارون کو میں  نے عالمگیر  کی منگنی میں بلانے کے لیے کال کی تھی اور باتوں باتوں میں، میں نے اُسے بتا دیا کے اگر عالمگیر نے مرحہ کے لیے منع کیا ہے تو عشنا کے لیے بھی تو ہاں نہیں کی۔"

اُنہوں شرمندہ ہوتے ہوئے بتایا۔ ابراہیم ٹھیک کہتا تھا اگر میں نے اُسے عشنا کا نہیں بتایا ہوتا تو شاید وہ اس قدر نہ بگڑتا۔

"آپا ۔۔۔۔۔آپا۔۔۔یہ آپ نے کیا کر دیا۔۔۔"

وہ اچھے خاصے پریشان ہو گئے تھے۔

"ابراہیم مجھ سے غلطی ہو گئی لیکن اب کیا کریں ۔۔۔۔"

اُنھیں بھی پریشانی لاحق ہوئی۔

"آپا اب ہمیں اُسکا غصّہ ٹھنڈا ہونے کا انتظار کرنا ہوگا۔"

ابراہیم صاحب نے کہا۔

"ٹھیک ہے آپا۔۔۔پھر ہم اگلے ہفتے اسلام آباد پہنچ جائیںگے۔"

"ٹھیک ہے ۔"

رحمت بیگم نے کال رکھ دی ۔ اب اُنھیں نئی پریشانی نے آن گھیرا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عالمگیر اور سنبل اسٹیج پر کھڑے تھے ساتھ رحمت بیگم اور ابراہیم صاحب، کوثر بیگم عشنا اور عشنا کی دادی اور سنبل کے والدین بھی تھے۔

سب کھڑے تصویریں بنوا رہے تھی۔ کچھ دیر بعد جب کیمرا مین ہٹا تو رحمت بیگم نے انگوٹھی عالمگیر کے ہاتھ میں تھما دی اور اُسے سنبل کو پہننے کو کہا۔

دوسری طرف سنبل کو بھی فاروق صاحب نے ایک نفیس سے چاندی کی انگوٹھی تھما دی جو اُسے عالمگیر کو پہنانہی تھی۔

ہال سارا مہمانوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔زیادہ تر لوگ عالمگیر اور فاروق صاحب کے جاننے والے لوگ ہی تھے۔عالمگیر بزنس کے آسمان کا ایک بہت روشن ستارہ تھا اس لیے اُسے جاننے والے کافی لوگو نے اس محفل میں شرکت کی تھی۔

فاروق صاحب کا بھی ہلکا احباب کافی وسیع تھا اس لیے لوگ کافی مقدار میں یہاں وہاں آتے جاتے نظر آ رہے تھے۔

میڈیا والے بھی اپنا مائک اور کیمرا سنبھالے اسٹیج کے سامنے کھڑے تھے تا کہ عالمگیر سجّاد کی انگیگمنٹ کی ساری تقریب کو اچھے سے کور کر سکیں۔

عالمگیر جو بلیو کلر کے کرتے پائجامہ اور واسکٹ کے ساتھ مردانا وجاہت کا شاہکار لگ رہا تھا اُس نے ہاتھ بڑھا کر سنبل کے ہاتھوں کو تھاما اور بڑے احتیاط سے انگوٹھی اُسکے بائیں ہاتھ کی انگلی میں پہنا دی۔

لاتعداد کمرے کے فلیش۔۔۔تصویریں کھینچنے کی آواز سے سارا ہول گونج اٹھا۔

سنبل جو سنہرے رنگ کی پیرو تک آتی میکسی کے ساتھ کامدار دوپٹہ کندھوں پر رکھے کھڑی بہت دلکش اور خوبصورت لگ رہی تھی ہاتھ بڑھ کار عالمگیر کی انگلی میں رنگ پہنا دی۔ایک بار پھر لائیٹ اور کمرے کے فلیش اور تصویریں خیچینے کی آواز بلند ہوئی۔ اور پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔

باری باری لوگ اسٹیج پر آ کر اُنھیں مبارک باد دینے لگے۔

مراد نے آگے بڑھ کر پہلے عالمگیر سے ہاتھ ملایا اور پھر گلے لگ گیا۔گلے لگے ہی اُس نے عالمگیر کے کانوں میں سرگوشی کر ڈالی۔

"عالمگیر تم ایک بار پھر سوچ لو۔۔۔ابھی بھی وقت ہے۔"

عالمگیر کے چہرے کے زاویئے بگڑے

مراد عالمگیر سے الگ ہو کر سنبل کو مبارک باد دینے لگا ۔ اُس نے عالمگیر کا گھورنا دیکھ لیا تھا اس لیے مسکراتا ہوا سٹیج سے نیچے اتر گیا۔

عالمگیر ایک بار پھر سوچ میں پڑ گیا۔ 

"کیا جو میں کر رہا ہوں وہ صحیح ہے؟ کیا میں کبھی سنبل کو خوش رکھ پاؤں گا؟"

وہ اپنی سوچوں میں مگن تھا تب ہی سنبل نے اُسکا بازو پکڑ کر  کسی سے اُسکا تعارف کروانے لگی۔

عالمگیر نے سنبھل کر چہرے پر مسکراہٹ سجا کر سامنے کھڑے نوجوان سے مصافحہ کیا۔

نوجوان بھی مسکرایا اور اُنھیں مبارکباد دیتا اسٹیج سے نیچے اتر گیا ۔

 اسٹیج پر مبارک باد دینے والے لوگو کا تانتا بندھا ہوا تھا اور سنبل اور عالمگیر اُنکے درمیان کھڑے تھے مبارکباد وصول کر رہے تھے کہ اچانک عالمگیر کی نظر  اسٹیج کے نیچےکوثر بیگم کے ساتھ کھڑی عشنا پر پڑی۔

عشنابھاری کامدار لہنگا زیبِ تن کیے دوپٹہ سر پر رکھے باقی کندھوں پر پھیلائے ہوئے تھی۔ اُسکا دوپٹہ کافی بڑا تھا۔کیونکہ سر پر کندھوں پر اچھے سے  پھیلانے کے باوجود وہ اُسکے کندھوں کے پیچھے سے فرش پر اپنی بہار دیکھا رہا تھا۔ اُسکے دوپٹے پر لگے ننھے ننھے نگ اُس پر پڑ رہی ہال کی روشنی سے جگمگا کر ستاروں کی سے جھلک دیکھا رہے تھے ۔آس پاس سے گزرتے کئی لوگو نے اُسے ستائشی نظروں سے دیکھا تھا ۔

عالمگیر چونکہ صبح سے باہر ہی تھا تو اس نے اب تک عشنا کو دیکھا نہیں تھا۔

عالمگیر کی نظریں عشنا کے چہرے پر منجمد ہو کے رہ گئیں تھی۔ وہ اتنی خوبصورت لگ رہی تھی کے دیکھنے والا اپنا دل ہار جاتا تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں تھا۔ اور شاید عالمگیر کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ وہ عشنا کو دیکھنے میں اتنا مگن تھا کے اُسے سنبل کے پکارنے اور اُسکے دو بار بازو ہلانے پر بھی کوئی نوٹس نہیں لیا تھا۔ سنبل نے جب عالمگیر کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو عشنا کو دیکھ کر اُسکا خون خول گیا۔اسنے عالمگیر کو ایک جھٹکے سے اپنی طرف کھینچا تو عالمگیر جو عشنا کے معصوم چہرے میں کھویا ہوا دنیا جہاں بھول بیٹھا تھا سنبل  کا اس طرح اپنا آپ کھینچنا شدید کوفت میں مبتلا کر گیا۔

اُس نے سنبل کی طرف دیکھا تو وہ اُسے غصے سے گھورے جا رہی تھی۔

"میں کب سے تمہیں پکار رہی ہو اور تم۔۔۔تم کسی اور کو دیکھ رہے ہو؟"

سنبل نے جل کر کہا

"سنبل میں تو۔۔۔"

وہ کچھ کہنے ہی لگا کے سنبل نے اُسکی بات کاٹ دی

"Don't forget, now we are engaged and I am your fiance....keep it in your mind."

(بھولو مت۔اب ہماری منگنی ہو گئی ہے اور میں تمہاری منگیتر ہو۔یہ بات اپنے دماغ میں اچھے سے بیٹھا لو)

"Shut up Sunbul...I won't tolerate this kind of behaviour anymore."

(چپ رہو سنبل۔میں ایسا برتاؤ برداشت نہیں کرونگا۔)

عالمگیر نے اُسے وارن کیا اور اسٹیج سے نیچے اتر گیا۔

نیچے آ کر وہ سامنے کھڑے مراد کے پاس آیا اور اس کے ہاتھ سے سوفٹ ڈرنک لے کر پینے لگا۔

مراد جو کے اکیلا کھڑا سوفٹ ڈرنک کے گھونٹ گھونٹ بھرتا آس پاس کا جائزہ لینے میں مصروف تھا اس افتیداد پر چونکا لیکن عالمگیر کی دیکھ کار مسکرانے لگا

"آج دانت صاف کیے ہیں کیا جو دانتوں کہ اشتہار لگا رہے ہو۔۔۔"

عالمگیر نے جل کر کہا

مراد کی مسکراہٹ اب ہلکی سے ہنسی میں گونج اٹھی۔

"بے غیرت انسان۔۔۔دوست کی پریشانی پر ہنستے ہوئے شرم نہیں آتی۔۔۔"

عالمگیر کو اُسکی ہنسی سے اور تپ چڑھ گئی۔

"میں نے تو پہلے ہی منع کیا تھا۔ تمہیں ہی شوق تھا اس ڈھول کو اپنے گلے میں باندھنے کا۔۔۔"

مراد نے جیسے اُسے یاد دلایا۔

"تُجھ سے اچھے تو دشمن ہوتے ہیں۔۔۔وہ کم سے کم تسلی کے دو بول ہی بول دیتے ہیں۔۔"

عالمگیر کا غصّہ کم ہونے کو نہیں آ رہا تھا۔

" تو جا نہ انہی کے پاس۔۔۔جا کے تسّالیاں لے جا کر۔ میرے ساتھ کیوں کھڑا باتیں کر رہا ہے۔۔۔"

مراد نے ھنوز دل جلانے والی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔

ٹھیک ہے،جا رہا ہوں۔۔

وہ اُسے غصےسے گھورتا اُس کے ہاتھ میں سوفٹ ڈرنک کا گلاس تھما کر آگے بڑھنے لگا تھا 

"اب زیادہ نخریلی بیوی بننے کی ضرورت نہیں۔۔۔بات کیا ہے وہ بتا۔"

مراد نے اُسے جاتا دیکھا تو روک کار بولا۔

"کچھ نہیں۔۔۔۔۔"

عالمگیر نے گردن ہلا کر بات کو ٹالنا چاہا۔

"عجیب ہے تو بھی۔۔۔اچھا بتا کھانے میں کیا کیا ہے۔۔۔سنا ہے دولہا بڑا مالدار ہے۔۔۔کھانے میں بڑے مزے مزے کی چیزیں ہیں۔۔چل، چل  کے چیک کرتے ہیں"

مراد نے ایک آنکھ کا کونا دبا کر مسکرا کر کہا۔

عالمگیر کو بھی اُس کی بات پر ہنسی آ گئی۔ وہ لوگ ہنستے ہوئے کھانے کے کاؤنٹر کے پاس آ گئے۔۔۔مراد تو مزے سے ساری ڈشیز کا جائزہ لے رہا تھا عالمگیر کو سنبل کی بات اب بھی خٹک رہی تھی۔

وہ لوگ پلیٹوں میں کھانا لیے ٹیبل کی طرف بڑھ گئے ۔ 

ایک خالی ٹیبل دیکھ کر وہ بیٹھے تو عالمگیر کو اُس کی پلیٹ جو کے بھری ہوئی تھی دیکھ کار ہنسی آ گئی۔۔۔اُس نے بہت سارا کھانا لیا تھا اپنی پلیٹ میں۔

"ایسا لگ رہا ہے تو نے زندگی میں پہلے کبھی کھانا نہیں دیکھا۔"

عالمگیر نے اُس کی بھری ہوئی پلیٹ پر طنز کیا۔

"کیا ہو گیا ہے یار۔۔۔جب اتنا سارا کھانا موجود ہو تو کھانے سے شرمانا نہیں چاہیے۔۔اور یہ تم کیا چڈیا کی طرح صرف دو لقمہ لیے بیٹھے ہو۔۔۔ لاؤ میں بھر کر لاتا ہوں۔"

"نہیں بھئی،میں ٹھیک ہوں۔۔۔مجھے انسان ہی رہنے دو۔۔۔"

عالمگیر نے ایک بار پھر طنز کیا لیکن مراد نے شانے اچکا دیئے اور اپنے پلیٹ پر جھک گیا۔

عشنا ابراہیم صاحب،کوثر بیگم رحمت بیگم اور دادی  اُنکے پاس والے ٹیبل پر ہی بیٹھے تھے اور اُنکی نوک جھوک کو سن کر انجوئے کر رہے تھے۔

عشنا کے اُنکے گھر شفٹ ہونے سے پہلے مراد اکثر اُنکے گھر  بھی آ جاتا تھا لیکن عشنا کے آنے کے بعد اُسے مناسب نہ لگا اس لیے اب وہ عالمگیر سے ملنے اُسکے آفس ہی چلا جاتا تھا۔

مراد نے دوسری ٹیبل پر باقی لوگوں کو بیٹھا دیکھا تو پلیٹ اٹھاتا اُنکی طرف بڑھ گیا اور ساتھ عالمگیر کو بھی گھسیٹا۔

عالمگیر اور وہ ٹیبل پر آ کر چیئر پر بیٹھ گئے۔اتفاق سے عالمگیر جس چیئر پر بیٹھا تھا اُسکے برابر کی چیئر خالی تھی۔ مراد اب کوثر بیگم اور ابراہیم صاحب سے اپنا تعارف کروا رہا تھا اور رحمت بیگم سے عالمگیر کی جھوٹی شکایتیں بھی شکل کو ٹیڑھا میڈا کر کے لگا رہا تھا۔وہ لوگ اُسکی باتوں کو خوب انجوئے کر رہے تھے۔عالمگیر بھی اُنکی طرف ہی متوجہ تھا کہ اچانک اُسکے برابر والی چیئر پر کوئی آ کر بیٹھا تھا ۔اسنے نظریں اٹھا کر اپنی دوسری سمت دیکھا تو اُس کی نظروں نے واپس آنے سے انکار کر دیا۔اور وہ جو نظریں پلیٹ پر جمائے کھانا اسپون میں لیے منہ تک لے جا رہی تھی عالمگیر کو اپنی طرف ایسے دیکھتا پا کر گڑبڑا گئی۔ابھی وہ ٹیبل سے اٹھنے ہی لگی تھی کے کسی کے ہاتھوں کا لمس اپنے کندھے پر محسوس کر کے گردن گھمائی چاہی تو سنبل مسکرا کر بولی

"ارے واہ۔۔یہاں تو کھانا بھی کھایا جا رہا ہے ۔۔۔وہ بھی میرے بغیر۔۔۔۔"

اُس نے عالمگیر اور عشنا کو دور سے ساتھ بیٹھا دیکھا تو اُنکی طرف آ گئی اور جتانا ضروری سمجھا۔

"ارے نہیں بیٹا۔۔۔آؤ آؤ۔۔۔آپ بھی بیٹھو۔۔۔عشنا بیٹا اٹھو۔۔۔جاؤ سنبل کے لیے کھانا کے کر آؤ۔

عشنا سر ہاں میں ہلاتی چیئر سے اٹھ گئی۔عالمگیر نے ایک نظر اپنے برابر کی خالی چیئر اور پھر ٹیبل پر رکھی اُس کی پلٹ کو دیکھا جو ابھی تک ویسی ہی تھی ۔ شاید اُس نے ابھی تک کچھ نہیں کھایا تھا ۔

سنبل عشنا کے اٹھنے کے بعد اسی چیئر پر عالمگیر کے برابر میں بیٹھ گئی اور عشنا کی پلیٹ کو سامنے سے ہٹایا دیا۔

عالمگیر کو اُس کی یہ حرکت گراں گزری۔

تھوڑی دیر بعد عشنا ٹرے میں ڈھیر ساری چیزیں لیے ٹیبل تک آئی اور سنبل کو اپنی چیئر پر بیٹھا دیکھ کر ایک پل کو رکی پھر آگے بڑھ کر اُسکے لیے کھانا نکالنے لگی۔

وہ ہر چیز کو بس بس کرتی پلٹ میں رکھتی عشنا کو دیکھے جا رہی تھی۔

پھر اُس نے عشنا کو منع کر دیا یہ کہ کر کے میں لے لونگی۔ عشنا بھی آ کر کوثر بیگم کے برابر والی چیئر پر  بیٹھ گئی جو ایک دم عالمگیر کے سامنے ہی تھی۔

عالمگیر نے اُسے اپنے سامنے بیٹھا دیکھا تو اُس کے لبوں پر ہنسی رینگ کر معدوم ہوئی۔لیکن سنبل سے اُسکی لبوں پر ابھرنے والی چند سیکنڈ کی ہنسی چھپی نہیں رہ سکی۔

اسنے چکن رول اٹھا کر عالمگیر کی پلیٹ میں رکھا تو عالمگیر جو ابھی منع کرنے ہی والا تھا 

"عالمگیر بھائی باہر چکن نہیں کھاتے۔۔۔"

عشنا نے کہا تو سنبل کے ساتھ سب ہی عشنا کو دیکھنے لگے۔

عشنا گڑبڑا گئی۔

"اسے کیسے پتہ؟"

عالمگیر نے دل میں سوچا۔

"اوہ۔۔۔تو تمہیں عالمگیر کی پسند نا پسند کے بارےمیں بہت کچھ پتہ ہے۔"

سنبل نے ایک آنکھ کی آبرو کو اونچا کر کے کہا تو عشنا کو سمجھ نہیں آیا کے کیا کہے۔

"یہ بات گھر میں سب کو پتہ ہے ۔۔۔اور اب تمہیں بھی پتہ چل گئی نہ۔۔۔اس میں اتنا حیران ہونے والی کیا بات ہے۔۔۔"۔

عالمگیر نے عشنا کی پریشانی سمجھتے ہوئے کہا۔

عشنا نے گردن اپنی پلیٹ پر جھکا لی اور کھانے کی طرف متوجہ ہو گئی۔

سنبل نے جل کر ایک نظر کھانا کھاتی عشنا کو دیکھا اور پھر عالمگیر کو جو مراد کی کسی بات کا جواب دے رہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


3 سال پہلے


رات کے سائے گہرے ہو رہے تھے

عشنا اپنے کمرے کی کھڑکی میں کھڑی خلاؤں میں نہ جانے کیا دونڈھنے کی کوشش کر رہی تھی۔

کھڑکی سے آتی ہوا اُسکے بالوں کو کبھی پیچھے کو اڑا دیتی کبھی اُس کے چہرے پر بکھر کر اُسکے چہرے کو ڈھانپ دیتی۔ایسا لگ رہا تھا جیسے بادل چاند کے ساتھ اٹکھیلیاں کر رہا ہو۔ لیکن عشنا ان سب سے بے نیاز نا جانے کن سوچوں میں تھی کے اُسے گیٹ کے اندر آئی عالمگیر کی کار اور اُسے کار میں سے نکل کر اندر آتے بھی نہ دیکھ پائی۔

عشنا۔۔۔۔

عشنا ابراہیم۔۔۔۔

عشنا اراہم بچپن سے اپنے گھر میں ہونے والے فرقکو واضع طور پر محسوس کرتی آئی تھی۔اُس کی امی اور ابو ہمیشہ سے ہی ہر چیز میں ملیحہ کو فوقیت دیتے آئے تھے۔گو کے وہ بہت چھوتی تھی لیکن وہ بہت حساس تھی۔اُسے ہر وہ بات محسوس ہوتی تھی جس میں امی ابّو اُسکی نا مان کر ملیحہ کی بات کو مانتے تھے۔اُسے ہر بار بس بہلا دیا جاتا تھا۔ 

شروع شروع میں تو عشنا نے خوب شور مچایا کے اُسکی بات بھی مانی جائے۔ لیکن آہستہ آہستہ اُس نے اپنی ضد اپنے اندر ہی کہیں مار دی۔

 ایک دن اسکول میں اُسکی دوست نے بتایا تھا کے وہ اپنی امی ابّو کے ساتھ پلے لینڈ گئی تھی۔اُسے بہت مزا آیا تھا۔عشنا نے بھی گھر آ کر امی سے پہلے لینڈ چلنے کو کہا تو انھونے کہا کے ابّو کو آ جانے دو پھر ہم سب چلیں گے۔ وہ بہت خوش تھی۔اسنے جلدی جلدی ہوم ورک بھی ختم کر لیا اور ابو کا انتظار کرنے لگی۔

شام کو جب ابراہیم صاحب آئے تو و بھاگ کر اُن سے لپیٹ گئی تو اُنہوں نے اُسے گود میں اٹھا لیا اور گھر کے اندر آئے۔عشنا نے اُنکی گود میں آتے ہی اپنی ساری پلے لینڈ والی سٹوری اُنھیں سنا دی اور جلدی سے تیار ہو کر اُسے پلے لینڈ لے جانے کو کہا تھا۔

"ٹھیک ہے میری جان۔ آپ جاؤ اور آپی کو اور امی کو تیار ہونے کا کہو۔۔۔آج ہم سب پلے لینڈ جا رہیں ہیں۔"

عشنا خوشی خوشی آپی اور امی کو تیار ہونے کا کہنے لگی خود تو وہ پہلے ہی تیار بیٹھی تھی۔بیبی پنک کلر کے گول فراک میں بالوں کی دو پونیاں باندھے وہ تیار کھڑی تھی۔

اُسکے چہرے کی ہنسی دیدنی تھی۔وہ بھاگ کر گیٹ پر آئی اور اپنے جوتے پہن لیے اور وہیں بیٹھ کر انتظار کرنے لگی۔لیکن جب کافی دیر تک نہ ابو آئے نہ امی اور نہ ہی آپی تو وہ اُنہیں دیکھنے گھر کے اندر آ گئی۔

"ابّو امی جلدی کریں نہ۔۔۔ہمیں دیر ہو جائیگی۔۔۔پھر پلے لینڈ  بند بھی ہی جائیگا۔"

اسنے باری باری دونوں کو دیکھتے ہوئے کہا 

"بیٹا۔۔۔"

ابراہیم صاحب رکے۔۔۔۔

"عشنا بیٹا آج تمہاری آپی کی طبیعت ٹھیک نہیں۔۔۔ہم کل چلے جائیں گے پلے لینڈ۔۔۔"

ابراہیم صاحب نے کہا تو عشنا نے پھر کہا۔

"تو۔۔۔تو ابّو۔۔۔ہم چلتے ہیں نا۔۔ آپی کو گھر رہنے دیتے ہیں ۔وہ آرام بھی کر لينگی۔۔۔"

اسنے اپنی  آنکھوں کو گول گول کر کے پونیاں ہلاتے اپنی طرف سے تجویز پیش کی۔

"بیٹا ۔۔۔آپ کیسی بات کر رہی ہو۔۔۔آپی کی طبیعت خراب ہے اور آپ کو پلے لینڈ جانا ہے؟ جاؤ جا کر آپی کی طبیعت پوچھو۔۔ ہم کل چلے جائیں گے۔"

ابراہیم صاحب نے اُسے منع کرنےکے بعد ملیحہ کی طبیعت پوچھنے کا کہا تو وہ اپنے آنکھوں میں آنسو سجائے ملیحہ کے کمرے میں طرف آ گئی۔ لیکن وہ کمرے میں نہیں تھی۔ عشنا اُسے ڈھونڈھتی ہوئی لاؤنج میں آئی تو ملیحہ ہاتھوں میں کورڈلیس تھامے کسی سے بات کر رہی تھی۔اُسکی بیٹھ عشنا کی طرف تھی تو وہ عشنا کو دیکھ نہیں پائی تھی۔

"نہیں یار۔۔۔تم آ جاؤ جلدی سے۔۔۔نہیں نا۔۔۔بہت مزا آئیگا۔۔۔ہاں میں نے ابّو کو بول دیا ہے کے میرے سر میں درد ہے۔۔ہاں تم آ جاؤ اور کہنا میری طبیعت پوچھنے آئی ہو۔"

عشنا کا دل ملیحہ کی باتوں سے بری طرح ٹوٹ گیا اور وہ گھر پیچھے والے حصے میں آ کر آنسو بہانے لگی۔ وہ کافی دیر تک روتی رہی لیکن کوئی نہیں آیا اُسے منانے نہ دیکھنے۔ تھوڑی دیر بعد وہ اندر آئی تو دیکھا امی اپنے ہاتھوں نے ملیحہ کو دودھ پلا رہی ہیں اور ابراہیم صاحب اُسکے سر پر آہستہ آہستہ ہاتھ پھیر رہے ہیں۔ گیٹ بجنے کی آواز پر ابراہیم صاحب اٹھے اور گیٹ کھولنے چلے گئے ۔

"السلام و علیکم انکل۔۔"

نصرت نے اندر آ کر اُنھیں سلام کیا تو انہوں نے اُس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیر کر سلام کا جواب دیا اور اُسے لیے لاؤنج میں آ گئے۔ نصرت نے کوثر بیگم کو بھی سلام کیا تو ملیحہ فوراً اٹھ گئی۔

"امی میرے سر کا درد بڑھ گیا ہے۔۔میں کمرے میں ریسٹ کر لو۔۔آپ ذرا نصرت کر لیے کچھ کھانے پینے کے لیے بھیج دیں۔۔بیچاری میری طبیعت کا پوچھنے آئی ہے۔چلو نصرت۔۔ "

کہنے کے ساتھ ہی وہ نصرت کو لیے اپنے کمرے میں جا کر کمرا لوک کر گئی۔عشنا چلتی ہوئی ملیحہ کے کمرے کی کھڑکی تک آئی کھڑکی کے پٹ بند تھی لیکن کونڈی کھلی ہوئی تھی۔اسنے ذرا سا پٹ وا کیا تو دیکھا دونوں مزے سے بیٹھی کوئی میگزین کے ورق پلٹ رہی تھی۔تھوڑی دیر بعد دروازہ بجا تو ملیحہ نے جلدی جلدی میگزین چھُپا دی اور جلدی سے بیڈ پر لیٹ گئی اور نصرت نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو سامنے کوثر بیگم ٹرے میں لوازمات لیے کھڑی تھی۔اسنے ٹرے تھامی اور دروازہ پھر سے مخمل کیا اور پھر دونوں نے دھیمی آواز میں ٹیلیویژن پر گانے لگا دیے اور خود میگزین دیکھنے لگی۔

عشنا کی آنکھیں پھر سے پانیوں سے بھر گئی۔

اُس رات اسنے کھانا بھی نہیں کھایا لیکن کوثر بیگم اور ابراہیم صاحب کو ملیحہ کی فکر کرنے سے فرصت ہی نہیں تھی کے دیکھتے کے وہ کس طرح رات بھر روتی رہی ہیں۔شاید وہ دونوں رات بھر ملیحہ کے کمرے میں ہی رہے تھے۔ 

عشنا کے رات بھر رونے کے نتیجے میں اُسے صبح تک بخار نے آ گھیرا۔

وہ بری طرح سے بخار سے تپ رہی تھی جب کوثر بیگم اُسے اسکول کے لیے جاگنے آئیں تو دیکھا وہ بےسدھ پڑی ہے۔

اُنہوں ابراہیم صاحب کو بلایا تو وہ اُسے باہوں میں اٹھائے پاس کے کلینک پر لے گئے جہاں اُسے فوری ٹریٹمنٹ دیا گیا۔ تھوڑی دیر بعد انجکشن کے اثر سے اُسے ہوش آیا تو ابراہیم صاحب اُسے لیے گھر آ گئے اور اُسے بیڈ پر لیٹا دیا۔ اور کمرے سے سے جانے لگے۔کوثر بیگم اُس کے سرہانے بیٹھی تھیں۔اور اُسکے بالوں میں ہاتھ پھیر رہی تھیں۔

"ابّو۔۔۔آج آپ میرے پاس رھیں۔۔۔کہیں نہ جائیں۔۔۔پلیز ابّو۔۔۔"

عشنا نے اپنی جلتی ہوئی آنکھوں سے کہا تھا۔

"بیٹا مجھے بہت ضروری آفس پہنچنا ہے۔۔امی ہیں نہ آپ کے پاس۔۔۔میں شام تک آ جاؤنگا۔۔۔"

کہتے وہ کمرے سے نکل گئے۔

عشنا ایک بار پھر رونے لگی۔اُسے یاد تھا جب ایک بار ملیحہ کو بخار ہوا تھا تو ابّو نے پورے ایک ہفتے کی چھٹی کی تھی آفس سے گو کے اُسکا بخار صرف ایک دن میں ٹھیک ہو گیا تھا لیکن وہ سارا ہفتہ ہی اُسکے لیے پریشان رہے تھے۔

کوثر بیگم اُسے چپ کرانے لگی۔ عشنا نجانے کب تک چپ چپ آنسو بہاتے بہاتے نیند کی وادیوں میں اتر گئی۔شاید دوائیوں کا اثر تھا کہ اُسکی جلتی آنکھوں نے کھلے رہنے سے انکار کر دیا تھا۔

ابراہیم صاحب جاتے ہوئے کوثر بیگم کو عشنا کی دوا کیسے کھلانے ہی وہ سب بتا کر گئے تھے۔

عشنا کی آنکھ کھلی تو اُس نے خود کو کمرے میں اکیلا پایا۔اُس کے پاس کوئی نہیں تھا اُس نے ایک نظر کمرے میں دیکھا لیکن نہیں۔۔۔وہ کہیں بھی نہیں تھی۔

لیکن باہر سے باتیں کرنے کی آوازیں آ رہی تھی۔ اُس نے بیڈ سے اٹھنا چاہا تو اُسکا سر چکرا گیا۔ اسنے کوشش کر کے اپنے اوپر پڑی چادر کو ہٹایا اور دھیرے دھیرے چلتی کمرے کے دروازے تک آئی اور دروازہ سختی سے پکڑ کر خود کو گرنے سے بچایا۔نقاہت اتنی زیادہ تھی کے اُسے کھڑے رہنا محال ہی رہا تھا۔

دروازے سے ڈائننگ ٹیبل کا منظر صاف نظر آ رہا تھا جہاں کوثر بیگم ملیحہ کو اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلا رہیں تھیں ۔ عشنا نے اپنے ہاتھوں کی پشت سے اپنے گال رگڑے اور آہستہ آہستہ چلتی ہوئی بیڈ پر آئی اور دراز ہو گئی۔

تھوڑی دیر بعد کوثر بیگم کمرے میں آئیں۔اُنکے ہاتھ میں ایک بول میں چکن سوپ  تھا انھونے نے اُسے اٹھنا چاہا تو اسنے انکا ہاتھ ہٹا دیا اور خود اٹھ کر بیٹھ گئی۔ اُسکے بعد انھونے جب سوپ سے بھرا اسپون اُسکے منہ کے قریب کیا تو اسنے منہ گھوما کر سوپ کا بول اُن سے لے لیا اور خود اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے سوپ پینے لگی۔اسنے 24 گھنٹے سے کچھ نہیں کھایا تھا اور اب یہ سوپ۔۔۔لیکن کہتے ہیں نہ انسان کو بھوک لگی ہو تو اُسے ہر چیز اچھی لگتی ہے۔شاید عشنا کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوا تھا۔سوپ ختم کر کے اس نے بول واپس کیا اور دوا اٹھا لی۔کوثر بیگم نے ساری دوائیں نکال کر اُسے دی تو اسنے پانی سے گھونٹ لیا اور پھر کروٹ دوسری طرف کر کے سو گئی۔ تھوڑی دیر بعد اُسے کوثر بیگم کے کمرے سے جانے کی آواز آئی ۔ وہ اُسے طرح لیٹی رہی۔آنسو ایک بار پھر اُسکی آنکھوں کو بھیگو گئے۔

شام تک اُسکی طبیعت سنبھل گئی تھی۔

ملیحہ کو ذرا سا کچھ ہوتا تھا تو وہ آرام سے ایک دو دن کی چھٹی کر لیتی تھی جیسے کال رات کے جھوٹے سر درد کی وجہ سے آج وہ اسکول نہیں گئی تھی۔

لیکن عشنا نے دوسرے دن سے ہی اسکول جانا شروع کر دیا۔ کوثر بیگم نے روکنا چاہا تو اُس نے 

"میری اسٹڈیز کا نقصان ہوگا "

کہ کر اُنھیں چپ کروا دیا تھا۔

ایسا بہت کچھ ماضی میں ہو چکا تھا لیکن اُس نے کبھی برا نہیں منایا تھا۔وہ ہمیشہ حالات سے سمجھوتہ کر لیتی تھی۔لیکن  اس بار وہ بری طرح دل برداشتہ ہو گئی تھی۔ کچھ دنوں بعد اُس کے 3rd اسٹینڈرڈ کے فائنل ایگزم ہو گئے تو اسنے بورڈنگ میں ایڈمیشن کی ضد کر لی ۔ ابراہیم صاحب نے اُسے بہت سمجھایا لیکن وہ نہ مانی تو انھونے نے ابیٹ آباد کے ایک مشہور اسکول میں اُسکا ایڈمیشن کروا دیا تھا۔کچھ دنوں بعد وہ وہاں چلی گئی۔ اب وہ صرف تہواروں پر ہی گھر آتی تھی اور کچھ دونوں بعد واپس چلی جاتی کبھی کبھی اسکول میں لمبی چٹھیاں ہوتی تو بھی آ جاتی لیکن اُس کو ہر بار واپس جانے کی جلدی ہوتی تھی ۔

جب وہ 10th کے بورڈ ایگزمز کے بعد گھر آئی تو ملیحہ کی شادی کی تیاریاں چل رہی تھی۔ اُس نے کچھ خاص دل چسپی نہیں دکھائی ۔ شادی ہو گئی۔ ملیحہ دبئی چلی گئی اور اس کی چٹھیاں بھی ختم ہو گئیں تو وہ اپنے جانے کی تیاری کرنے لگی لیکن ابراہیم صاحب نے اُسے روکنا چاہا۔وہ چاہتے تھے کے وہ آگے کی پڑھائی یہیں لاہور میں رہ کار کرے لیکن وہ نہیں مانی۔ اور کہ دیا۔

"مجھے اسلام آباد سے پڑھنا ہے اب۔ میرا ایڈمیشن ہو گیا ہے۔یہاں آنے سے پہلے میں نے انٹرنس ایگزمس دیئے تھے آج صبح ہی رزلٹ آیا ہے اور میں سیلکٹ ہو گئی ہو۔ اور میرا رہنے کہا بھی ہوسٹل میں انتظام ہو گیا ہے ۔"

عشنا نے اُنھیں اُس کے آگے کی پلاننگ بتائی تو وہ بےبسی سے اُسے دیکھنے لگے۔کتنی دور ہو گئی تھی وہ اُن سے ۔۔انھونے بے بسی سے سوچا۔

ابراہیم صاحب نے دو تین بار اور اُسے منانے کو کوشش کی لیکن وہ نہیں مانی تو انھونے اسکے ہوسٹل میں رہنے پر اعتراض کر کے اُسے رحمت بیگم کے گھر رہنے کہا کہ دیا ۔

اُس نے ان کی بات مان لی اور اسلام آباد رحمت بیگم کے گھر آ گئی۔ابھی کالج اسٹارٹ ہونے میں ایک دن باقی تھا تو اس نے سارا گھر گھوم گھوم کے دیکھ لیا۔ وہ ہر کمرے میں گئی حتٰی میں عالمگیر میں کمرے میں بھی۔

عالمگیر کے کمرے کی کھڑکی  شاید  تھی جیسے ہی وہ اندر آئی ہوا کے تیز جھونکے نے اُسکا اسکھلیتقبال کیا ۔

وہ چلتی ہوئی اندر آئی اور کمرے کو ستائشی نظروں سے دیکھا۔کمرا اُسکے مکین کے آلہ ذوق و شوق کا منہ بولتا ثبوت تھی۔

نفاست سے سجے بیڈ پر وائٹ چادر بچھی تھی اور ساتھ ہی بلیو کلر کا بلانکٹ سلیقے سے بیڈ پر رکھی ہوئی تھی ۔ بیڈ کے دونوں طرف لکڑی کے میز تھے جن پر ایک طرف ٹیبل لیمپ رکھا ہوا تھا۔ ٹیبل لیمپ کی بناوٹ اُسکے آرٹسٹک ہونے کا پتہ دیتی تھی۔ ایک ٹیبل پر سائڈ میں جگ اور گلاس رکھا تھا ۔ 

کمرے کے ایک طرف قد اور الماریاں تھیں جن کا رنگ بھی بلیو ہی تھا۔ کھڑکیوں پر پڑے پردر بھی بلیو اور وائٹ کامبینیشن کے تھی۔ کمرے کے ایک طرف بک ریک تھی جس میں بےشمار کتابیں پڑھنے والے کے ذوق کا پتہ دیتی تھی۔ اُس  نے ہاتھ بڑھا کر بک ریک پر اُنگلیاں پھیری ۔ ساتھ ہی ایک اسٹڈی ٹیبل تھا جِس پر ڈیسکٹوپ رکھا تھا اور ساتھ ہی ایک کتاب بھی ۔ شاید وہ رات میں پڑھتا رہا تھا۔ اُس نے کتاب اٹھا کر دیکھا وہ کوئی اکنامکس پر لکھی بھاری کتاب تھی۔

کمرے میں ہر طرف سفید اور نیلے رنگ کا استعمال دل خول کر کیا گیا تھا۔حتٰی کہ دیواروں کے رنگ بھی یہی تھے۔ وہ ایک نظر کمرے کو دیکھتی باہر آ گئی۔

سارے گھر میں اُسے  ایک عالمگیر کا کمرہ بہت پسند آیا اور دوسرا  تھا لان میں لگے پھول جو اپنی بہار دکھاتے خوبصورتی سے مسکرا رہے تھے ۔

عشنا کو یہاں رہتے یہ دوسرا سال تھا  لیکن اُسکا سامنا عالمگیر سے بہت کم ہوا تھا۔صبح جب وہ کالج جاتی تو وہ جاگنگ یہ ایکسرسائز میں مصروف رہتا تھا اور جب وہ رات واپس آتا تب عشنا سو چکی ہوتی تھی کیونکہ وہ اکثر لیٹ ہی گھر آتا تھا۔سنڈے کو بھی اکثر وقت باہر گزارتا تھا۔

جب وہ 12th کے ایگزیمز کی تیاری کر رہی تھی تب ایک دن اُسے نیند نہیں آ رہی تھی تو وہ یوں ہی اپنے کمرے سے نکل کر لاؤنج میں آ گئی اور ریموٹ اٹھا کر ٹیلیویژن آن کر دیا۔ اُسے پتہ ہی نہیں چلا اور اُسے بیٹھے 2 گھنٹے گزر گئے۔ چونکی تو تب جب عالمگیر لمبے لمبے ڈگ بھرتا لاؤنج میں آیا اور اُسے دیکھ کر ٹھٹھک گیا رات 12 بج رہے تھے اور وہ لاؤنج میں بیٹھی ٹیلیویژن دیکھ رہی تھی ۔پہلے تو اُسے حیرت ہوئی پھر وہ چلتا ہوا وہی ایک سنگل صوفے پر بیٹھ گیا۔

" عشنا برا نا لگے تو کھانا گرم کر دو۔۔۔یار بہت بھوک لگی ہے۔"

عشنا جو اُسے آتا دیکھ کر اپنے کمرے میں جانے لگی تھی اُسکی آواز پر رکی۔

آج کُک چھٹی پر تھا اور وہ جانتا تھا کے امی اُس کے لیے جاگتی رہینگی۔جب تک وہ آ نہیں جاتا وہ اور کھانا کھا کر سو نہیں جاتا وہ اُس کا انتظار کرتی رہتیں اس لیے اسنے شام ہی اُنھیں کال کر دی تھی کے میں رات باہر سے ڈنر کر کے آؤنگا۔ وہ ایسے ہی کمرے میں جا کر سو جاتا اگر عشنا کو لاؤنج میں بیٹھے نہ دیکھتا۔ اُسے بھوک بھی بہت لگی تھی ورنہ عشنا کو تکلیف نا دیتا۔

عشنا نے ایک نظر عالمگیر کو دیکھا جو چہرے سے کافی تھکا ہوا لگ رہا تھا۔

وہ ایسے ہی صوفے پر نیم دراز پیروں کو ٹیبل پر رکھے سر صوفے کے بیک سے ٹیکا کر آنکھیں بند کر گیا۔

عشنا کو ایک دم سے اُس سے ہمدردی ہوئی اور وہ کچن میں آ کر کھانا گرم کرنے لگی۔چکن کڑاہی ، مٹر پنیر، دال مکھنی اور گاجر کا حلوہ۔۔۔اُس نے ساری چیزیں گرم کر کے ٹیبل پر لگائی اور عالمگیر کو بلانے لاؤنج میں آئی تو وہ جو آنکھیں بند کیے صوفے پرنیم دراز تھا اُسکی آواز پر اٹھا اور کوٹ نکال کر صوفے پر رکھتا کف کے بٹن کھول کر اُنھیں کہنیوں تک فولڈ کرتا کچن میں آیا اور سنک پر کھڑے ہو کر ہاتھ منہ دھویا اور ٹیبل پر آ کر چیئر کھینچتا بیٹھ گیا۔

ٹائی کی ناٹ وہ پہلے ہی ڈھیلی کر چکا تھا۔وائٹ شرٹ پر بلیو ہی ٹائی لگائیے بالوں کو جیل لگا کر سائڈ میں کر رکھے تھے۔ہاتھوں میں قیمتی گھڑی سب مل کر اُس کے حسن کو چار چاند لگا رہے تھے۔  بیشک وہ خوبصورت وجاہت کا شاندار پیکر تھا۔

وہ اب بیٹھا رغبت سے کھانا کھا رہا تھا شاید اُسے بہت بھوک لگی تھی۔ عشنا نے اُسے دیکھا اور جگ سے گلاس میں پانی انڈیلا اور کچن سے جانے لگی تب ہی عالمگیر کی آواز آئی

"عشنا ۔۔۔اف يو ڈونٹ مائنڈ۔۔۔کیا تم میرے کھانا کھانے تک یہاں رک سکتی ہو؟ دراصل مجھے اکیلے کھانا کھانا پسند نہیں ۔۔۔"

عشنا تذبذب سے اُسے دیکھا اور آہستہ سے چل کر اُس کے سامنے والی چیئر پر بیٹھ گئی ۔ اُس نے ایک سمائل دی اور پھر کھانا کھانے لگا۔

عالمگیر کی عادت تھی جب بھی وہ کھانا کھاتا کوئی نا کوئی اُس کے ساتھ ہوتا تھا۔ اس لیے آفس کے دوران بھی وہ بہت کم کھانا کھاتا تھا۔کبھی کسی آفیشل میٹنگ میں جاتا تو کھا لیتا ورنہ اسکیپ کر دیتا تھا۔ رات کو بھی جب تک وہ کھا رہا ہوتا تھا کُک مسلسل اُس کے پاس کھڑا رہتا تھا۔ اس لیے اپنی عادت کے مطابق اُس نے عشنا کو یہاں رکنے کو کہا تھا ۔

عشنا اُسے کھاتا ہوا دیکھ رہی تھی۔اُس نے نوٹس کیا عالمگیر نے چکن کڑاہی کے علاوہ کوئی اور ڈیش نہیں کھائی۔اب وہ گاجر کا حلوہ کھا رہا تھا۔ اُس نے لاسٹ بائٹ لے کر عشنا کو دیکھا جو اُسے ہی غور سے دیکھ رہی تھی مسکرا کر تھینکس کہتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ لیکن وہ ابھی تین چار قدم ہی چلا ہوگا کے عشنا کے چینخ نے اُسکے قدم روک دیے۔وہ بھاگتا ہوا کچن میں آیا تو عشنا کے ہاتھوں سے بہتا خون دیکھ کر اُسکا ہاتھ تھامتا اُسے ایک چیئر پر بٹھایا اور جیب سے رومال نکال کار اُسکے زخم پر رکھا۔

عالمگیر نے ایک نظر زمین پر بکھرے کانچ کو دیکھا جو شائد گلاس ٹوٹنے کی وجہ سے فرش پر بکھرے تھے اور اُسے وہی بیٹھا رہنے کی ہدایت دیتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔

عالمگیر کے کچن سے جاتے ہی عشنا کے رکے ہوئے آنسو تواتر سے بہنے لگے۔ وہ جب عالمگیر کے جانے کے بعد ٹیبل سے برتن اٹھا رہی تھی کہ اچانک کانچ کا گلاس جس سے ابھی عالمگیر پانی پی رہا تھا اُس کے ہاتھ سے پھسل گیا۔ اور وہ جو کانچ کے ٹکڑے جلدی جلدی بے دھیانی میں اپنے ہاتھوں سے اٹھا رہی تھی ایک زبردست زخم اُسکے ہاتھ کی پشت پر لگا گیا تھا۔ زخم کے لگتے ہی وہ زور سے چیخی تھی اور عالمگیر شاید اُس کی چیخ سن کر ہی دوبارہ کچن میں آیا تھا اور اُسکے ہاتھ کو پکڑ کر چیئر پر بیٹھا کر اُسکے زخم پر اپنا رومال رکھ کر نہ جانے کہاں چلا گیا تھا۔ وہ وہیں بیٹھ کر آنسوؤں بہانے لگی تھی ۔تھوڑی دیر بعد عالمگیر واپس کچن میں آیا تو اُسکے ہاتھ میں فرسٹ ایڈ باکس تھا۔

اُس نے باکس کھول کر دیٹول کاٹن میں بگو کر پہلے اُسکے زخم پر سے اپنا رومال ہٹایا اور پھر کاٹن کے مدد سے خون صاف کرنے لگا۔ ڈیٹول کے زخم پر لگتے ہی عشنا کی ایک اور چیخ نکلی تھی جسے سن کر عالمگیر نے آنکھیں بڑی کر کے اُسے گھورا تھا۔

عشنا اُس کی گھوری سے ڈر کر آنکھیں بند کر گئ اور نچلا ہونٹ دانتوں میں دبائے درد کو برداشت کرنے کی کوشش کرنے لگی۔

عالمگیر نے اُسکا ہاتھ صاف کرنےکے بعد زخم پر مرہم لگایا اور اُسکے اطراف پٹیی باندھ کر گرہ لگا دی۔ پٹی باندھ کر اسنے ذرا کی ذرا نظر اٹھا کر عشنا کے چہرے کو دیکھا تو مبہوحیت سا اُسے دیکھے گیا۔ اُسکے معصوم چہرے  کے ایک ایک نقوش کو وہ ایسے ہی آس پاس سے بےخبر ہو کر دیکھے جا رہا تھا۔ اُسکے گالوں پر بہتے آنسوؤں، اُسکے ہونٹ جس کا نچلا حصہ دانتوں کی قید میں تھا،اُسکی بند آنکھیں۔۔۔عالمگیر کو اپنا دل اُن بند آنکھوں ڈوبتا ہوا محسوس ہوا۔ 

عشنا جو کب سے آنکھیں بند کئے ہوئے عالمگیر کے ہاتھوں کا لمس اپنے ہاتھوں پر محسوس کر رہی تھی اچانک اُسکی نظروں کی تپش کو چہرے پر محسوس کر کے اُس نے آہستہ سے آنکھ کھولی تو عالمگیر کو بغور اپنی طرف دیکھتا پا کر نروس ہو کر اپنا ہاتھ اُسکے ہاتھ سے نکالا اور آنسوؤں کو اپنے ہاتھ کی پشت سے صاف کرتی کمرے کی طرف دوڑ لگا دی۔

عالمگیر کا سکتہ عشنا کے اپنا ہاتھ اُسکے ہاتھ میں سے نکالنے پر ٹوٹا تھا۔ عشنا کے بھاگنے کے انداز پر وہ دل کھول کر مسکرایا اور فرسٹ ایڈ باکس کو l کر کمرے میں آگیا اور چینج کر کے سونے کے لیے لیٹ گیا تھا۔

عشنا نے عالمگیر کو اپنے  جڑے رشتوں سے والہانہ محبت کرنے والا انسان پایا تھا۔وہ اتنا زیادہ بیزی ہونے کے باوجود پھوپھو کا بہت خیال رکھتا تھا۔ اور اُسکے چیریٹی اور لوگو کی مدد کی خبریں بھی وہ وقتاً فوقتا ٹیلیویژن اور میگزینز میں دیکھتی اور پڑھتی رہتی تھی۔ اور رات جس طرح سے اُس نے اُسکے ہاتھ کی پٹی کی تھی وہ بھی اُسکی ہمدردانہ طبیعت کو اجاگر کر گیا تھا۔

صبح ہی عالمگیر نے پھوپھو کو اُسکے زخمی ہاتھ کے بارے میں بتا دیا تھا اور ساتھ ہی اُسے ڈاکٹر کو دکھانے کو بھی کہ گیا تھا۔پھوپھو نے جب سنا تو اُسے کالج نہیں جانے دیا اور اُسے لے کر ڈاکٹر کے پاس آ گئیں۔ ڈاکٹر نے زخم دیکھ کر اُسکی پھر سے پٹی کی اور دوائیاں دے کر اُسے بھیج دیا۔

عشنا کو پھوپھو اور عالمگیر کی فکر دیکھ کر حیرت ہوئی۔ اُسے اکثر ہوسٹل میں ایسی چھوٹی موٹی چوٹ لگتی رہتی تھی۔جس کی اُس نے کبھی پرواہ ہی نہیں کی تھی اور آج یہ دونوں اُسکی کتنی پرواہ کر رہے تھے ۔

اُسکی آنکھیں تشکّر کے احساس سے بھیگ بھیگ جاتیں۔

رحمت بیگم نے عشنا کے آنکھوں میں آنسو دیکھے تو "بیٹا زیادہ درد ہو رہا ہے؟ پھر سے چلیں ڈاکٹر کے پاس ؟" 

کہا تو عشنا نے نفی میں سر ہلا دیا اور اُنکے گلے لگ گئی۔

عشنا نے جب سنا کے عالمگیر سنبل سے شادی کر رہا ہے تو نجانے اُسے کیا ہوا کے وہ سارا رات وقفے وقفے سے روتی رہی۔ اُسے کوئی روتا نہ دیکھ لے اس لیے وہ سر درد کا بہانہ کر کے سارے شام ہی کمرے میں گھس گئی تھی اور پھر صبح جب اُس نے اپنے آپ کو کافی حد تک بہتر جانا تو باہر آ گئی تھی۔ لیکن ایک پھانس سی تھی جو اُس کے دل میں چبھی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی کے اُسے عالمگیر اور سنبل کا نام ایک ساتھ سن کے برا کیوں لگا تھا یہ وہ رات بھر کیوں روتی رہی تھی۔

 اُسے عالمگیر جیسے محبت کرنے والے شخص کے ساتھ سنبل جیسی مطلب پرست لڑکی کا ساتھ پسند نہیں آیا ہے وہ اپنے آپ کو یہی دلیلیں دے کر اپنے دل کو اب تک مناتی آئی تھی۔

اور عالمگیر کبھی یہ نہیں جان لے کے وہ سنبل کو نا پسند کرتی ہے اس لیے اُسکے ساتھ بات کرنے یا کہیں جانے سے اجتناب کرتی رہتی ہے۔

عشنا نا جانے کب سے اپنے ماضی میں کھوئی یو ہی کھڑکی میں کھڑی تھی کے اُسے اپنی چہرے پر کسی کی نظروں کی تپش محسوس ہوئی تو اس نے کھڑکی کے نیچے دیکھا جہاں عالمگیر فون کان سے لگائے مسلسل اُسے دیکھے جا رہا تھا۔

وہ جلدی سے کھڑی سے ہٹی اور بیڈ پر آ کر دراز ہو گئی۔

عالمگیر جو ابھی ابھی کار گیٹ کے اندر لا کر اُس میں سے اُترا تھا کہ اُسکا سیل فون بجا تو وہ یوں ہی لان میں ہی کھڑے سیل نکال کر آن کرتا بات کرنے لگا تھا اچانک بات کرتے کرتے اُسکی نظر عشنا کے کمرے کی کھڑکی پر پڑی تو وہ بے خود سا ہو کر اُسے دیکھے گیا۔ اُسکی نظریں پلٹنے سے انکاری تھیں۔ وہ اُسکے چہرے پر پڑتے ہوا سے اُڑتے بالوں میں کبھی چھپتے کبھی اُبھرتے معصوم چہرہ سے نظریں ہٹانے سے قاصر تھا۔

وہ اُسے ایسے ہی مبہوت سے دیکھے جا رہا تھا  جب عشنا کی نظر اُس پر پڑی تو وہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔عالمگیر کو اُسکا یوں اُسے دیکھ کر اندر چلے جانا مسکرانے پر مجبور کر گیا۔وہ کال پر آخری کلمات کہتا کال ختم کرتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔


۔۔۔۔۔۔


۔ 


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حال


عالمگیر آفس میں لیپ ٹاپ پر کوئی ایمیل پڑھ کر اُسکا ریپلائے کر رہا تھا تب ہی نادر نے دروازے کو نوک کیا۔

"May I come in sir?"

(کیا میں اندر آ سکتا ہوں سر؟)

"Yes please."

(ہاں مہربانی کر کے۔۔۔۔)

عالمگیر نے بنا نظریں اٹھائے اُسے اندر آنے کی اجازت دی۔

نادر نے ایک فائل اُس کے سامنے رکھی تو عالمگیر نے ذرا کی ذرا نظر اٹھا کر فائل کو دیکھا اور اُس سے کراچی والی میٹنگ کے متعلق دریافت کیا۔

"کراچی والی میٹنگ کا کیا ہوا؟ کب تک اسکیڈول ہے اُس کا؟"

"سر کل پرسو تک پتہ لگ جائیگا۔ ہماری بات ہو رہی ہے  دراصل اُنکے باس شہر سے باہر ہیں تو اُن لوگوں نے پرسو تک بتانے کا کہا ہے۔"

"پرسو۔۔۔ہمم۔۔۔پرسو مجھے لاہور جانا ہے تو اُسکے پہلے بتا دینا۔"

عالمگیر نے اُسے اپنے پرسو لاہور جانے کے بارے میں بتایا۔

"اوکے سر ۔۔بٹ۔۔۔"

نادر کہتے کہتے رکا۔

"But what?"

( لیکن کیا ؟)

عالمگیر نے ایک آنکھ کا آبرو اٹھا کر سوال کیا۔

"سر پرسوں تو آپ کی  9 بجے ہمدانی گروپس کے ساتھ میٹنگ ہے "

نادر نے اُسے بتایا۔

"اوہ۔۔۔میں تو بھول ہی گیا تھا۔

اوکے میں بتاتا ہوں کہ کیا کرنا ہے۔"

عالمگیر پریشان ہو گیا تھا۔

پرسو تو عشنا کے کالج میں انّوال ڈے تھا۔ اور وہ اُسے مس نہیں کر سکتا تھا۔اُسے کسی بھی طرح وہاں پہنچنا تھا۔کیونکہ عشنا وہاں اُسکا انتظار کریگی۔ کتنے مان سے اُس نے کہا تھا اور وہ اُس کا انتظار کریگی اور وہ اُس کا مان نہیں توڑنا چاہتا تھا۔

اگر وہ میٹنگ اٹینڈ کرتا تو نہیں نہیں کر کے بھی اُسے 11 تو بج ہی جاتے اور پھر 4 گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد اُسے لاہور بہنچتے پہنچتے 3 بج جاتے جبکہ عشنا کے کالج کا پروگرام شاید تب تک ختم ہو جاتا۔

وہ صبح ہی صبح لاہور نکلنے کا ارادہ رکھتا تھا تاکہ وقت پر پہنچ جائے لیکن اب یہ میٹنگ ۔۔۔

اُس نے لیپ ٹاپ پر پرسو کی فلائٹ دیکھی بہت ساری فلائٹ تھی لیکن کوئی 2 بجے کی کوئی 11 بجے کی۔۔۔کوئی بھی فلائٹ 12 بجے کی نہ تھی۔ اگر وہ 2 بجے کی فلائٹ لیتا تو بھی اُسے پہنچنے میں ایک 3 بج جاتے۔

اُس نے کچھ سوچ کر 11 بجے کی فلائٹ بک کر دی اور نادر کو انٹرکام پر میٹنگ کے لیے ہاں بول دیا۔ لیکن اُسے میٹنگ ایئرپورٹ کے پاس کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں رکھنے کی بھی ہدایات دے دی۔

اب اُسے  پرسو جلد سے جلد میٹنگ ختم کر کے آن ٹائم ایئرپورٹ پر پہنچنا تھا اور فلائٹ لینی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عشنا نازیہ شازیہ اور کرن کے ساتھ کلاس لینے کے بعد کیمپس میں گھاس پر بیٹھی باتیں کر رہیں تھیں تب ہی

"عشنا۔۔۔سر امتیاز نے آپ کو دیا ہی اور کہا ہے کہ اسپیچ اچھے سے تیار کر لیں۔۔۔ آپ کو ہی اختتامی اسپیچ دینی ہے تو تیاری کر لیں۔

لائبہ نے اسے اسپیچ کا پپیج جس پر اسپیچ پرنٹڈ تھی دیتے ہے ہدایات بھی دی۔

"ٹھیک ہے میں تیار کر لونگی۔"

عشنا نے ہے دلی سے کہا۔

وہ بہت خوش تھی اپنی اسپیچ کے لیے۔اُس نے خود سر امتیاز سے اسپیچ دینے کا کہا تھا لیکن اُسے تب لگا تھا کے وہ عالمگیر کو بھی یہاں انوائیٹ کر لے گی۔ لیکن جب کہ اب وہ نہیں آنے والا تھا تو اُسے کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا۔اُس نے اسپیچ کو ایک نظر دیکھ کر اپنے بیگ میں رکھ لیا۔اُس کا ارادہ گھر جا کر اطمینان سے  اسپیچ پڑھنے کا تھا۔

"چلو پھر۔۔۔گھر چلتے ہیں۔۔۔" 

عشنا سب کو کہتی کھڑی ہو گئی تو باقی سب بھی اُس کے ساتھ کھڑی ہو گئیں۔۔۔

"تمہیں کیا ہوا ہے؟ منہ کیوں سڈا لیا ہے؟"

کرن نے اُس کے بگڑے موڈ کو دیکھتے ہوئے کہا۔

"کچھ نہیں یار بس سر میں درد ہو رہا ہے۔"

ابھی تک تو نہیں تھا۔۔اب یہ اسپیچ دیکھ کے ہو گیا کیا؟

کرن نے کہکہا لگایا۔

"نہیں یار۔۔۔ویسی ہی۔۔۔چلو میں چلتی ہو۔۔۔"

کرن کہتی گیٹ کی طرف بڑھ گئی جہاں اُسکا ڈرائیور

بڑی سی کورولا کے ساتھ کھڑا اُس کا انتظار کر رہا تھا۔اور وہ لوگ ارے ارے ہی کرتی رہ گئیں۔

یہ کار  اور ڈرائیور عالمگیر نے ہی اُس کے لیے رکھی تھی جب ایک سال پہلے وہ لاہور رہنے آ گئی تھی ابراہیم صاحب اور کوثر بیگم کے پاس۔

عالمگیر نہیں چاہتا تھا وہ بس یا ویگنوں میں سفر کرے کیونکہ مامو کے پاس ایک ہی کار تھی جسے وہ شاپ پر جانے اور آنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔

عشنا کے کار میں بیٹھتے ہی ڈرائیور نے کار آگے بڑھا لی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سورج کی روشنی چار سو پھیلی تھی۔عالمگیر اپنے کمرے میں کھڑا کف کے بٹن بند کر رہا تھا۔ پھر اُس نے خود پر پرفیوم اسپرے کیا اور  اپنی رسٹ وچّ پہننے لگا۔کچھ دیر بعد وہ اپنی الماری کی طرف بڑھا اور عشنا  کی دی ہوئی ٹائی نکال کر اپنے  چھوٹے سے ہینڈ بیگ جو وہ لاہور لے کر جا رہا تھا اُس میں رکھی اور لیپ ٹاپ بیگ کندھے پر ڈالتا کوٹ کو ہاتھ میں لے کر کمرے نے نکلا۔

ہمیشہ کی طرح وہ نک سک سے تیار بہت ہینڈسم لگ رہا تھا۔بالوں کی جیل کی مدد سے ایک سائڈ کیے ہاتھوں میں قیمتی گھڑی اور پیروں میں قیمتی جوتے، آف وائٹ شرٹ پر ڈارک بلیو پینٹ اور کوٹ میں اُسکا حسن آنکھوں کو خیرہ کرنے کے لیے کافی تھی۔

وہ جلدی سے گاڑی میں آ کر بیٹھا اور ڈرائیور کو چلنے کا اشارہ کیا۔

ڈرائیور نے گاڑی سٹارٹ کر دی اور ایئرپورٹ کی طرف موڑ دی۔ ایئرپورٹ کے پاس ایک 5 اسٹار ہوٹل میں اُسکی میٹنگ تھی اور میٹنگ کے فوراً بعد اُسے فلائٹ  سے لاہور پہنچنا تھا۔

گاڑی ہوٹل کے پارکنگ میں رکی تو وہ کوٹ کے بٹن بند کرتا اندر کی طرف بڑھ گیا۔

اندر آ کر اپنے لیے ریزرو سیٹ کی تلاش میں نظریں گھمائی تو ایک سائڈ میں اُسے وہ ٹیبل نظر آ گئی۔

وہ چلتا ہوا ٹیبل تک آیا اور بائیں ہاتھ کو ذرا سا اونچا کر کے کھڑی دیکھی 9 بجنے میں 5 منٹ باقی تھے۔ وہ اپنے کوٹ کے سامنے کے بٹن کھولتا چیئر پر بیٹھ گیا۔

 کچھ دیر بعد ہمدانی گروپس سے 3 نوجوان آئے تو عالمگیر نے اٹھ کر ان سے مصافحہ کیا۔ سب لوگ چیئر پر بیٹھ گئے تو عالمگیر نے ویٹر کو اشارے سے بلایا اور چائے کافی سنکس اور جوس وغیرہ لانے کو کہا ۔عالمگیر نے اپنے بات کہنی شروع کی تو باقی سب اُسکی بات کو غور سے سننے لگے۔

تھوڑی دیر بعد ویٹر لوازمات ٹیبل پر سجا کر چلا گیا تو عالمگیر نے کافی کا مگ اٹھا کر اُن لوگوں سے  اپنے پروجیکٹ کے بارے میں اُنکی رائے  جاننی چاہی ۔ سب لوگو نے خوش دلی سے اُس سے ہاتھ ملایا اور اس کے پروجیکٹ پر سرمایہ لگانے کے لیے حامی بھرتے ہوئے اُسے کنٹریکٹ آفس بھجوانے کا کہا اور میٹنگ ختم کر دی اور اپنی اپنی چائے کافی اور دوسرے لوازمات کی طرف متوجہ ہو گئے 

عالمگیر نے مسکرا کر اُنھیں" کنٹریکٹ کل مل جائےگا" کہ کر اپنی گھڑی دیکھی اور اٹھ کھڑا ہوا۔

"Excuse me guys, I need to go because I have a flight to catch in few minutes."

(معاف کیجئے گا حضرات۔ مجھے ابھی جانا ہوگا کیونکہ مجھے کچھ ہی دیر میں جہاز میں سوار ہونا ہے۔") 

عالمگیر نے کہا تو سب لوگوں نے اٹھ کر اُس سے مصافحہ کیا تو وہ کوٹ کے بٹن بند کرتا ہوٹل کے بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گیا اور جلدی سے آ کر کار میں بیٹھا تو ڈرائیور نے کار ایئرپورٹ کی طرف لے لی جو چند منٹ ہی دور تھا۔

ایئرپورٹ آتے ہی عالمگیر نے کار سے لیپ ٹاپ بیگ اور اپنا چھوٹا سا ہینڈ بیگ نکالا اور ڈرائیور کو کار گھر لے جانے کی ہدایت دیتا ایئرپورٹ کی اندرونی سمت بڑھ گیا۔

اُسے ایئرپورٹ پہنچتے 10.30 ہو گئے تھے۔وہ جلدی سے بورڈنگ کاؤنٹر کے پاس گیا اور اپنا ٹکٹ ٹیبل پر رکھا تو وہاں کھڑے نوجوان نے اُسے دیر سے آنے پر دو تین جملے کہ ڈالے جسے اُس نے خاموشی سے سنا اور بورڈنگ پاس لے کر مطلوبہ گیٹ کی طرف بھاگا جہاں علریڈی پیسینجرز بورڈ کیے جا چکے تھے۔

وہ بھاگتا ہوا گیٹ پر آیا اور اپنا ٹکٹ دکھاتا فلائٹ کے اندر آیا ۔ جیسے وہ فلائٹ کے اندر آیا فلائٹ کے دروازے بند کر لیے گئے اور تھوڑی ہی دیر میں فلائٹ رن وے پر آ گئی اور پھر تھوڑی دیر بعد ہی فلائٹ نے اڑان بھر لائی۔

عالمگیر نے سیٹ پر بیٹھ کر ایک گہری سانس لی اور سیٹ کی بیک سے سر ٹیکا دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عشنا صبح سے ہی بولائی بولائ پھر رہی تھی۔ کالج میں ہی طرف افرا تفریح کا ماحول تھا۔ کوئی اپنے ڈانس کی پریکٹس کر رہا تھا تو کوئی اپنے آغاز میں گائے جانے والے گانے کی تو کوئی مائک چیک کر رہا تھا تو کوئی اسٹیج کے ڈیکوریشن کے لیے سامان اٹھا کر یہاں وہاں بھاگ رہا تھا۔ٹیچرز الگ سٹوڈنٹس کے سر پر کھڑے اُنھیں ہدایات دے رہے تھے۔

 عشنا بھی اپنی اسپیچ بار بار دوہرا رہی تھی حالانکہ اُسے اچھے سے یاد تھا لیکن نہ جانے کیوں وہ نروس ہو رہی تھی۔

تھوڑی دیر میں پروگرام شروع ہونا تھا۔

کچھ دیر بعد چیف گیسٹ کے آنے کا شور مچا تو کچھ سٹوڈنٹس ہاتھوں میں پھولوں کے بکے لیے اُنکے استقبال کے لیے آڈیٹوریم کے گیٹ پر کھڑے ہو گئے اور کچھ والینٹیر بن کر اُنکے اسٹیج تک جانے کا راستہ ہموار کرنے لگے۔

چیف گیسٹ وہاں کے جانے مانے سیاست دان اختر اللہ بیگ تھے۔

جیسے ہی وہ کار سے نکلے پرنسپل صاحب نے آگے بڑھ کر اُن کے گلے میں پھولوں کا ہار پہنایا اور ایک پھولوں کا بکے اُنھیں تھاما دیا جسے مسکرا کر موصول کیا گیا۔

جب وہ لوگ  چلتے ہوئے آڈیٹوریم کی طرف آ رہے تھے تو کچھ سٹوڈنٹس نے گلاب کی پنکھڑیاں اُس پر نچھاور کی۔ وہ بڑی شان سے چلتے ہوئے اسٹیج تک آئے اور ڈائس پر کھڑے ہو کر طلباء سے طلباء کو مخاطب کر کے انہیں ایمانداری اور انسان دوستی کا درس دیتے نیچے اترے تو ایک طالب علم نے مائیک سنبھالا اور آغازِ نظم شروع کر دی۔اُس کے بعد پروگرام کو آگے بڑھاتے ہوئے  دیگر طلباء نے اپنے رقص اور موسیقی کے رنگ بکھرے۔

کچھ ہی دیر بعد عشنا کو اپنی اختتامی اسپیچ دینی تھی جس کے بعد تحائف تقسیم کیے جانے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عالمگیر نے فلائٹ سے نکل کر گھڑی دیکھی تو 11.30 ہو رہے تھے اُس نے جلدی سے اپنا لیپ ٹاپ بیگ اور ہینڈ بیگ لیا اور چلتے چلتے فون کو آن کر کے آفس کال ملائی۔

"ہاں۔۔۔ نادر۔۔۔ہاں میٹنگ ہو گئی۔اور کامیاب بھی رہی۔تم ایسا کرو کنٹریکٹ بنوا کر مجھے میل کرو۔میں چیک کر لوں تو تم اُنھیں بھجوا دینا ۔اور یاد رہے کنٹریکٹ کل تک اُنکے آفس میں پہونچ جانا چاہیے۔"

عالمگیر نے ساری تصیل بتائی اور آخر میں حکم جاری کرتے ہوئے کہا تھا۔

وہ ایئرپورٹ سے باہر آیا اور اُسکی پرائیویٹ کار جو اسنے یہاں آنے سے پہلے سے بک کروا رکھی تھی اُس کے پاس آ کر دونوں بیگ کار میں رکھے اور کار کیز لیتا ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا اور عشنا کے کالج کے راستے پر گاڑی ڈال دی۔

عشنا کا کالج ایئرپورٹ سے تقریباً 20 منٹس کی دوری پر تھا۔ 

عالمگیر نے کار کالج گیٹ کے اندر لا کر پارکنگ میں پارک کی اور کار سے نکل کر کوٹ کے بٹن بند کیے اور کار لوک کر کے کے آڈیٹوریم کی طرف بڑھ گیا۔

باہر روز کے مقابلے بہت کام سٹوڈنٹس دکھائی دے رہے تھے کیونکہ زیادہ تر لوگ آڈیٹوریم کے اندر موجود تھے باجماع اساتذہ کے۔ وہ چلتا ہوا آڈیٹوریم کی طرف بڑھ گیا اور دروازے کے اندر داخل ہو کر بیٹھنے کے لئے سیٹ تلاش کی۔ لیکن اُسے کہیں خالی سیٹ نظر نہیں آئی۔

آڈیٹوریم کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔کچھ طلباء یہاں وہاں آ جا رہے تھے کچھ سائڈ میں کھڑے تھے کچھ اسٹیج کے پاس مائک پکڑے کھڑے تھے۔

بڑی جدوجہد کے بعد عالمگیر کو ایک خالی سیٹ نظر آ گئی جو اسٹیج کے سامنے سے تیسری رو میں 4 تھے نمبر کی سیٹ تھی۔

عالمگیر نے وہاں جا کر کوٹ کے سامنے کے بٹن کھولے اور چئر پر بیٹھ گیا ۔

ایک طالب علم ہاتھ میں مائک پکڑے گانا گا رہا تھا۔

سانس آتی ہے سانس جاتی ہے 

پھر بھی مجھ کو ہےانتظار تیرا 

آنساوں کی گھٹایں پی پی کر

اَب تو کہتا ہے یہی پیار میرا

زندہ رہنےکےلئے تیری قسم

زندہ رہنےکےلئے تیری قسم

اِک ملاقات ضروری ہے صنم

اِک ملاقات ضروری ہے صنم

زندہ رہنےکےلئے تیری قسم

زندہ رہنےکےلئے تیری قسم

اِک ملاقات ضروری ہے صنم

اِک ملاقات ضروری ہے صنم

اِک ملاقات ضروری ہے صنم

اِک ملاقات ضروری ہے صنم

 تیری چاہتوں نےیہ کیا غم دیا

 تیری چاہتوں نےیہ کیا غم دیا

تیرے عشق نےیوں دیوانا کیا تیرے عشق نےیوں دیوانا کیا

تیری چاہتوں نےیہ کیا غم دیا

تیرے عشق نےیوں دیوانا کیا زمانےسےمجھ کو بیگانا کیا

زمانےسےمجھ کو بیگانا کیا دیوانےتیرےپیار میں بڑا ہی برا حال ہے

 کھڑی ہو راہ میں نہ ھوش ہے نہ خیال ہے

 یوانےتیرےپیار میں بڑا ہی برا حال ہے

 کھڑی ہو راہ میں نہ ھوش ہے نہ خیال ہے 

اِک ملاقات ضروری ہے صنم

اِک ملاقات ضروری ہے صنم

اِک ملاقات ضروری ہے صنم

اِک ملاقات ضروری ہے صنم 


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


گانا ختم ہوا تو ایک طالبِ علم نے اسٹیج پر آ کر عشنا کو اختتامی اسپیچ دینے کے لئے مدعو کیا۔

"تو دوستوں ۔۔۔۔آج کی محفل اپنے اختتام کی طرف گامزن ہے اور اُسے پورا مس عشنا ابراہیم اپنی اسپیچ سے کریں گی۔ "

عشنا چلتی ہوئی آئی اور ڈائس پر کھڑی ہو گئی۔اُس کے ہاتھ میں اسپیچ کا وہ پرنٹڈ پیپرس بھی تھے جو اُس نے ڈائس پر مائک کے نیچے رکھا اور بولنا شروع کیا۔

"السلام و علیکم میرے معجزیز دوستوں،اساتذہ اور ہمارے چیف گیسٹ صاحب۔

میں یہاں کوئی لمبی چوڑی تقریر نہیں کرونگی۔۔" 

اُس نے رک کر پورے ہال میں بیٹھے لوگو کو دیکھا۔ لیکن عالمگیر پر اُس کی نظر نہیں پڑی۔ عالمگیر ایک ہاتھ پر چہرہ ٹکائے مسلسل مسکرا کر بغور اُسے دیکھ اور سن رہا تھا۔

"ہمارے کالج کو اس سال 55 سال ہو گئے ہیں اور ۔۔۔۔اور اس کالج نے اپنے طلباء کے ساتھ کچھ ایسے رشتے بنائے ہیں کہ آج تک یہاں سے تعلیم حاصل کر چکے طلباء دنیا بھر میں ہمارے کالج کو یاد کرتے ہیں اور اس کالج کا اور طلباء کا راستہ دن با دن مضبوط تر ہوتا جا رہا ہے۔ اور اس رشتے کو مضبوط بنانے میں ہماری اساتذہ کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔

ہمارے اساتذہ ہمیں صرف تعلیم کے زیور سے ہی نہیں آراستہ کرتے ہیں بلکہ ہمیں اپنی آنے والی زندگی کے محاذ پر ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا بھی حوصلا فراہم کرتے ہیں۔"

عشنا نے مائک کو تھوڑا آگے پیچھے کر کے ٹھیک کیا۔اور ہال میں ایک نظر دوڑائی۔ اور ہال کو دیکھتے ہوئے پھر سے کہنا شروع کیا۔

"کچھ دنوں بعد ہم سب بھی اس ادارے سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں قدم رکھیں گے تو آئیے ہم وعدہ کریں کے۔۔۔۔۔"

عشنا رکی کیونکہ اُس کی نظریں عالمگیر پر پڑی جو آگے سے تیسری رو میں بیٹھا ہاتھوں کو باہم بھنسائے اُس پر چہرہ ٹکائے مسکراکر اُسے ٹکٹکی باندھے دیکھے جا رہا تھا۔

عشنا پلکیں جھپکنا بھول گئی۔ اور یہ بھی کے وہ کہاں ہے اور کچھ دیر پہلے وہ کیا کر رہی تھی ۔ وہ آس پاس سے بے نیاز بس عالمگیر کے چہرے کو تکے جا رہی تھی جیسے اُسے یقین ہی نہیں ہو کہ وہ یہاں پر موجود ہے۔اُسے عالمگیر کا یہاں ہونا اپنی آنکھوں کا دھوکہ لگا۔

"عشنا۔۔۔۔"

کرن نے اسٹیج پر پردے کے پیچھے سے اُسے ذرا آہستہ آواز میں پُکارا تو وہ چونکی اور ہڑبڑا کر مائک پر چہرہ گرا لیا اور بات کو مکمل کرنے کی کوشش کی ۔

تو۔۔۔تو آئیے ۔۔ہم آج۔۔۔ہم آج وعدہ کریں کے ہم جہاں کہیں بھی جائیں۔۔اس کالج کو اور یہاں کے اساتذہ کو ہمیشہ یاد رکھیں گے جنہوں نے ہمیں تعلیم کے بیشبہ دولت سے آراستہ کیا ہے۔اور ہم ہمیشہ اس کالج کا نام روشن کرینگے ۔

آپ سب کا بہت شکریہ کے آپ نے  میری تقریر کو تحمّل سے سنا۔ میں چاہونگی کے آپ اسے یاد یاد رکھیں اور عملی زندگی میں اس پی عمل درآمد بھی ہوں۔

شکریہ"

کہتی وہ اسٹیج سے اُتری اور بیک اسٹیج آ کر اپنی سانسیں بحال کرنے لگی۔ کتنا مشکل تھا اُسکے لیے عالمگیر کے سامنے اتنا سب کہنا وہ بھی جب اُسکی بولتی ہوئی آنکھیں خود پر محسوس بھی ہو رہی ہوں ۔

"عشنا۔۔۔۔"

اچانک عالمگیر نے آ کر اُسے پیچھے سے پُکارا تو اُس نے مڑ کر اُسے دیکھا اور اُس کے ہاتھوں میں موجود کاغذوں کا پلندہ چھوٹ کر فرش پر یہاں وہاں بکھر گیا لیکن دونوں ایک دوسرے کو دیکھنے میں اس قدر محو تھے کے آس پاس سے آتی آوازیں بھی اُنھیں سنائی نہیں دے رہی تھی۔ جو بہت سے سٹوڈنٹس کی وہ موجودگی کا ثبوت تھی۔

عشنا نے چونک کر اپنی داہنی طرف دیکھا جہاں کرن اُسکا بازؤ کھینچ کر اُسے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کر رہی تھی اور ساتھ ہی اُسے کاغذوں کے بکھر جانے کا پوچھ رہیں تھی۔

"عشنا ۔۔یہ کیا کیا۔۔پتہ ہے نہ اس میں ونرس کے نام لکھیں ہیں۔چلو جلدی سے سمیٹوں انہیں۔"

کہتے ساتھ وہ جھکی اور کاغذ ایک ایک کر کے اٹھانے لگی۔عشنانے بھی جھک کر چند اپنے اس پاس بکھرے کاغذ اٹھائے تو عالمگیر نے بھی عشنا کے سامنے جھک کر کاغذ اٹھا کر عشنا کے ہاتھ میں تھماے تو عشنا نے نظر اٹھا کر اُسے دیکھا جو ھنوز مسکرا رہا تھا 

"یار تم اتنی لاپرواہ۔۔۔۔ "

کرن نے کہنے کے ساتھ ہی سامنے کھڑے بندے کو دیکھا جو آف وائٹ شرٹ،ڈارک بلیو کوٹ پینٹ میں ملبوس بالوں کو جیل لگا کر ایک سائڈ کیے،ہاتھوں میں قیمتی گھڑی اور پیروں میں قیمتی جوتے پہنے بہت ہینڈسم لگ رہا تھا۔لیکن لیکن اُس کے پاس سے آنے والی خوشبو۔۔۔یہ تو۔۔۔یہ خوشبو تو آج کل اُسے عشنا کے کپڑوں سے بھی آتی تھی ۔ 

"آپ۔۔۔۔آپ کون۔۔۔"

کرن نے آنکھیں چھوٹی کر کے اُسے جانچتي ہوئی نظروں سے دیکھا۔

"کہیں آپ۔۔۔کہیں آپ عالمگیر بھائی تو نہیں؟ عشنا کے پھوپھو کے بیٹے۔۔۔۔عشنا کے عالمگیر بھائی؟"

اُس کے دماغ میں اچانک عشنا کے موبائل میں دیکھی تصویر یاد آئی تو پوچھا۔

"لاحول ولاقوۃ۔۔۔"

عالمگیر منہ منہ میں بڑبڑایا۔

"جی میں عالمگیر ہوں۔۔عالمگیر سجاد۔۔۔اور آپ؟"

عالمگیر نے اپنا تعارف کروانے کے بعد کرن سے پوچھا۔

"میں کرن۔۔۔عشنا کی فرینڈ۔۔۔لیکن عالمگیر بھائی آپ یہاں۔۔۔۔؟

کرن نے اپنا تعارف کروانے کے بعد عالمگیر کے یہاں ہونے کی وجہ جاننے چاہی۔ساتھ ہی اسنے پاس سے گزرتے سٹوڈنٹس کو وینسر کی لسٹ بھی دے سے اور اُسے اسٹیج پر کے جانے کو کہا۔

"میں عشنا ۔۔۔"

"یہ یہاں ایک میٹنگ کے سلسلے میں آئے ہیں۔۔میں ۔۔میں نے بتایا تھا تمہیں کے بہت مصروف ہوتے ہیں۔۔۔ "

عالمگیر کی بات کاٹ کر عشنا نے کرن کو بتایا تو عالمگیر نے ماتھے پر سلوٹیں لا کر آنکھوں کی پُتلیاں سکیڑ کر اُسے دیکھا۔

"اوہ۔۔۔تو آپ کا یہاں کالج میں آنا کیسے ہوا؟ کیا آپ عشنا کے لیے آئیں ہیں؟"

"تم بھی نہ۔۔۔پتہ نہیں کیا کیا بولتی اور سوچتی ہو۔۔۔یہ یہاں۔۔۔یہاں۔۔۔ہاں۔۔آپ یہاں۔۔۔کیسے۔۔۔؟"

عشنا نے کرن کے بعد اب عالمگیر کو مخاطب کیا تو عالمگیر کی ماتھے کی رگیں اور گہری ہو گئیں۔

آخر عشنا اسے کچھ بتا کیوں نہیں رہی۔

عالمگیر نے دل میں سوچا۔

"میں یہاں عشنا سے ملنے آیا ہوں کیونکہ وہ چاہتی تھی کے میں آج یہاں آؤں۔۔۔"

عالمگیر نے کہا تو عشنا نے پریشان ہو کر اُسے دیکھا۔

"اوہ۔۔۔تو یہ معاملہ ہے۔۔۔ مطلب آپ اسلام آباد سے لاہور صرف عشنا کے لیے آئے ہیں۔۔۔بھئ ماننا پڑےگا آپکو۔۔۔۔تو اب میں آپ کو کیا بلاؤ؟ عالمگیر بھائی یہ عالمگیر دولہا بھائی؟"

کرن نے مسکرا کر عالمگیر سے پوچھا تو عالمگیر کی مسکراہٹ گہری ہو گئی۔اُسے عشنا کی سمجھ نہیں آئی کے وہ اپنی دوست سے سچ چھپا کیوں رہی ہے۔

اُن کے پاس سے گزرتے اور ایسا پاس کھڑے طلباء اُن کو باتیں کرتا دیکھ گہری نظروں سے عالمگیر کو دیکھ رہے تھے جو عالمگیر کی نظروں سے چھپا نہیں تھا۔

"Shut up kiran, don't say a word now."

(چپ رہو کرن۔اب ایک لفظ اور مت کہنا۔)

عشنا نے کرن کو غصے سے گھورتے ہوئے کہا۔

"کیوں کیوں۔۔۔کیوں نہ بولوں۔۔۔میں تو بولونگی۔۔۔انہیں تو میری بات سے کوئی اعتراض نہیں تو تم کیوں؟ کوئی تو بات ہے نہ تب ہی تو یہ اسلام آباد سے لاہور تمہارے بلانے پر چلے آئیں ہیں۔

ورنہ کیوں آتے۔۔۔۔بولو۔۔۔آج تو مجھے جاننا ہی ہے۔۔۔۔بتاؤ مجھے؟"

کرن بضد تھی

"کیونکہ۔۔۔کیونکہ۔۔۔ہے میرے۔۔۔میرے کزن ہیں۔۔۔"

عشنا نے نظریں نیچی کر کے کہا تو عالمگیر کو عشنا کی بات طیش دلہ گئی۔ جسے وہ ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچ کر بروقت روک چکا تھا۔

"Shut up ushna....am I looking fool to you.....?"

(چپ رہو عشنا۔۔۔۔میں تمہیں کیا پاگل نظر آتی ہوں؟)

کرن ابھی کچھ اور بھی کہ رہی تھی کے اچانک ایک سٹوڈنٹ اُس کے پاس آئی اور اُسے اسٹیج پر کسی کام کہا تو وہ اُسکی بات سنتے اسٹیج کی طرف بڑھ گئی۔

عشنا اب بھی نظریں نیچے کیے کھڑی تھی۔

"یہ کیا تھا عشنا؟ تم نے اُسے بتایا کیوں نہیں کے میں تمہارا۔۔۔"

عالمگیر چلتا ہوا اُسکے پاس آیا اور اُسے دونوں بازوں سے تھام کر جھنجھوڑنے والے انداز میں پوچھ رہا تھا تبھی عشنا نے اُس کی بات کاٹ دی۔۔۔

"پلیز۔۔۔میں ابھی۔۔۔میں ابھی کسی کو نہیں ۔۔۔۔میں نے کسی کو آپ کا نہیں بتایا ہے۔۔۔میں آپ۔۔۔۔"

اُسے سمجھ نہیں آ رہا تھا عالمگیر کو کیا جواب دے۔ وہ عالمگیر کی آنکھوں میں غصّہ دیکھ کر خائف بھی ہو رہی تھی۔

"اوہ۔۔۔تو تمہیں ہمارا رشتہ سب کو بتاتے شرم آتی ہے؟ عشنا یہ کوئی گناہ نہیں ہے۔۔۔ہم۔۔۔ "

"پلیز۔۔۔"

عالمگیر نے اُسے سمجھانا چاہا لیکن اُس نے روک دیا ۔

"ٹھیک ہے۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کے بازؤں کو جھٹکے سے چھوڑا اور باہر جانے لگا۔

"رکیں۔۔ میری بات سنیں۔۔۔کہاں جا رہے ہیں۔۔۔سنیے نہ۔۔۔"

عشنا بھاگتی ہوئی اُسکے پاس آئی اور اُس کا دایاں بازو تھام کر کہا۔

"عشنا۔۔۔اب ہم تب ہی ملینگے جب تم ہمارے رشتے کو سب کے سامنے ماننے کے لیے خود کو تیار کر لوگی۔میں نہیں چاہتا کے تم پر کوئی حرف آئے۔میں تو چلا جاؤنگا کل جب سارے لوگ تم سے میرے بارے میں پوچھنے گے تو کیا بتاؤگی؟ بولو؟ میرا یہاں سے چلا جانا ہی بہتر ہے۔"

عشنا نے بھیگی آنکھیں اٹھا کر اُسے دیکھا جو بہت غصے میں لگتا تھا۔

"آپ۔۔۔آپ میرے ساتھ۔۔۔"

عشنا ابھی کچھ کہنا ہی چاہتی تھی کے اُس کے نام کی پکار سنائی دی۔اُسے اسٹیج پر آنے کو کہا جا رہا تھا۔عشنا نے اپنے ہاتھ کی پشت سے اپنے رخسار پر بہتے آنسوؤں کو صاف کیا اور عالمگیر کی کّلائی تھامے اسٹیج کی طرف بڑھ گئی۔

عالمگیر  نے پہلے اُسے پھر اپنے ہاتھ کو دیکھا جو اس کے نازک ہاتھوں میں تھا۔ وہ ذرا سی مزاحمت کر کے اپنا ہاتھ چھوڑا سکتا تھا لیکن اُس نے ایسا کیا نہیں۔

عشنا چلتی ہوئی اسٹیج کے پاس آئی تو اُسے اختر اللہ بیگ اسٹیج پر مائک لیے کھڑے نظر آئے۔

"میں نے اس بچی کی تقریر سنی۔

ماشاء اللہ رشتوں پر اُس نے بہت اچھی اچھی باتیں کیں۔ رشتے چاہئے جو بھی ہو ، اگر اُنھیں ایمانداری سے نبھایا جائے تو یہ دنیا بہت خوبصورت ہو سکتی ہے۔اور اس بچی نے ہمیں یہی بات بہت خوبصورت الفاظ میں سمجھانے کی کوشش کی ہے۔" 

عالمگیر اسٹیج کے پاس کھڑے سارا منظر دیکھنے لگا۔

عشنا  اختر اللہ بیگ کے اشارے پر چلتی ہوئی اسٹیج پر اُن کے پاس کھڑی ہو گئی ۔

اب انہوں نے مائک پر ہاتھ رکھ کر ایک طرف کھڑے سر امتیاز سے عشنا کا نام  پوچھا اور پھر سے مائک چہرے کے آگے کر کے عشنا کو مخاطب کیا۔

"تو مس عشنا ابراہیم۔۔۔میں آپ کو۔۔ "

"ایکیوژ می سر۔۔ " 

اختر اللہ بیگ کچھ کہ ہی رہے تھے کے اُس نے اُنھیں روکتے ہوئے اُن سے مائک مانگ کر اُسے اپنے چہرے کے آگے کر کے کہا۔

"Sir, it's not ushna Ibrahim, it's Mrs. Ushna Aalamgeer Sajjad."

(سر۔۔۔یہ میس عشنا ابراہیم نہیں میسیز عشنا عالمگیر سجّاد )

اُس نے گردن کڑا کر کہا تو سارے ہال میں ایک پل کو سنّاٹا چھا گیا۔

"اوہ۔۔۔شیور شیور۔۔۔۔تو میسز عشنا عالمگیر سجّاد ۔۔آپ کی تقریر واقعی قابلِ تعریف تھی۔  آپ پلیز آگے آئے اور اپنا انعام وصول کریں۔"

عشنا آگے آئی تو اختر اللہ بیگ نے آگے بڑھ کر ایک میڈل اُس کے گلے میں پہنا دیا اور 5000 کا چیک اُسے تھمایا۔

"آپ کچھ کہنا چاہیں گی؟"

اختر اللہ بیگ نے کہنے کے ساتھ مائیک اُس کی طرف بڑھایا۔

عشنا نے مائک تھاما اور اسٹیج کے پاس کھڑے عالمگیر کو دیکھتے ہوئے کہنا شروع کیا۔

"جو اسپیچ میں نے دی اُس میں میری محنت سے زیادہ محنت میرے استاد سر امتیاز کی تھے کیوں کی وہ اسپیچ انھونے تیار کی تھی۔میں نے تو صرف اُسے دہرایا لیکن جب میں وہ اسپیچ پڑھ رہی تھی تو مجھے بھی اختر اللہ بیگ سر کی طرح رشتے آپ کی زندگی کو کیا سے کیا بنا دیتے ہیں اس بات کا ادراک ہوا۔

آپ کے پاس۔۔۔میرے پاس۔۔۔ہم سب کے آس پاس رشتوں کی بھرمار ہے لیکن کیا ہم ان رشتوں سے خوش ہیں؟ کیا سارے رشتے ہمارے ساتھ اتنے ہی ایماندار ہیں جتنے کے ہم اُن کے ساتھ؟ اور کیا ہم اُن سارے رشتوں کے ساتھ ایمانداری نبھا رہے ہیں؟ نہیں۔۔۔ہم سارے رشتے پوری ایمانداری سے نہیں نبھا سکتے لیکن ہاں ۔۔۔کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں جس کے لیے ہم اپنی جان بھی دے سکتے ہیں۔ ماں باپ بھائی بہن۔۔۔بہت سے لوگ ہیں ہمارے آس پاس ۔۔۔تو آپ کا کونسا وہ رشتا ہے جس کے لیے آپ کچھ بھی کر گزر سکتے ہیں؟ دنیا میں کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں, یہ آپ کو خود اپنے آپ سے پوچھنا ہے۔ "

عشنا جذب سے بولے جا رہی تھی جب اختر اللہ بیگ اُس کے پاس آئے اور پوچھا۔

"آپ نے اپنا تذّیہ کیا؟"

"جی۔۔۔مجھ پر یہ حقیقت آج سے 3 سال پہلے ہی کھل گئی تھی لیکن شاید میں سمجھ نہیں پائی تھی۔ کچھ دیر پہلے ہی میں نے ما صرف اُس حقیقت کو مان لیا ہے بلکہ اپنا بھی لیا ہے۔"

"اوہ۔۔۔گریٹ۔۔۔میری دعا ہے آپ ہمیشہ یوں ہی خوش رہیں۔۔۔"

اختر اللہ بیگ نے عشنا کے سر پر ہاتھ رکھ کر اُسے دعا دی تو وہ مائک سر امتیاز کو تھما کر نیچے جہاں عالمگیر کھڑا مسکرا رہا تھا اُس کے پاس آئی اور اُسکا ہاتھ تھام کر آڈیٹوریم کے باہر آ گئی۔


عالمگیر اُس کے ساتھ چلتا ہوا باہر آیا یہاں ہر طرف سنّاٹا تھا شاید سارے لوگ آڈیٹوریم میں موجود تھے۔پارکنگ جہاں عالمگیر کی کار کھڑی تھی وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔

 عشنا اُس کا ہاتھ چھوڑ کر اُسکے سامنے آئی اور اپنے دونوں کانوں کو پکڑ کر بولی

"I am sorry۔۔۔۔"

عالمگیر نے آگے آ کر اُس کے ہاتھ اُس کے کانوں سے الگ کر کے اپنے ہاتھوں میں تھامے۔

"پاگل۔۔۔۔اس میں چھُپانے والے کیا بات ہے؟ "

عالمگیر نے اس کا ہاتھ چھوڑ کر اب اُسکا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں تھام کر اُسکا چہرہ اونچا کیا اور بولا۔

"تم میرے نکاح میں ہو۔۔۔اور یہ ایک قانونی اور شرعی رشتہِ ہے۔ اس میں ایسا کچھ نہیں جسے تم لوگوں سے چھپاتی پھیرو۔"

"لیکن ابھی۔۔۔ابھی رخصتی تو نہیں۔۔۔نہیں ہوئی نہ۔۔۔اس لیے ۔۔۔اس لیے میں۔۔۔۔۔"

"چلو۔۔۔۔"

عالمگیر نے عشنا کی کلائی تھامی اور آگے بڑھا۔

"ک۔۔۔ک۔۔۔کا۔۔کہاں۔۔۔۔"

عشنا نے چلتے ہوئے حیران ہو کر پوچھا۔

" چلو میرے ساتھ اسلام آباد۔۔۔میں مامو کو انفارم کر دونگا کے میں عشنا کو اپنے ساتھ لے گیا۔ ہو گئی رخصتی۔"

عالمگیر نے فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھول کر اُسے اندر بٹھایا۔ اور خود گھوم کر ڈرائیونگ سیٹ پر آ گیا ۔

"نہیں۔۔۔ایسے۔۔۔آپ۔نہیں۔۔۔ایسے نہیں۔۔۔پلیز۔۔۔یہ کیا۔۔۔"

عشنا پریشان ہو گئی تھی۔

تمہیں یہی مسئلہ ہے نہ کے تمہاری رخصتی نہیں ہوئی؟ تو چلو۔۔۔لیے چل رہا ہوں تمہیں رخصت کروا کر اپنے ساتھ۔"

عالمگیر نے اطمینان سے کہا۔

"نہیں۔۔۔ایسے نہیں۔۔ایسے نہیں کریں۔۔۔پلیز۔۔۔ابّو امی پھوپھو کیا  سوچیں گے سب۔۔۔"

عشنا کو ایک اور پریشانی لاحق ہوئی۔

"کوئی نہیں سوچتا کچھ۔نکاح ہمارا ایک سال پہلے ہو ہی چکا ہے۔اب یہ سب تو بس دنیاوی رسمِ ہیں۔۔۔۔"

عالمگیر نے ھنوز اطمینان سے کہا۔

"نہیں لیکن۔۔لیکن میری اسٹڈیز۔۔۔۔آپ نہ کریں نہ۔۔ میری اسٹڈیز باقی ہے ابھی۔۔ "

"اوہ۔۔۔تو تمہیں مجھ سے زیادہ اپنی اسٹڈیز سے پیار ہے؟"

عالمگیر نے حیران ہونے کی اداکارہ کی۔

"نہیں۔۔۔مجھے آپ سے۔۔۔آپ سے۔۔ مجھے۔۔ ۔۔"

"ہاں بولو۔۔۔مجھے آپ سے کیا۔۔۔"

عالمگیر اُس سے اظہارِ محبت سننے کو بیتاب تھا۔

"کچھ نہیں۔۔۔"

عشنا نے اُس کی شرارت کو سمجھتے ہوئے منہ گھوما کر کہا ۔ اُس کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آ گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عالمگیر نے کار اسٹارٹ کی تو عشنا نے چہرہ موڑ کر اُسے دیکھا۔

"ک۔۔۔کہ۔۔کہاں۔۔۔۔کہاں جا رہے ہیں ہم؟"

عشنا نے تھوک نگلتے ہوئے پریشانی سے کہا۔

"تمہیں اغوا کر کے لے جا رہا ہو۔۔۔اس دنیا سے بہت دور۔۔۔۔جہاں تمہارے اور میرے سوا کوئی نہ ہو۔۔۔صرف تم اور میں اور ہماری محبت۔۔۔۔۔بولو چلوگی میرے ساتھ؟" 

عالمگیر کی آنکھوں میں محبت،عقیدت،عزت۔۔۔ہر وہ چیز تھی جو ہر لڑکی اپنے شریک سفر میں تلاش کرتی ہے۔

عالمگیر کار ڈرائیور کرتے ہوئے جذب سے بولا تو عشنا نے بنا کچھ سوچے اثبات میں سر کو جنبش دی اور اُسکے بائیں کاندھے پر اپنا سر رکھ دیا۔

عالمگیر نے مسکرا کر اسٹیئرنگ وہیل گھمائی اور اپنا بایاں ہاتھ اُسکے گرد پھیلا کر اُسے اپنے حصار میں لے لیا۔ اور دعائیں ہاتھ کو اسٹیئرنگ پر رکھے کار ڈرائیور کرتا رہا۔

عالمگیر کے کپڑوں سے اُٹھتی پرفیوم کی خوشبو عشنا کو مدہوش کرنے لگی۔ عشنا نے آہستہ سے آنکھیں بند کر لی۔

"عشنا۔۔۔۔"

عالمگیر نے کار ڈرائیو کرتے ہوئے اُس کے کانوں کے قریب سرگوشی کی تو عشنا نے آنکھیں کھول کر اُسے دیکھا۔

"چپ کیوں ہو ۔۔کچھ بات کرو نہ۔۔۔"

عالمگیر نے اُسے بولنے پر اُکسایا۔

"عشنا مسکرائی اور پھر اُسکے شرٹ کے کالر پر ہاتھ پھیر کر بولی 

"آپ۔۔۔آپ نے۔۔۔ٹائی۔۔۔نہیں پہنی آج۔۔۔۔"

"ہاں۔۔۔کیونکہ وہ تو تم پہناؤگی نہ۔۔۔آج۔۔۔۔؟"

عالمگیر نے اُسے دیکھا پھر ونڈ سکرین پر نظریں جمائے بولا۔

"لیکن آپ ۔۔۔کیا آپ ٹائی لائے ہیں ؟"

عشنا نے حیرانی سے پوچھا۔

"بالکل۔۔۔"

عالمگیر نے مسکرا کر جواب دیا۔

"اچھا نہ۔۔۔یہ تو بتائیے کے ہم جا کہاں رہیں ہے ۔۔۔؟"

عشنا نے پھر سے پوچھا۔

"Do you trust me?"

"(کیا تم مجھ پر بھروسہ کرتی ہو؟)

عالمگیر اُسکے بازوں پر اپنے ہاتھوں کا دباؤ ڈالتا بولا۔

"اپنے آپ سے بھی زیادہ۔۔۔"

عشنا نے گردن اونچی کر کے عالمگیر کو دیکھا اور جذب سے بولی۔

"تو پھر میری جان۔۔۔۔کوئی سوال نہیں۔۔۔۔بس بیٹھی رہو۔۔۔"

عشنا نے مسکرا کر سر اُسکے سینے سے لگا کر آنکھیں موند لی۔


کار ایک بڑے سے بنگلے کے گیٹ کے اندر داخل ہوئی تو عشنا نے آنکھیں کھول کر سارا منظر دیکھا۔یہ کوئی فارم ہاوس تھا۔

یہاں کا لان بہت بڑا تھا اور مختلف قسم کے پودوں سے بھرا تھا۔

ان میں مختلف قسم کے پھول پھل کے بہت سے پودے اپنی بہار دیکھا رہے تھے ۔

عالمگیر نے اپنا ہاتھ اُسکے بازو سے ہٹایا تو عشنا سیدھی ہو کر ونڈو کے پاس آ کر سارا منظر دیکھنے لگی۔

عالمگیر نے کار روک دی اور پہلے کوٹ نکل کر گاڑی کی بیک سیٹ پر ڈال دی اور ہینڈ بیگ اٹھا لیے پھر دروازہ کھول کر باہر نکلا اور دوسری طرف آ کر عشنا کی طرف کا دروازہ کھول کر اُسکی ہتھیلی تھام کر اُسے باہر نکالا۔

عشنا کار سے نکلی اور پھولوں کی طرف بڑھ گئی۔۔۔

وہ ہر پھول کو چھو چھو کر اُنکی نرماہٹ کو محسوس کرنے لگی۔

عالمگیر کو اُس کی حرکتیں کسی معصوم بچّے کی سے لگی۔ وہ مسکراتا ہوا اُسکے قریب آیا اور اُسکا ہاتھ تھام کر اندر لے جانے لگا۔

عشنا ابھی یہاں سے نہیں جانا چاہتی تھی لیکن عالمگیر کے ہاتھ پکڑنے پر وہ اُس کے ساتھ چلتی گئی۔

عالمگیر اُسے اندر لایا ۔اُسکےدوسرے ہاتھ میں وہی ہینڈ بیگ تھا جو وہ اسلام آباد سے ساتھ لایا تھا۔

عالمگیر اُسے لیے ایک بڑے سے کمرے میں آیا اور اُسے بیڈ پر بیٹھا دیا اور خود اُس کے سامنے کھڑا ہو کر ہینڈ بیگ کو بیڈ پر اُس کے سامنے رکھ کر اُس میں سے ایک بڑا خوبصورت سا ڈریس جو کے بلیو ہی کلر کا تھا گول گھیر دار فراق اور اُسکے ساتھ بھاری کامدار دوپٹہ بھی تھا نکالا اور عشنا کے ہاتھ میں وہ ڈریس رکھ دیا 

"جاؤ۔۔۔چینج کر کے آؤ۔۔۔۔"

وہ ذرا سا جھکا اور اُسکے کانوں میں سرگوشی کی۔

عشنا نے پہلے اُسے دیکھا اور پھر ڈریس کو ۔

 پھر کچھ سوچ کر ڈریس لے کر ایک طرف بنے ڈریسنگ روم میں چلی گئی۔

تھوڑی دیر بعد وہ باہر آئی تو عالمگیر اُسے دیکھ کر اپنی جگہ منجمد ہو گیا۔ وہ لگ ہی اتنی پیاری رہی تھی۔ عالمگیر پلکیں جھپکنا بھول کر بس اُسے دیکھے جا رہا تھا۔اُسے سمجھ نہیں آ رہا تھا یہ ڈریس پہلے خوبصورت تھا یہ عشنا کے پہننے سے یہ خوبصورت ہو گیا ہے ۔

عشنا چلتی ہوئی اُس کے پاس آئی جو ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا تھا اُس کو بازو سے پکڑ کر ہلایا تو عالمگیر کا سکتہ ٹوٹا ۔

 عالمگیر نے آگے بڑھ کر اُس کے چہرے کو تھاما اور عقیدت کے ساتھ اُس کے ماتھے پر اپنے محبت کی مہر ثبت کر دی۔

عشنا نے اپنی آنکھیں بند کر کے عالمگیر کی محبت کو اپنے ماتھے پر محسوس کیا۔عالمگیر کی اس قدر محبت پر اُس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ 

عالمگیر نے لب اُس کے ماتھے سے ہٹا کر اُسکا چہرہ دیکھا تو اُسکی آنکھوں سے بہتے آنسوں نے اُسے پریشان ہی تو کر دیا۔

"Ushna.....you okay? Did I done something wrong? Or did I hurt you in any manner?"

(عشنا۔۔۔۔تم ٹھیک ہو؟ کیا میں نے کچھ غلط کیا ہے؟ يا میری کسی بات سے تمہیں تکلیف پہنچی ہے؟)

عالمگیر اُسکا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں لیے پریشانی سے کہہ رہا تھا۔

عشنا نے آنکھیں کھول کر اُسے دیکھا 

"نہیں۔۔۔۔آپ۔۔۔آپ میرے۔۔۔۔"

عشنا  نے نفی میں سر کو ہلاتے ہوئے کہا۔ اُسکی آواز بھیگ گئی۔اُس سے فقرہ مکمل نہ ہوا۔ اور وہ عالمگیر کے سینے سے سر ٹیکا کر آنسو بہانے لگی۔

عالمگیر نے اُس کے گرد باہوں کا گھیرا تنگ کر دیا۔ایک ہاتھ اُس کی کمر کے گرد لپیٹے دوسرے ہاتھ سے اُسکی پیٹھ سہلا کر اُسے چپ کرانے کی سعی کی۔

تھوڑی دیر بعد جب اُس کے آنسو تھامے تو وہ اس سے الگ ہوئی۔عالمگیر نے ایک ہاتھ اُسکے گال پر رکھا اور دوسرے ہاتھ سے اُسکے آنسو صاف کیے ابھی وہ کچھ کہنے ہی لگا تھا کے عالمگیر کا فون بجنے لگا۔

عالمگیر نے فون جیب سے نکالا تو نادر کی کال آ رہی تھی۔

"تم جلدی سے ریڈی ہو جاؤ۔۔میں یہ کال سن کر آتا ہوں۔

عالمگیر اُسکا گال تھپکتا فون کانوں سے لگاتا بالکونی کی طرف بڑھ گیا۔

عشنا نے ڈریسنگ ٹیبل کو دیکھا جہاں ساری چیزیں موجود تھی۔اُس نے جلدی سے اپنے بال سوار کر اُنھیں کھلا ہی رہنے دیا۔

آنکھوں پر ہلکی سے کاجل کی لکیر کھینچی،ہلکی سی لپسٹک لگائی اور دوپٹہ سر پر برابر کیا۔

"ہاں۔۔۔ٹھیک ہے میں چیک کرتا ہوں۔۔۔نہیں ابھی نہیں۔۔۔۔ہمم۔۔نہیں میں چیک کر کے بتاتا ہوں پھر تم آگے فارورڈ کر دینا۔"

عالمگیر نے بات ختم کی اور کال منقّید کرتا واپس کمرے میں آیا اور عشنا کے قریب آ کر اُسکی تیاری دیکھی۔ سب کچھ پرفیکٹ تھا سوائے اُسکے دوپٹے کے۔

"It's only you and me"

(یہاں صرف تم اور میں ہیں۔)

عالمگیر نے اُس کے کان میں سرگوشی کی اور کہنے کے ساتھ اُسکا دوپٹہ سر سے نیچے کیا اور ایک سائڈ پر  کر کے کندھے پر پن اپ کر دیا۔اور اُسکے داہنے گال پر آئے بالوں کو اُس کے کان کے پیچھے کیا۔عشنا اُسکے لمس پر آنکھیں بند کر گئی۔ عالمگیر نے اُس سے دو قدم کے فاصلے پر کھڑے ہو کر اُسکا جائزہ لیا 

"پرفیکٹ۔۔۔"

عالمگیر نے مسکراتے ہوئے کہا۔

عشنا بھی مسکرا دی۔

"عالمگیر اب خود آئینے کے سامنے کھڑا اپنا جائزہ لینے لگا ۔

پہلے اپنے بال ٹھیک کیے پھر بیڈ کے قریب رکھے ہینڈ بیگ سے ٹائی نکال کر عشنا کے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے ٹائی اُسکے ہاتھ میں تھمایا ۔

عشنا نے مسکراتے ہوئے ٹائی اُسکے گلے میں ڈالی اور  اُسکی گرہ  لگانے لگی۔

اچانک عالمگیر نے اُسکی کمر میں اپنے دونوں ہاتھوں کو ڈال کار اُسے اپنے اور قریب کیا۔

عشنا نے نظر اٹھا کر اُسے دیکھا تو عالمگیر نے مسکراتے ہوئے گردن کے اشارے سے اُسکی توجہ ٹائی کی طرف مبذول کروائی۔

وہ شرماتے ہوئے اُسکی ٹائی میں گرہ لگانے لگی۔

ٹائی باندھ کر اُس نے اُسکا کالر ٹھیک کیا۔


عالمگیر نے ایک کپڑے کی کالی پٹی جیب سے نکال کر عشنا کی آنکھوں پر باندھ دی۔

"یہ۔۔یہ کیا ہے۔۔آپ نے ۔ ۔"

عشنا آنکھوں پر بندھی پٹی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی تو عالمگیر ذرا سا جھک کر اُسکے کان میں شرغوشیانہ انداز میں گویا ہوا

"ششش۔۔۔۔۔یقین کرتی ہو نہ مجھ پر ۔۔۔۔"

اُسکے پوچھنے پر عشنا نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔

عالمگیر اُسے بازؤں سے تھام کر لان کے دائیں حصے میں لیے آیا۔یہ حصہ گیٹ سے اندر آنے پر نظر نہیں آتا تھا۔

عالمگیر نے اُسکی آنکھوں سے پٹی ہٹائی تو عشنا سامنے کا منظر دیکھ کر کچھ وقت تک کچھ بول ہی نہیں پائی ۔

لان کا یہ حصہ ہر طرف سے پھولوں سے آراستہ کیا گیا تھا۔

سامنے کچھ آگے دو درخت تھے جن کے آس پاس پھولوں کی بہت ساری لڑیاں لگائی گئی تھی اور دونوں درختوں کے بیچ بڑا سا جھولا تھا جس کے ہر حصے پر پھولوں کی لڑیاں بیلوں کی صورت لپٹی تھی۔باقی دائیں بائیں دو پلیئر تھے جِس سے درخت تک پھولوں کی لڑیوں نے چادر تان رکھی تھی وہ پھولوں کی چادر کی دیوار کافی موٹی اور گھنی تھی جس سے دوسری طرف کا لان مشکل سے نظر آتا تھا۔

 سارے فرش پر لال گلاب کی پنکھڑیوں کی ایک چادر سی بچھی تھی۔

دائیں طرف ٹیبل پر ایک  دل کے شیپ کا ریڈ ویلویٹ کیک رکھا تھا جس کے اطراف گلاب کی بہت ساری پنکھڑیاں بکھری پڑی تھیں۔ اُسکے دوسری طرف میوزک سسٹم رکھا ہوا تھا۔

آس پاس فرش پر ریڈ اینڈ وائٹ کلر کے ہارٹ شیپ کے  غبارے بکھرے ہوئے تھے اور اُپر سینٹر میں غباروں کا ایک سیٹ جِس میں گلاب  کی بہت ساری پنکھڑیاں بھری ہوئی تھی جھومر کی طرح لٹک رہے تھے۔

یہ سارا حصہ ہی پھولوں سے بھر دیا گیا تھا کیوں کہ عشنا کو پھول بہت پسند تھے۔ اور عالمگیر نے دو دن پہلے فلائٹ بک کرنے کے بعد یہ ساری اریجمنٹ کروائی تھی۔ وہ عشنا کو سرپرائز دینا چاہتا تھا۔

عالمگیر نے آہستہ سے اُسکا ہاتھ تھاما اور پھولوں کی رحویش پر چلتا آگے بڑھ گیا۔ 

عشنا نے ایک نظر اُسے دیکھا اور اُسکے ساتھ چلتی ہوئی آگے آئی۔ عالمگیر اُس کے مقابل آ کر کھڑا ہوا اور  اُسکا دایاں ہاتھ تھام کر گھٹنوں کے بل اُس کے سامنے بیٹھا اور ایک ہیرے سے مزّین جگمگاتی ہوئی انگوٹھی اُس کے سامنے کی۔

عشنا آنکھیں کھولے بس اُسے دیکھے گئی۔

عالمگیر نے مسکراتی نظروں سے اُسے دیکھا 

"I Love you Ushna from bottom of my heart...

Will you marry me?"

(میں تم سے دل کی گہرائیوں سے محبت کرتاعشنا۔کیا تم مجھ سے شادی کروگی؟)

"آپ۔۔۔۔۔۔۔"

عشنا کی آنکھیں بھیگ گئی۔

"عشنا۔۔۔"

عالمگیر نے پُکارا۔

"یس۔۔۔"

عشنا کے بھیگی ہوئی آنکھوں اور مسکراتے لبوں سے یس کہتے ہی عالمگیر نے اُسکے ہاتھوں میں ڈائمنڈ رنگ پہنائی اور اٹھ کر اُسکے سامنے کھڑا ہو گیا۔ اُس نے آگے بڑھ کر عشنا کو اپنے سینے سے لگایا تو اُس نے بھی اپنی باہیں عالمگیر کے گلے میں ڈال کر اُسکے قریب ہوئی۔

عالمگیر نے اُسے باہوں میں بھر کر اپنا سر اُس کے دائیں کندھے پر ٹیکا کر اُسے ذرا سا اوپر اٹھایا اور گول گھوما دیا۔

عشنا اُسکے حصار میں کھوئی آنکھیں بند کئے اُس کے ایک ایک لمس کو محسوس کر رہی تھی۔

عالمگیر نے اُسے آہستہ سے نیچے اتارا اور اُپر جھومر کی طرح غبباروں کو پن مار کر فوڈ دیا جس کی وجہ سے عشنا اور اُس پر پھولوں کی پنکھڑیاں بارش کی صورت برسنے لگی۔ عشنا دونوں ہاتھ تھوڑا اونچا کر کے ہنستے ہوئے اس پھولوں کی بارش میں بھیگنے لگی۔

عالمگیر بس مسکراتے ہوئے اُسے دیکھے گیا۔

بارش تھمی تو عالمگیر اُسے باہوں میں لیے ٹیبل تک آیا اور اُسکے ہاتھوں میں چاقو پکڑا کر اُسکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھامے کیک کاٹا اور اُسکا ایک ٹکڑا نکال کر عشنا کو کھلایا تو عشنا نے اُس میں سے تھوڑا سا کیک عالمگیر کو کھلایا جسے کھاتے ہوئے عالمگیر نے اُس کی انگلیوں پر ایک جسارت کر دی۔ عشنا نے  اُسے گھور کر دیکھا تو عالمگیر کا کہکھا بے ساختہ تھا۔ عشنا نے شرما کر مسکراتے ہوئے نظریں جھکا لی۔

عالمگیر نے آگے بڑھ کر میوزک لگا دیا اور عشنا کے کمر میں ہاتھ ڈال کر اُسے وسط میں لایا۔

 عشنا کا بایاں ہاتھ اپنے کندھے پر رکھ اور اُسکا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ میں تھام کر اپنا دایاں ہاتھ اُسکی کمر میں پھنسایا اور دھیرے دھیرے آگے پیچھے موو کرنے لگا۔

گانا دھیرے دھیرے بج رہا تھا اور وہ دونوں ایک دوسرے میں کھوئے ہوئے موسیقی کی دھن پر جھوم رہے تھے۔


ملے ہو تم ہمکو بڑےنصیبوں سے

 چرایا ہے میں نے قسمت کی لکیروں سے

ملے ہو تم ہمکو بڑےنصیبوں سے

 چرایا ہے میں نے قسمت کی لکیروں سے

 تیری محبت سےسانسیں ملی ہیں

سدا رہنا دل میں قریب ہوکی

ملے ہو تم ہمکو بڑےنصیبوں سے

 چرایا ہے میں نے قسمت کی لکیروں سے 

ملے ہو تم ہمکو بڑےنصیبوں سے

 چرایا ہے میں نے قسمت کی لکیروں سے

تیری چاہتوں میں کتنا تڑپےہیں

ساون بھی کتنےتجھ بن برسےہیں

 زندگی میں میری ساری جو بھی کمی تھی

تیرےآ جانےسےاب نہیں رہی

سدا ہی رہنا تم میرےقریب ہو کے

چرایا ہے میں نے قسمت کی لکیروں سے

ملے ہو تم ہمکو بڑےنصیبوں سے

 چرایا ہے میں نے قسمت کی لکیروں سے

باہوں میں تیری اب یارا جننت ہے

مانگی خدا سےتو وہ مننت ہے

تیری وفا کا سہارا ملا ہے

تیری ہی وجہ سےاب میں زندا ہوں

 تیری محبت سےزرا اَمیر ہو کے

چرایا ہے میں نے قسمت کی لکیروں سے

ملے ہو تم ہمکو بڑےنصیبوں سے

 چرایا ہے میں نے قسمت کی لکیروں سے


عشنا نے آہستہ سے عالمگیر کے سینے سے سر ٹیکا دیا اور تو عالمگیر نے اُس کے گرد باہوں کا گھیرا تنگ کر  دیا اور ایسے ہی موو کرتا رہا۔

گانا ختم ہوا تو عالمگیر اُسے باہوں کے گھیرے میں لیے جھولے تک آیا اور اُس کے ساتھ جھولے پر بیٹھ گیا۔ عشنا نے اُس کے کندھوں پر سر ٹکائے ٹکائے اُسے دیکھا تو عالمگیر نے آہستہ سے اُسکے ماتھے پر اپنے لب رکھ دیئے۔


"سنیں ۔۔"

عشنا نے مندی آنکھوں سے عالمگیر کو پُکارا۔

"سنائیں۔۔۔"

عالمگیر نے بھی بند آنکھوں ہی سے اُسے اُسی کے انداز میں جواب دیا 

" آپ نے۔۔آپ نے مجھے۔۔۔مجھے ابھی پروپوز کیوں کیا؟"

عشنا نے اُس کے گلے میں باہیں ڈال کر چہرہ اونچا کر کے اُسے دیکھتے ہوئے پوچھا تو عالمگیر مسکرایا اور چہرہ جھکا کر اُسے دیکھا۔

"کیا تمہیں میرا پروپوز کرنا اچھا نہیں لگا؟"

اُس نے عشنا سے پوچھا۔

"یہ ۔۔۔۔ یہ تو کسی بھی لڑکی کا خواب ہوتا ہے۔۔۔۔۔ میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں نہیں سوچا تھا کے کوئی مجھ سے بھی اتنی محبت کر سکتا ہیں۔"

عشنا نے تشکّر آمیز لحظے میں کہا ۔

"اچھا بتائیں نہ ۔۔۔پروپوز کیوں کیا آپ نے۔۔۔ہمارا تو نکاح ہو چکا ہے۔ اور پروپوز تو شادی کے پہلے کرتے ہیں نا؟"

عشنا نے معصومیت بھرے لحظے میں پوچھا 

"کیوں کہ میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ تم ہی تو کہتی ہو نہ کہ رخصتی نہیں ہوئی تو شادی بھی نہیں ہوئی۔۔۔۔تو آج میں نے تمہیں اسی لیے پروپوز  کر کے تمہیں تم سے ہی مانگ لیا ہے۔"

 عالمگیر نے اُسکا چہرہ تھوڑی سے پکڑ کر اپنے چہرے کے سامنے کر کے کہا۔

عشنا ابھی کچھ کہنے ہی لگی تھی کہ عالمگیر کا فون بجا جسے اُس نے سائلینٹ موڈ پر ڈال دیا لیکن موبائل لگاتار بجتا رہا

"اٹھا لیں نہ۔۔۔مجھے پتہ ہے آپ اپنا بہت سا کام چھوڑ کر یہاں آئیں ہیں۔اب کال تو لے لیں نا۔"

اسنے پھر سے عالمگیر کے سینے پر سر ٹیکا کر کہا تو عالمگیر نے فون آن کر کے کان سے لگا لیا۔ دوسری طرف نادر تھا۔

"ہاں۔۔۔نہیں نادر۔۔۔ابھی میں نے چیک نہیں کیا ہے ۔۔کل بھیجنا ہے نہ۔۔۔نہیں ۔۔۔اچھا۔۔۔۔اور ہاں وہ کراچی والی میٹنگ کا کیا بنا۔۔۔اوہ۔۔۔ٹھیک ہے بتا دینا۔۔۔اوکے۔۔اچھا سنو۔۔۔اب مجھے کال کر کے ڈسٹرب نہیں کرنا اور مجھے وہ کراچی والی میٹنگ کا میسیج میں بتا دینا۔"

عالمگیر نے کہہ کر فون بند کر دیا۔

عشنا جو اُسکی کال نہ کرنے کی ہدایت پر مسکرائی تھی کراچی کا سن کر اُداس ہو گئی۔

"عشنا۔۔۔"

عالمگیر نے عشنا کو پُکارا۔

"ہمم۔۔۔"

عشنا نے جواب دیا۔

عالمگیر نے جھک کر اُسکا چہرہ دیکھا جو اُداس لگتا تھا۔

"کیا ہوا۔۔۔اُداس کیوں ہو گئیں؟"

عالمگیر نے اُسکے چہرے کو اُپر کر کے پوچھا 

"وہ۔۔۔۔وہ ۔نیکسٹ ویک ۔۔۔"

عشنا بتاتے بتاتے رکی۔

"نیکسٹ ویک کیا؟"

عالمگیر نے پوچھا۔

نیکسٹ ویک ہماری کلاس انڈسٹریل وزٹ کے لیے کراچی، اسلام آباد اور مری جا رہی ہے ۔لیکن ابّو کہتے نہیں جانا ہے۔

پتہ ہے آپ کو کہ اُس انڈسٹریل وزٹ کے بعد پروجیکٹ دینا ہے اور اُس کے مارکس بھی ہے۔ اور میں کسی بھی قیمت پر اپنے مارکس پر کمپرمائز نہیں کر سکتی ۔"

عشنا نے اُداس چہرے کے ساتھ کہا۔

"اوہ۔۔۔۔۔۔ میری جان کو انڈسٹریل وزٹ پر جانا ہے؟"

عشنا نے اپنے نچلے لب کو ذرا سا لٹکا کر چہرہ معصوم بنا کر ہاں کہا تو عالمگیر مسکرائے بنا نا رہ سکا۔

"نیکسٹ ویک کب نکل رہی ہے کلاس وزٹ کے لیے؟"

عالمگیر نے پوچھا 

"نیکسٹ منڈے"

عشنا نے بتایا۔

عالمگیر نے اپنا سیل فون نکالا اور نادر کا میسیج چیک کیا جہاں میٹنگ کی ڈیٹیل تھے۔


اُس کی میٹنگ منگل کو طے پا گئی تھی۔

 اُس نے ابراہیم صاحب کو کال ملائی۔

"ہاں۔۔۔مامو۔۔۔ہاں۔۔۔آپ عشنا کو انڈسٹریل وزٹ پر  جانے دیں۔

نہیں۔۔۔ایسا کچھ نہیں ہوگا۔۔۔مامو میں ہوں نہ۔۔۔نہیں مامو۔۔میں دیکھ لوں گا۔نہیں۔۔ایسا کچھ ہوا تو میں اُسے کراچی سے اپنے ساتھ لے آؤنگا۔۔نہیں مامو۔۔میں دیکھ لوں گا۔ ٹرسٹ می۔"

عالمگیر نے تفصیلی بات کر کے کال کاٹی اور عشنا کو سیدھا کر کے بیٹھایا اور اُس کا ہاتھ تھاما

"چلو اب خوش ہو جاؤ۔۔۔مامو نے پرمیشن دے دی ہے۔۔۔ اب جا کر تیاری کرنا وزٹ کی ۔"

عالمگیر نے اُسے بتایا تو عشنا خوشی سے اچھل پڑی۔

"سچ میں۔۔۔؟"

عشنا کھڑی ہوتی ہوئی بولی۔

عالمگیر بھی مسکراتا جھولے سے کھڑا ہوا اور اثبات میں سر ہلا دیا۔

عالمگیر اُس کے ہاتھوں کو تھام کر کچھ کہنے ہی لگا تھا کے اُس کا سیل پھر بجا۔

عشنا منہ پر ایک ہاتھ رکھ کر ہنسی۔ تو عالمگیر نے اُس کا ہاتھ چھوڑ دیا اور مسکراتے ہوئے آنکھیں بڑی کر کے اُسے دیکھا اور کال آن کر کے کان سے لگا لیا۔

"بولو نادر۔۔۔"

اُس نے ایک گہری سانس لی۔

"ہاں۔۔وہ۔۔۔ٹھیک ہے۔۔۔ہمم۔۔۔۔ چلو ٹھیک میں دیکھ لیتا ہوں۔۔۔تم میری جو پہلی فلائٹ مِلتی ہے ٹکٹ نکال کر ڈیٹیل مجھے ایمیل کر دو۔ میں نکل رہا ہو۔"

اُسکی ایک فورین دیلیگیشن کی میٹنگ کل 12 بجے کی طے پا گئی تھی جسکے لیے وہ کافی وقت سے کوشش کر رہا تھا۔

کال کاٹ کر اُس نے عشنا کو دیکھا تو اُسکی آنکھوں میں اُبھرتے آنسوں نے اُسے پریشان کر دیا۔

"اسی لیے کہتا ہو کہ چلو میرے ساتھ ۔ پھر یہ بار بار کی جدائی ہمیں نہیں سہنی پڑےگی۔ تم ایسے تو مت روؤ یار ۔۔اتنی اچھی شام اس لیے تو نہیں گزاری تمہارے ساتھ کے آخر میں تمہارے آنسوں دیکھوں۔۔۔۔۔عشنا پلیز یار۔۔۔"

عالمگیر نے بےبسی سے اُسکا چہرے تھام کر کہا تو وہ اُس کے سینے سے لگ کر بلکتے ہوئے بولی۔

"آپ نے ۔۔۔آپ نے کہا تھا کہ۔۔۔کے آپ رخصتی کے بعد مجھے لاہور میں رکھیں گے ۔۔۔اور ۔۔۔اور صرف ایک دو دن کے لیے آیا کرینگے۔۔۔تو ۔۔۔تو تب بھی تو مجھے۔۔۔مجھے آپ کی جدائی۔۔۔جدائی برداشت کرنی پڑےگی۔۔۔آپ بس دو دن ۔۔۔دو دن میرے ساتھ ۔۔۔پھر چلے جائیں گے۔۔۔تو تب بھی ۔۔۔تب بھی میں ایسے ہی رویا کروں گی۔۔"

عشنا نے اپنے دل میں چھپی بات اُس سے کہیں۔

عالمگیر مسکرایا اور اُسے سامنے کر کے اُسکا چہرہ اونچا کر کے گویا ہوا

"پاگل۔۔۔۔اُس دِن تو میں نے ویسے ہی کہہ دیا تھا۔ تمہیں لگتا ہے میں تمہیں رخصتی کے بعد لاہور رہنے بھی دوں گا؟ میری جان رخصتی کے بعد آپ ہمیشہ میرے پاس رہوگی۔۔اور میں امی کو بھی منا کر ساتھ لے جاؤنگا۔ تو لاہور کا کوئی مسئلہ ہی نہیں رہیگا۔ تو پھر کیا خیال ہے؟ مامو سے بات کروں؟"

عالمگیر نے آخر میں شرارت سے کہا تو وہ چہرہ موڑ گئی 

"مجھے نہیں پتہ۔۔۔" 

وہ آہستہ سے بولی۔

عالمگیر کا فون ایک بار پھر بجا۔

"ہاں۔۔۔ٹھیک ہے اوکے میں چیک کر لیتا ہو۔۔۔"

عالمگیر نے کال ریسیو کی تو نادر نے اُسے فلائٹ کے بارے میں بتایا جو رات 10 بجے کی تھے۔ عالمگیر نے بایاں ہاتھ ذرا اونچا کر کے گھڑی دیکھی جو 6 بجا رہی تھی۔

"عشنا چلو۔۔۔تمہیں گھر ڈراپ کر دو۔۔۔پھر مجھے ایئرپورٹ بھی جانا ہے۔۔۔"

عالمگیر نے عشنا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا 

"میں۔۔۔میں آپ کے ساتھ۔۔۔آپ کے ساتھ ایئرپورٹ ۔۔۔چلونگی۔۔۔"

وہ بھیگی آنکھوں سمیت بولی 

"نہیں۔۔۔۔تم اتنی رات اکیلے گھر کیسے جاؤ گی۔ چلو میں ڈراپ کر دو تمہیں۔۔۔"

عالمگیر نے فکرمندی سے کہا

" نہیں نا۔۔۔۔مجھے جانا ہے۔۔۔"

وہ بضد تھی۔

اچھا چلو۔۔۔وہ اُسے لیے گاڑی کی طرف آیا اور فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھول کر اُسے اندر بیٹھایا اور خود ڈائیونگ سیٹ پر آ کر بیٹھا۔

ابراہیم صاحب کو وہ دن میں ہی فون پر عشنا کے اُسکے ساتھ ہونے کا بتا چکا تھا لیکن عشنا کی ضد میں وہ اُسے ایئرپورٹ پر بھی نہیں لے جا سکتا تھا۔ ایک تو عالمگیر کو اُسکا رات میں تنہا سفر کرنا سیف نہیں لگا اور دوسرے اگر وہ ایئرپورٹ جاتی تو عالمگیر کبھی اُسے چھوڑ کر نہیں جا سکتا تھا۔

اُس نے کار ابراہیم ہاؤس کے آگے روکی تو عشنا نے چہرہ موڑ کر عالمگیر کو دیکھا۔

وہ کار سے باہر آیا اور اُسکی طرف کا دروازہ کھول کر اُسے باہر نکالا۔ اُسکا ہاتھ تھام کر گیٹ کے اندر آیا اور اُسکا ہاتھ چھوڑ دیا۔

عشنا روتے ہوئے بس اُسے دیکھے جا رہی تھی۔

"عشنا جان ۔۔۔۔مجھے تمہارا رات میں اکیلا سفر کرنا سیف نہیں لگتا اور دوسرے میں ۔۔۔میں تمہیں ایئرپورٹ پر ایسے روتا دیکھ کر جا نہیں پاونگا۔" 

عالمگیر نے اپنی ضبط کی سختی سے سرخ ہوتی آنکھوں سے کہا۔

عشنا رو کر اپنا درد،اپنی تکلیف بایاں کر دیتی تھی لیکن عالمگیر رو نہیں سکتا تھا۔ اس لیے اپنے آپ پر ضبط کے بندھن باندھے وہ عشنا کے قریب ہوا اور اُسے گلے لگا کر اُس کے الگ ہوا۔

"میں۔۔۔"

عالمگیر کچھ کہنے ہی لگا تھا کے عشنا نے اُسکی بات کاٹ دی

"میں ۔۔۔میں آپ سے بات نہیں کرونگی۔۔۔نہیں کرونگی۔۔۔"

آنکھوں کے آنسوں کو ہتھیلی کی پشت سے رگڑتی وہ بولی اور بھاگ کر اندر چلی گئی۔

عالمگیر نے بے بسی سے اُسے جاتا دیکھا اور بایاں ہاتھ ذرا سا اونچا کر کے گھڑی دیکھی جو 8 بجا رہی تھی ۔اُسے یہاں سے ایئرپورٹ پہنچنے میں بھی 45 منٹس تو لگ ہی جانے تھے۔

وہ مڑا اور گیٹ پر کھڑی اپنی کار کی طرف آ کر اُس میں بیٹھ کر کار اسٹارٹ کر لی اور کار کو ایئرپورٹ کے راستے پر ڈال دی۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈھائی سال پہلے


"فاروق صاحب میں چاہتی ہوں کے اب سنبل اور عالمگیر کی شادی کر دی جائے۔ میں اب اور زیادہ انتظار نہیں کر سکتی۔آپ کی کیا رائے ہے اس بارے میں؟"

رحمت بیگم نے فاروق صاحب کو کال کی تاکہ سنبل اور عالمگیر کی شادی کی ڈیٹ کے بارے میں بات کر سکیں۔

"جی ۔۔۔جی بہن۔۔۔ویسے بھی مگنی کو 6 مہینے کا عرصہ تو ہو ہی گیا ہے۔میں سنبل سے بات کر کے آپ کو بتاتا ہو۔"

فاروق صاحب نے کہہ کر کال بند کی۔ اُن کا ارادہ آج سنبل سے صاف صاف بات کرنے کا تھا۔ وہ جب بھی اُس سے اس بارے میں بات کرنا چاہتے تو وہ یا تو ٹال دیتی یا پھر کچھ بہانہ کر دیتی تھی۔

"سنبل۔۔میری بات سنو۔۔۔"

فاروق صاحب صوفے پر بیٹھے سوچوں میں گم تھے تب ہی سنبل نک سک سے تیار کمرے سے نکل کر لاؤنج سے ہوتے ہوئے باہر کی طرف بڑھ رہی تھی تب ہی فاروق صاحب نے اُسے پُکارا

"جی ابّو۔۔۔۔"

اُس نے کھڑے کھڑے ہی اُن کی بات سنی۔

"بیٹا آپ یہاں آ کر بیٹھیں۔۔مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔"

اُنہوں نے اُسے کھڑے دیکھ کر کہا۔

"ابّو۔۔۔ابھی نہیں۔۔۔ابھی مجھے دیر ہو رہی ہے۔۔۔مجھے ایک پارٹی میں پہنچنا ہے۔۔۔"

اُس نے اُکتا کر اُنھیں ٹالنا چاہا۔

"بیٹا آپ کی زندگی سے ضروری تو نہیں آپ کی پارٹی۔۔۔یہاں آ کر بیٹھیں۔۔۔"

اُنہوں نے ذرا سختی سے کہا۔

"ابّو صرف دو منٹ۔۔۔جلدی کہیں کیا کہنا ہے۔۔۔۔؟"

وہ صوفے پر اُن کے ساتھ بیٹھتے ہوئے بولی۔

فاروق صاحب نے اپنا رخ اُسکی طرف کیا اور گویا ہوئے۔

"بیٹا۔۔۔رحمت بیگم کا فون آیا تھا۔وہ شادی کی ڈیٹ فیکس کرنا چاھتی ہیں۔ تو بتاؤ۔۔۔کب کی رکھنی ہی شادی ۔۔۔؟"

اُنہوں نے رسان سے پوچھا۔

"ہولڈ ڈاؤن ابّو۔۔۔آپ یہ کس کی شادی کی بات کر رہنے ہیں؟"

اُس نے ہاتھ کے اشارے سے اُنہیں روکتے ہوئے کہا۔

"بیٹا تمہاری اور عالمگیر کی اور کس کی۔۔۔؟"

اُنہوں نے مشکوق نظروں سے اُسے دیکھتے ہوئے کہا۔

"ابّو۔۔۔ابھی میں نے شادی کے بارے میں کچھ سوچا نہیں ہے۔۔۔سوچ لوں گی تو بتا دونگی۔۔۔اینڈ ناو لیٹ می گو۔۔۔آئی ایم گیٹنگ لیٹ۔۔۔۔۔۔"

کہنے کے ساتھ وہ کھڑی ہو گئی اور گھر سے باہر آ کر کار میں بیٹھی اور کار کو گیٹ سے باہر نکال لے گئی اور وہ افسوس سے سر ہلا کر رہ گئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


"عالمگیر۔۔۔۔میری بات سنو۔۔۔"

عالمگیر جو ابھی ابھی مراد کے ساتھ لنچ کر کے گھر آ رہا تھا رحمت بیگم کے پکارنے پر  رکا۔

"بیٹا سنڈے کو تو گھر پر رہا کرو۔۔۔"

وہ اُس کے پاس آ کر بولیں۔

"امی۔۔اب گھر پر ہی ہو۔۔۔۔وہ مراد نے لنچ کے لیے بولا لیا تھا تو۔۔۔اب سارا دن صرف آپ کے ساتھ۔۔پکّا۔  ۔"

عالمگیر نے اُنکے گرد بازؤ پھیلا کر کہا تو وہ مسکرا دی۔

دونوں ساتھ چلتے صوفے تک آئے تو رحمت بیگم صوفے پر بیٹھ گئیں۔ عالمگیر نے اُن کے پیروں کے پاس بیٹھ کر اپنا سر اُنکی گود میں رکھ لیا اور آنکھیں موند لی۔

رحمت بیگم آہستہ آہستہ سے اُسکے بالوں میں انگلی چلانے لگیں۔

عالمگیر نے آنکھیں بند کی تو ریسٹورینٹ کا وہ منظر اُسکی آنکھوں میں گھوم گیا۔

مراد اور وہ ریسٹورینٹ میں کھانا کھا رہے تھے۔

"آج تو بچو تیری جیب خالی کرنی ہے مجھے"

مراد نے اُسے چڑایا۔

"اب میں اتنا بھی غریب نہیں کے تیرے ساتھ کھانا کھانے سے میری جیب خالی ہو جائے۔۔"

عالمگیر نے اُسی کے انداز میں جواب دیا۔

"وہ تو دیکھ لیں گے بیٹا۔۔۔۔ویٹر۔۔۔"

کہنے کے ساتھ اُس نے ویٹر کو آواز دی تو عالمگیر مسکرا کر رہ گیا۔

"سنو۔۔۔آج جو جو تمہارے ریسٹورینٹ کی اسپیشل ڈشیز ہیں سب لے آؤ۔۔۔"

اُس نے ویٹر سے کہا۔

"ابے پاگل ہو گیا ہے کیا؟ وہ تو سب کچھ ہی لیے آئیگا۔۔۔"

عالمگیر نے ویٹر کے جاتے ہی مراد کو تنبیہ کی۔

"کیوں؟ ابھی سے ڈر گیا؟ ویسے والیٹ لایا ہے نہ تو؟ کیونکہ میں اپنا والیٹ لے کر نہیں آیا اور میرا ریسٹورینٹ میں برتن دھونے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔"

مراد نے آخر میں ہاتھ اٹھا کر کہا ۔

عالمگیر اُس کی بات پر قہقہہ لگائیے بنا نہ رہ سکا۔

3 ویٹر ہاتھوں میں ٹرے لیے اُنکی ٹیبل تک آئے ۔ چوتها ویٹر آگے آیا اور ایک ایک کر کے ساری ڈشیز اُن کے ٹیبل پر سجانے لگا۔

"جی ۔۔۔جی۔  ۔۔بلکل ہی میرے پاس والیٹ ہے لیکن اتنا سب کچھ کھائے گا کون؟"

ویٹر جب چلے گئے تو عالمگیر نے  بھری ٹیبل دیکھ کر کہا۔

"تو فکر ہی مت کر۔۔۔۔تیرا بھائی ہے نہ۔۔۔۔"

اُس نے اپنے سینے پر انگلی رکھ کر کہا تو عالمگیر نے شانے اچکا دیئے۔ اور ایک پلیٹ میں مٹن قورمہ نکال کر کھانے لگا۔

مراد نے ایک ایک کر کی ساری ڈشیز سامنے کی اور کھانے لگا۔

دیکھتے ہی دیکھتے ساری پلیٹیں صاف ہو گئی اور عالمگیر حیرت سے منہ کھولے اُسے دیکھتا رہا۔

مراد نے رسگُلے کا آخری بائٹ منہ میں رکھ کر ایک زور دار انگڑائی لی اور عالمگیر کو دیکھا جو حیرت سے منہ کھولے اُسے دیکھ رہا تھا 

"منہ بند کر لے ورنہ مکھی چلی جائیگی۔۔۔"۔

کہنے کے ساتھ ہی اُس نے قہقہہ لگایا تو عالمگیر نے سٹپٹا کر منہ بند کیا

"اور کچھ منواوں؟"

عالمگیر نے طنز کرتے ہوئے پوچھا 

"نہیں یار۔۔۔اب جگہ نہیں ہے۔۔۔ایک کام کر کافی منگوا لے۔۔۔"

اُس نے مزے سے کہا۔

"ابھی کافی کی جگہ رہتی ہے؟"

عالمگیر کی حالت حیرت سے غیر ہونے لگی۔

"ہاں اور نہیں تو کیا۔۔۔کھانے کے بعد چائے یہ کافی تو ہونی ہی چاہیے نہ۔۔۔"

کہنے کے ساتھ ہی اُس نے پھر سے ویٹر کو آواز دی اور دو کافی لانے کہا تو عالمگیر نے کافی کے لیے منع کر دیا اور ساتھ ہی بل بھی منگوا لیا ۔

تھوڑی دیر میں ویٹر کافی لے آیا تب تک دوسرے ویٹر ٹیبل صاف کر کے جا چکے تھے۔

مراد مزے سے  مسکراتے ہوئے کافی کے سپ لینے لگا تو دوسرا ویٹر بل لے آیا۔ عالمگیر نے بل دیکھا تو مراد نے کہے کے مطابق اچھا خاصہ بل بنوایا تھا۔ اُس نے  ہلکی سے مسکراہٹ کے ساتھ بل پے کیا اور مراد کے کافی ختم کرنے کا انتظار کرنے لگا۔

وہ یوں ہی نظریں گھوما کر یہاں وہاں دیکھ رہا تھا کہ اچانک اُس کی نظر اپنے سے کچھ فاصلے کے ٹیبل پر پڑی جس پر سنبل کسی نوجوان کے ساتھ بیٹھی تھی اور مسکرا مسکرا کر باتیں کر رہی تھی۔

مراد نے عالمگیر کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو اُسے بھی سنبل کسی کے ساتھ مسکرا کر باتیں کرتی نظر آئی۔

عالمگیر اٹھا اور سنبل کے پاس جا ہی رہا تھا کے وہ لوگ اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھ گئے ۔اور  باہر جاتے وقت اُس شخص نے اپنا ہاتھ سنبل کی کمر کے گرد پھیلا رکھا تھا اور سنبل اُس کی کسی بات پر مسکرا رہی تھی۔ پھر وہ لوگ پارکنگ میں جا کر کار میں بیٹھے اور کار آگے بڑھ گئی۔

عالمگیر نے اپنے غصے کو روکنے کے لیے مٹھٹھیاں بھینچ لی۔

مراد جو سب کچھ دیکھ چکا تھا اُس کے پاس آیا اور اُسے ریلیکس کرنے کے لیےاُس کے کندھیں پر ہاتھ رکھا تو اُس نے ہاتھ اٹھا کر اُسے کچھ کہنے سے روک دیا۔ اور ریسٹورینٹ سے نکل کر اپنی کار میں بیٹھا اور گھر کی طرف چل پڑا۔

"عالمگیر۔۔۔۔"

رحمت بیگم نے پُکارا تو وہ اپنی سوچوں سے باہر آیا اور آنکھیں کھول کر اُنھیں دیکھا۔

"عالمگیر ۔۔میں چاہتی ہوں کے اب تمہاری شادی ہو جائے۔۔۔۔میں نے فاروق صاحب کو دو تین دفعہ کال کیا تھا اس بارے میں بات کرنے کے لیے لیکن انکا کوئی مثبت جواب نہیں آیا ۔ تم سنبل سے ایک بار بات کر کے دیکھو۔۔۔"

سنبل کے نام پر ایک بار پھر اُسکے جبڑے کی رگیں تن گئیں۔۔۔ اُس نے اُن کے سامنے خود کو کچھ کہنے سے بعض رکھا۔

"امی۔۔۔ابھی میرے کُچّھ پروجیکٹ چل رہے ہیں۔۔۔ابھی تو فلحال میں بھی شادی نہیں کر سکتا۔۔۔کچھ دنوں بعد دیکھتے ہیں۔۔۔۔"

عالمگیر نے خود کو نارمل ظاہر کرتے ہوئے کہا۔

"لیکن بیٹا۔۔۔تمہاری منگنی کو بھی 6 مہینے ہو گئے ہیں۔۔۔اب اور کتنا وقت ۔۔"

رحمت بیگم کو اُسکی سجھ نہیں آئی۔ اگر دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں تو پھر شادی میں دیر کیوں۔۔۔لیکن اُنھیں کچھ کہا نہیں۔۔۔عالمگیر یوں ہی بیٹھا اُن کے ساتھ یہاں وہاں کی باتیں کرتا رہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات کے سائے گہرے ہو رہے تھے ۔

وہ عشا کی نماز ادا کر کے آیا تو رحمت بیگم اُسکا ڈنر پر انتظار کر رہی تھیں۔

وہ چلتا ہوا اُنکے پاس ڈائننگ ٹیبل تک آیا اور چیئر گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔اُس کے مقابل چیئر پر عشنا سر جھکائے کھانا کھا رہی تھی۔رحمت بیگم سربراہی چیئر پر بیٹھی تھیں۔

اُس کے بیٹھتے ہی رحمت بیگم اُسے کھانا سرو کرنے کے لیے اٹھنے لگی تو عشنا نے اُنھیں روک دیا 

"پھوپھو آپ بیٹھیں۔۔۔میں سرو کر دیتی ہو۔"

عالمگیر نے اُسے غور سے دیکھا۔

سفید چوڑیدار میں ٹخنوں تک آتی لمبی قمیض پہنے بڑا سا دوپٹہ قاعدے سے سر پر جمائے اُجلی اُجلی وہ بہت معصوم اور بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔

عالمگیر نے اپنے سارے دن کی کلفت دور ہوتی محسوس کی جو سنبل کی وجہ سے سارا دن اُس کے دماغ پر بسیرا کئے ہوئے تھی۔

عشنا نے ایک ایک چیز اُسے سرو کی اور آ کر اپنی چیئر پر بیٹھ گئی ۔

"ہمم۔۔۔آج تو بہت اہتمام کیا گیا ہے۔۔۔کوئی خاص بات؟"

عالمگیر نے اپنی پلیٹ میں چکن کڑای،چکن مغلائی،چکن 65،چکن  رول دیکھ کر حیرت سے پوچھا۔

"پتہ نہیں آج بشیر کو کیا سوجھی جو اتنی ساری چکن کی ڈشیز بنا دی۔ میں نے بھی کچھ نہیں کہا کے یہ ساری تمہاری پسند کی ہے۔"

اُنہوں نے مسکرا کر کہا تو عالمگیر نے بھی مسکرا کر ایک بائٹ منہ میں رکھا لیکن لقمہ منہ میں رکھتے ہی اُسے ٹیسٹ کچھ الگ اور بہت اچھا لگا۔

"امی کے ہاتھوں کا ٹیسٹ تو نہیں ہے یہ۔۔۔اور نہ ہی بشیر اتنا اچھا کُک کرتا ہے۔۔تو یہ۔۔۔تو کیا یہ سب عشنا نے۔۔۔"

اسنے دل میں سوچا اور عشنا کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا تو وہ بھی اُسے ہی دیکھ رہی تھی۔

عالمگیر کو دیکھتا پا کر اسنے نظریں جھکا لی۔اور جگ سے گلاس میں پانی انڈیلنے لگی۔

عالمگیر کی مسکراہٹ گہری ہو گئی۔

"مطلب یہ سب عشنا نے بنایا ہے۔۔۔کتنا ٹیسٹ ہے اسکے ہاتھوں میں۔۔۔۔"

اسنے کھانا کھاتے کھاتے سوچا۔

"عشنا تمہاری اسٹڈیز کیسی جا رہی ہیں؟"

عالمگیر نے اُسے مخاطب کیا 

"ٹھیک۔۔۔۔"

اُس نے آہستہ سے کہا۔

عالمگیر نے اُسے نروس دیکھ کر اور کوئی بات نہیں کی اور کھانا ختم کر کے امی سے پیار لیتا کمرے میں آ کر سونے کے لیے لیٹ گیا۔لیکن آنکھیں بند کرتے ہی عشنا کا سفید دوپٹے کے ہالے سے جھانکتا چہرہ چھم سے اُسکے آنکھوں کے پردے پر ابھرا تو اُس نے گھبرا کر آنکھیں کھول دی۔

ساری رات وقفے وقفے سے اُسے عشنا کا چہرہ یاد آتا رہا جس کی وجہ سے وہ ساری رات سو نہیں پایا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


حال


عالمگیر ایئرپورٹ پہنچنے تک بار بار عشنا کو کال کرتا رہا لیکن اُس نے فون نہیں ریسیو کیا۔

عالمگیر پریشان سا ایئرپورٹ پر بورڈنگ پاس لیتے ہوئے فلائٹ بورڈ کرتے ہوئے بھی اُسے کال کرتا رہا لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ آخر کو جب فلائٹ آٹینڈنٹ نے آ کر اُسے موبائل آف کرنے کا کہا تو وہ ایک آخری بار کال کرنے لگا لیکن بے سود۔۔۔

اُس نے موبائل آف کر دیا اور سیٹ کی پشت سے سر ٹیکا کر آنکھیں موند لی۔ رہ رہ کر اُسے عشنا کا آنسوؤں سے بھیگا ہوا چہرہ یاد آتا رہا۔  سارے راستے وہ پریشان رہا تھا۔

اسلام آباد ایئرپورٹ پر نادر اُسکا انتظار کر رہا تھا۔جیسے ہی وہ باہر آیا نادر اُس کی طرف بڑھا لیکن اُسے دیکھتے ہی ٹھٹھک گیا۔

"Sir...? You okay?"

(سر۔۔۔؟ کیا آپ ٹھیک ہیں؟)

نادر کو وہ بیمار سا لگا۔

 اُسکی سرخ پڑتی آنکھیں۔۔اُسکی ڈھیلی ٹائی۔۔اُسکے ہاتھوں میں بیزاری سے پڑے کوٹ،کندھے پر بے پرواہی سے لٹکی لیپ ٹاپ بیگ اور سست قدموں کو دیکھ کر کہیں سے بھی وہ روز والا عالمگیر نہیں لگ رہا تھا۔

"Yes.....just little bit tired...."

(ہاں۔۔۔۔بس تھوڑا تھک گیا ہوں)

عالمگیر نے اُسے تھکے تھکے انداز میں جواب دیا ۔

"ٹھیک ہے سر۔۔ پھر آپ گھر جا کر رسٹ کریں۔۔۔میں صبح تک پریزنٹیشن تیار کر کے دیکھا دیتا ہو۔کچھ آگے پیچھے ہوا تو 12 بجے سے پہلے ٹھیک ہو جائیگا ۔ یو ٹیک کیئر۔"

نادر نے فکرمندانا انداز میں کہا تو عالمگیر نے مسکرا کر اُسے دیکھا۔

"نہیں یار۔۔۔اب اتنا بھی نہیں تھکا۔۔۔چلو۔۔۔میرے ساتھ گھر۔۔۔۔ وہی بنا لیتے ہیں۔۔ میں کوئی رسک نہیں لے سکتا۔"

عالمگیر کہتا ہوا پارکنگ میں اپنی کار کے پاس آئے جو اسنے نادر کو لانے کے لیے کہ رکھا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"عشنا۔۔۔۔" 

عشنا بھاگتی ہوئی گھر میں آئی تو ابراہیم صاحب نے اُسے پُکارا تھا۔

وہ بنا کوئی جواب دیے اپنے کمرے میں بند ہو گئی۔

ابراہیم صاحب نے دروازہ کھٹکھٹا لیکن اُس نے نہیں کھولا نہ کوئی جواب دیا۔ تھوڑی دیر تک وہ پکارتے رہے پھر اپنے کمرے میں آ کر عالمگیر کو کال کرنے لگے لیکن اُسکا نمبر مسلسل بیزی جا رہا تھا۔ کافی دیر تک اُنہوں نے اُسے کال ملائی لیکن جب نہ مل سکی تو صبح کال کرنے کا ارادہ کرتے وہ بھی سونے کے لیے لیٹ گئے۔

عشنا نے کمرے میں آ کر دروازہ لوک کیا اور اپنا ہینڈ پرس وہیں فرش پر بھینک کر بیڈ پر گر کر رونے لگی۔۔۔روتے روتے نجانے کب اُس کی آنکھ لگ گئی۔ اُسکا موبائل پرس میں پڑا بجتا اور بند ہو جاتا پھر بجتا پھر بند ہو جاتا۔آخر 10 بجے کے قریب اُسکا بجنا بند ہو ہی گیا۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ڈھائی سال پہلے


"فاروق صاحب میں چاہتی ہوں کے اب سنبل اور عالمگیر کی شادی کر دی جائے۔ میں اب اور زیادہ انتظار نہیں کر سکتی۔آپ کی کیا رائے ہے اس بارے میں؟"

رحمت بیگم نے فاروق صاحب کو کال کی تاکہ سنبل اور عالمگیر کی شادی کی ڈیٹ کے بارے میں بات کر سکیں۔

"جی ۔۔۔جی بہن۔۔۔ویسے بھی مگنی کو 6 مہینے کا عرصہ تو ہو ہی گیا ہے۔میں سنبل سے بات کر کے آپ کو بتاتا ہو۔"

فاروق صاحب نے کہہ کر کال بند کی۔ اُن کا ارادہ آج سنبل سے صاف صاف بات کرنے کا تھا۔ وہ جب بھی اُس سے اس بارے میں بات کرنا چاہتے تو وہ یا تو ٹال دیتی یا پھر کچھ بہانہ کر دیتی تھی۔

"سنبل۔۔میری بات سنو۔۔۔"

فاروق صاحب صوفے پر بیٹھے سوچوں میں گم تھے تب ہی سنبل نک سک سے تیار کمرے سے نکل کر لاؤنج سے ہوتے ہوئے باہر کی طرف بڑھ رہی تھی تب ہی فاروق صاحب نے اُسے پُکارا

"جی ابّو۔۔۔۔"

اُس نے کھڑے کھڑے ہی اُن کی بات سنی۔

"بیٹا آپ یہاں آ کر بیٹھیں۔۔مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔"

اُنہوں نے اُسے کھڑے دیکھ کر کہا۔

"ابّو۔۔۔ابھی نہیں۔۔۔ابھی مجھے دیر ہو رہی ہے۔۔۔مجھے ایک پارٹی میں پہنچنا ہے۔۔۔"

اُس نے اُکتا کر اُنھیں ٹالنا چاہا۔

"بیٹا آپ کی زندگی سے ضروری تو نہیں آپ کی پارٹی۔۔۔یہاں آ کر بیٹھیں۔۔۔"

اُنہوں نے ذرا سختی سے کہا۔

"ابّو صرف دو منٹ۔۔۔جلدی کہیں کیا کہنا ہے۔۔۔۔؟"

وہ صوفے پر اُن کے ساتھ بیٹھتے ہوئے بولی۔

فاروق صاحب نے اپنا رخ اُسکی طرف کیا اور گویا ہوئے۔

"بیٹا۔۔۔رحمت بیگم کا فون آیا تھا۔وہ شادی کی ڈیٹ فیکس کرنا چاھتی ہیں۔ تو بتاؤ۔۔۔کب کی رکھنی ہی شادی ۔۔۔؟"

اُنہوں نے رسان سے پوچھا۔

"ہولڈ ڈاؤن ابّو۔۔۔آپ یہ کس کی شادی کی بات کر رہنے ہیں؟"

اُس نے ہاتھ کے اشارے سے اُنہیں روکتے ہوئے کہا۔

"بیٹا تمہاری اور عالمگیر کی اور کس کی۔۔۔؟"

اُنہوں نے مشکوق نظروں سے اُسے دیکھتے ہوئے کہا۔

"ابّو۔۔۔ابھی میں نے شادی کے بارے میں کچھ سوچا نہیں ہے۔۔۔سوچ لوں گی تو بتا دونگی۔۔۔اینڈ ناو لیٹ می گو۔۔۔آئی ایم گیٹنگ لیٹ۔۔۔۔۔۔"

کہنے کے ساتھ وہ کھڑی ہو گئی اور گھر سے باہر آ کر کار میں بیٹھی اور کار کو گیٹ سے باہر نکال لے گئی اور وہ افسوس سے سر ہلا کر رہ گئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


"عالمگیر۔۔۔۔میری بات سنو۔۔۔"

عالمگیر جو ابھی ابھی مراد کے ساتھ لنچ کر کے گھر آ رہا تھا رحمت بیگم کے پکارنے پر  رکا۔

"بیٹا سنڈے کو تو گھر پر رہا کرو۔۔۔"

وہ اُس کے پاس آ کر بولیں۔

"امی۔۔اب گھر پر ہی ہو۔۔۔۔وہ مراد نے لنچ کے لیے بولا لیا تھا تو۔۔۔اب سارا دن صرف آپ کے ساتھ۔۔پکّا۔  ۔"

عالمگیر نے اُنکے گرد بازؤ پھیلا کر کہا تو وہ مسکرا دی۔

دونوں ساتھ چلتے صوفے تک آئے تو رحمت بیگم صوفے پر بیٹھ گئیں۔ عالمگیر نے اُن کے پیروں کے پاس بیٹھ کر اپنا سر اُنکی گود میں رکھ لیا اور آنکھیں موند لی۔

رحمت بیگم آہستہ آہستہ سے اُسکے بالوں میں انگلی چلانے لگیں۔

عالمگیر نے آنکھیں بند کی تو ریسٹورینٹ کا وہ منظر اُسکی آنکھوں میں گھوم گیا۔

مراد اور وہ ریسٹورینٹ میں کھانا کھا رہے تھے۔

"آج تو بچو تیری جیب خالی کرنی ہے مجھے"

مراد نے اُسے چڑایا۔

"اب میں اتنا بھی غریب نہیں کے تیرے ساتھ کھانا کھانے سے میری جیب خالی ہو جائے۔۔"

عالمگیر نے اُسی کے انداز میں جواب دیا۔

"وہ تو دیکھ لیں گے بیٹا۔۔۔۔ویٹر۔۔۔"

کہنے کے ساتھ اُس نے ویٹر کو آواز دی تو عالمگیر مسکرا کر رہ گیا۔

"سنو۔۔۔آج جو جو تمہارے ریسٹورینٹ کی اسپیشل ڈشیز ہیں سب لے آؤ۔۔۔"

اُس نے ویٹر سے کہا۔

"ابے پاگل ہو گیا ہے کیا؟ وہ تو سب کچھ ہی لیے آئیگا۔۔۔"

عالمگیر نے ویٹر کے جاتے ہی مراد کو تنبیہ کی۔

"کیوں؟ ابھی سے ڈر گیا؟ ویسے والیٹ لایا ہے نہ تو؟ کیونکہ میں اپنا والیٹ لے کر نہیں آیا اور میرا ریسٹورینٹ میں برتن دھونے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔"

مراد نے آخر میں ہاتھ اٹھا کر کہا ۔

عالمگیر اُس کی بات پر قہقہہ لگائیے بنا نہ رہ سکا۔

3 ویٹر ہاتھوں میں ٹرے لیے اُنکی ٹیبل تک آئے ۔ چوتها ویٹر آگے آیا اور ایک ایک کر کے ساری ڈشیز اُن کے ٹیبل پر سجانے لگا۔

"جی ۔۔۔جی۔  ۔۔بلکل ہی میرے پاس والیٹ ہے لیکن اتنا سب کچھ کھائے گا کون؟"

ویٹر جب چلے گئے تو عالمگیر نے  بھری ٹیبل دیکھ کر کہا۔

"تو فکر ہی مت کر۔۔۔۔تیرا بھائی ہے نہ۔۔۔۔"

اُس نے اپنے سینے پر انگلی رکھ کر کہا تو عالمگیر نے شانے اچکا دیئے۔ اور ایک پلیٹ میں مٹن قورمہ نکال کر کھانے لگا۔

مراد نے ایک ایک کر کی ساری ڈشیز سامنے کی اور کھانے لگا۔

دیکھتے ہی دیکھتے ساری پلیٹیں صاف ہو گئی اور عالمگیر حیرت سے منہ کھولے اُسے دیکھتا رہا۔

مراد نے رسگُلے کا آخری بائٹ منہ میں رکھ کر ایک زور دار انگڑائی لی اور عالمگیر کو دیکھا جو حیرت سے منہ کھولے اُسے دیکھ رہا تھا 

"منہ بند کر لے ورنہ مکھی چلی جائیگی۔۔۔"۔

کہنے کے ساتھ ہی اُس نے قہقہہ لگایا تو عالمگیر نے سٹپٹا کر منہ بند کیا

"اور کچھ منواوں؟"

عالمگیر نے طنز کرتے ہوئے پوچھا 

"نہیں یار۔۔۔اب جگہ نہیں ہے۔۔۔ایک کام کر کافی منگوا لے۔۔۔"

اُس نے مزے سے کہا۔

"ابھی کافی کی جگہ رہتی ہے؟"

عالمگیر کی حالت حیرت سے غیر ہونے لگی۔

"ہاں اور نہیں تو کیا۔۔۔کھانے کے بعد چائے یہ کافی تو ہونی ہی چاہیے نہ۔۔۔"

کہنے کے ساتھ ہی اُس نے پھر سے ویٹر کو آواز دی اور دو کافی لانے کہا تو عالمگیر نے کافی کے لیے منع کر دیا اور ساتھ ہی بل بھی منگوا لیا ۔

تھوڑی دیر میں ویٹر کافی لے آیا تب تک دوسرے ویٹر ٹیبل صاف کر کے جا چکے تھے۔

مراد مزے سے  مسکراتے ہوئے کافی کے سپ لینے لگا تو دوسرا ویٹر بل لے آیا۔ عالمگیر نے بل دیکھا تو مراد نے کہے کے مطابق اچھا خاصہ بل بنوایا تھا۔ اُس نے  ہلکی سے مسکراہٹ کے ساتھ بل پے کیا اور مراد کے کافی ختم کرنے کا انتظار کرنے لگا۔

وہ یوں ہی نظریں گھوما کر یہاں وہاں دیکھ رہا تھا کہ اچانک اُس کی نظر اپنے سے کچھ فاصلے کے ٹیبل پر پڑی جس پر سنبل کسی نوجوان کے ساتھ بیٹھی تھی اور مسکرا مسکرا کر باتیں کر رہی تھی۔

مراد نے عالمگیر کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو اُسے بھی سنبل کسی کے ساتھ مسکرا کر باتیں کرتی نظر آئی۔

عالمگیر اٹھا اور سنبل کے پاس جا ہی رہا تھا کے وہ لوگ اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھ گئے ۔اور  باہر جاتے وقت اُس شخص نے اپنا ہاتھ سنبل کی کمر کے گرد پھیلا رکھا تھا اور سنبل اُس کی کسی بات پر مسکرا رہی تھی۔ پھر وہ لوگ پارکنگ میں جا کر کار میں بیٹھے اور کار آگے بڑھ گئی۔

عالمگیر نے اپنے غصے کو روکنے کے لیے مٹھٹھیاں بھینچ لی۔

مراد جو سب کچھ دیکھ چکا تھا اُس کے پاس آیا اور اُسے ریلیکس کرنے کے لیےاُس کے کندھیں پر ہاتھ رکھا تو اُس نے ہاتھ اٹھا کر اُسے کچھ کہنے سے روک دیا۔ اور ریسٹورینٹ سے نکل کر اپنی کار میں بیٹھا اور گھر کی طرف چل پڑا۔

"عالمگیر۔۔۔۔"

رحمت بیگم نے پُکارا تو وہ اپنی سوچوں سے باہر آیا اور آنکھیں کھول کر اُنھیں دیکھا۔

"عالمگیر ۔۔میں چاہتی ہوں کے اب تمہاری شادی ہو جائے۔۔۔۔میں نے فاروق صاحب کو دو تین دفعہ کال کیا تھا اس بارے میں بات کرنے کے لیے لیکن انکا کوئی مثبت جواب نہیں آیا ۔ تم سنبل سے ایک بار بات کر کے دیکھو۔۔۔"

سنبل کے نام پر ایک بار پھر اُسکے جبڑے کی رگیں تن گئیں۔۔۔ اُس نے اُن کے سامنے خود کو کچھ کہنے سے بعض رکھا۔

"امی۔۔۔ابھی میرے کُچّھ پروجیکٹ چل رہے ہیں۔۔۔ابھی تو فلحال میں بھی شادی نہیں کر سکتا۔۔۔کچھ دنوں بعد دیکھتے ہیں۔۔۔۔"

عالمگیر نے خود کو نارمل ظاہر کرتے ہوئے کہا۔

"لیکن بیٹا۔۔۔تمہاری منگنی کو بھی 6 مہینے ہو گئے ہیں۔۔۔اب اور کتنا وقت ۔۔"

رحمت بیگم کو اُسکی سجھ نہیں آئی۔ اگر دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں تو پھر شادی میں دیر کیوں۔۔۔لیکن اُنھیں کچھ کہا نہیں۔۔۔عالمگیر یوں ہی بیٹھا اُن کے ساتھ یہاں وہاں کی باتیں کرتا رہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

2 سال پہلے


"ہاں ہاں ہارون۔۔۔کیوں نہیں۔۔۔میں اور عالمگیر ضرور آئینگے۔۔۔۔تم پریشان نہ ہو۔۔۔"

رحمت بیگم نے خوشی خوشی کہا ۔مرحہ کی شادی طے ہو گئی تھی۔ اور ہارون صاحب نے کارڈ کورئیر کیا تھا جس کو دیکھتے ہی رحمت بیگم نے ہارون صاحب کو کال کر کے خوشی خوشی اپنے آنے کا بتایا تھا۔ ورنہ ایک سال پہلے جب عالمگیر نے مرحہ کے رشتے کے لیے انکار کیا تھا تو ہارون صاحب اتنا غصّہ ہوئے کے 6 مہینے تک اُن سے بات نہیں کی تھی۔اور اب بھی بس برائے نام ہی کرتے تھے۔ رحمت بیگم خود ہی اُنھیں کال کر لیتی تھی۔ اُنہیں اپنے بھائی بہت عزیز تھے ۔

"ہاں ۔۔۔ہم ہفتہ بھر پہلے پہنچ جائینگے۔"

رحمت بیگم نے کہہ کر کال بند کی اور عالمگیر کو کال کرنے لگیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عالمگیر آفس میں بیٹھا لیپ ٹاپ پر کام کر رہا تھا تب ہی اُسکا فون بجا۔

"ہاں۔۔۔بتاؤ۔۔۔کیا پتہ چلا؟

اچھا ۔۔۔اور ۔۔۔۔۔۔ہممم۔۔۔اوکے تم پکس بھیجو۔۔۔۔"

عالمگیر نے 6 مہینے پہلے سنبل کو ریسٹورینٹ میں اُس شخص کے ساتھ دیکھ کر اُس سے استفسار کیا تو اُس نے ماننے سے ہی انکار کر دیا اور کہا کہ اُس نے کسی اور کو دیکھا ہوگا۔ اس لیے بہت سوچنے کے بعد اُس نے سنبل پر نظر رکھنے کے لیے ایک دیٹیکٹو ہائر کیا تھا۔ جس نے بہت سی ایسی باتیں بتائیں تھی جسکو سننے کے بعد عالمگیر کو پہلے تو یقین ہی نہیں ہوا تھا لیکن جب اُس نے اُسے سنبل کی تصویریں جو کے مختلف مواقع پر لی گئی تھی بھیجی تو اُسے یقین کرنا پڑی۔

ہر تصویر میں وہ اُسی شخص کے ساتھ تھی۔ اب عالمگیر کے پاس سارے ثبوت تھے جِس کی بنا پر وہ سنبل سے اُس کی اور اُس شخص کے بارے میں پوچھ سکتا تھا۔

ابھی عالمگیر اُس دیٹکٹو کی بھیجی تصویریں دیکھ ہی رہا تھا  کے رحمت بیگم کی کال آنے لگی۔

" السلام و علیکم امی۔۔"

اُس نے کال ریسیو کرتے ہی اُنھیں سلام کیا۔

"وعلیکم السلام بیٹا۔۔۔جیتے رہو۔۔۔"

اُنہوں نے پیار سے اُسکے سلام کا جواب دیا 

"جی امی۔۔۔کیسے فون کیا۔۔۔"

عالمگیر نے پوچھا کیونکہ رحمت بیگم کبھی بنا مقصد اُسے آفس ٹائمنگ میں کال نہیں کیا کرتی تھیں۔

"بیٹا مرحہ کی شادی طے ہو گئی ہے۔۔ ہمیں اگلے ہفتے نکلنا ہے۔ تم ایسا کرو 10 دن کی چھٹی لے لو آفس سے۔"

اُنہوں خوشی خوشی اُسے بتایا تو وہ اُن کی آواز میں جھلکتی خوشی کو محسوس کر کے مسکرایا ۔

"امی ۔۔۔میں جوب تھوڑی کرتا ہو کے چھٹی لے لوں۔ میرا اپنا آفس ہے تو میں چھٹی تو نہیں کر سکتا وہ بھی اتنی لمبی۔ایک کام کیجئے آپ چلی جائیے۔۔میں اریجمنٹس کروا دیتا ہے۔"

عالمگیر نے اپنے نہ جانے کے بارے میں بتایا۔

"عالمگیر۔۔۔کیا میں اکیلی جاتی اچھی لگونگی؟

تم ایک ہی ایک میرے بیٹے ہو۔۔۔۔ 2 یہ 4 بچّے تو ہیں نہیں میرے کے ایک نے نہ سنی تو دوسرے کو کہہ کر اپنی بات منوا لی۔۔۔تم  میرے ساتھ چلو ۔۔۔سارے لوگ تمہارا پوچھیں گے تو میں کیا کہوں گی بیٹا۔۔۔"

وہ اُسے قائل کرتے ہوئے بولیں۔

"امی کہہ دیجئے گا کہ میں بیزی ہو۔۔۔"

اُس نے پھر سے جانے نے منع کیا۔

"عالمگیر ۔۔۔میں کچھ نہیں سننا چاہتی۔۔۔تم بس چل رہے ہو تو بس چل رہے ہو۔۔۔اور گھر آؤ تو بات کرتے ہیں کب جانا ہے کیسے جانا ہے سب۔"

اُنہوں نے حکم دینے والے انداز میں کہا تو عالمگیر نے اوکے کہہ کے فون رکھ دیا۔ اور پھر سے لیپ ٹاپ پر کام کرنے لگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات نے چاروں طرف اپنے پر پھیلا رکھے تھے۔

عالمگیر رات 9 بجے گھر آیا تو لاؤنج میں آتے ہی اُسے امی اور عشنا کی باتیں کرنے کی آوازیں سنائی دی۔ وہ چلتا ہوا اُن کے پاس آ کر صوفے پی رحمت بیگم کے برابر بیٹھ گیا۔

صوفے پی بیٹھ کر اُس نے دیکھا ہر طرف شاپنگ بیگز پڑے تھے جس سے کچھ چیزیں باہر تھی کچھ بیگز کے اندر۔ شاید امی اور عشنا شاپنگ کر کے آئیں تھی اور اب اُس پر تبصرے بھی کر رہی تھیں۔

عالمگیر نے مسکرا کر اُنھیں دیکھا اور پھر عشنا کو جو عالمگیر کے آتے ہی ساری چیزیں واپس بیگز میں رکھ رہی تھی۔

رحمت بیگم بھی اُس کے آتے ہی کچن میں چلی گئیں تا کہ ملازم کو کھانا لگانے کا کہہ سکیں۔

" عشنا۔۔۔پانی تو پلاؤ یار۔۔۔"

اُس نے عشنا کو مخاطب کیا جو آج بلیو کلر کے شورٹ کُرتے اور کیپری کے ساتھ اُسی کا ہمرنگ دوپٹہ اوڑھے بہت دلکش لگ رہیں تھی۔

"جی۔۔۔"

کہتی وہ کچن میں گئی اور اس کے لیے پانی لا کر پانی کا ٹرے اُس کے سامنے کیا جِس میں پانی کے ساتھ کچھ کھجور بھی تھے۔

"تھینکس۔۔۔"

عالمگیر نے ایک کھجور منہ میں رکھا اور پانی کا گلاس اٹھا لیا۔

"ویسے کھجور نہیں مانگا تھا میں نے۔۔۔"

عالمگیر نے پانی پینے کے بعد گلاس واپس ٹرے میں رکھ کر مسکرا کر کہا 

"وہ میں نے ایک حدیث میں پڑھا تھا کے کھجور کھانا سنت ہے۔ ہم صرف رمضان میں روزہ کھولنے کے لیے کھجور کھاتے ہیں لیکن سنت  پر عمل تو سارے سال  کیا جا سکتا ہے نا؟"

عشنا نے اُسے دیکھتے ہوئے کہا۔

"بالکل۔۔۔تم حدیث بھی پڑھتی ہو؟"

اُس نے عشنا سے پوچھا۔

"جی۔۔۔کبھی کبھی۔۔جب وقت ملتا ہے۔۔۔"

وہ نظریں جھکا کر آہستہ آواز میں بولی۔

"گڈ۔۔۔ویری گڈ۔۔۔۔"

عالمگیر نے مسکرا کر کہا۔

" اور کیا کیا نہیں جانتا میں اس کے بارے میں۔۔۔اور کتنی پرتیں ہیں اس میں۔۔۔"

عالمگیر نے دل میں سوچا 

"ارے بیٹا۔۔۔ابھی تک چینج نہیں کیا؟ جاؤ جلدی سے چینج کر کے آؤ پھر کھانا کھاتے ہیں "

رحمت بیگم کچن سے واپس لاؤنج میں آئیں تو عالمگیر کو ویسے ہی بیٹھا دیکھا تو اُسے چینج کرنے کا کہنے لگی ۔

وہ اثبات میں سر ہلاتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔

عشنا بھی سارے شاپنگ بیگز لے کر پھوپھو کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔

وہ فریش ہونے کے بعد ڈائننگ ٹیبل پر آیا تو عشنا اور پھوپھو اُس کا انتظار کر رہیں تھی۔ وہ ٹیبل تک آیا اور چیئر گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔

عشنا نے اٹھ کر باری باری دونوں کو کھانا سرو کیا اور آ کر عالمگیر کے مقابل والی چئر جہاں وہ روز بیٹھتی تھی بیٹھ گئی۔

عالمگیر اور وہ دونوں کھانا کھانے لگے۔

"ہاں تو بیٹا۔۔۔کب نکلنے کا سوچا ہے۔۔۔"

رحمت بیگم نے لقمہ منہ میں رکھتے ہوئے پوچھا۔

"امی آپ چلیں جائیں۔۔۔میں بعد میں جوائن کر لونگا۔۔۔پکّا۔"

عالمگیر نے ہاتھوں میں پکڑا لقمہ واپس پلیٹ میں۔رکھ دیا اور رحمت بیگم کو دیکھتے ہوئے بولا۔

"بالکل بھی نہیں۔۔۔۔میں اور عشنا اکیلے کیسے جائیں گیں؟ تم ہمارے ساتھ ہی چلوگے۔ بس۔۔۔۔"

اُنہوں نے اٹل لحظے میں کہا 

"اچھا ٹھیک ہے۔۔۔دیکھتا ہوں کل۔۔بتاتا ہوں۔۔۔"

اُس نے منہ بنا کر کہا تو رحمت بیگم خوشی سے مسکرا دیں ۔ عشنا کے چہرے پر پھر مسکراہٹ رینگ گئی جسے وہ فوراً چھُپا گئی۔

دوسرے دن عالمگیر نے اپنا اسکیڈول چیک کیا جو کہ بہت ٹایٹ تھا لیکن امی کی بات بھی تو ماننی تھی۔

اُس نے بہت سارے کام جو وہ کراچی میں رہتے ہوئے کر سکے اُسکی لسٹ بنائی اور میٹنگ وغیرہ کو پریپونڈ کر لئے جو اُسے اگلے 15 دنوں میں کرنے تھے۔ا اُن کو ان 5 دونوں میں ختم کرنے کا نادر کو کہتا فلائٹ کی بوکینگ کرنے لگا۔ اور پھر امی کو کال ملائی ۔

" ہاں امی۔۔۔آج سے 5 دِن بعد کی بوکنگ کروا لی ہے میں نے ۔ آپ دونوں تیاری کر لو۔ اور ہاں ۔۔۔رہیں گے کہاں ہم لوگ؟ میں ہوٹل بک کر دوں؟"

اُس نے فلائٹ کا بتانے کے بعد انہیں رہائش کا پوچھا۔

"بیٹا رہیں گے کہاں مطلب۔۔۔تمہارے مامو کے یہاں رہیں گے اور کہاں۔"

اُنہوں نے اطمینان سے بتایا۔

"نہیں امی۔۔۔وہاں بہت شور شرابا ہوگا۔۔۔میں آپ کے کہنے سے چل تو رہا ہیں لیکن مجھے وہاں سے بھی کافی کام کرنے ہونگے ورنہ میرا بہت لوث ہو جائیگا ۔ اور میں اُس شور شرابے میں کام نہیں کر سکتا۔۔۔"

اُس نے اُنھیں تفصیل سے بتایا

"لیکن بیٹا۔۔۔"

اُنہوں نے کچھ کہنا چاہا تو اُس نے اُنھیں روک دیا۔

"پلیز امی۔۔۔ میں کسی ہوٹل میں ہم سب کی بوکینگ کر دیتا ہوں۔"

"نہیں بیٹا۔۔۔مجھے ہوٹل میں رہنا اچھا نہیں لگتا۔۔۔تم جانتے تو ہو۔۔۔"

رحمت بیگم کو ہوٹل میں رہنا ٹھیک نہیں لگا۔

"اچھا ٹھیک ہے میں کچھ کرتا ہوں۔۔۔شام تک آپ کو بتاتا ہوں۔۔۔"

عالمگیر نے کچھ سوچتے ہوئے اُنہیں شام کو بتانے کا کہا اور کال بند کر دی۔

 ہارون صاحب کی رہائش کے بالكل پاس میں عالمگیر نے ایک بنگلہ کرائے پر لے لیا تھا۔

اور رحمت بیگم کو کال کر کے بتا  بھی دیا تھا اور ساتھ میں یہ بھی کہہ دیا تھا کہ ابراہیم مامو کو بھی بتا دیں کے وہ بھی ہمارے ساتھ ہی رہینگے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عشنا اور رحمت بیگم ایئرپورٹ پر عالمگیر کا انتظار کر رہے تھے وہ کسی میٹنگ سے ڈائریکٹ ایئرپورٹ آنے والا تھا۔ اُس کا سامان وہ لوگ ساتھ لائے تھے۔

رحمت بیگم بار بار اپنی گھڑی دیکھ رہیں تھیں جہاں 3.15 ہو چکے تھے اور 5 بجے کی اُن کی فلائٹ تھی۔ ابراہیم صاحب بھی کوثر بیگم اور اُنکی امی کے ساتھ ڈائریکٹ کراچی پہنچ رہے تھے۔ اُس نے رہائش کا اُنھیں پہلے ہی بتا دیا تھا ۔ وہ ڈائریکٹ وہیں ملنے والے تھے ۔

فلائٹ بورڈنگ کی اننونسمنٹ  پر رحمت بیگم نے ایک بار پھر عالمگیر کو کال ملائی لیکن بے سود۔ اُس کا نمبر مسلسل بند جا رہا تھا۔

"اس لڑکے کا بھی نہ کچھ سمجھ نہیں آتا ۔۔۔کیا ضرورت تھی عین ٹائم پر میٹنگ رکھنے کی؟ اور تو اور فون بھی بند جا رہا ہے۔"

اُنہوں نے پریشانی سے ایک بار پھر کال ملاتے ہوئے عشنا سے کہا۔

"عالمگیر بھائی۔۔۔۔"

عشنا نے اچانک کہا تو رحمت بیگم نے مڑ کر دیکھا جہاں سے وہ بھاگا بھاگا آ رہا تھا۔وہ آ کر اُن کے پاس رکا اور اپنی پھولی سانسوں کو بحال کرنے لگا۔

عشنا نے ایک چھوٹی سی پانی کو بوتل نکال کار اُسے د دی تو اُس نے مسکرا کر بوتل تھام لی اور گھونٹ گھونٹ بھرنے لگا۔

"عالمگیر کیا طریقہ ہے یہ۔۔۔پتہ ہے ہم کب سے اِنتظار کر رہیں ہیں؟اور تمہارا نمبر۔۔۔۔کو کیوں بند جا رہا تھا؟"

رحمت بیگم نے غصے سے کہا۔

"امی میٹنگ میں تھا تو بند کر دیا تھا۔۔۔آپ چلیں ابھی۔۔۔ہمیں فلائٹ بورڈ کرنی ہے۔۔۔کراچی پہنچ کے ڈانٹ لیجۓگا۔"

اُس نے اُنکے کندھے پر باہیں پھیلا کر عشنا کے ہاتھ سے بورڈنگ پاس لیا جو کے وہ لوگ پہلے ہی لے چکے تھے۔ اور اُپر لگے بورڈ پر کراچی کی فلائٹ کس گیٹ پر لگی ہے دیکھتا اُنھیں ساتھ لیے اُس گیٹ کی طرف بڑھ گیا۔

بورڈنگ پاس دیکھا کر وہ لوگ اندر آئے تو عشنا اور رحمت بیگم کی سیٹ ایک ساتھ تھی اور عالمگیر کی اُس کے آگے والے رو میں۔

عشنا کھڑکی کے پاس بیٹھی تھی اور آگے عالمگیر بھی کھڑکی ہی کی طرف بیٹھا تھا۔

کچھ دیر بعد فلائٹ اٹینڈنٹ نے بیلٹ لگانے اور موبائل آف کرنے کے ساتھ دیگر ہدایات دینا شروع کی تو عشنا کو ایک دم گھبراہٹ ہونے لگی۔ وہ پہلی بار فلائٹ میں بیٹھ رہی تھی اور جوں جوں فلائٹ اٹینڈنٹ بتاتی جا رہی تھی اُس کی پریشانی بھی بڑھتی جا رہی تھی۔

وہ اپنے ہاتھوں کو باہم پھنسائے اپنی نروانیس کو کم کرنے کی کوشش کرنے لگی۔

فلائٹ جیسے ہی پرواز کرنے لگی عشنا نے رحمت بیگم کے ہاتھ زور سے پکڑ لیے اور آنکھیں بند کر لی تو وہ اُسے تسلی دینے لگیں۔ وہ اُنکے کندھے پر سر کو ٹکائے آنکھیں بند کئے قرآنی آیات کا ورد کرنے لگی۔اُس کی آواز اتنی اونچی تھی کے آگے بیٹھا عالمگیر اُسکی آواز بخوبی سن سکتا تھا اور اس کی آواز میں چھُپا ڈر بھی اُس سے مخفی نہیں رہا۔


۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


وہ لوگ کراچی پہنچے تو عالمگیر اُن کو لیے پارکنگ تک آیا جہاں اُس کی کار کھڑی تھی جو اُس نے پہلے ہی بک کروا رکھی تھی۔ کار کیز لیتا وہ ڈگی کھول کر سامان رکھنے لگا۔ عشنا اور رحمت بیگم وہی اُس کے پاس کھڑی تھی۔ سامان رکھنے کے بعد انہیں گاڑی میں بیٹھنے کا کہتا وہ ڈرائیونگ سیٹ پر آیا۔عشنا جلدی سے بیک سیٹ پر بیٹھ گئی تو رحمت بیگم عالمگیر کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر آ کر بیٹھ گئیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عالمگیر نے کار گیٹ کے اندر لا کر  پورچ میں روکی تو ملازم جلدی سے اُن کی طرف لپکے۔

عالمگیر نے کار کی ڈیگی کھول دی۔ ملازم سامان نکال کار اندر لے جانے لگے۔ 

عشنا اور رحمت بیگم کار کے پاس ہی کھڑی تھیں۔عالمگیر چلتا ہوا اُنکے پاس آیا اور اُنھیں لے کر اندر آ گیا۔

"بیٹا تم لوگ بیٹھو۔میں کھانے وغیرہ کا دیکھتی ہوں۔"

رحمت بیگم نے کچن کی تلاش میں نظریں گھمائی ۔

"امی۔۔۔ریلیکس۔۔۔میں نے کُک کو پہلے ہی انسٹرکشن دے دی تھی۔ کھانا وغیرہ ریڈی ہی ہوگا۔آپ لوگ فریش ہو کے آ جائیں پھر ساتھ کھانا کھاتے ہیں۔"

عالمگیر بتاتا ہوا اُنہیں اُن کے کمرے دکھانے لگا اور خود بھی اپنے کمرے میں آ کر چینج کرنے کے لئے واشروم کا رخ کیا۔

عشنا نے کمرے آ کر کمرے کا جائزہ لیا تو وہ صاف ستھرا ،نفاست سے سجا ہوا کمرا تھا۔ایک طرف بڑی سے کھڑکی تھی جہاں سے تازہ ہوا کمرے میں آ کر اُسے معطر کر رہی تھی۔

عشنا بیڈ تک آئی اور اپنا بیگ کھول کر کپڑے نکالے اور واشروم میں آ کر شاور لیا۔

بلیو کلر کے ٹخنوں تک آتے کرتے کے ساتھ اُس نے بلیو ہی کلر کی کیپری پہنی تھی اور سفید دوپٹہ سر پر برابر سے جمائے وہ ڈائننگ حال تک آئی تو عالمگیر سفید کرتا پائجامہ میں تروزا تازہ سا بیٹھا نظر آیا۔ اُس کے بالوں سے ٹپکتی ننھی ننھی سی بوندیں اُس کے ابھی ابھی شاور لے کر آنے کی گواہی دے رہے تھے۔

وہ تروتازہ سا بہت ہینڈسم لگ رہا تھا۔ رحمت بیگم سربراہی کرسی پر بیٹھی تھیں۔ عشنا چلتی ہوئیں اُنکی بائیں جانب بیٹھ گئی کیونکہ دائیں جانب عالمگیر نے چیئر سنبھال رکھی تھی۔

عشنا کے بیٹھتے ہی ملازمین اُنھیں کھانا سرو کرنے لگے۔ عالمگیر اور رحمت بیگم کھانا کھاتے کھاتے  ہلکی پھلکی باتیں کرتے رہے اور عشنا چپ چاپ سر جھکائے کھاتی رہی۔

کھانا کھانے کے بعد عالمگیر دونوں کو آرام کرنے کی تلقین کرتا اپنے کمرے میں چلا گیا کیونکہ ابھی اُسے آفس کا کام کرنا تھا۔

عشنا اور رحمت بیگم اپنے اپنے کمرے میں چلیں گئیں۔ عالمگیر نے کمرے میں آ کر لیپ ٹاپ آن کر کے میلز چیک کرنے لگا۔ساتھ ہی نادر کو کال کر کے تفصیلات لینے لگا۔کام کرتے کرتے رات کے دو بج گئے تھے۔ اُس کی آنکھیں سرخ ہو رہیں تھی۔ دِن بھر میٹنگز اور پھر فلائٹ کی بھاگ دوڑ اور اب اتنی دیر سے لیپ ٹاپ پر کام  نے اُسے کافی تھکا دیا تھا۔ اسنے لیپ ٹاپ بند کیا اور اپنی سرخ آنکھوں کو انگلیوں کی پوروں سے رگڑ کر اُنکی جلن کو کم کرنی کوشش کی۔ سر میں درد کی ٹینسیں اٹھنے لگی تو وہ کیچن میں آ گیا تا کہ کوئی دوا وغیرہ کے سکے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عشنا نے کمرے میں آکر نماز پڑھی اور سونے کے لیے لیٹ گئی۔ سفر کی تھکان اتنی تھی کہ لیٹتے ہی نیند آ گئی۔

رات کے کسی پہر پیاس کے احساس سے اُسکی آنکھ کھل گئی۔ ٹیبل پر پڑے جگ سے پانی لینا چاہا تو وہ خالی تھا۔ اُس نے بےبسی سے جگ کو دیکھا اور پھر گھڑی میں وقت دیکھا جو 2 بجا رہی تھی۔ پیاس کی شدت اتنی زیادہ تھی کے اُسے اٹھ کر کیچن میں آنا ہی پڑا۔

وہ کچن میں آئی اور لائیٹ آن کر کے فریج کھول کر پانی کی بوتل نکال کر گلاس میں پانی انڈیل رہی تھی کہ اُسے اپنے پیچھے کسی کے ہونے کا احساس ہوا۔اُس نے ڈر کر پیچھے دیکھا تو عالمگیر کچن کے دروازے میں کھڑا اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عالمگیر کچن میں آیا تو کچن کی لائیٹ آن دیکھ کر اُسے حیرت ہوئی۔

"اس وقت کچن میں کون ہو سکتا ہے؟"

اُس نے دل میں سوچتے ہوئے کچن میں قدم رکھا تو دیکھا عشنا اُسکی طرف پیٹھ کیے گلاس میں پانی انڈیل رہی ہے۔

"عالمگیر بھائی آپ۔۔۔۔؟"

اُس نے عالمگیر کو دیکھ کر پوچھا۔

"ہاں میں آفس کا کام کر رہا تھا۔لیکن تم کیوں جاگ رہی ہو؟"

عالمگیر نے اُسے اپنے جاگنے کی وجہ بتائی اور ساتھ اُس سے بھی سوال کیا۔

"وہ میں۔۔۔پانی پینے۔۔۔۔"

اُس نے گھبرا کر بتایا۔

"اچھا سنو۔۔۔اگر تمہیں تکلیف نہ ہو تو کُک کو کہہ کر ایک کپ کافی بنوا دو۔۔میرے سر میں بہت درد ہو رہا ہے۔۔۔"

وہ کہتا کیچن سے نکل گیا۔

"اُس نے آس پاس دیکھا۔ کُک ؟ کُک کہاں نظر آ گیا اتنی رات کو ان کو کیچن میں؟"

وہ دل ہی دل میں سوچتی ایک ایک کیبنٹ کھول کر کافی ڈھونڈھنے لگی۔ اُسے ایک کیبنیٹ میں کافی مل ہی گئی۔ وہ جلدی جلدی کافی پھینٹے لگی۔ کافی بنا کر وہ کیچن سے باہر آئی تو اُسے سمجھ نہیں آیا کے عالمگیر کس کمرے میں ہے کیونکہ وہاں قطار میں 5 کمرے تھے۔ اُس میں سے دو کمرے عشنا اور رحمت بیگم کے استعمال میں تھے اور باقی 3 میں سے عالمگیر کا کمرہ کونسا تھا یہ اُسے پتہ ہی نہیں تھا۔ وہ چلتی ہوئی ایک کمرے کے پاس آئی اور دروازہ نوک کرنے ہی لگی تھی ۔

" عشنا۔۔۔"

عالمگیر نے اُسے پیچھے سے پُکارا ۔

"یہ ۔۔یہ آپ کی کافی اور یہ ٹیبلٹ۔۔۔اسے کھا لیجئے۔۔۔سر درد میں افاقہ ہوگا ۔۔اور۔۔۔"

عشنا اُس کے پاس چلتی آئی اور ٹرے میں رکھے ٹیبلٹ کی طرف اشارہ کرتے کہہ رہیں تھی۔وہ کافی کے ساتھ پیناڈول بھی لے آئی تھی کیونکہ اُس کی سرخ آنکھ وہ دیکھ چکی تھی اور کافی حد تک اُسے اندازہ ہو گیا تھا کے اُس کا سر درد معمولی سا نہیں ہے۔

"اور۔۔۔۔۔۔۔۔"

عالمگیر  نے کہا اور چلتا ہوا اُس کے پاس آیا۔ ٹیبلٹ لے کر منہ میں رکھتا ٹرے میں رکھا پانی گلاس اٹھا کر  لبوں سے لگایا۔ اور گلاس واپس رکھ کر کافی کا مگ اٹھا لیا۔

"اور۔۔۔۔اور آپ اب ریسٹ کر لیں۔۔۔مطلب آفس کا کام کل۔۔۔۔کل کر لجیےگا۔۔۔۔ورنہ سر درد اور بڑھ جائیگا۔۔۔۔۔"

عشنا نے نظریں جھکائے جھکائے کہا تو عالمگیر مسکرائے بنا نہ رہ سکا۔

"تھینک یو۔۔۔۔۔"

وہ کہتا اپنے کمرے میں چلا گیا۔عشنا نے اُسے جاتا دیکھا تو خود بھی کیچن میں آ کر  ٹرے رکھ کر کمرے میں سونے چلی گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


 عالمگیر کمرے کی کھڑکی میں کھڑا کافی کے گھونٹ بھرنے لگا۔

"واہ۔۔۔۔۔"

کافی کا پہلا گھونٹ بھرتے ہی وہ تعریف کیے بنا نہ رہ سکا۔

"کیا کافی بنائی ہی کُک نے۔۔۔اس سے پوچھنا پڑےگا کہ ریسیپی کیا ہے اسکی ۔۔۔۔لیکن ایک منٹ۔۔۔اتنی رات کو کُک۔۔۔۔کُک تو نہیں تھا کہیں بھی کیچن میں۔۔۔۔کہیں یہ کافی عشنا نے تو۔۔۔۔افف۔۔۔یہ لڑکی۔۔۔۔۔۔جو بھی بناتی ہی اتنی ٹیسٹی  ہوتی ہے۔۔۔۔ دل کرتا ہے زندگی بھر اسکے ہاتھ سے بنی چیزیں کھاتا رہوں۔۔۔۔"

وہ دل ہی دل میں سوچتا مسکرا کر کافی پیتا رہا۔کافی ختم ہو گئی تو وہ آ کر لیٹ گیا۔تھوڑی دیر میں ہی اُسے نیند آ گئی اور سر درد بھی عنکا محسوس ہونے لگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح عالمگیر اٹھا اور  لاؤنج سے باتوں کی آوازیں سن کر کمرے سے باہر آیا تو دیکھا ہارون مامو اور شاہین مامی بیٹھی رحمت بیگم سے باتیں کر رہے ہے۔

عالمگیر کو آتا دیکھ ایک ملازم اُس کی طرف آیا اور اُس سے ناشتے کا پوچھنے لگا۔شاید رحمت بیگم نے اُسے ہدایات دے رکھی تھی کیونکہ وہ تھوڑا لیٹ اٹھا تھا۔ عشنا اور رحمت بیگم ناشتہ کر چکی تھیں۔

عالمگیر نے ملازم کو ناشتہ لگانے کی ہدایت دی۔

"سر کیا بنا دوں آپ کے لیے؟"

کُک نے اس سے پوچھا تو عالمگیر نے اُسے دیکھا۔

"امی نے بتایا نہیں کیا کہ میں ناشتے میں کیا کھاتا ہوں؟"

اُس نے کُک کی طرف دیکھا اور  پھر ایک نظر لاؤنج میں بات کرتی رحمت بیگم کو۔

اُنہوں نے بتایا تھا لیکن عشنا میم نے کہا تھا آپ سے پوچھ لوں اگر آپ کچھ اسپیشل کھانا چاہیں تو۔۔۔آپ کے سر میں درد تھا نہ رات۔۔۔اب کیسا ہے سر آپ کو؟ کافی وغیرہ کچھ بنا دوں پہلے؟"

کُک نے مؤدب انداز میں پوچھا۔

"اب ٹھیک ہے۔۔۔اور سوری۔۔۔میری وجہ سے عشنا نے رات کو آپکو 2 بجے کافی کے لیے اٹھا دیا تھا۔"

عالمگیر کو لگا کے رات کی کافی کے لیے اٹھانے کی وجہ سے کُک نے سر درد کے بارے میں پوچھا ہے۔

"نہیں سر۔۔۔۔عشنا میم نے تو مجھے نہیں جگایا تھا۔آپ کہیں تو ابھی بنا دوں کافی۔۔۔۔"

کُک پہلے حیران ہو کر بولا پھر عالمگیر سے کافی کے بارے میں پوچھنے لگا۔

"ہمم۔۔۔تو میرا شق درست تھا۔رات کافی کُک نے نہیں عشنا نے ہی بنائی تھی۔"

عالمگیر نے دل میں سوچا۔

"نہیں ابھی نہیں۔۔۔آپ ناشتہ لگائیں میں آتا ہوں تھوڑی دیر میں۔۔۔اور ہاں کچھ خاص نہیں۔۔۔جو امی نے آپ کو بتایا ہی وہ ہی بنا دیں۔۔۔"

عالمگیر کُک کو ہدایت دیتا لاؤنج میں رحمت بیگم کی طرف بڑھ گیا۔

لاؤنج میں آ کر اُس نے سب کو با آواز بلند سلام کیا تو سب اُس کی طرف متوجہ ہوۓ۔ ہارون صاحب نے اٹھ کر اُس سے مصافحہ کیا تو شاہین بیگم نے بھی اٹھ کر اُس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ 

عالمگیر آ کر  صوفے پر رحمت بیگم کے برابر بیٹھ گیا۔

"تو۔۔۔کیسا چلا رہا ہے بزنس۔۔۔"

ہارون صاحب نے پوچھا ۔۔

" اللہ کا شکر ہے سب ٹھیک ہے مامو۔۔۔"

اُس نے ادب سے کہا۔

"ہمم۔۔۔۔۔ اتنے بڑے بزنس مین جو ہو۔۔۔۔ اچھی بات ہے۔۔۔لیکن زیادہ غرور بھی نہیں کرنا چاہیے۔۔۔۔اللہ تعالیٰ کو غرور پسند نہیں ۔۔"

انہوں نے چبھتے ہوئے لحظے میں کہا۔

عالمگیر کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے وہ سمجھ گیا کے انکا اشارہ مرحہ سے شادی پر انکار کی طرف ہے۔ اُس نے خود کو نارمل کر کے تحمّل سے کہا

"اللہ کا شکر ہے مامو۔۔۔اللہ نے کبھی ایسا موقع ہی نہیں دیا۔"

اُس نے مسکرا کہا تو ہارون صاحب کے منہ کے زاویئے بگڑے۔

"پھوپھو۔۔۔۔۔آپ کے کپڑے نکال دیے ہیں۔۔۔آپ تیار ہوں جائیں۔۔۔"

عشنا نے آ کر کہا تو عالمگیر نے مڑ کر اُسے دیکھا۔

جامنی کلر کے نفیس سے شلوار کرتے میں سلیقے سے دوپٹہ سر پر جمائے وہ بہت جاذب نظر آ رہی تھی۔

"ٹھیک ہے آپا۔۔۔پھر ہم چلتے ہیں ۔۔۔آپ شام تک آ جائےگا گھر۔۔۔۔۔ ہم آپکا انتظار کرینگے۔"

شاہین بیگم نے رحمت بیگم کو کہا اور کھڑی ہو گئیں ہارون صاحب بھی ساتھ کھڑے ہوئے اور رحمت بیگم کو خدا حافظ کہتے شاہین بیگم کے ساتھ باہر نکل گئے۔

"فنکشن تو شام کو ہے۔۔آپ کہا جانے کے لیے تیار ہو رہی ہیں؟"

عالمگیر نے رحمت بیگم سے پوچھا۔

"شاپنگ پر ۔۔۔اور کہاں؟ چلو تم جلدی سے ناشتہ کر لو اور ریڈی ہو جاؤ۔۔۔"

اُنہوں نے اُسے ناشتہ کرنے کے بعد ریڈی ہونے کی ہدایت دی۔

"امی۔۔۔آپ لوگ اتنے دن اسلام آباد میں شاپنگ ہی تو کرتی رھیں ہیں نہ۔۔۔اب بھی آپ کی شاپنگ باقی رہتی ہے؟"

عالمگیر نے حیرت سے اُنھیں دیکھتے ہوئے پوچھا 

"ہاں بیٹا جی۔۔۔ابھی تھوڑا کچھ لینا ہے۔۔۔میں نے عشنا نے وہاں ڈھونڈا تھا لیکن ہمیں جیسا چاہیے تھا ملا نہیں تو ہم  نے سوچا کراچی سے لے لینگے۔۔۔اور تم بیٹھے کیا ہو۔۔۔چلو ناشتا کرو اور تیار ہو جاؤ۔"

اُنہوں مسکرا کر اُسے بتایا اور آخر میں پھر سے ریڈی ہونے کی ہدایت دی۔

"میں کیوں تیار ہو جاؤں؟ میں نہیں جا رہا آپ لوگو کے ساتھ۔۔۔بھئی سنا ہے آپ خواتین کی شاپنگ میں ہم مرد حضرات کو بڑا خوار ہونا پڑتا ہے۔ میں ڈرائیور کو بول دیا ہوں۔۔۔وہ لے جائےگا آپ لوگوں کو۔۔۔"

اُس نے ہاتھ اٹھا کر کہا

"تم انجان شہر میں ماں اور بہن کو اکیلے بھیج رہے ہو؟"

رحمت بیگم نے اُترا چہرہ بنا کر کہا تو عالمگیر گڑبڑا گیا 

"اچھا بھئی لے جاتا ہوں آپ لوگوں کو۔۔۔ایسے اپسیٹ تو نہ ہوں آپ۔۔۔"

عالمگیر نے اُنکے گرد باہیں حائل کر کے کہا تو وہ مسکرا دیں۔

"چلو تم ناشتہ کر کے ریڈی ہو جاؤ تب تک میں بھی چینج کر لیتی ہوں۔۔۔"

اُنہوں خوشی خوشی کہا اور کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔

عشنا اس دوران نہ جانے کہاں چلی گئی تھی۔

وہ ڈائننگ ٹیبل پر آیا تو ملازمہ ناشتہ ٹرے میں سجائے کیچن سے نمودار ہوئی اور ٹیبل کے پاس آ کر اُسے سرو کرنے لگی۔

چکن قیمہ پراٹھے، بھاپ اڑاتی چائے اور ساتھ اورنج جوس۔۔۔

اُس نے پراٹھے کہ لقمہ منہ میں رکھا اور کُک کو سراہے بنا نہ رہ سکا۔

اُس نے کُک کو آواز دے کر بلایا تو وہ بوتل کے جن کی طرح فوراً اُس کے سامنے نمودار ہوا۔

"جی  سر۔۔۔"۔

کُک نے مؤدیب انداز میں پوچھا۔

"پراٹھے بہت اچھے بنائے  ہیں آپ نے۔۔۔میں نے چکن قیمہ پراٹھا نہیں کھایا تھا اب تک۔لیکن آپ نے یہ اتنا شاندار بنایا ہے کے دل کرتا آپ کو اپنے ساتھ اسلام آباد لے چلوں۔۔۔اور روز آپ کے یہ پراٹھے ناشتے میں کھایا کروں۔۔۔"

اُس نے تعریفی انداز میں کہا 

"سر وہ تو آپ مجھے وہاں لے جائے بنا بھی روز ہی یہ پراٹھے کھا سکتے ہیں۔۔۔"

کُک نے مسکرا کر کہا۔

"وہ کیسے۔۔۔؟"

عالمگیر نے لقمہ لیتے حیرت سے پوچھا۔

"کیونکہ یہ پراٹھے میں نے نہیں عشنا میم نے بنائے ہیں۔۔۔"

کُک نے اُسے بتایا تو اُس نے ہاں میں سر کو ہلایا اور اُسے جانے کی ہدایت دی۔

"اُف یہ لڑکی۔۔۔۔۔" 

عالمگیر مسکراتے ہوئے بڑبڑایا۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عالمگیر نے کار مال کے پارکنگ میں پارک کی اور رحمت بیگم اور عشنا کے ساتھ اندر کی طرف بڑھ گیا۔

وہ لوگ لیڈیز کلوتھینگ کی طرف بڑھ گئے تو عالمگیر نادر کو کال ملا  کر اُس سے آفس کے بارے میں بات کرتا ایک سائڈ میں چلا گیا۔

عشنا رحمت بیگم کے ساتھ کپڑے دیکھنے لگی۔اُس نے دو ہلکے کام والے سوٹ لیے تو رحمت بیگم نے اُنھیں رکھ کر 5 بھاری بھاری سوٹ اُس کے اوپر لگا کار آئینے میں ستائشی نظروں سے دیکھتے ہوئے اُسے کاؤنٹر پر لیے آئیں اور بل بنوانے لگیں۔ اُنہوں نے اپنے لیے اور مرحہ شاہین بیگم اور کوثر بیگم ملیحہ کے لیے بھی بہت سارے کپڑے لیے تھے۔

"ارے یہ عالمگیر کہاں چلا گیا۔"

اُنہوں نے بل پے کرتے ہوئے عشنا سے پوچھا۔

"پتہ نہیں پھوپھو۔۔۔میں تو آپ کے ساتھ تھی۔۔۔شاید باہر ہوں۔۔۔چلیں دیکھتے ہیں۔"

عشنا نے شاپنگ بیگز لیتے ہوئے کہا۔

"ٹھیک ہے آؤ۔۔۔۔"

اُنہوں نے ساتھ چلتے ہوئے کہا۔

وہ لوگ باہر آئے تو عالمگیر کان پر فون لگائے بات کرتا نظر آیا۔

"عالمگیر چلو اُس طرف۔۔۔۔"

پھوپھو نے آہستہ سے کہا تو وہ سامنے کی طرف داہنے ہاتھ کے اشارے سے آگے چلنے کی تلقین کرتا اُنکے پیچھے آیا ساتھ ہی وہ نادر کو کچھ ہدایات بھی دے رہا تھا۔

اب وہ لوگ ایک جویلری شاپ میں آ گئے تھے۔ 

عالمگیر نے نہ میں سر کو ہلاتے اُنھیں دیکھا۔ مطلب اتنا سب کچھ اسلام آباد سے خریدنے کے بعد بھی انکی شاپنگ نہیں ختم ہوئی۔

"اُس نے دل میں سوچا تھا۔کال وہ ختم کر چکا تھا۔ اب اُن کے ساتھ بیٹھا جویلری دیکھ رہا تھا۔ دراصل جویلری تو عشنا اور رحمت بیگم دیکھ رہیں تھیں۔ وہ تو یہاں وہاں دیکھتا بور ہو رہا تھا۔

اُس نے یوں ہی نظریں گھمائی تو اُسے ایک بہت نفیس سا "ع" کا لاکٹ نظر آیا۔ وہ چلتا ہوا دوسرے کاؤنٹر پر آیا اور سلیس مین سے اُسے نکلوا کر اپنی ہتھیلی پر رکھا اُس پر ہاتھ پھیرا۔

"بیوٹیفل۔۔۔"

سراہنے کے ساتھ ہی اُس نے اُسکی قیمت دریافت کی اور پیک کرنے کو کہتا بل پے کر کے لوکیٹ لے کر اپنی جیب میں رکھ کر مڑا تو عشنا اپنے گلے پر ایک نہایت نفیس سا موتیوں کا ہار لگائے اُس کا جائزہ لے رہی تھی۔اُس کے چہرے سے پتہ لگتا تھا کے اسے وہ بہت پسند آیا ہے۔ پھر وہ واپس رحمت بیگم کے پاس آ گئی جہاں اُنہوں مرحہ کے لیے 3 سیٹ لیے تھے کچھ انگوٹھی چوڑیاں،پائل اور نوز رنگ بھی تھیں۔

عشنا نے سارے بیگز سنبھالے رحمت بیگم کے ساتھ باہر آنے لگی تو عالمگیر نے کاؤنٹر پر کا کر وہی موتیوں کا ہار جو کچھ دیر پہلے عشنا پہن کار دیکھ رہی تھی سیلز مین سے نکلوا کر پیک کروایا اور بل پے کر کے بیگ ہاتھ میں لیے باہر آ کر عشنا سے سارے بیگز لے لیے۔

رحمت بیگم واشروم جانے کے لیے ایک طرف گئیں تو عالمگیر اور عشنا ایک سائڈ میں آ کر انکا انتظار کرنے لگے 

"میرے سر درد کا کُک کو بتانے کی کیا ضرورت تھی؟"

عالمگیر نے عشنا کو دیکھتے ہوئے کہا جو نظریں جھکائے کھڑی تھی۔

عالمگیر کی بات پر  اُس نے نظریں اٹھا کر اُسے دیکھا پھر گردن جھکا لی۔

"وہ۔۔وہ میں نے۔۔۔وہ صرف اس لیے کے صبح اگر آپ کا درد۔۔۔درد ٹھیک نہیں ہوا تو۔۔۔"

وہ اٹک اٹک کے گردن نیچے کیے بولی۔

"عشنا مجھے نہیں پتہ تھا یار میں اتنا بدصورت ہوں کے کوئی مجھے دیکھ کر بات ہی نہ کرے۔"

عالمگیر نے اُس کی جھکی ہوئی گردن پر چوٹ کی تو عشنا نے نظریں اٹھا کر اُسے دیکھا۔

"نہیں۔۔۔آپ تو بہت ہینڈسم۔۔۔۔"

کہتے اُس نے دانتوں میں انگلی دبا کر اُسے دیکھا تو عالمگیر نے ایک جاندار قہقہہ لگایا

"اوہ ۔۔تو میں اتنا ہینڈسم ہوں کے تم مجھے دیکھ کر بات نہیں کر پاتی۔۔۔"

اُس نے آنکھیں گھوما کر کہا 

"نہیں۔۔میرا مطلب۔۔وہ۔۔۔"

اُسے سمجھ نہیں آئی کے کیا کہے تو رخ موڈ کے کھڑی ہو گئی۔

عالمگیر نے مسکراتے ہوئے نفی میں گردن کو جنبش دی۔

رحمت بیگم واپس آئیں تو وہ اُنھیں لے کر فوڈ کورٹ آ گیا اور کھانا منوا لیا۔ کھانا کھانے کے بعد وہ لوگ گھر آ گئے۔رحمت بیگم تو آرام کرنے چلیں گئی اور عالمگیر نے چینج کر کے اپنا لیپ ٹاپ آن کر لیا۔اُسے بہت سارا کام ابھی ختم کرنا تھا۔

عشنا تھوڑی دیر لان میں گھومتی رہی پھر وہ بھی آرام کرنے کمرے میں آ گئی۔ شام کو ابراہیم صاحب بھی پہونچ رہے تھے کوثر بیگم اور ملیحہ بیگم کے ساتھ اور اُنھیں رات کی تقریب میں بھی جانا تھا۔

مغرب کی اذان چاروں طرف کے ماحول کو فسوں خیز بنا رہیں تھی۔ عشنا،رحمت بیگم، کوثر بیگم اور ملیحہ بیگم سے باتیں کر رہیں تھی جو ابھی ابھی پہنچے تھے۔ ابراہیم صاحب عالمگیر کے ساتھ بیٹھے اُس کے بزنس کا پوچھ رہے تھے۔

ملازم چائے لے آیا تو عشنا سب کو چاہئے سرو کرنے لگی جب وہ عالمگیر کو چاہئے پکڑانے لگی تو اچانک اُسکا ہاتھ ڈھیلا پڑا اور  عالمگیر کے ہاتھ اور کپڑوں پر چائے گر گئی۔

یہ سب اتنی جلدبازی میں ہوا کے عالمگیر کو کچھ سمجھ ہی نہیں آیا۔ وہ فوراً صوفے پر سے کھڑا ہو گیا اور کپڑے جھٹکنے کے بعد ہاتھ کو جھٹک کر اُس کی جلن کو کم کرنے چاہی۔

عشنا نے چائے گرتے ہی عالمگیر کو دیکھا جو کھڑے ہو کر کپڑے جھٹکنے کے بعد ہاتھ جھٹک رہا تھا ۔وہ بھاگتی ہوئی اپنے کمرے میں گئی اور فرسٹ ایڈ باکس لا کر اُس میں سے برنول نکالی تو رحمت بیگم جو اُس کے ہاتھ کو پکڑ کر اُس پر پھونک مار رہیں تھی عشنا کے ہاتھ سے برنول لے کر عالمگیر کے ہاتھ پر لگائی جو کافی سرخ ہو رہا تھا۔

سارے لوگ عالمگیر کی ہاتھ کی طرف متوجہ تھے۔ عالمگیر نے ایک نظر اٹھا کر عشنا کو دیکھا جو آنکھوں میں آنسو لیے اُس کے ہاتھ کو دیکھ رہی تھی۔

عالمگیر کو  ہاتھ جلنے کی تکلیف سے زیادہ عشنا کے آنکھوں سے بہتے آنسو نے تکلیف دی تھی۔

ایسا کیوں تھا وہ جان نہیں پایا تھا۔

"بیٹا ۔۔۔کافی جل گیا ہے۔۔۔زیادہ درد تو نہیں۔۔۔۔۔"

رحمت بیگم نے فکرمندی سے پوچھا۔

"امی ۔۔۔ٹھیک ہوں اب میں۔۔۔ "

  اُس نے رحمت بیگم کے بعد عشنا کو دیکھ کر کہا۔

"بیٹا آپ تھوڑا ریسٹ کر لو۔۔۔"

کوثر بیگم نے بھی فکرمندی سے کہا تو وہ جی کہتا کمرے کی طرف بڑھ گیا۔

عشنا نے بھیگی آنکھوں سے اُس کی پشت کو دیکھا۔ وہ اُس کے چہرے سے کو اندازہ لگا چکی تھی کے جلن شدید ہے وہ بس رحمت بیگم کو اپنی تکلیف بتا کر فکرمند نہیں کرنا چاہتا ۔

"چلو عشنا ۔۔۔۔اور آپا آپ بھی ۔۔۔چلیں سب تیار ہو جاتے ہیں۔۔۔ہارون کے یہاں تقریب میں بھی تو جانا ہے۔۔"

کوثر بیگم نے کہا تو رحمت بیگم سر کو اثبات میں ہلاتی کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔

عشنا بھی اُنہیں اُنکے کمرے دیکھا کر اپنے کمرے میں آئی اور تیار ہونے لگی۔ اُسکا دھیان مسلسل عالمگیر کی طرف ہی تھا۔

"شش۔۔۔۔۔۔۔"

کپڑے میں پن لگاتے وہ عالمگیر کے ہاتھ کے بارے میں سوچ رہی تھی کے پن اُسکی انگلی میں چبھ گئی اور خون کی ننھی سی بوند اُس کی انگلی پر نمودار ہوئی تو عشنا نے انگلی لبوں سے لگا لی۔ چہرے پر پریشانی اب بھی واضح تھی۔

وہ تیار ہو کر کمرے سے باہر آئی تو ابراہیم صاحب اور باقی سب تیار تھے۔ رحمت بیگم عالمگیر کے کمرے سے نکل رہی تھیں۔ شاید اُسے تیار ہونے کی ہدایت بھی دے رہیں تھی۔

وہ لوگ عالمگیر کا انتظار کرنے لگے 

عالمگیر بلیو کرتے شلوار میں بلیو واسکٹ پہنے بالوں کو جیل سے ایک سائڈ کیے،ہاتھوں میں قیمتی گھڑی پہنے، پیروں میں کرتے کے مناسبت سے جوتے پہنے بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔

رحمت بیگم نے نظروں ہی نظروں میں اُس کی بلائیں لے لیں۔ عشنا نے اُسے دیکھا جو بہت خوبصورت لگ رہا تھا اور پھر اُس کے ہاتھ کو ۔۔۔جو اب بھی سرخ تھا لیکن پہلے کے مقابلے سرخی قدرے کم ہو گئی تھی۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔

وہ لوگ ہارون ویلا میں داخل ہوئے تو ہر طرف روشنی اور رنگ و بو کا سیلاب آیا ہوا لگتا تھا۔

لوگ یہاں وہاں آ جا رہے تھے۔ ہنسنے بولنے کی آوازیں۔۔۔میوزک کی آوازیں۔۔۔سب نے مل کر ماحول میں ارتعاش پیدا کر رکھا تھا۔

عالمگیر سب کے ساتھ چلتا ہوا آگے بڑھا۔ رحمت بیگم،کوثر بیگم اور عشنا کچھ ملازموں کے ساتھ ہاتھوں میں بڑے بڑے تھال پکڑے چل رہیں تھیں جس میں بہت سی مٹھائی،پھول اور دیگر تحفے تھے۔عالمگیر نے کچھ لینا چاہا تو رحمت بیگم نے اُس کے ہاتھ کو دیکھتے ہوئے اُسے روک دیا تھا۔

ہارون ویلا اُس کے بنگلے سے دو بنگلے چھوڑ کر ہی  تھا تو رحمت بیگم نے پیدل چلنے کو ہی کہا تھا۔

 عشنا دو دو قدم چل کر اپنے پیلے شرارے کو صحیح کرنے کی کوشش کرتی ایک بار تو وہ اُس  سے اُلجھ کر گرتے گرتے بچی تب عالمگیر نے آگے آ کر تھال اُس سے لینا چاہا۔

"عالمگیر بھائی۔۔۔آپ۔۔۔آپ رہنے دیں ۔۔۔آپ کا ہاتھ۔۔۔۔"

اُس نے اُس کے ہاتھ کو دیکھتے ہوئے کہا۔

"اب اتنا بھی کچھ نہیں ہوا یار۔۔۔تم نے اور امی نے تو مجھے بچہ ہی سمجھ لیا ہے۔۔۔لاؤ یہاں۔۔۔ورنہ تم نے تقریب میں پہنچنے سے پہلے ہی خود کو گھائل کر لینا ہے۔۔۔۔"

عالمگیر کہتا اُس سے تھال لے کر آگے بڑھنے لگا اور جاتے جاتے اُس کے شرارے پر بھی چوٹ کر گیا۔

پیلے شرارے میں اُسکا ہمرنگ دوپٹہ جس میں ہیرو کی طرح نگ جڑے تھے سر پر جمائے وہ سھیج سھیج قدم رکھ رہی تھی کیونکہ شرارہ اُس کے قد سے ذرا بڑا تھا اور وہ ہیل نہیں پہنتی تھی جس کی وجہ سے شرارہ اُس کے ہر قدم پر اس کے پیرو کی زینت بن رہا تھا۔

"جب سنبھال نہیں پاتی تو پہننے کی کیا ضرورت ہے۔۔ "

وہ منہ میں بڑبڑاتا آگے بڑھ گیا۔ 

وہ لوگ چلتے ہوئے اسٹیج پر آئے۔

مایوں کی تقریب گھر کے لان میں ہی رکھی گئی تھی۔

رحمت بیگم اسٹیج پر آ کر سارے تحفے شاہین بیگم کو دینے لگیں تو کوثر بیگم نے بھی اپنے لائے تحفے اُن کی طرف بڑھائے تو انھونے سارے ایک طرف رکھ دیئے۔ اسٹیج پر ایک جھولا لگایا تھا جسے پھولوں کی لڑیوں سے سجایا گیا تھا۔ 

ابھی مرحہ کو اسٹیج پر نہیں لایا گیا تھا۔

عالمگیر اسٹیج کے پاس رکھے ٹیبل کے قریب بیٹھا سوفٹ ڈرنک پینے لگا۔

عشنا کوثر بیگم اور رحمت بیگم کے ساتھ گھر کے اندر کی طرف بڑھ گئیں۔ ابراہیم صاحب ہارون صاحب کے ساتھ باتیں کرنے لگے تو عالمگیر نادر کو کال ملا کر اس سے آفس کے بارے میں بات کرنے لگا۔

وہ بات کرتے کرتے ایک سائڈ میں کھڑا ہو گیا تب ہی لڑکے والوں کے آنے کا شور مچا۔ آج کمبائن مایوں رکھی گئی تھی۔

عالمگیر نے ذرا کی ذرا گردن موڑ کر گیٹ کی طرف دیکھا جہاں سے لڑکے والے اندر آ رہے تھے۔

"شمش عالم؟"

عالمگیر نے دولہے کو دیکھ کر کہا جو اب ہارون صاحب اور ابراہیم صاحب سے مل رہا تھا۔

عالمگیر نادر کو چند ہدایات دیتا ابراہیم صاحب اور ہارون صاحب کے پاس آ گیا۔

"مامو۔۔۔یہ تو شمش عالم ہے۔۔۔آپ کو پتہ ہے یہ۔۔۔"

اُس نے کچھ کہنا چاہا تو ہارون صاحب گردن کڑا کر بولے۔

" دنگ رہ گئے نہ۔۔۔ہے نہ تم سے زیادہ امیر۔۔۔ہینڈسم اور گڈ لکینگ۔۔۔"

اُنہوں ستائشی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔

"مامو۔۔۔آپ کو پتہ ہے ۔۔۔۔وہ کتنا بڑا عیّاش ہے۔۔۔۔اُس کی کتنی گرل فرینڈز رہ چکی ہیں؟"

" شٹ اپ عالمگیر۔۔۔۔تم سے برداشت ہی نہیں ہو رہا کے میری بیٹی کے شادی اتنے بڑے گھر میں ہو رہی ہے۔۔۔۔تم اُس پے بے بنیاد الزام لگا رہے ہو۔۔۔"

" مامو میں کیوں کسی پر الزام لگانے لگا؟ وہ ہمارے سارے بزنس سرکل میں بد نام ہے۔  ۔۔"

عالمگیر نے اُنہیں سمجھانے کی کوشش کی۔

" ہارون اگر عالمگیر کہہ رہا ہے تو تم ایک بار اُسکی بات سن کیوں نہیں لیتے ۔۔۔"

ابراہیم صاحب نے بھی انہیں سمجھانا چاہا۔

"نہیں بھائی صاحب۔۔۔میں اپنے ہونے والے داماد کے بارے میں کچھ نہیں سنا چاہتا۔۔۔"

کہتے وہ وہاں سے چلے گئے۔

"مامو آپ چھوٹے مامو کو سمجھائیں۔۔۔۔وہ مرحہ کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔۔۔"

اب عالمگیر نے ابراہیم صاحب کو  سمجھانا چاہا۔

"عالمگیر ۔۔۔۔ہارون نے اگر منع کر دیا ہے تو وہ نہیں مانے گا۔۔۔"

اُنہوں نے پریشان ہوتے ہوئے کہا۔

"لیکن مامو  وہ مرحہ کی زندگی کیسے خراب کر سکتے ہیں؟"۔

"تم فکر نہیں کرو میں سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔۔۔"

اُنہوں نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اُسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔

عالمگیر اُنکی بات سے کچھ مطمئن ہوا لیکن پریشان وہ اب بھی تھا۔

مرحہ کو لا کر شمش عالم کے ساتھ اسٹیج پر لگے جھولے پر بیٹھایا گیا تو شاہین بیگم نے آگے بڑھ کر اُن کی بلائیں لی۔ پھر باری باری سب آگے آ کر رسم کرنے لگے ۔ عشنا نے بھی آگے آ کر مرحہ کو مٹھائی کھلانے کے بعد شمش عالم کو مٹھائی کھلانے کے لیے آگے بڑھی تو شمش عالم کو عجیب نظروں سے خود کو گھورتے پایا۔ اُس نے اُس کی نظروں سے گھبرا کر جلدی سے وہاں سے ہٹ گئی۔

عالمگیر جو کے اسٹیج کے پاس ہی کھڑا تھا اُس نے یہ منظر صاف دیکھا تھا اور شمش عالم کو عشنا کی طرف غلیظ نظروں سے دیکھتا پا کر اُس نے اپنے ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچ کر اپنے غصے کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی تھی۔

رحمت بیگم نے عالمگیر کو بھی اسٹیج پر رسم کرنے کو بلایا تو وہ اسٹیج پر آ کر باری باری دونوں کو مٹھائی کھلانے لگا۔

مرحہ کو میٹھی کھلاتے اُس نے اُس کے سر پر ہاتھ رکھا تھا جب کی شمش عالم کو ایک غصیلی نظر سے دیکھتا اسٹیج سے اتر گیا۔

رسم ختم ہو گئی تو سب آپس میں خوش گپیاں کرنے لگے ۔کچھ لوگ ڈھولک بجانے اور گانا گانے لگے تو عالمگیر ایک سائڈ پر  جا کر کھڑا ہو گیا۔

عشنا شاید پانی کیلئے ویٹر کی طرف بڑھ رہی تھی کے اچانک شمش عالم اُس کے سامنے آ گیا۔

"آپ بہت خوصورت ہیں۔۔۔آپ پہلے کہاں تھیں۔۔۔"

شمش عالم اُسے غلیظ نظروں سے دیکھتا ہوا بولا۔۔۔

"جی ۔۔"

اُس نے کنفیوژ ہوتے ہوئے کہا۔

"عشنا چلو۔۔۔۔"

عالمگیر پیچھے سے آ کر عشنا کو بولا اور ساتھ نظروں سے وہاں سے چلنے کا اشارہ بھی کیا۔

عشنا اُسکے ساتھ آگے بڑھ گئی۔

شمش عالم نے غلیظ مسکراہٹ کے ساتھ اُنھیں جاتا دیکھا۔ وہ عالمگیر کو پہچان چکا تھا۔ اکثر بزنس پارٹیز میں انکا ایک دوسرے سے آمنا سامنا ہوتا رہتا تھا۔

"کیا ضرورت تھی اُس غلیظ شخص سے بار بار بات کرنے کی؟"

عالمگیر ایک سائڈ پر آ کر عشنا کے مقابل کھڑا ہوتا ہوا بولا۔

"آ۔۔۔عالمگیر بھائی۔۔۔میں نہیں۔۔۔وہ تو ۔۔۔وہ تو وہی۔۔۔۔"

وہ عالمگیر کے غصے سے خائف ہوتے ہوئے بولی

"عشنا۔۔۔آئندہ میں تمہیں اُس شخص کے آپ پاس نہ دیکھوں۔۔۔۔سمجھ آئی؟"

عالمگیر نے انگلی اٹھا کر اُسے تنبیہ کرتے ہوئے کہا۔

"لیکن۔۔۔لیکن عالمگیر بھائی۔۔۔۔ "

وہ کچھ کہنا چاھتی تھی

"شٹ اپ عشنا۔۔۔ایک بات نہیں۔۔۔ اگر میں کہہ رہا ہوں کہ اُس کے آس پاس نظر نہ آؤ تو نہیں آنا۔۔۔۔سمجھ آ رہی ہے تمہیں؟"

اُس نے غصے سے کہا تو عشنا نے جلدی جلدی سر اثبات میں ہلا دیا۔

عالمگیر اُسے وہاں چھوڑ کر دوسری طرف چلا گیا۔

"میں تو نہیں گئی تھی۔۔۔میں تو خود ۔۔اور یہ عالمگیر بھائی کیسے ڈانٹ رہے ہیں مجھے۔۔۔میں نے کیا بگڑا ہے۔۔ "

اُس نے منہ بنا کر کہا اور کوثر بیگم کی طرف بڑھ گئی جو کسی سے بات کر رہیں تھیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


"تمہاری پروبلم کیا ہے ہاں؟"

عالمگیر جو نادر کی کال کو آن کر کے ایک طرف جا رہا تھا مرحہ کی آواز پر مڑا اور نادر کو بعد میں کال کرنے کا کہتا اُس کی طرف استہفامیہ نظروں سے دیکھا۔

"کیا مطلب؟"

اُس نے مرحہ کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"مطلب؟ تم نے کیا کہا ابّو سے شمش عالم کے بارے میں؟  تمہاری پروبلم کیا ہے ہاں آخر؟"

"مرحہ میں نے تو وہی کہا جو سچ ہے۔۔۔"

اُس نے اُسے شمش عالم کے بارے میں بتانا چاہا۔

"بس بس۔۔۔۔بند کرو یہ دکھاوا۔۔۔نہیں چاہیے تمہاری ہمدردی۔۔۔۔ابّو نے سب پتہ کیا ہی ہوگا۔۔۔تمہیں مہان  بننے کی ضرورت نہیں۔۔"

وہ ذرا تیز آواز میں بتميزی سے بولی۔

"مرحہ مامو نہیں جانتے۔۔۔وہ ہمارے بزنس سرکل کا سب سے بدنامِ انسان ہے۔۔۔۔تم سمجھ نہیں رہی۔۔۔۔"

اُس نے پھر اُسے سمجھانا چاہا

"بس۔۔۔۔بہت ہو گیا عالمگیر۔۔۔اور نہیں۔۔۔۔تم نے اب میری شادی میں کوئی بدمزگی کرنے کی کوشش کی تو اچھا نہیں ہوگا۔"

اُس نے ہاتھ اٹھا کر اُسے چپ کرا دیا اور اُسے انگلی دیکھا کر وارن کرنے والے انداز میں بولی اور چلتی ہوئی  وہاں سے اسٹیج کی طرف بڑھ گئی۔

عالمگیر نے افسوس سے سر ہلایا اور رحمت بیگم کی تلاش میں نظریں گھمائی۔

رحمت بیگم اُسے دور سے کسی عورت کے ساتھ بات کرتی نظر آئیں تو وہ چلتا ہوا اُنکے پاس آیا اور اُنہیں چلنے کا کہنے لگا۔

"بیٹا ابھی کہاں۔۔۔ابھی تو کھانا بھی نہیں کھایا۔۔۔"

اُنہوں نے اُس کی جانے کی بات سن کر کہا۔

"امی مجھے آفس کا کچھ کام ہے۔۔۔میں جا رہا ہوں۔۔۔آپ لوگ آ جائیگا۔"

وہ کہتا باہر کی طرف بڑھ گیا۔

 رحمت بیگم  اُسے پکارتی ہے رہ گئیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عالمگیر گھر آ کر کمرے میں آ گیا اور کپڑے چینج کر کے بیڈ پر آ کر لیپ ٹاپ آن کر کے کام کرنے لگا۔

اُسے کام کرتے نجانے کتنا وقت بیت گیا جب اُسے لاؤنج سے باتیں کرنے کی آوازیں آئی۔

وہ بیزاری سے لیپ ٹاپ رکھ کر کھڑکی کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا 

دروازے پر دستک ہوئی تو اُس نے مڑ کر دیکھا جہاں عشنا کھانے کی ٹرے لیے دروازے پر کھڑی اُس سے اندر آنے کی اجازت مانگ رہی تھی۔

اُس نے سر کے اشارے سے اُسے اندر آنے کی اجازت دی تو وہ چلتی ہوئی صوفے کے پاس آ کر ٹرے ٹیبل پر رکھی ۔

 عالمگیر یوں ہی ہاتھ سینے پر باندھے کھڑا اُس کی کارروائی دیکھ رہا تھا وہ اپنے شرارے میں اُلجھتی ٹیبل ٹرے پر رکھ چکی تھی۔

عشنا نے عالمگیر کو مڑ کے دیکھا تو وہ بھی اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔ 

اُس نے نظریں جھکا کر کہا۔

"آپ ۔۔۔آپ نے کھانا نہیں کھایا۔۔۔تو۔۔۔تو پھوپھو نے کہا کھانا۔۔۔کھانا ۔۔۔آپ کھانا کھا لیں ۔۔۔"

"بھوک نہیں ہے مجھے۔یہ کھانا واپس لے جاؤ۔"

اُس نے آہستہ سے کہا اور رخ موڈ کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔

ایک بار پھر مرحہ کی باتیں اُس تعیش دلانے لگی۔

"I am sorry۔۔۔۔۔Aalamgeer bhai۔۔۔۔"

(مجھے معاف کر دیجئے عالمگیر بھائی۔۔۔۔)

اسنے نے کہا تو اُس نے مڑ کر عشنا کو دیکھا۔

"تم کیوں معافی مانگ رہی ہو؟"

وہ چلتا ہوا عشنا کے پاس سے ہوتا ہوا صوفے پر آ بیٹھا۔

"وہ۔۔۔وہ شام کو ۔۔۔میں نے ۔۔۔میں نے آپ پر چائے گرا دی تھی نہ۔۔۔اور۔۔۔"

اُس نے کچھ اور بھی کہنا چاہا 

"تم نے جان بوجھ کر چائے گیرائی تھی مجھ پر؟"

عالمگیر نے حیران ہو کر پوچھا۔

"نہیں۔۔۔نہیں۔۔۔وہ غلطی سے۔۔۔میں نے جان بوجھ کر نہیں۔۔۔ سچ میں غلطی سے گر گئی تھی۔۔۔"

اُس نے جلدی جلدی صفائی دی۔

"ٹھیک ہے تم جاؤ اور جا کر ملازم کو کچھ دیر بعد بھیج دینا برتن لے جائیگا ۔ تم بھی تھک گئی ہوگی ۔جاؤ جا کر آرم کرو۔"

وہ کہتا کھانے کی ٹرے سرکا کر کھانے کی طرف متوجہ ہو گیا تو عشنا "جی" کہتی کمرے سے نکل گئی اور ملازم کو ہدایت دیتی کمرے میں آ کر چینج کر کے نماز ادا کر کے سونے کے لیے لیٹ گئی۔

عالمگیر کھانا  کھا چکا تو ملازم برتن اٹھا لے گیا۔ وہ بھی سونے کے لیے لیٹ گیا۔ باقی سب پہلے ہی اپنے اپنے کمرے میں جا چکے تھے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


دوسری صبح گھر میں گہماگہمی کا منظر تھا۔ عالمگیر ناشتہ کرنے کے بعد اپنے کمرے میں لیپ ٹاپ پر کام کرنے میں مشغول تھا۔

عشنا اور کوثر بیگم ابراہیم صاحب کے ساتھ پہلے ہی ہارون ویلا چلے گئے تھے۔ ملیحہ بیگم رات وہیں رک گئیں تھیں اور اب شادی تک وہی رہنے کا ارادہ رکھتیں تھیں۔

"بیٹا بس کر دو کام۔۔۔۔۔چلو اب تیار ہو جاؤ ۔۔ہمیں چلنا بھی ہے۔۔۔"

رحمت بیگم عجلت میں لگتی تھیں۔ وہ ہلکے رنگ کے کاٹن کے کامدار سوٹ میں تیار کھڑی تھیں۔

"امی۔۔۔۔تقریب تو شام کو ہے نا؟ پھر ابھی سے کیوں جانا ہے۔۔۔۔۔میرے بہت سے کام پینڈنگ ہے۔ آپ ایک کام کریں عشنا اور مامو مامی کے ساتھ چلیں جائیں ۔۔میں شام کو آ جاؤنگا۔"

اُس نے اپنے کام کا بتایا اور ساتھ اُنھیں مشورہ بھی دیا۔

"بیٹا شادی کا گھر ہے۔۔۔۔کتنے ہی کام ہوتے ہیں۔۔۔تم رہوگے تو ہارون کو کچھ ہیلپ ہی ہو جائیگی۔۔۔اور ویسے بھی آج کمبائنڈ ڈھولکی اور مہندی رکھی گئی ہے۔۔کتنے ہی کام ہونگے وہاں۔۔۔"

اُنہوں نے پھر سے اُسے قائل کرنا چاہا۔

"امی بیلیو می۔۔۔۔مامو کا کوئی کام میری غیر موجودگی کی وجہ سے نہیں رکنے والا۔ آپ چلیں اُن لوگو کے ساتھ۔۔میں آ جاؤنگا "۔

کل رات کی بات یاد کر کے اُسے تھوڑا غصّہ بھی تھا۔ وہ رات کی تقریب میں جانا نہیں چاہتا تھا۔

"وہ لوگ پہلے ہی جا چکے ہیں بیٹا۔۔۔۔ تم چلو میرے ساتھ۔۔۔اچھا چلو مجھے چھوڑ کر آ جاؤ پھر شام میں تقریب میں شرکت کرنے آجانا۔"

اُنہوں نے اُسے کہا تو وہ لیپ ٹاپ بند کرتا اٹھ کھڑا ہوا۔اُس کا ارادہ اُنھیں وہاں چھوڑ کر آ جانا تھا۔

عالمگیر رحمت بیگم کو چھوڑ کر گھر جانے لگا تو عشنا نے اُسے دور سے پُکارا۔

 وہ بھاگتے ہوئے اس کے قریب آئی تھی۔

"عالمگیر بھائی۔۔۔۔"

اُس نے اپنی پھولی ہوئی سانسوں کو استوار کرنے کی کوشش کی۔

"ریلیکس عشنا۔۔۔۔نہیں جا رہا میں۔۔۔یہی ہوں۔۔۔بھاگ کے آنے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ پانی پیو۔"

اُس نے پاس سے گزرتے ویٹر سے پانی کا گلاس لے کر عشنا کو تھمایا۔

سارا گھر مہمانوں سے بھرا تھا اس لیے ویٹر کھانا ،ناشتہ،سوفٹ ڈرنک،پانی لیے یہاں وہاں گھوم رہے تھے۔

"عالمگیر بھائی۔۔۔۔"

اُس نے پانی پی کر کہا لیکن سانس اب بھی پھولی تھی۔

"عشنا ۔۔۔۔۔کہا نہ کھڑا ہوں ۔۔۔سانس لے لو پہلے۔۔۔"

اُس نے اُس کی پھولی سانسوں کی طرف اشارہ کیا۔

"وہ عالمگیر بھائی۔۔ ہمیں پارلر جانا تھا ۔۔آپ پلیز لے چلیں نہ۔۔۔پلیز۔۔۔۔"۔

عشنا نے اپنی سانسوں کے سنبھلنے کے بعد کہا۔ 

"عشنا تم ڈرائیور کے ساتھ چلی جاؤ۔۔۔۔مجھے بہت کام ہے آفس کے۔۔۔ میرے پاس وقت نہیں ہے۔"

اُس نے اپنے نہ جانے کا جواز بتایا۔

"لیکن عالمگیر بھائی۔۔۔۔"

"عشنا چلو۔۔۔اپنا سامان لے لو۔۔۔۔شمش عالم آ رہے ہیں وہ ہمیں پارلر ڈراپ کر دینگے۔۔۔"

مرحہ نے آ کر کہا تو عشنا  نے ایک نظر عالمگیر کو دیکھا اور پھر  مرحہ کو۔

عالمگیر کے انکار کے بعد اُس کے پاس کوئی چارا بھی نہیں تھا تو اثبات میں سر ہلاتی مرحہ کے ساتھ گھر کے اندر جانے لگی۔

"عشنا رکو۔۔۔۔۔۔۔۔چلو میں ڈراپ کر دیتا ہوں۔۔۔"

عالمگیر نے پیچھے سے کہا تو مرحہ نے تونک کر اسے دیکھا اور بولی۔

"کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ شمش عالم ہمیں ڈراپ کر دینگے۔۔۔۔"

"تمہیں جانا ہے تو جاؤ۔۔۔۔عشنا نہیں جائیگی ۔۔۔عشنا جاؤ جا کر اپنا بیگ لے کر آؤ۔۔۔۔میں کار لے کر آ رہا ہو۔۔۔"

عالمگیر مرحہ کو کہتا عشنا کی طرف مڑ کر بولا اور گیٹ سے باہر نکل گیا تو وہ پریشان ہو کر مرحہ کو دیکھنے لگی۔

"ہنہ۔۔۔۔بڑا آیا حکم چلانے والا۔۔۔۔تم چلو میرے ساتھ۔۔۔۔"

مرحہ نے ناک چڑھا کر ہنکارا بھرا اور اُسکا ہاتھ پکڑ کر اندر لے آئی۔

عشنا اپنا بیگ لے کر باہر آئی تو عالمگیر کار سے پشت لگائے کھڑا اُس کا انتظار کر رہا تھا۔ شاید وہ شاور لے کر آ رہا تھا۔ نکھرا نکھرا وہ اُس کے سامنے تھا۔

عشنا چلتی ہوئی اُس کی طرف آئی اور بیک سیٹ کھول کر بیگ رکھ کر فرنٹ سیٹ پر آ بیٹھی۔

مرحہ اور باقی سب پہلے ہی شمش عالم کے ساتھ جا چکے تھے۔

عشنا کے بیٹھتے ہی عالمگیر نے کار سڑک پر ڈال دی۔

"ایڈریس بتاؤ پارلر کا۔۔۔"

عالمگیر نے پارلر کا ایڈریس جاننا چاہا۔

"وہ میں۔۔۔وہ تو مرحہ آپی کو پتہ تھا۔۔۔میں نے تو ۔۔۔ایڈریس پوچھا ہی نہیں۔۔۔"

اُس نے پریشان ہو کر بتایا۔

عالمگیر نے جھٹکے سے کار کو بریک لگایا۔

"تم نے ایڈریس بھی نہیں پوچھا۔۔۔تم۔۔۔۔"

عالمگیر کو شدید حیرت ہوئی۔

"مطلب یہ لڑکی اتنی سادہ ہے کہ۔۔۔۔۔اُف۔ اللہ جی۔۔۔۔کیا بنےگا اس کا۔۔۔۔۔۔"

عالمگیر نے دل میں سوچا۔

"I am sorry۔۔۔۔ 

مجھے لگا آپ ہم سب کو لے جائینگے تو ۔۔۔میں۔۔میں نے۔۔۔ "

عشنا نے لب کاٹتے ہوئے کہا ساتھ ہی دو آنسو لٹک کر اُس کے رخسار بھیگا گئے۔

"یہ لو۔۔۔آپ چپ کرو۔۔۔اس میں رونے والی کوئی بات نہیں۔۔ شہر میں بہت پارلر ہیں۔۔۔۔"

عالمگیر نے اپنا رومال اُسے پکڑایا اور آنسو صاف کرنے کا کہتا کار اسٹار کر کے ایک طرف بڑھا لے گیا۔

عشنا نے اُس کے رومال سے آنسو صاف کیے اور ایک نظر عالمگیر کو دیکھ کر باہر دیکھنے لگی۔ اب اُسے یہ پریشانی لاحق تھی کے وہ تیار کیسے ہوگی 

"چلو۔۔۔"

وہ اپنی سوچوں میں گم تھی جب عالمگیر نے کار کو روک کر اُسے باہر آنے کا کہا۔

وہ باہر آئی تو عالمگیر نےبیک سیٹ سے اُسکا بیگ اٹھایا اور اُس کے ساتھ چلتا ہوا اندر آیا ۔

یہ شہر کا ایک بہت بڑا پارلر تھا۔اُس کی جدید قسم کی فرنشننگ اور اس پاس لوگو کا ہجوم اُس کے مشہور ہونے کا عندیہ دے رہے تھے۔

عالمگیر چلتا ہوا ریسیپشنسٹ کے پاس آیا اور عشنا کی طرف اشارہ کر کے اُس تیار کرنے کا کہا۔ 

اُس نے چند ایک سوال پوچھے تو وہ گڑبڑا گیا ۔ اُس کیا پتہ لڑکیوں میں کیسے تیار ہونا ہے ۔ اُس نے عشنا کو ہاتھ کے اشارے سے پاس بلایا اور ریسیپشنسٹ سے بولا۔

"میڈم یہ یہاں کھڑی ہے۔۔۔آپ ان سے پوچھ لیں جو پوچھنا ہے۔ اور انہیں ریڈی کر دیں جلدی سے ۔۔۔"

عالمگیر جیبوں میں ہاتھ ڈال بولا تو عشنا میں ایک نظر عالمگیر کو اور پھر ریسیپشنسٹ کو دیکھا جو کسی کو آواز دے کر بلانے کے بعد عشنا کو اشارے سے ایک طرف جانے کو کہا تو عشنا عالمگیر کے پاس کاؤنٹر پر رکھے بیگ کو اٹھاتی اندر کی طرف بڑھ گئی۔

 "کتنا ٹائم لگےگا انہیں؟"

عالمگیر نے ریسیپشنسٹ سے پوچھا ۔ دراصل وہ عشنا کو اکیلے چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا تھا۔ انجان شہر میں انجان جگہ وہ اُسے اکیلے نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ اُس نے آنے سے پہلے رحمت بیگم کو بتا دیا تھا کہ وہ عشنا  کو لے کر پارلر جا رہا ہے۔

"سر 3 سے 4 گھنٹے تو لگ ہی جائینگے۔ آپ ایک کام کریں 4 گھنٹے بعد اپنی وائف کو لینے آ جائیں۔۔۔۔"

ریسیپشنسٹ نے کہا تو عالمگیر نے چونک کر اُسے دیکھا۔

"وہ دراصل میری۔۔۔۔"۔

عالمگیر کچھ کہہ ہی رہا تھا کے ڈیسک پر پڑا فون بجا تو ریسیپشنسٹ فون اٹھا کر بات کرنے لگی۔ فون ختم کر کے وہ عالمگیر کی طرف متوجہ ہوئی۔

"ہاں تو سر کیا کہہ رہے تھے آپ؟"۔

اُس نے عالمگیر سے پوچھا۔

"کچھ نہیں۔۔۔کیا میں یہاں بیٹھ کر اُسکا اِنتظار کر سکتا ہوں۔۔۔"

عالمگیر نے پوچھا۔

"جی۔۔۔وہ سامنے  کاؤچ پر بیٹھ جائیں۔۔۔"

ریسیپشنسٹ نے اُسے بیٹھنے کی جگہ بتائی تو وہ گردن ہاں میں ہلاتا تھینکس کہہ کر باہر کی طرف گیا اور کار سے اپنا لیپ ٹاپ لا کر کاؤچ پر بیٹھ کر اپنا کام کرنے لگا۔

کچھ گنٹھوں بعد عشنا باہر آئی تو عالمگیر نے نظریں اٹھا کر اُسے دیکھا۔ وہ آسمانی رنگ کے گول فراک میں جس پر ننھے ننھے نگ  چمچما رہے تھے ساتھ دوپٹہ بھی بڑے دلکش انداز میں سر پر رکھے کندھوں پر پن اپ کیا گیا تھا وہ آسمان سے اُتری کوئی پری لگ رہی تھی۔ 

عالمگیر پلکیں جھپکائیں بنا اُسے دیکھے گیا۔

عشنا چلتی ہوئی اُس کے پاس آئی تو اُس کا سکتا ٹوٹا۔ اُس نے جلدی سے لیپ ٹاپ بند کیا اور کاؤنٹر کی طرف بڑھ گیا تاکہ بل پے کر سے۔ بل پے کر کے وہ اُس کے ساتھ باہر آیا تو عشنا اپنا دوپٹہ سنبھالتی اُسکے برار میں آ بیٹھی۔ 

عالمگیر نے اُس سے کے چہرے سے نظریں چورائی جو کے اُسے بہت مشکل لگ رہا تھا۔

"آپ یہی میرا انتظار کر رہے تھے۔۔۔"

عشنا نے آہستہ سے پوچھا تو عالمگیر نے مسکرانے پر اکتفا کیا۔

"سوری۔۔۔میری وجہ سے آپ کا کام سفر ہوا۔۔۔"

عشنا نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا۔ عالمگیر نے بتایا تھا کہ اُس کے پاس وقت نہیں ہے اور پھر بھی وہ اُس کے ساتھ پارلر میں اپنے 4 گھنٹے بگاڑ چکا تھا۔

"نہیں۔۔۔کچھ سفر نہیں ہوا۔۔۔میں لیپ ٹاپ ساتھ لایا تھا۔ اچھا بتاؤ پارلر صحیح تھا۔۔۔۔؟ ٹھیک سے اٹینڈ کیا تمہیں۔۔۔۔"

عالمگیر نے ونڈسکرین سے باہر دیکھتے ہوئے کہا۔

"جی۔۔۔"

اُس نے آہستہ سے کہا۔

"ٹھیک ہے۔میں نے اُنھیں کل کے لیے بک کر دیا ہے۔ وہ کل گھر آ کر تمہیں تیار کر دیں گے۔ تمہیں یہاں آنے کی ضرورت نہیں۔۔۔"

عالمگیر نے اُسے بتایا تو اُس نے حیرت سے اُسے دیکھا۔

"لیکن عالمگیر بھائی۔۔۔"

اُس نے کچھ کہنا چاہا تو عالمگیر نے اُس کی بات کاٹ دی۔

"عشنا۔۔۔۔میرے پاس اتنا ٹائم نہیں ہے اور تم کسی اور کے ساتھ کہیں نہیں جا رہیں۔۔۔سمجھ آ رہی ہے تمہیں؟"

عالمگیر نے ذرا تیز آواز کہا تو عشنا نے سہم کر اُسے دیکھا۔

"عشنا۔۔۔تم اس شہر میں نئی ہو اور از اے كزن یہ میری ذمےداری ہے کہ تم کو کوئی پروبلم نہ ہو۔تو اس لیے ۔۔۔ٹھیک ہے؟"

اب اُس نے ذرا نرم انداز میں کہا تو عشنا نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

عالمگیر عشنا کو ڈراپ کر کے گھر آ گیا اور ریڈی ہونے ق لگا۔ شام ہو چکی تھی اور اُسے بھی تقریب میں پہنچنا تھا۔

وہ ریڈی ہو کر باہر آیا اور چلتا ہوا ہارون ویلا آ گیا۔

ہر جگہ گہماگہمی شور،ہلا گلا، میوزک۔۔۔ ہر طرف ہی شور تھا۔

عالمگیر چلتا ہوا نظریں گھوما کر رحمت بیگم کو ڈھونڈھتا آگے بڑھ رہا تھا آخر کار وہ نظر آ ہی گئی۔ وہ کسی سے کھڑی باتیں کر رہی تھیں۔

رحمت بیگم نے اُسے آتا دیکھا تو خاتون سے معذرت کرتے اُس کی طرف بڑھی۔

"ماشاء اللہ ۔۔۔ ماشاء اللہ۔۔۔"

اُنہوں نے اُس کی بلائیں لے لیں۔

وہ لگ بھی بہت خوبصورت رہا تھا۔وائٹ شرٹ بلیک جینز میں بالوں کو جیل سے سائڈ کیے ہاتھوں میں قیمتی گھڑی پہنے خوشبوؤں میں نہایا اُن کے سامنے کھڑا تھا۔

اُس نے اُن کے بلائیں لینے پر بس مسکرانے پر اکتفا کیا۔

"آ گئے تم۔۔۔۔کھایا پیا کے نہیں کچھ۔۔۔"

اُنھیں اُس کی بھوک کی فکر ہوئی۔

"عالمگیر بھائی ۔۔۔یہ کھانا کھا لیجئے۔۔۔آپ نے صبح سے کچھ نہیں کھایا ہے۔"

عشنا شاید عالمگیر کو آتا دیکھ چکی تھی اس لیے فوراً ٹرے میں کھانا سجائے اُس کے قریب آ کر بولی۔

"ہاں یار۔۔۔بہت بھوک لگی ہے۔۔۔۔تھینکس۔۔۔۔"

کہتا ہوا وہ عشنا کے ہاتھ سے پلیٹ تھام کر پاس پڑی چیئر پر بیٹھ گیا۔ اور کھانا کھانے لگا۔

عشنا مسکرائی اور کوثر بیگم کے بلانے پر اُن کی طرف بڑھ گئی۔

"چلو ۔۔۔جب تک عشنا ہے مجھے تمہارے کھانے پینے کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ کل رات بھی میں اتنا تھک گئی تھی کے تمہارے کھانے کا پوچھنا ہی بھول گئی لیکن جب صبح ملازم نے بتایا کہ عشنا نے تمہیں کھانا کھیلا دیا تھا تب مجھے چین ملا۔"

عالمگیر جو کھانا کھاتے اُن کی بات سن رہا تھااُن کی آخری بات پر ٹھٹھک گیا۔

"اُس نے تو کہا تھا کے پھوپھو نے۔۔۔"

اُس نے دل میں سوچا۔

رحمت بیگم کسی ملنے والے کے ساتھ آگے چلیں گئیں تو عالمگیر پر سوچ نہگاہوں سے  عشنا کو دیکھتا کھانا کھانے لگا۔

سارے فنکشن میں ہی عالمگیر عشنا کو اپنی نظروں کے حصار میں رکھے اُس کے بارے میں ہی سوچتا رہا۔

عشنا کا اُس کا اتنا خیال رکھنا،اُس کی تکلیف پر آنسو بہانہ۔۔۔اُس کے لیے اُس کی پسند کے کھانے بنانا۔۔۔وہ بری طرح اُلجھ گیا تھا اور تقریب ختم ہونے سے پہلے ہی گھر آ گیا تھا۔اُس کا ذہن الجھا الجھا تھا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج بارات تھی اور سب لوگ صبح سے ہی ہارون ویلا میں موجود تھے۔ عالمگیر کو بھی ناچار آنا ہی پڑا۔ آج اُس کا کوئی بہانہ کام نہ آیا اور رحمت بیگم اُسے اپنے ساتھ صبح ہی گھسیٹ لائیں تھیں۔

عالمگیر سارا وقت نادر سے کال پر بات کرتا رہا۔  ویسی بھی اُسے یہاں کوئی کام نہیں دیا گیا تھا۔ سب ایونٹ مینیجمنٹ کی ٹیم بخوبی کر رہی تھی۔

" عشنا ۔۔۔۔۔یار پانی تو پلاؤ۔۔۔۔"

صبح سے اُس نے عشنا کو نہیں دیکھا تھا اور اب بےچینی سے اُسے تلاش کرتا لان میں آیا تو عشنا ایک گجروں کی ٹوکری لیے اندر جا رہی تھی۔ اُسے دیکھتے ہی عالمگیر نے اُس سے پانی مانگ کر اُس کی توجہ خود کو طرف دلانی چاہی۔ عالمگیر کو اُس کی توجہ کی عادت ہوتی جا رہی تھی۔

"جی ۔۔میں ابھی لائی۔۔۔"

وہ کہتی اندر کی طرف بڑھ گئی تو عالمگیر کی نظروں نے دور تک اُسکا پیچھا کیا۔

"یہ لیجئے۔۔۔" 

عشنا پانی کے ساتھ کھجور بھی ٹرے میں رکھ کر لے آئی تو عالمگیر مسکرائے بنا نہ رہ سکا۔

اور کھجور کھانے کے بعد پانی پی کر گلاس ٹرے میں رکھا تو عشنا ٹرے اٹھا کر جانے لگی۔

"عشنا رکو۔۔۔"

عالمگیر نے پیچھے سے پُکارا۔

عشنا نے مڑ کر اُسے دیکھا۔

"یہ پہننا آج رات۔۔۔۔"

عالمگیر نے ایک شاپنگ بیگ اُس کے سامنے کیا تو عشنا ٹرے رکھ کر بیگ پکڑ لیا اور کھولا تو اُس میں وہی موتیوں کا ہار تھا جو اُس دِن شاپنگ مال میں اُس نے دیکھ کر رکھ دیا تھا۔

"عالمگیر بھائی۔۔۔یہ ۔۔۔یہ میں۔۔۔کیسے۔۔۔میں کیسے آپ سے۔۔۔"

اُس سمجھ نہیں آیا کیا کہ۔ے

"تحفہ ہے۔۔۔رکھ لو۔۔۔اور آج یہی پہننا۔۔۔"

عالمگیر نے مسکراتے ہوئے اُسکے چہرے کو اپنی نظروں کے حصار میں رکھتے ہے کہا ۔

"لیکن میں کیسے۔۔۔میں اتنا مہنگا تحفہ آپ سے کیسے۔۔۔۔"

اُس نے جھجھکتے ہوئے کہا۔

"کیوں۔۔۔۔میں تمہیں تحفہ نہیں دے سکتا؟"

اُس نے سوالیہ  انداز میں کہا تو وہ گڑبڑا گئی۔

عالمگیر بنا کچھ کہے وہاں سے نکل گیا 

"افّف اللہ جی۔۔۔۔ناراض ہو گئے کیا۔۔۔ "

اُس نے اُس کے بنا کچھ کہے چلے جانے پر پریشانی سے سوچا۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ہر طرف لوگو کی چہیل پہل  تھی۔ بارات آ چکی تھی اور تھوڑی دیر میں نکاح کی رسم ہونی تھی۔ ابراہیم صاحب بھی ہارون صاحب کو سمجھانے سے قاصر تھے۔ اُس نے مرحہ کے اچھے مستقل کی دعا کر کے سب کچھ خدا کے سپرد کر دیا تھا ۔ وہ چلتا ہوا اسٹیج کی طرف جا رہا تھا ۔

"سنبل۔۔۔۔"

عالمگیر نے دور سے سنبل کو اُسی لڑکے کے ساتھ باتیں کرتا  دیکھا جِس کے ساتھ وہ تصویروں میں کھڑی تھی۔

عالمگیر نے غصے سے مٹھیاں بھینچ لی۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


"سنبل۔۔۔۔"

عالمگیر چلتا ہوا سنبل کے پاس آیا ۔

"عالم۔۔۔عالمگیر۔۔۔۔۔۔"

سنبل نے مڑ کر عالمگیر کو دیکھا تو گڑبڑا گئی۔۔۔

"تم یہاں؟ کیسے۔۔۔۔؟"

عالمگیر نے ساتھ کھڑے شخص کو دیکھ کر پوچھا۔

مجھے تو شمش عالم نے اپنی شادی میں بلایا ہے۔۔۔لیکن تم۔۔۔تم یہاں کیسے۔۔۔؟"

اُس نے اپنے یہاں ہونے کی وجہ بتاتے ہوئے اُس سے سوال کر ڈالا۔

"یہاں میری بہن کی شادی ہو رہی ہے۔ یہ کون ہے؟"

اُس نے بتانے کے ساتھ اُسکے پاس کھڑے شخص کے بارے میں دریافت کیا۔

"یہ۔۔۔یہ ہیں اسجد صدیقی۔۔۔میرے بزنس پارٹنر۔۔۔۔اور اسجد۔۔یہ ہیں عالمگیر۔۔۔انہیں تو آپ جانتے ہی ہونگے۔۔۔۔"

سنبل اب سمبھال چکی تھی۔

"ہاں بلکل۔۔۔عالمگیر سجّاد۔۔۔دی بزنس ٹائکون۔۔۔انہیں کون نہیں جانتا۔۔۔۔"

اسجد نے مسکرا کر عالمگیر سے مصافحہ کرنے کے لیے ہاتھ بڑھایا لیکن عالمگیر ایک غصے والی نظر اُس کے ہاتھ پر ڈال کر سنبل سے مخاطب ہوا۔

"تم اپنے بزنس پارٹنر کو اپنے ساتھ کراچی تک لے آئی؟ وہ بھی اکیلی۔۔۔۔کسی کی شادی اٹینڈ کرنے۔۔۔۔؟"

عالمگیر نے طنزیہ پوچھا۔

"عالمگیر بھائی۔۔۔۔آپ کو پھوپھو بولا رہی ہیں۔۔۔۔"

رحمت بیگم کب سے عالمگیر کو ڈھونڈ رہی تھیں اور کئی بار عشنا سے بھی پوچھ چکی تھیں ۔اب عشنا نے اُسے سنبل کے ساتھ کھڑے دیکھا تو چلتی ہوئی اُس کے پاس آ کر بولی۔

"اوہ۔۔۔تو تم بھی یہاں ہو۔۔۔ویسی عالمگیر ماننا پڑےگا۔۔۔تم اس کے بنا کہیں جاتے نہیں۔۔۔۔۔دل جو۔۔۔"

سنبل شولا بار نگاہوں سے عشنا کو دیکھ کر کہہ ہی رہی تھی تب تک عالمگیر نے اُس کی بات کاٹ دی۔

"Shut up Sunbul.....ushna you go، I will come in some time"

(چپ رہو سنبل۔۔۔۔عشنا تم جاؤ، میں کچھ دیر میں آتا ہوں۔۔۔)

عالمگیر نے کہا تو عشنا اثبات میں سر ہلاتے وہاں سے چلی گئی۔

"کیا ہوا۔۔۔میں نے ایسا کیا کہ دیا "تمہاری" عشنا کو۔۔۔۔"

سنبل نے تمہاری پر زور دیتے ہے نخوت سے کہا۔

"I said just shut your mouth.... don't say a word about ushna...."

(میں نے کہا اپنا منہ بند رکھو اپنا۔ایک لفظ بھی نہیں کہنا عشنا کے بارے میں)

"تم کیا کرتی پھر رہی ہو، سب جانتا ہوں میں۔۔۔۔تمہارے بارے میں بھی اور تمہارے اس اسجد صدیقی کے بارے میں بھی۔"

اُس نے باری باری دونوں کو گھور کر دیکھا۔

"ک۔۔۔کیا ۔۔کیا جانتے ہو۔۔۔۔"

سنبل نے گڑبڑا کر پوچھا۔

"وہی جو تم دونوں اتنے دنوں سے کرتے آ رہے ہو۔۔۔تم کیا سمجھتی ہو ؟  میں کیا جانتا نہیں۔۔۔میں چپ تھا تو بس تمہارے والد کے لیے۔۔۔لیکن اب اور نہیں۔۔۔۔یہ رہی تمہاری انگوٹھی۔۔۔میں یہ منگنی ابھی اور اسی وقت توڑتا ہوں۔۔۔۔"

عالمگیر نے کہنے کے ساتھ ہی اپنی انگلی کی انگوٹھی نکال کر اُس کی ہتھیلی پر رکھ دی۔

"ہنہ۔۔۔تو دیکھا دی نہ اپنی اوقات۔۔۔۔آ گئے نہ اپنی اصلیت پر۔۔۔۔اُس عشنا کے لیے  تم مجھے۔۔۔مجھے سنبل فاروقی کو انکار کر رہے ہو۔۔۔۔۔"

اُس نے ایک انگلی اپنی طرف کر کے اُس سے پوچھا۔

" میں نے کہا ایک لفظ نہیں  کہنا عشنا کے بارے میں۔۔۔۔ایک لفظ نہیں۔۔۔۔ورنہ میں بھول جاؤنگا کے تم کبھی میری منگیتر رہی تھی۔۔۔۔"

عالمگیر نے غصے سے اُسے وارن کرنے والے انداز میں کہا۔

"کول۔۔۔کول ڈاؤن۔۔۔۔"

اسجد نے اُسے ٹھنڈا کرنا چاہا۔

"You stay out of it......"

(تم دور رہی رہو)

عالمگیر نے اُسے دور رہنے کا کہا۔

"عالمگیر ۔۔۔۔تم اسجد سے دور رہو۔۔۔مجھ سے بات کرو۔۔۔۔تم کیا مجھ سے منگنی توڑو گے میں تم سے آج سارے رشتے ختم کرتی ہوں۔ تم کیا سمجھتے ہو میں تم سے شادی کرنا چاہتی تھی۔۔۔۔ہا ہا ہا ہا ہا ہا۔۔۔۔۔۔۔ 

کہتے کہتے اُس نے زور سے قہقہہ لگایا۔

"یہ تمہاری غلط فہمی ہے۔۔۔میری تو شرط لگی تھی ۔ سب کہتے تھی تم کسی لڑکی کو اپنے قریب نہیں آنے دو گے۔۔۔لیکن دیکھ لو۔۔۔۔نہ صرف تم نے مجھ سے محبت کا اظہار کیا بلکہ منگنی بھی کی۔۔۔اور میں اپنی شرط جیت گئی۔۔۔ تم جانتے ہو کہ میں کبھی ہارتی نہیں۔۔۔۔"

سنبل کی بات سن کر عالمگیر حیرت میں ڈوبا اُسے دیکھے جا رہ تھا۔ مطلب وہ صرف ایک شرط جیتنے کے لیے اپنی جان کی بازی لگا بیٹھی تھی؟

"اب تم اُس عشنا سے شادی کرو یہ پھر کسی اور سے۔۔۔مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔میں اپنی شرط جیت گئی ہوں۔۔۔"

"سنبل تم اس حد تک گر سکتی ہو میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔"

عالمگیر نے اُسکا بازوں دبوچ کر کہا تو اُس نے جھٹکے سے اپنا بازو چھڑایا 

"میں گر گئی۔۔۔میں۔۔۔گر تو تم  گئے عالمگیر ۔۔۔میرے ساتھ منگنی کرنے کے بعد بھی تم اُس عشنا ۔۔۔۔اُس عشنا کے آگے پیچھے گھومتے رہے۔۔۔بتاؤ مجھے کیا لگتی ہے وہ تمہاری؟ کیوں ہر وقت اُسے لے کر کبھی شاپنگ تو  کبھی لنچ کرتے پھرتے ہو۔۔۔۔مجھے تو کبھی شاپنگ پر لے کر نہیں گئے۔۔۔نہ ہی لنچ کروایا ۔۔۔۔حالانکہ میں تمہاری منگیتر تھی۔ اور اُس عشنا کو تو تمہاری ہر بات پتہ ہوتی ہے۔۔۔تم باہر سے چکن نہیں کھاتے ۔۔۔جو میں جانتی ہی نہیں۔۔۔اور "تم" مجھے گرا ہوا کہہ رہے ہو۔۔۔۔کیا لگتی ہے وہ تمہاری آج مجھے بتا ہی دو۔۔۔۔"

سنبل غصے سے کہتی سینے پر ہاتھ باندھے اُس سے سوال کر رہی تھی 

"عشنا میری کون ہے یہ میں تمہیں بتانا ضروری نہیں سمجھتا۔ اور اُس کے ساتھ شاپنگ کروں یا پھر اُس لنچ پر لیے جاؤں۔۔۔۔تمہیں اس سے کوئی مطلب نہیں ہونا چاہیے۔

"Everything is finished between us" 

(ہمارے بیچ سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔)

کہتا وہ لان کے دوسری طرف چلا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عالمگیر لان کے ایک سنسان گوشے میں بیٹھا تھا۔ سنبل کے کہے لفظ اب تک اُس کے کانوں میں سور کی طرح لگ رہے تھے۔

وہ مسلسل اُس کی باتوں کو سوچے جا رہا تھا۔کیسے اُس نے اسے گرا ہوا کہ دیا تھا۔کیسے وہ اُس کی زندگی کے ساتھ کھلواڑ کر گئی تھی صرف اور صرف ایک شرط کو جیتنے کے لیے۔

"میں کیسے اتنی بڑی غلطی کر سکتا ہو۔۔۔۔کیسے۔۔۔۔۔"

عالمگیر نے اپنے بالوں کو ہاتھوں سے نوچتے ہوئے سوچا۔ اپنے آپ کی تذلیل پر وہ بری طرح ٹوٹ گیا تھا۔ اُس کے آنکھوں سے دو آنسو ٹوٹ کر اُسکے رخسار پر بہہ گئے۔ 

دُور کھڑی عشنا نے یہ منظر صاف دیکھا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


تھوڑی دیر بعد جب عالمگیر نہیں آیا تو وہ اُسے دیکھنے واپس اُسی جگہ آئی تھی جہاں سنبل اور عالمگیر بات کر رہے تھے۔ لیکن اب وہاں صرف سنبل اور اسجد کھڑے باتیں کر رہے تھے۔عالمگیر وہاں کہیں نہیں تھا۔

سنبل کی پیٹھ عشنا کی طرف تھی اس لیے وہ عشنا کو دیکھ نہیں پائی تھی۔

عشنا عالمگیر کی تلاش میں جانے لگی تب ہی اُس کے کانوں میں سنبل کی آواز پڑی۔

"وہ اس قبل ہی نہیں کے سنبل فاروقی اُس کا مقدّر بنے۔۔۔

Now I am free....

چلو جان چھوٹی اُس عالمگیر سے۔"

عشنا نے سنا تو بےچینی سے عالمگیر کو یہاں وہاں ڈھونڈھتی اُس سنسان گوشے کے پاس سے گزر ہی رہی تھی کہ اُس نے عالمگیر کو دور سے دیکھا اور اُس کے آنکھوں سے بہے آنسو بھی۔

وہ چل کر اُس کے قریب جانے لگی کہ ایک آنٹی نے اُسے روک کر کچھ پوچھنا چاہا لیکن وہ اُنھیں سوری کہتی عالمگیر کے پیچھے آئی کیونکہ عالمگیر گیٹ پار کر گیا تھا 

عشنا تیز تیز چلتی گھر میں آئی اور عالمگیر کے کمرے کی طرف بڑھی لیکن اُس کے کمرے کے دروازے پر ہی وہ ٹھٹھک گئی۔

عالمگیر کے آنسو نے اُسے بتا دیا تھا وہ ٹھیک نہیں ہے۔ وہ کبھی نہیں رویا تھا ۔ صرف سجاد صاحب اور دادا دادی کی ڈیتھ پر رویا تھا یہ پھر آج۔ اُسے ڈر تھا وہ کچھ کر نہ لے اس لیے وہ اُس کے پیچھے آئی تھی۔

اُس کے کمرے کا حال دیکھ کر اُسے پریشانی نے آ گھیرا۔ ہی طرف چیزیں بکھری پڑی تھی۔

بیڈ سیٹ اور کمفرٹ فرش پر پڑے اپنی ناقدری کا ماتم کر رہے تھے جب کے کُشن ایک طرف پڑا تھا۔ڈریسنگ ٹیبل پر سے ساری چیزیں زمین بوس ہو چکی تھی۔ حتٰی کہ کمرے کی ہی چیز بکھری بڑی تھی۔ 

اُس نے عالمگیر کی تلاش میں نظریں کمرے میں دوڑائی وہ اسے ایک طرف فرش پر بیٹھا نظر آیا۔

اُس کی اپنی حالت بھی کمرے کی طرح ابتر تھی۔بکھرے بال،کف کے کھلے بٹن،اور ہاتھوں سے نکلتا خون۔۔۔۔ 

عشنا نے اُس کے ہاتھوں سے نکلتے خون کو دیکھا تو بھاگتی ہوئی اُس کی طرف بڑھی اور دو زانوں ہو کر اُس کے سامنے بیٹھی۔اور اُسکا ہاتھ جو خون س لت پت تھا اُسے تھام کر اُسے دیکھا تو عالمگیر نے کسی کا لمس اپنے ہاتھوں پر محسوس کر کے آنکھیں اٹھا کر دیکھا جہاں عشنا اُسکا ہاتھ تھامے پریشانی سے اُسے دیکھ رہی تھی۔ عشنا اُس کی آنکھوں کی وحشت دیکھ کر سہم گئی۔

"آل۔۔۔عالمگیر بھائی۔۔۔اٹھیں۔۔۔۔پلیز ۔۔۔۔اٹھیں۔۔۔۔پلیز۔۔۔۔۔"

اُس نے اُسے اٹھنا چاہا تو جب وہ نا ہلا تو وہ منّت کرنے لگی۔

"عشنا ۔۔۔۔جاؤ یہاں سے۔۔۔چلی جاؤ۔۔۔۔"

عالمگیر نے اپنا ہاتھ جھٹک کر اُسے جانے کو کہا۔

"نہیں۔۔۔میں۔۔میں نہیں جاؤنگی۔۔۔۔آپ اٹھیں ابھی۔۔۔پلیز۔۔۔۔کیوں نہیں سن رہے آپ۔۔۔ پلیز اٹھیں۔۔۔۔"

عشنا اُس کے درد پر تڑپ کر اُس سے منّت کر رہی تھی جو آنکھوں میں وحشت ہی وحشت لیے اُسے دیکھے جا رہا تھا۔

عشنا کے منّت کرنے پر وہ کھڑا  ہوا تو عشنا نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر اُسے بیڈ پر بیٹھایا اور سائڈ دراز سے فرسٹ ایڈ باکس نکال کر کاٹن سے اُس کے زخم سے بہتے خون کو صاف کیا اور آہستہ سے ڈرتے ڈرتے اُسے دیکھتے ہوئے ڈیٹول لگایا لیکن اُس نے کوئی تاثر نا دیا۔ اور بے تاثر سا بیٹھا رہا۔ عشنا نے زخم صاف کر کے اُس پر کریم لگائی اور پٹی باندھ کر گرہ لگا دی۔

عالمگیر نے چونک کر عشنا کو دیکھا کیونکہ اُس کی آنکھوں سے آنسو بہ کر عالمگیر کے  زخمی ہاتھوں پر گرے تھے۔

عالمگیر نے اپنا ہاتھ اُس کے ہاتھ سے نکالا

"عشنا جاؤ یہاں سے۔۔۔مجھے اکیلے رہنے دو۔۔۔۔"

عالمگیر نے پھر اُسے بھیجنا چاہا۔

"نہیں۔۔۔میں ایسے آپ کو اکیلے۔۔۔آپ چلیں میرے ساتھ۔۔۔"

عشنا نے اُسے باہر لے جانا چاہا۔

"ایک بار کہا سمجھ نہیں آتا تمہیں۔۔۔۔؟ کہا نا چلی جاؤ۔۔۔"

اُس نے اُسکا بازو دبوچ کر اُسے باہر کی طرف دھکا دیا۔ عشنا نے بھیگی آنکھوں سے اُسے دیکھا۔ عالمگیر اُس سے نظریں چرا کر دوسری طرف دیکھنے لگا۔

" سنبل سے اتنی محبت ہے آپ کو کہ اُس کے منع کرنے پر آپ خود کو نقصان پہونچا رہے ہیں؟"

اُس نے دل میں سوچا اور کمرے میں  جا بجا پڑی چیزیں اٹھا کر اُنکی جگہ پر رکھنے لگی۔

عالمگیر نے مڑ کر اُسے دیکھا جو کمرا سمیٹ رہی تھی۔ اُس کو غصے میں دیکھتا وہ باہر نکل گیا۔ 

عشنا نے ہے بسی سے اُسے جاتا دیکھا اور کمرہ سمیٹ کر اپنے کمرے میں آ کر بیڈ سے ٹیک لگا کر گھٹنوں میں سر دے کر بیٹھ گئی۔ اُس کی آنکھوں نے آنسوؤں تواتر سے بہنے لگے تھے۔

اُس نے اپنے دل کو تو سمجھا لیا تھا کے عالمگیر کبھی اُسکا نہیں ہو سكتا لیکن اب۔۔۔اُسے سنبل کے لیے تڑپتا دیکھ کر اُس کے دل میں درد  کی لہر دوڑ گئی۔

وہ مسلسل اُسے سوچتے سوچتے وہیں سو گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عالمگیر نجانے کس پہر گھر آیا اور کمرے میں آ کر دروازہ لوک کر لیا۔ لیکن کمرا جیسا وہ چھوڑ کر گیا تھا ویسا بلکل نہیں تھا۔ کمرا پوری طرح صاف ستھرا تھا۔

ہر چیز اپنی جگہ پر موجود تھی۔ وہ چلتا ہوا بیڈ پر آیا اور پیر لٹکا کر ایسے ہی لیٹ گیا اور اپنی جلتی ہوئی آنکھیں بند کر لی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صبح جب وہ کمرے سے باہر آیا تو رحمت بیگم اُس کی طرف بڑھی۔ کہاں چلے گئے تھے رات تم؟ اور  کمرہ کیوں لوک کر رکھا تھا؟ اور کیا حالت بنا رکھی ہے اپنی؟۔۔۔رات مجھے سنبل ملی تھی۔ تمہاری کچھ بات ہوئی۔۔۔"

اُنہوں ایک ساتھ بہت سارے سوال کر ڈالے۔

"امی ۔۔۔تیاری کر لیں۔۔۔ہم اسلام آباد جا رہے ہیں 3 بجے کی ہماری فلائٹ ہے۔ اور رہی بات سنبل کی تو اب اُسکا اور میرا کوئی تعلق نہیں اور اب میں اُسکا نام بھی نہیں سننا چاہتا۔"

اُس نے حتمی انداز میں کہا تو رحمت بیگم پریشان ہی تو ہو گئیں۔

"لیکن عالمگیر آج تو ولیمہ ہے۔۔۔آج کیسے۔۔۔۔؟"

اُنہوں نے اُسے روکنا چاہا۔

ٹھیک ہے آپ رہ جائیں۔۔میں جا رہا ہوں۔۔آپ لوگ بعد میں آ جانا۔"

اُس نے رکنے سے صاف منع کر دیا۔

" کیسی باتیں کر رہے ہو۔۔۔ہم اکیلی کیسے آئینگی۔۔۔عشنا جاؤ تیاری کرو۔۔۔"

کہتے ساتھ ہی انھونے عشنا کو کہا جو صوفے کے پاس فرش پر بیٹھی مسلسل عالمگیر کو دیکھے جا رہی تھی۔ 

رحمت بیگم کے کہتے ہی وہ اٹھی اور کمرے کی طرف بڑھ گئی اور پیکنگ کرنے لگی۔

عالمگیر بھی کمرے میں آ کر اپنا بیگ پیک کرنے لگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"مامو آپ لوگ جب تک رہنا چاہیں رہیں۔ میں  نے یہ بنگلہ دو مہینے کے لیے رینٹ پر لیا تھا۔ سارے ملازم بھی آپکی خدمات کے لیے موجود رہینگے۔"

اُس نے ابراہیم صاحب کو کہا۔ وہ اُنھیں گیٹ پر چھوڑنے آئے تھے۔

"عالمگیر ایسی کیا بات ہے جو تم آج ایک دن نہیں رک سکتے؟ سب کچھ ٹھیک تو ہے نہ بیٹا؟"

اُنہوں اُسے پریشان دیکھ کر پوچھا ۔

"ہاں مامو۔۔سب ٹھیک ہے بس میری غیر موجودگی کی وجہ سے بہت نقصان ہو رہا اس لیے۔"

اُس نے اُنھیں تسلی دیتے ہوئے کہا۔

"تو بیٹا آج رک جاؤ۔۔کل چلے جانا۔ "

اُنہوں نے ایک بار پھر اُسے روکنا چاہا 

"نہیں مامو۔۔۔میں نہیں رک سکتا۔۔۔۔"

کہتا وہ کار میں بیٹھ گیا

عشنا اور رحمت بیگم پہلے ہی ابراہیم صاحب سے مل کر کار میں بیٹھ چکی تھیں۔ عالمگیر کے بیٹھتے ہی ڈرائیور نے کار آگے بڑھا دی۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


حال


عالمگیر کی اُنگلیاں تیز تیز کی بورڈ پر چل رہی تھیں۔ میٹنگ میں کچھ ہی دیر تھی اور اُسے اس آخری میل کا جواب دے کر میٹنگ کے لیے نکلنا تھا ۔

"سر۔۔۔مے ائی کم اِن؟"

نادر نے دروازے پر کھڑے ہو کر کہا۔

"یس۔۔۔۔"

وہ اتنا بزی تھا کہ اُس نے چہرہ اٹھانے کی بھی زحمت نہیں کی۔

"سر وہ ہمیں میٹنگ کے لیے نکلنا ہے۔"

اُس نے مؤدبِ انداز میں کہا۔

"ہاں چلو۔۔۔"

اُس نے کلک کے ساتھ لیپ ٹاپ بند کیا اور اٹھ کر اپنا کوٹ اور کار کیز اٹھاتا نادر کے ساتھ باہر نکل آیا۔

اُسے صبح سے کئی بار عشنا کا خیال آتا رہا تھا لیکن وہ کالج میں ہوگی یہی سوچ کر اُس نے دوبارہ اُسے کال نہیں کی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


میٹنگ ختم ہوئی تو وہ کوٹ کا بٹن بند کرتا اٹھ کھڑا ہوا اور اُن سے مصافحہ کرتا باہر آ گیا۔

وہ سن گلاسز لگاتا کار میں بیٹھ ہی رہا تھا کہ اُس کا سیل فون بجنے لگا۔ 

عشنا کا نمبر دیکھ کر اُسے حیرت کے ساتھ مسرت نے بھی آ گھیرا۔ 

وہ مسکراتے ہوئے سیل آن کر ہی رہا تھا کے پاس سے گزرتا نوجوان اس سے بری طرح ٹکرایا اور نتیجے میں اُس کا موبائل چکنے فرش پر گرا اور اُسکا سکرین ٹوٹ گیا۔ 

عالمگیر نے جلدی سے موبائل اٹھا کر دیکھا تو وہ اپنے نہ اہل ہونے کی گواہی دے رہا تھا۔ وہ افسوس سے موبائل کو دیکھ کر اُس نوجوان کو دیکھنے لگا۔

" مجھے معاف کر دیں۔۔۔سوری۔۔۔غلطی سے۔۔۔دراصل میں جلدی میں تھا۔۔ میری ماں کا ایکسڈنٹ ہو گیا ہے۔۔۔پلیز آئی ایم سوری۔۔۔مجھے جلد سے جلد ہسپتال پہنچنا ہے اس لیے جلدبازی میں آپ سے ٹککر ہو گئی۔ سوری اگین"

وہ عجلت میں معافی مانگتا باہر کی طرف بڑھ گیا۔

عالمگیر نے موبائل کار کی ڈیش بورڈ پر پھینکنے کے انداز میں رکھا اور دوسری میٹنگ  کے لیے نکل گیا ۔ نادر پہلے ہی وہاں کا چکا تھا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عشنا بے دلی سے کالج آئی تھی۔ اُس نے سیل فون اب تک چیک نے کیا تھا جہاں عالمگیر کی لاتعداد مسڈ کالز موجود تھی جو اُس نے رات مُسلسل 2 گھنٹے تک اُسے کیے تھے۔

"آئیے آئیے۔۔۔مس۔۔۔اوہ سوری ۔۔۔میسیز عالمگیر سجّاد۔۔۔۔آئیے۔۔۔۔ خوش آمدید۔۔۔۔خوش آمدید۔۔۔"

شازیہ نے اُسے آخری کلاس لے کر باہر آتے دیکھا تو کرن اور نازیہ کے ساتھ راہ داری میں ہی اُسے جا لیا اور لہیک لہیک  کر بولی۔ اُن لوگو نے آخری کلاس بنک کر دی تھی۔

عشنا اُس کے انداز پر مسکرا دی۔

"ویسے ماننا پڑےگا۔۔۔کیا ہمت والا کام کیا ہے۔۔۔۔۔ اسٹیج پر کھڑے ہو کر اپنے شادی شدہ ہونے کا اعلان جو تم نے سارے کالج کے سامنے کیا ہے نہ۔۔۔اُس کے لیے بھئی داد دینی پڑےگی۔"

نازیہ نے بھی ہاتھ اٹھا اٹھا کر اُس کی تعریف کی۔

"کیا تعریف ہاں۔۔۔کتنی گھنی ہے۔۔ ہمیں بھی نہیں بتایا کے اس کی شادی ہو چکی ہے۔۔ کیسے عالمگیر بھائی کو "پھوپھو کے بیٹے ۔۔" کہتی رہتی تھی "

کرن نے مرچے چبائی۔

"شادی نہیں صرف نکاح ہوا ہے۔ ابھی رخصتی نہیں ہوئی ہے۔"

عشنا نے کرن کی غلط فہمی دور کرنی چاہی۔

"رہنے دو بی بی۔۔ ہم خوب جانتے ہیں۔۔۔۔۔نکاح تو ہو ہی چکا ہے نہ۔۔؟ پھر بتایا کیوں نہیں ہمیں۔۔۔"

کرن نے پھر سے غصّہ دکھایا۔

"اچھا بابا۔۔۔سوری۔۔۔بتاؤ ایسا کیا کروں کے آپ لوگ مان جائیں۔۔۔ اور میری جان بخشی کریں۔۔۔"

اُس نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔

"پہلے تو اپنے نکاح کی پکس ہمیں دکھاؤ اور پھر ایک اچھی سے ٹریٹ ۔۔۔"

شازیہ نے فوراً اپنی مانگ بتائی تو نازیہ اور کرن نے بھی اُس کی تائید کی۔

"پکس تو میرے پاس نہیں ہے۔۔۔ ہاں لیکن آج کا لنچ میں کروا دونگی۔۔آج کا لنچ میری طرف سے جہاں تم چاہو۔۔۔۔"

اُس نے اُنھیں دل کھول کر کھانے کے دعوت دی۔

"جہاں ہم چاہیں؟"

شازیہ آنکھیں گھوما کر پوچھا۔

"ہاں بھئی۔۔۔جہاں تم چاہو۔۔"

عشنا نے حامی بھری۔

"چلو پھر یہاں نہیں تم ہمیں کراچی میں لنچ کرواؤگی۔۔۔وہ بھی کسی 5 اسٹار ہوٹل میں۔۔۔۔"

اُس نے اپنی فرمائش بتائی۔

"لیکن یہ کیسے ممکن ہے۔۔۔۔یہ تو انڈسٹریل وزٹ پر نہیں جا رہی نہ ہمارے ساتھ ۔۔۔"

نازیہ نے اُسے یاد دلایا۔

"اوہ۔۔۔"

اُس نے افسوس سے سر ہلایا۔

"ڈن۔۔۔۔کراچی کے 5 اسٹار ہوٹل میں تمہارا لنچ پکّا۔"

عشنا نے مسکرا کر کہا تو وہ تینوں حیرت سے اُسے دیکھنے لگیں۔

"ابّو نے پرمیشن دے دی ہے۔ اب میں بھی تم لوگو کے ساتھ انڈسٹریل وزٹ پر آ رہی ہوں۔۔"

اُس نے اُنھیں اپنے انڈسٹریل وزٹ پر آنے کا بتایا۔

"واؤ یار۔۔۔۔یہ تو بہت اچھا ہوا ۔۔لیکن انکل مانے کیسے۔۔۔كل تک تو منع کر رہے تھے۔۔۔؟"

کرن نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔

"وہ۔۔۔وہ۔ ۔انہوں نے۔۔۔۔"

عشنا نے اٹک اٹک کر بتانا چاہا۔

"اوہ۔۔۔۔تو عالمگیر بھی نے پرمیشن دلوائی ہے۔۔۔۔"

کرن نے چھیڑنے والے انداز میں کہا تو وہ مسکراتے ہوئے سر جھکا گئی۔

"چلو جی۔۔۔یہ تو ہوئی لنچ کی بات۔۔۔اب پکس دکھاؤ۔۔۔موبائل دو اپنا۔۔۔"

نازیہ نے اُسکا موبائل جھپٹا ۔

عشنا نے فوراً اُس سے موبائل لینا چاہا لیکن کرن اور شازیہ نے اُسے  بازو سے  پکڑ کر روک لیا۔

"اوہ مائی گوڈ عشنا۔۔۔۔اتنے سارے مسڈ کالز؟ 

Is everything okay between you and almageer bhai?

(کیا سب کچھ ٹھیک ہے تمہارے اور عالمگیر بھائی کے درمیان؟)

نازیہ کے پوچھنے پر کرن نے اُسکا بازو چھوڑ دیا اور عشنا موبائل لے کر چیک کرنے لگی۔

عالمگیر کی اتنی ساری مسڈ کالز۔۔۔ اُس نے دل میں سوچتے ہوئے عالمگیر کو کال ملائی لیکن 5 رنگ بجنے کے بعد کال کٹ گئی اور دوبارہ ملانے پر فون بند جانے لگا۔

اُس نے مس کالز کی ٹائمنگ دیکھی تو ساری کال اُس کے اُسے گھر ڈراپ کرنے کے بعد کی تھی۔ اُسے اپنی اُس سے کہیں آخری  بات یاد آئی۔

"میں آپ سے بات نہیں کرونگی۔۔۔۔نہیں کرونگی۔۔۔۔"۔

"عشنا یہ کیا کر دیا۔۔۔کال کیوں نہیں لی۔۔۔۔کتنے پریشان ہوئے ہونگے وہ۔۔۔افف اللہ جی۔۔۔"

وہ دل ہی دل میں خود کو ملامت کرتے اُسے کال ملانے لگی لیکن اُس کا نمبر مسلسل بند جا رہا تھا۔

کرن نازیہ اور شازیہ نے پریشانی سے ایک دوسرے کو دیکھا۔نازیہ اور شازیہ نے اپنے کندھے اچکا کے نہ علمی کا اظہار کیا ۔

"عشنا سب ٹھیک ہے نہ؟"

کرن نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا۔

"ہاں ۔۔ سب ٹھیک ہے۔۔۔میں چلتی ہوں۔۔۔کل ملتے ہیں۔۔۔"

وہ کہتی ہوئی اپنی کتابیں سمیٹتی آگے بڑھ گئی۔

"عشنا رکو ۔۔۔۔ہم لوگ تو آج انڈسٹریل وزٹ کے لیے شاپنگ کرنے جانے والے تھے نہ؟"

 کچھ دن پہلے نازیہ شازیہ اور کرن نے شاپنگ کا پلان بنایا تھا لیکن عشنا نے جانے سے منع کر دیا تھا لیکن اُن لوگو نے اُسے منا ہی لیا تھا کے تم اپنے لیے بھی شاپنگ کر لینا اور ہماری ہیلپ بھی کر دینا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے حامی بھر لی تھی۔ کرن نے اُسے اُسی بات کا حوالہ دیا لیکن وہ بنا کچھ سنے گیٹ پر کھڑی اپنی کار میں آ بیٹھی تو ڈرایور نے کار اسٹارٹ کر کے گھر کی طرف موڑ لی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


2 سال پہلے


اسلام آباد ایئرپورٹ سے باہر نکلتے ہی عالمگیر اُن کے ساتھ پارکنگ کی طرف بڑھا۔ڈرائیور نے آگے آ کر اُن کا سامان کار میں رکھا تو عشنا اور رحمت بیگم کار میں بیٹھ گئیں۔ 

عالمگیر کے اشارے پر ڈرائیور کار اسٹارٹ کرنے لگا تو رحمت بیگم نے عالمگیر کو دیکھا جو باہر ہی کھڑا تھا ۔

"بیٹا آؤ ۔۔وہاں کیوں کھڑے ہو۔۔۔چلو۔۔۔۔"۔

رحمت بیگم نے اُسے باہر کھڑے دیکھ کر پوچھا۔

"آپ لوگ چلیں۔۔۔مجھے آفس کا کچھ کام ہے۔ رات مجھے دیر ہو جائیگی۔۔۔۔آپ لوگ جا کر ریسٹ کریں۔۔۔"

اُس نے  بایاں ہاتھ ذرا اونچا کر کے گھڑی میں وقت دیکھتے کہا اور اپنی کار جو اُس نے ڈرائیور سے منگوا رکھی تھی اُس کی طرف بڑھ گیا۔ کیز وہ پہلے ہی لے چکا تھا۔

کار اسٹارٹ کر کے اُس نے آفس کی طرف موڑ لی۔ وہ خود کو بزی رکھنا چاہتا تھا تا کہ اُن سوچوں سے پیچھا چھڑا سکے۔

عشنا نے اُس کی کار کو نظروں سے اوجھل ہو جانے تک دیکھا۔

"کتنی تکلیف میں ہیں وہ۔۔۔کیا سنبل سے اتنی محبت یہی اُنہیں؟ اُس کے لیے کیا قدر تڑپ رہیں ہیں۔۔۔۔کہ اپنے آپ کو اذّیت دے رہے ہیں۔۔۔"

عشنا نے دل میں سوچا۔

وہ رات 3 بجے تک اپنے کمرے میں ٹہلتی رہی لیکن وہ نہیں آیا تھا۔ 

رحمت بیگم بھی پریشان تھی لیکن اس نے اُنھیں تسلی دے دی تھی کے اُنھیں کام ہوگا۔ آپ آرام کریں،صبح بات کر لیجئے گا۔ لیکن خود کو وہ کوئی تسلی نہ دے سکی ۔ یوں ہی ٹہلتے ٹہلتے صبح کے 5 بج گئے۔ لیکن وہ نہیں آیا۔

عشنا نے جا کر وضو کیا اور نماز کی نیت باندھ لی۔ 

دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو آنسو تواتر سے بہنے لگے۔ اُس نے گڑگڑا کر  اللہ سے عالمگیر کے لیے سکون طلب کی۔

نماز ادا کرنے کے بعد وہ کیچن میں آ گئی اور چائے بنانے لگی۔ اچانک عالمگیر کمرے سے نکل کر پورچ کی طرف بڑھتا نظر آیا۔

"یہ کب آئے۔۔۔۔"۔

وہ منہ میں بڑبڑاتی اُس کے پیچھے پورچ تک آئی۔

"آپ۔۔۔آپ کب آئے۔۔۔"

وہ جو کار میں بیٹھنے ہی جا رہا تھا عشنا کی آواز پر مڑا۔

"ابھی آیا ہو ۔۔۔"

کہہ کر اُس نے عشنا کو دیکھا جو گلابی شلوار کرتے پر گلابی دوپٹہ سر پر جمائے کسی کھلے گلاب کی طرح لگ رہی تھی۔

عالمگیر نے رخ موڈ کر کار میں بیٹھنا چاہا۔

"آپ ابھی تو آئے ہیں۔۔۔اب کہاں جا رہے ہیں۔۔۔ ؟"

عشنا نے اُسے جاتا دیکھ کر پوچھا۔

"مجھے کچھ کام ہے۔۔۔تم دوسری چیزوں کے بجائے اپنی اسٹڈیز پر دھیان دو۔"

اُس نے جتنے والے انداز میں کہا۔

"پھوپھو۔۔۔۔پھوپھو آپ کا پوچھ رہیں تھی۔۔۔۔بہت پریشان تھیں رات۔۔۔۔"

اُس نے اُس کی بات کو نظر انداز کر کے رحمت بیگم کا بتایا 

" میں اُنھیں کال کر لوں گا"

کہتا وہ کار میں بیٹھ کر کار گیٹ سے باہر نکال لیے گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عالمگیر نے اب روز یہی معمول بنا لیا تھا۔ کبھی 12 بجے آتا،کبھی 2 بجے۔۔۔تو کبھی ساری ساری رات آتا ہے نہیں۔۔صبح آ کر فریش ہو کر پھر نکل جاتا ۔

"آج آنے دو اُسے۔۔۔آج میں بات کر کے رہوں گی۔۔۔۔۔کب آتا ہے کب جاتا ہے۔۔۔کسی کو کچھ بتا ہی نہیں۔۔۔"

رحمت بیگم صوفے پر بیٹھیں اُس کا انتظار کر رہیں تھیں عشنا بھی ساتھ تھی۔ وہ اپنی کتابیں کھولے فرش پر صوفے کے پاس بیٹھی تھی۔ کتابیں سینٹر ٹیبل پر پھیلائے وہ ایک نوٹ بک پر تیزی سے قلم چلا رہی تھی۔ شاید کوئی اسایمنٹ  پورا کر رہی تھی۔

 رات کا  1 بج گیا تھا اور اُس کا کچھ پتہ نہیں تھا ۔ رحمت بیگم بار بار اُسے کال کیے جا رہی تھیں لیکن اُسکا نمبر نہیں مل پا رہا تھا۔

"فون بھی بند کر رکھا ہے۔ "

اُنہوں نے پریشانی سے کہا تو عشنا نے ایک نظر اٹھا کر اُنھیں دیکھا جو بے حد پریشان لگ رہی تھیں اور پھر سے نوٹ بک پر قلم چلانے لگی۔

تھوڑی دیر بعد عالمگیر کی کار پورچ میں آ کر رکی اور وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا اپنے کمرے میں جانے لگا جب اُس کی نظر سامنے صوفے پر بیٹھی رحمت بیگم پر پڑی جو اُسے ہی دیکھ رہی تھیں۔ پھر اُس نے صوفے کے پاس بیٹھی عشنا کو دیکھا جو کتابیں پھیلائے یہ تو پڑھ رہیں تھی یہ پھر رحمت بیگم کو کمپنی دے رہی تھی وہ اندازہ نہیں لگا پایا۔

وہ چلتا ہوا رحمت بیگم کے پاس آیا اور فرش پر بیٹھ ار اُنکی گود میں سر رکھ دیا۔ 

عشنا رحمت بیگم کے بائیں طرف جب کہ عالمگیر اُنکی دائیں طرف بیٹھا تھا۔

رحمت بیگم جو اُسے ڈانٹنے کا ارادہ رکھتی تھیں اُس کی اُس طرح اُن کی گود میں سر رکھنے پر آہستہ سے اُس کے بالوں میں اُنگلیاں چلانے لگیں۔

"بہت تھک گیا ہوں امی۔۔۔۔"

اُس نے آنکھیں بند کر کے کہا۔

"تو بیٹا کیوں کرتے ہو اتنا کام؟ بیٹا ہم دو لوگ ہی تو ہیں۔۔ جو بزنس چل  رہا ہے وہ ہم دونوں کے لیے بہت ہے۔۔تم اپنی جان کیوں ہلکان کرتے ہو۔"

اُنہوں نے آہستہ آہستہ اپنے ہاتھ اُس کے بالوں میں چلاتے کہا تو وہ بس ایک نظر اُنھیں دیکھ کر پھر سے آنکھیں موند گیا۔ اب وہ اُنھیں کیا بتاتا کے وہ اپنے اندر پھیلی وحشت کو دور کرنے کے لیے خود کو اس قدر کام میں بیزی رکھتا ہے۔

اُس نے کچھ نہیں کہا بس ایسے ہی بیٹھا رہا۔

"عشنا۔۔۔بیٹا جاؤ۔۔۔عالمگیر کے لیے کھانا لے کر آؤ۔۔۔"

"نہیں۔۔مجھے بھوک نہیں ہے۔۔۔میں سونے جا رہا ہوں۔۔۔"

اُس نے کھانے کے لیے منع کرنا چاہا۔

"بیٹا بھوکے پیٹ نہیں سوتے۔۔۔۔

اللہ اپنے ہر بندے کو بھوکے پیٹ اٹھاتا ضرور ہے لیکن کبھی بھوکے پیٹ سلاتا نہیں۔۔۔وہ تو ہر کسی کی روزی کا انتظام کر دیتا ہے بیٹا چاہئے وہ کتنا ہی غریب کیوں نہ ہو ۔ہمیں تو اللہ کا شکر گزار ہونا چاہیے کے ہم کو اللہ نے اتنا کچھ دیا ہے۔ اس طرح سے بھوکے پیٹ سو کر تم اُس کی دی گئی روزی کی نہ قادری کر رہے ہو۔ بیٹا اللہ اپنے اُن بندوں سے ناراض ہو جاتا ہے جو اُس کی نعمت کی ناقدری کرتے ہیں۔"

رحمت بیگم نے اُسے سمجھاتے ہوئے کہا۔

عشنا کھانا لیے ٹیبل تک آئی اور ایک طرف کھانا رکھ کر ٹیبل پر پڑی کتابیں اٹھا کر صوفے پر رکھی۔

عالمگیر نے ایک نظر عشنا کو دیکھا اور کمرے میں چینج کرنے چلا گیا۔

وہ چینج کر کے آیا تو سفید کرتے شلوار میں نکھرا نکھرا ترو تازہ لگتا تھا۔ آہستہ سے آکر صوفے پر بیٹھ کر ٹرے سرکا کر کھانا کھانے لگا۔رحمت بیگم پیار سے اُسے کھانا کھاتے دیکھ رہی تھیں۔

وہ کھانا کھا چکا تو عشنا ٹرے اٹھا کر کچن میں رکھ آئی۔

عالمگیر پھوپھو کو آرام کرنے کا کہتا اپنے کمرے کی طرف بڑھا۔

"عالم۔۔۔عالمگیر بھائی۔۔۔"۔

عشنا نے اُسے پکارا  تو اُس نے مڑ کر عشنا کو دیکھا۔

"مجھے۔۔۔مجھے یہ چیپٹر سمجھ نہیں آ رہا۔۔۔پلیز آپ ۔۔آپ ایکسپلین کر دیں۔۔۔۔"

اُس نے ڈرتے ڈرتے کہا۔ 

"عشنا میں بہت تھک گیا ہوں ۔۔مجھے نیند آ رہی ہے۔۔۔ رات بہت ہو گئی ہے تم بھی جا کر آرام کرو۔"

وہ کہتا پھر سے قدم اٹھا چکا تھا۔

"پلیز ۔۔۔پلیز سمجھا دیں۔۔۔کل صبح میرا ٹیسٹ ہے۔۔۔۔اگر مجھے یہ سمجھ نہیں آیا تو میں فیل ہو جاؤنگی۔۔۔۔"

عشنا اُس کے سامنے آ کر منّت والے لحظے میں بولی تو عالمگیر نے بیزاری سے اُسے دیکھا۔

"عشنا کل میں تمہارے لیے ٹیوٹر کا انتظام کر دوں گا وہ تمہیں سمجھا دیگا۔"

اُس نے  جان چھڑانے والے انداز میں کہا۔

"لیکن وہ تو کل آئیگا نہ۔۔۔۔اور میرا ٹیسٹ صبح ہی ہے ۔۔۔اور اگر مجھے یہ سمجھ نہیں آیا تو میں پکّا فیل ہو جاؤنگی۔۔۔۔پکّا۔۔۔اور آپ ۔۔۔لوگ سنے گے تو کیا کہیں گے کے دی عالمگیر سجّاد ۔۔۔دی ٹاپ MBA سٹوڈنٹس۔۔۔۔۔ دی بزنس ٹائکون ۔۔۔ کے ہوتے ہوئے اُن کی کزن ایک مارجینل یوٹیلیٹی کے چیپٹر میں فیل ہو گئی؟"

عشنا نے ہاتھ ہلا ہلا کر ایسی اداکار کے ساتھ کہا کے عالمگیر کو اُس کی بات پر ہنسی آ گئی۔ 

وہ مسکراتے ہوئے صوفے پی بیٹھا اور اُس کی کتاب کھول کر مارجینال یوٹیلیٹی کا چیپٹر کھول کر اُسے بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ بھی آ کر صوفے کے پاس فرش پر کُشن گود میں رکھے ایک ہاتھ پر تھوڑی جمائے اُس سے چیپٹر سمجھنے لگی۔

دراصل وہ اُسے کمرے میں جانے سے روکنا چاہتی تھی۔ چیپٹر سمجھنا تو ایک بہانہ تھا۔ وہ آج کل جب بھی رات دیر سے گھر آتا تو سونے کے بجائے ساری ساری رات سگریٹ پیتا رہتا تھا۔ ایک دن عشنا، عالمگیر کے جانے کے بعد اُس کے کمرے میں آئی تو اُسے صوفے کے پاس ٹیبل پر عیش ٹرے نظر آیا جو پورا سگریٹ کے ٹکڑوں سے بھرا پڑا تھا اور پورا کمرا سگریٹ کی خوشبو سے معطر تھا۔ پھر اکثر وہ اُس کے جانے کے بعد اُس کے کمرے میں آتی تو اُسے وہ عیش ٹرے سگریٹ کے ٹکڑوں سے بھری ملتی۔ آج بھی وہ ساری رات یہی شغل جاری رکھتا اگر عشنا اُسے روک نا لیتی۔

"سمجھ آئی؟"

عالمگیر نے پوچھا تو اُس نے اثبات میں سر کو جنبش دی۔

عالمگیر اُسے پڑھاتے پڑھاتے اُنگنے لگا تھا۔

"ٹھیک ہے دیکھ لو۔۔اگر نہیں سمجھ آیا تو بتاؤ، میں پھر سمجھتا ہو۔"

کہہ کر اُس نے صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند لی۔

عشنا نے کتاب کھول کر چیپٹر پر نظر دوڑائی۔

عالمگیر کی بھاری سانسیں پورے لاؤنج میں گونجنے لگی۔ ہی طرف سنناٹوں کا راز تھا ۔ عالمگیر کی بھاری سانسیں اس کی نیند میں ہونے کی گواہی دے رہے تھے۔ عشنا نے دھیرے سے اپنی کتاب بند کی اور نوٹ بک اٹھا کر اسایمنٹ والی نوٹ بک اٹھا کر اُس پر ایک بار پھر قلم چلانے لگی۔اُسے یہ اسیمنیٹ آج ہی پورا کرنا تھا۔ لکھتے لکھتے نجانے کب اُس لیے آنکھ لگ گئی اور وہ صوفے کے پاس فرش پر بیٹھی سینٹر ٹیبل پر سر رکھے ہاتھوں میں قلم فسائے نیند کی وادیوں میں اتر گئی۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح کی روشنی پھیلنے نے ابھی کچھ وقت تھا۔ چاروں طرف سے آتی فجر  کی آزان کی آوازوں نے فضا کو محصور کن بنا دیا تھا۔

عالمگیر کی آنکھ آزان کی آواز سے کھلی۔ اُس نے آنکھوں کی پتلیوں کو انگلیوں سے مسلتے ہوئے ایک انگڑائی لی اور جیسے ہی سیدھا ہوا اُس کی نظر پاس بیٹھ کر سوتی عشنا پر پڑی۔ وہ سینٹر ٹیبل پر سر دیئے،ہاتھوں میں قلم  پکڑے دنیا جہان سے بےخبر سو رہی تھی۔ اُس کا دوپٹہ سر سے سرک گیا تھا لیکن کندھے کے گرد لپٹا ہوا تھا۔اُس کے بال اُسکے رخساروں پر آ کر اُسکا چہرہ ڈھانپ چکے تھے۔عالمگیر اُسے مبحویت سے دیکھے گیا۔

اُس نے آہستہ سے ہاتھ بڑھا کر اُس کے چہرے پر آئے بالوں کو ہٹانا چاہا لیکن ہاتھ اُس کے رخسار کے پاس جاتے ہی اُس نے اُنگلیاں مٹھیوں کی طرح موڈ کر ہاتھ پیچھے کر لیا۔ اور اٹھ کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا اپنے کمرے میں آ کر دروازہ لوک کر لیا۔

اُسے اپنی بے اختیاری پر غصّہ آنے لگا۔ 

" کیسے اُسے ۔۔۔وہ مجھ سے بہت چھوٹی ہے۔۔ابھی اُسکی عمر ہی کیا ہے؟ صرف 17 سال۔۔۔نہیں۔۔۔میں اُس سے۔۔۔"

وہ پریشان بیٹھایا خود سے جنگ کرنے لگا۔

وہ عشنا کے بارے میں کیوں سوچ رہا ہے اُسے خود نہیں پتہ تھا۔ اُس کا سویا ہوا معصوم چہرہ اُس کی آنکھوں میں بس گیا تھا۔ ہر طرف بس وہی دکھائی دے رہی تھی۔

وہ پریشان سا کمرے میں چکر کاٹنے لگا۔ اُس کا بے چین دل جِس بات کی طرف اشارہ دے رہا تھا وہ اُسے ماننے سے انکاری تھا۔

" نہیں۔۔۔۔ایسا نہیں ہو سکتا۔۔۔نہیں۔۔۔"

اُس نے غصے میں بیڈ سے تکیہ اٹھا کر فرش پر پٹک دیا اور خود کو واشروم میں  بند کر کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


"عشنا بیٹا۔۔۔ایسے کیوں سو رہی ہو۔۔۔۔"

رحمت بیگم فجر کی نماز کے بعد لاؤنج میں آئیں تو عشنا کو ایسے سوتا دیکھ کر اُس کے اُس کے چہرے سے بال ہٹاتے ہوئے بولی۔ 

عشنا اُن کے لمس پر کسمسا کر اٹھی اور آنکھیں مسلتے ہوئے اُنھیں دیکھنے لگی۔ ساتھ اُن کے برابر کی جگہ کو بھی دیکھا جہاں عالمگیر بیٹھا سو رہا تھا۔لیکن اب وہ جگہ خالی تھی۔ 

"بس پھوپھو رات اسائمنٹ بناتے پتہ ہی نہیں چلا کب آنکھ لگ گئی۔"

اُس نے کہتے ساتھ اپنی کتابیں سمیٹی اور کمرے کی طرف بڑھ گئی۔

رحمت بیگم نے عالمگیر کے کمرے میں جھانکا تو وہ خالی پڑا تھا ۔ ملازم سے پوچھنے پر پتہ چلا کہ وہ آفس جا چکا ہے۔ 

"ابھی کل رات کہہ رہا تھا تھک گیا ہو، پھر اتنی صبح آفس جانے کی کیا ضرورت تھی؟"

سوچتی ہوئی وہ ڈائننگ ٹیبل تک آ گئیں جہاں ملازم ناشتہ لگا رہے تھے۔ عشنا بھی تیار ہو کر آ گئی اور اُنکے ساتھ ناشتہ کرنے لگی۔ اُسے بھی کالج جانا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عالمگیر کو ایک بے چینی سے آ گھیرا تھا۔ مسلسل عشنا کا وہ سوتا ہوا معصوم چہرہ آنکھوں کے سامنے لہرا جاتا۔ اُس کا دل کہیں بھی نہیں لگ رہا تھا۔ گھٹن تھی کے بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ شام 4 بجے کے قریب وہ اس گھٹن سے بچنے کے خاطر آفس سے نکل آیا ۔

یوں ہی سڑکوں پر یہاں وہاں کار کو چلاتے اُس نے اپنی گھٹن کم کرنی چاہی لیکن اُسے کوئی فرق محسوس نہیں ہوا۔ آخر تھک کر اُس نے اپنی کار ایک جگہ سائڈ میں لگائی اور سر اسٹیرنگ پر رکھ دیا۔ 

اُسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اُس کی یہ بے چینی کم کیسے کرے۔ کچھ سوچتے ہوئے اُس نے کار گھر کی طرف موڑ دی۔ 

رات کے 8 بج رہے تھے جب اُس نے گھر میں قدم رکھا۔ رحمت بیگم صوفے پر بیٹھی کوئی کتاب پڑھ رہی تھیں۔ 

عالمگیر کو دیکھتے ہی انہوں نے کتاب سائڈ میں رکھ دی اور اُس کی طرف بڑھیں۔ عالمگیر چلتا ہوا صوفے پر ڈھہنے  کے انداز میں بیٹھا اور اپنی جلتی ہوئی سرخ آنکھیں  بند کر لی۔

رحمت بیگم کو اُس کی حالت ٹھیک نہیں لگی۔

اُنہوں نے آگے بڑھ کر اُس کے ماتھے پر ہاتھ رکھا تو اُنھیں لگا جیسے جلتے ہوئے توے پے ہاتھ رکھ دیا ہو۔ اُگھبرا کر انہوں نے ہاتھ ہٹایا اور آگے بڑھ کر ڈاکٹر کو فون کرنے لگیں۔ 

عالمگیر ایسے ہی بے حرکت بیٹھا رہا۔ 

تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر آ گیا۔

"عالمگیر ۔۔۔۔اٹھو۔۔۔کمرے میں چلو بیٹا۔۔۔۔۔" 

رحمت بیگم نے اُسے پُکارا تھا

عالمگیر نے اپنی آنکھیں کھول کر اُنھیں دیکھا اور پھر پاس کھڑے ڈاکٹر کو۔

وہ قدرے تھکے تھکے انداز میں کھڑا ہوا اور دھیرے دھیرے چلتا کمرے میں آ گیا۔ ساتھ ہی اُس نے آس پاس دیکھا لیکن وہ دُشمن جان اُسے نظر نہیں آئی۔

وہ دھیرے سے آ کر بیڈ پر بیٹھا اور کوٹ اُتار کر اپنی ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کی تو رحمت بیگم میں آگے بڑھ کر اُس کے کف کے بٹن کھول کر اُس کی آستین اوپر کی تو وہ چپ چاپ لیٹ گیا اور  آنکھیں موند لی۔

ڈاکٹر نے اُس کا ٹمپریچر چیک کیا اور انجکشن لگا کر کچھ دوائیں دی اور ماتھے پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں لگانے کی تاکید کرتا باہر کی طرف بڑھ گیا۔

رحمت بیگم نے دروازے کے پاس جا کر ملازم کو آواز دی اور اُسے ٹھنڈا پانی لانے کو کہا اور ساتھ عشنا کو بھی بلا لانے کو کہا۔

"عشنا اُس وقت کہاں گئی ہے؟"

عالمگیر نے دل میں سوچا۔ اُس نے آنکھیں بند کر رکھی تھی لیکن وہ رحمت بیگم کی بات صاف سن سکتا تھا۔

ملازم ٹھنڈا پانی لے آیا تو رحمت بیگم اُس کے سرہانے بیٹھ کر اُس کے ماتھے پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھنے  لگیں۔

عالمگیر ویسے ہی لیٹا رہا۔ انجکشن کے اثر سے اُسکا بخار کم ہونے لگا۔ اور جب بہت دیر تک اُس نے آنکھیں نہیں کھولیں تو رحمت بیگم باہر آ گئیں۔ ڈرائیور  دوائیں لا کر اُنھیں سے گیا تھا۔


رحمت بیگم نے سوپ بنایا اور اُس کے کمرے کی طرف بڑھنے لگی تو عشنا اُنھیں عجلت میں گھر میں داخل ہوتی نظر آئی۔

"پھوپھو۔۔۔کیا ہوا۔۔۔یہ سوپ۔۔میں نے تو پہلے ہی منع کیا تھا لیکن آپ نے زبردستی مجھے بھیج دیا تھا۔"

رحمت بیگم عالمگیر کے کمرے کے دروازے پر تھیں اور عشنا وہیں کھڑی اُن سے بات کر رہی تھی۔ اندر لیٹا عالمگیر سب سن رہا تھا۔

"بیٹا کچھ نہیں ہوا ہے۔۔۔بس عالمگیر کو بخار ہو گیا ہے اس لیے میں نے یہ سوپ بنا دیا ہے۔ اُسے یہ پلا کر، دوا دے دیتی ہو ٹھیک ہو جائیگا۔ بخار تو کم ہو رہا ہے ۔"

آج پڑوس میں احتشام صاحب کی بیٹی کی برتھڈے تھی اور مسز احتشام خود آئیں تھیں انہیں انوائیٹ کرنے۔ رحمت بیگم نے اپنے بجائے عشنا کو بھیج دیا تھا۔عشنا جانا نہیں چاہتی تھی لیکن اُن کے مجبور کرنے پر چلی گئی تھی۔

عشنا اُنکی بات سن کر بے چینی سے کمرے میں داخل ہوئی رحمت بیگم ملازم کو کچھ ہدایات دینے کے لیے رکھ گئیں تھیں۔ 

عالمگیر کو بیڈ پر آنکھیں موندیں لیٹا دیکھ کر اُس کی آنکھوں سے دو قطرے بہ کر اُس کے رخسار کو بھیگا گئے ۔ اُس نے آنکھیں بند کر لیں۔ عالمگیر کو اس قدر تکلیف میں دیکھنا عشنا کے لیے بہت مشکل تھا۔

وہ چلتی ہوئی اُس کے بیڈ کے پاس آئی اور اپنے ہاتھ اُس کے ماتھے پر رکھنا چاہا لیکن ماتھے پر لے جاتے اُس کے ہاتھ وہی روک کر اُس نے پیچھے کر لیا۔

عالمگیر نے اُس کے کمرے میں ہونے کے احساس کے ساتھ آنکھیں کھولی تو وہ سامنے آنکھیں موندیں کھڑی تھی اور اُس کے گالوں پر بہتے آنسو وہ دیکھ چکا تھا۔ 

عشنا کے آنکھ کھولنے سے پہلے وہ اپنی آنکھیں پھر سے بند کر چکا تھا لیکن جب عشنا اُسکے سرہانے کھڑی اپنے ہاتھ اُس کے ماتھے تک لے جا رہی تھی تو اُس نے آنکھیں کھول دی اور بند نہ کر سکا۔ 

عالمگیر نے عشنا کے ہاتھ جو اُس نے ماتھے تک لے جا کر واپس موڈ لیے تھے وہ بھی دیکھ لیا تھا ۔

عشنا نے اُسے آنکھیں کھولے دیکھا تو آنکھوں سے آنسوؤں صاف کر کے مڑی اور رحمت بیگم جو ابھی کمرے میں آئیں تھی اُن سے سوپ لے کر بیڈ کے پاس  پڑی چیئر پر بیٹھ گئی۔

عالمگیر نے آہستہ سے اٹھ کر بیڈ سے ٹیک لگا لی تو اسنے نے دھیرے سے سوپ کا اسپون اُس کی طرف بڑھایا۔ عالمگیر نے اُسے اپنی نظروں کے حصار میں رکھتے منہ کھول کر سوپ پی لیا ۔

اُس نے سوپ پلا کر بول سائڈ میں رکھا۔

 رحمت بیگم نے دوا نکال کر عالمگیر کی طرف بڑھایا جو عالمگیر نے عشنا کو نظروں میں رکھ کر پانی کے ساتھ نگل لیا۔

عشنا کو دیکھتے ہی عالمگیر کو اپنے سارے دن کی بے چینی دور ہوتی محسوس ہوئی۔ وہ چاہ کر بھی  اپنی نظریں عشنا سے ہٹا نہیں پا رہا تھا۔

عشنا نظریں جھکائے بیٹھی رہی۔ عالمگیر کی نظروں کی تپش اُس نے اپنے چہرے پر محسوس ضرور کی لیکن نظریں اٹھا کر اُس کی سرخ آنکھوں میں دیکھنے کی ہمت نہ کر سکی۔

رحمت بیگم نے ایک بار پھر اُسے لیٹا کر اُس کے سر پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھنی چاہی۔

"امی میں اب ٹھیک ہوں۔۔۔اب آپ آرام کریں۔۔۔۔دیکھیں میرا فیور بھی اُتر گیا ہے۔"

عالمگیر نے اپنے ماتھے پر رکھا انکا ہاتھ پکڑ کر اپنے ہاتھوں میں لے کر کہا تو انھونے نے فکر مندی سے اُسے دیکھا۔

"امی پلیز۔۔۔۔اگر آپ یوں ہی بیٹھی رہیں تو میں تو ٹھیک ہو جاونگا لیکن شاید آپ بیمار پڑ جائیں گی۔ آپ پلیز آرام کریں۔ میں ٹھیک ہوں اب "

عالمگیر نے اُنھیں تسلی دیتے ہوئے کہا۔

"ٹھیک ہے بیٹا اب تم آرام کرو لیکن اگر کوئی بھی ضرورت ہو تو مجھے آواز دے لینا۔ میں یہیں ہوں آج تمہارے پاس۔"

اُنہوں نے کہا ۔

"نہیں امی۔۔۔۔آپ اپنے کمرے میں جا کر ریسٹ کریں۔ میں ٹھیک ہوں۔۔۔پلیز۔۔۔"

اُس نے اُنھیں اُن کے کمرے میں جا کر آرام کرنے کو کہا۔

"لیکن۔۔۔بیٹا۔۔۔"

"امی پلیز۔۔۔ آپ بے سکون رہیں گی تو میں کیسے آرام کر سکوں گا۔"

اُس نے اُنھیں قائل کرنا چاہا۔

"ٹھیک ہے تم آرام کرو۔۔۔اگر کوئی بھی ضرورت ہو تو مجھے بتانا۔ چلو عشنا۔۔۔۔"

رحمت بیگم عالمگیر سے کہتی عشنا کی طرف متوجہ ہوئیں تو عشنا بھی اُن کے ساتھ باہر آ گئی۔

عالمگیر اُن کے جاتے ہی اٹھ کر کھڑکی کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔ 

وہ اپنے آپ کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگا۔ عشنا کو دیکھتے ہی اُس کے بے چین دل کو جیسے قرار مل گیا تھا۔وہ مسکراتے ہوئے بس اُس  ہی سوچا جا رہا تھا ۔

"تو عالمگیر سجّاد کو محبت ہو گئی ہے وہ بھی عشنا ابراہیم سے ۔۔۔"

جیسے کوئی اُس کے اندر سے بولا ہو۔۔۔۔

عالمگیر دل کھول کر مسکرایا ۔

نجانے کتنا وقت بیت گیا وہ یوں ہی کھڑکی پر کھڑا رہا جب اچانک کھٹکے کی آواز پر وہ چلتا ہوا بیڈ تک آیا اور لیٹ کر آنکھیں بند کر لی۔ اُسے لگا رحمت بیگم آئیں ہے لیکن نہیں۔ یہ خوشبو تو عشنا۔۔۔لیکن عشنا اتنی رات میں یہاں۔۔۔

وہ آنکھیں بند کئے سوچنے لگا۔

عشنا چلتی ہوئی اُس کے سرہانے تک آئی اور جھک کر اُس کے سر پر کچھ پھونکنے لگی۔ شاید وہ نماز پڑھ کر آئی تھی اور کوئی قرآنی آیت پڑھ کر اُس پر پھونک رہی تھی۔ وقفے وقفے سے وہ یہ عمل دہراتی رہی۔ جب عالمگیر نے اپنے ہاتھوں پر پانی کی بوند محسوس کی ۔۔۔شاید وہ رو رہی تھی اور اس کے آنسو بہ کر عالمگیر کے ہاتھ اور سینے پر گر رہے تھے۔

عالمگیر ویسے ہی لیٹا رہا۔

عشنا تھوڑی دیر اُس پر پھونکیں مارنے کے بعد آہستہ سے اٹھ کر دروازہ بند کرتی کمرے سے باہر نکل گئی۔

عالمگیر نے اُس کے اٹھتے ہی آنکھیں خول کر اُسے دیکھا جو سفید کرتا شلوار میں سفید دوپٹہ نماز کے سٹائل میں اوڑھے شاید نماز ادا کرنے کے بعد اُس کے پاس آ کر قرآنی آیت پڑھ کر اُس پر پھونکیں مار رہی تھی۔

"تو کیا عشنا بھی مجھ سے۔۔۔۔"

عالمگیر شرشار سا مسکرا دیا 

عشنا کا اُس کے لیے کھانا بنانا،اُس کی تکلیف میں تڑپ جانا، اُس کے لیے آنسو بہانا، اُسکا ہر عمل یہ ظاہر کرتا تھا کے عشنا اُس سے محبت کرتی ہے۔ 

بس عشنا اب اور نہیں۔۔۔میں اب اور اپنی محبت کو تم سے نہیں چھُپا سکتا۔ میں امی سے کہونگا کے مامو سے بات کریں۔۔۔لیکن میں نے ہی تو امی کو عشنا کے لیے منع کیا تھا۔۔۔افف اللہ جی۔۔۔اب۔۔۔اور میں نے کیا کہہ کر منع کیا تھا؟ کہ عشنا ۔۔۔عشنا ابھی  بہت چھوٹی ہے۔۔۔۔ اوہ گوڈ ۔۔۔وہ تو ابھی ۔۔۔وہ تو صرف 17 سال کی ہے۔۔۔افف۔۔۔میں کیا کروں اب۔۔۔۔

مجھے کم سے کم ایک سال تک اُسکا اِنتظار کرنا ہی پڑےگا۔لیکن کیا میں ایک سال تک عشنا سے اپنے دل کی بات چھپا پاونگا؟"

سوچ سوچ کر وہ پریشان ہو رہا تھا۔

"جو بھی ہو۔۔۔میں ایک سال تک اُسے یہ نہیں بتا سکتا ۔"

اُس نے سوچتے ہوئے آخر فیصلہ کر  ہی لیا اور بیڈ پر لیٹ کر آنکھیں موند کر سونے کی کوشش کرنے لگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عشنا رحمت بیگم کے ساتھ عالمگیر کے کمرے سے نکل کر اپنے کمرے میں آ کر وضو کرنے کے بعد نماز کے لیے کھڑی ہو گئی۔ نماز پڑھنے کے بعد وہ کافی دیر تک آنسوؤں کے درمیان اللہ سے رو رو کر اُس کی صحت کے لیے دعا کرتی رہی تھی۔ اور پھر اٹھ کر عالمگیر کے کمرے میں آئی تو دیکھا عالمگیر بیڈ پر سویا ہوا تھا۔ وہ آہستہ سے چلتی اُس کے سرہانے تک آئی اور قرآنی آیات پڑھ پڑھ کر اُس پر پھونکنے لگی۔ایسا کرتے ہوئے بھی اُس کے آنسو روا دواں تھے۔

عالمگیر کو بخار میں دیکھ کر وہ تڑپ اٹھی تھی۔ 

"سنبل کا اتنا غم ہے آپ کو کہ آپ نے خود کو اس قدر بیمار کر لیا ہے؟"

وہ دل میں سوچتی ہوئی آہستہ سے اٹھی اور کمرے کا دروازہ بند کرتی اپنے کمرے میں آ گئی۔ ساری رات وہ بےچینی سے یہاں وہاں ٹہلتی رہی تھی۔ نیند اُس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح کی روشنی پھیلنے نے ابھی کچھ وقت تھا۔ چاروں طرف سے آتی فجر  کی آزان کی آوازوں نے فضا کو محصور کن بنا دیا تھا۔

عالمگیر کی آنکھ آزان کی آواز سے کھلی۔ اُس نے آنکھوں کی پتلیوں کو انگلیوں سے مسلتے ہوئے ایک انگڑائی لی اور جیسے ہی سیدھا ہوا اُس کی نظر پاس بیٹھ کر سوتی عشنا پر پڑی۔ وہ سینٹر ٹیبل پر سر دیئے،ہاتھوں میں قلم  پکڑے دنیا جہان سے بےخبر سو رہی تھی۔ اُس کا دوپٹہ سر سے سرک گیا تھا لیکن کندھے کے گرد لپٹا ہوا تھا۔اُس کے بال اُسکے رخساروں پر آ کر اُسکا چہرہ ڈھانپ چکے تھے۔عالمگیر اُسے مبحویت سے دیکھے گیا۔

اُس نے آہستہ سے ہاتھ بڑھا کر اُس کے چہرے پر آئے بالوں کو ہٹانا چاہا لیکن ہاتھ اُس کے رخسار کے پاس جاتے ہی اُس نے اُنگلیاں مٹھیوں کی طرح موڈ کر ہاتھ پیچھے کر لیا۔ اور اٹھ کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا اپنے کمرے میں آ کر دروازہ لوک کر لیا۔

اُسے اپنی بے اختیاری پر غصّہ آنے لگا۔ 

" کیسے اُسے ۔۔۔وہ مجھ سے بہت چھوٹی ہے۔۔ابھی اُسکی عمر ہی کیا ہے؟ صرف 17 سال۔۔۔نہیں۔۔۔میں اُس سے۔۔۔"

وہ پریشان بیٹھایا خود سے جنگ کرنے لگا۔

وہ عشنا کے بارے میں کیوں سوچ رہا ہے اُسے خود نہیں پتہ تھا۔ اُس کا سویا ہوا معصوم چہرہ اُس کی آنکھوں میں بس گیا تھا۔ ہر طرف بس وہی دکھائی دے رہی تھی۔

وہ پریشان سا کمرے میں چکر کاٹنے لگا۔ اُس کا بے چین دل جِس بات کی طرف اشارہ دے رہا تھا وہ اُسے ماننے سے انکاری تھا۔

" نہیں۔۔۔۔ایسا نہیں ہو سکتا۔۔۔نہیں۔۔۔"

اُس نے غصے میں بیڈ سے تکیہ اٹھا کر فرش پر پٹک دیا اور خود کو واشروم میں  بند کر کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


"عشنا بیٹا۔۔۔ایسے کیوں سو رہی ہو۔۔۔۔"

رحمت بیگم فجر کی نماز کے بعد لاؤنج میں آئیں تو عشنا کو ایسے سوتا دیکھ کر اُس کے اُس کے چہرے سے بال ہٹاتے ہوئے بولی۔ 

عشنا اُن کے لمس پر کسمسا کر اٹھی اور آنکھیں مسلتے ہوئے اُنھیں دیکھنے لگی۔ ساتھ اُن کے برابر کی جگہ کو بھی دیکھا جہاں عالمگیر بیٹھا سو رہا تھا۔لیکن اب وہ جگہ خالی تھی۔ 

"بس پھوپھو رات اسائمنٹ بناتے پتہ ہی نہیں چلا کب آنکھ لگ گئی۔"

اُس نے کہتے ساتھ اپنی کتابیں سمیٹی اور کمرے کی طرف بڑھ گئی۔

رحمت بیگم نے عالمگیر کے کمرے میں جھانکا تو وہ خالی پڑا تھا ۔ ملازم سے پوچھنے پر پتہ چلا کہ وہ آفس جا چکا ہے۔ 

"ابھی کل رات کہہ رہا تھا تھک گیا ہو، پھر اتنی صبح آفس جانے کی کیا ضرورت تھی؟"

سوچتی ہوئی وہ ڈائننگ ٹیبل تک آ گئیں جہاں ملازم ناشتہ لگا رہے تھے۔ عشنا بھی تیار ہو کر آ گئی اور اُنکے ساتھ ناشتہ کرنے لگی۔ اُسے بھی کالج جانا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عالمگیر کو ایک بے چینی سے آ گھیرا تھا۔ مسلسل عشنا کا وہ سوتا ہوا معصوم چہرہ آنکھوں کے سامنے لہرا جاتا۔ اُس کا دل کہیں بھی نہیں لگ رہا تھا۔ گھٹن تھی کے بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ شام 4 بجے کے قریب وہ اس گھٹن سے بچنے کے خاطر آفس سے نکل آیا ۔

یوں ہی سڑکوں پر یہاں وہاں کار کو چلاتے اُس نے اپنی گھٹن کم کرنی چاہی لیکن اُسے کوئی فرق محسوس نہیں ہوا۔ آخر تھک کر اُس نے اپنی کار ایک جگہ سائڈ میں لگائی اور سر اسٹیرنگ پر رکھ دیا۔ 

اُسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اُس کی یہ بے چینی کم کیسے کرے۔ کچھ سوچتے ہوئے اُس نے کار گھر کی طرف موڑ دی۔ 

رات کے 8 بج رہے تھے جب اُس نے گھر میں قدم رکھا۔ رحمت بیگم صوفے پر بیٹھی کوئی کتاب پڑھ رہی تھیں۔ 

عالمگیر کو دیکھتے ہی انہوں نے کتاب سائڈ میں رکھ دی اور اُس کی طرف بڑھیں۔ عالمگیر چلتا ہوا صوفے پر ڈھہنے  کے انداز میں بیٹھا اور اپنی جلتی ہوئی سرخ آنکھیں  بند کر لی۔

رحمت بیگم کو اُس کی حالت ٹھیک نہیں لگی۔

اُنہوں نے آگے بڑھ کر اُس کے ماتھے پر ہاتھ رکھا تو اُنھیں لگا جیسے جلتے ہوئے توے پے ہاتھ رکھ دیا ہو۔ اُگھبرا کر انہوں نے ہاتھ ہٹایا اور آگے بڑھ کر ڈاکٹر کو فون کرنے لگیں۔ 

عالمگیر ایسے ہی بے حرکت بیٹھا رہا۔ 

تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر آ گیا۔

"عالمگیر ۔۔۔۔اٹھو۔۔۔کمرے میں چلو بیٹا۔۔۔۔۔" 

رحمت بیگم نے اُسے پُکارا تھا

عالمگیر نے اپنی آنکھیں کھول کر اُنھیں دیکھا اور پھر پاس کھڑے ڈاکٹر کو۔

وہ قدرے تھکے تھکے انداز میں کھڑا ہوا اور دھیرے دھیرے چلتا کمرے میں آ گیا۔ ساتھ ہی اُس نے آس پاس دیکھا لیکن وہ دُشمن جان اُسے نظر نہیں آئی۔

وہ دھیرے سے آ کر بیڈ پر بیٹھا اور کوٹ اُتار کر اپنی ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کی تو رحمت بیگم میں آگے بڑھ کر اُس کے کف کے بٹن کھول کر اُس کی آستین اوپر کی تو وہ چپ چاپ لیٹ گیا اور  آنکھیں موند لی۔

ڈاکٹر نے اُس کا ٹمپریچر چیک کیا اور انجکشن لگا کر کچھ دوائیں دی اور ماتھے پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں لگانے کی تاکید کرتا باہر کی طرف بڑھ گیا۔

رحمت بیگم نے دروازے کے پاس جا کر ملازم کو آواز دی اور اُسے ٹھنڈا پانی لانے کو کہا اور ساتھ عشنا کو بھی بلا لانے کو کہا۔

"عشنا اُس وقت کہاں گئی ہے؟"

عالمگیر نے دل میں سوچا۔ اُس نے آنکھیں بند کر رکھی تھی لیکن وہ رحمت بیگم کی بات صاف سن سکتا تھا۔

ملازم ٹھنڈا پانی لے آیا تو رحمت بیگم اُس کے سرہانے بیٹھ کر اُس کے ماتھے پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھنے  لگیں۔

عالمگیر ویسے ہی لیٹا رہا۔ انجکشن کے اثر سے اُسکا بخار کم ہونے لگا۔ اور جب بہت دیر تک اُس نے آنکھیں نہیں کھولیں تو رحمت بیگم باہر آ گئیں۔ ڈرائیور  دوائیں لا کر اُنھیں سے گیا تھا۔


رحمت بیگم نے سوپ بنایا اور اُس کے کمرے کی طرف بڑھنے لگی تو عشنا اُنھیں عجلت میں گھر میں داخل ہوتی نظر آئی۔

"پھوپھو۔۔۔کیا ہوا۔۔۔یہ سوپ۔۔میں نے تو پہلے ہی منع کیا تھا لیکن آپ نے زبردستی مجھے بھیج دیا تھا۔"

رحمت بیگم عالمگیر کے کمرے کے دروازے پر تھیں اور عشنا وہیں کھڑی اُن سے بات کر رہی تھی۔ اندر لیٹا عالمگیر سب سن رہا تھا۔

"بیٹا کچھ نہیں ہوا ہے۔۔۔بس عالمگیر کو بخار ہو گیا ہے اس لیے میں نے یہ سوپ بنا دیا ہے۔ اُسے یہ پلا کر، دوا دے دیتی ہو ٹھیک ہو جائیگا۔ بخار تو کم ہو رہا ہے ۔"

آج پڑوس میں احتشام صاحب کی بیٹی کی برتھڈے تھی اور مسز احتشام خود آئیں تھیں انہیں انوائیٹ کرنے۔ رحمت بیگم نے اپنے بجائے عشنا کو بھیج دیا تھا۔عشنا جانا نہیں چاہتی تھی لیکن اُن کے مجبور کرنے پر چلی گئی تھی۔

عشنا اُنکی بات سن کر بے چینی سے کمرے میں داخل ہوئی رحمت بیگم ملازم کو کچھ ہدایات دینے کے لیے رکھ گئیں تھیں۔ 

عالمگیر کو بیڈ پر آنکھیں موندیں لیٹا دیکھ کر اُس کی آنکھوں سے دو قطرے بہ کر اُس کے رخسار کو بھیگا گئے ۔ اُس نے آنکھیں بند کر لیں۔ عالمگیر کو اس قدر تکلیف میں دیکھنا عشنا کے لیے بہت مشکل تھا۔

وہ چلتی ہوئی اُس کے بیڈ کے پاس آئی اور اپنے ہاتھ اُس کے ماتھے پر رکھنا چاہا لیکن ماتھے پر لے جاتے اُس کے ہاتھ وہی روک کر اُس نے پیچھے کر لیا۔

عالمگیر نے اُس کے کمرے میں ہونے کے احساس کے ساتھ آنکھیں کھولی تو وہ سامنے آنکھیں موندیں کھڑی تھی اور اُس کے گالوں پر بہتے آنسو وہ دیکھ چکا تھا۔ 

عشنا کے آنکھ کھولنے سے پہلے وہ اپنی آنکھیں پھر سے بند کر چکا تھا لیکن جب عشنا اُسکے سرہانے کھڑی اپنے ہاتھ اُس کے ماتھے تک لے جا رہی تھی تو اُس نے آنکھیں کھول دی اور بند نہ کر سکا۔ 

عالمگیر نے عشنا کے ہاتھ جو اُس نے ماتھے تک لے جا کر واپس موڈ لیے تھے وہ بھی دیکھ لیا تھا ۔

عشنا نے اُسے آنکھیں کھولے دیکھا تو آنکھوں سے آنسوؤں صاف کر کے مڑی اور رحمت بیگم جو ابھی کمرے میں آئیں تھی اُن سے سوپ لے کر بیڈ کے پاس  پڑی چیئر پر بیٹھ گئی۔

عالمگیر نے آہستہ سے اٹھ کر بیڈ سے ٹیک لگا لی تو اسنے نے دھیرے سے سوپ کا اسپون اُس کی طرف بڑھایا۔ عالمگیر نے اُسے اپنی نظروں کے حصار میں رکھتے منہ کھول کر سوپ پی لیا ۔

اُس نے سوپ پلا کر بول سائڈ میں رکھا۔

 رحمت بیگم نے دوا نکال کر عالمگیر کی طرف بڑھایا جو عالمگیر نے عشنا کو نظروں میں رکھ کر پانی کے ساتھ نگل لیا۔

عشنا کو دیکھتے ہی عالمگیر کو اپنے سارے دن کی بے چینی دور ہوتی محسوس ہوئی۔ وہ چاہ کر بھی  اپنی نظریں عشنا سے ہٹا نہیں پا رہا تھا۔

عشنا نظریں جھکائے بیٹھی رہی۔ عالمگیر کی نظروں کی تپش اُس نے اپنے چہرے پر محسوس ضرور کی لیکن نظریں اٹھا کر اُس کی سرخ آنکھوں میں دیکھنے کی ہمت نہ کر سکی۔

رحمت بیگم نے ایک بار پھر اُسے لیٹا کر اُس کے سر پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھنی چاہی۔

"امی میں اب ٹھیک ہوں۔۔۔اب آپ آرام کریں۔۔۔۔دیکھیں میرا فیور بھی اُتر گیا ہے۔"

عالمگیر نے اپنے ماتھے پر رکھا انکا ہاتھ پکڑ کر اپنے ہاتھوں میں لے کر کہا تو انھونے نے فکر مندی سے اُسے دیکھا۔

"امی پلیز۔۔۔۔اگر آپ یوں ہی بیٹھی رہیں تو میں تو ٹھیک ہو جاونگا لیکن شاید آپ بیمار پڑ جائیں گی۔ آپ پلیز آرام کریں۔ میں ٹھیک ہوں اب "

عالمگیر نے اُنھیں تسلی دیتے ہوئے کہا۔

"ٹھیک ہے بیٹا اب تم آرام کرو لیکن اگر کوئی بھی ضرورت ہو تو مجھے آواز دے لینا۔ میں یہیں ہوں آج تمہارے پاس۔"

اُنہوں نے کہا ۔

"نہیں امی۔۔۔۔آپ اپنے کمرے میں جا کر ریسٹ کریں۔ میں ٹھیک ہوں۔۔۔پلیز۔۔۔"

اُس نے اُنھیں اُن کے کمرے میں جا کر آرام کرنے کو کہا۔

"لیکن۔۔۔بیٹا۔۔۔"

"امی پلیز۔۔۔ آپ بے سکون رہیں گی تو میں کیسے آرام کر سکوں گا۔"

اُس نے اُنھیں قائل کرنا چاہا۔

"ٹھیک ہے تم آرام کرو۔۔۔اگر کوئی بھی ضرورت ہو تو مجھے بتانا۔ چلو عشنا۔۔۔۔"

رحمت بیگم عالمگیر سے کہتی عشنا کی طرف متوجہ ہوئیں تو عشنا بھی اُن کے ساتھ باہر آ گئی۔

عالمگیر اُن کے جاتے ہی اٹھ کر کھڑکی کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔ 

وہ اپنے آپ کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگا۔ عشنا کو دیکھتے ہی اُس کے بے چین دل کو جیسے قرار مل گیا تھا۔وہ مسکراتے ہوئے بس اُس  ہی سوچا جا رہا تھا ۔

"تو عالمگیر سجّاد کو محبت ہو گئی ہے وہ بھی عشنا ابراہیم سے ۔۔۔"

جیسے کوئی اُس کے اندر سے بولا ہو۔۔۔۔

عالمگیر دل کھول کر مسکرایا ۔

نجانے کتنا وقت بیت گیا وہ یوں ہی کھڑکی پر کھڑا رہا جب اچانک کھٹکے کی آواز پر وہ چلتا ہوا بیڈ تک آیا اور لیٹ کر آنکھیں بند کر لی۔ اُسے لگا رحمت بیگم آئیں ہے لیکن نہیں۔ یہ خوشبو تو عشنا۔۔۔لیکن عشنا اتنی رات میں یہاں۔۔۔

وہ آنکھیں بند کئے سوچنے لگا۔

عشنا چلتی ہوئی اُس کے سرہانے تک آئی اور جھک کر اُس کے سر پر کچھ پھونکنے لگی۔ شاید وہ نماز پڑھ کر آئی تھی اور کوئی قرآنی آیت پڑھ کر اُس پر پھونک رہی تھی۔ وقفے وقفے سے وہ یہ عمل دہراتی رہی۔ جب عالمگیر نے اپنے ہاتھوں پر پانی کی بوند محسوس کی ۔۔۔شاید وہ رو رہی تھی اور اس کے آنسو بہ کر عالمگیر کے ہاتھ اور سینے پر گر رہے تھے۔

عالمگیر ویسے ہی لیٹا رہا۔

عشنا تھوڑی دیر اُس پر پھونکیں مارنے کے بعد آہستہ سے اٹھ کر دروازہ بند کرتی کمرے سے باہر نکل گئی۔

عالمگیر نے اُس کے اٹھتے ہی آنکھیں خول کر اُسے دیکھا جو سفید کرتا شلوار میں سفید دوپٹہ نماز کے سٹائل میں اوڑھے شاید نماز ادا کرنے کے بعد اُس کے پاس آ کر قرآنی آیت پڑھ کر اُس پر پھونکیں مار رہی تھی۔

"تو کیا عشنا بھی مجھ سے۔۔۔۔"

عالمگیر شرشار سا مسکرا دیا 

عشنا کا اُس کے لیے کھانا بنانا،اُس کی تکلیف میں تڑپ جانا، اُس کے لیے آنسو بہانا، اُسکا ہر عمل یہ ظاہر کرتا تھا کے عشنا اُس سے محبت کرتی ہے۔ 

بس عشنا اب اور نہیں۔۔۔میں اب اور اپنی محبت کو تم سے نہیں چھُپا سکتا۔ میں امی سے کہونگا کے مامو سے بات کریں۔۔۔لیکن میں نے ہی تو امی کو عشنا کے لیے منع کیا تھا۔۔۔افف اللہ جی۔۔۔اب۔۔۔اور میں نے کیا کہہ کر منع کیا تھا؟ کہ عشنا ۔۔۔عشنا ابھی  بہت چھوٹی ہے۔۔۔۔ اوہ گوڈ ۔۔۔وہ تو ابھی ۔۔۔وہ تو صرف 17 سال کی ہے۔۔۔افف۔۔۔میں کیا کروں اب۔۔۔۔

مجھے کم سے کم ایک سال تک اُسکا اِنتظار کرنا ہی پڑےگا۔لیکن کیا میں ایک سال تک عشنا سے اپنے دل کی بات چھپا پاونگا؟"

سوچ سوچ کر وہ پریشان ہو رہا تھا۔

"جو بھی ہو۔۔۔میں ایک سال تک اُسے یہ نہیں بتا سکتا ۔"

اُس نے سوچتے ہوئے آخر فیصلہ کر  ہی لیا اور بیڈ پر لیٹ کر آنکھیں موند کر سونے کی کوشش کرنے لگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عشنا رحمت بیگم کے ساتھ عالمگیر کے کمرے سے نکل کر اپنے کمرے میں آ کر وضو کرنے کے بعد نماز کے لیے کھڑی ہو گئی۔ نماز پڑھنے کے بعد وہ کافی دیر تک آنسوؤں کے درمیان اللہ سے رو رو کر اُس کی صحت کے لیے دعا کرتی رہی تھی۔ اور پھر اٹھ کر عالمگیر کے کمرے میں آئی تو دیکھا عالمگیر بیڈ پر سویا ہوا تھا۔ وہ آہستہ سے چلتی اُس کے سرہانے تک آئی اور قرآنی آیات پڑھ پڑھ کر اُس پر پھونکنے لگی۔ایسا کرتے ہوئے بھی اُس کے آنسو روا دواں تھے۔

عالمگیر کو بخار میں دیکھ کر وہ تڑپ اٹھی تھی۔ 

"سنبل کا اتنا غم ہے آپ کو کہ آپ نے خود کو اس قدر بیمار کر لیا ہے؟"

وہ دل میں سوچتی ہوئی آہستہ سے اٹھی اور کمرے کا دروازہ بند کرتی اپنے کمرے میں آ گئی۔ ساری رات وہ بےچینی سے یہاں وہاں ٹہلتی رہی تھی۔ نیند اُس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔


۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

2 سال پہلے


آج کی صبح کافی اُجلی اُجلی اور اور زندگی سے بھر پور تھی یا شاید عالمگیر کو ایسا لگ رہا تھا۔

وہ ہشاش بشاش سا نکھرا نکھرا ترو تازہ سا وائٹ شرٹ پر بلیو کوٹ پینٹ، بلیو ٹائی لگائے،بالوں کو جیل لگا کر ایک سائڈ کیے، ہاتھوں میں قیمتی گھڑی پہنے خوشبوؤں میں نہایا مسکراتے ہوئے ڈائننگ ٹیبل تک آیا جہاں ایک طرف سربراہی کرسی پر رحمت بیگم بیٹھی تھیں تو اُن کے دائیں جانب عشنا سر جھکائے ناشتہ کر رہی تھی۔

وہ چلتا ہوا ڈائننگ ہال میں آیا تو رحمت بیگم نے نظروں ہی نظروں میں اس کی بلائیں لی۔ آج لگ بھی تو کتنا خوبصورت رہا تھا یا شاید اُس کے دل کے اندر کی خوشی اُس کے چہرے سے عیاں ہو رہی تھی ۔

"السلام علیکم۔۔۔۔"

اُس نے رحمت بیگم کے آگے جھک کر سلام کیا اُنہوں نے بھی اُس کا ماتھا چوم کر بڑے پیار سے اُس کے سلام کا جواب دیا۔

"وعلیکم اسلام۔۔۔ماشاء اللہ۔۔۔بیٹا طبیعت کیسی ہے؟"

اُس کے چہرے پر کہیں بھی کل رات کے بخار کا شائبہ تک نہیں تھا لیکن وہ ماں تھیں نہ۔۔۔اُنھیں کیسے چین ملتا۔

"کیسا لگا رہا ہوں آپکو؟"

اُس نے مسکرا کر اُن سے پوچھا اور ساتھ ہی چیئر گھسیٹ کر اُنکے بائیں جانب بیٹھ گیا۔

"ٹھیک تو لگ رہے ہو لیکن بیٹا۔۔۔اگر آج ریسٹ کر لیتے تو اچھا ہوتا۔۔۔کہیں پھر سے ۔۔۔۔"

اُنہوں نے فکر مندی سے کہا۔

"امی۔۔۔میری ایک ضروری میٹنگ ہے۔۔ورنہ ضرور رک جاتا۔۔۔۔"

اُس نے اپنے نہ رکنے کا جواز بتایا۔

"ٹھیک ہے بیٹا ۔۔لیکن آج زیادہ کام کر کے خود کو تھکانا نہیں۔۔۔۔"

اُنہوں نے تاکید کی۔

"اوکے امی۔۔۔۔"

اُس نے مسکرا کر کہا تو رحمت بیگم اپنی پلیٹ پر جھک گئیں اور ملازم آگے بڑھ کر عالمگیر کو ناشتہ سرو کرنے لگے۔

"عشنا۔۔۔بھئی سلام کا جواب تم پر بھی واجب ہے ۔۔"

اُس نے مسکرا کر عشنا کو اپنی نظروں کے حصار نے رکھتے ہوئے کہا۔

"والے۔۔۔وعلیکم السلام۔۔۔۔"

اُس نے ایک نظر اٹھا کر عالمگیر کو دیکھا جو مسکراتی نظروں سے اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔

عشنا اُس کی نظروں سے کنفیوژ ہو کر چہرہ پلیٹ پر جھکا گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


"چلو عشنا۔۔۔۔۔آج میں تمہیں ڈراپ کر دیتا ہوں۔۔۔۔"

عشنا جو کتابیں سنبھالتی پورچ  میں کھڑی اپنی کار جو عالمگیر نے اُس کے لیے مقرر کر رکھی تھی اُس تک آئی لیکن پیچھے سے عالمگیر کے پکارنے پر مڑ کر دیکھا جو اب بھی مسکراہٹ چہرے پر سجائے اُسے اپنی نظروں کے حصار میں لیے محبت سے دیکھے جا رہا تھا۔

"وہ۔۔۔میں۔۔۔میں ڈرائیور کے ساتھ ۔۔۔"

اُس نے منع کرنا چاہا۔

"میں کار میں تمہارا اِنتظار کر رہا ہوں۔۔۔جلدی آؤ۔۔۔"

کہتا وہ آنکھوں پر سن گلاسز لگاتا اپنی کار کی طرف بڑھ گیا تو ناچار عشنا کو بھی عالمگیر کے پیچھے آنا پڑا۔

وہ چلتی ہوئی اُس کی کار تک آئی اور فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھول کر اُس کے برابر میں بیٹھ گئی۔

عالمگیر نے مسکرا کر اُسے دیکھا اور کار اسٹارٹ کر کے گیٹ سے باہر نکال لایا۔

" تمہارا کالج کب آف ہوتا ہے؟"

عالمگیر نے ونڈسکرین کے پار دیکھتے اُس سے پوچھا۔

"12.30 تک۔۔۔۔"

 عشنا نے نظریں جھکائے آہستہ سے کہا۔

"ٹھیک ہے۔۔۔میں تمہیں لینے آ جاؤنگا۔۔۔آج ساتھ لنچ کریں۔۔؟

اُس نے بتانے کے ساتھ اُس سے لنچ کا پوچھا۔

"نہیں۔۔۔وہ۔۔۔میں۔۔۔"

"وہ گڑبڑا کر بولی۔

"کیوں۔۔۔کیا تم میرے ساتھ لنچ نہیں کر سکتی؟"

عالمگیر نے حیرت سے پوچھا۔

"نہیں۔۔۔وہ بات۔۔۔نہیں ہے۔۔۔آپ کا بخار ابھی ابھی ٹھیک ہوا ہے۔۔۔۔آپ کو باہر کے کھانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔۔۔۔آپ ابھی ٹھیک نہیں ہوئے ہیں ۔۔۔"

اُس نے آہستہ آواز میں رک رک کر بات پوری کی۔

"میں ٹھیک ہوں یار۔۔کیوں ؟تمہیں ٹھیک نہیں لگ رہا؟"

اُس نے چہرہ گھوما کر اُسے دیکھتے ہوئے سوال کیا اور دوبارہ سے ونڈسکرین کے باہر دیکھنے لگا۔

عشنا نے نظریں اٹھا کر بغور عالمگیر کو دیکھا جو ایک نظر اُسے دیکھنے کے بعد ونڈسکرین کو دیکھتے ہوئے کار چلا رہا تھا۔

"اب آپ کو کیسے بتاؤ کے آپ روز سے زیادہ ٹھیک لگ رہے ہیں"

اُس نے دل میں سوچا۔

"ہاں۔۔ٹھیک لگ رہے۔۔۔لیکن ۔۔۔لیکن ابھی آپ باہر کا کھانا نہ کھائیں۔۔۔"

اُس نے پھر سے اُسے باہر کے کھانے سے بعض رکھنا چاہا۔

"اوکے۔۔۔اگر تم میرے ساتھ لنچ نہیں کرنا چاہتیں تو کوئی بات نہیں۔۔۔"

عالمگیر نے کہنے کے ساتھ ہی کار روکی تو عشنا نے پریشان ہو کر اُسے دیکھا جس کے چہرے سے مسکراہٹ کم ضرور ہو گئی تھی لیکن پوری طرح معدوم نہیں ہوئی تھی۔

"میں  تمہیں لینے آؤنگا۔۔۔۔میرا انتظار کرنا۔۔۔۔"

عالمگیر نے مان بھرے انداز میں کہا تو عشنا سر اثبات میں ہلاتی کار سے نکل گئی کیونکہ اُن کی کار کالج گیٹ کے پاس کھڑی تھی۔ 

عشنا کے اتر کر کالج گیٹ کے اندر جانے تک عالمگیر اُسے دیکھتا رہا اور جب وہ نظروں سے اوجھل ہو گئی تو کار کو آفس کے راستے پر  ڈال دی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


"اوکے۔۔۔اگر تم میرے ساتھ لنچ نہیں کرنا چاہتیں تو کوئی بات نہیں۔۔۔"

سارا وقت عشنا بس عالمگیر کی اسی بات کو سوچتی رہی تھی۔ آج وہ اُسے بدلہ بدلہ لگ رہا تھا۔ 

اُسے دو سال ہو گئے تھے یہاں اُن لوگو کے ساتھ رہتے لیکن کبھی عالمگیر نے اُسے کالج ڈراپ یا پک نہیں کیا تھا۔لیکن آج ۔۔۔

عشنا گیٹ کے پاس کھڑی عالمگیر کا انتظار کر رہی تھی۔ اور مسلسل وہ عالمگیر کو،اُسکے بدلے رویّے کو سوچے جا رہی تھی۔

عالمگیر نے کار گیٹ کے پاس روکی تو عشنا جو اُس کی کار کو دور سے آتا دیکھ چکی تھی کار کے پاس آ کر فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھول کر بیٹھ گئی۔

"السلام علیکم۔۔۔"

عالمگیر نے صبح والی مسکراہٹ کے ساتھ اُسے سلام کیا۔

"وعلیکم اسلام۔۔۔"۔

عشنا نے آہستہ سے جواب دیا

"ہر بار وہ ہی سلام میں پہیل کر دیتے ہیں۔۔۔مجھے کیا ہو جاتا ہے۔۔۔میں کیوں نہیں کر پاتی۔۔۔"

وہ دل ہی دل میں خود کو ملامت کرنے لگی ۔

عالمگیر نے اُس کے سلام کے جواب میں مسکرا کر اُسے دیکھا اور کار اسٹارٹ کر دی۔

"ہم۔۔۔ہم کہاں جا رہے ہیں۔۔۔۔"۔

عشنا نے اُس کے کار اسٹارٹ کرتے ہی پوچھا۔

"گھبراؤ نہیں ۔۔کہیں نہیں لے جا رہا تمہیں ۔۔۔۔۔گھر ڈراپ کر کے آفس چلا جاؤنگا۔۔۔۔تمہاری مرضی کے بنا کہیں نہیں لے جاؤنگا۔۔۔۔"

عالمگیر نے کار چلاتے ہے کہا تو عشنا شرمندہ سی ہو کر گردن جھکا گئی۔ 

اُسے پتہ تھا عالمگیر کبھی اُس کے بھروسے کو نہیں توڈیگا۔ اگر اُس نے منع کر دیا تھا تو عالمگیر زبردستی لنچ پر نہیں لے جائیگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عالمگیر نے کار گیٹ کے اندر لا کر روکی تو عشنا نے نظریں اٹھا کر باہر دیکھا۔ گھر آ چکا تھا شاید وہ اُس کے اترنے کا انتظار کر رہا تھا کیونکہ اُس کا ایک ہاتھ اسٹیرنگ اور دوسرا گیئر پر تھا۔

"آپ۔۔۔آپ۔۔بھی۔۔آپ بھی چلیں۔۔۔ساتھ میں لنچ کرتے ہیں۔۔۔آفس میں ۔۔تو ویسے بھی آپ لنچ نہیں کرتے۔ ۔۔"

عشنا جو دروازے کو کھول کر باہر نکلنے والی تھی اچانک رک کر عالمگیر کی  طرف مڑی اور اسے اندر چلنے کا کہا۔

عالمگیر کوٹ کے بنا، ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کیے، آستینوں کو کہنیوں تک فولڈ کیے،مسکراتے چہرے کے ساتھ ایک ہاتھ اسٹیرنگ اور دوسرا گیئر پر رکھے بہت جاذب لگ رہا تھا۔عشنا کے دل کو کچھ ہوا اُس نے جلدی سے نظریں جھکا لی۔

عالمگیر کار کیز نکالتا اُس کے ساتھ باہر آیا اور گھر کے اندرونی سمت بڑھ گیا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عالمگیر اور عشنا نے ایک ساتھ لاؤنج میں قدم رکھا تو رحمت بیگم جو کسی کتاب کے مطالعے میں غرق تھیں نظر اٹھا کر دونوں کو دیکھا۔

"کتنے اچھے لگتے ہیں دونوں ساتھ۔۔۔۔کاش! عالمگیر نے اس رشتے کے لیے منع نہ کیا ہوتا ۔۔۔۔"

رحمت بیگم نے دل میں سوچا۔ 

عالمگیر چلتا ہوا اُن کے پاس آیا اور اُنھیں سلام کرتا اُن کے برابر میں بیٹھ گیا

"السلام علیکم"

"وعلیکم اسلام میری جان۔۔۔۔آج اتنی جلدی۔۔۔۔۔؟"۔

اُنہوں نے  پیار سے اُس کے سلام کا جواب دیا اور ساتھ اُس کے جلدی آنے کا بھی پوچھا۔ 

"امی بھوک لگی تھی تو سوچا گھر چل کے امی کے ساتھ لنچ کیا جائے۔۔۔۔۔ جلدی سے لنچ کروائیں۔۔۔۔بہت بھوک لگی ہے۔"

اُس نے بھوک بھوک کا شور مچایا۔

"ٹھیک ہے میں لنچ ٹیبل پر لگواتی ہوں۔۔۔۔ تم جاؤ فریش ہو کر آ جاؤ۔۔۔۔ اور عشنا تم بھی چینج کر لو۔۔۔۔آج سب ساتھ لنچ کرتے ہیں۔۔۔۔۔"

اُنہوں نے عالمگیر کے بالوں میں پیار سے ہاتھ پھیر کر کہا اور ساتھ میں عشنا کو بھی جو کب سے صوفے کے پاس کھڑی اُنھیں دیکھ رہی تھی۔

"جی پھوپھو۔۔"

کہتی وہ کمرے میں چینج کرنے چلی گئی تو عالمگیر بھی اٹھ کر کمرے میں آیا اور فریش ہونے کے لیے واشروم کا رخ کیا۔

رحمت بیگم جلدی جلدی ملازموں کے ساتھ مل کر ٹیبل پر لنچ لگوانے لگیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عالمگیر ڈائننگ ہال میں آیا تو عشنا اور رحمت بیگم بیٹھی اُس کا انتظار کر رہیں تھیں۔ وہ چلتا ہوا ٹیبل تک آیا اور کرسی گھسیٹ کر رحمت بیگم کے بائیں طرف بیٹھ گیا۔ملازم نے آگے بڑھ کر کھانا سرو کرنا چاہا تو عالمگیر نے ہاتھ کے اشارے سے اُسے روک دیا۔

"آپ جائیں ۔۔۔"

اُس نے ملازم کو بھیج کر عشنا کی طرف دیکھا۔

"عشنا آج کھانا تم سرو کر دو۔۔۔"

عالمگیر نے مسکراتے ہوئے عشنا کو  کہا تو اُس نے گڑبڑا کر پہلے رحمت بیگم کو دیکھا پھر عالمگیر کو جو مسلسل مسکرا کر اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔

"ہاں ہاں بیٹا۔۔۔۔۔آپ کھانا سرو کر دو ۔۔۔"

رحمت بیگم کی نظروں سے عالمگیر کی گہری مسکراتی نظریں جس سے وہ عشنا کو دیکھ رہا تھا اور جس طرح حق سے وہ اُسے کھانا سرو کرنے کا کہہ رہا تھا کچھ بھی مخفی نہ تھا ۔

عشنا  نے اٹھ کر پہلے رحمت بیگم کو کھانا سرو کیا اور پھر عالمگیر کی طرف رخ موڈ کر ایک ایک چیز اُس کی پلیٹ میں رکھنے لگی۔ 

عالمگیر مسکراتے ہوئے بس اُسے ہی دیکھے جا رہا تھا اور عشنا نے اُس کی نظروں سے پُزل ہوتے ہوئے اُس کی پوری پلیٹ بھر چکی تھی۔

عشنا اب جا کر اپنی چیئر پر بیٹھ گئی۔

عالمگیر نے جب پلٹ پر نظر ڈالی تو پلیٹ دیکھ کر اُس کے گلے میں ایک گلٹی ڈوب کے ابھری۔۔

"اتنا کچھ۔۔۔اس نے تو پوری پلیٹ بھر دی۔۔۔اب میں اتنا سارا کیسے کھاؤں۔۔۔"

اُس نے دل میں سوچا اور ساتھ ہی تھوڑا سا کھانا نکال کر دوسری پلیٹ نے رکھنے لگا۔

"ارے بیٹا یہ کیا کر رہے ہو۔۔۔"

رحمت بیگم نے اُسے کھانا دوسری پلیٹ میں رکھتے دیکھا تو بولیں۔

"امی میں اتنا سارا تو نہیں کھا سکتا نا۔۔۔۔شاید عشنا کو لگا میں نے 4 دن سے کھانا نہیں کھایا جو اتنا سارا نکال دیا۔"

اُس نے عشنا کو شرارت سے دیکھتے ہوئے کہا۔

رحمت بیگم مسکرا کر اپنی پلیٹ کی طرف متوجہ ہو گئیں۔

عشنا عالمگیر کے کہنے پر شرمندہ ہوتے ہوئے نظریں جھکا کر کھانا کھانے لگی۔

"بیٹا ۔۔وہ چکن تو دو بھائی کو۔۔۔۔"

عالمگیر جو کھانا ختم کر کے پانی پی رہا تھا لفظ "بھائی" پر اُس کو اچھو لگی اور سارا پانی اُس کے منہ سے فوارے کی شکل میں باہر آ گیا ۔

عشنا جو رحمت بیگم کے کہنے کے ساتھ کھڑی ہو کر عالمگیر کی طرف آ رہی تھی اُس کے فوارے کا نشانہ بن گئی اور اُس کے سارے کپڑے بھیگ گئے۔۔۔

"وہ۔۔۔آئی ایم سوری۔۔۔۔" 

عالمگیر نے عشنا کو دیکھتے ہوئے کھڑے ہوتے ہوئے کہا جو اپنے ہاتھوں سے اپنے کپڑوں پر سے پانی جھاڑ رہی تھی۔

عالمگیر کے سوری کہنے پر it's okay کہتی چینج کرنے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔

عالمگیر کا بھی موڈ خراب ہو گیا اور وہ رحمت بیگم کو "اللہ حافظ" کہتا پورچ میں کھڑی اپنی کار کی طرف بڑھ گیا۔


" لاحول ولاقوۃ۔۔۔۔۔بھائی۔۔۔؟  لگتا ہے امی کو بتانا پڑےگا۔۔ "

بڑبڑاتا وہ کار میں بیٹھ کر کار گئے کے باہر نکل لے گیا۔

اور رحمت بیگم نے جس شق کے ساتھ لفظ "بھائی"کا استعمال کیا تھا عالمگیر کے ریکشن  نے اُن کا شق یقین میں بدل دیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


حال۔۔۔


عشنا بس کی پشت سے ٹیک لگائے آنکھیں موندیں بیٹھی تھی۔ کرن اُس کے ساتھ تھی جب کہ نازیہ اور شازیہ اُس کے سامنے والی سیٹ پر بیٹھی تھیں۔ وہ لوگ پیر کی صبح 6 بجے نکلے تھے اور اب شام کے 6 بج رہے تھے۔ اگلے دو گھنٹوں میں وہ لوگ کراچی پہنچنے والے تھے۔

صبح جب بس چلی تھی تو سب نے خوب ہلا گلا مچایا تھا۔ لیکن اب سب تھکے تھکے بیٹھے کراچی پہنچنے کے منتظر تھے ۔ کوئی سیٹ پر آنکھیں بند کئے سو رہا تھا  تو کوئی آہستہ آواز میں باتیں کر رہا تھا۔

عشنا سوئی جاگی کیفیت میں سیٹ کی پشت سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔ نازیہ اور شازیہ بھی ایک دوسرے کے کندھے پر سر رکھے آنکھیں بند کئے شاید سو رہی تھیں۔  جب کہ کرن باہر کے مناظر دیکھ کر لطف اندوز ہو رہی تھی۔

عشنا کی بات عالمگیر سے نہیں ہو پائی تھی اور وہ مسلسل اُسی بات پر پریشان تھی۔ اسی پریشانی میں وہ شاپنگ بھی نہیں کر سکی تھی۔

وہ لوگ کراچی پہنچے تو سارے سٹوڈنٹس اپنے اپنے بیگ سنبھالتے ہوٹل کے لابی میں جمع ہو گئے ۔ ٹیچرز نے اُنھیں اُن کے روم کی چابیاں پکڑا دی۔کمرے بڑے بڑے بک کیے گئے تھے اس لیے 3 اور 4 لوگو کو گروپ بنا کر ایک ایک کمرا  الوٹ کیا گیا تھا۔

نازیہ،شازیہ،کرن اور عشنا نے بھی اپنی چابی کی لی اور لفٹ کی طرف بڑھ گئیں۔

کمرے میں آ کر اُنہوں میں چینج کیا پھر نیچے آ گئیں جہاں ڈنر کا انتظام کیا گیا تھا۔

"واؤ۔۔۔فائنالی ہم لوگ انڈسٹریل وزٹ پر آ ہی گئے۔۔۔ہائے کتنا مزا آئیگا نہ۔۔۔۔" 

کرن نے پلیٹ میں چمچ چلاتے آنکھیں میچ کر کہا تو نازیہ شازیہ نے بھی اُس کی ہاں میں ہاں ملائی۔

عشنا ایسے ہی بیٹھی اپنی پلیٹ میں چمچ گھومتی رہی۔

"تمہیں کیا ہوا؟ اتنی چپ چپ کیوں ہو۔۔۔۔؟"

نازیہ نے اُس چپ دیکھ کر پوچھا۔

"کچھ نہیں یار بس تھک گئی ہو۔۔۔ریسٹ کرنا چاہتی ہوں۔۔۔"

اُس نے بہانہ بنایا۔

ٹھیک ہے کھانا کھا کر چلتے ہیں۔

کھانا کھانے کے بعد وہ لوگ کمرے میں آ گئے۔ عشنا تو فوراً سونے کے لئے لیٹ گئی جب کے کرن نازیہ شازیہ بیٹھی باتیں کرتی رہیں۔ کرن کو تو مارے ایکسیٹمنٹ میں نیند ہی نہیں آ رہی تھی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسرے دن وہ لوگ الگ الگ انڈسٹریز میں گھوم گھوم کر اُس کا وزٹ کرتے رہے اور ایک جگہ رک کر لنچ بھی کیا اور پھر سے وزٹ کے لیے نکل گئے۔سارے سٹوڈنٹس ہاتھوں میں نوٹ بک اور قلم پکڑے نوٹس بناتے رہے۔

رات ڈنر سے تھوڑی دیر پہلے اُن کی واپسی ہوئی اور سب کو فریش ہو کر کھانا کھانے بلایا گیا تھا۔ وہ لوگ بھی فریش ہو کر کھانا کھانے آئے اور کھانا کھانے کے بعد کمرے میں آ کر فوراً سو گے۔سارا دن وزٹ سے وہ اتنا تھک گئے تھے کے لیٹتے ہی نیند آ گئی۔

رات 10 بجے سے 10.30 تک عشنا کہ سیل فون وقفے وقفے سے بجتا رہا لیکن شاید وہ اتنی زدہ تھک گئی تھی کہ اُس کی نیند فون کے زور زور سے بجنے پر  بھی  نہیں کھلی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عالمگیر منگل کی صبح کراچی پہونچا تھا۔ اُس کی ایک میٹنگ تھی جو کے 2 بجے تھی تو وہ ہوٹل پہنچ کے چیک ان کرتا چینج کر کے فریش فریش سا میٹنگ کے لیے نکل گیا۔ 

میٹنگ شام تک چلتی رہی ۔ وہ رات 8 بجے وہاں سے نکلا اور ہوٹل آ کر فریش ہو کر لیپ ٹاپ آن کر کے میلز چیک کرنے لگا۔

کھانا کھانے کا اُسکا کوئی ارادہ نہیں تھا کیونکہ میٹنگ کے دوران اُس نے لنچ کر لیا تھا پھر شام کو تھوڑا سنکس بھی کھا لیے تھے تو ڈنر کی اُسے حاجت محسوس نہیں ہوئی۔

اُس نے ٹائم دیکھا تو رات کے 10 بج رہے تھے۔ا کچھ سوچ کر اس نے عشنا کو کال کی لیکن وہ کال نہیں لے رہی تھی۔ اُس دِن فون ٹوٹنے کے بعد اُس نے نیا فون 2 د دن بعد لیا تھا اور پھر میٹنگ اور دوسرے کام میں مصروف ہو کر عشنا کو کال کرنا بھول گیا تھا اور یہ بھی کہ لاہور سے آتے وقت وہ اُس سے ناراض تھی کیونکہ اُسے پتہ تھا کے عشنا اُس سے زیادہ سے ناراض نہیں رہ سکتی۔ ۔

وہ وقفے وقفے سے کال کرتا رہا لیکن جب اُس کا جواب نہیں آیا تو موبائل پرے رکھتا سونے کے لیے لیٹ گیا۔ صبح اُسے پھر میٹنگ کے لیے جانا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


کراچی کا موسم آج تھوڑا ابر آلود تھا۔ 

وہ لوگ صبح 8 بجے کے نکلے تھے اور دوپہر 12 بجے کے قریب  ہوٹل واپس آئے تھے۔ اب شام تک اُنھیں یہیں رہنا تھا اور شام کو 6 بجے پھر اسلام آباد کے لیے نکلنا تھا۔

اُنھیں 6 گھنٹے کا بریک دیا گیا تھا تا کہ اگر وہ لوگ کراچی گھومنا چاہیں تو گھوم لیں۔

نازیہ شازیہ اور کرن تو عشنا کے سر ہو گئیں کے وہ اپنا فائیو اسٹار میں لنچ کروانے کا وعدہ پورا کرے۔

عشنا نے بھی اُنکی بات مانتے ہوئے ہاں کہہ دی اور وہ لوگ تیار ہو کر ہوٹل سے ٹیکسی کر کے ایک بڑے سے ہوٹل میں آ گئے۔

وہ لوگ آ کر ایک ٹیبل پر بیٹھے اور ویٹر کو اشارے سے پاس بولا کر آرڈر نوٹ کروانے لگے۔عشنا بیٹھی اُنھیں دیکھتی رہی۔

ویٹر چلا گیا تو وہ لوگ یوں ہی  نظریں گھوما کر ہوٹل کا جائزہ لینے لگیں۔ عشنا یوں ہی نظریں جھکائے بیٹھی رہی۔

" وہ دیکھو عالمگیر بھائی۔۔۔۔۔"

کرن نے کہا تو نازیہ شازیہ کے ساتھ عشنا نے بھی کرن کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا جہاں عالمگیر کچھ لوگو کے ساتھ کھڑا بات کر رہا تھا اور اب وہ اُن سے مصافحہ کرنے کے بعد مڑ کر دروازے کے سمت بڑھنے لگا تب ہی اُس کی نظر عشنا جو کہ بت بنی کھڑی اُسے ہی دیکھ رہی تھی اُس کی طرف پڑی  تو وہ مسکرا کر پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈال کر چلتا اُنکی ٹیبل کی طرف آ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عالمگیر صبح میٹنگ کے لیے آ گیا تھا جو کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں منعقد کی گئی تھی۔

اُس کی میٹنگ دوپہر تک چلتی رہی۔ دوپہر تقریباََ 1 کو  اُس کی میٹنگ ختم ہوئی تو وہ اُن سے مصافحہ کرتا بیرونی دروازے کی سمت بڑھا اُس کا ارادہ اب عشنا سے ملنے کا تھا۔ اُس نے پتہ کروا لیا تھا کے وہ لوگ کس ہوٹل میں رکے ہیں۔  

ابھی وہ دروازے تک پہنچا ہی تھا کہ اُس کی نظر دروازے سے ذرا فاصلے پر ٹیبل پر بیٹھی عشنا اور اُس کے دوستوں پر پڑی تو وہ مسکرا کر چلتا ہوا اُن کے پاس آ گیا۔

۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔





"السلام علیکم"

عالمگیر چلتا ہوا اُن کے ٹیبل کے پاس آیا اور سلام کرتا عشنا کے برابر والی چیئر گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔ اس سارے عمل کے درمیان اُس نے عشنا کو اپنے نظروں کے حصار میں رکھا تھا۔

"وعلیکم السلام۔۔۔۔۔"

کرن،شازیہ اور نازیہ نے مشترکہ جواب دیا تو عالمگیر نے عشنا سے نظر ہٹا کر اُن تینوں کو مسکرا کر دیکھا۔

"عالمگیر بھائی آپ یہاں کیسے؟"

کرن نے چہیک کر پوچھا۔

"میری ایک میٹنگ تھی۔۔کل آیا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ابھی بھی میٹنگ کے لیے ہی یہاں آیا تھا ۔۔۔آپ بتاؤ۔۔ آپ لوگ یہاں کیسے۔۔۔؟"

عالمگیر نے باری باری تینوں کو دیکھتے ہوئے بتایا اور ساتھ ہی اُن سے ریسٹورینٹ میں ہونے کا پوچھا۔

"ہم۔۔۔ہم یہاں عشنا۔۔۔اوہ سوری۔۔۔۔"آپ کی بیگم" کو لوٹنے آئے ہیں۔۔۔۔"

شازیہ نے "آپکی بیگم" لفظ پر زور دے کار کہا تو عالمگیر کے ساتھ باکی دونوں بھی ہنس دی۔

"لوٹنے؟ مطلب؟"

عالمگیر لحظے میں حیرت سموتے ہوئے بولا۔

"ہاں جی لوٹنے۔۔۔۔دراصل عشنا نے ہمیں پرومیس کیا تھا کے وہ ہمیں ٹریٹ دے گی وہ بھی کسی  فائیو اسٹار ہوٹل میں۔۔۔۔"

شازیہ نے آنکھیں گھوما گھوما کر کہا تو عالمگیر کی مسکراہٹ گہری ہو گئی۔

"کس بات کی ٹریٹ۔۔۔۔" 

عالمگیر نے اُن کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"آپ کی اور عشنا کی شادی کی ٹریٹ۔۔۔۔"

"اوہ۔۔۔۔آئی سی۔۔۔"

کہتے عالمگیر نے نظریں اٹھا کر عشنا کو دیکھا جو نظریں جھکائے بیٹھی تھی۔ عالمگیر نے دھیرے سے اپنا ہاتھ ٹیبل کے نیچے سے عشنا کے ہاتھ پر رکھا تو عشنا نے نظریں اٹھا کر اُسے دیکھا اور اُس کی نظروں سے گھبرا کر فوراً نظریں جھکا لی۔

چلو پھر آج کی ٹریٹ میری طرف سے۔۔۔عشنا سے ٹریٹ آپ لوگ پھر کبھی لے لینا۔"

عالمگیر نے اُنھیں اوفر دی تو وہ سب مسکرا دی۔عالمگیر نے عشنا کہ ہاتھ اب بھی اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔ عشنا نے ہاتھ نکلنا چاہا تو عالمگیر نے سختی بڑھا کر اُس کی کوشش کو ناکام بنا دیا ۔

ویٹر کھانا لے آیا اور ٹیبل پر رکھ کر چلا گیا۔

عشنا نے عالمگیر کی طرف دیکھا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں اُسے ہاتھ چھوڑنے کا اشارہ کیا تو عالمگیر نے مسکرا کر اُس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔

جب اُن لوگو نے کھانا آرڈر کیا تھا تو عالمگیر اُس کے ساتھ نہیں تھا۔ ویٹر صرف 4 پلیٹیں لارکھ کر گیا تھا۔ کرن نے دیکھا تو ویٹر کو آواز دینا چاہا لیکن عالمگیر نے اشارے سے منع کر دیا۔

"میں نے لنچ کر لیا ہے میٹنگ میں۔ آپ لوگ کھائیں۔۔۔"

عالمگیر نے بتایا تو شازیہ بولی۔

"ارے ایسے کیسے عالمگیر بھائی۔۔۔آپ کو ہمارے ساتھ کھانا ہی پڑےگا۔۔۔آپ رکیں میں ویٹر کو بولتی ہوں۔۔ "

"لیکن ویٹر کو بلانے کی ضرورت کیا ہے۔ عالمگیر بھائی اور عشنا ایک ہی پلیٹ میں کھا لینگے۔۔۔۔ ہے نا؟ "

نازیہ نے کہا تو عالمگیر نے مسکرا کر عشنا کو اور پھر باقی تینوں کو دیکھا ۔

"کافی سمجدار دوست ہیں تمہاری۔۔۔۔"

عالمگیر نے آہستہ سے عشنا سے کے کان میں کہا۔

"بالکل۔۔۔ہم بہت سمجھدار ہیں۔۔"

کرن جو اُن کے پاس والی چیئر پر بیٹھی تھی عالمگیر کی سرگوشی سن کر زور سے بولی تو عشنا کے ساتھ عالمگیر بھی گڑبڑا گیا۔ باکی سب ہنس دی۔

سب لوگ کھانا کھانے لگے ۔ 

عالمگیر بھی عشنا کی پلیٹ سے اسپون میں تھوڑا تھوڑا کھانا لے کر وقفے وقفے سے منہ میں رکھنے لگا۔ عشنا بھی چھوٹے چھوٹے لقمے لے رہی تھی۔ دراصل وہ اُن لوگوں کی موجودگی میں عالمگیر کی طرف دیکھنے سے اجتناب کر رہی تھی۔ کیونکہ عالمگیر نے کچھ دنوں پہلے جس طرح سے اپنی محبت کا اظہار کیا تھا  اور اُس کے بعد وہ جس انداز میں اُسے دیکھ رہا تھا عشنا ان لوگوں کے سامنے اپنے چہرے پر پھیلتے قوس قزح کو اُن پر عیاں نہیں کرنا چاہتی تھی۔

"عشنا ۔۔۔اپنا فون تو دیکھانا۔۔۔"

عالمگیر نے اچانک کہا تو عشنا نے ایک نظر اُسے دیکھا اور پھر پرس سے فون نکال کر اُس کی طرف بڑھایا۔

"مس کرن۔۔۔۔۔"

اُس نے کرن کے طرف دیکھ کر کہا تو کرن بھی اُس کی طرف متوجہ ہوئی۔

"مس کرن۔۔۔۔اسے دسٹبین میں پھینک دیجئے۔۔۔"

اُس نے موبائل کرن کی طرف بڑھایا تو عشنا نے پریشانی سے اُسے دیکھا اور اور پھر اپنے موبائل کو جو اب کرن نے پکڑ لیا تھا۔

کرن نے بھی حیران ہو کر اُسے دیکھا۔

"یہ آپ۔۔۔۔یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔۔۔"

عشنا نے پرشانی سے پوچھا۔

"بھئی جب میں فون کرتا ہو۔۔تم فون تو ریسیو کرتی نہیں۔۔۔۔تو سوچا اسے ڈسٹبین میں ہی پھینک دیتے ہیں۔"

عالمگیر نے مسکرا کر کہا۔

"عالمگیر بھائی اس بات پر تو میں بھی آپ کے ساتھ ہوں۔۔۔"

نازیہ نے بھی اُس کا ساتھ دیا۔

عشنا نے گھور کر اُسے دیکھا۔

"اچھا نہ عالمگیر بھائی۔۔۔اب اسے معاف بھی کر دیں۔۔۔اُس دِن جب عشنا نے آپ کی مسڈ کالز دیکھی تو بہت پریشان ہو گئی تھی۔ بیچاری نے شاپنگ بھی نہیں کی تھی یہاں آنے سے پہلے "

شازیہ نے کہا تو عالمگیر نے گہری نظروں سے عشنا کو دیکھا جو اُس کے دیکھنے پر چہرے کا رخ موڈ گئی۔

کھانا ختم ہوا تو عالمگیر نے سب کی پسند کی آئس کریم منگوا  دی ساتھ ہی ویٹر سے بل لانے کا بھی کہہ دیا۔

عالمگیر نے اپنے لیے نہیں منگوائی تھی

 جب تک وہ لوگ آئس کریم کھا کر فری  ہوئیں۔ عالمگیر بل پے کر چکا تھا۔ سب کے ساتھ چلتا وہ بھی ہوٹل سے باہر آ گیا۔

"عشنا رکو۔۔۔۔"

عالمگیر نے سڑک کے پاس آ کر ٹیکسی روکی ۔سب اُس میں بیٹھنے لگ گئیں لیکن جب عشنا نے بھی آگے بڑھ کر ٹیکسی میں سوار ہونا چاہا تو عالمگیر نے اُس کی کلائی تھام کر اُسے روک لیا۔ عشنا نے عالمگیر کو دیکھا جو اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔

"کیوں عالمگیر بھائی۔۔۔عشنا کو کیوں روک رہے ہیں۔۔۔"

کرن نے کار کی کھڑکی سے چہرہ نکال کر اُنھیں دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"میں سوچ رہا ہوں "اپنی بیگم " کو کچھ شاپنگ کروا دوں۔"

عالمگیر نے "اپنی بیگم " پر زور دے کار کہا تو کو تینوں ہنس دیں۔

"ٹھیک ہے عالمگیر بھائی لیکن اسے 6 بجے سے پہلے ہوٹل ڈراپ کر دیجۓگا۔ 6 بجے ہم اسلام آباد کے لیے نکل جائیںگے۔"

شازیہ نے بتایا اور ساتھ ہی ڈرائیور کو چلنے کا کہا۔ ٹیکسی آگے بڑھ گئی تو عالمگیر عشنا کا ہاتھ تھام کر پارکنگ جہاں اُس کی کار کھڑی تھی وہاں چلا آیا اور عشنا کو فرنٹ سیٹ پر بیٹھا کر خود ڈرائیونگ سیٹ پر آیا اور کوٹ اور ٹائی نکال کر بیک  سیٹ پر رکھ دی۔

عشنا نے نظریں اٹھا کر اُسے دیکھا جو آف وائٹ شرٹ پر بلیک پینٹ میں بہت دلکش لگ رہا تھا۔

"ایسے مت دیکھو۔۔ پیار ہو جائیگا۔۔۔۔" 

عالمگیر نے عشنا کو دیکھا جو اُسے ہی دیکھ رہی تھی تو ذرا سا جھک کر شرگوشیانہ انداز میں بولا تو عشنا نے گڑبڑا کر اپنا رخ موڑ کر کھڑکی کی طرف کر لیا۔

عشنا کی حرکت پر عالمگیر کا قہقہہ کار میں گونجا تھا۔

عالمگیر نے کار اسٹارٹ کی اور سڑک پر لے آیا۔

گیئر بدلنے کے لیے عالمگیر نے ہاتھ بڑھایا اور کچھ سوچ کر عشنا کا ہاتھ  تھام کر گیئر پر رکھ کر اپنا ہاتھ عشنا کے ہاتھ پے رکھتا گیئر چینج کرنے لگا۔

عشنا اپنے ہاتھی پر عالمگیر کے ہاتھوں کا لمس محسوس کر کے مسکرائے بنا نہ رہ سکی۔

عالمگیر نے کار ایک مال کے پارکنگ میں روکی اور اُسے لیے اندر کی طرف بڑھ گیا۔

"یہاں چلتے ہیں۔۔۔"

عشنا کا ہاتھ تھامے وہ لیڈیز کلوتھینگ سیکشن میں آ گیا۔

عالمگیر  نے عشنا کہ ہاتھ تھامے تھامے 5 ڈریس اُس کے لیے سیلکٹ کیے جسے دیکھ کر عشنا نہ نہ ہی کرتی رہی لیکن اُس نے اُس کی ایک نہیں م سنی۔ 

پھر وہ دوسری طرف آ گئے جہاں پرس وغیرہ کا سیکشن تھا 3 پرس عالمگیر نے اپنی پسند سے لیے اور ایک عشنا نے اپنی پسند کا۔ 

"اب فٹ ویئر کی طرف چلتے ہیں۔۔۔"

عالمگیر نے اُسے  جوتوں کے سیکشن کی طرف لے جانا چاہا۔

" نہیں بس۔۔۔اب اور کتنا۔ ۔ "

عشنا نے منع کرنا چاہا۔

"تم عالمگیر سجّاد کی بیوی ہو اور عالمگیر سجّاد اپنی بیوی کو دنیا کی ہر خوشی دینا چاہتا ہے "

عالمگیر نے جذب سے کہا تو عشنا کو دل ہی دل میں خود پر رشک آنے لگا۔ اُس کی آنکھیں فرط جذبات سے بھیگ گئیں۔

"میری ہر خوشی تو آپ ہے ۔۔۔"

عشنا نے بھیگی آنکھوں سے کہا۔

"سچ۔۔۔"

عالمگیر آنکھوں میں محبت سموئے اُسے دیکھتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔

عشنا نے اثبات میں سر ہلا دیا تو عالمگیر نے اپنی ہتھیلی کی پشت سے اُس کے آنکھوں سے بہتے آنسوؤں کو صاف کیا اور اُسے لیے دوسری طرف بڑھ گیا۔

"جاؤ۔۔۔یہ ٹرے کرو۔۔۔"

چلتے چلتے عالمگیر کی نظر ایک نفیس سے بلیک رنگ کے کُرتے شلوار پر پڑی جس پر باریک دھاگوں سے کشیدہ کاری کی گئی تھی اور ساتھ میں سفید دوپٹہ بھی تھا۔ وہ عالمگیر کو اتنا پسند آیا کہ اُس کے دل میں عشنا کو ان کپڑوں دیکھنے کی خواہش جاگی۔ وہ کرتا شلوار عشنا کے ہاتھ میں تھما کر اُسے چینجینگ روم کی طرف لے آیا 

عشنا نے اُن کپڑوں کو دیکھا اور چینج کرنے اندر چلی گئی۔

عالمگیر باہر کھڑا اُس کے آنے کا انتظار کرنے لگا۔ جیسے ہی عشنا نے دروازہ کھولا عالمگیر پلکیں جھپکنا بھول گیا اور آگے بڑھ کر اُس کے ماتھے پر لب رکھ دیئے۔ 

عشنا شرما کر اُس سے دور ہوئی تو عالمگیر نے مسکرا کر اُس کا ہاتھ تھاما اور آگے جانے لگا۔

"رکیں۔۔۔میں۔۔میں چینج تو کر لوں۔۔۔"

عشنا نے اُسے اپنا ہاتھ تھامے دیکھ تو کہہ بیٹھی۔

"نہیں۔۔۔رہنے دو۔۔۔بہت پیاری لگ رہی ہو۔۔۔پہنے رہو۔۔۔"

عالمگیر نے کہا اور ایک بار پھر آگے بڑھا۔

"اچھا رکیں تو۔۔۔میں اپنے کپڑے تو لے لوں۔۔۔"

عشنا نے کہا تو عالمگیر نے گھور کر اُسے دیکھا۔

"رہنے دو اُنہیں۔۔۔چلو اب۔۔۔۔"

کہتا وہ اُسے لیے پھر سے کپڑوں کے اسٹینڈ کے پاس آ گیا۔

یوں ہی نظریں گھوماتے عالمگیر کی نظر ایک سیکشن پر پڑی۔ عالمگیر نے جھک کر عشنا کے کان میں کچھ کہا تو عشنا نے پہلے اُس کی نظر کے تعاقب میں دیکھا پھر اُسے گھور کر دیکھنے لگی۔

"نہیں۔۔۔مجھے نہیں لینا کچھ۔۔۔آپ  بہت گندے ہیں۔۔۔۔"

کہتی وہ دوسرے سیکشن کی طرف بڑھ گئی۔ عالمگیر بھی مسکراتے ہوئے اُس کے پیچھے تھا۔

عشنا اب کاٹن کے کچھ ڈریس دیکھ آرہی تو عالمگیر نے اُسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

"پھوپھو کے لیے لے لیتے ہیں۔"

عشنا نے اُس کے آنکھوں کے سوال کے جواب میں کہا۔

" اوہ۔۔۔ساس کو قابو کرنے کے حربے آزمائے جا رہے ہے؟"

عالمگیر نے ساس پر زور دے کار کہا۔

"مجھے کیا ضرورت ہے۔۔۔اور آپ بھول رہے ہیں کہ وہ میری پھوپھو بھی ہیں۔"

اُس نے اسٹینڈ سے کپڑے نکلتے کہا

"ہاں ۔۔۔ویسی بھی ساس کو  اس لیے قابو کیا جاتا ہے تا کہ شوہر قابو میں رہے ۔۔۔اور تمہارا شوہر تو ویسے ہی تمہارے آگے پیچھے رہتا ہی۔۔۔تمہیں یہ حربے آزمانے کے کیا ضرورت۔۔۔ "

عالمگیر نے اسٹینڈ پر تھوڑی ٹیکا کر کہا۔

"آپ۔۔۔"

ابھی وہ کچھ کہہ ہی رہی تھی کہ نادر کی کال آنے لگی۔ وہ اُسے کپڑے دیکھنے کا کہتا کال آن کر کے سائڈ میں آ کر بات کرنے لگا۔

"عالمگیر۔۔۔۔"

ابھی وہ کال ختم کر کے مڑا ہی تھا کہ پیچھے سے کسی کے پکارنے پر دوبارہ پیچھے مڑا تو دیکھا سامنے سنبل کھڑی تھی۔

"کیسے ہو؟"

اُس نے عالمگیر کے پاس آ کر پوچھا۔

"جیسا بھی ہوں۔۔۔تم سے مطلب؟"

عالمگیر غصّے سے بولا۔

"مجھے معاف کر دو عالمگیر۔۔۔ تمہیں اُس دن میں نے نجانے کیا کیا کہ دیا تھا۔ میری بات سن لو۔۔۔لاہور میں بھی تم نے میں بات نہیں سنی تھی۔پلیز میری بات سن لو۔۔۔ہم پھر سے ساتھ ہو جاتے ہیں نہ ۔۔۔تم وہ سب کچھ بھول جاؤ۔۔میں نے جو کہا غصے میں کہا تھا۔تم مجھے معاف کر دو۔ سب کچھ پہلے جیسا ہو جائے گا۔ میں سب کچھ ٹھیک کر دوں گی۔"

کہنے کے ساتھ اُس نے عالمگیر کا بازو پکڑ لیا تو عالمگیر نے جھٹکے سے اُس کا ہاتھ اپنے بازوں سے ہٹایا ۔

" اب کچھ بھی پہلے جیسا نہیں ہو سکتا۔سب کچھ بدل چکا ہے۔ اور اچھا ہی ہوا کے 2 سال پہلے تمہاری اصلیت مجھ پر کھل گئی تھی۔ ورنہ شاید میں تم جیسی لڑکی کی ضد میں اپنی زندگی خراب کر چکا ہوتا۔"

کہتا وہ مڑا تھا۔

جب عالمگیر کافی وقت تک نہیں آیا تو عشنا اُسے دیکھنے کے لیے اس طرف آئی جہاں عالمگیر فون لے کر آیا تھا۔ عشنا نے دیکھا سنبل عالمگیر کے بازو پر ہاتھ رکھے کھڑی تھی۔ وہ آگے کچھ دیکھ ہی نہ سکی اور رخ موڈ کر دوسری طرف آ گئی۔

جب عالمگیر نے سنبل کا ہاتھ اپنے ہاتھ سے جھٹکا تھا تو عالمگیر کی پشت پر  رخ موڈے کھڑی عشنا کو سنبل سامنے لگے قد آور آئینے میں دیکھ چکی تھی اور اُس کی آنکھوں کے آنسوؤں کو بھی۔

"اوہ۔۔۔تو اب تک تمہارے سر سے اُس عشنا کا بھوت نہیں اُترا؟"

سنبل نے نفرت سے کہا

"اور کبھی اُترے گا بھی نہیں۔۔۔"

عالمگیر جو رخ موڈ کر جانے کے لیے قدم بڑھ چکا تھا سنبل کی بات پر پلٹا اور جتا کر بولا۔

"میں اُسے جان سے مار دوں گی۔۔۔اگر  تم مجھے نہ ملے تو میں اُسے بھی زندہ رہنے نہیں دونگی۔۔۔"

سنبل کے لحظے میں عشنا کے لیے نفرت ہی نفرت تھی۔

"خبر دار ۔۔۔۔خبر دار جو تم نے عشنا کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا تو۔۔۔۔اگر تم نے عشنا کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا تو میں تمہیں جان سے مار دونگا۔۔جب میں دو سال پہلے لاہور میں اپنی محبت کی تذلیل برداشت نہیں کر سکتا تھا تو اب تو عشنا میری بیوی ہے۔۔۔۔تم سوچو۔۔۔میں کس حد تک جا سکتا ہوں۔۔۔مجھ سے اور "میری عشنا" سے دور رہنا سنبل۔۔۔ورنہ انجام برا ہوگا۔۔ بہت برا۔۔۔۔"

عالمگیر شولا بار نظروں سے دیکھتا اُسے وارن کرنے کے انداز میں بولا اور وہاں سے واک آؤٹ کر گیا۔

عشنا سنبل کو دیکھ کر پریشان ہو گئی تھی اُس کی آنکھوں سے آنسوؤں بہنے لگے تھے۔جسے اُس نے بے دردی سے اپنے ہاتھوں کی پشت سے پونچھ ڈالے۔  

"تو کیا عالمگیر اب بھی سنبل سے۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔وہ تو مجھ سے۔۔۔۔۔اُنہوں نے خود مجھ سے کہا ہے ۔ لیکن پھر سنبل سے کیوں ملتے ہیں بار بار۔۔۔۔۔"

اُس نے اپنے ہاتھ میں پہنی انگوٹھی کو انگلی سے چھوا۔

"لے لیا سب؟"

عالمگیر نے عشنا کو پُکارا تو اُس نے اثبات میں سر ہلا دیا اور ہاتھ میں پکڑے کپڑے اُس کی طرف بڑھائے۔ نظریں اُس نے جھکا رکھی تھی۔ عالمگیر نے اُس کے ہاتھ سے کپڑے لیے اور دوسرے ہاتھ سے اُس کے ہاتھ کو تھام کر کاؤنٹر تک آیا اور پیمنٹ کرنے کے بعد سارے بیگ سنبھالتا مال سے باہر پارکنگ تک آ گیا اور کار کی بیک سیٹ کھول کر بیگز رکھے تب تک عشنا فرنٹ سیٹ پر بیٹھ چکی تھی۔

عالمگیر نے اُس کی خاموشی اور اُس کا اُداس چہرہ دیکھا تو اُلجھن میں پڑ گیا۔۔

"اُسے کیا ہوا۔۔۔ابھی تک تو ٹھیک تھی۔۔اب اچانک۔۔۔کہیں اس نے سنبل ۔۔اوہ گوڈ۔۔۔کہیں یہ پاگل لڑکی پچھلی بار کی طرح پھر نہ غلط سمجھ بیٹھے ۔۔۔۔لیکن اس بار نہیں۔۔۔۔پچھلی بار میں نے اس کے شق کو دور نہیں کیا تھا اس لیے ہی آج یہ پھر شق میں مبتلا ہوئی ہے۔ اگر پہلے ہی میں سب کچھ کلیئر کر دیتا تو۔۔۔۔۔خیر۔۔۔اب بھی دیر نہیں ہوئی ہے۔۔۔۔۔میں اب عشنا کو اور غلط فہمی میں نہیں رہنے دونگا۔"

عالمگیر نے دل میں سوچا اور کار اسٹار کر کے بیچ کی طرف موڑ لی۔


۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


2 سال پہلے


"سر یہ پروجیکٹ ہمارے لیے بہت ضروری ہے۔"

نادر  نے عالمگیر سے کہا۔ دونوں اُس کے کیبن میں بیٹھے کسی نئے پروجیکٹ کے بارے میں تبصرے کر رہے تھے ۔

"ہمم۔۔۔ہے تو۔۔۔دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔۔۔ٹینڈر کی ساری فورمٹیز دیکھ لی ہے تم نے؟ "

عالمگیر نے نادر سے پوچھا۔

"جی سر۔۔۔اور آپ کو ایمیل بھی کی ہے۔آپ چیک کر لیں۔۔۔کل تک سب کچھ بھیج دیا جائیگا۔"

نادر مودب انداز میں بولا۔

"نہیں نادر۔۔۔سب کچھ آج کرو۔۔۔ٹینڈر آج ہی بھر دو۔۔۔کل تک کا انتظار مت کرو۔۔۔۔۔۔جو کرنا ہے آج ہی کرو ۔۔۔"

عالمگیر نے اسے آرڈر دیا۔

وہ "جی" کہہ کر چلا گیا۔

انٹرکام کی رنگ پر اُس نے مڑ کر فون اٹھایا۔

"سر ۔۔۔آپکی مدر کی کال ہے آپ  کا نمبر بند جا رہا ہے اس لیے۔۔۔"

"لائن ٹرانسفر کرو۔۔۔۔"

ابھی دوسری طرف سے بات مکمّل بھی نہیں ہوئی تھی جب عالمگیر بات کاٹ کر بولا۔

"السلام علیکم امی۔۔۔"

جیسے ہی لائن ٹرانسفر کی گئی عالمگیر نے سلام کیا۔

"وعلیکم السلام بیٹا۔۔۔بیٹا میں ابھی لاہور جا رہی ہُوں ڈرائیور کے ساتھ۔۔۔۔ابھی ابراہیم کا فون آیا تھا اُس نے بتایا ہے کہ امی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔

رحمت بیگم نے جلدی جلدی بتایا ۔وہ عجلت میں لگتی تھیں۔

"ٹھیک ہے آپ رکیں۔۔۔میں بس ابھی آتا ہوں۔ "

عالمگیر نے چیئر سے کھڑے ہوتے ہوئے کہا ۔

"نہیں بیٹا۔۔۔۔۔تمہیں آنے کی ضرورت نہیں۔۔۔میں ڈرائیور کے ساتھ چلی جاؤنگی۔۔۔۔۔اور ہو سکے تو رات تک واپس بھی آ جاؤنگی۔۔۔"

رحمت بیگم نے تفصیل بتائی۔

"لیکن امی۔۔۔"

عالمگیر نے کچھ کہنا چاہا لیکن رحمت بیگم نے اس کی بات کاٹ دی۔

"بیٹا میں چلی جاؤنگی۔۔۔۔تم پریشان نہ ہو۔۔۔۔"

"ٹھیک ہے آپ پہنچ کر مجھے فون کر دیجئے گا۔"

عالمگیر نے دوبارہ چیئر پر بیٹھتے ہوئے کہا۔

"ٹھیک ہے۔۔۔اپنا خیال رکھنا۔۔۔اللہ حافظ۔۔۔"

رحمت بیگم نے اُس کو اپنا خیال رکھنے کی تاکید دیتے فون بند کر دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عشنا کالج سے گھر آئی تو ملازم نے اُسے رحمت بیگم کے لاہور جانے کا بتا دیا تھا ۔وہ لنچ کرنے کے بعد سو گئی تھی اور اب شام کو اٹھ کر لاؤنج میں کتابیں کھولے پڑھائی میں مصروف تھی جب اُسکا فون بجنے لگا۔

"ہیلو۔۔۔۔"

عشنا نے فون آن کر کے کہا۔

"عشنا ۔۔۔میں عالمگیر۔۔۔۔۔"

عشنا اُس کی آواز سن کر چپ ہو گئی۔

"ہیلو عشنا۔۔۔۔یو دیر۔۔۔(کیا تم موجود ہو؟)"

عالمگیر نے خاموشی محسوس کر کے پوچھا۔

"جی۔۔۔۔۔"

عشنا نے آہستہ سے کہا۔

"عشنا امی کی کال آئی تھی ابھی لاہور سے۔۔۔۔۔وہ بتا رہیں تھیں نانی کی طبیعت بہت ذیادہ خراب ہے۔۔۔ہمیں فوراً لاہور کے لیے نکلنا ہے۔ تم اپنا ضروری سامان پیک کر کے ڈرائیور کے ساتھ ایئرپورٹ پہنچو۔۔۔میں ڈائریکٹ تمہیں وہی ملتا ہُوں۔۔۔۔۔"

عالمگیر جلدی جلدی کہتا ساتھ زینے بھی پھلانگ رہا تھا۔

"آپ۔۔۔آپ کا کوئی سامان۔۔۔لانا ہے؟"

عشنا نے آہستہ سے پوچھا۔

عالمگیر کے سیڑھیوں پر چلتے قدم تھم گئے۔

"نہیں۔۔۔میں بس تمہیں ڈراپ کر کے واپس آ جاؤنگا۔۔۔۔تم بس اپنی پیکنگ کر کے ایئرپورٹ پہنچو۔۔۔ٹھیک؟"

عالمگیر کا اردہ عشنا کو چھوڑ کر رات ہی کسی فلائٹ سے واپس آنے کا تھا۔ کل اُس کی میٹنگ تھی جو اُسے اٹینڈ کرنے کے لیے یہاں موجود رہنا تھا۔اگر عشنا بھی رحمت بیگم کے ساتھ چلی گئی ہوتی تو وہ امی کو کل آنے کا کہتا۔ لیکن مسلہ اُسے ابھی صرف عشنا کا تھا۔

رحمت بیگم کی کال کے بعد ہی اُس نے 9 بجے کی لاہور کی فلائٹ بک کر لی تھی اور اب عشنا کو کال پر ایئرپورٹ پہنچنے کا کہہ کر نادر کو جلدی جلدی چند ہدایات دیتا اپنی کار کیز اور موبائل ،لیپ ٹاپ اٹھاتا پارکنگ کی طرف جہاں اُس کی کار کھڑی تھی آ گیا اور  کار میں بیٹھ کر کار کو ایئرپورٹ کی طرف موڑ لی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


"عشنا۔۔۔۔۔"

عشنا جو ایئرپورٹ کے انٹرنس پر کھڑی عالمگیر کے انتظار میں یہاں وہاں دیکھ رہی تھی عالمگیر کی پکار پر مڑی۔

لیمن کالر کی شرٹ پر براؤن کوٹ پینٹ میں براؤن ٹائی لگائے، کندھے پر لیپ ٹاپ بیگ، ایک ہاتھ پینٹ کی جیب میں رکھے دوسرے میں ٹیکٹس لیے اُس کی طرف بڑھ رہا تھا۔

"چلیں۔۔۔۔"

عالمگیر نے عشنا کے پاس آ کر کہا۔

"جی۔۔۔"

اُس نے آہستہ سے کہا اور اُس کے ساتھ قدم بڑھاتی چیک ان کے پاس آ گئی


"کافی پیوگی؟ رکو میں لے کر آتا ہوں۔۔۔۔"

چیک ان کے بعد وہ لوگ ایئرپورٹ کی لابی میں بیٹھے تھے کیونکہ فلائٹ بورڈنگ میں ابھی کچھ وقت تھا۔کافی لانے کا کہتا وہ کافی کاؤنٹر کی طرف بڑھ گیا۔ کافی لاکر عالمگیر نے ایک کافی کا کپ اُس کی طرف بڑھایا اور دوسرا خود لیے گھونٹ گھونٹ بھرنے لگا۔

عشنا کافی لیے کچھ دیر دیکھتی رہی پھر آہستہ سے لبوں سے لگا لیا۔ دراصل اُسے پھر سے فلائٹ کے سفر سے گھبراہٹ ہو رہی تھی۔ پچھلی دونوں بار تو رحمت بیگم اُس کے ساتھ تھیں۔ لیکن اس بار عالمگیر کے ساتھ سفر کرتے اُسے زیادہ ڈر لگ رہا تھا۔

عالمگیر نے غور سے اُس کے پریشان چہرے کو دیکھا۔

"عشنا۔۔۔۔کچھ نہیں ہوتا یار۔۔۔۔دیکھو تم دو بار تو فلائٹ میں سفر کر چکی ہو۔۔ اب ڈر کیسا۔۔۔"

عالمگیر  نے اُس دیکھتے ہوئے کہا جو نظریں جھکائے کافی کے کپ کو گھورے جا رہی تھی۔عالمگیر کی بات پر نظریں اٹھا کر اُسے دیکھا۔

"آپ۔۔۔آپ۔۔کو کیسے پتہ کے مجھے۔۔۔مجھے فلائٹ کے سفر سے ڈر لگتا ہے۔۔۔۔"

عشنا نے اُسے دیکھتے ہوئے کہا۔

"جیسے تمہیں پتہ ہے کہ میں باہر کا چکن نہیں کھاتا۔۔۔۔"

اُس نے منگنی والی رات کا حوالہ دیا۔

"وہ تو۔۔۔وہ تو میں۔۔۔"

اُسے سمجھ ہی نہیں آیا کہ کیا کہے۔۔

عالمگیر اُسے کچھ کہنا ہی چاہتا تھا کہ فلائٹ بورڈنگ کی اناؤنسمینٹ ہونے لگی۔ وہ دونوں کافی کپ ڈسپوزل میں ڈال کر بورڈنگ کے لیے آگے بڑھ گئے۔

فلائٹ بورڈ کرنے کے بعد عشنا نے بیٹھتے ہی سیٹ بیلٹ لگا لی تھی۔ عالمگیر کی سیٹ کھڑکی کی طرف تھی لیکن اُس نے عشنا کو وہاں بیٹھایا اور خود کنارے والی سیٹ کی طرف بیٹھ گیا۔

عشنا آنکھیں بند کیے سیٹ کی پشت سے ٹیک لگائیے قرآنی آیات کا ورد کرنے لگی۔

"عشنا۔۔۔۔پلیز۔۔ اتنا ڈرنے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔سب ٹھیک ہے۔۔۔اور ۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کے ڈر کو کم کرنا چاہا۔ابھی وہ کچھ اور بھی کہہ رہا تھا لیکن عشنا نے اُس کی بات کاٹ دی۔

"پلیز۔۔۔پلیز یہاں سے چلیں۔۔۔ہم۔۔۔ہم کار سے چلے جاتے ہیں نہ۔۔ پلیز۔۔۔مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔۔۔۔"

عشنا کے آنکھوں میں خوف اور دہشت کے سائے لہرا رہے تھے۔

"عشنا یار کچھ نہیں ہوگا ۔۔۔میں ہوں نہ۔۔۔۔ریلیکس کرو خود کو۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُسے سمجھانا چاہا۔

"نہیں۔۔۔پلیز۔۔۔مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔۔۔۔"

عشنا نے آنسوؤں کے درمیان نہیں کہا

عالمگیر عشنا کو یوں روتا دیکھ کر تڑپا ہی تو گیا۔ 

اسنے اُس کا بایاں ہاتھ پکڑ کر اپنے ہاتھ میں لے کر دوسرا ہاتھ اُس پر رکھ کر اُس پر دباؤ ڈالا۔

"عشنا ۔۔۔۔یہاں دیکھو میری طرف۔۔۔"

اُس نے عشا کی جھکی گردن کو دیکھتے ہوئے کہا 

عشنا نے بھیگی پلکیں اٹھا کر عالمگیر کو دیکھا۔

"میں ہوں نہ تمہارے ساتھ۔۔۔۔مجھ پر بھروسہ کرتی ہو نا؟  میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دونگا۔۔مجھ پر یقین رکھو۔۔۔"

عالمگیر عشنا کے آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا تو عشنا نے اثبات میں سر کو جنبش دی۔

"اب آنسو صاف کرو شاباش۔۔۔۔"

عالمگیر  نے رومال نکال کر اس کی طرف بڑھایا تو اُس نے آہستہ سے رومال لے کر آنسو صاف کیے۔

فلائٹ نے اڑان بھرنی شروع کی تو عشنا نے عالمگیر کے بازو کو زور سے پکڑ کر آنکھیں میچ لی۔

آنسو اُس کی آنکھوں سے پھر  بہنے lage

 نے آہستہ سے اپنا ہاتھ عشنا کے ہاتھوں پر رکھ کر اُسے تسلی دینی چاہی۔

سارے سفر میں وہ یوں ہی عالمگیر کا بازو دبوچے آنکھیں میچے بیٹھی رہی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


لاہور ایئرپورٹ پر عالمگیر عشنا کا بیگ تھامے دوسرے ہاتھ میں لیپ ٹاپ بیگ لیے پارکنگ میں اپنی کار جو اُس نے یہاں آنے سے پہلے بک کر رکھی تھی اُس کی طرف بڑھا۔

عشنا اُس کے ساتھ چلتی کار کا دروازہ کھول کر فرنٹ سیٹ پر بیٹھی۔ابھی وہ کار اسٹارٹ کر ہی رہا تھا کے اُس کا فون بجا۔دوسری طرف رحمت بیگم تھیں۔

"السلام علیکم امی۔۔۔۔"

عالمگیر نے کال آن کرتے ہی اُنھیں سلام کیا۔

"اوہ۔۔۔۔۔سیڈ۔۔۔۔اچھا۔۔۔ٹھیک ہے ہم آ رہے ہیں۔۔۔۔امی سنبھالے خود کو۔۔۔۔ہاں۔۔۔ہم پہنچ رہے ہیں۔۔۔۔"

کہہ کر اُس نے کال کاٹ دی اور عشنا کی طرف دیکھا جو اُسے ہی دیکھ رہی تھی۔اُس کی آنکھوں میں اُبھرے سوال کو وہ سمجھ چکا تھا 

"Naani is no more"

( نانی اب ہمارے بیچ نہیں رہیں۔۔۔)

عالمگیر نے آہستہ سے کہا اور کار ہسپتال کی طرف موڑ لی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


وہ لوگ ڈائریکٹ  ہسپتال پہنچے تھے۔

کوریڈور میں ہی عشنا نے ابراہیم صاحب،کوثر بیگم اور رحمت بیگم کو دیکھا۔

ابراہیم صاحب بینچ پر سر جھکائے بیٹھے تھے جب کہ کوثر بیگم اور رحمت بیگم روتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھی تھیں۔

"عشنا چلتی ہوئی کوثر بیگم کے پاس آئی اور اُنکے کندھے پر ہاتھ رکھا تو وہ اُسے دیکھ کر کھڑی ہو گئی اور اُس کے گلے مل کر رونے لگیں۔

رحمت بیگم بھی زارو قطار رو رہیں تھی۔

"امی۔۔۔پلیز۔۔۔ایسے تو نہ روئیں۔۔۔دادی کی روح کو تکلیف ہوگی۔اور پھوپھو سنبھالے خود کو۔۔۔"

عشنا جو کے خود رو رہی تھی اُنھیں حوصلا دیتے ہوئے بولی۔

عالمگیر چلتا ہوا ابراہیم صاحب کے پاس آیا اور اُنکے کندھے پر دباؤ ڈال کر اُن کے برابر میں بیٹھ گیا۔

تھوڑی دیر بعد ہارون صاحب اور شاہین بیگم بھی آ گئے۔ 

اور سب ڈیڈ باڈی لے کر گھر کے لیے نکل گئے۔

عالمگیر نے تدفین کے سارے  انتظامات کیے کیونکہ ابراہیم صاحب بہت زیادہ پریشان ہال لگ رہے تھے۔

سارے مرحلے طے پا گئے۔ عالمگیر رات 11 بجے گھر واپس آیا۔

وہ کل کے لیے انتظامات کرنے گیا تھا۔ کل لوگو نے تعزیت کے لیے آنا تھا اور ابراہیم صاحب کی حالت ایسی نہیں تھی کے وہ یہ سب کرتے۔

گھر آ کر وہ کمرے میں آ گیا اور سونے کے ارادے سے بیڈ کی طرف بڑھا۔

بیڈ تک جاتے اُسکی نظر سامنے ٹیبل پر رکھی کھانے کی ٹرے پر پڑی۔ شاید عشنا نے اُس کے آنے سے پہلے ہی کھانا رکھ دیا تھا۔

وہ بیزاری سے کھانے کی ٹرے دیکھتا بیڈ پر آ کر سونے کے لیے لیٹ گیا۔

 کال رات سے  اب تک کی بھاگ دوڑ نے اُس تھکا دیا تھا۔ سارے دن میں اُس نے سوائے ایک کپ چای کے اور کچھ نہیں کھایا پیا تھا لیکن اب بھی اُسے بھوک سے زیادہ نیند کی ضرورت محسوس ہوئی۔ وہ آنکھیں بند کر گیا۔ اور تھوڑی ہی دیر میں نیند کی وادیوں میں اتر گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


دوسرے دن لوگو کا تانتا بندھا رہا۔ بہت سے لوگ تعزیت کے لیے آ رہے تھے۔

عالمگیر صبح سے ہی کام میں لگ گیا تھا۔ سارے انتظام وہی دیکھ رہا تھا۔

ہارون صاحب دوسری صبح شاہین بیگم کے ساتھ کراچی لوٹ گئے تھے۔

رحمت بیگم کو ایک چپ سی لگ گئی تھی۔اُنھیں اپنے آپ پر شدید غصّہ تھا کے وہ امی کے آخری دنوں میں اُن کے ساتھ نہیں رہ پائیں تھی۔ یہ بات اُنھیں اندر ہی اندر کھائے جا رہی تھی۔ اور اُنہوں نے فیصلہ کر لیا کے اب وہ کچھ دن یہی اپنے لاہور والے گھر میں جہاں سجّاد صاحب سے شادی کے بعد وہ رخصت ہو کر آئیں تھیں،وہیں رہیں گی۔

عشنا کوثر بیگم اور رحمت بیگم کو سنبھالے ہوئے تھی۔اُنھیں حوصلا دیتی، ضد کر کے کھانا کھلاتی، زبردستی اُنھیں نیند کی گولیاں دی کر سلاتی۔ وہ اپنا آپ بھلائے اُن کی خدمات میں لگی تھی۔ ساتھ ہی اُس نے عالمگیر کو سارے کام کرتے دیکھا تھا۔ کیسے وہ بیٹوں کی طرح اُس کے ابّو کی ساری ذمےداریاں سنبھال رہا تھا۔ اُس کے دل میں عالمگیر کے لیے عزت اور بڑھ گئی۔ 

عشنا نے یہ بھی دیکھا تھا کہ سارے کام کے دوران وہ اپنا آپ بھول چکا ہے۔ نہ ہی کھاتا ہے نہ پیتا ہے۔ اس لیے اُس نے اُس کے آنے سے پہلے ہی کھانا اُس کے کمرے میں رکھ دیا تھا لیکن صبح جب ملازم کھانے کے ٹرے ویسی ہی واپس لے گیا تو اُسے دیکھ  کر عشنا کو دکھ ہوا تھا۔ اور اب بھی وہ صبح سے بنا کچھ کھائے پیے کاموں میں لگا تھا۔

سارا دن ہی گھر لوگو سے بھرا رہا۔ عالمگیر یہاں کے انتظامات دیکھنے کے بعد باقی دنوں کے بھی انتظامات کرنے باہر چلا گیا۔

کل اُسے واپس اسلام آباد جانا تھا اور وہ جانے سے پہلے سارے انتظامات کردینا چاہتا تھا تا کہ ابراہیم صاحب کو کوئی پریشانی نہ ہو ۔

رات 2 بجے وہ واپس آیا تو عشنا صوفے پر سر ٹکائے شاید سو رہیں تھی۔ عالمگیر نے بنا کچھ کہے کچھ پل ایسے ہی اُسے سوتا دیکھا اور پھر قدم اپنے کمرے کی طرف بڑھا دیا۔ عشنا اُس کے قدموں ہی آہٹ سے اٹھی اور اُسے پُکارا۔

"عالم۔۔۔عالمگیر بھ۔۔"

عشنا کی پُکار پر عالمگیر مڑا اور ابھی وہ بھائی کہنے ہی جا رہی تھی کے اُس کی بات کاٹ کر بولا۔

"عشنا میں بہت تھک گیا ہوں۔۔۔تم بھی کمرے میں جا کر آرام کرو۔" 

کہتا وہ پھر سے قدم بڑھا چکا تھا۔

"سُنیں۔۔۔۔کھانا کھا لیں۔۔۔کل سے آپ نے کچھ نہیں کھایا ہے۔۔۔میں کھانا لاتی ہو۔۔۔سوئیے گا نہیں۔۔۔۔۔۔"

عشنا نے پھر سے پُکارا تو  وہ بنا کچھ کہے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ 

اُس کے جاتے ہی عشنا بھی کچن میں بھاگی اور جلدی جلدی کھانا گرم کر کے ٹرے میں رکھ کر کچن سے باہر جانے لگی تب ہی عالمگیر کچن میں داخل ہوا اور کچن میں رکھی چھوٹی سی ٹیبل کے پاس رکھی چیئر گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔

سفید کرتا شلوار میں دھولے دھولے چہرے کے ساتھ وہ فریش  فرش سا لگتا تھا۔

عشنا نے اُسے بیٹھتے دیکھا تو ٹرے ٹیبل پر رکھ کر اُس کے لیے کھانا نکال کر اُس کی پلیٹ میں رکھا۔

عالمگیر چپ چاپ نظریں جھکائے کھاتا رہا۔ اُسے بھوک تو نہیں تھی لیکن عشنا کے اس طرح دیر رات تک اُس کے لیے جاگ کر کھانے کے لیے پوچھنا اُس  کھانے کے لیے آنے پر مجبور کر گیا تھا۔

اُس نے چھوٹے چھوٹے لقمے کھاتے عشنا  کو دیکھا جو اُس کے سامنے والی چیئر پر بیٹھی اُس کے کھانا ختم کرنے کا انتظار کر رہی تھی ۔

"تم جا کر ریسٹ کرو "

اُس نے اُس کے آرام میں خیال سے کہا۔

"نہیں۔۔۔آپ کھا لیں۔۔۔میں یہی ہو۔۔۔ایک بار آپ نے ہی کہا تھا کے آپ کو اکیلے کھانا کھانا پسند نہیں۔۔۔۔اس لیے شاید آپ نے کل رات بھی نہیں کھایا تھا"

عشنا نے اُسے دیکھتے ہوئے کہا۔

"ہاں ۔۔کل رات میں تھک گیا تھا۔ ویسے تمہیں اتنی رات تک جاگنے کی زحمت ہوئی سوری۔۔۔اینڈ تھینکس کھانے کے لیے۔"

عالمگیر نے تشکورانہ انداز میں کہا۔

 " کل سے آج تک بنا  کچھ کھائے پیے آپ سارے انتظامات دیکھتے رہیں ہیں تو کیا میں آپ کے لیے اتنا نہیں کر سکتی؟"

عشنا نے اُس سے کہا تو اُس کے لبوں پر ہلکی سے مسکراہٹ اُبھری۔

 "مطلب میرے ہے عمل پر نظر ہے محترمہ کی۔"

اُس نے دل میں سوچا۔

"ہمم۔۔۔کل کی اور ب باقی دنوں کی جو بھی رسمِ ہیں اُس کی تیاری کر دی ہے میں نے۔۔ اُن ہی سب میں کھانے کا دھیان  نہیں رہا۔

عشنا نے تشکورنہ انداز میں اُسے دیکھا۔

"وہ مجھے آپ سے کچھ بات کرنی تھی۔۔۔"

عشنا نے اُس سے دھیرے سے کہا۔

"بولو۔۔۔"

عالمگیر کھانا کھا چکا تھا اور اب اُس کی بات سننے کا منتظر تھا۔

" وہ پرسو سے میرے مڈ ٹرم ایگزامز اسٹارٹ ہو رہے ہیں۔ تو مجھے اسلام آباد جانا ہے کل۔"

اُس نے نظریں نیچے رکھتے ہوئے اُسے بتایا۔

"ہمم۔۔۔۔ چلو میں کل تمہیں اپنے ساتھ لے جاؤنگا۔ میں تھوڑی ہی دیر میں ایئرپورٹ کے لیے نکل رہا تھا لیکن چلو اب صبح ہی چلتے ہیں ۔"

عالمگیر نے کہا اور کمرے میں آ کر نادر کو اُس کی فلائٹ کینسل کرنے کا میسیج بھیج دیا۔ آج صبح 8 بجے کی اُس کی فلائیٹ تھی لیکن عشنا کے بتانے پر وہ فلائٹ کینسل کر کے بائے روڈ جانے کا ارادہ رکھتا تھا۔ عشنا کی فلائٹ کے ڈر کو وہ دیکھ چکا تھا اور اب وہ اُسے ایسے ڈرتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتا تھا اس لیے بائے روڈ اسلام آباد جانے کا فیصلہ کیا اور بیڈ پر لیٹ کر آنکھیں موند لی۔


عشنا بھی کمرے میں آ کر سونے کے لیے لیٹ گئی۔ ابراہیم صاحب اور کوثر بیگم سے وہ پہلے ہی پوچھ چکی تھی۔ اُس کے ایگزیمس کو مدِ نظر رکھتے اُنہونے اُسے اجازت بھی دے دی تھی۔۔


صبح 6 بجے ہی عالمگیر عشنا کو لے کر اسلام آباد کے لیے نکل گیا تھا۔ اب صبح کے 8 بج رہے تھے ۔ وہ لوگ لگ بھگ آدھا سفر طے کر چکے تھے۔

عالمگیر نے ایک ڈھابے پر کار روک کر اعشنا کو ساتھ کے کر اندر آیا اور دونوں نے ناشتہ کیا۔ ناشتہ کرنے کے بعد پھر سے عالمگیر نے کار اسٹارٹ کر دی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح 9 بجے کے قریب وہ لوگ گھر پہنچے تو عالمگیر اپنے کمرے میں چینج کرنے چلا گیا اور عشنا اپنے کمرے میں۔

تھوڑی دیر بعد عالمگیر چینج کر کے آیا ۔

"عشنا۔ ۔۔۔عشنا۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُسے اُس کے کمرے کے باہر سے ہی آواز دی۔

"جی۔۔۔"

وہ "جی " کہتی باہر آئی تھی۔

ہلکے آسمانی رنگ کے کرتا شلوار میں اُس کا ہی ہمرنگ دوپٹہ سر پر جمائے دھلی دھلی وہ اس کے سامنے کھڑی تھی۔ اُس کے بالوں سے ٹپکتے پانی کے قطرے اُس کے ابھی ابھی نہا کر آنے کی گواہی دے رہے تھے۔

کچھ پل کو عالمگیر کچھ  بول ہی نہیں پایا۔

عشنا نے اُسے یوں خود کو دیکھتے پایا تو اپنا دوپٹہ جو سر پر پہلے ہی جمع رکھا تھا صحیح کرنے لگی۔ عالمگیر اُس کی اس حرکت پر زارا سا مسکرایا اور رخ موڈ کے کھڑا ہو گیا۔ شاید وہ عشنا کے غیر مطمئن ہونے کی وجہ سے ایسا کر گیا تھا یہ شاید اگر وہ یوں ہی اُس کے سامنے رہتی تو شاید عالمگیر اپنی آنکھیں اُس پر سے ہٹا نہ پاتا اس لیے رخ موڈ گیا تھا۔

"میں آفس جا رہا ہوں۔۔۔تمہیں کچھ کام ہو تو مجھے کال کر لینا"

 کہتا وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا پورچ میں کھڑی اپنی کار کے پاس آکر اُس میں بیٹھا اور کار باہر نکالا لے گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

2 دِن بعد۔۔۔

"امی آپ کب تک واپس آ رہی ہیں۔۔۔۔؟"

عالمگیر کان سے موبائل لگائے آفس کی سیڑھیاں اُتر رہا تھا۔

اُس کی کوئی میٹنگ تھی جسے اٹینڈ کرنے کے لیے وہ پارکنگ میں اپنی کار کی طرف جا رہا تھا۔

"بیٹا۔۔۔میں اب کچھ مہینے یہیں رہنا چاھتی ہو۔۔۔مجھے اس بات کا بہت افسوس ہے کہ امی کے آخری وقتوں میں،میں انکے پاس نہیں تھی۔ اور اب اس گھر میں رہتے مجھے تمہارے ابّو کے ہونے کا احساس رہتا ہے۔۔بہت سکون ہے یہاں۔ جب میں شادی کر کی آئی تھی تو تمہارے ابّو مجھے یہیں لے کر آئے تھے۔ اس گھر سے بہت سے یادیں جڑی ہیں۔ اسلام آباد میں تو وہ اپنے بزنس میں مصروف ہوتے تھے۔ جب وقت ملتا مجھے لے کر یہاں آ جاتے تھے۔ یہاں ہر طرف اُنکی یادیں بکھری پڑی ہیں۔ میں اب یہی رہنا چاھتی ہو۔۔۔تم بھی یہیں آ جاؤ۔۔۔"

رحمت بیگم نے کہا تو عالمگیر نے کرب سے آنکھیں بند کر لی۔ سچ ہی تو کہہ رھیں تھی وہ۔ سجّاد صاحب کے ساتھ بتائے بہت سے یادگار لمحے تھے اُس گھر میں۔

"امی۔۔۔آپ جانتی ہیں میرا بزنس سارا یہاں ہے۔۔۔میں وہاں نہیں آ سکتا۔۔۔۔۔"

اُس نے آہستہ سے سمجھانے والے انداز میں کہا۔

"ٹھیک ہے بیٹا۔۔۔تم وہیں رہو۔۔۔بس وقت نکال کر آ جایا کرنا۔"

کہنے کے ساتھ اُنہونے فون رکھ دیا۔

عالمگیر نے گہری سانس لیے کر فون ڈیش بورڈ پر ڈالا اور سن گلاسز لگاتا کار اسٹارٹ کر کے میٹنگ پوائنٹ کو طرف موڑ لی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ڈوبتے سورج کی سنہری کِرنیں کھڑکی سے ہو کر عالمگیر کی ٹیبل پر پڑ رہی تھیں۔ 

وہ انہماک سے بیٹھا لیپ ٹاپ پر کوئی پریزنٹیشن بنا رہا تھا۔ 

فون بجنے پر اُس نے ایک ہاتھ بڑھا کر فون اٹھایا لیکن نظریں سکرین پی ہی مرکوز رکھی۔

"ہیلو۔۔۔۔"

"ہیلو۔۔۔عالمگیر۔۔۔۔"

ابراہیم صاحب کی آواز سن کر وہ پوری طرح سے فون کی طرف متوجہ ہوا۔

"جی۔۔۔۔مامو۔۔۔۔"

وہ ادب سے بولا۔

"بیٹا میں رحمت آپا کے پاس گیا تھا۔ اُنہونے نے بتایا کہ اب وہ یہیں لاہور میں رہینگی۔"

ابراہیم صاحب نے آہستہ سے کہنا شروع کیا۔

"جی مامو۔۔۔امی کی کال آئی تھی صبح۔۔۔"

اُس نے بتایا ۔

"بیٹا اگر آپا یہاں رہنا چاہتی ہیں تو۔۔۔تو۔۔۔۔"۔

وہ کچھ کہتے کہتے رکے۔

"جی مامو۔۔۔بتائیے کیا کہنا چاہتے ہیں آپ۔۔۔۔"۔

عالمگیر نے اُن کی ادُھوری بات پر تجسّس نے پوچھا 

"بیٹا میں چاہتا ہوں کے عشنا اب لاہور آ جائے۔ جب تک آپا وہاں تھیں تب تک ٹھیک تھا لیکن اب تمہارا اور عشنا کا ایسے ایک گھر میں رہنا ٹھیک نہیں۔۔۔"

اُنہونے رک رک کر بات پوری کی۔

"مامو آپ یہ کیسی باتیں کر رہیں ہیں۔۔۔۔کیا آپ کو مجھ پر بھروسہ نہیں؟"

عالمگیر نے حیرت سے پوچھا۔

"بیٹا تم پر عشنا پر مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ یقین ہے۔لیکن بیٹا ہم لوگو کی زبان بھی نہیں روک سکتے نہ۔۔۔تمہارے اور عشنا کے اس طرح اکیلے رہنے پر لوگ طرح طرح کی بات بنا رہے ہیں۔"

اُنہونے اُسے زمانے کی حقیقت بتانے کی کوشش کی۔

"مامو لوگو کا تو کام ہی ہے کہنا۔۔۔آپ اُن کی باتوں پر دھیان مت دیجئے۔۔۔"

اُس نے اُنھیں تاکید کرتے کہا۔

"بیٹا عشنا لڑکی ہے۔۔ کل کو مجھے اُس کی شادی کرنی ہے۔۔۔اور میں نہیں چاہتا کہ کوئی اُس کے کردار کے بارے میں آج یہ آگے چل کر کوئی بات کرے۔"

اُنہونے پھر سے کہا۔

"ٹھیک ہے مامو۔۔۔میں اُسکا بھی حل ڈھونڈھتا ہوں۔ لیکن عشنا کا  سال برباد مت کریں۔چاہیے تو اگلے سال اُسے لاہور لے جانا۔ ابھی تو اُسے کسی کالج میں ایڈمیشن بھی نہیں ملےگا۔"

اُس نے اُنھیں رسان سے سمجھایا۔

"ٹھیک ہے بیٹا ۔۔۔آپ مجھے بتا دو۔۔لیکن میں اب بھی کہونگا کے عشنا کو اب یہاں آ جانا چاہیے۔"

وہ اب بھی ماننے کو تیار نہیں تھے۔

"ٹھیک ہے مامو۔۔۔۔میں کال کرتا ہوں۔۔۔"

کہہ کر اُس نے کال کاٹ دی۔

"عشنا یہاں سے چلی جائیگی؟ میں کیسے رہ پاونگا؟ ابھی کم سے کم وہ میرے سامنے تو ہے۔ نہیں۔۔میں اُسے جانے نہیں دے سکتا۔"

عالمگیر نے دل میں سوچا ۔ اُسے عشنا کا لاہور جانے کا سوچ کر ہی پریشانی نے آ گھیرا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

4 دِن بعد

"ہیلو عالمگیر۔۔۔۔"

عالمگیر جو میٹنگ کے لیے ہوٹل میں آیا ہوا تھا اور اب میٹنگ ختم کر کے ہاتھ میں کوٹ تھامے  باہر کی طرف بڑھ رہا تھا کسی کے پکارنے پر مڑا اور پکارنے والے کو دیکھا۔

"تم؟"

سنبل کو دیکھ کر عالمگیر نے حیرت سے پوچھا۔

"ہاں میں۔۔۔کیسے ہو؟"

سنبل نے مسکرا کر پوچھا

"تم سے کوئی مطلب نہیں ہونا چاہیے"

کہہ کر وہ مڑا۔

"مطلب توبہت سارے ہیں آخر ایک سال منگنی رہی ہے ہماری "

سنبل نے ایک ادا سے کہا۔

"شٹ اپ سنبل۔۔۔اب ہمارے بیچ کوئی تعلق نہیں۔۔۔ اب مجھ سے بات کرنے کی یہ میرے راستے میں آنے کی کوشش بھی مت کرنا"

عالمگیر نے وارن کرنے والے انداز میں کہا ۔

"کیوں ۔۔مجھے کوئی بیماری ہے جو مجھ سے بات کرنے پر تمہیں لگ جائیگی؟"

وہ مسکرا کر بولی۔

"یہی سمجھ لو۔۔۔"

وہ لحظے میں نفرت سموئے بولا۔

"عالمگیر ۔۔۔۔چلو پرانی باتیں بھول جاتے ہیں اور دوستی کر لیتے ہیں۔۔"

"بلکل نہیں۔۔۔مجھے تم سے  نہ دوستی رکھنی ہے نہ دشمنی"

عالمگیر نے اُسی لحظے میں کہا۔

"ہنہ۔۔۔۔۔سمجھتے کیا ہو تم خود کو ہاں؟ کوئی بہت بڑی توپ ہو۔۔۔ تمہارا یہ غرور میں ایک جھٹکے میں توڑ سکتی ہوں۔۔۔سمجھے تم؟"

وہ بھی تعیش میں آ گئی۔

"جاؤ۔۔۔جا کر یہ بھی کر لو۔۔۔میں بھی تو دیکھوں تم کر کیا سکتی ہو۔۔۔"

عالمگیر نے طنزیہ مسکراہٹ سے کہا۔

"کر تو بہت کچھ سکتی ہوں۔۔۔جلد ہی اُس کا ٹریلر تمہیں دیکھا دونگی۔۔۔ جسٹ ویٹ اینڈ واچ ۔۔۔"(صرف انتظار کرو اور دیکھو)

سنبل نے چیلنج کرتے ہوئے کہا۔

"I will wait...."

( میں انتظار کرونگا)

عالمگیر نے بھی اسی طرح کہا 

"ویسے ۔۔۔تماری عشنا کس کالج میں پڑھتی ہے مجھے پتہ ہے۔۔۔کہو تو ۔۔۔۔۔؟"

سنبل نے اتراتے ہوئے کہا لیکن عالمگیر جو کب سے کھڑا اُس کی بکواس سن رہا تھا عشنا کا نام اُس کی زبان پر آتے ہی اُس نے کوٹ کو فرش پر پٹکنے والے انداز میں پھیکا اور سنبل کے گردن پر ہاتھ رکھ کر اُس کی گردن کو اپنے گرفت میں لے لیا۔

"خبردار۔۔۔۔خبردار جو تم نے عشنا کہ نام بھی اپنی گندی زبان سے لیا بھی۔ جان سے مار دونگا میں تمہیں۔۔۔۔سمجھی؟"

عالمگیر نے اُس کی گردن پر دباؤ بڑھاتے ہوئے کہا  اور جھٹکے سے اُس کی گردن چھوڑ دی۔

 سنبل جو اُس کے ہاتھ کو اپنے گردن سے ہٹانے کی کوشش کر رہی تھی،عالمگیر کے جھٹکا دے کر گردن چھوڑنے پر بری طرح کھانسنے لگی۔

عالمگیر غصے سے ایک نظر اُس پر ڈالتا وہاں سے واک آؤٹ کر گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"عشنا رکو۔۔۔۔۔"

عشنا جو آخری کلاس لے کر گیٹ کی طرف کھڑی اپنی کار کی طرف جا رہی تھی ،محویش کی آواز پر رکی۔ محویش بھاگتی ہوئی اُس کے پاس آئی۔

"عشنا کیا تم مجھے آج گھر ڈراپ کر سکتی ہو؟ دراصل آج میرا ڈرائیور نہیں آیا اور صبح بھی میرے بھائی نے مجھے کالج ڈراپ کیا تھا۔لیکن ابھی وہ آفس میں ہے تو مجھے لینے نہیں آ سکتے اور بسو اور ویگنوں میں مجھے سفر کرنے سے بہت ڈر لگتا ہے۔پلیز۔۔۔اگر بھائی آ سکتے تو تمہیں زحمت نہ دیتی۔"

محویش التظائیا انداز میں بولی تو عشنا مسکرا دی۔

"کوئی بات نہیں محویش۔۔۔آجاؤ۔۔۔میں تمہیں ڈراپ کر دیتی ہوں۔۔۔"

عشنا نے کہا تو دونوں کار کی طرف بڑھ گئی۔

وہ دونوں کار میں بیٹھ گئیں تو عشنا نے محویش سے ڈرائیور کو ایڈریس سمجھانے کا کہا۔ محویش نے سارا ایڈریس ڈیٹیل میں ڈرائیور کو سمجھا دیا تو ڈرائیور نے کار آگے بڑھا لی۔

ابھی وہ لوگ کچھ ہی دور آئے تھے جب محویش نے کار رکوا دی۔

"عشنا ۔۔۔مجھے دو منٹ دو بس ۔ میں سامنے سے کھانا پیک کروا لو۔۔۔۔صرف دو منٹ۔۔۔"

اُس نے کہا تو عشنا نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ محویش کار سے نکل کر ریسٹورینٹ کی طرف بڑھ گئی۔

عشنا نے کھڑکی سے  محویش کو اندر جاتے دیکھ اور ساتھ ہی عالمگیر کو نکلتے بھی دیکھا وہ تیزی سے پارکنگ کی طرف بڑھا اور کار میں بیٹھ کر کار وہاں سے نکال لے گیا۔

"شاید کسی میٹنگ کے لیے آئے ہوں گے۔۔۔۔"

اُس نے دل میں سوچا اور اُسے طرف دیکھتے محویش کا انتظار کرنے لگی۔جب وہ کافی دیر تک نہیں آئی تو عشنا کار سے نکل کر ریسٹورینٹ کی طرف بڑھی تا کہ دیکھ سکے کہ اُسے اتنا وقت کیوں لگ رہا ہے۔

جیسے ہی اندر داخل ہونے لگی کسی سے بری طرح ٹکڑا گئی۔

"اوہ۔۔۔مجھے معاف کرنا۔۔۔سوری ۔۔۔"

عشنا کہتی سیدھی ہوئی تو دیکھا سامنے سنبل کھڑی ہے۔

"تم کیا عالمگیر پر جاسوسی کرتی رہتی ہو؟ جہاں عالمگیر آئے تم پہنچ جاتی ہو۔۔۔ "

سنبل نے کوٹ تھامے ہاتھ کو دوسرے ہاتھ میں باہم پھنسا کر اُسے کڑے تیوروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔

"میں۔۔۔میں۔۔تو۔۔۔میں یہاں اپنی اپنی دوست کے ساتھ۔۔۔۔مجھے نہیں پتہ تھا آپ اور عالمگیر یہیں ہیں۔۔۔۔"

اُس نے آہستہ سے کہا۔ ساتھ ہی اُس نے سنبل کے ہاتھ میں عالمگیر کے کوٹ کو بھی دیکھا ۔جو وہ فرش پی پھینک گیا تھا۔ اب سنبل کے ہاتھ میں تھا۔

"ہاں۔۔۔ہم ابھی یہیں تھے۔۔۔اُسے کوئی کال آ گئی تو جانا پڑا۔ہمارے بیچ کوئی غلط فہمی ہو گئی تھی۔ لیکن اب سب کچھ ٹھیک ہے۔۔تمہیں تو پتہ ہی ہے عالمگیر مجھ سے کتنی محبت کرتا ہے۔۔زیادہ دِن مجھ سے دور نہیں رہ پایا اور بھاگا بھاگا میرے پاس آ گیا۔"

سنبل نے مسکراتے ہوئے ایک ادا سے بتایا۔ وہ عشنا کو عالمگیر کا کوٹ دیکھتے بھی دیکھ چکی تھی۔

"اور ہاں۔۔۔۔دیکھو تو۔۔جلدی جلدی میں وہ اپنا کوٹ میرے پاس ہی بھول گیا ۔۔چلو یہ تم اُسے دے دینا۔ اور کہنا سنبل نے تمہیں پیار بھیجا ہے۔"

کہہ کر وہ کوٹ عشنا کے ہاتھ میں رکھ کر آگے بڑھ گئی۔

عشنا کے کانوں میں اُس کی آواز گونجتی رہی۔

"عالمگیر مجھ سے کتنی محبت کرتا ہے۔۔زیادہ دِن مجھ سے دور نہیں رہ پایا اور بھاگا بھاگا میرے پاس آ گیا۔"

عشنا کے آنکھوں سے آنسوؤں بہنے لگے جنہیں اُس نے بے دردی سے اپنے ہتھیلی کی پشت سے صاف کیا۔

"عشنا تم یہاں۔۔۔سوری یار۔۔تھوڑا وقت لگ گیا۔۔چلو۔۔۔یہ تمہیں کیا ہوا۔ اور یہ کوٹ یہ کس کا ہے؟"

محويش جو اُسے چلنے کا کہہ رہی تھی ساتھ ہی اُس کے آنسوؤں دیکھ کر  سوال پوچھنے لگی۔

"نہیں۔۔کچھ نہیں۔۔۔شاید کچھ چلا گیا ہی میری آنکھ میں ۔۔۔چلو۔۔۔ "

عشنا نے کہا اور تیزی سے باہر نکل گئی۔ سارے راستے وہ چپ رہی۔

محویش کو ڈراپ کر کے وہ گھر آئی اور کمرے میں بند ہو کے خوب روئی۔ 

"مجھے لگا تھا کے آپ کو مجھ سے۔۔ کتنی فکر کرتے تھے آپ میری۔۔۔کتنا خیال رکھتے تھے میرا۔۔۔اور وہ جو میں نے آپ کی آنکھوں میں دیکھا تھا؟ کیا وہ  سب جھوٹ تھا؟سب کچھ سراب تھا۔۔۔میری آنکھوں کا دھوکا تھا۔۔"

وہ روتے روتے سوچے جا رہی تھی۔

"ٹھیک ہے۔۔۔اگر آپ سنبل سے محبت کرتے ہیں۔۔۔اور اگر ایک بار پھر وہ آپ کی زندگی میں واپس آ گئی ہے تو ٹھیک ہے۔۔۔ میں اب آپ دونوں کے بیچ نہیں آؤنگی۔۔۔۔میں چلی جاؤنگی۔۔۔آپ کی زندگی سے دور۔۔۔بہت دور۔۔۔"

سوچتے سوچتے وہ ایک بار پھر فوٹ فوٹ کے رو دی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عالمگیر رات 9 بجے گھر آیا تھا۔ لاؤنج سنسان پڑا تھا۔عشنا شاید اپنے کمرے میں تھی۔ 

وہ اپنے کمرے میں آ کر چینج کرتا ڈائننگ ہال میں آیا تب بھی عشنا نظر نہیں آئی۔

"عشنا کہاں ہے۔۔۔بلاؤ اُسے۔۔۔"

عالمگیر نے ملازم سے کہا۔ اتنے دنوں میں عالمگیر روز 8 یہ 9 بجے تک گھر آ جاتا تھا کیونکہ عشنا گھر پر اکیلی ہوتی تھی۔ عشنا بھی لاؤنج میں بیٹھ کر اُس کا انتظار کیا کرتی تھی اور اگر کبھی کمرے میں ہوتی تو اُس کے آتے ہی اُس کے لیے پانی اور کھجور بھجوا کر ملازم کے ساتھ کھانا لگواتی اور خود کھانا سرو کرتی تھی۔ دونوں ساتھ کھانا کھاتے تھے۔

صبح وہ جلدی نکل جاتا تھا تو عشنا سے ملاقات نہیں ہو پائی تھی۔ بس رات میں ہی کھانا کھانے کے دوران وہ اُسے دیکھ پاتا تھا اور آج تو وہ نظر ہی نہیں آ رہی تھی۔

"سر میم نے کہا ہے کہ اُن کے سر میں درد ہے۔۔۔۔اُنھیں ڈسٹرب نہ کیا جائے۔۔۔"

ملازم جو عشنا کو بلانے گیا تھا واپس آ کر بولا۔

"ٹھیک ہے۔۔۔۔"

کہہ کر وہ اٹھا اور عشنا کے کمرے کی طرف آیا۔ 

کمرے میں قدم رکھا تو دیکھا عشنا بیڈ پر الٹی لیٹی چہرہ تکیوں میں چھپائے شاید رو رہی تھی۔

اُس کے ہلکے ہلکے ہلتے بدن سے عالمگیر نے یہی انداز لگایا۔

"عشنا ۔۔۔"

عالمگیر نے اُسے پُکارا تو عشنا جھٹکے سے سیدھی ہوئی اور ایک نظر اُسے دیکھ کر بیڈ سے اٹھی اور کھڑکی کی طرف رخ موڈ کے کھڑی ہو گئی۔

بلیک کلر کے ملگجے کرتے شلوار میں بکھرے بال،بہتے آنسوؤں کے ساتھ وہ سوگوار لگتی تھی۔

عالمگیر نے اُس کی سرخ آنکھوں کو دیکھا تو تڑپ اٹھا ۔ اُس کی سرخ آنکھیں اُس کے بہت دیر سے رونے کو چغلی کھا  رہے تھے۔

عالمگیر چلتا ہوا اُسکے پاس آیا اور چند قدم کے فاصلے پر رکا۔

"کیا ہوا عشنا۔۔۔ کیوں روئی ہو؟"

عالمگیر نے پُکارا لیکن وہ ایسے ہی کھڑی رہی۔

"عشنا میں کچھ پوچھ رہا ہوں تم سے۔۔۔"

جب عشنا کچھ نہیں بولی تو عالمگیر نے ذرا زور سے کہا تو عشنا نے رخ موڑ کر اُسے دیکھا۔

عالمگیر نے اُس کی سرخ آنکھیں دیکھیں تو چاہا اُسے اپنے سینے میں بھینچ کر اُس کے سارے آنسوؤں پونچھ ڈالے لیکن اُس نے خود پر ضبط کے پہرے بیٹھا لیے کیونکہ وہ ابھی عشنا کو چھونے کا حق نہیں رکھتا تھا 

عشنا بس اُسے دیکھے گئی بولی وہ اب بھی کچھ نہیں۔

"عشنا تمہاری خاموشی میری جان لے لیگی ۔۔بتاؤ ہوا کیا ہے۔۔۔تم کیوں رو رہی ہو۔۔۔"

عالمگیر نے پریشان ہو کر پوچھا۔

"کچھ نہیں۔۔۔میرے سر میں درد ہے بہت۔۔۔"

اُس نے نظریں چورا کر کہا ۔

"چلو۔۔۔"

اُس نے کہنے کے ساتھ قدم بڑھائے تو عشنا نے پوچھا۔۔

"کہاں؟"

"چلو ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔۔۔تمہاری آنکھیں بہت سرخ ہو رہی ہیں۔۔۔لگتا ہے سر درد معمولی نہیں ہے۔۔۔"

عالمگیر کے لہذہ فکر سے بھرا ہوا تھا۔

"اتنی فکر ہے پھر کیوں ۔۔۔کیوں مجھ سے ۔۔۔"

عشنا نے دل میں سوچا تو آنسوؤں ایک بار پھر سے رواں دواں ہو گئے۔ اُس نے پھر سے رخ موڈ لیا۔

"عشنا یار تم مجھے اب پریشان کر رہی ہو۔۔۔۔بتاؤ ہوا کیا ہے۔۔۔ "

عالمگیر نے پھر سے وجہ جاننے چابی۔ کیوں کہ اُسے بھی پتہ تھا یہ آنسو سر درد کی وجہ سے نہیں ہیں۔

عشنا چلتی ہوئی ٹیبل تک گئی اور دراز سے ایک پیپر نکال کر عالمگیر کی طرف بڑھایا۔

" اس پر سائن کر دیں۔۔۔"

اُس نے اُسے پیپر تھما کر کہا۔

"کیا ہے یہ۔۔۔ "

عالمگیر نے حیرت سے پہلے اُسے پھر پیپر کو دیکھا اور جیسے جیسے وہ پیپر پڑھتا گیا اُس کی سمجھ میں بات آتی گئی۔ اُس نے پیپر کو چار ٹکڑوں میں تقسیم کر کے بیڈ پر اچھال دیا۔

"تم کہیں نہیں جا رہیں۔۔۔ اگر مامو نے تم سے یہ کہا ہے تو میں نے اس کا حل نکال لیا ہے۔ میں شادی۔۔۔"

"آپ سنبل سے شادی کر لینگے۔۔۔ہے نہ؟"

ابھی اُس کی بات مکمّل نہیں ہوئی تھی کے عشنا نے اُس کی بات کاٹ کر کہا۔

وہ ایک ہوسٹل کا فورم تھا جو عشنا نے عالمگیر کو سائن کرنے کے لیے دیا تھا کیونکہ جب سے وہ یہاں رہنے آئی تھی اُس کے کالج کے سارے فورمز پر ائیز آئے گارجین وہ ہی دستخط کرتا آ رہا تھا ۔اور اب اس ہوسٹل کے فورم پر  بھی اُس کی سائن چاہیے تھی۔


ابراہیم صاحب اُسے دو بار لاہور آنے کا کہہ چکے تھے لیکن وہ اپنا ایک سال برباد نہیں کر سکتی تھی اس لیے اس نے سوچا تھا کے ہوسٹل  میں شفٹ ہو جائیگی لیکن پہلے عالمگیر سے بات کریگی۔  لیکن جو کچھ آج دوپہر میں ہوا اُس کے بعد عشنا نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب وہ ہوسٹل چلی جائیگی اب اور یہاں نہیں رہیگی اس لیے ڈرائیور کو بھیج کر یہ فورم  بھی منگوا لیا تھا۔

عالمگیر نے ناسمجھی سے اُسے دیکھا۔

"سنبل۔۔۔سنبل کہا سے آ گئی بیچ میں۔۔۔میں تو ۔۔۔"

عالمگیر نے اُسے سمجھانا چاہا لیکن اُس نے پھر سے اُس کی بات اُچک لی

"بس کر دیں۔۔۔کیوں جھوٹ بول رھیں ہے؟ وہ تو آپ کی زندگی سے کبھی گئی ہی نہیں تھی۔۔۔اُس کے غم میں آپ نے اپنے آپ کو بھلا دیا۔ اُس کے لیے خود کو بیمار کر لیا۔۔۔اور جیسے ہی وہ واپس آپ کی زندگی آئی آپ پھر سے خوش رہنے لگے ۔۔۔مسکرانے لگے۔"

عشنا نے بھیگی آنکھوں کے ساتھ مسکرا کر کہا۔

"عشنا ایسا نہیں ہے۔۔۔۔میری بات سنو۔۔۔۔"

عالمگیر آگے بڑھا لیکن عشنا اُس سے دور جا کھڑی ہوئی۔

"میں اب اور آپ دونوں کے بیچ نہیں آؤنگی۔۔۔مجھے اب یہاں نہیں رہنا۔۔۔مجھے ہوسٹل جانا ہے۔"

اُس نے اٹل لحظے میں کہا۔

"عشنا یار پلیز میری بات سنو۔۔۔"

عالمگیر نے پریشانی سے اُسے دیکھا۔

"مجھے کچھ نہیں سنا۔۔۔مجھے بس ہوسٹل جانا ہے۔"

اُس نے پھر سے ہوسٹل کا کہا۔

"عشنا تم غلط سمجھ رہی ہو۔۔۔میرے اور سنبل کے بیچ کچھ نہیں ہے ۔۔۔میری بات کو سمجھو۔"

عالمگیر نے سمجھانے والے نداز میں کہا۔

"اچھا۔۔۔تو یہ اُس کے پاس کیا کر رہا ہے۔۔ کیا نہیں ملے تھے آپ آج اُس سے؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بتائیے؟ نہیں تھے آپ دونوں ریسٹورینٹ میں ساتھ۔۔۔؟"

عشنا نے بیڈ کے سائڈ سے کوٹ اٹھا کر اُس کی طرف اچھالا تو وہ اُڑتا ہوا عالمگیر کے قدموں میں جا گرا ۔

عالمگیر حیرت سے کبھی عشنا کو دیکھتا اور کبھی اپنے پیروں میں پڑے اپنے کوٹ کو

"عشنا۔۔۔۔یہ کوٹ کہاں سے آیا تمہارے پاس۔۔۔اور تمہیں کیسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

عالمگیر نے پھر اُس کی طرف قدم بڑھاتے ہوۓ پوچھا۔

"عالمگیر مجھے سچ بتائیں۔۔۔۔آپ سنبل سے ملے تھے آج یہ نہیں۔۔۔۔"

عشنا نے آنسوؤں سے بھیگتے گالوں سے آنسوؤں کو صاف کرتے رندھے ہوئے گلے کے ساتھ کہا۔

"عشنا ۔۔۔میری بات سنو۔۔۔میں سب سمجھاتا ہوں۔۔۔۔"

"ہاں یہ نہ۔۔۔۔؟"

اُس نے عالمگیر کی بات کاٹ کر پوچھا۔

"ہاں میں اُس سے ملا تھا لیکن۔۔۔۔"

ابھی وہ کچھ کہہ ہی رہا تھا کے عشنا نے پھر اُس کی بات کاٹ دی۔

"بس۔۔۔۔۔"

اُس نے ہاتھ اٹھا کر عالمگیر کو کچھ بھی کہنے سے روک دیا۔

"بس ۔۔۔اب مجھے اور کچھ نہیں سننا ہے۔۔۔میں اب یہاں نہیں رہ سکتی۔۔۔مجھے ہوسٹل جانا ہے۔۔۔"

عشنا سے چیخنے والی انداز میں کہا۔

"عشنا ۔۔۔دماغ خراب ہو گیا ہے کیا تمہارا؟ کیوں ایسے جاہل عورتوں کی طرح برتاؤ کر رہی ہو۔۔۔۔؟"

اُس نے کچھ نہیں کہا بس رخ موڈ گئی۔

"عشنا یہاں دیکھو۔۔۔میری طرف۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کے دونوں بازو تھام کر اُس کو اپنے مقابل کیا

اُس نے نظریں جھکائے رکھی۔

"عشنا میری آنکھوں میں دیکھو۔۔۔۔

عالمگیر نے اُسے جھنجھوڑتے ہوئے کہا تو عشنا نے نظریں اٹھا کر اُسکی آنکھوں میں دیکھا۔

عالمگیر کے ہاتھوں میں اس قدر سختی تھی کہ عشنا کو لگا عالمگیر کی اُنگلیاں اُس کے بازوں میں پیوست ہو جائیں گی۔

"عشنا کیا تمہیں مجھ پر ذرا سا بھی اعتبار نہیں؟۔۔۔۔کیا تم میری محبت کو دیکھ نہیں سکتیں؟ کیا میری آنکھوں میں تمہیں اپنے لیے محبت کی شدّت نظر نہیں آ رہی؟ کیا میرے کسی عمل سے تمہیں لگا کے میں تم سے دل لگی کر رہا ہوں؟ بولو عشنا ۔۔۔۔۔دیکھو میری آنکھوں میں اور بتاؤ ان میں تمہیں کیا نظر آ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔؟"

عالمگیر نے اُسکے بازؤں کو زور سے جھٹکتے ہوئے کہا تو عشنا جو بھیگی آنکھوں سمیت اُسے دیکھے جا رہی تھی اپنے ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر زارو قطار روتے روتے فرش پر بیٹھتی چلی گئی۔عالمگیر نے اُس کے بازوں سے ہاتھ ہٹا لیا تھا اور اب وہ اُس کے سامنے دو زانوں ہو کر بیٹھا اور اُس کے ہاتھوں کو چہرے سے ہٹانا چاہا۔ اُس کا عشنا کی طرف بڑھتا ہاتھ ہوا میں ہی رہ گیا کیونکہ اُسکا موبائل بجنے لگا تھا۔

موبائل بجا تو عشنا نے بھی چہرے سے ہاتھ ہٹایا۔ عالمگیر نے جیب سے موبائل نکالا۔ موبائل پر بجتے نمبر کو دیکھ کر اُس کے ماتھے کی رگیں تن گئیں۔

عشنا جو اُسے ہی دیکھ رہی تھی اُس کا موبائل جھپٹنے کے انداز میں لیا اور موبائل اسکرین کی طرف دیکھا جہاں سنبل کا نام فلیش کر رہا تھا۔

"لیجئے۔۔۔۔۔۔آپ کی محبت آپ کو بولا رہی ہے۔"

عشنا نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا تو عالمگیر جو اُسے ہی دیکھ رہا تھا اُس کی بات پر موبائل اُس کے ہاتھ سے لے کر دیوار پر دے مارا۔

موبائل دیوار سے ٹکڑا کر کرچیوں میں بکھر گیا۔

"کل کے کل میں تمہارے ہوسٹل جانے کا انتظام کرتا ہوں۔۔۔۔اپنی پیکنگ کر لینا۔اور ہاں۔۔۔۔اپنی ہر ایک چیز لے جانا یہاں سے۔ چیک کر لینا کچھ رہ نہ جائے۔"

عالمگیر کہتا اٹھا اور کمرے سے باہر آ کر پورچ میں کھڑی کار میں بیٹھ کر کار گیٹ سے باہر نکال لے گیا۔

بہت دیر تک وہ سڑکوں پر بے مقصد کار چلاتا رہا۔ اُس کے اندر ایک طوفان برپا تھا۔ جسے کام کرنے کے لئے وہ گھر سے نکل آیا تھا۔ اگر تھوڑی دیر تک وہ اور گھر میں رک جاتا تو اُسے ڈر تھا کے عشنا اس طوفان کے زد میں نہ آ جائے۔

صبح 5 بجے کے قریب وہ گھر میں داخل ہوا۔ ہر طرف سنناٹوں کا راز تھا۔ وہ چلتا ہوا اپنے کمرے میں آیا اور واشروم میں آ کر شاور کھول دیا۔ بہت دیر تک یوں ہی اُس کے نیچے کھڑا بھیگتا رہا۔

عشنا نے آج اُس کی محبت کی تذلیل کی تھی۔ اُس پر یقین نہ کر کے سنبل کا یقین کیا تھا۔

ابراہیم صاحب کے فون کے بعد وہ کسی صورت عشنا کو لاہور بھیجنا نہیں چاہتا تھا ۔ وہ اپنی محبت کو خود سے دور کرنا نہیں چاہتا تھا اس لیے بہت سوچنے کے بعد اُس نے فیصلہ کیا تھا کہ مامو سے بات کر کے وہ  ابھی عشنا سے نکاح کرلےگا اور اسے واپس لے آئیگا ۔ رخصتی جب عشنا چاہے گی تب کر لینگے۔ لیکن آج عشنا کے اس بے اعتباری نے اُسے بری طرح توڑ فوڈ دیا تھا۔ 

عالمگیر کو عشنا پر بے انتہا غصّہ تھا لیکن وہ چاہ کر بھی اُسے لاہور بھیجنے کا فیصلہ نہیں کر پایا تھا۔ اُس نے اُس اُسے ہوسٹل بھیجنا ہی ٹھیک سمجھا۔

نہا کر چینج کر کے وہ صبح ہی نکل گیا اور دوپہر  تک عشنا کہ ایک  ہوسٹل میں ایڈمیشن وغیرہ کروا کر ڈرائیور کو کال پر ایڈریس سمجھا دیا۔

عشنا جب ہوسٹل آئی عالمگیر دور اپنی کار میں بیٹھا اُسے دیکھ رہا تھا۔ جب وہ اندر چلی گئی تو وہ بھی اپنی کار کو آفس کو طرف موڑ لے گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عالمگیر کا اس طرح فون توڑنا عشنا کو بہت کچھ سمجھ گیا تھا لیکن شاید اب دیر ہو چکی تھی۔ تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ عالمگیر اُسے ہوسٹل بھیج دینے کا فیصلہ سنا کر گھر سے نکل گیا۔ عشنا کو اپنی بات پر اس قدر شرمندگی محسوس ہوئی کے وہ اُس کے پیچھے بھی نہ جا سکی۔

ساری رات وہ اُس کا انتظار کرتی رہی لیکن وہ نہیں آیا۔ ساری رات وہ جلے پیر کی بلی کی طرح یہاں سے وہاں چکر کاٹتی رہی۔ صبح 5 بجے کے قریب وہ گھر  آیا تھا اور تھوڑی دیر میں پھر باہر نکل گیا تھا۔

عشنا نے اُسے کال کرنی چاہئے لیکن اُس کا فون تو وہ رات ہی توڑ چکا تھا۔ کچھ سوچ کر اُس نے آفس کے نمبر پر کال ملائی تو جواب ملا کہ وہ میٹنگ میں ہے اور جب اُسکا نام پوچھا گیا تو عشنا نے کال کاٹ دی۔ اسنے شام کو عالمگیر سے بات کرنے کا سوچا لیکن دوپہر کو ہی ڈرائیور نے اُسے ہوسٹل چلنے کا کہہ دیا تو وہ بیگ لے کر اُس کے ساتھ ہوسٹل آ گئی۔

ہوسٹل گیٹ پر بھی وہ مڑ مڑ کر دیکھتی  رہی لیکن عالمگیر نہیں آیا تھا۔

وہ بھیگی آنکھوں کو صاف کر کے ہوسٹل کے اندر چلی گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عالمگیر رات 11 بجے گھر آیا تو گھر میں سنّاٹے بول رہے تھے۔ اب اُس کا انتظار کرنے والا کوئی اس گھر میں نہیں تھا۔ نہ ہی رحمت بیگم نہ عشنا۔۔ عشنا کے خیال سے اُس کی آنکھیں جلنے لگی

کتنی بے رحم ہو تم عشنا۔۔۔۔ تم  نے ایک بار بھی نہیں سوچا کے میں۔۔۔"

عالمگیر کی آنکھوں سے ایک آنسوں ٹوٹ کر اُس کے رخسار پر بہ گیا۔

عالمگیر نے اپنے جاننے  والے سے بات کر کے عشنا کے لیے ہوسٹل میں جگہ کا انتظام کیا تھا۔

 اور جب اُس کا دل کرتا عشنا کو دور سے کار میں بیٹھ کر دیکھتا اور کار نکال لے جاتا۔ 

ابراہیم صاحب کو بھی اُس نے عشنا کا ہوسٹل میں شفٹ ہونے کا بتا دیا تھا۔وہ زیادہ  خوش تو نہیں تھے کیونکہ اب وہ عشنا کے اسلام آباد رہنے کے حق میں نہیں تھے۔اب وہ اُسے لاہور بلا لینا چاہتے تھے لیکن اُس کے ہوسٹل میں شفٹ ہو جانے پر مطمئن ضرور ہو گئے تھے۔

عشنا کو ہوسٹل میں رہتے ایک سال کا عرصہ ہونے والا تھا۔ ابراہیم صاحب وقتاً فوقتا اُس سے آ کر مل جاتے لیکن عالمگیر ایک بار بھی اُس سے ملنے نہیں گیا تھا۔ بس دور سے دیکھ کر چلا جاتا۔ اُس کے ہوسٹل میں وہ روز فون کر کے اس کے بارے میں پتہ کر لیا کرتا تھا۔ اُس کے کالج کے پرنسپل سے بھی وہ عشنا کے گارجین ہونے کے ناطے رپورٹ لے لیا کرتا تھا۔ 

عشنا کے سیکنڈ یئر کے ایگزیمس نزدیک تھے اور وہ اُن کی تیاری میں بزی ہوگی تھی۔


 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


حال۔۔۔۔۔


عالمگیر نے کار بیچ کے پاس روکی اور کار سے نکل کر عشنا کی طرف آ کر اُس کا دروازہ کھولا۔

عشنا جو اب بھی سنبل اور عالمگیر کے بارے میں سوچ رہی تھی اُسے پتہ ہی نہیں چلا کب عالمگیر نے کار روکی اور کب وہ اُس کی طرف آ کر اُس کی سائڈ کا دروازہ کھول کر کھڑا ہوا۔

عالمگیر نے ہاتھ آگے بڑھا کر اُس کی کلائی تھام کر اسے کار سے نکالا۔

عشنا نے عالمگیر کا لمس ہاتھوں پر محسوس کیا تو نظریں اٹھا کر اُسے دیکھا۔ وہ اُسے لیے بیچ کی طرف بڑھ رہا تھا۔

ساحل سمندر پر عالمگیر عشنا کو ایک قدرے سنسان گوشے میں لے آیا جہاں چھوٹے چھوٹے ٹیبل لگے تھے اور اُکا دکا لوگ آ جا رہے تھے۔ 

عالمگیر عشنا کا ہاتھ تھامے سائڈ میں لگے چھوٹے سے ٹیبل کے پاس آ گیا ۔آہستہ سے اُسے ایک چیئر پر بیٹھایا اور خود اُس کے برابر والی چیئر پر بیٹھ کر اُسکا داہنا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر اُسے دیکھا۔

"عشنا ۔۔۔۔"

عشنا جو نظریں جھکائے بیٹھی تھی عالمگیر کے پکارنے پر نظریں اٹھا کر اُسے دیکھا۔

"میری جان کیا ہوا ۔۔۔۔اُداس کیوں ہو۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کی آنکھوں میں دیکھا۔وہ اُس کے اُداس ہونے کی وجہ کو اُس کے منہ سے سننا چاہتے تھا۔

"عشنا جان۔۔۔۔بتاؤ مجھے۔۔۔"

جب عشنا کچھ نہیں بولی تو عالمگیر نے پھر سے پوچھا۔

عشنا کی آنکھیں بھیگ گئی۔

"کتنی محبت تھی اُس کے لحظے میں۔۔۔عشنا کا دل تو چاہتا تھا کہ عالمگیر پر اور اُس کی محبت پر اعتبار کرے لیکن وہ اپنے دماغ میں اُبھرنے والے سوالوں کا کیا کرتی جو عالمگیر کو سنبل کے ساتھ دیکھ کر اُس کے دل میں سر ابھارنے لگتے تھے۔

"عشنا۔۔۔۔اگر مجھ پر ذرا سا بھی اعتبار باقی ہے تو آج مجھے سب کچھ بتا دو جو تمہیں مجھ سے بدگُمان کرنے کا باعث بنی ہے۔"

عالمگیر نے دوسرے ہاتھ کے پوروں سے اُسکے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔

"آپ۔۔۔۔آپ سنبل۔۔۔۔۔آپ سنبل سے کیوں ۔۔۔کیوں ملتے ہیں آپ اُس سے۔۔۔"

عشنا نے آنسوؤں کے درمیان کہا۔

"اتنا ہی یا اور کچھ۔۔ "

عالمگیر نے اُس کے بہتے آنسوؤں کو دیکھتے ہوئے کہا۔

"آپ۔۔۔آپ مجھے۔۔۔نہیں۔۔۔"

کہتے کہتے وہ ہچکیوں سے رونے لگی تو عالمگیر نے اُس کا ہاتھ چھوڑ کر اُس کے کندھے کو پکڑ کر اُسے خود سے قریب کر لیا۔

عشنا اُسکا لمس پاتے ہی اُس کے کندھے سے لگی آنسو بہانے لگی۔

جب وہ بہت دیر تک رو چکی تو عالمگیر نے آہستہ سے اُسے خود سے الگ کیا اور اپنے جیب سے رومال نکال کر اپنے ہاتھوں سے اُسکا چہرہ صاف کیا اور ٹیبل پر رکھا پانی کا گلاس اٹھا کر اُس کے لبوں سے لگا دیا۔

عشنا نے چار گھونٹ پی کر گلاس پرے کر دیا۔

عالمگیر نے گلاس ٹیبل پر رکھا اور اپنی چہرے کو اُس کے مقابل کر کے اُس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر اُسے دیکھتے ہوئے کہنا شروع کیا۔

عشنا بھی پلکیں اٹھا کر اُسے دیکھنے لگی۔

"عشنا میں نے زندگی میں صرف ایک لڑکی سے محبت کی ہے۔۔۔۔اور وہ ہو تم۔۔۔میں نے صرف اور صرف تم سے محبت کی ہی۔۔۔سنبل کو تو نہ میں یونیورسٹی میں پسند کرتا تھا اور نہ ہی اُس کے بعد۔ ۔۔۔"

"لیکن آپ تو اُس سے شادی۔۔۔آپ نے اُس سے منگنی بھی کی تھی۔۔۔"

عشنا نے اُس کی بات کاٹ کر کہا۔

"پہلے میری بات سن لو پھر سارے سوال ایک ساتھ کر لینا۔"

عالمگیر نے محبت سے اُسے دیکھتے ہوئے کہا تو عشنا نے اثبات میں سر کو جنبش دی۔وہ پچھلی بار کی طرح کوئی غلطی نہیں کرنا چاہتی تھی جس کی وجہ سے عالمگیر اُس سے دور ہوتا۔پچھلی بار کی جلد بازی نے اُسے عالمگیر کے فراق میں مبتلا کیا تھا۔وہ پھر سے وہی غلطی نہیں دہرانا چاہتی تھی۔

"میں نے سنبل سے منگنی ضرور کی تھے لیکن میں  نے کبھی بھی اُس سے محبت توکیا اُنسیت بھی محسوس نہیں کی۔"

عشنا بس اُسے دیکھے گئی۔

عالمگیر نے چہرہ جھکا کر اُس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں پکڑے دھیرے دھیرے اُسے سنبل کی جان لینے کی کوشش سے لے کر مرحہ کی بارات والی رات میں کہی ساری بات بتا دی اور ساتھ ہی اُس دن ریسٹورینٹ میں کیسے عالمگیر کی سنبل سے مٹ بھیڑ جو انجانے میں ہوئی تھی ساری داستان کو بتاتا گیا۔

 عشنا آنکھیں پھیلائے حیران چہرے کے ساتھ اُس کی باتیں سنتی گئی۔

عالمگیر نے بات ختم کی اور عشنا کے چہرے کی طرف دیکھا

جہاں پھر سے آنسوؤں نے روانگی پکڑ لی تھی۔

"عشنا۔۔۔پلیز ایسے تو نہیں روؤ یار۔۔۔۔۔تمہارے یہ آنسو مجھے بہت تکلیف دے رہے ہیں۔" 

عالمگیر نے ایک ہاتھ اُس کے ہاتھ سے ہٹا کر اُسکے رخساروں پر بہتے آنسوؤں پر پھیرا۔

عشنا نے اپنے رخساروں کو صاف کرتا اُس کا ہاتھ تھام کر ہونٹوں سے لگا لیا اور قدرے جھک کر اُس کا دوسرا ہاتھ جو اب اُس کے پہلو میں تھا اُسے بھی اٹھا کر اُس پر اپنے لبوں سے محبت رقم کر دی۔

عالمگیر نے اُس کی حرکت دیکھی تو چیئر سے کھڑا ہو کر عشنا کو کھینچ کر اپنے سینے سے لگا لیا اور اُسکے کمر کے گرد اپنے بازؤں کی گرفت کی سختی بڑھا کر اُسے خود سے بےحد قریب کر لیا ۔

عالمگیر کو اپنی محبت پر رشک آیا۔ جو اُس کے دو سال پرانے درد پر رو رہی تھی حالانکہ اُن زخمی کو مرہم لگانے والی بھی وہی تھی۔

عالمگیر نے اُس کی کمر سہلاتے ہوئے اُسے ریلیکس کرنا چاہا جوں بےتحاشہ روئے جا رہی تھی۔

"عشنا ۔۔۔جان۔۔۔ایسے تو مت روؤ یار۔۔۔۔تمہیں اس لیے تو نہیں بتایا نہ سب۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کے کان کے قریب سرگوشی کی۔

عشنا نے زارا کی ذرا نظر اُٹھا کر اُسے دیکھا جس کی آنکھوں میں اُس کے لیے محبت ہی محبت ہلکورے لے رہی تھی۔

عشنا آہستہ سے اُس کے گرفت سے نکلی اور اپنے آنسو صاف کیے۔

عالمگیر جو اُسے محبت بھری نظروں سے دیکھے جا رہا تھا عشنا کی اس ادا پر  مسکرا دیا


"اب اور تو کچھ نہیں ہے نہ تمہارے دل میں۔۔۔۔"

عالمگیر نے آہستہ اُس کی جھکی گردن کو دیکھ کر پوچھا۔

"نہیں۔۔۔"

عشنا نے بھی آہستہ سے کہا۔

عالمگیر نے اُس کی کلائی تھامی اور ساحل سمندر کی طرف بڑھ گیا۔

پانی کے پاس پہنچ کر عالمگیر نے جوتے نکال دیے تو عشنا نے بھی اُس کی ساتھ پیرو کو سینڈل سے آزاد کیا۔

عالمگیر اُس کا ہاتھ تھامے دھیرے دھیرے پانی کی طرف بڑھنے لگا۔

دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ساحل سمندر پر پانی کو اپنے پیروں سے سلامی دیتے مسکراتے چہروں کے ساتھ اپنی زندگی میں آئے اس سنبل نامی کالے سائے کو پیچھے چھوڑ کر اپنی محبت کی شاہراہِ پر آگے بڑھ رہے تھے

سورج کی سنہری کرنیں اُن کے چہرے پر پھوٹتی خوشی پر اپنا عکس بکھر رھیں تھی۔


دونوں ایک دوسرے میں کھوئے ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے خاموشی سے بس آنکھوں ہی آنکھوں میں باتیں کیے جا رہے تھی ۔

نا جانے کتنے ہی لمحے اُن کی محبت کے نظر ہو گئے۔ دونوں اور نجانے کب تک ایسے ہی کھوئے رہتے کے عالمگیر  کا فون بجا۔

وہ بری طرح سے بدمزہ ہوا تو عشنا لبوں پر ہاتھ رکھ کے ہنس دی۔

عالمگیر نے ہاتھ بڑھا کر اُسے کندھوں پر رکھا اور اُسے ساتھ لگا کر گیلی ریت پر چلنے لگا اور ساتھ ہی موبائل نکال کر کال آن کی۔

عشنا اُس کے کندھے سے سر ٹکائے اپنے دونوں ہاتھوں کو اُس کی کمر کے گرد لپیٹے اُس کے ساتھ گيلی ریت پر قدم سے قدم ملانے لگی۔

"ہیلو۔۔۔۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔۔اوہ۔۔۔۔اچھا اچھا۔۔۔۔آپ لوگ کہاں ہیں؟ ۔۔۔۔۔اوہ۔۔۔۔۔۔نہیں ہم بس آ رہے ہیں۔۔۔۔۔"

عالمگیر نے پریشانی سے کال کاٹ دی اور بایاں ہاتھ ذرا اونچا کر کے گھڑی دیکھی۔

عشنا جو اُس کے فون پر کی گئی بات کو کچھ زدہ سمجھ نہیں پائی تھی چہرہ اٹھا کر اُسے دیکھا جو پریشانی سے اپنی گھڑی دیکھ رہا تھا۔

"کیا ہوا۔۔۔۔کس کا فون تھا۔۔۔۔؟ اور آپ اتنے پریشان کیوں لگ رہے ہیں۔۔۔؟"

عشنا کو اُس کی پریشانی بے چین کرنے لگی۔ ایک ساتھ ہی اُس نے ڈھیر سارے سوال پوچھ ڈالے۔

"عشنا چلو۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کی کلائی تھامی اور تیزی سے کار کی طرف بڑھا۔

"لیکن ہوا کیا ہے۔۔۔ کچھ بتائیں تو صحیح۔۔۔۔"

عشنا پریشانی سے اُس کے ساتھ چلتی ہوئی بولی۔ عالمگیر نے کچھ نہیں کہا بس چپ چاپ اُسے کار تک لایا اور اُسے فرنٹ سیٹ پر بیٹھا کر خود ڈرائیونگ سیٹ پر آ کر بیٹھا۔

"آپ بتا کیوں نہیں رہے۔۔۔ ہوا کیا ہے آخر۔۔۔۔آپ ایسے کیوں۔۔   ؟

عشنا نے پھر پوچھا

"عشنا ۔۔۔۔6 بج گئے ہیں۔۔۔"

عالمگیر نے آہستہ سے کہا ۔

عشنا نے جلدی سے گھڑی دیکھی اور پھر عالمگیر کو جیسے کہہ رہی ہو "اب کیا ہوگا۔"

"عشنا ریلیکس۔۔۔۔میں کچھ کرتا ہوں۔۔۔۔۔"

عالمگیر عشنا کو تسلی دیتا فون نکال کر وہی نمبر ڈائل کرنے لگا جس سے ابھی کچھ دیر پہلے کرن نے اُسے فون کیا تھا۔

عشنا اپنا فون کار میں ہی چھوڑ گئی تھی اس لیے کرن کے لگاتار  کال کرنے پر جب اُس نے کال ریسیو نہیں کی تو کرن نے عالمگیر کو کال کی تھے جس کا نمبر وہ کی بار عشنا کے فون میں دیکھ چکی تھی۔

"ہاں۔۔۔کیا آپ میری بات آپ کے کسی استاد سے کروا سکتی ہیں۔۔۔جی جی میں اُن سے بات کرتا ہوں۔۔۔۔"

عالمگیر نے عشنا کی طرف دیکھا جو پریشان نظروں سے اُسے استاد سے بات کرنے پر اشارے سے منع کر رہی تھی۔

عالمگیر نے بھی اشارے سے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر آنکھیں بندکر کے کھول کر اُسے کہا تھا "میں ہو نہ۔۔۔۔تم فکر مت کرو"

کرن اُس کا فون ہولڈ کر کے شاید کسی استاد کے پاس لے گئی تھی تو عالمگیر چپ چاپ فون کان سے لگائے وہاں سے کسی کے بولنے کا منتظر تھا۔

"جی جی سر۔۔۔۔جی آئی ایم ایکسٹریملی سوری۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔جی۔۔۔اوہ۔۔۔۔ہمم۔۔۔اوکے۔۔۔ہاں اوکے میں کرتا ہوں۔۔۔۔نہیں نہیں۔۔۔جی جی۔۔۔میں کر دونگا۔ جی۔۔۔تھینکس۔۔۔"

عالمگیر نے فون منقطع کیا تو عشنا نے جلدی سے پوچھا۔

"کیا ہوا۔۔۔وہ لوگ رک رہے ہیں  نا؟"

عشنا نے پریشانی سے پوچھا۔

"عشنا دیکھو ۔۔۔دیکھوں تم رونا نہیں۔۔۔۔وہ دراصل۔۔۔۔"

عالمگیر نے عشنا کہ ہاتھ تھام کر کہنا شروع کیا۔۔

عشنا بس خاموشی سے اُس کے بولنے کی منتظر تھی۔

"عشنا تمہاری بس نکل گئی ہے اسلام آباد کے لیے۔۔۔اور سر امتیاز نے کہا ہے کہ میں ایک آفیشل میل بھیج دوں کہ تم میرے ساتھ ہو اور ساتھ ہمارے نکاح نامے کی اسکین کاپی بھی اور اگر اُن کے اسلام آباد پہنچنے تک تم بھی وہاں پہنچ جاؤ تو وہ تمہیں آگے کی ٹریپ میں ساتھ لے جائینگے۔۔۔۔"

عالمگیر نے ساری تفصیل بتائی

لیکن میں کیسے پہنچوں گی۔۔وہ لوگ تو چلے گئے۔

 میں اکیلے کیسے جاؤنگی اور اُن کے پہنچنے تک کیسے۔۔۔۔۔"

اُسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کے کیسے وہ اُن لوگوں تک پہنچے۔

"عشنا ریلیکس۔۔۔۔میں ہوں نا؟ میں تمہیں پہونچا دونگا۔ تم ریلیکس کرو میں پہلے ایمیل بھیج دوں۔"

اُس نے عشنا کو ریلیکس کرنا چاہا اور موبائل نکال کر ایمیل لکھنے لگا۔

"لیکن۔۔۔لیکن نکاح نامہ تو لاہور میں ہے۔۔۔آپ ایمیل میں کیسے بھیجیں گے؟"

عشنا کو ایک اور پریشانی لاحق ہوئی۔

"عشنا تم بھول رہی ہی ایک کاپی میرے پاس بھی ہی نکاح نامہ کی اور میں نے اُسے اپنے ایمیل میں محفوظ کر رکھا ہے۔"

عالمگیر نے کہتے ساتھ اپنے موبائل سے نکاح نامہ کی اسکین کاپی اٹیچ کی اور ایمیل بھیج کر کار اسٹارٹ کر دی۔ کار کو اپنے ہوٹل جہاں وہ ٹھہرا تھا اُس کی طرف موڑ گیا تاکہ وہ وہاں سے چیک آؤٹ کر کے اپنا سامان لے لے کیونکہ اگر اسلام آباد وقت پر پہنچنا ہے تو اُنھیں ابھی نکلا ہوگا تا کہ اُن لوگوں کے پہنچنے تک یہ دونوں بھی وہاں پہنچ پائیں۔۔۔۔۔

عالمگیر نے کار پارک کر کے سارے شاپنگ بیگز کار سے نکالے اور عشنا کے ساتھ چلتا ہوٹل کے کمرے میں آ گیا اور اپنا بیگ کھول کر اپنے کپڑے الماری سے نکال لایا تو عشنا جلدی جلدی اُنہیں بیگ میں رکھنے لگی۔ 

عالمگیر نے ساری چیزیں شاپنگ بیگز سے نکال کر اپنے بیگ میں رکھی اور کپڑے چینج کرنے چلا گیا۔

وہ واشروم سے باہر آیا تو عشنا کو اپنا منتظر پایا۔

عشنا کی پریشانی سمجھتے ہوئے اُس نے ہاتھوں نے بال ٹھیک کیے اور اپنی گھڑی پہنتا  بیڈ پر  بیٹھ کر جوتے  پہننے لگا تو عشنا نے جھک کر اُس کے جوتے کے تسمے باندھنے چاہئے لیکن عالمگیر نے اپنے پیر ہٹا لیے اور عشنا کو کندھوں سے تھام کر اپنے برابر میں بیٹھا دیا 

"عشنا یہ کیا کر رہی ہو یار۔۔ آئندہ کبھی میرے جوتوں کو ہاتھ مت لگانا ۔۔۔۔تم میرے دل کی شہزادی ہو۔۔۔تمہارا کام میرے دل پر راج کرنا ہے۔۔۔تم وہی کرو بس۔۔۔۔۔۔"

اُس نے کہنے میں ساتھ جھک کر جوتے کے تسمے باندھے اور کھڑا ہو گیا۔

عشنا نے عالمگیر کی بات پر بھیگی آنکھوں سمیت محبت سے اُسے دیکھے گئی۔

"کتنی محبت کرتے ہیں عالمگیر مجھ سے۔۔۔۔"

اُس نے دل میں سوچا۔

عالمگیر نے ایک ہاتھ میں اپنا لیپ ٹاپ بیگ اور اپنا سفری بیگ تھاما اور دوسرے ہاتھ سے عشنا کا ہاتھ تھام کر ہوٹل کے ریسیپشن پر آ کر چیک آؤٹ کی فورملیٹیز پوری کرنے لگا۔

چیک آؤٹ کرنے میں بعد وہ عشنا کے ساتھ باہر کی طرف بڑھا۔

عشنا کو اُس نے کار میں بیٹھایا اور خود ڈرائیونگ سیٹ پر آ بیٹھا اور کار سڑک پر ڈال دی۔

ابھی وہ لوگ کچھ دور ہی آئے تھے کے کار ایک جھٹکے کے ساتھ رکی۔عشنا نے حیرانی سے عالمگیر کو دیکھا تو وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں اُسے تسلی دیتا کار سے باہر آیا 

کار کا بونٹ کھولتے ہی بہت سرا دھواں برآمد ہوا۔ عالمگیر نے کھانستے ہوئے ہاتھوں سے دھویں کو یہاں وہاں کرنا چاہا اور بونٹ کے اندر جھانکا۔

عشنا بھی نکل کر باہر آ گئی۔

"کیا ہوا۔۔۔۔"

عشنا نے پریشانی سے پوچھا۔

"لگتا ہے کچھ میجر ایشو آ گیا ہے۔"

عالمگیر نے دھویں سے بھرے بونٹ کو دیکھتے ہوئے کہا۔

"تو اب۔۔۔؟"

عشنا پریشانی سے بولی۔

"اب ایک ہی آپشن ہی۔۔۔یہ کار بننے میں کافی وقت لگ جائیگا اور دوسری کار بک کرنے اور آنے میں بھی۔

 اگر دوسری کار آ بھی جاتی ہی تب بھی ہم وقت پر اسلام آباد نہیں پہنچ پائیں گے۔

اب تو بس ایک ہی طریقہ ہے وقت پر اسلام آباد پہنچنے کا۔۔۔۔"

عالمگیر نے کار کا بونٹ بند کیا اور ہاتھ جھاڑتے ہوئے بولتے بولتے آخری بات پر رکا۔

عشنا نے تجسّس سے اُسے دیکھا۔

"کون سا طریقہ۔۔۔۔"

"فلائٹ۔ ہمیں فلائٹ سے جانا ہوگا۔۔۔۔"

عالمگیر قدم قدم چلتا اُس کے پاس آیا۔

"لے۔۔۔لیکن کیا ابھی ۔۔۔ابھی فلائٹ مل جائےگی؟"

عشنا کو فلائٹ کا سن کر خوف آنے لگا۔

"ہاں مل جائیگی۔۔۔۔رکو میں چیک کرتا ہوں۔"

عالمگیر اُس کے پاس آ کر کار سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا اور پینٹ کی جیب سے  موبائل نکال کر فلائیٹ ڈیٹیلس دیکھنے لگا۔

رات 10 بجے کی فلائیٹ تھی۔ عالمگیر نے ہاتھ ذرا اونچا کر کے وقت دیکھا تو 7.50 ہو رہے تھے۔ اُس نے دونوں کی ٹیکٹس بک کر دی اور ساتھ ہی کیب بھی بولا لی۔ 

عشنا۔۔۔میں نے 10 بجے کی فلائیٹ بک کر دی ہے۔

 تمہیں گھرانے یہ ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔میں جو ہوں تمہارے ساتھ ۔۔۔ "

عالمگیر نے اُس کے داہنے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں کے درمیان رکھ کر ذرا سا دباؤ ڈال کر اُسے تسلی دیتے ہوئے کہا ۔

عشنا نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

تھوڑی دیر میں کیپ آ گئی تو عالمگیر اپنا ہینڈ بیگ اور لیپ ٹاپ بیگ لے کر عشنا کے ساتھ بیک سیٹ پر آ بیٹھا۔ 

ایئرپورٹ پر کیب سے اتر کر عالمگیر عشنا کو لیے چیک ان کرنے کے بعد بورڈنگ کی طرف بڑھ گیا۔

فلائٹ بورڈ کرتے ہی عشنا کے ہاتھ پیر پھولنے لگے۔

اُس نے گھبرا کر عالمگیر کا بازو تھام لیا۔ 

عالمگیر نے عشنا کو دیکھا جو ایک ڈری سہمی بچی کی طرح اُس کا بازؤں تھامے بیٹھی تھی۔

"عشنا جان۔۔۔کچھ نہیں ہوتا ۔۔۔یہاں دیکھو میری طرف۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُسکے بائیں گال پر ہاتھ رکھ کر اسکا چہرہ اونچا کیا

"دیکھو میری طرف ۔۔۔تمہیں لگتا ہے میں تمہیں کچھ ہونے دوں گا؟"

عالمگیر نے اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا تو عشنا نے نفی میں گردن ہلا دی۔

"تو پھر آنکھیں بند کرو اور بھول جاؤ کے تم فلائٹ میں ہو۔۔۔تم بس یہ یاد رکھو کے تم میرے ساتھ میرے پاس ہو۔۔۔"

عالمگیر نے کہنے کے ساتھ اپنا بازو پھیلا کر اُسے اپنے حصار میں لے لیا۔

عشنا نے بھی اُس کے سینے پر سر رکھ کر آنکھیں موند لی۔

اب اُسکا چہرہ قدرے مطمئن لگتا تھا ۔

فلائٹ کے اڑان بھرنے پر عشنا نے عالمگیر کی شرٹ کو مٹھیوں سے بھینچ کر آنکھیں زور سے بند کر لیں۔

عالمگیر نے دوسرا ہاتھ اُس کی کمر پر رکھ کر اُسے ریلیکس کرنے کی کوشش کی۔ کیونکہ وہ اُس کی تیز تیز چلتی دھڑکن کو بخوبی محسوس کر سکتا تھا۔

سارے راستے وہ یوں ہی اُسے اپنی آغوش میں لیے بیٹھا رہا۔

آس پاس سے گزرتے کئی لوگو نے اُنھیں معنی خیز نظروں سے دیکھا تھا لیکن عالمگیر کو کسی کی پرواہ نہیں تھی ۔اگر عشنا کی آنکھ کھلی ہوتی تو لوگو کے اس طرح دیکھنے پر وہ ضرور عالمگیر سے الگ ہونے کی کوشش کرتی لیکن مسئلہ تو سارا اُس کے ڈر کا تھا جس کی وجہ سے اُس نے آنکھیں بند کر رکھی تھی۔

اسلام آباد ایئرپورٹ پر عالمگیر ایک ہاتھ میں عشنا کا ہاتھ تھامے دوسرے ہاتھ میں لیپ ٹاپ بیگ اور اپنا سفری بیگ تھامے پارکنگ میں کھڑی اپنی کار تک آیا جو اُس نے پہلے ہی ڈرائیور سے منگوا رکھی تھی۔

بیگز بیک سیٹ پر رخ کر عشنا کو فرنٹ سیٹ پر بیٹھایا اور خود ڈرائیونگ سیٹ پر آ بیٹھا اور کار کا رخ گھر کی طرف موڑ لیا۔

عشنا کے ٹریپ والی بس صبح 9 بجے تک پہنچنے والی تھی اور ابھی پوری رات باقی تھی۔ عالمگیر کا ارادہ ابھی گھر جا کر ریسٹ کرنے کا تھا اور پھر صبح میں عشنا کو اُس کی ٹریپ پر آئی کلاس کے پاس چھوڑنے کا تھا۔

عشنا اُس کے کندھے پر سر رکھے آنکھیں مندیں  بیٹھی تھی۔

اچانک عالمگیر نے کار جھٹکے سے روکی تو عشنا نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا جو ونڈسکرین  کے پار دیکھ رہا تھا جہاں ایک پولیس آفیسر وردی میں کھڑا قدم قدم بڑھاتا اُس کے پاس آ رہا تھا۔

انسپیکٹر نے داہنی طرف آ کر کھڑکی کا شیشہ بجایا تو عالمگیر نے دھیرے سے شیشہ نیچے کیا

عشنا پریشانی سے اُنھیں دیکھے جا رہی تھی۔

"لائسنس دکھائیں۔۔۔ "

انسپیکٹر نے کڑک آواز میں کہا تو عالمگیر نے والیٹ سے اپنا ڈرائیونگ لائسنس نکل کر اُس کی طرف بڑھایا۔

"گاڑی کے پیپرس؟"

انسپیکٹر نے گاڑی کے پیپرس کا پوچھا۔

عالمگیر نے آہستہ سے ڈیش بورڈ سے پیپرس نکال کر اُسے دکھایا۔

"Anything else or may we go?"

(کچھ اور یہ پھر ہم جائیں۔۔۔۔)

عالمگیر نے مسکرا کر پوچھا۔

"یہ محترمہ کون ہیں آپ کے ساتھ۔۔۔۔"

انسپیکٹر نے چھڑی سے عشنا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔

"یہ۔۔۔یہ میری۔۔۔یہ میری "

عالمگیر کہتے کہتے رکا۔ چہرے پر پریشانی عیاں تھی۔

عشنا جو اُسے ہی دیکھ رہی تھی اُس کے رک جانے اور عالمگیر کے پریشان ہو جانے پر حیرت سے اُسے دیکھا۔

"یہ بتا کیوں نہیں رہے کہ میں ان کی بیوی ہوں۔۔۔"

اُس نے دل میں سوچا۔

"بتائیے۔۔۔یہ کون ہے۔۔۔اور اتنی رات میں انہیں لے کر کہاں گھوم رہیں ہیں آپ۔۔۔ "

انسپیکٹر نے گرجدار آواز میں پوچھا تو عالمگیر گڑبڑا گیا۔

"یہ میری۔۔۔میری بیوی ہے۔۔۔"

آخر عالمگیر نے انسپیکٹر کو بتا ہی دیا۔

عالمگیر کے منہ سے بیوی لفظ سنتے ہی انسپیکٹر نے کار کا دروازہ کھول کر عالمگیر کو کالر سے پکڑ کر باہر نکالا اور گھسیٹ کر کار کی بونٹ تک لایا اور بونٹ پر پیٹھ کے بل لیٹا کر اُس کی گردن پر ہاتھ رکھ دیا۔

عشنا جو انسپیکٹر کو ہی دیکھ رہی تھی اُس کے عالمگیر کو اس طرح جھپٹنے پر جلدی سے کار سے نکلی اور اُن کی طرف بھاگی۔

"دیکھیے پلیز اُنہیں چھوڑ دیجئے۔ یہ سچ کہہ رہے ہیں۔۔۔ہم شادی شدہ ہیں اور ابھی کراچی سے لوٹ رہے ہیں۔۔۔پلیز ہمارا یقین کیجئے ۔۔ ۔۔اگر آپ کو شق ہے تو۔۔۔تو آپ ہمارا نکاح نامہ دیکھ لیجئے۔۔۔"

عشنا نے روتے ہوئے کہا 

"عشنا تم کار میں جا کر بیٹھو۔۔۔"

عالمگیر نے مشکل سے بات مکمّل کی کیونکہ انسپیکٹر کا ہاتھ اُس کے گلے پر تھا 

"نہیں۔۔۔میں آپ کو چھوڑ کے نہیں جاؤنگی۔۔۔۔آپ کا۔۔۔آپ کا فون کہاں ہے۔۔  میں نکاح نامہ دکھاتی ہوں۔۔۔۔"

عشنا نے پریشانی سے اُس سے اُسکا موبائل مانگا۔

"عشنا میں کہ رہا ہے کار میں بیٹھو جا کر۔"

اس بار عالمگیر  نے قدرے زور سے کہا تھا کیوں کی انسپیکٹر نے عشنا کو روتے دیکھ کر عالمگیر کے گلے سے ہاتھ ہٹا لیا تھا

"ابے سالے۔۔۔۔تیری اتنی ہمت۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کا کالر پکڑ لیا

عشنا ڈر کر کار کی طرف بڑھی تھی لیکن اس کی آوازیں سن کر رک کر پھر سہم کر اُنھیں دیکھا ۔

"سالے میری ہمت کی بات کرتا ہے۔۔۔تیری تو میں ۔۔۔بہت بڑا آدمی ہے تو۔۔۔تیری اکڑ تو میں ابھی نکلتا ہوں۔۔۔۔۔"

انسپیکٹر نے عالمگیر کا ہاتھ اپنے کالر سے ہٹایا اور اُسے ہاتھ مار کر زمین پر گرا دیا اور ساتھ ہی اُس کے سینے پر  ایک گھنٹہ فولڈ کر کے رکھ کر اُس کے پاس بیٹھ گیا 

عشنا نے عالمگیر کو گرتے دیکھا۔

 ایک چینخ  ہوا میں بلند ہوئی اور ساتھ ہی ہاتھوں میں سر کو تھامے عشنا بیٹھتی چلی گئی


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات کے سائے گہرے ہو رہے تھے۔

عالمگیر آفس میں بیٹھا اپنے لیپ ٹاپ پر ایک ایمیل کا ریپلائے کر رہا تھا۔

رات کے 9 بج گئے تھے اور ابھی بہت سارا کام تھا جو اُسے آج ہی پورا کرنا تھا۔

عشنا کے گھر سے جانے کے بعد اکثر وہ رات رات بھر آفس میں بیٹھا کام کرتا رہتا تھا اور اگر جاتا بھی تو 2 بجے کے بعد ہی جاتا۔ جب خود کو تھکن سے چور محسوس کرتا تو گھر جا کر فوراً سو جاتا ۔

عشنا اور رحمت بیگم کے جانے کے بعد گھر اُسے کاٹنے کو دوڑتا تھا۔ 

بس وہ نہانے اور کپڑے چینج کرنے گھر جایا کرتا تھا۔ اور پھر آفس آجاتا۔ کھانا بھی وہ برائے نام کھاتا تھا۔

وہ روز ہوسٹل فون کر کے عشنا کی خیریت دریافت کر لیا کرتا تھا اور ساتھ اُس کے کالج بھی فون کر کے اس کا حال احوال لے لیا کرتا تھا۔

آج ہی اُسے پتہ چلا تھا کے عشنا کا کل آخری پیپر ہوا تھا اور آج اُس کی فریویل پارٹی تھی جو اُس کی کلاس نے فائنل یئر کے سٹوڈنٹس کو دی تھی۔

"کل شاید مامو آ کر عشنا کو لاہور لے جائینگے۔ کل کے بعد میں عشنا کو دیکھ بھی نہیں سکوں گا۔ شاید مامو اُسے واپس اسلام آباد آنے بھی نا دیں اور میں کچھ کر بھی نہیں سکوں گا۔ کچھ بھی تو نہیں۔۔۔۔"

یہی سب سوچتے ہوئے وہ لیپ ٹاپ پر تیزی سے اُنگلیاں چلا رہا تھا۔ اس اثناء میں اُس کا فون بجنے لگا۔

اُس نے بنا نمبر دیکھے بائیں ہاتھ سے موبائل آن کر کے کان اور کندھے کے بیچ پھسا کر بات کرنی چاہی ساتھ اُس کے دونوں ہاتھ تیزی سے لیپ ٹاپ پر چل رہے تھی اور نظریں سکرین پر مرکوز تھی۔

"ہیلو۔۔۔۔"

عالمگیر نے مصرورف انداز میں کہا۔

دوسری طرف مکمّل خاموشی رہی۔

عالمگیر نے کسی کے بولنے کا انتظار کیا لیکن جب خاموشی طویل ہو گئی تو اُس نے ذرا زور سے "ہیلو" کہا

"ہیلو۔۔۔۔"

دوسری طرف نسوانی آواز سن کر عالمگیر  ایک جھٹکنے سیدھا ہوا۔

 اس آواز کو وہ لاکھوں میں پہچان سکتا تھا۔

عالمگیر کے جھٹکے  سے سیدھے ہونے پر  فون فرش پر گر کر اپنی ناقدری کا ماتم کرنے لگا۔

عالمگیر نے جلدی سے فون اٹھا کر ہیلو کہا لیکن اُس کی کوشش رائیگاں گئی کیونکہ فون کا ڈسپلے پوری طرح سے ٹوٹ گیا تھا اور فون کے بیکار ہو جانے کی گواہی دے رہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عشنا کو ہوسٹل میں رہتے ایک سال کا عرصہ گزرنے والا تھا۔ لیکن عالمگیر ایک بار بھی نا اُس سے ملنے آیا اور نہ ہی اُس نے اُسے ایک بار بھی فون کیا۔

وہ روز منتظر رہتی کے شاید وہ اُسے کال کر لے ملنے آ جائے لیکن lاُس کا انتظار انتظار ہی رہا ۔ نا وہ آیا نا اُس کی کال۔

ہر مہینے اُس کے اکاؤنٹ میں ایک خطیر رقم عالمگیر بھیج دیا کرتا تھا۔ ابراہیم صاحب بھی بھیجتے تھے اُنہونے کئی بار عالمگیر کو منع بھی کیا لیکن وہ نہیں مانا تھا۔ 

"مجھ خود سے دور کر دیا اور اب یہ پیسے بھیج کار کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں ؟"

عشنا دل ہی دل میں سوچتی۔

کئی بار دوستوں کی ضد پر وہ مال پر بھی چلی جاتی اسی آس پر کے شاید وہ بھی شاپنگ کرنے آیا ہوں،کہیں وہ غلطی ہی سے ہی صحیح اُسے مل جائے۔۔لیکن نہیں ۔۔۔وہ نہیں ملا۔ نہ ہی کسی مال میں نہ کسی ریسٹورینٹ میں۔

آج بھی عشنا اس فائرول میں آنا نہیں چاہتی تھی کیوں کہ اُس کا ڈرائیور جو عالمگیر نے اُس کے لیے تعيون کر رکھا تھا وہ شام۔کو اپنی بیٹی کی طبیعت خرابی کا کہہ کر چھٹی لے گیا تھا اور اُس کی کار ہوسٹل کے باہر ہی کھڑی تھی۔یہاں بھی وہ سب لوگ ایک دوسرے کلاس فیلو کی کار میں آئیں تھیں۔ اور وہ اب جا چکا تھا ۔ سب اپنے اپنے حساب سے ہوسٹل پہنچنے کا انتظام کر رہیں تھیں۔کسی نے ٹیکسی بولا لی تو کسی نے بس سے جانا ٹھیک سمجھا۔ عشنا نے ٹیکسی میں جانا چاہا تو ٹیکسی میں آلریڈی 5 لوگ بیٹھی تھے،وہ کہاں بیٹھتی اور اب اکیلی کھڑی ہوسٹل کیسے پہنچے یہ سوچ رہی تھی۔ رات بھی ہوتی جا رہی تھی۔ اندر ابھی کچھ سٹوڈنٹس ہلا گلا مچا رہے تھے ۔ 

کچھ سوچ کر اُس نے عالمگیر کا نمبر ملایا جو 2 رنگ کے بعد ہی اٹھا لیا گیا ۔

عالمگیر کے ہیلو بولنے پر عشنا کی آنکھیں بھیگ گئی۔ کتنا انتظار کیا تھا اُس کی یہ آواز سننے کے لیے۔۔۔۔۔

عشنا لب بھینچے اپنے آنسو پیتی رہی کے ایک بار پھر اُس کی آواز اُبھری۔۔۔

"ہیلو۔۔ "

عشنا نے خود کو سنبھالتے ہوئے ہیلو کہا تھا۔

لیکن اگلے ہی پل فون بند ہو گیا۔

عشنا نے فون کو دیکھا جو اب انگیز ہو چکا تھا اور پھر سے نمبر ڈائل کرنے لگی لیکن بے سود۔۔۔۔۔

"اتنی نفرت ہو گئی ہے آپ کو مجھ سے؟ میری آواز تک سننا نہیں چاہتے اب آپ؟"

روتے روتے وہ وہیں فرش پر بیٹھتی چلی گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عالمگیر نے ایک نظر افسوس سے اپنے موبائل کی دیکھا

"عشنا نے کال کی تھی ابھی؟ لیکن ایسا کیا ہوا کے اُس نے آج 204 دن بعد اسے فون کیا؟ لیکن وہ تو فیرول میں گئی تھی آج پھر۔۔۔کہیں اُسے کچھ۔۔۔۔۔نہیں۔۔ "

اُس نے دل میں سوچا اور عشنا کسی پریشانی میں ہوگی یہ خیال آتے ہی وہ کار کی چابی لے کر تقریباً بھاگتے ہوئے آفس سے نکلا اور تیز تیز سیڑھیاں پھلانکتا پارکنگ میں اپنی کار کے کے پاس آیا اور کار میں بیٹھ کر کار کو تیزی سے عشنا کے کالج کی طرف موڈ لی۔

وہ تیزی سے کار چلاتا 30 منٹ کے فاصلے کو 20 منٹ میں عبور کرتا عشنا کے کالج پہونچا اور کار کو روک کر جھٹکے سے باہر نکلا۔

تقریباََ بھاگتے ہوئے اندر جانے لگا جہاں سے آوازیں آ رہی تھی۔ وہ دیوانار بھاگتا جا رہا تھا اُسے بس جلد سے جلد عشنا کے پاس پہنچنا تھا کیونکہ عشنا کے آواز میں آنسوؤں کی رمق کو وہ محسوس کر چکا تھا۔ 

عشنا جو آڈیٹوریم کے باہر فرش پر بیٹھی روئے جا رہی تھی اُس نے دور سے کسی کو تیزی سے کار کو گیٹ کے اندر لاتے اور پھر تقریباً بھاگتے ہوئے اس کی طرف آتے دیکھا تھا۔ جیسے جیسے وہ قریب آتا گیا عالمگیر کا چہرہ واضح ہوتا گیا۔ 

"عالم۔۔۔عالمگیر ۔۔۔۔"

عالمگیر جو بھاگتے ہوئے  آڈیٹوریم کے اندر جا رہا تھا اُس نے پاس کھڑی عشنا کو دیکھا ہی نہیں تھا لیکن اپنے نام کی پُکارا پر مڑ کر پیچھے دیکھا جہاں عشنا  بھیگی آنکھوں کے ساتھ کھڑی اُسے ہی دیکھ رہی تھی۔

عالمگیر عشنا کے پاس آیا اور دیوانہ وار اُس کے کندھے گلے چہرے کو چھو کر دیکھنے لگا ۔

"عشنا تم ۔۔۔تم ٹھیک تو ہو۔۔۔۔؟ تمہیں کچھ ہوا تو نہیں؟"

وہ اُس کے چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں لیے اُسے دیکھتے ہوئے اُسے پوچھنے لگا۔

"میں ۔۔۔میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔"

عشنا نے بھیگی آنکھوں اور مسکراتے لبوں کے ساتھ بتایا ۔

عالمگیر نے اُس کے چہرے سے ہاتھ ہٹا لیا اور قدرے دور کھڑا ہو گیا۔

"سوری میں ۔۔۔۔مجھے لگا تمہیں ۔۔۔۔میں نے اس لیے تمہیں۔۔۔۔ آئی ایم سوری۔۔۔۔"۔

وہ رخ موڑے اپنی کچھ دیر پہلے کی گئی بے اختیاری کی معافی مانگ رہا تھا۔

عشنا آس پاس سے بے خبر اُس کے سحر میں جکڑی کھڑی تھی۔

اُس نے اُس کا معافی مانگنا یہ کچھ دیر پہلے کی ہے اختیاری پر  شرمندہ  سا لا لہزا سنا ہی نہیں تھا اُس کے کانوں میں اب تک اُس کے کچھ دیر پہلے فکر میں ڈوبے لفظ گونج رہے تھے۔

"عشنا تم ۔۔۔تم ٹھیک تو ہو۔۔۔۔؟ تمہیں کچھ ہوا تو نہیں؟"

عشنا کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اُسے زیادہ خوشی  کس بات کی ہے۔ عالمگیر کو اتنے دنوں بعد دیکھنے کی یہ پھر اُس کی اتنی فکر کرنے کی جو اُس کے ایک کال پر دیوانوں کی طرح بھاگا بھاگا آیا تھا۔

"عشنا۔۔۔۔تم نے مجھے کال کی تھی؟ "

جب عالمگیر نے خاموشی کو طول پکڑتے دیکھا تو عشنا کی طرف رخ موڑ کے اُس سے پوچھا۔

عالمگیر کی آواز پر عشنا جیسے نیند سے جاگی۔

"وہ۔۔۔میں۔۔۔وہ میری کار۔۔۔۔میں ۔۔۔۔"

اُس کے منہ سے لفظ ادا ہونے سے انکاری تھے۔ وہ تو بس اُس کے دید سے اپنی پیاسی آنکھیں سیراب کر رہی تھی۔ وہ اُسے کافی کمزور بھی لگا ۔

"عشنا۔۔۔میں اپنا کام چھوڑ کر آیا ہو۔۔۔۔۔کیا کام تھا بتاؤ مجھے۔۔۔"

عالمگیر نے آہستہ سے کہا۔

"وہ۔۔ڈرائیور ۔۔۔۔ڈری۔۔ڈرائیور آج چھٹی پر ۔۔اُس کی بیٹی بیمار۔۔۔مجھے ہوسٹل جانا۔۔۔میں اکیلی۔۔۔"

وہ جملہ درست نہ کر سکی۔ ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں اپنی بات کہی۔

"ہمم۔۔۔۔چلو۔۔۔۔"

عالمگیر اُس کی بات سمجھ چکا تھا اس لیے اپنے ساتھ آنے کا کہا۔

عشنا اثبات میں سے ہلاتی اُس کے پیچھے لپکی۔

عالمگیر سیدھا آ کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا اور ایک نظر اپنے برابر میں خالی سیٹ کو دیکھا آج 204 دِن بعد یہ سیٹ اُس دشمن جان کے وجود سے آباد ہونے والا تھا۔ 

ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ عشنا دروازہ خول کر اُس کے برابر میں آ بیٹھی۔اُس کے بیٹھتے ہی عالمگیر نے کار آگے بڑھا لی۔

عالمگیر خاموشی سے ڈرائیو کرتا رہا اور عشنا خاموشی سے بس اُسے دیکھے گئی۔

وہ آج عالمگیر کو جی بھر کے دیکھ لینا چاہتی تھی ایک تو وہ اُسے اتنے دنوں بعد دیکھ رہی تھی دوسرے اُسے دو دن بعد لاہور چلے جانا تھا۔ شام میں ابراہیم صاحب نے کال کر کے اُسے بتا دیا تھا کے وہ کل اُسے لینے نہیں آ پائینگے بلکہ دو دن بعد آئینگے۔

عالمگیر نے کار جھٹکے سے روکی کیونکہ بائک پر دو آدمی گن لیے اُن کے سامنے آ کر اپنی بائک روک کر انکا راستہ روک چکے تھے۔ عالمگیر نے کار روکتے ہی عشنا کو دیکھا جو اُسے ہی دیکھ رہی تھی۔عشنا نے عالمگیر کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا جہاں دو گنڈے ہاتھ میں گن  لئے اُن کی طرف بڑھ رہے تھے۔

ہیڈ لائٹ کی روشنی میں اُنکے چہرے پر لگا کپڑا جِس سے اُنہونے اپنے چہرے ڈھانپ رکھے تھے وہ اور ان کے ہاتھ میں پکڑے بندوق دونوں صاف نظر آ رہی تھی۔عشنا نے عالمگیر کا بازو زور سے پکڑ لیا۔

اُن میں سے ایک عالمگیر کی طرف آیا اور دوسرا عشنا کے دروازہ کی طرف بڑھا۔

وہ لوگ اُنھیں گن دکھاتے کار سے باہر نکال چکے تھے۔

عالمگیر سے اُسکا والیٹ گھڑی اور عشنا کے گلے کی چین،موبائل اور کار کی چابی لے کر دونوں کو ایک ساتھ کھڑا کر دیا۔عشنا سہم کے عالمگیر کے بازؤں کے پیچھے چھپ گئی۔

عالمگیر چاہتا تو انہیں ایک جھٹکے میں مار گِراتا لیکن عشنا ساتھ میں تھی اور وہ کوئی رسک نہیں لینا چاہتا تھا۔

"لڑکی تو بہت زبردست مال ہے۔۔۔"

ایک نے خباشت سے کہا۔ 

دوسرے نے بھی تائید کی۔

"ہاں یار ۔۔۔اس کے سامنے تو یہ لوٹا ہوا مال بھی کچھ نہیں۔۔۔"

عشنا نے عالمگیر کے بازوں پر اپنے ہاتھوں کی سختی بڑھا دی۔

"چل۔۔۔اسے بھی ساتھ لے چلتے ہیں۔۔۔۔"

ایک نے کہا اور عشنا کی طرف بڑھنے لگا۔

"دیکھو۔۔۔تمہیں جو چاہیے تھا ہم نے دے دیا۔۔۔اب ہمیں جانے دو۔۔۔"

عالمگیر نے ذرا سخت لحظے میں کہا تو دوسرے نے اُس پر گن  تان دی۔

"کیوں بے۔۔۔بڑا ہیرو بن رہا ہے۔۔۔۔ کیا لگتی ہے تیری۔۔۔۔"

"بہن ہوگی۔۔۔۔"

دوسرا خباشت سے  سے ہنس کے بولا ۔

"دیکھ سیدھی طرح اسے میرے حوالے کر دے ورنہ۔۔۔ "

پہلے والے نے گن دکھاتے ہوئے عشنا کی طرف ہاتھ بڑھا کر اُسے آگے کھینچنا چاہا۔

عالمگیر نے اس کے گن والے ہاتھ پر اپنے بائیں پیر کو اُپر کی طرف اچھال کر ایک زور دار لات ماری تو گن چھوٹ کر دور جا گری۔ دوسرا بھاگ کر اُن کی طرف آیا تو عالمگیر نے اُس کے چہرے پر ایک پنچ مارا اور ساتھ ہی ایک گھُوسا اُس کے پیٹ پر مارا۔

وہ دونوں کرہانے لگے تو عالمگیر نے جھٹ عشنا کی کلائی تھامی اور اس پاس نظر دوڑاتے بائیں طرف بنی جھاڑیوں کی طرف دوڑ لگا دی۔عشنا اُس کے ساتھ بھاگتی جا رہی تھی۔

"پکڑ سالے کو۔۔۔"

پیچھے سے ایک چلّایا تو عالمگیر نے عشنا کے ہاتھ پر سختی بڑھا دی اور زیادہ زور سے بھاگنے لگا۔

بھاگتے بھاگتے وہ لوگ کافی دور آ گئے تھے۔

عشنا بری طرح ہانپ رہی تھی۔

عالمگیر نے پیچھے مڑ کر دیکھا جہاں دور دور تک کوئی نظر نہیں آ رہا تھا۔

عالمگیر نے دھیرے سے عشنا کی کلائی چھوڑ  دی اور پاس پڑے پتھر پر آ بیٹھا۔

عشنا بھی لمبے لمبے سانس لیتی اُس کے پاس آ بیٹھی۔

تھوڑی دیر وہ لوگ وہیں بیٹھے رہے پھر عالمگیر نے کھڑے ہو کر آس پاس دیکھا جہاں دور دور تک بس پیڈ ہی پیڈ تھے۔ شاید یہ کوئی جنگل تھا۔ 

"چلو۔۔۔"

عالمگیر نے آہستہ سے کہا تو عشنا کھڑی ہو گئی۔ اُس کے پیر اس طرح بھاگنے سے بری طرح درد ہو رہے تھے

"وہ لوگ پھر سے مل گئے تو۔۔۔"

عشنا سنبھل سنبھل کر چلتی بول رہی تھی ۔

" ہاں ہو سکتا ہے اس لیے ہمیں صبح ہونے تک یہیں رکنا پڑےگا۔

"لیکن ہم یہاں جنگل میں کیسے۔۔ "

عشنا نے پریشانی سے کہا۔

"رکو۔۔۔میں دیکھتا ہوں کچھ۔۔۔یہاں چلو۔۔۔۔"

عالمگیر نے ایک طرف اشارہ کیا جہاں ایک ٹوٹی پھوٹی کُٹیا نظر آ رہی تھی۔

وہ لوگ چلتے ہوئے اُس کُٹیا تک آئے جو دیکھنے سے خستہ حال لگتی تھی۔

عالمگیر نے دروازے پر ہاتھ رکھا تو وہ کھولتا چلا گیا ۔ 

"آؤ۔۔۔"

عالمگیر نے عشنا سے کہا اور اندر داخل ہو گیا۔

اندر بے انتہا دھول تھی۔

پیلي گھاس  جو دھول سے لت پت تھی ہر طرف بکھری ہوئی تھی۔ سائڈ میں ایک ٹوٹی ہوئی لکڑی کی کرسی اور ٹیبل پڑے تھے۔ زمین پر ایک گھاس کا بڑا سا گٹھا پڑا تھا۔ عالمگیر چلتا ہوا اُس کے پاس آیا اور اُس گھاس کے گٹھے کو کھول کر پھیلا دیا۔

گھاس اتنی زیادہ تھی کے زمین سے ذرا اونچی اُس کے ایک لمبی تہہ بن گئی۔

"آؤ۔۔۔یہاں بیٹھ جاؤ۔"۔

عالمگیر گھاس کی تہہ پر بیٹھتا ہوا بولا۔

عشنا جو کھڑی عالمگیر کو گھاس بچھاتے دیکھ رہی تھی اُس کے پکارنے پر گھاس پر جا کر قدرے فاصلے پر بیٹھ گئی۔

"تم چاہو تو سو جاؤ۔۔۔"

عالمگیر نے اُسے بیٹھا دیکھا تو بولا۔

عشنا دوپٹہ ٹھیک کرتی لیٹ گئی۔

عالمگیر دیوار سے ٹیک لگائیے بیٹھا تھا ۔اور ہاتھ سے گھاس نوچ نوچ کے پھینک رہا تھا ۔

تھوڑی دیر میں عشنا کی بھاری سانسیں جو کہ سنّاٹے کی وجہ سے صاف سنائی دے رہے تھی عشنا کے مکمل طور پر نیند میں ہونے کی گواہی دینے لگے۔

عالمگیر نے بھی آنکھیں مسلتے ہے اُنھیں آہستہ سے بند کر لی۔

صبح کی سنہری دھوپ عالمگیر کے چہرے پر پڑی تو اُس کی آنکھ خول گئی۔ اُس نے عشنا کو دیکھا جو کروٹ کے بل لیتی دوپٹہ اچھے سے اوڑھے اپنا آپ پوری طرح ڈھانپ کر سو رہی تھی۔

عالمگیر آہستہ سے کھڑا ہوا اور ایک انگڑائی لے کر اپنے ہاتھ ڈھیلی چھوڑ دیے۔

"عشنا اُٹھو۔۔۔۔"

عالمگیر نے زور سے اُسے پُکارا ۔

عشنا نے آنکھیں کھول کر ایک نظر اُسے دیکھا اور پھر آس پاس  کو ٹھوڑی دیر بعد اُسکا ذہین بیدار ہوا اور رات کی ساری باتیں یاد آ گئیں۔ وہ جلدی سے اٹھ کر اپنا دوپٹہ صحیح کرنے لگی۔

عالمگیر جب تک یہاں وہاں دیکھتا رہا شاید وہ کچھ تلاش کر رہا تھا۔

وہ چلتا ہوا اُس کُٹیا کے پیچھے گیا جہاں ایک کنواں بنا تھا ۔

عالمگیر نے آگے جاکے جھانکا تو پانی صاف نظر آ رہا تھا اور اُس پر رسی کے ساتھ بالٹی بھی لگی تھی۔ عالمگیر نے رسی کی مدد سے کنویں میں بالٹی سے پانی بھر کر اُپر کھینچا۔ اور منہ ہاتھ دھونے لگا۔ عشنا بھی چلتی ہوئی اُس کے پیچھے آئی تھی اور اُسے بالٹی سے پانی لے کر منہ دھوتا دیکھ کر اُس کے قریب آئی اور بالٹی ترچھی کر کے اس کے سامنے پانی گرانے لگی۔

عالمگیر نے ایک نظر اُسے دیکھا اور بالٹی سے گرتے پانی کے آگے ہاتھ کر کے منہ ہاتھ دھونے لگا۔

اُس کے بعد عالمگیر نے بھی بنا کچھ کہے ایک بالٹی پانی اور نکالا اور اُسے ترچھا کر کے عشنا کے آگے گرانے لگا۔ عشنا نے بھی ہاتھ منہ دھوئے۔

عالمگیر عشنا کے ساتھ چلتا سڑک کی طرف بڑھنے لگا۔چلتے چلتے کچھ دیر بعد  سڑک نظر آ ہی گئی۔ لیکن وہاں اُن کی کار نہیں تھی۔ عالمگیر نے عشنا کو ایک پیڑ کے پاس کھڑا کیا اور سڑک پے آتی ایک کار سے لفٹ لے کر عشنا کو ساتھ لے کر گھر آ گیا۔

عشنا چلتی ہوئی پھولوں کی کیاریوں کے پاس آئی۔آج 204 دِن بعد وہ اِنہیں دیکھ اور چھو رہی تھی۔

عالمگیر نے دور سے اُسے پھولوں کے پاس دیکھا اور گھر کے اندر بڑھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد فریش ہو کر تیار ہونے لگا۔

عشنا چلتی ہوئی لاؤنج تک آئی اور وہیں ایک صوفے پر۔ بیٹھ گئی۔

اتنی دیر میں گھر کے لینڈ لائن پر فون آنے لگی ۔

عالمگیر نے لاؤنج میں آ کر فون اٹھایا۔ حیرت تو اُسے تھی کہ اتنی صبح کس کی کل ہے لیکن اُسکا فون ٹوٹ گیا تھا شاید اس لیے نادر نے گھر کے نمبر پر کال کی ہو یہی سوچ کر اُس نے فون اٹھا لیا۔

"ہیلو۔۔۔۔"

"ہیلو۔۔۔عالمگیر بیٹا۔۔ کہاں ہو تم۔۔ رات سے تمہیں فون کر رہا ہوں بند جا رہا ہے۔۔۔بیٹا تم ٹھیک تو ہو۔۔۔"

دوسری طرف ابراہیم صاحب تھے۔ عالمگیر کے ہیلو بولتے ہیں اُنہونے ڈھیر سارے سوال کر ڈالے۔

"السلام علیکم مامو۔۔۔ وہ دراصل میرا فون ٹوٹ گیا کل رات اس لیے۔۔۔۔میں ٹھیک ہوں ۔۔آپ بتائیے کیوں کال کر رہے تھے۔"

عالمگیر نے عشنا کو دیکھئیے ہوئے کہا تھا۔

"بیٹا۔۔۔عالمگیر رات سے عشنا کا فون بند جا رہا ہے۔۔۔پتہ نہیں کہاں ہے وہ۔۔۔میں نے ہوسٹل فون کیا تو انہوں نے بتایا وہ رات واپس ہی نہیں آئی۔۔۔۔بیٹا میرا دل گھبرا رہا ہے۔۔۔بیٹا میری بیٹی پتہ نہیں کہاں ہے۔۔۔کیسی ہے۔۔۔"

ابھی وہ کچھ اور بھی کہہ رہے تھی کہ عالمگیر  نے اُن کی بات کاٹ دی۔

"مامو وہ میرے ساتھ ہے۔۔۔۔وہ بلکل ٹھیک ہے۔۔۔رات میں اُسے گھر لے آیا تھا۔۔۔"

اُس نے سچ کو جھوٹ کی ملاوٹ کے ساتھ بتایا ۔

عشنا اُسے ہی دیکھے جا رہی تھی۔

"عشنا۔۔۔عشنا تمہارے ساتھ تھی؟ تو اُس نے بتایا کیوں نہیں۔۔ اور فون کہاں ہے اُس کا ۔۔۔"

ابراہیم صاحب عشنا عالمگیر کے ساتھ ہے یہ جان کر مطمئن تو ہوئے لیکن پھر عشنا عالمگیر کے ساتھ کیوں ہے یہ سوچ کر پریشان بھی ہو گئے۔

"مامو اُس کا فون خراب ہو گیا تھا۔"

اُس نے پھر سے جھوٹ بولا۔

" بیٹا آپ اُسے لے کر لاہور آ جاؤ۔۔۔آج ۔۔۔پلیز۔۔۔ "

ابراہیم صاحب نے التجاء کی۔

"ٹھیک ہے مامو۔۔۔میں لے آتا ہوں اُسے ۔۔ آپ فکر نہ کریں۔۔۔"

اُس نے کہا اور فون رکھ دیا۔

"عشنا چینج کر لو۔۔۔ہمیں ابھی لاہور کے لیے نکلنا ہے۔ ۔۔"

اُس نے عشنا سے کہا تو وہ پریشان ہو گئی۔

"لیکن میرے ۔۔۔میرے پاس کوئی کپڑے نہیں ہیں۔۔سارے کپڑے تو ہوسٹل میں ہیں۔۔۔"

اُس نے نظریں جھکائے کہا۔

اُس کے کپڑے مٹی سے اٹے تھے اور جگہ جگہ کیچڑ بھی لگا تھا اس لیے عالمگیر نے اُسے چینج کرنے کو کہا تھا خود تو وہ شاور لے کر آ رہا تھا۔

"ایک ڈریس بھی نہیں ہے؟"

عالمگیر نے پھر سے پوچھا۔

"آپ نے کہا تھا سب کچھ لے جانا کچھ بھی نہیں رہنا چاہیے۔۔۔۔"

اُس نے اُسے پچھلی بات کا حوالہ دیا۔

عالمگیر کچھ بولا نہیں بس اپنے کمرے میں گیا اور کچھ دیر بعد باہر آیا تو اُس کے ہاتھ ایک شاپر تھا۔

"اس میں کپڑے ہیں ۔ جاؤ جا کر چینج کر کے آؤ۔"

عالمگیر نے شاپر اُسے پکڑتے ہے کہا۔


عشنا نے ایک نظر شاپر میں جھانک کر دیکھا اور کمرے میں جا کر شاور لے کر وہ ڈریس پہن لی۔

بلیو کلر کے بڑے سے گھیر دار فراک کے ساتھ چوڑی دار پائجامہ اور اُس کا ہمرنگ دوپٹہ ۔ وہ ڈریس اُسے بہت پسند آیا ۔ ساتھ ہی اُس نے عالمگیر  کی پسند کی بھی داد دی۔

عالمگیر عشنا کے ہوسٹل جانے کے بعد جب بھی اپنی شاپنگ کرنے جاتا تو عشنا کے لیے بھی کچھ نہ کچھ خرید لیا کرتا تھا لیکن کبھی اُسے دیا نہیں۔ بہت بار سوچا ڈرائیور سے بھیج دے لیکن اُس کی باتیں یاد آتی تو اپنا ارادہ بدل دیتا تھا۔ اور آج تک نجانے کتنے کپڑے جو اُس نے اُس کے لیے پچھلے 204 دونوں میں لیے تھے وہ ایسے ہی اُسکی الماری میں پڑے تھے۔ 

کئی بار اُس نے عشنا کو مال میں اُس کے دوستوں کے ساتھ دیکھا تھا لیکن وہ ہمیشہ ہی وہاں سے چلا جایا کرتا تھا۔ کبھی اُس کے سامنے نہیں آیا تھا۔

آج جب عشنا نے کہا اُس کے پاس کپڑے نہیں ہیں تو وہ الماری سے اُس کے لیے کپڑے لے آیا تھا۔

عشنا جب تک چینج کرنے گئی تھی عالمگیر نے مراد کو فون کر کے رات والے حادثے کی ساری تفصیل بتا دی تھی۔ 

مراد نے جلد سے جلد اُنکے پکڑنے جانے کی امید دلائی تھی۔

عشنا فریش ہو کر آئی تو ہمیشہ کی طرح عالمگیر آس پاس سے بےخبر ہو کر مبہویت سے اُسے دیکھے گیا۔ عشنا چلتی ہوئی اُس کے پاس آ کر رکی ۔

"چلیں۔۔۔۔"

عشنا نے کہا۔

"ہاں۔۔۔ہاں۔۔۔۔"

عالمگیر کا سکتہ عشنا کے "چلیں" کہنے پر ٹوٹا۔

وہ چلتا ہوا کار تک آیا اور عشنا کے بیٹھتے ہی کار کو گیٹ سے باہر نکال لیے گیا۔

وہ لوگ پہلے عشنا کے ہوسٹل گئے ۔عشنا اپنا سامان لینے اپنے کمرے میں گئی تب تک عالمگیر نے ہوسٹل کے مینیجر سے بات کر لی تھی  کہ عشنا اُس کے ساتھ تھی اور اس بات کا کوئی ایشو نہ بنایا جائے۔ چونکہ مینیجر اُسکے کسی بزنس پارٹنر کے بیٹے کا سالہ تھا اس لیے اُس نے بھی اُس کی بات آسانی سے مان لی۔

سامان لے کر عشنا باہر آئی تو عالمگیر اُسکا بیگ ہاتھ میں تھامے کار تک آیا اور بیگ کار میں رکھ کر ڈرائیونگ سیٹ پر آ گیا۔ عشنا بھی آ کر اُس کے برابر میں بیٹھی تو عالمگیر نے کار آگے بڑھا لی۔

سارے راستے اُس نے ایک لفظ نہیں کہا۔

اُس کی خاموشی اُس کے اب بھی ناراضگی کی نشاندھی کر رہا تھا۔

 عالمگیر نے راستے میں آنے والے ایک ڈھابے پر کار روک کر عشنا کے ساتھ ناشتہ  کیا تھا۔

اور پھر ڈائریکٹ ابراہیم صاحب کے گھر آ گیا تھا۔

رحمت بیگم کو بھی وہ اپنے آنے کا بتا چکا۔تھا اس لیے وہ بھی یہیں آ گئی تھیں۔

اُس نے کار پورچ میں روکی اور اُسکا سامان کا بیگ لے کر اندر کی طرف بڑھا۔

رحمت بیگم نے عالمگیر کو دیکھا تو باہیں پھیلا کر اُس کی طرف بڑھیں اور اُس کو گلے لگا لیا۔

عشنا بھی چلتی ہوئی کوثر بیگم کے گلے مل کر ابراہیم صاحب سے ملی پھر رحمت بیگم سے مل کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔

عالمگیر وہیں صوفے پر اُن کے ساتھ بیٹھ گیا۔

تھوڑی دیر ادھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں۔کوثر بیگم چائے کے ساتھ دوسرے لوازمات بھی لے آئیں تھیں۔

"کوثر۔۔۔۔۔شام کے لیے تیاری کر لو۔۔۔"

ابراہیم صاحب نے کوثر بیگم سے کہا۔

"کیسی تیاری ابراہیم۔۔۔ "

رحمت بیگم نے چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے پوچھا۔

"آپا میں نے کچھ لوگو کو عشنا کے رشتے کے لیے بلایا ہے۔ بس اسی سلسلے میں وہ لوگ آنا چاہئے رہے ہیں۔ آج عشنا بھی آ گئی تو میں نے اُنھیں آج ہی بولانا مناسب سمجھا۔ آپا میں اب عشنا کی شادی جلد سے جلد کر دینا چاہتا ہوں۔۔ "

ابراہیم صاحب نے ساری بات کہہ سنائی ۔

عالمگیر جو ہاتھوں میں چائے کی پیالے پکڑے اُن کی بات سن رہا تھا چائے کی پیالی ٹیبل پر رکھ دی۔

"مامو آپ اُن لوگو کو منع کر دیں۔۔۔"

عالمگیر نے آہستہ سے کہا۔

"لیکن کیوں بیٹا۔۔۔وہ میرے جاننے والے ہیں ۔۔۔اچھے لوگ ہے میں نے دو چار لوگوں سے پتہ بھی کروایا ہے ۔اور تو اور لڑکا دبئی میں رہتا ہے۔بہت بڑی شاپ ہے اُس کی دوبئی میں۔"

ابراہیم صاحب نے اُن لوگو کے بارے میں ساری بات بتائی جو اُنھیں پتہ تھی۔

"لیکن مامو عشنا ابھی بہت چھوٹی ہے۔۔۔"

اُس نے پریشانی سے کہا۔

"اگلے مہینے وہ 18 سال کی ہو جائیگی عالمگیر۔۔۔اور  میں کون سا ابھی شادی کر رہا ہوں۔ابھی بات کرینگے۔ شادی کچھ دنوں بعد ہو کرینگے۔

ابراہیم صاحب نے آہستہ سے بتایا۔

"مامو میں عشنا سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔"

عالمگیر نے جیسے دھماکہ کیا۔

سارے لاؤنج میں سنّاٹا چھا گیا۔

ابراہیم صاحب تو کچھ دیر کے لیے کچھ بول ہی نہیں پائے۔ کوثر بیگم اور رحمت بیگم نے خوشی سے مسکرا کر ایک دوسرے کو دیکھا۔

"نہیں عالمگیر۔۔ میں عشنا کی شادی تم سے نہیں کر سکتا۔۔۔"

اُنہونے سے صاف لفظوں میں منع کر دیا۔

"تو کیا آپ کو لگتا ہے  وہ دبئی کا شاپ اؤنر عشنا کو مجھ سے زیادہ خوش رکھے گا؟"

عالمگیر نے اُنہیں دیکھتے ہوئے پوچھا 

"نہیں بیٹا۔۔۔کوئی بھی میری عشنا کو تم سے زیادہ خوش نہیں رکھ سکتا۔اس لیے پہلے میں نے تمہارا رشتہِ عشنا کے لیے مانگا تھا۔ لیکن تم نے منع کر دیا تھا۔ اور اب حالات ایسے ہیں کہ میں چاہ کر بھی عشنا کی شادی تم سے نہیں کر سکتا۔"

ابراہیم صاحب نے بڑی دل گرفتگی سے کہا۔

"مامو ۔۔ کیا آپ میری منگنی کی وجہ سے انکار کر رہے ہیں؟"

عالمگیر کو اپنی منگنی شدہ ہو کر منگنی ٹوٹنے والی بات کا خدشہ ہوا۔

"نہیں بیٹا۔۔۔۔مجھے اُس سے کوئی مطلب نہیں۔اور خیر ۔۔ اب تو منگنی بھی ٹوٹ کے کافی وقت بیت گیا ہے۔ بیٹا ہارون چاہتا تھا کہ تم مرحہ سے شادی کرتے ۔۔ لیکن ایسا ہو نہ سکا۔ اور اب اگر میں عشنا کی شادی تم سے کر دونگا تو میرا بھائی مجھ سے بدظن ہو جائیگا۔بیٹا میں ایسا نہیں کر سکتا۔

میری مجبوری کو سمجھو۔۔۔"

ابراہیم صاحب نے آہستہ سے اُسے انکار کی وجہ بتائی۔

"مامو آپ ہارون مامو کے لیے۔۔۔مامو میں آپکو عشنا کی زندگی برباد کرنے نہیں دونگا

مامو مجھے عشنا سے شادی کرنی ہے ابھی۔۔۔"

عالمگیر نے اٹل لحظے میں کہا تو ابراہیم صاحب صوفے سے کھڑے ہو گئے۔۔

"عالمگیر کیا بچوں والی بات کر رہے ہو۔۔ایسا بھی کبھی ہوتا ہے۔؟

نہیں۔۔۔میں ایسا ہرگز نہیں کر سکتا۔میں ہارون کو ناراض نہیں کر سکتا۔"

ابراہیم صاحب نے پھر منع کیا۔

"مامو ہارون مامو کو میں سمجھا دونگا۔ لیکن عشنا اور میرا نکاح ابھی ہوگا۔ میں جانتا ہوں کے آپ عشنا کی شادی اتنی جلدی کیوں کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے مامو میں کہہ رہا ہوں آج ہمارا نکاح ہو جانا چاہیے۔ میں اب اور عشنا کے بارے میں کسی کو کچھ کہنے کا موقع نہیں دینا چاہتا۔عشنا کا نکاح آج اور ابھی ہوگا میرے ساتھ۔۔ "

عالمگیر بھی صوفے سے کھڑا ہو کر اُنکے سامنے آ گیا اور بولا تو ابراہیم صاحب پہلے تو تھوڑا حیران ہوئے لیکن اُس کی بات اُنھیں صحیح بھی لگی۔

جب سے عشنا اسلام آباد گئی تھی پڑھنے لوگ طرح طرح کی باتیں کر رہے تھے۔ مرحہ کی شادی میں بھی کچھ لوگو نے اُن دونوں کے لیے کیسے نازیبا لفظوں کا استعمال کیا تھا۔ کچھ لوگو نے تو سامنے کہہ دیا تھا کسی نے پیٹھ پیچھے۔ اس لیے وہ رحمت بیگم کے لاہور رہنے آنے کے بعد عشنا کو وہاں رکھنا نہیں چاہتے تھے۔

"لیکن عالمگیر ۔۔۔کیا عشنا مان جائیگی؟"

اُنہیں اب عشنا کو پریشانی ہوئی۔

"میں بات کر لیتا ہوں ایک بار وہ مان جائیگی۔

آپ تب تک قاضی صاحب کو بلائیں ۔۔ اور ہاں مامو مجھے کچھ دیر میں اسلام آباد واپس جانا ہے۔ مجھے ایک کانفرس کے لیے جرمنی نکلنا ہے آج تو مجھے پہلے آفس سے کچھ فائل وغیرہ لینا ہے۔"

اُس نے اُنھیں قاضی لانے کا کہا اور اپنے جرمنی جانے کہا بھی بتایا 

"لیکن بیٹا۔ ۔اگر ایسا ہے تو ہم بعد میں کر لینگے نکاح۔۔ آپ کے جرمنی سے آنے کے بعد ۔۔اتنی جلدی بھی کیا ہے۔۔ اور اگر عشنا نا مانی تو۔۔۔ "

اُنہونے ایک بار پھر اُسے بعض رکھنا چاہا۔

"مامو وہ مان جائیگی میں بات کر کے منا لونگا اُسے ۔ اور میں عشنا کے خلاف اب کیسی کو کچھ بھی بولنے کا موقع دینا نہیں چاہتا۔ ابھی اور اسی وقت سے ۔ لیکن ایسا تب ہی ہو سکتا ہے جب عشنا ۔۔۔عشنا عالمگیر سجّاد بنے گی ۔"

کہہ کر وہ عشنا کے کمرے کی طرف بڑھا۔

"لیکن ہارون کو اس بات کا پتہ نہیں چلنا چاہیے ۔میں پہلے اُسے سارے صورتِ حال سے آگاہ کرونگا تب ہی کوئی اُسے عالمگیر اور عشنا کے نکاح کے بارے میں بتائیگا۔"

ابراہیم صاحب نے باری باری سبکو دیکھتے ہوئے کہا تو عالمگیر نے بھی اس اثبات میں سر ہلا دیا اور عشنا کے کمرے میں آ گیا ۔

عشنا بیڈ کی پائنتی پر بیٹھی اپنے ناخن گھور رہی تھی ۔

عالمگیر چلتا ہوا اُس کے بیڈ کے پاس آیا اور جیبوں میں ہاتھ ڈال کر اُسے مخاطب کیا۔

"عشنا۔۔۔۔۔"

عشنا نے نظریں اٹھا کر اُسے دیکھا۔

"عشنا میں کچھ دونوں کے لیے جرمنی جا رہا ہوں۔۔۔اور میں چاہتا ہوں کہ۔۔۔ "

عالمگیر کے جرمنی جانے کا کہتے ہی عشنا کی آنکھیں پانیوں سے بھرنے لگی۔عالمگیر اُسکی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر بولتے بولتے رکا اور اُس سے نظریں چرا لیں۔

"عشنا  ۔۔۔میں چاہتا ہوں جانے سے پہلے ہمارا نکاح ہو جائے۔ تم بتاؤ ۔۔۔۔۔نکاح کروگی مجھ سے؟"

عالمگیر نے اُس سے پوچھا تو وہ بھیگی آنکھوں نے حیرت سموئے اُسے دیکھے گئی۔ جب وہ کافی دیر کچھ نہیں بولی تو عالمگیر نے کہا۔

"ٹھیک ہے اگر تم مجھ نکاح نہیں کرنا چاہتی تو۔۔۔"

"نہیں۔۔وہ بات نہیں۔۔ ابھی میری اسٹڈیز باقی۔۔۔مجھے ماسٹرز کرنا ہے۔۔۔میں ابھی۔۔۔۔" 

عشنا اُس کی بات کاٹتے ہوئے بولی۔

"صرف اسٹڈیز کا مسئلہ ہے تو ابھی صرف نکاح ہوں رہا ہے۔ رخصتی تمہاری مرضی پر ہوگی۔ جب تم چاہو گی۔ جتنا مرضی پڑھو لیکن عشنا ابراہیم بن کے نہیں بلکہ عشنا عالمگیر سجّاد بن کے۔"

عالمگیر نے تفصیل سے بتایا۔

"لیکن ابھی ایسے۔۔۔"

"عشنا تمہیں کسی اور بات پر اعتراض  ہے؟"

عالمگیر نے اس کی بات کاٹ کر پوچھا

"نہیں۔۔۔۔میں وہ۔۔۔"

" ٹھیک ہے تیار ہو جاؤ۔۔۔ٹھوڑی دیر میں قاضی صاحب آ رہیں ہیں۔"

کہہ کر وہ کمرے سے نکل گیا۔

وہ کمرے سے باہر آیا تو ابراہیم صاحب کو اپنا منتظر پایا 

"مامو وہ راضی ہے۔۔۔آپ نے قاضی صاحب کو بولا لیا؟"

اُس نے عشنا کی رضامندی بتانے کے بعد قاضی صاحب کا پوچھا۔

"ہاں بیٹا ۔۔ وہ بس آ رہے ہیں۔"

اُنہونے بتایا۔ وہ لوگ آ کر صوفے پر بیٹھ گئے۔

رحمت بیگم اور کوثر بیگم عشنا کے کمرے میں آ گئیں تا کہ اُسے تیار کر سکیں۔

اُنہونے نے عشنا کو لال رنگ کی لونگ میکسی  پہنا دی اور دوپٹہ اچھے سے سر پر ٹیکا کر ذرا سا گھونگھٹ نکال دیا۔

تھوڑی دیر بعد قاضی صاحب آئے اور نکاح کے لیے عشنا کی رضامندی پُوچھی گئی اور پھر نکاح کی رسم ادا ہوئی۔ وہ لوگ اب عالمگیر کے پاس آئے اور یہاں بھی قبول و ایجاب کے مراحل طے کرنے کے بعد مبارک بعد دی گئیں۔

عشنا اب عشنا ابراہیم سے عشنا عالمگیر سجّاد بن گئی تھی۔

عالمگیر نے گھڑی میں وقت دیکھا۔ اُس کی فلائٹ کا وقت ہو گیا تھا۔ اُسے یہاں اتنا وقت لگ گیا تھا کے اُس نے اسلام آباد فلائٹ سے جانے کا سوچا تھا۔ 

اسلام آباد کے لیے 2 گھنٹے بعد اُس کی فلائٹ تھی ۔نیا موبائل اور فائلز بھی اُس نے نادر سے ایئرپورٹ پر ہی منگوا لیا تھا کیونکہ اُس کی جرمنی کی فلائٹ میں بھی صرف 5 گھنٹے بچے تھے جو کہ اسلام آباد سے تھی۔

اُس نے سب سے اجازت لی اور چلاتا ہوا عشنا کے کمرے میں آ گیا۔

عشنا گھونگھٹ اوڑھے بیٹھی تھی۔ عالمگیر کے کمرے میں آتے ہی کوثر بیگم اور رحمت بیگم کمرے سے نکل گئیں۔

عالمگیر چلتا ہوا عشنا کے بیڈ تک آیا اور اُسکے ذرا فاصلے پر بیٹھ گیا۔

"عشنا۔۔۔۔"

اُس نے پُکارا

عشنا نے گردن اٹھا کر اُسے دیکھا لیکن گھونگھٹ کی وجہ سے عالمگیر اُس کا چہرہ نہیں دیکھ پایا۔

"عشنا میں نہیں جانتا کے جو میں نے آج کیا وہ صحیح تھا یہ غلط۔  لیکن میں اتنا ضرور جانتا ہوں کے تمہیں مجھ پر اعتبار نہیں۔ تم فکر مت کرو۔۔ اگر زندگی میں تمہیں کبھی ایسا لگا کہ میں تمہارے قابل نہیں تو تم مجھ سے بے جھجھک کہہ سکتی ہو۔ میں ہماری راہیں الگ کر لونگا۔۔"

کہہ کر وہ بنا عشنا کی ایک بات کیے نکل کر پورچ میں آ گیا جہاں ابراہیم صاحب کوثر بیگم اور رحمت بیگم کھڑی اُس کا انتظار کر رہی تھی۔ وہ اُن سے دعائیں لیتا کار میں سوار ہوا اور ڈرائیور نے کار کو ایئرپورٹ کے راستے پر ڈال دیا۔

عشنا جو نکاح کے بعد اپنے آپ پر رشک کرنے لگی  تھی کہ عالمگیر نے خود اُس سے نکاح کیا ہے عالمگیر کے کمرے میں آنے پر سوچ رہی تھی وہ کوئی وعدہ کوئی عہد کریگا لیکن اُس نے تو اُسے بے اعتباری کا طعنہ مار کر بنا اُس کی سنے بس اپنی کہہ کر چلا گیا تھا۔ 

کیا زندگی مجھے کبھی کوئی ایسا رشتہِ دیگی جو مجھ سے وہ محبت کرے جو مجھے آج تک نہیں ملی؟ کیا زندگی یوں ہی مجھے رشتوں کے سراب میں رکھے گی؟ کیا میں بھی کبھی کسی کے لیے  خاص بن پاؤں گی؟

ایسے بہت سے سوال تھے جو عشنا، عشنا ابراہیم سے عشنا عالمگیر سجّاد بننے کے بعد  خود سے کر رہی تھی۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 عشنا کی چیخ سن کر عالمگیر انسپیکٹر کو پرے دھکیلتا عشنا کی طرف بڑھا انسپیکٹر بھی ساتھ آیا۔ عالمگیر نے عشنا کو کندھوں سے پکڑ کر کھڑا کیا۔

 عشنا اس کے سینے سے لگ کر ہولے ہولے کانپنے لگی۔

عشنا نے عالمگیر کو زور سے پکڑ رکھا تھا۔

"عشنا۔۔۔۔ریلیکس۔۔۔۔کچھ نہیں ہوا۔۔۔سب ٹھیک ہے۔۔۔دیکھو یہاں میری طرف۔۔۔۔دیکھو ۔۔۔میں ٹھیک ہو۔۔۔۔"

عالمگیر سے آہستہ سے اُسے خود سے الگ کرنا چاہا کیونکہ سامنے کھڑا انسپیکٹر مراد لبوں پر شرارتی مسکراہٹ سجائے اُن دونوں کو ہی دیکھ رہا تھا۔

"تیرے تو میں سارے دانت توڑ دونگا۔۔۔۔اپنا یہ اشتہار بند کر"

عالمگیر نے مراد کو ہنستے دیکھ کر دانت کچچا کر کہا۔

مراد اُس کے کہنے پر بجائے ہنسنا بند کرنے کے قہقہہ لگا کر ہنس پڑا۔

"اپنی خباشت بند کرتا ہے یہ نہیں۔۔۔۔"

عالمگیر کو اُس کے قہقہے نے تپ چڑھا دی۔

عشنا اب بھی اُسے ایسے ہی جکڑے کھڑی تھی۔

اُسے ڈر تھا کہ اگر اُس نے عالمگیر کو چھوڑا تو کہیں وہ انسپیکٹر عالمگیر پر پھر حملہ نہ کر دے۔

"عشنا یار آنکھیں تو کھولو۔۔۔۔۔دیکھو کچھ نہیں ہوا۔۔ تم نے اس خبیث کو پہچانا نہیں۔۔۔یہ مراد ہے۔۔۔۔دیکھو۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کے گال تھپک کر اُسے مراد کا بتایا۔

عشنا نے مراد کا نام سن کر آہستہ سے آنکھیں کھول کر مراد کو دیکھا جو سامنے کھڑا مسکرا کر کانوں کو ہاتھ سے پکڑے بے آواز صرف لبوں کو زنبش دے کر سوری کہہ رہا تھا۔ 

عشنا نے اُسے دیکھا اور پھر عالمگیر کو جو ہنسی اور غصے کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ مراد کو گھورے جا رہا تھا۔

اُس نے آہستہ سے عالمگیر کے گرد اپنے لپٹے ہاتھ ہٹائے اور پھر سے مراد کو دیکھ کر اُسے یاد کرنا چاہا۔

عشنا کی کبھی مراد سے  زیادہ ملاقات نہیں ہوئی تھی صرف ایک بار اُس نے  مراد کو گھر کے گیٹ پر دیکھا تھا جب وہ عالمگیر کو ڈراپ کرنے آیا تھا۔ شاید اُس دن عالمگیر کی کار خراب ہو گئی تھی تب ہی مراد اُسے گھر ڈراپ کر کے گیا تھا۔

اُس وقت وہ پولیس یونیفارم میں نہیں بلکہ سادہ کپڑوں میں تھا۔

 دوسری بار اُس نے اُسے عالمگیر اور سنبل کی منگنی والی رات دیکھا تھا جب وہ پلیٹ میں بہت سارا کھانا لیے کھانے پر تبصرے کر رہا تھا اور ساتھ ہی عالمگیر کو بھی اور کھانا کھانے کی ہدایت دے رہا تھا ۔ اس لیے جب آج اُس نے مراد کو یونیفارم میں دیکھا تو پہچان نہیں پائی تھی 

"سوری بھابھی۔۔۔۔مجھے پتہ نہیں تھا آپ ایسے ڈر جائیگی۔۔۔لیکن آپ بھی دیکھیں اس کمینے کو۔۔۔۔۔ کیسے چھب چھپا کے شادی کر لی اور مجھے بلایا بھی نہیں۔۔۔۔مطلب اپنے جگری دوست کو بولنا ضروری نہیں سمجھا اس نے۔۔۔۔۔"

کہتے ساتھ ایک بر پھر مراد اُس پر جھپٹا اور اُس کا گریبان پکڑ لیا۔

عالمگیر مسکرا کر مراد کو دیکھتا سر کھجانے لگا۔

 مراد اُسے غصے سے گھور رہا تھا۔

عشنا نے گھبرا کر لبوں پر ہاتھ رکھ دیا۔۔

مراد نے عشنا کی طرف دیکھا تو اُس کے کالر سے ہاتھ ہٹا لیا۔

"آج بھابھی کی وجہ سے چھوڑ رہا ہوں تجھے۔۔۔ویسے تو نے میرا بہت بڑا نقصان کیا ہے۔۔۔ "

مراد کہتا ہوا چہرے پر اُداسی طاری کرتا ایک سائڈ میں کھڑا ہو گیا۔

"میری شادی سے اس کا کون سا نقصان ہو گیا۔۔۔۔؟"

عالمگیر سوچتا ہوا اُس کی طرف بڑھا۔

"میری شادی سے تیرا کون سا نقصان ہو گیا ؟"

عالمگیر نے حیرت سے پوچھا۔

 عشنا بھی حیرت سے کبھی عالمگیر تو کبھی مراد کو دیکھتی۔ مراد اُداس اُداس سا کھڑا تھا۔

"کمینے۔۔۔ تیری وجہ سے میرا کتنا نقصان ہوا۔۔۔تیری منگنی میں اتنے مزے کے کھانے تھے۔۔۔شادی میں تو نہ جانے کیا کیا رہا ہوگا۔۔۔ہائے میرے کھانے۔۔ ۔۔میں تجھے کبھی معاف نہیں کرونگا۔۔۔یاد رکھنا۔۔۔"

مراد انگلی اٹھا کر کہتا منہ بنا کر رخ موڑ گیا۔

عالمگیر جو اُس کی منگنی کی بات سن کر ناگواری سے اُسے دیکھنے لگا تھا اُس کے کھانے کا افسوس سن کر خود کو قہقہہ لگانے سے بعض نہ رکھ سکا اور ہنستا ہی چلا گیا۔۔

عشنا بھی لبوں میں ہاتھ رکھ کر چہرہ نیچے کیے اپنی ہنسی روکنے کی کوشش کرنے لگی۔

عشنا نے مراد کے کھانے سے محبت کو عالمگیر کی منگنی کی رات دیکھ رکھا تھا اور اب اُس کے اس طرف سے افسوس کرنے  کی بات بھی سمجھ آ گئی۔

"نہیں ہوا کوئی تیرا نقصان۔۔۔۔۔"

عالمگیر نے اپنی ہنسی روکتے ہوئے کہا۔

"ہاں بچوں۔۔۔۔انسپیکٹر مراد کا نقصان کرنا اتنا آسان نہیں۔۔۔۔اب ایک مہینے تک میں جہاں کہونگا تُجھے وہاں مجھے کھانا کھیلنا پڑےگا وہ بھی میں جتنا چاہوں۔۔۔"

مراد نے اُس کی طرف رخ پھیر کر اُسے سزا سنائی۔

"معاف کر بھائی مجھے ابھی سے غریب مت کر ابھی تو میری شادی بھی نہیں ہوئی۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کے آگے ہاتھ جوڑ کر کہا تو مراد نے ایک کنفیوژ نظر عالمگیر اور پھر عشنا پر ڈالی۔

"کیا مطلب۔۔۔۔ابھی تو بھابھی نے کہا کہ نکاح نامہ۔۔ ۔تو نے بھی تو بھابھی کو "میری بیوی" کہا تھا۔۔۔"

اُس نے "میری بیوی" پر زور دے کر عالمگیر سے سوال کیا

"ہاں بھئی یہ میری بیوی ہے لیکن ابھی ہماری شادی نہیں ہوئی"

اُس نے مسکراتے ہوئے بتایا۔

"ابے گھامڑ۔۔۔۔اگر شادی نہیں ہوئی تو بیوی کیسے ہوئی ؟"

مراد سے دانت پیستے ہوئے کہا۔

"مطلب ابھی صرف نکاح ہوا ہے اور تیری بھابھی کے حساب سے یہ شادی نہیں ہے۔۔۔کیونکہ رخصتی نہیں ہوئی۔۔۔۔نکاح بہت جلد بازی میں ہوا تھا کیونکہ مجھے جرمنی جانا تھا۔ اور نکاح میں کوئی کھانا پینا نہیں ہوا۔۔۔"

عالمگیر نے ساری تفصیل بتائی اور ساتھ میں کھانے کے بارے میں بھی مسکراتے ہوئے بتایا۔

"اوہ آئی سی۔۔۔۔۔۔۔شکر۔۔۔ "

مراد نے "اوہ" کو ذرا لمبا کھینچا اور شکر کو ذرا دھیرے سے کہا اور ساتھ ہی کار کو بونٹ پر چڑ کر بیٹھ گیا۔

 لیکن اُس کی آواز عالمگیر کے کانوں تک پہنچ چکی تھی۔اُس نے مسکراتے ہوئے نفی میں گردن ہلائی۔

عشنا چپ چاپ عالمگیر کے پاس کھڑی اُن دونوں کو باتیں کرتا دیکھ رہی تھی۔

"اچھا یہ تو سمجھ آ گئی کے بھابھی تیری بیوی ہیں اور تیری شادی نہیں ہوئی ابھی تک۔۔۔لیکن یہ کراچی کا کیا سین ہے؟"

اُس نے مسکراتے ہوئے آنکھیں گھوما کر پوچھا۔

"وہ میں ایک میٹنگ میں لیے کراچی گیا تھا۔"

اُس نے کراچی کا بتایا۔

""بھابی کی ساتھ۔۔۔۔۔؟"۔

مراد نے آنکھیں بڑی کر کے شرارت سے کہا

"عشنا وہاں کالج ٹریپ پر گئیں تھی اور بس مس ہو گئی تو میں ساتھ لے آیا۔ کالج بس صبح تک یہاں پہنچ جائیگی تو میں عشنا کو ٹریپ پر چھوڑ دونگا۔"

عالمگیر نے تفصیل سے ساری بات بتائی۔

"تو،تُو انہیں کہاں مل گیا۔۔۔۔یا کہیں تو نے جان بوجھ کر  تو نہیں انّ کی بس مس کروا دی ؟ "

مراد پھر شرارت سے بعض نہیں آیا۔

عشنا نے عالمگیر کو شق بھاری نگاہوں سے دیکھا۔

"کمینے ایسا کچھ نہیں ۔۔۔۔۔"

عالمگیر، عشنا کو ایسے شق بھری نظروں نے دیکھتا پا کر غصے سے بولا۔

مراد کار کی بونٹ سے کود کر نیچے آیا۔

"تو یہاں اتنی رات کو کیا آوارہ گردی کرتا پھر رہا ہے۔"

عالمگیر نے اُس کے اتنی رات میں سڑک پر گھومنے پر طنزاً کہا۔

"آوارہ گردي نہیں کر رہا۔۔۔ڈیوٹی پر ہوں۔۔۔۔کمشنر کی گاڑی چوڑی ہو گئی ہے تو بس اُسے ہی ڈھونڈھنے کے لئے ہمیں پولیس اسٹیشن سے سڑکوں کی خاک چھاننے کے لیے مجبور کیا گیا ہے۔"

 اُس نے منہ بناتے ہوئے کہا۔

"چل۔۔۔مجھے بھی اب نکلنا ہے۔۔۔آپ دونوں گھر جائیں۔۔۔انشاء اللہ کل ملاقات ہوتی ہے۔"

وہ عالمگیر سے ہاتھ ملتا ہوا بولا تو عالمگیر نے عشنا کو سر کے اشارے سے کار میں بیٹھنے کا کہا۔

مراد اُس کے ساتھ چلتا ڈرائیونگ سیٹ کے پاس آیا اور اُس کے کار میں بیٹھنے سے پہلے اُس کے کان میں سرگوشی کرتا بولا۔

"انجوئے۔۔۔"

عالمگیر نے اُسے گھور کر دیکھا تو وہ چہرے پر شرارتی مسکراہٹ سجائے اُسے آنکھ مار کر اپنی پولیس وین کی طرف بڑھ گیا 

عالمگیر بھی مسکراتے ہوئے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا اور عشنا کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے کار اسٹارٹ کر کے گھر کی طرف موڑ لی۔

"کیا کہہ رہے تھے مراد بھائی؟"

عشنا نے دیکھ لیا تھا جب مراد عالمگیر کے کان میں سرگوشی کر رہا تھا۔لیکن وہ اُس کی بات نہیں سن پائی تھی اس لیے تجسّس سے عالمگیر سے پوچھا تو عالمگیر گڑبڑا گیا۔

"ک۔۔کو۔۔۔کچھ نہیں۔۔۔پاگل ہے۔۔۔۔"

عالمگیر نے چہرہ دوسری طرف موڑ کے بلا وجہ ہی سائڈ میں لگے سائڈ مرر سے پیچھے دیکھا۔

عشنا کچھ نہیں بولی۔

عالمگیر نے بھی کوئی بات نہیں کی۔

تھوڑی دیر بعد عالمگیر نے کار کو گیٹ کے اندر لا کر اُسے پورچ میں روکا۔

"عشنا ۔۔ رکو۔۔۔۔"

عشنا جو اُس کے کار روکنے پر باہر نکلنے کے لیے دروازے کی طرف ہاتھ بڑھا رہی تھی عالمگیر کی بات پر رک کر اُسے دیکھنے لگی۔

عالمگیر ڈرائیونگ سیٹ سے اتر کر اُس کی طرف آیا۔ دروازہ خول کر ذرا سا جھک کر عشنا کو باہوں میں اٹھا لیا۔

عشنا حیرانی سے اُسے دیکھنے لگی ۔

"یہ ۔۔۔یہ کیا کر رہے ہیں۔۔۔۔ نیچے اتاریں مجھے۔۔۔کوئی دیکھ لے گا۔۔۔ "

عشنا نے یہاں وہاں دیکھتے ہوئے کہا اور ساتھ ہی اُس کی گردن میں باہیں ڈال کر سہارا بھی لیا۔

"کوئی نہیں دیکھتا یار ۔۔۔رات کا 1 بج رہا ہے۔۔۔سارے ملازم اپنے کوارٹر میں جا چُکے ہوں گے۔"

عالمگیر نے اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔

" اور اگر جاگ رہے ہوئے تو؟"

عشنا نے بھی اُس کی آنکھوں میں دیکھتے سوال کیا۔

"تو جاگنے دو۔۔۔اپنی بیوی کو اٹھایا ہے کسی اور کو تو نہیں۔۔۔ "

اُس نے کندھے اچکا کر کہا۔

"اور کسی کو اٹھا کر تو دیکھیں۔۔۔"

عشنا نے آنکھوں میں غصّہ سموئے کہا تو عالمگیر نے ایک جاندار قہقہہ لگایا۔

"میری جان کے ہوتے ہوئے میں یہ گستاخی کر سکتا ہوں بھلا؟"

عالمگیر نے چہرہ ذرا سا نیچے کر کے اس کی ناک سے اپنی ناک مس کرتے ہوئے کہا۔

عشنا بس مسکراتی رہی۔

"چلیں۔۔۔"

عالمگیر نے سر سے آگے کی طرف اشارہ کر کہا تو عشنا نے ہاں میں گردن ہلا دی۔

عالمگیر اُسے باہوں میں لیے گھر کے اندر آ گیا اور چلتا ہوا اپنے کمرے  تک آ کر پیر سے دروازہ کّھول کر اُسے باہوں میں اٹھائے اندر آیا۔ عشنا کو بیڈ پر بیٹھایا  اور خود  اُس کی گود میں سر رکھ کر جوتوں سمیٹ بیڈ پر لیٹ گیا۔

عشنا نے گھبرا کر یہاں وہاں دیکھا۔

"یہ۔۔۔یہ آپ۔۔۔"

عشنا نے اُس کی گود میں لیٹتے والی حرکت سے ذرا سا گھبرا کر کہا

"تھک گیا ہوں یار۔ تھوڑا ریسٹ کرنے دو۔۔۔"

کہنے کے ساتھ ہی اُس نے آنکھیں بند کر لی۔

عشنا نے آہستہ سے اُس کے ماتھے پر بکھرے بالوں کو ہاتھوں سے سوارا۔

عالمگیر جو آنکھیں بند کیے اُس کی قربت کو محسوس کرنے کی کوشش کر رہا تھا اُس کے ہاتھوں کے لمس کو ماتھے پر محسوس کر کے مسکرا کر آنکھیں کھول دی۔ عشنا بھی مسکراتے ہے اُسے دیکھ رہی تھی۔

عالمگیر نے آہستہ سے اُس کا ہاتھ ماتھے سے ہٹا کر انپے لبوں سے لگا لیا۔

عشنا نے شرماتے ہوئے ہاتھ اُس کے لبوں سے ہٹا کر  اپنے کمر کے پیچھے چھپا لیا۔ ساتھ ہی اُس نے سر جھکا کر اپنے چہرے پر بکھرے حیا کے رنگوں کو چھپانا چاہا۔

عالمگیر کا سر عشنا کی گود میں تھا اس لیے وہ اُس کے جھکے سر کے باوجود اُس کے چہرے کو حیا سے گلنار ہوتا بخوبی دیکھ سکتا تھا۔

وہ مسکراتے ہوئے اٹھ بیٹھا۔

"عشنا۔۔۔۔چلو جا کر چینج کر لو۔۔۔تب تک میں کُک کو کچھ بنانے کہا کہہ آتا ہوں۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کو آرام دہ کرنا چاہا۔

"اتنی رات کو کُک کو جگاینگے؟"

عشنا نے حیرت سے اُسے دیکھتے پوچھا۔

"ہاں یار۔۔۔ بہت بھوک لگی ہے۔۔۔۔"

اُس نے اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر کہا 

"تو۔۔۔تو میں بنا دیتی  ہوں نہ۔۔۔رکیں۔۔۔میں چینج کر لو پھر بنا دیتی ہوں۔۔۔۔"

عالمگیر اُس کی بات پر مسکرا دیا۔

عالمگیر  جا کر کر کار سے اپنا سفری بیگ اور لیپ ٹاپ بیگ لے آیا۔

 عشنا سفری بیگ میں سے ایک شلوار کرتا لیتی واشروم کی طرف بڑھ گئی۔ عالمگیر بیڈ پر بیٹھ کر لیپ ٹاپ آن کرتا میل چیک کرنے لگا۔

عشنا نہا کر باہر آئی تو اُس کے بال سفید تولیے میں لپٹے تھے اور دوپٹہ اُس نے کندھے پر ڈھال رکھا تھا۔

لیمن کلر کے نفیس سے شلوار کرتا میں اُس کا ہمرنگ دوپٹہ کندھے پر ڈالے دھلی دھلی وہ بہت معصوم اور پیاری لگ رہی تھی۔ 

پانی کے ننھے ننھی قطرے اُس کے ماتھے پر موتیوں کو متشابہہ لگ رہے تھے۔

عالمگیر نے اُسے واشروم سے آتا دیکھا تو بس دیکھتا ہی رہ گیا۔ لیپ ٹاپ پرے رکھتا وہ بیڈ سے اٹھا اور عشنا جو ڈریسنگ ٹیبل کے پاس آ کر تولیہ بالوں سے آزاد کر رہی تھی آ کر اُسے کندھوں سے تھام کر اپنے مقابل کر کے ہمیشہ کی طرح اُس  کے ماتھے پر اپنے لب رکھ اُسے معتبر کیا 

عشنا نے اپنی آنکھیں بند کر کے اس کی عقیدت نے لپٹی محبت کو دل میں اترتا محسوس کیا۔

عالمگیر نے اُس کے ماتھے سے لب ہٹا کر اُسے دیکھا جو آنکھیں موندیں اُس کے لمس میں کھوئی کھڑی تھی۔

 وہ آہستہ سے اُس سے الگ ہوا اور جا کر الماری میں کچھ ڈھونڈھنے لگا ۔

عشنا نے آنکھیں کھولیں تو دیکھا وہ الماری کے پٹ کھول کر کچھ تلاش کر رہا ہے۔ 

وہ رخ موڈ کر اپنا تولیہ جو عالمگیر کے قریب آنے پر آدھا بالوں میں ہی لٹکا رہ گیا تھا اُسے بالوں سے آزاد کیا اور ہاتھوں سے بال ٹھیک کرنے لگی۔

"عشنا ۔۔ آنکھیں بند کرو۔۔۔"

عالمگیر نے آہستہ سے اُس کے داہنے کان کے قریب آ کر کہا تو عشنا نے شیشہ سے اپنے پیچھے کھڑے عالمگیر کو دیکھا اور آنکھ بند کر لی۔

عالمگیر نے آہستہ سے اُس کے بال سمیٹ کر بائیں کندھے پر رکھا اور اپنے ہاتھ میں پکڑے "ع" کے لاکٹ کو عشنا کی صراحی دار  گردن میں ڈال کر پیچھے سے اُس کا ہک لگا دیا۔

"آنکھیں کھولو۔۔۔"

اُس نے عشنا کے دونوں کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اُس پر ذرا سا دباؤ ڈالا اور آہستہ سے بولا۔

عشنا نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں اور اپنے عکس پر نظر ڈالی کر اپنے گلے میں لٹکتے "ع" کے لاکٹ کو دیکھا۔ مسکراتے ہوئے عشنا نے اُس پر ہاتھ پھیر کر شیشے میں نظر آتے عالمگیر کو دیکھا جو اُس کے دائیں کندھے پر سر ٹکائے محبت لوٹاتی نظروں سے اُسے دیکھے جا رہا تھا ۔

عشنا نے شرما کے نظریں جھکا لیں۔

عالمگیر اُس کی شرمانے پر مسکراتا ہوا اُسے سیدھا کر کے اپنے مقابل کرتا اُس کے چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں لیے کر اُس کے چہرے کو دیکھے گیا۔

عشنا نے اُسے طرح دیکھتے پا کر اُس کے ہاتھوں سے چہرہ نکل کر اُس کے سینے میں منہ چھپا گئی۔

عالمگیر نے اپنے ہاتھوں کا گھیرا تنگ کر کے اسے زور سے خود میں بھینچ لیا۔

"پسند آیا؟"

عالمگیر نے ذرا جھک کر اُسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"بہت۔۔۔"

عشنا نے چہرہ اٹھا کر اُسے دیکھتے ہوئے کہا۔

"مجھے بھی بہت پسند آیا تھا"

 عالمگیر  مسکراتے ہوئے کہا 

"یہ آپ نے کب لیا ؟"۔

عشنا ویسے ہی اُس کے سینے سے لگی اُس سے سوال جواب کر رہی تھی۔

"ہمم۔۔۔یہ تو میں نے اُس وقت لیا تھا جب مجھے پتہ بھی نہیں تھا کہ میں یہ تمہارے لیے لے رہا ہوں۔"

اُس نے مسکراتے ہوئے بتایا۔

"اچھا۔۔۔کب؟"

عشنا نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔

"جب ہم مرحہ کی شادی کے لیے کراچی گئے تھے اور تم نے امی نے مجھے اپنے ساتھ شاپنگ پر گھسیٹا تھا۔۔"

وہ ہنسا۔

"جب تم اور امی جویلری شاپنگ کر رہے تھے تب میں نے اُسے دیکھا تھا۔ مجھے اتنا پسند آیا کے بس فوراً خرید لیا۔ تم سے نکاح کے بعد جب ایک بار اسے الماری میں دیکھا تو یاد آیا کہ "میری عشنا" کا نام "ع" سے شروع ہوتا ہے تب سے مجھے یہ اور بھی عزیز ہو گیا تھا"

عالمگیر اُسے محبت سے دیکھتے ہوئے بتانے لگا۔

"لیکن یہ مجھے یہ آپ سے زیادہ عزیز ہے۔۔۔۔"

 عشنا نے کہا تو عالمگیر پلکیں جھپکا کر  ہنس دیا

"یہ مجھے عزیز ہے کیونکہ ایک تو یہ آپ نے مجھے دیا ہے اور دوسرے اس میں "میرے عالمگیر" کے نام کا پہلا لفظ "ع" لکھا ہے۔"

اُس نے میرے عالمگیر پر زور دے کر کہا۔

"ہمم۔۔۔یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں۔۔۔" 

اُس نے نظر اٹھا کر سوچنے والے انداز میں کہاں۔

عشنا مسکرائی اور اُس سے الگ ہونا چاہا لیکن عالمگیر نے اپنے ہاتھوں کی گرفت کو اُس کی کمر پر اور مضبوط کر دی 

آپ کو بھوک لگی تھی نہیں۔۔۔۔چلیں۔ ۔۔میں آپ کے لیے کچھ بنا دوں۔۔۔"

اُس نے اُس کے ہاتھوں کو اپنی کمرا سے ہٹانا چاہا۔

"جب میری جان باہوں میں ہو تو کس کافر کو بھوک لگے گی "

اُس نے اُسے پکڑ کر اور قریب کیا۔

" لیکن مجھے تو لگی ہے نہ۔۔۔۔مجھے تو کھانے دیں۔۔۔۔"

اُس نے جھوٹ موٹھ کہا دراصل اُسے اُس کی بھوک کی فکر ستا رہی تھی۔

" میری جان کو بھوک لگی ہے۔۔۔"

عالمگیر نے عشنا کی ناک کو زور سے کھینچا۔

"آہ۔۔۔کیا کر رہے ہیں۔۔۔۔"

عشنا نے اپنی ناک سہلائی جو سرخ ہو گئی تھی۔

"درد ہو رہا ہے؟"

عالمگیر نے اُس کی سرخ ناک کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

عشنا نے زور زور سے گردن ہلا کر ہاں کہا۔

عالمگیر سے ذرا سا جھک کر اُس کی ناک کو لبوں سے چھوا۔

عشنا شرما کر اُس سے الگ ہوئی۔

"آپ بہت۔۔۔۔"

دروازے سے چند قدم کے فاصلے پر کھڑے ہوتے ہوئے اُس نے کچھ کہنا چاہا لیکن عالمگیر کو اپنی طرف آتا دیکھ کر بھاگتی ہوئی کچن میں آ گئی اور سینے پر ہاتھ رکھ کر اپنی سانسیں بحال کرنے لگی۔

عالمگیر نے ریلنگ سے کھڑے ہو کر مسکراتے ہوئے اُسے دیکھا اور پھر سے کمرے میں آ گیا۔

عشنا جلدی جلدی فریج چیک کرنے لگی۔اُس میں  سے فروجن چکن نکال کار پانی میں بھگایا اور پیاز کاٹنے لگی۔ ساتھ ہی دوسرے ماسالے وغیرہ نکال کر چکن سٹیو بنانا شروع کر دی۔ 

چکن سٹیو تیار ہوا تو آٹا غوند کر روٹیاں سیکنے لگی۔

عالمگیر کمرے میں آ کر چینج کرنے کے لئے واشروم سے میں چلا گیا۔

سفید کرتا شلوار میں نکھرا نکھرا وہ ہاتھوں سے بال ٹھیک کرتا عشنا کے پاس کچن میں آ گیا ۔ اُسے بہت بھوک لگ رہی تھی۔

وہ کچن میں آیا تو عشنا دوپٹہ کمر میں باندھے بالوں کو جوڑے کے شکل میں گول کیے جلدی جلدی روٹی بیل رہی تھی۔

عالمگیر آہستہ سے چلتا ہوا اُس کے پاس آیا اور اُس کو پیچھے سے پکڑ کر اپنے دونوں بازؤں اس کے پیٹ پر باندھ کر اپنی تھوڑی اُس کے دائیں کندھے پر ٹیکا دی۔

عشنا جو آخری روٹی توے سے نکال رہی تھی مسکراتے ہوئے روٹی کو ہوٹ پوٹ میں رکھ کر بند کیا اور عالمگیر کے ہاتھوں کو پیٹ سے ہٹانا چاہا۔لیکن عالمگیر نے اُس کی یہ کوشش ناکام کر دی۔

"پیچھے ہٹیں۔۔۔میں کھانا لگا دوں۔۔۔کھانا نہیں ہے آپ نے؟"

اُس نے اُسے نہ ہٹتے دیکھ کر کہا۔

"انہہہہ"

عالمگیر نے انکار کیا۔

" مجھے بہت بھوک لگی ہے۔۔۔۔"

اُس نے لحظے میں بیچارگی سموئے کہا تو عالمگیر نے اُس کے کندھے سے چہرہ ہٹایا اور ٹیبل کے پاس آ کر چیئر گھسیٹ کر بیٹھ گیا ۔

عشنا جلدی جلدی کھانا ٹیبل پر لگاتی اُسے سرو کرنے لگی۔ عالمگیر نے اُسے اپنے پاس بیٹھایا اور اپنے ہاتھوں سے کھلانے لگا۔

عشنا بھی چھوٹے چھوٹے لقمے بنا کر اُس کے منہ میں رکھتی رہی۔

دونوں محبت میں ڈوبے ایک دوسرے کو اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلانے لگے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔,۔۔۔۔۔


عشنا کچن میں برتن رکھنے گئی تو عالمگیر نے اپنا موبائل جو کہ اُس نے فلائٹ بورڈ کرتے ہی بند کر دیا آن کر کے مسیجز چیک کرنے لگا۔نادر کے 3 میسیج تھے جن میں سے ایک میں اُسے ارجنٹ کال کا کہا گیا تھا۔ باقی دو میسیج میں کچھ پیپرس اور فائل کا ذکر تھا اُس کو پڑھ کر عالمگیر نے نادر کو کال ملائی۔

عشنا کچن سے باہر آئی تو عالمگیر کو فون کان سے لگائے دیکھا۔

"اتنی رات کیسے فون کر رہے ہیں؟"

عشنا نے دل میں سوچا اور چلتی ہوئی اُس کے قریب آئی۔

"عشنا۔۔۔ میری الماری میں ایک نیلے رنگ کی فائل ہے ذرا لے آوگي پلیز۔۔۔"

عالمگیر کان سے فون لگائے بولا۔

"جی"

عشنا کمرے میں فائل لانے چلی گئی۔

دو بار فون کرنے پر نادر نے فون اٹھایا۔شاید وہ سو رہا تھا۔ رات بھی تو کافی ہو گئی تھی۔

"ہیلو۔۔۔"

نادر کی نیند میں ڈوبی آواز آئی۔

"سوری نادر تمہیں ابھی ڈسٹرب کیا  تمہارے میسیجز میں نے ابھی دیکھے۔ میں ڈیٹیل تمہیں بھیج رہا ہوں تم آگے فارورڈ کر دو۔"

نادر نے اور ایک دو بات کر کے کال کاٹ دی۔

عشنا فائل لے کر آئی اور اُسے دے کر لاؤنج میں صوفے پر جا کر بیٹھ گئی۔

عالمگیر نے اُس سے فائل لی اور اُس کے چہرے کو دیکھا جو اُداس سا لگ رہا تھا۔

"اسے کیا ہوا؟ ابھی تک تو ٹھیک تھی۔۔"

عالمگیر نے دل میں سوچا اور فائل سے چند پیپرس نکال کر ڈیٹیل نادر کو بھیجنے لگا۔ ساتھ ہی وہ عشنا کو بھی دیکھ رہا تھا


نادر کو ڈیٹیل بھیجنے کے بعد عالمگیر فائل وہیں ٹیبل پر رکھ کر عشنا کے پاس آ کر اُس کے برابر میں بیٹھا اور ایک ہاتھ اُس کے کندھے پر رکھ کر اُسے خود سے قریب کیا۔

"کیا ہوا۔۔۔۔؟ میری جان کی ناک کیوں پھول گئی؟"

عالمگیر نے مسکراتے ہوئے اُس کی ناک کھینچی۔

عشنا نے کچھ نہیں کہا بس رخ موڈ گئی۔

"عشنا۔۔۔۔جان کیا ہوا؟"

عالمگیر نے اُس کا چہرہ اپنی طرف موڑ کر پیار میں ڈوبے لحظے میں اُس سے اُس کی ناراضگی کی وجہ پوچھی۔

عشنا نظریں نچی کیے بیٹھی رہی اور جب کچھ دیر تک کچھ نہ بولی تو عالمگیر نے پھر پُکارا۔

"عشنا۔۔۔۔۔۔جان بتا بھی دو۔۔۔۔اب کیا اپنی ناراضگی سے میری جان لینا چاہتی ہو۔۔۔۔؟ "

عالمگیر نے پھر محبت سے پوچھا۔

اُس کی جان والی بات پر عشنا نے اُس کے لبوں پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ اور عالمگیر  کی آنکھوں میں دیکھنے لگی ۔عشنا کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی تیرنے لگی تھی۔

"بتاؤ کیا ہوا۔۔۔۔؟"

عالمگیر نے اپنے لبوں سے اُس کے ہاتھ ہٹا کر اپنے ہاتھ میں لے کر پوچھا۔

"وہ۔۔آپ کی۔۔۔۔آپ کی الماری میں۔۔۔۔کپڑے۔۔۔۔"

اُس نے گردن جھکا کر کہا۔

"ہاں تو الماری میں کپڑے ہی رکھتے ہیں نہ۔۔۔"

عالمگیر نے عشنا کی دماغی حالت پر شق کرتے ہوئے کہا۔

"نہیں۔۔۔آپ کے نہیں۔۔ آپ کی الماری میں بہت سارے لیڈیز ڈریسز ہیں۔۔۔۔میں نے دیکھے ابھی۔۔ابھی دیکھے میں نے۔۔۔"

عشنا نے ایک ہاتھ سے کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

"اچھا وہ۔۔۔۔"

عالمگیر نے سر پے ہاتھ مارا۔

"چلو۔۔۔"

عالمگیر اٹھ کھڑا ہوا اور ساتھ ہی اُس کی کلائی تھام کر اُسے بھی کھڑا کر کے اپنے ساتھ کمرے میں لے آیا اور سیدھا الماری کے پاس جا کر رکا۔

الماری کے پٹ کھول کر عشنا کو اُس کے سامنے کھڑا کیا۔

"ان کی بات کر رہی ہو؟"

عالمگیر نے اُسے دیکھ کر الماری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔

عشنا نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

"یہ وہ کپڑے ہیں جو میں نے تمہاری جدائی کے 204 دنوں میں خریدے تھے۔ میں جب بھی کبھی اپنے لیے کچھ لینے جاتا تو تمہارے لیے بھی لے لیا کرتا تھا۔"

"تو دیا کیوں نہیں۔۔۔؟"

عشنا نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا

"کیوں کی تب مجھے تم پر بہت غصّہ تھا۔ اور ہمارے نکاح والے۔دِن بھی جب تم یہاں آئیں تھی اور تم نے کہا تھا کہ تمہارے پاس کپڑے نہیں ہیں تو میں نے اِنہیں میں سے ایک ڈریس تمہیں پہننے کے لیے دیا تھا۔ "

عالمگیر نے تفصیل سے ساری بات بتائی۔

"اوہ۔۔۔تب ہی میں سو سوچوں۔۔"

عالمگیر اُس کی کلائی پکڑے کمرے کی کھڑکی تک لے آیا۔

" کیا سوچوں؟"

عالمگیر نے اُس کے ہاتھ کو پکڑ کے پوچھا۔

"کچھ نہیں۔۔۔"۔

اُس نے مسکراتے ہوئے کہا۔

"میں نا ایک دن تمہاری یہ ناک توڑ دونگا۔۔۔ہر وقت پھولا لیتی ہو۔۔۔۔"

عالمگیر نے پھر سے اُس کی ناک کھینچی۔

"آپ مجھے ماریں گے؟"

عشنا نے آنکھیں پھیلا کر پوچھا۔

"پاگل لڑکی۔۔۔میں کبھی پھولوں کی چھڑی سے بھی تمہیں مارنے کا تصور نہیں کر سکتا۔۔ ۔دوسری چیز تو دور کی بات۔۔۔"

عشنا چلتی ہوئی اُس کے قریب آئی اور اُس کے کندھے پر سر رکھ کر اُس کے گرد اپنی باہیں لپیٹ دی۔

عالمگیر نے بھی اُس کی کمر کے گرد اپنے ہاتھ باندھ دیے۔

"عالمگیر ۔۔۔آپ سوچتے ہیں گے کہ میں آپ پر اعتبار نہیں کرتی۔۔۔ہمیشہ شق کرتی رہتی ہوں۔۔۔۔لیکن میں کیا کروں۔۔۔۔۔۔ عالمگیر۔۔۔مجھے ڈر لگتا ہے۔۔۔کہیں کوئی آپ کو مجھ سے چھین نہ لے۔۔۔۔آپ نہیں جانتے، میں بچپن سے محبتوں کو ترستی آئی ہوں۔ مجھے کبھی میرے حصے کو محبت نہیں ملی۔ بچپن میں جب ابّو ملیحہ آپی کے سر درد پر رات رات بھر پریشان رہا کرتے تھے اور میرے بخار میں بھی میرے ساتھ نہیں ہوتے تھے تب میں بہت روتی تھی۔ اس لیے ہی میں سب سے دور ہوسٹل میں رہی اتنے سال۔ مجھے لگتا تھا مجھے ایسے زندگی بھر محبتوں کے لیے ترسنا پڑےگا۔ "

عشنا اپنے پلکوں سے بہتے آنسوؤں کو صاف کرنے کے لیے رکی۔

عالمگیر نے بھی بنا کچھ کہے اُسے بولنے دیا۔ نجنانے کب سے اپنے دل میں چھپے راز آج وہ عالمگیر کو بتا رہی تھی۔ اُس کی آواز میں درد کی شدت کو وہ محسوس کر سکتا تھا۔

"میں ۔۔۔میں جب اس گھر میں آئی نہ تو مجھے اس گھر کی دو جگہ بہت پسند آئی ۔ ایک پھولوں کی کیاریاں اور دوسرا۔۔۔۔۔"

عشنا نے گردن اٹھا کر اُسے دیکھا۔

"دوسرا۔۔۔؟"

عالمگیر نے اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"دوسرا آپ کا یہ کمرا۔"

اُس نے کمرے کی طرف اشارہ کیا۔

"ہاں۔۔۔۔میرے جانے کے بعد تم میرے کمرے میں جاسوسی کرنے آتی تھی نہ؟"

عالمگیر نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔

"جاسوسی نہیں بس ایسے ہی آتی تھی۔۔۔مجھے یہ کمرا بہت پسند ہے۔۔۔"

اُس نے ناک چڑھا کر کہا۔

"تو جان اب یہ کمرا بھی تمہارا ہے اور اس کمرے کا  مکین بھی پورا کا پورا تمہارا ہے۔"

عالمگیر نے اُس کے ماتھے سے اپنا ماتھا ٹکڑا کر کہا۔ عشنا نے اپنا سر پھر اُس کے کندھے پر رکھ کر آنکھیں بند کر لیں۔

"عالمگیر۔۔۔۔"

عشنا نے اُسے پُکارا۔

"ہمم۔۔۔۔"

عالمگیر نے آہستہ سے کہا۔

"آپ مجھے کبھی چھوڑیں گے تو نہیں۔۔۔"

عشنا نے دل میں اُبھرتے خدشے کو زبان دی

"نہیں میری جان۔۔۔کبھی نہیں۔۔۔۔اب موت کرے تو کرے زندگی میں ہم کبھی جدا نہیں ہوں گے۔"

عالمگیر نے اُس کی پیٹھ پر ہاتھ پھرا۔

"عالمگیر آپ کو پتہ ہے میں آپ پر شق کیوں کرتی ہوں۔۔۔۔کیوں کی مجھے  ڈر لگتا ہے کہ کہیں آپ مجھ سے دور نہ ہو جائیں۔۔۔۔۔۔ میں آپ کے بنا مر جاؤں گی عالمگیر۔۔۔کچھ بھی ہو مجھے کبھی خود سے الگ مت کرنا۔ میں آپ سے بہت بہت بہت محبت کرتی ہوں۔۔۔۔"

عشنا جذب سے بولی تو عالمگیر نے اُسے خود سے الگ کر کے اپنے مقابل کھڑا کیا۔

"کیا کہا تم نے۔۔۔۔؟ ایک بار پھر سے کہنا۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُسے بازوں سے تھام کر کہا۔

"ک۔۔کوچ۔۔۔کچھ نہیں۔۔۔"

عشنا نے گردن جھکا کر کہا۔

"نوٹ فیئر (صحیح نہیں ہے) تم نے ابھی کچھ کہا تھا۔۔"

اُس نے پھر سے عشنا سے پوچھا۔

عشنا ذرا سا اونچا ہو کر اپنے ہونٹوں کو عالمگیر کے کان  پاس لا کر دھیرے سے بولی۔

"میں آپ سے بہت محبت کرتی ہوں۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کا اظہار محبت سنتے ہی اُسے کمر سے پکڑ کر خود سے قریب کیا اور زور سے گول گھوما دیا۔

عشنا نے اپنے گھومتے سر پر ہاتھ رکھ کر آنکھیں بند کر لی۔ 

عالمگیر جھکا اور اُسکے چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں بھر کر اُس کے ایک ایک نقوش کو دیکھتا رہا ۔عشنا نے آنکھیں کھول کر اُسے دیکھا اور اُس کے آنکھوں میں چھپے پیغام کو سمجھتے ہوئے آنکھیں بند کر کے چہرہ اُس  کے ذرا سا قریب لائی عالمگیر نے اُس کی رضامندی جانتے ہوئے اُس کے لبوں پر اپنے لب رکھ دیئے اور بہت دیر تک خود کو سیراب کرتا رہا۔

عشنا نے آہستہ سے اپنے دونوں ہاتھ عالمگیر کے گردن میں پھنسا کر اپنی ہتھیلیاں اُس کے بالوں میں پھیرنے لگیں۔

عشنا کے ہاتھوں کو اپنے بالوں پر محسوس کرتے ہی عالمگیر محبت میں اور شدّت  آ گئی۔ 

عشنا بھی اُس کے محبت کے احساس کی شدّت میں کھوئی ہوئی تھی

عالمگیر نے جب کافی دیر تک خود کو سیراب کر لیا تو آہستہ سے عشنا سے الگ ہوا۔

عشنا نظریں جھکائے کھڑی رہی۔

"عشنا ۔۔۔'"

عالمگیر نے آہستہ سے پُکارا تو وہ رخ موڈ کر وہاں سے جانے لگی لیکن عالمگیر نے اُس کی کلائی تھام کر اُسے جانے سے روک دیا۔

اور اس کی کلائی زور سے کھینچی تو وہ سوکھے پیڈ کی ٹہنی کی طرح اُس کی باہوں میں آ سمائی۔

عالمگیر نے آہستہ سے اُسے باہوں میں اٹھایا اور دھیرے دھیرے بیڈ کے قریب جانے لگا۔

"آپ۔۔۔آپ ۔۔یہ کیا۔۔۔۔"۔

عشنا نے کچھ کہنا چاہا

"ششششش" 

عالمگیر نے اُسے چپ کرنا چاہا۔

"واہ۔۔۔۔کیا منظر ہے۔۔۔۔"

وہ دونوں اس قدر ایک دوسرے میں کھوئے تھے کہ انہیں کسی کے دروازے پر کھڑے ہونے کا احساس ہی نہیں ہوا۔

عالمگیر، عشنا کو باہوں میں  لیے بیڈ کے قریب کھڑا دروازے پر کھڑی سنبل کو دیکھا۔

"تم یہاں۔۔۔تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے گھر میں آنے کی اور میرے بیڈروم تک آنے کی۔۔۔۔؟"

عالمگیر نے آہستہ سے عشنا کو نیچے کھڑا کیا اور سنبل کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

عالمگیر نے کھڑی دیکھی صبح کے 5 بج رہے تھے۔

"میں آج نہ آتی تو تم دونوں کی لو سٹوری کیسے دیکھتی۔۔۔"

وہ چلتی ہوئی کمرے میں آتی بولی۔

"شٹ اپ سنبل۔۔۔۔نکلو میرے گھر سے ابھی۔۔۔"

عالمگیر چلا کر بولا۔

عشنا عالمگیر کا بازوں تھامے کھڑی سنبل کو دیکھے جا رہی تھی۔

"چلی جاؤنگی ۔۔۔اس گھر سے بھی اور تمہاری زندگی سے بھی لیکن اُس کے پہلے میں اسے ختم کر دونگی۔۔۔۔"

سنبل نے کہنے کے ساتھ اپنے بیگ میں سے ایک چاقو نکالا اور عشنا کی طرف آ کر اُس کے دل کے مقام پر گھونپ دیا۔۔۔۔

عشنا کی چیخ صبح کی خاموشی میں ارتعاش پیدا کر گئی۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"عالمگیر۔۔۔۔"

سنبل عالمگیر کے کندھے سے نکلتا ہوا خون دیکھ کر چیخی تھی۔

جیسے ہی سنبل سے عشنا پر حملہ کرنے کے لئے چاقو اُس کی طرف بڑھایا،عالمگیر تیزی سے عشنا کے سامنے کھڑا گیا اور اُسے مضبوطی سے اپنی گرفت میں لے لیا۔

جو چاقو سنبل عشنا کے دل کے مقام پر گھوپنے جا رہی تھی وہ عالمگیر کے کندھے کے اندر سرائیت کر گیا اور اُس کے کندھے سے خون کی ایک دھار فوٹ کر اس کے سفید کرتے کو سرخ کر گئی۔ 

عشنا جو دونوں ہاتھوں سے چہرہ چھُپا کر سنبل کے حملے سے بچنے کی کوشش میں تھی عالمگیر کے ہاتھوں کا لمس اپنے کمر پر محسوس کر کے آنکھیں کھول کر دیکھا تو عالمگیر کو اپنے بےحد قریب پایا۔ 

عشنا نے عالمگیر کے کندھے سے نکلتے خون کو تو نہیں دیکھا تھا لیکن اُس کے چہرے پر پھیلتے قرب کو وہ ضرور دیکھ چکی تھی۔ لیکن وجہ جاننے سے قاصر تھی۔

عالمگیر ۔۔۔عالمگیر۔۔۔یہ کیا ہو گیا۔۔۔۔آئی ایم سوری۔۔۔۔مجھے معاف کر دو۔۔۔آئی ایم سوری۔۔۔"

سنبل عالمگیر کے کندھے سے خون نکلتا دیکھ کر چاقو اُس کے ہاتھ سے فرش پر گر گیا تھا۔

سنبل عالمگیر کے پاس آ کر اُس کے خون سے لت پت کندھے کو دیکھتے ہوئے بولی 

"تم۔۔۔تم نکلو یہاں سے۔۔۔ورنہ آج تم میرے ہاتھوں سے ضائع ہو جاؤ گی۔۔۔۔"

عالمگیر سنبل کا ایک بازو دبوچ کر اُسے کمرے کے دروازے کی طرف لایا اور گھسیٹتے ہوئے گھر کے باہر لا کر گیٹ کے باہر دھکیل دیا۔

"تم کیا سو رہے تھے۔۔۔۔کوئی بھی منہ اُٹھا کر گھر میں گھس جاتا ہے۔۔۔آئندہ یہ عورت کبھی یہاں نظر آئی تو تمہیں نوکری سے فارغ کر دونگا۔۔۔۔۔۔ سمجھے۔۔۔۔؟"

عالمگیر نے انگلی دیکھا کر وارننگ دی اور کندھے پر ہاتھ رکھ کر بہتے ہوئے خون کو روکنے کی کوشش کی۔

"جی جی صاحب ۔۔۔۔"۔

چوکیدار نے ایک نظر اُس کے کندھے سے بہتے خون کو دیکھا اور پھر ہکلاتا ہوا ہاں کہنے لگا۔

جب عالمگیر سنبل کو بازوں سے پکڑ کر باہر کی طرف لے جا رہا تھا تب عشنا کی نظر اُس کے کندھے سے نکلتے ہوئے خون کی طرف گئی۔

وہ ساکت سے پھٹی پھٹی نظروں سے اُسے دیکھیے گئی۔۔۔وہ ایک شاکڈ کی کیفیت میں چلی گئی اُسے اتنا بھی ہوش نہ رہا کے عالمگیر کے پیچھے جا سکے

 وہ بس اُس کے خون سے لت پت کندھے کو سوچ کر حواس باختہ ہو گئی اور ٹرانس کی کیفیت میں بیٹھتی چلی گئ۔

عالمگیر سنبل کو گیٹ کے باہر چھوڑ کر اپنے کندھے سے نکلتے خون پر ہاتھ رکھے واپس اپنے کمرے میں آیا ۔

عشنا ایسے ہی بے حس و حرکت زمین پر بیٹھی تھی۔

عالمگیر جلدی سے اُس کی طرف بڑھا۔

"عشنا۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کے سامنے بیٹھتے ہوئے اُسے پُکارا ۔

"عالم۔۔۔۔عالمگیر۔۔۔۔آپ۔۔۔۔خون۔۔۔۔خون۔۔۔اتنا خون۔۔۔۔عالم۔۔۔۔۔"

عالمگیر کی آواز پر عشنا کے جسم میں حرکت ہوئی اور خوف اور دہشت میں گھیری اُس کے خون آلود ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے بولی۔

"عشنا۔۔۔کچھ نہیں نہیں ہوا۔۔۔ریلیکس۔۔۔۔۔میں ٹھیک ہوں۔۔۔آؤ میرے ساتھ۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کے دونوں بازو تھام کر اُسے اٹھایا اور اُسے لیے بیڈ کی طرف بڑھنے لگا۔

"عالم۔۔۔عالم۔۔۔خون۔۔۔۔خون۔۔۔"

وہ ہاتھوں میں چہرے لیے آنکھیں بڑی کر کے اُسے خوف سے دیکھ رہی تھی۔

"عشنا ۔۔۔میں ٹھیک ہوں۔۔۔تم ریلیکس رہو۔۔۔"

عالمگیر نے اپنے سینے سے لگا کر اُس کے خوف اور دہشت کو کم کرنا چاہا۔

"عشنا۔۔۔۔ "

عالمگیر نے اُس پُکارا لیکن جواب نہیں آیا 

اُس نے جھک کر عشنا کو خود سے الگ کر کے سامنے کرنا چاہا لیکن عالمگیر کے عشنا کو الگ کرتے ہی وہ اُس کی باہوں میں جھول گئی۔۔

"عشنا۔۔۔۔عشنا۔۔۔کیا ہوا تمہیں۔۔۔۔عشنا جان آنکھیں کھولو۔۔۔۔"

عالمگیر نے پریشانی سے اُس کے گال تھپاکتے ہوئے کہا لیکن وہ آنکھیں بند کئے اُس کی باہوں میں بے حس و حرکت پڑی تھی 

عالمگیر کے ہاتھوں میں لگے خون جا بجا عشنا کے گال اور کپڑوں پر لگ چکے تھے۔

عالمگیر نے جلدی سے جھک کر عشنا کو باہوں میں اٹھایا اور بیڈ پر لیٹا دیا۔

اب وہ اپنا موبائل نکال کر مراد کو کال ملا رہا تھا۔

"مراد۔۔۔۔یار۔۔۔جلدی آ۔۔۔۔آئی نیڈ یور ہیلپ(مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔)

عالمگیر نے مراد کے ہیلو کہتے ہیں جلدی سے کہا۔

"عالمگیر سب ٹھیک تو ہے۔۔۔۔ہوا کیا ہے۔۔۔"

مراد بھی پریشان سا ہو گیا

"یار تو جلدی آ میں تُجھے سب بتاتا ہو، ساتھ میں کسی ڈاکٹر کو بھی لیتے آنا پلیز ہری اپ۔۔۔۔"

عالمگیر نے عجلت میں کہتے فون کاٹ دیا۔ اور عشنا کے پاس بیڈ پر آ کر اُس کا ہاتھ تھام کر بیٹھ گیا۔

اُس کا سفید کرتا بری طرح سے سرخ خون سے باہر چکا تھا۔

لیکن اُسے خود کی پرواہ ہی کب تھی ۔ عشنا کو اُس حال میں دیکھ کر عالمگیر کو اپنی جان سولی پر لٹکی محسوس ہوئی تھی۔

وہ کبھی اُس کے ہاتھ سہلاتا کبھی اُس کے گال تھپکنے لگتا۔

"عشنا یار آنکھیں کھولو۔۔۔۔پلیز ۔۔۔۔اگر تمہیں کچھ ہو گیا تو میں ۔۔۔میں اس دنیا کو آگ لگا دونگا۔۔۔۔عشنا ایسا مت کرو۔۔۔۔پلیز آنکھیں کھولو۔۔۔۔"

وہ دیوانہ وار اُسے آوازیں دے رہا تھا۔

مراد ڈاکٹر کو لے کر آیا اور عالمگیر کے کمرے کی طرف بڑھا۔

"عالمگیر۔۔۔۔یہ اتنا خون۔۔۔"

مراد جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا عالمگیر پیٹھ دروازے کو طرف کیے بیٹھا عشنا کے ہاتھ تھامے اُسے پکار رہا تھا مراد کی آواز پر مڑا اور اُس کے قریب آیا۔

"مراد دیکھ اسے۔۔۔یہ آنکھیں نہیں کھول رہی۔۔۔۔تو۔۔تو اسے بول نہ کہ آنکھیں کھولے ۔۔۔مراد اس سے کہہ کے آنکھیں کھولے۔۔ مجھ سے باتیں کرے۔۔۔۔میں مر جاؤ گا اس کے بغیر ۔۔۔مراد عشنا کو بول نا۔۔۔۔"

وہ مراد کا ہاتھ تھامے عشنا کی طرف دیکھتا کہے جا رہا تھا۔

مراد کو اُس کی حالت ٹھیک نہیں لگی۔

"عالمگیر تو پہلے بیٹھ یہاں"

مراد نے عالمگیر کو بیٹھنا چاہا۔

"ڈاکٹر صاحب پلیز جلدی کریں"

مراد اُسے کندھوں سے تھام کر بیڈ پر بیٹھا چکا تھا اور اب ڈاکٹر کو اُس کے زخم کی طرف اشارہ کر کے کہا

"نہیں۔۔ ڈاکٹر پہلے میری عشنا کو دیکھیں۔۔۔دیکھیں یہ آنکھیں نہیں کھول رہی۔۔۔پلیز کچھ کریں"

عالمگیر مراد کا ہاتھ اپنے کندھے سے ہٹاتا ڈاکٹر سے بولا۔

"دیکھیے آپ کے زخم سے بہت خون بہہ رہا ہے۔۔۔پہلے مجھے اسے صاف کرنے دیں۔"

ڈاکٹر نے آگے آ کر اُس کے خون سے بھرے کندھے کو دیکھتے ہوئے کہا۔

"نہیں۔۔۔پہلے میری عشنا کو دیکھیں۔۔۔"

عالمگیر نے ڈاکٹر کا ہاتھ پکڑ کر التظایا لحظے میں کہا تو مراد نے بھی آنکھ کے اشارے سے عشنا کو ٹریٹ کرنے کا کہا۔

ڈاکٹر عشنا کی طرف بڑھے اور اُس کی کلائی تھام کر نبض چیک کرنے کے بعد اُس کی آنکھیں ذرا ذرا کھول کر اُس کا جائزہ لیا ۔اپنے بیگ سے انجکشن نکال کر عشنا کے ہاتھ میں لگایا اور عالمگیر کی طرف بڑھے

"یہ بس شوک کی وجہ سے بیہوش ہیں۔ میں نے انجکشن دے دیا ہے  تھوڑی دیر میں انہیں ہوش آ جائیگا۔آپ اب اپنا کرتا نکالیں اور مجھے آپ کا زخم دیکھنے دیں۔"

ڈاکٹر نے کہا تو مراد آگے بڑھ کر عالمگیر کا کرتا نکالنے میں مدد کرنے لگا۔

ڈاکٹر نے زخم دیکھنے کے بعد اُس کا خون صاف کیا اور دوا لگا کر پٹی لگا دی۔ پین کلر کا انجکشن بھی اُس کے ہاتھ میں لگا دیا اور کچھ دوائیں لکھ کر پرچہ مراد کو تھما دیا۔

عالمگیر اب بھی عشنا کہ ہاتھ تھامی اُس کے سرہانے بیٹھا تھا۔

مراد ڈاکٹر کو چھوڑنے باہر گیا اور ساتھ میں ڈرائیور کو دوا کا پرچہ تھما کر میڈیکل سٹور بھیج دیا۔

عالمگیر پلکیں جھپکائیں بنا عشنا کا ہاتھ تھامے بیٹھا رہا۔

"عالمگیر ۔۔۔بھابھی کو تھوڑی دیر میں ہوش آ جائیگا"

مراد واپس کمرے میں آیا تو عالمگیرکو عشنا کا ہاتھ تھامے بیٹھے دیکھا۔

"مراد ڈاکٹر نے کہا تھا اسے کچھ دیر میں ہوش آ جائیگا۔دیکھ نہ کتنی دیر ہو گئی ہے۔۔۔یہ آنکھیں نہیں کھول رہی۔۔۔تو۔۔۔تو کوئی دوسرا ڈاکٹر۔۔۔نہیں ہم اسے خود ہسپتال لے کر چلتے ہیں چل۔۔۔"

عالمگیر کہتا کھڑا ہو گیا اور جھک کر عشنا کو اٹھانا چاہا لیکن مراد نے اُس کا بازو تھام کر اُسے سیدھا کر کے عشنا کو اٹھانے سے روک دیا۔

"عالمگیر یار کیا ہو گیا ہے۔۔وہ بس شوک کی وجہ سے بیہوش ہیں۔۔۔ڈاکٹر نے انجکشن دیا ہے نہ۔۔۔۔تھوڑی دیر میں ہوش آ جاتا ہے یار ۔۔۔۔۔ بھائی سمبھال اپنے آپ کو۔۔۔"

مراد نے اُسے اپنے مقابل کھڑا کرتے ہوئے کہا تو عالمگیر اُس کے شانے سے لگ کر فوٹ فوٹ کے رو دیا۔

"مراد اگر اسے کچھ بھی ہوا تو میں مر جاؤنگا ۔۔۔میں مر جاؤں گا اس کے بغیر۔۔۔۔"

مراد عالمگیر کو ایسے تڑپتے دیکھ کر مراد پریشان ہو گیا اور اُسے لے کر کمرے میں موجود صوفے پر آ بیٹھا۔

"عالمگیر ۔۔۔کچھ نہیں ہوگا بھابھی کو۔۔۔کچھ بھی نہیں۔۔۔تو سنبھالو خود کو"

مراد نے اُس کا ہاتھ تھام کر کہا تو عالمگیر نے ایک بار پھر بیڈ پر بے خبر لیٹی عشنا کو دیکھا اور اپنے آنکھوں  سے بہتے آنسو صاف کر کے ایک گہری سانس لے کر خود کو ریلیکس کرنا چاہا۔

"عالمگیر یہ سب ہوا کیسے۔۔۔۔یہ اتنا زخم۔۔۔۔بھابھی کی بے ہوشی۔۔۔یار ابھی چند گھنٹے پہلے تو میں تم دونوں سے ملا تھا تب تک تو سب ٹھیک تھا یہ اچانک کیا ہوا۔۔۔کہیں تم دونوں کا جھگڑا۔۔۔۔؟"

مراد نے شق کے زیرِ اثر پوچھا تو عالمگیر نے نا میں گردن کو جنبش دی۔

"مراد ہمارا کوئی جھگڑا نہیں ہوا ہے۔۔۔میں اور عشنا تو ۔۔۔ہم تو ایک دوسرے سے ۔۔۔۔۔مراد میں عشنا کو تکلیف پہنچانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔۔۔"

عالمگیر نے دل گرفتگی سے کہا۔

"میں جانتا ہوں عالمگیر۔۔۔اور اگر نہیں بھی جانتا ہوتا تو تُجھے بھابھی کے لیے ایسے آنسوؤں بہاتے دیکھ کر کوئی اندھا بھی بتا دے گا کہ کتنی محبت ہے تُجھے بھابھی سے۔۔۔۔میں تو بس یہ سب کیسے ہوا ہے پوچھ رہا ہوں۔۔۔"

مراد نے اُس سے وجہ جاننا چاہی۔

سنبل۔۔۔۔۔سنبل نے کیا ہے سب یہ کچھ ۔۔۔میں اُسے چھوڑوں گا نہیں۔۔۔۔"

عالمگیر غصے میں کہتا کھڑا ہو گیا اور دروازے کی طرف قدم بڑھائے۔۔۔ 

"عالمگیر رکو۔۔۔مجھے بتاؤ ہوا کیا ہے اور سنبل ۔۔وہ کیسے آئی اور کیوں۔۔۔۔"

مراد نے تجسس سے پوچھا۔

"مجھے نہیں پتہ وہ کیسے اور کیوں آئی۔۔۔مجھے بس اتنا پتہ ہے کہ میں اُسے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔۔۔اُس نے اُس نے میری عشنا کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔"

عالمگیر نے غصے سے مٹھیاں بھینچی۔

"عالمگیر میری بات سنو۔۔۔مجھے بتاؤ ہوا کیا ہے ۔ میں  دیکھ لو گا اُسے ۔۔۔تمہارا ابھی بھابھی کے پاس رہنا زیادہ ضروری ہے۔"

عالمگیر نے ایک ایک بات مراد کو بتا دی۔ اور ساتھ ہی کمرے میں بعد کے پاس پڑے چاقو کی طرف بھی اشارہ کیا۔

" ٹھیک ہے تم فکر نہیں کرو میں اُسے ابھی اریسٹ کرواتا ہوں تم بھابھی کا دھیان رکھو۔۔۔۔"

مراد نے جھک کر رومال کے ساتھ چاقو اٹھایا اور اُسے ایک شفاف جیپ لوک پلاسٹک کی تھیلی میں رکھا۔

عالمگیر نے اثبات میں سر کو جنبش دی اور عشنا کے پاس آ گیا

" میں پولیس اسٹیشن جا رہا ہو۔۔۔کچھ بھی ہو مجھے کال کرنا میں فوراً آ جاؤنگا۔ اچھا میں اب چلتا ہو۔۔۔انشاء اللہ دوپہر تک پھر چکر لگاتا ہوں۔"

مراد عالمگیر کی پیٹھ تھپتھپا کر چلا گیا۔

عالمگیر عشنا کے پاس آ کر اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر لبوں تک لے گیا اور ایسے اُس کے ہاتھ لبوں پر رکھے اُس دیکھے گیا۔

تھوڑی دیر بعد عشنا کی آنکھوں میں جنبش ہوئی اور اُس نے آنکھیں کھولیں۔

عشنا نے آنکھیں کھول کر عالمگیر کو دیکھا جو اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔

چند ہی سیکنڈز لگے تھے عشنا کے ذہین کو بیدار ہونے میں۔

وہ ایک جھٹکے سے اٹھی اور عالمگیر کی طرف لپکی۔

"عالم۔۔۔۔عالمگیر آپ آپ ٹھیک تو ہیں۔۔۔۔یہ زخم۔۔۔آپ کو بہت درد ہو رہ ہوگا نہ۔۔۔چلیں۔۔۔چلیں ہم ڈاکٹر کے پاس چلتے۔۔۔۔خون ۔۔۔۔آپ کا بہت خون۔۔۔۔۔خون بہہ رہا تھا۔۔۔

عالمگیر  اٹھیں۔۔۔چلیں نہ ۔۔۔آپ سن کیوں نہیں رہے۔۔۔۔پلیز چلیں۔۔۔آپ کا خون بہہ رہا۔۔۔۔۔"

عشنا عالمگیر کے کندھے کو ہاتھوں سے چھو کر دیکھتے ہوئے دیوانہ وار اسے اٹھنے کا کہہ رہی تھی۔

"عشنا جان۔۔۔۔۔۔میں ٹھیک ہوں۔۔۔مراد ڈاکٹر لے آیا تھا۔۔۔۔۔دیکھو اُس نے پٹی بھی کر دی ہے۔۔میں ٹھیک ہوں۔۔۔تم ٹھیک ہو۔۔۔کیسا لگ رہا ہے اب؟

عالمگیر نے عشنا کے ہوش میں آتے ہی اپنے اندر ایک سکون کی لہر دوڑتی محسوس کی۔اب وہ قدرے مطمئن تھا۔

عشنا کی دیوانگی دیکھ کر ایک بار پھر اُسے اپنی محبت پر رشک آیا۔

اُس نے عشنا کو اپنے ٹھیک ہونے کی تسلی دیتے ہوئے اُس کی طبیعت بھی جاننی چاہی۔

"مجھے۔۔۔۔مجھے کیا۔۔۔۔مجھے کچھ نہیں۔۔۔۔۔آپ کو درد خون۔۔۔عالمگیر خدا کے لیے ۔۔۔بتائیں مجھے۔۔۔۔آپ کو درد ہو رہا ہے نہ۔۔۔آپ کیوں آئے آگے۔۔۔۔۔مجھے۔۔مجھے۔۔۔مر جانے دیتے ۔۔۔۔آپ ۔۔یہ۔۔۔"

وہ روتے ہوئے اُس کے گلے اُس ایک سینے پر ہاتھ پھیر رہی تھی کیونکہ عالمگیر کی بنیان بھی خون کے دھبوں سے لگ بھگ سرخ ہو چکی تھی۔

"شٹ اپ عشنا۔۔۔۔کبھی ایسا کہنا بھی مت۔۔۔۔۔میرے ہوتے ہوئے تمہیں کچھ نہیں ہو سکتا۔۔۔میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دونگا۔۔۔۔"

عشنا کی آخری بات پر عالمگیر نے تڑپ کر اُسے چپ کرایا آور کہنے کے ساتھ اُسے اپنے سینے میں بھینچ لیا۔۔

عشنا اُس کے کندھے سے لگے بس روئے جا رہی تھی۔

"عشنا جان کچھ بھی نہیں ہوا۔۔۔سب ٹھیک ہے۔۔۔دیکھو میں تمہارے پاس ہوں۔۔۔۔اب رونا بند کرو۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں لے کر اُس کے بھیگے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا ۔

عشنا روتے ہوئے بس اُسے دیکھے گئی۔

عالمگیر نے آہستہ سے جھک کر اُس کی ماتھے،اُس کی آنکھوں،رخساروں پر جا بجا محبت رقم کرنی شروع کر دی۔

عشنا،آنکھیں بند کئے اُس کے لمس کو اپنے چہرے پر محسوس کرنے لگی ۔

عالمگیر نے آہستہ سے جھک کر اُس کے ہونٹوں پر جہاں رونے کی وجہ سے آنسوؤں کے چند قطرے چمک رہے تھے اُن پر اپنے تشنہ لب رکھ کر اپنی پیاس بجھانی چاہی۔۔۔۔

عشنا اُس کے بانیان کے گریبان کو پکڑے اُس کی شدتیں اپنے لب پر محسوس کرنے لگی

 عالمگیر کی انداز میں اس قدر شدّت تھی کہ عشنا کو اپنی سانسیں رکتی ہوئی محسوس ہوئی۔ 

عشنا نے عالمگیر کے بنیان پر اپنی گرفت مضبوط کر دی۔

عشنا کا سانس لینا محال ہو رہا تھا لیکن عالمگیر اُس سے الگ نہیں ہوا اور نہ ہی عشنا نے اُسے الگ کرنے کی کوشش کی۔


۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ایک سال پہلے


"May I come in sir ?"


(کیا میں اندر آ سکتا ہوں؟)

نادر نے کیبن کے دروازے پر کھڑے ہو کر اندر آنے کی اجازت مانگی۔

"Yes come in"

(ہاں آؤ جائے)

عالمگیر کو جرمنی سے کچھ دنوں کے لیے ہونگ کونگ جانا پڑ گیا تھا۔ وہ 3 دن پہلے ہی اسلام آباد لوٹا تھا۔

عالمگیر نے لیپ ٹاپ پر اُنگلیاں چلاتے ہوئے اُسے اندر آنے کی اجازت دی۔ اُس کی نظریں لیپ ٹاپ پر تھیں اور انگلیاں مسلسل کی بورڈ پر حرکت کر رہیں تھیں۔

"سر یہ فائل جو آپ نے منگوائی تھی۔۔۔"

نادر نے ایک فائل اُسکے سامنے رکھتے ہوئے عالمگیر کو مخاطب کیا۔ عالمگیر نے سر کو جنبش دی۔

اچھا ٹھیک ہے میں چیک کر لیتا ہوں۔آپ جنید صاحب کو بھیجئے"

عالمگیر نے نظریں سکرین پر مرکوز رکھتے ہے کہا 

"سر وہ تو آج نہیں آئے"

نادر نے بتایا 

"آج بھی؟ وہ پچھلے دو دنوں سے نہیں آ رہے نا؟ اور آج بھی۔۔۔۔۔جنید صاحب نے کوئی لیو لیٹر دیا تھا؟"

عالمگیر نے نظریں سکرین سے ہٹا کر نادر کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"نہیں سر"

نادر نے مودب انداز میں کہا۔

"ہممم ۔۔۔۔۔۔وہ ایسے لاپرواہ تونہیں لیکن میں اپنے آفس میں ایسے لوگو کو آفس میں نہیں رکھ سکتا ہے میرے بزنس کے لیے ٹھیک نہیں۔۔۔و آجائیں تو میرے آفس میں بھیجئے۔۔۔میں فائنل بات کرتا ہوں۔"

عالمگیر نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔

"سر آپ۔۔۔۔۔پلیز ایسا مت کیجئے۔۔۔۔۔اُنھیں ایک موقع دیجئے۔"

نادر نے پریشانی سے کہا۔

"تو اب آپ مجھے سمجھائیں گے کہ مجھے آفس میں کیا کرنا ہے یہ کیا نہیں کرنا؟"

عالمگیر نے ایک آبرو اٹھا کر نادر کو دیکھتے ہوئے کہا

"نہیں سر ایسا نہیں ہے۔۔۔وہ دراصل بات یہ ہے کہ جنید صاحب کی بیٹی کی شادی ہے کل۔۔۔۔۔"

نادر نے جنید صاحب کی غیر حاضری کو وجہ بتائی۔

"کیا؟ انکی بیٹی کی شادی؟ تو انھونے آفیشل لیو کیوں نہیں لی۔۔۔؟ اور ہاں کچھ لون کا کہہ رہے تھے۔۔۔۔اُن کی کوئی اپلیکیشن آئی ہے ؟ لاؤ دو مجھے۔۔۔میں اپروو کر دیتا ہوں۔۔ "

عالمگیر کو یاد آیا اُس کے جرمنی جانے سے پہلے جنید صاحب نے اُس سے اپنی بیٹی کی شادی کے لیے لون کے بارے میں کہا۔ عالمگیر نے اُنھیں اپلیکیشن دینے کے لیے کہہ دیا تھا۔

"سر آپ جرمنی میں تھے تب اُن کی ایپلیکیشن آئی تھی لیکن آپ وہاں تھے تو میں نے آپ کو بھیجی نہیں۔۔۔۔اُنکی بیٹی کی شادی ہو گئی۔۔۔۔۔"

نادر نے سر جھکا کر بتایا۔

"Ok forget it"

مختار سے کہہ کر ایک پھولوں کا گلدستہ اُن کے یہاں بھجوا دیں۔ ہولڈ آن۔۔۔۔تم نے پہلے کہا اُنکی بیٹی کی شادی ہے اور اب کہ رہے ہو شادی ہو گئی ؟"

عالمگیر نے کنفیوژ ہوتے ہوئے پوچھا۔

"سر جب آفس سے لون پاس نہیں ہوا تو اُنہونے کسی سے لون لیا تھا۔۔۔۔اور اب۔۔۔۔۔"

نادر کہتے کہتے رکا۔

"لیکن اب؟"

عالمگیر نے پوچھا

"لیکن اب وہ اُنھیں پیسے کے لئے تنگ کر ہے تھے اور جب جنید صاحب اُسے پیسے نہسے سکے تو ۔۔۔۔"

نادر پھر کہتے کہتے رکا 

Nadir I don't have so much time ۔۔۔....Just keep it short

(میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے طفیل۔۔۔۔۔۔مختصراً بتاؤ)

"سر وہ بات یہ ہے کہ جنید صاحب نے اپنی بڑی بیٹی کی شادی کے لیے قرضہ لیا تھا۔لیکن قرضہ نہ چکا پانے کی صورت میں وہ قرضہ دار اُن کی  چھوٹی بیٹی سے زبردستی شادی کر رہا ہے"

نادر نے ساری بات بتائی۔

"واٹ۔۔۔۔۔ایسے کیسے کوئی زبردستی شادی کر سکتا ہے ۔ اور اُنکی چھوٹی بیٹی تو ابھی بس 15 سال کی ہے نا؟"

عالمگیر نے جنید سے پوچھا۔

جنید صاحب نے کچھ دنوں پہلے ہی اپنی بیٹی کی 10th  میں پہلی پوزیشن لینے پر سارے آفس میں مٹھائی بانٹی تھی اور ساتھ ہی عالمگیر کو بھی مٹھائی دیتے ہوئے اُنکی بیٹی کے بارے میں بتایا تھا۔

"جی سر۔۔۔"

نادر نے اثبات میں سر کو ہلا کر بتایا۔

"کتنی رقم ہے قرضے کی؟"

عالمگیر نے قرض کی رقم کے بارے میں پوچھا

"سر 10 لاکھ۔۔"

نادر نے بتایا۔

"اوہ ای سی۔۔۔۔لیکن اُن کو اتنا بڑا قرضہ لینا ہی نہیں چاہیے تھا۔

مجھے کال کر لیتے۔۔۔تمہیں مجھے بتانا چاہیے تھا۔۔۔"

عالمگیر کی آواز میں غصے کی رمق تھی۔

"سر لیا تو انھونے نے صرف 9 لاکھ تھا۔لیکن اس قرض دار نے باقی سود ملا کر 10 لاکھ کر دیا ۔"۔

نادر نے تفصیل بتائی۔

"ہممم۔۔لیکن انہیں پھر بھی اتنا زدہ قرض نہیں لینا چاہیے تھا۔۔ ٹھیک ہے ایک کام کرو ایک 10 لاکھ کا چیک بنا کر اُن کے گھر بھیج دو تا کہ وہ اپنا قرضہ چکا سکیں۔ اور اُنھیں کہو آ کر مجھ سے ملیں۔"

عالمگیر نے کہا اور لیپ ٹاپ کی طرف متوجہ ہو گیا۔

"لیکن سر۔۔۔وہ لوگ اُنھیں اور اُن کی بیٹی کو شادی کے لیے زبردستی لاہور لے کر گئے ہیں۔ اور سر وہ بہت خطرناک لوگ ہیں۔۔۔اب وہ لوگ پیسے دینے سے بھی نہیں ماننے گے۔۔۔"

نادر نے پریشانی سے بتایا۔

"کیا۔۔۔۔لاہور۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔۔ٹھیک ہے تم چیک لے کر آؤ۔۔۔میں دیکھتا ہوں کہ وہ لوگ کتنے خطرناک ہیں۔۔۔۔"

عالمگیر نے خود جانے کا سوچا۔

"لیکن سر۔۔۔۔۔وہ لوگ ۔۔۔۔

نادر سے اُسے روکنا چاہا۔

"نادر جتنا بولا ہے اتنا کرو۔۔۔۔"۔

عالمگیر نے غصے سے انگلی اٹھا کر کہا تو نادر "جی" کہتا کمرے نے نکل گیا۔

عالمگیر نے مراد کو کال ملائی۔

"ہیلو انسپیکٹر مراد اسپیکنگ۔۔۔۔"

دوسری طرف مراد جو کوئی فائل کا مطالعہ کر رہا تھا فون کے بجنے پر اُس نے بنا نام دیکھے کال ریسیو کی تھی۔

"پتہ ہے پتہ ہے بہت بڑا انسپیکٹر ہے تو۔۔۔۔"

عالمگیر نے مسکراتے ہوئے اُس کے "انسپیکٹر مراد" کہنے پر طنز کیا۔

"پتہ ہے نہ؟ تو یہ بھی پتہ ہوگا کہ ہم لوگ بہت بیزی ہوتے ہیں۔۔۔"

مراد نے اُس کی آواز پہچانتے ہوئے فائل پرے رکھ دی اور سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کر آرام دہ ہو کر بیٹھا۔

"تیرے جیسے سارے فارغ ہوتے ہیں۔۔۔۔تُجھے کس نے کیس دینا ہے؟ تو نے زندگی بھر نہیں حل کر پانا ہے۔۔۔"

عالمگیر نے طنزاً کہا۔

"ہاں تم جیسے بزنس مین کیا جانے ہم پولیس والو کا درد۔۔۔۔تمہیں تو بس اے سی کمرے میں بیٹھ کر نوٹ چھاپنا ہے۔"۔

مراد کہا پیچھے رہنے والا تھا۔

"بڑی نظر ہے تیری میرے بزنس پر۔۔۔۔۔لیکن کچھ ہوگا نہیں۔۔وہ کہتے ہیں نہ "بری نظر والے تیرا منہ کالا۔"

عالمگیر نے کہتے ہی قہقہہ لگایا۔

"بچوں جس دِن میں نے نظر ڈالی نہ تُو کہیں کا نہیں رہیگا۔۔۔"۔

مراد نے بھی ہنس کر کہا۔

"اچھا چا بھائی مت ڈال میرے بزنس پر نظر ۔۔۔"

عالمگیر نے ڈرنے کی اداکارہ کی۔

"اچھا۔۔۔لگتا ہے دال میں کچھ کالا ہے۔۔۔لگتا ہے چھپا مارنا پڑےگا۔"

اُس بار مراد نے قہقہہ لگایا۔

"سر۔۔۔۔"

نادر نے دروازہ کھٹکھٹایا۔

"ہاں۔۔۔آ جاؤ۔۔۔"

عالمگیر نے کان سے فون لگائے نادر کو اندر آنے کی اجازت دی۔

"سر یہ آپ کا چیک ۔۔۔۔سر وہ لوگ رات کو ہی شادی کر رہیں ہیں۔۔۔اگر آپ کو وہاں جانا ہے تو جلدی نکلنا ہوگا۔"

نادر نے چیک ٹیبل پر رکھتے ہوئے بتایا 

"ٹھیک ہے تم جاؤ میں نکل رہا ہوں کچھ دیر میں۔۔۔"

عالمگیر نے بایاں ہاتھ ذرا اونچا کر کے گھڑی میں وقت دیکھتے ہوئے اُس سے کہا۔

"اوکے سر۔۔۔"

نادر اوکے کہ کر کیبن سے باہر چلا گیا۔

"عالمگیر کس کی شادی۔۔۔تو روک میں بھی آتا ہوں۔۔۔ساتھ چلتے ہیں۔۔۔بہت مزا آئیگا۔۔۔بہت سارا کھانا ہوگا وہاں تو۔۔۔۔"

مراد جو شادی کا سن چکا تھا شادی کے نام پر اُس کی آنکھیں چمک گئی تھی۔فوراً بولا

"ابے سالے وہاں شادی میں کھانا کھانے نہیں بلکہ شادی رکوانے جانا ہے۔۔۔۔"

عالمگیر اُس کی کھانے کی بات پر تپ کر بولا۔

"تو ہی جا پھر۔۔۔۔لوگو نے فینٹیاں تُو ہی کھا۔" 

مراد نے برا سا منہ بنا کر کہا۔

"ابھی تو بڑا انسپیکٹر بن رہا تھا ۔۔۔ہوا نکل گئی۔۔۔۔"

عالمگیر کے لبوں پر ہنسی رینگی۔

"تو شادی رکوانے میں میرا کیا کام۔۔۔۔؟لیکن تو شادی کیوں رکوانا چاہتا ہے؟ اور وہ لڑکی کون ہے؟ کہیں وہ میری بھابھی تو نہیں۔۔؟"

مراد نے پہلے منہ بنایا پھر حیران ہوا اور جملے کے آخر میں شرارت سے بولا۔

"کمینے وہ میرے اکاؤنٹنٹ کی 15 سال کی بیٹی سے زبردستی شادی کر رہے ہیں تو اس لیے مجھے اُس کی شادی رکوانی ہے۔"

عالمگیر نے دانت کچکچاتے ہوئے کہا ساتھ بھابھی لفظ پر اُس دشمن جان کا سراپا بھی اُس کی آنکھوں کے آگے لہرا گیا جسے ایک مہینے پہلے وہ اپنے نام کر کے جرمنی چلا گیا تھا اور  ساتھ ہی اُس کا دلہن بنا گھونگھٹ میں ڈھکا چہرہ۔۔ ایک مہینے ہو گئے تھے اُسے دیکھے ہوئے۔نہ ہی اُسے دیکھا تھا، نہ ہی اُس کی آواز سنی تھی۔ ایک پل میں اُس کی یاد نے عالمگیر کے دل کو بے چین کر دیا۔

"اوہ۔۔۔ٹھیک ہے تو رک میں ابھی اپنی فورس کے ساتھ آتا ہوں۔۔۔۔کس علاقے میں ہو رہی ہے شادی۔۔۔۔؟"

مراد نے فوراً سنجیدہ ہوتے ہوئے پوچھا۔

"شادی یہاں نہیں لاہور میں ہو رہی ہے۔۔۔تو جلدی آ پھر ساتھ چلتے ہیں۔۔۔مجھے تیری مدد کی ضرورت پڑےگی۔۔۔"

عالمگیر نے اُسے ساتھ چلنے کا کہا۔

"ٹھیک ہے میں آتا ہوں۔۔۔میں لاہور کے پولیس اسٹیشن میں فون کر کے وہاں سے فورس کو انفارم کر دیتا ہوں۔۔۔" 

مراد نے کہہ کر  فون رکھا تو عالمگیر بھی جلدی جلدی اپنی ایمیل کمپلیٹ کرنے لگا جو وہ نادر کے کیبن میں آنے پہلے لکھ رہا تھا۔ کیونکہ کچھ دیر بعد اُسے لاہور نکلنا تھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مراد عالمگیر کے ساتھ اس کی کار میں لاہور کی طرف طرف جا رہا تھا۔

 اسلام آباد سے نکلنے سے پہلے اس نے لاہور پولیس اسٹیشن میں فون کرکے کے ان کو تیار رہنے کے لئے لیے کہہ رکھا تھا۔

عالمگیر نے نادر سے جنید صاحب کو کہاں لے جایا گیا ہے  وہاں کاایڈریس معلوم کر لیا تھا اب وہ لوگ سیدھا اسی طرف جا رہے تھے عالمگیر کا ارادہ ایک دن رحمت بیگم کے ساتھ رکنے کا بھی تھا ۔

"عالمگیر رُکو۔۔۔۔میں اپنی ٹیم کو فون کر کے پوچھ لوں کے وہ لوگ کہاں تک پہنچے۔ ایسے اکیلے جانا ٹھیک نہیں"

وہ لوگ مطلوبہ ایڈریس پر پہنچے تو عالمگیر کار سے نکل کر اندر کی طرف بڑھنے لگا تب ہی مراد نے اُسے روک دیا

"مراد ہم لوگ یہاں شادی روکنے آئیں ہیں نہ کہ شادی میں شرکت کرنے کہ دیر سے بھی گئے تو کوئی فرق نہیں پڑےگا"

عالمگیر نے اُس دیکھتے ہوئے کہا۔

"عالمگیر میں اُنھیں فون کر لوں پھر چلتے ہیں۔۔۔"

مراد نے عالمگیر کو اکیلے اندر جانے سے روکنا چاہا کیونکہ جب اُس نے لاہور فون کیا تب اُسے خبردار کیا گیا تھا۔ وہ لوگ بہت خطرناک تھے اس لیے مراد نہیں چاہتا تھا کے عالمگیر اکیلے اندر جائے۔

مراد نے کال ملا لی تو عالمگیر نے اپنا کوٹ اُتار کر کار کی بیک سیٹ پر ڈال دیا اور ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کر کف کے بٹن کھول کر آستینے کہنیوں تک فولڈ کر لی۔

"ہاں۔۔۔ جی۔۔۔۔جی۔۔ آپ بھیجیں۔۔۔جی ۔۔۔۔اوکے۔۔۔لیکن جلدی۔۔۔"

مراد نے کال منقطع کی اور عالمگیر کے ساتھ اندر کی طرف بڑھ گیا۔

اندر ایک گہماگہمی کا ماحول تھا۔ کچھ لوگ پھولوں کی ٹوکریاں لے کر یہاں وہاں آ جا رہے تھے تو کچھ لوگ ٹولیوں میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔

ہر طرف پھولوں کی لڑیاں لگی تھیں۔

ویٹر ٹرے میں لوازمات لیے یہاں وہاں کھڑے لوگو کو سروے کر رہے تھے۔

ایک طرف سفید گدے بچے تھے جس پر قاضی صاحب چند لوگو کے ساتھ بیٹھے تھے ۔

 دو لوگ قاضی صاحب  کو کچھ ہدایات دے رہے تھے جسے سن کر وہ ہاں میں گردن ہلا کر اُن سے کچھ کہہ رہے تھے۔

مراد اور عالمگیر نے ایک طائرانہ نگاہ کمرے پر ڈالی۔

"جنید صاحب کہاں ملیں گے؟"

مراد نے پاس سے گزرتے ایک شخص سے استفسار کیا۔

"وہ اُپر والے کمرے میں"

اُس آدمی نے اُپر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

مراد اور عالمگیر نے ایک نظر ایک دوسرے کو دیکھا اور اُپر کی طرف بڑھ گئے۔

وہ لوگ مطلوبہ کمرے میں پہنچے تو دیکھا سامنے جنید صاحب ایک کونے میں سر ہاتھوں میں رکھے بیٹھے تھے اور اُن کی بیٹی اُن کے پاس بیٹھی رو رہی تھی۔

عالمگیر مراد کے ساتھ چلتا ہوا کمرے کے اندر آیا۔

"جنید صاحب۔۔۔۔٫

عالمگیر نے اُنھیں پُکارا۔

"سر آپ۔۔۔"

جنید صاحب نے سر اٹھا کر عالمگیر اور ساتھ کھڑے مراد کو دیکھا۔

"جنید صاحب آپ کو پیسوں کی ضرورت تھی تو مجھ سے کہا ہوتا۔۔۔ایسے ۔۔۔ان لوگو سے ۔۔۔۔ایسے لوگو سے قرض نہیں لینا چاہیے تھا۔"

عالمگیر نے اُنھیں دیکھتے ہوئے کہا۔

"سر آپ یہاں ہوتے تو میں آپ سے ہی کہتا لیکن آپ۔۔۔۔سر آپ جرمنی میں تھے اور میں آپ کو پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا۔"

اُنہونے نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔

"جنید صاحب آپ مجھے کال کر سکتے تھے۔۔۔میں جرمنی میں ہی تھا نہ۔۔۔۔"۔

عالمگیر نے اُنھیں دیکھتے ہوئے کہا۔

"سر وہ لوگ زبردستی میری بیٹی کی شادی اپنے شرابی بیٹے سے کرنا چاہتے ہیں۔۔۔"

جنید صاحب نے پریشانی سے کہا۔

"جینید صاحب آپ ہماری کمپنی کے بہت اہم فرد ہیں میرے ابّو کی طرح ہیں اور یہ گڑیا میری چھوٹی بہن کی طرح ہے۔ میرے ہوتے ہوئے میری بہن کے ساتھ کوئی ظلم نہیں کر سکتا۔ آئیں میرے ساتھ"

عالمگیر نے اُنھیں ساتھ لے جانا چاہا۔

"لیکن سر یہ لوگ بہت خطرناک ہیں۔۔۔۔"

جنید صاحب ہاتھ مسلتے ہے پریشانی سے بولے۔

"آپ کو ایسے لوگو سے قرض لینا ہی نہیں چاہتے تھا۔لیکن خیر۔۔۔ چلیں میرے ساتھ۔۔۔۔"

عالمگیر نے ہاتھ کے اشارے سے اُنھیں ساتھ چلنے کا کہا۔

"لیکن سر۔۔۔۔یہ لوگ ہمیں جانے نہیں دینگے۔۔۔یہ لوگ بہت خطرناک لوگ ہیں۔۔۔ "

جنید صاحب کی پریشانی میں کمی نہیں آئی تھی۔وہ کبھی عالمگیر کو دیکھتے کبھی خاموش کھڑے مراد کو۔

"آپ لوگ چلیں۔۔۔۔میری ٹیم آتی ہے ہوگی۔۔۔"

مراد جو کافی دیر سے کھڑا اُن کی باتیں سن رہا تھا اُن کو پریشان دیکھتے ہوئے بولا 

"یہ۔۔۔"

جنید صاحب نے مراد کی طرف اشارہ کر کے عالمگیر سے پوچھا 

"یہ ہے انسپیکٹر مراد اورمیرے بہت خاص دوست ۔"

عالمگیر نے مراد کا تعارف کروایا۔

"آئیے۔۔۔"

مراد نے کہا تو عالمگیر کے ساتھ جنید صاحب اور اُنکی بیٹی بھی باہر آئے

"رک جاؤ۔۔۔۔کون ہو تم لوگ اور اندر کیسے آئے۔۔۔؟"

ابھی وہ لوگ آخری سیڑھی پر ہی تھے کہ پیچھے سے ایک ادھیڑ عمر کے شخص نے گرجدار آواز میں کہا۔

عالمگیر کے ساتھ اُن سب نے بھی آواز کی سمت دیکھا جہاں ایک ادھیڑ عمر شخص ہاتھوں میں بندوق لیے بندوق کی نالی اُس کی طرف کیے کھڑا تھا۔

"میں اس لڑکی کا بھائی ہوں۔۔۔اور اسے یہاں سے لے جانے آیا ہوں۔۔۔"

عالمگیر نے بنا ڈرے کہا

" تم کیا سمجھتے ہو تم یہاں سے اتنی آسانی سے نکل جاوگے۔۔۔ یہاں سے نکلنا اتنا آسان نہیں۔۔۔چلو اُس طرف۔۔۔۔"

اُس شخص نے روبدار آواز میں کہا تو اُس کے پاس کھڑے کچھ لوگ اُن کے قریب آکر سب کو ایک ساتھ کھڑا کر دیا۔

"ٹھک۔۔۔۔۔ٹھک۔۔۔ٹھک۔۔۔ "

پاس کے کمرے سے دروازہ بجنے کی آواز آئی تو سب نے مڑ کر اُس طرف دیکھا۔

"دیکھیے۔۔۔میری بات سنیے۔۔۔"

مراد نے کچھ کہنا چاہا

"چپ رہو۔۔۔کوئی کچھ نہیں کہے گا اور نہ ہی کوئی یہاں سے کہیں بھی جائیگا۔۔۔۔" 

اُس شخص نے کہا اور ساتھ ہی ہوا میں ایک فائر بھی کھول دی۔

"دیکھیے میں آپ کو آپ کے سارے پیسے دینے کو تیار ہوں۔۔۔آپ ہمیں جانے دیجئے۔۔"

عالمگیر نے صلح جو انداز میں کہا۔

"بچے۔۔۔۔مجھے پیسے کی گرمی مت دیکھا۔۔۔۔۔تُجھے چاہیے تو میں اور 10 لاکھ دے دیتا ہوں۔۔۔لیکن یہ شادی ہو کر رہیگی۔۔۔۔تم لوگ کیا منہ دیکھ رہے ہو۔۔۔۔لے چلو لڑکی کو۔۔۔ اور قاضی صاحب آپ نکاح شروع کیجئے۔۔۔"۔

اُس شخص نے پہلے عالمگیر کو کہا پھر اپنے آدمیوں کو جنید صاحب کی بیٹی کی طرف اشارہ کر کے دوسری طرف لے جانے کا کہا اور ساتھ ہی قاضی صاحب کو بھی حکم صادر کیا۔

قاضی صاحب "جی" کہہ کر  جلدی جلدی اپنی کاپی پر پین چلانے لگے۔

ایک آدمی جنید صاحب کی طرف بڑھا کیونکہ اُن کی بیٹی اُن کی پشت کے پیچھے کھڑی تھی، عالمگیر جلدی سے اُن کے سامنے آیا۔ ایک آدمی نے عالمگیر کا بازو پکڑ کر اُسے سامنے سے ہٹانا چاہا لیکن مراد نے اپنا دایاں پیر ہوا میں اچھال کر اُسکے پیر پر ایک زور دار کیک ماری تو وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور فرش پر جا گرا۔

عالمگیر نے آگے بڑھ کر دوسرے شخص کے پیٹ پر ایک گھونسا مارا اور ساتھ ہی اُس کے بال پکڑو کر اُسے فرش پر دھکّا مار کے اُسے فرش پر گرا دیا۔

باقی آدمی بھی اُنکی طرف بڑھے جن میں سے ایک کو مراد ہاتھ کا گھونسا بنا کر چہرے پر اور پیٹ پر مارتا ہوا اُسکے ہاتھ مروڑ کر ایک طرف دھکّا دے  دیا۔۔عالمگیر بھی پوری طرح سے انکا مقابلہ کر رہا تھا۔ایک کے بعد ایک کو مار کر اُن دونوں نے سب کو ڈھیر کر دیا تھا۔ سب فرش پر پڑے کرہاہ رہے تھے۔

اتنے میں اُس ادھیڑ عمر شخص نے بندوق کی نوک عالمگیر کو طرف کر کے ایک فائر خول دی لیکن مراد نے بروقت جھک کر اپنے جوتوں میں چھپا اپنا پستول نکال اور اُس شخص کے بندوق والے ہاتھوں پر فائر کر دیا۔

اُس شخص کے ہاتھوں سے خون کی پھوار اُبل پڑی اور ساتھ ہی اُس کے ہاتھ سے بندوق چھوٹ کر فرش پر جا گری ۔وہ کراہتے ہوئے اپنے خون آلود ہاتھ کو دوسرے ہاتھ میں تھامے کھڑا تھا۔

"کوئی ہوشیاری نہیں۔۔۔سب اپنی اپنی جگہ پر کھڑے رہیں۔۔۔۔عالمگیر ،جنید صاحب اور اُنکی بیٹی کو لے کر چلو۔۔۔۔۔۔"

مراد نے کڑک آواز میں کہا تو سارے کمرے میں سناٹا چھا گیا۔

"ہینڈز آپ۔۔۔۔"

پولیس فورس کی نفری اندر آ چکی تھی اور وہ لوگ  فرش پر جا بجا پڑے لوگو کو اپنی حراست میں لے رہے تھے۔

مراد نے آگے بڑھ کر انسپیکٹر سے مصافحہ کیا اور ساتھ ہی اُس ادھیڑ عمر کی طرف اشارہ کر کے سارا معاملہ پھر سے اُسے بتایا کیونکہ وہ اسلام آباد سے نکلنے سے پہلے ہی اُنھیں ساری صورتِ حال سے آگاہ کر چکا تھا۔

"چلو  عالمگیر۔۔۔ یہاں زیادہ دیر روکنا سیف نہیں ہے۔۔۔۔"

مراد اُس انسپیکٹر سے ایک پھر مصافحہ کر کہ اُن کی طرف آیاتھا ۔

"ایک منٹ۔۔۔"

سب جلدی سے دروازے کی طرف بڑھے تو عالمگیر نے پیچھے سے کہا۔

سب نے سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھا۔

"آپ لوگ چلیں۔۔۔میں آتا ہوں۔۔۔"۔

عالمگیر نے مراد کو دیکھتے ہوئے کہا۔

"عالمگیر یہاں رکنا سیف نہیں ہے جلدی چلو۔۔۔"

مراد نے اُسے چلنے کو کہا

"تم انہیں لے کر چلو میں ابھی آتا ہوں۔۔۔"

عالمگیر کہتے ساتھ ہی اندر کی طرف بڑھا۔

"عالمگیر میری بات سنو۔۔۔۔"

مراد نے اُسے پیچھے سے آواز دی۔۔۔ لیکن وہ نہیں رکا۔

کچھ دیر پہلے جس کمرے سے کھٹکھٹانے کی آواز آ رہی تھی عالمگیر اُس کمرے کی طرف بڑھا۔ اُسے اندازہ ہو گیا تھا کے کسی کو وہاں بند کر کے رکھا گیا تھا۔

عالمگیر نے دروازہ کھولا تو ساکت رہ گیا۔

دروازے کے پاس عشنا رسیوں سے بندھی بیٹھی تھی۔اُسکے منہ پر کپڑا بندھا ہوا تھا  جس کی وجہ سے وہ کچھ بول نہیں پا رہی تھی ۔کپڑوں پر بے تحاشا دھول اور مٹی لگی تھی، بال بکھرے ہوئے تھے،اُس کی آنکھوں کے سرخ ڈورے  اور اُنکی آنکھوں میں چمکتے آنسو اُس کی ابتر حالت کی گواہی دے رہے تھے۔

عشنا آنکھوں میں آنسو لیے دروازے پر کھڑے عالمگیر کو دیکھے جا رہی تھی۔

ایک مہینے بعد ۔۔۔۔ ایک مہینے بعد عالمگیر عشنا کو دیکھ رہا تھا اور وہ بھی ایسے ۔۔۔۔اس حالت میں۔۔۔۔عالمگیر عشنا کو ایسی حالت میں دیکھ کر تڑپ کر اُسکی طرف بڑھا۔

"عشنا۔۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کے سامنے بیٹھ کر اسکو اپنے سینے سے لگا لیا اور پھر جلدی سے اُسے الگ کر کے اُسکی رسیاں کھولنے لگا اور ساتھ ہی اُس کے منہ پر بندھی پٹی بھی کھولی۔اُسکے رسیوں سے نمبندھے ہاتھوں سے خون نکل رہا تھا لیکن عالمگیر کو اُسے رسیوں سے آزاد کرنے کی اتنی جلدی تھی کے وہ اُس کی کلائیوں اور پیروں سے نکلتے خون کو دیکھ ہی نہیں پایا۔

"عالم۔۔۔۔۔۔عالمگیر ۔۔۔۔۔"

عالمگیر نے عشنا کو رسیوں سے آزاد کر کے بازؤں سے تھام کر اپنے مقابل کھڑا کیا تو عشنا اُس کے سینے سے لگ کر زارو قطار رونے لگی۔

عالمگیر نے اُس کو مضبوطی سے تھام کر اُسے اپنے ہونے کا احساس دلایا۔

عشنا اُس کے سینے سے لگ کر  بلک رہی تھی ساتھ ہی وہ ہولے ہولے کانپ بھی رہی تھی۔ وہ شاید کافی دیر سے ایسے ہی بندھی ہوئی تھی۔عالمگیر نے آہستہ سے اُسے الگ کرنا چاہا لیکن وہ ایسے ہی اُس سے لپٹی رہی۔ جیسے اُسے ڈر ہو کہ اگر عالمگیر اُس سے الگ ہوا تو پھر وہ لوگ اُسے ایسے ہی رسیوں سے باندھ کر کسی کمرے میں ب پھینک دینگے۔

عالمگیر نے اُس کا ڈر سمجھتے ہوئے پھر اسے الگ کرنے کی کوشش نہیں کی۔

تھوڑی دیر تک وہ ایسے ہی روتی  رہی عالمگیر نے اُس کی پیٹھ سہلاتے ہوئے اُسے ریلیکس کرنا چاہا۔

"عالم۔۔۔۔عالمگیر وہ۔۔۔وہ لوگ مجھے۔۔۔۔مجھے۔۔۔۔"

وہ ڈر اور خوف میں درمیان بولی۔

"عشنا۔۔۔۔ کوئی کچھ نہیں کریگا۔۔۔۔۔میں ہوں نا۔۔۔۔۔چلو۔۔۔آؤ میرے ساتھ۔۔۔۔"

عالمگیر، عشنا کو  آہستہ سے خود سے الگ کیا اور اُسکا زمین پر پڑا دوپٹہ اٹھا کر اُس کے گرد لپیٹ دیا لیکن وہ جگہ جگہ سے پھٹ گیا تھا شاید اُسے کھینچتے ہوئے یہاں تک لایا گیا تھا۔عالمگیر نے اُس کے دوپٹے کو دیکھا تو اُسکا خون ایک بار پھر اُبال کھانے لگا جسے اُس نے مٹھیاں بینچ کر کم کیا اور عشنا کو بازؤں سے  تھام کر اُسے اپنے ساتھ باہر لے آیا۔

عالمگیر نے عشنا کو باہر لا کر ایک پلر کے پاس کھڑا کیا اور چلتا ہوا مراد جو اُسکی کار کے پاس کھڑا اُس کا انتظار کر رہا تھا وہاں چلا آیا

"عالمگیر میں نے ان لوگو کو پولیس پروڈکشن کے ساتھ اسلام آباد بھیجنے کا انتظام کر دیا اور مجھے بھی ابھی کچھ فرملٹی کے لیے پولیس اسٹیشن جانا پڑےگا۔ میں تمہیں رات کو ملتا ہوں۔۔۔"

مراد جو پولیس انسپکٹر سے مصافحہ کر رہا تھا عالمگیر کی طرف بڑھا اور تفصیل سے سب بتایا۔

"ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔میں ایڈریس ٹیکسٹ کرتا ہوں۔۔۔تو سیدھا گھر آ جانا۔"

عالمگیر نے ساری بات سننے کے بعد کہا تو مراد اُس سے مصافحہ کرتا پولیس وین کی طرف بڑھ گیا۔ جہاں جنید صاحب پہلے ہی اپنی بیٹی کے ساتھ بیٹھے تھے۔

باقی لوگو کو دوسری وین میں l جایا چکا تھا۔

عالمگیر نے مراد کی وین کو باہر نکلتے دیکھا تو بیک سیٹ سے اپنا کوٹ اٹھاتا جلدی سے عشنا کی طرف بڑھا۔

عشنا آج کالج سے نکلی تو اُس کی ایک کی کلاس میٹ اُسے زبردستی اپنے ساتھ اس شادی میں لے آئی تھی۔ عشنا شادی میں آئی تو اسنے 15 سال کی لڑکی کی شادی ہوتے دیکھی تو اُنھیں یہاں بھاگ جانے کے لیے کہا لیکن جب وہ اُنھیں جانے کا کہ رہی تھی وہی ادھیڑ عمر شخص نے اُسکی باتیں سن لی تھی اور اُسے گھسیٹتے ہوئے لاکر رسیوں میں باندھ دیا اور اُس کی کلاس میٹ کو بھی ایک دوسرے کمرے میں بند کر دیا تھا تاکہ وہ عشنا کی مدد نہ کر سکے یہاں سے بھاگنے میں کیونکہ اُنھیں د ڈر تھا کہ اگر عشنا یہاں سے گئی تو وہ پولیس کو خبر نہ کر دے۔

عشنا دوپہر سے رسیوں میں بندھی پڑی تھی۔ بہت مشکل سے وہ دروازے کے پاس رینگتے ہوئے پہنچ پائی تھی کیونکہ اُس کے ہاتھ اور پاؤں رسیوں سے بندھے تھے اور منہ پر بھی کپڑا باندھ دیا گیا تھا تا کے وہ کسی کو اپنی مدد کے لیے نہ پُکارا  سکے۔ لیکن جب اُس نے باہر بہت ساری آوازیں سنی تو پیرو کی مدد سے دروازہ کھٹکھٹانا چاہا تھا۔

بہت دیر تک وہ دروازہ کھٹکھٹاتی رہی تھی لیکن کسی نے دروازہ نہیں کھولا تھا۔

وہ نے حال سی فرش پر بیٹھی تھی۔ اُسے رونا بھی آ رہا تھا کیوں کی رسیاں اُس کے ہاتھ میں اتنے زور سے باندھے گئی تھی کے وہاں سے خون کی ننھی ننھی بوندیں نکل کر رسیوں کو سرخ کر گئی تھی۔

عشنا ایسے ہی نڈھال  بیٹھی تھی جب کسی نے دروازہ کھولا تھا۔سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر اُسکی آنکھیں چھلک پڑی تھی۔عالمگیر اُس کے سامنے ساکت کھڑا اُسے دیکھے جا رہا تھا۔کچھ دیر ایسے ہی دیکھے رہنے کے بعد وہ اُس کی طرف آیا اور اُسکے سامنے بیٹھ کر اُسے اپنے ساتھ لگا کر الگ کیا اور اُسے رسیوں سے آزاد کر کے اپنے مقابل کھڑا کر کے اس کے زخم دیکھنے چاہے لیکن عشنا اُسے دیکھ کر اُسکے سینے سے لگی بلکنے لگی تھی ۔ ڈر اور خوف میں گھری وہ عالمگیر کے سینے سے لگی کھڑی تھی۔ عالمگیر کے ہاتھ اپنے کمر اور پیٹھ پر محسوس کر نے باوجود اُس کے آنسو نہ تھامے۔عالمگیر نے اُسے الگ کرنا چاہا تھا لیکن وہ ایسے ہی اُسے جکڑے رہی۔

کچھ دیر بعد عالمگیر اُسے الگ کر کہ اُس کا دوپٹہ اٹھا کر اُس کے گرد لپیٹ کر اُسے اپنے ساتھ باہر لے آیا تھا اور ایک پلر کے پاس کھڑا کر کے آگے چلا گیا تھا۔ عشنا بس اُسے دیکھے جا رہی تھی۔اُسے اب بھی یقین نہیں ہو رہا تھا کہ عالمگیر جو ایک مہینے پہلے اُسے اپنے نام کر کے جرمنی چلا گیا تھا اور اس ایک نہیں میں نہ اُس نے اُسے کال کی تھی اور نہ ہی اُسے برتھڈے وش کیا جو کچھ دوں پہلے تھا۔ وہ اُس کے سامنے کھڑا تھا۔ وہ اپنا ہر درد بھلائے اُس کے دید سے اپنی پیاسی آنکھیں سیراب کر رہی تھی۔

عالمگیر چلتا ہوا اُس کے پاس آیا اور اُس کے کندھوں پر اپنا کوٹ پہنا دیا۔

"اہہہ۔۔۔۔۔۔"

عالمگیر نے آہستہ سے عشنا کی کلائی تھامی تو  اُس کی سسکاری نکل گئی۔

عالمگیر نے اُسکی کلائی کی طرف دیکھا جو خون سے لت پت تھی۔

عالمگیر نے جھک کر اُس کے پیروں کو دیکھا  وہاں سے بھی خون رس رہا تھا۔ 

عالمگیر نے اُس کا بازوں تھاما اور کار تک لا کر اُسے فرنٹ سیٹ پر بیٹھا کر خود ڈرائیونگ سیٹ پر آ کر  بیٹھ گیا۔

عالمگیر نے کار ایک ہسپتال کے پارکنگ میں روک کر عشنا کو ساتھ لیے اسپتال کے اندر آیا

ڈاکٹر نے اُس کے زخموں کو دیکھ کر پاس کھڑی نرس کو زخم کو صاف کر کے اس پر پٹی لگانے کا کہا۔

نرس آگے بڑھ کر اُس کا زخم صاف کرنے لگی تو عشنا جو  درد کو شدّت کو برداشت کرنے کی سعی کر رہی تھی اُس کی آنکھوں سے ایک آنسوؤں ٹوٹ کر  عالمگیر جو اُس کے پاس کھڑا نرس کو اُس کے زخم صاف کرتے دیکھ رہا تھا عشنا کے آنسو اپنے ہاتھوں پر محسوس کر کے اس کی طرف دیکھا تو وہ نچلا لب دانتوں میں دبائے آنکھیں بند کئے بیٹھی تھی۔ یہ منظر عالمگیر کے دل کو تڑپا گیا۔

اُس نے آہستہ سے عشنا کے کندھے پر ہاتھ پھیلا کر اُسکے بازو سہلا کر تسلی دینے کی کوشش کی۔ عشنا نے

عالمگیر کا لمس اپنے بازو پر محسوس کر کے آنکھیں کھول کر  اُس کی طرف دیکھا تو بس دیکھتی رہ گئی۔

عالمگیر کی آنکھوں نے اُس کے لیے درد۔۔۔تڑپ۔۔۔محبت۔۔۔کیا نہیں تھا۔۔۔۔ ۔۔عشنا عالمگیر دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کھوئے  آس پاس سے بے خبر بس ایک دوسرے کو دیکھے گئے۔

"میم۔۔۔۔آپ اپنی سلیو اُپر کریں۔۔"

نرس نے کہا تو عالمگیر نے چونک کر نرس کو دیکھا۔

عشنا عالمگیر کے سحر میں اس قدر کھوئی ہوئی تھی کے اُسے خبر ہی نہیں ہوئی کہ کب نرس نے سارے زخم صاف کیے کب اُن پر مرہم لگایا اور کب پٹی باندھی۔

عالمگیر، عشا کے کندھے سے اپنا کوٹ ہٹانے لگا۔

عالمگیر نے عشنا کے کندھوں سے کوٹ ہٹا کر اُس کے دائیں ہاتھ کی آستین اُپر کی تو نرس نے ڈاکٹر کے اشارے پر عشنا کے ہاتھوں پر انجکشن لگا دیا۔ 

 نرس نے جیسے انجکشن عشنا کے ہاتھ میں لگایا اُس نے زور سے عالمگیر کا ہاتھ پکڑ لیا۔ 

عالمگیر نے اُس کے ہاتھ پر اپنا دوسرا ہاتھ رکھ دیا۔

ڈاکٹر نے دوائیاں لکھ کر اُس کا نُسخہ عالمگیر کو تھمایا تو اُسے لے کر عشنا کے کندھوں پر اپنا کوٹ ڈال کر ڈاکٹر کو تھینکس کہتا باہر آ گیا ۔

عشنا کو فرنٹ سیٹ پر بیٹھا کر خود ڈرائیونگ سیٹ پر آ کر بیٹھا اور کار کو ابراہیم صاحب کی گھر کی طرف موڑ لی۔ 

راستے میں ایک میڈیکل سٹور کے پاس کار روک کر اُس نے عشنا کی دوائیاں جو ڈاکٹر نے اُسے لکھ کر دی تھیں انہیں لا کر عشنا کو تھمایا اور کار آگے بڑھا لی۔

"تم وہاں کیا کر رہیں تھیں؟"

عالمگیر نے کر ایک سائڈ میں کار روک کر اُس سے اُس کے وہاں ہونے کئی وجہ جاننی چاہی۔

"میں ۔۔۔میں وہ۔۔۔میں وہ شادی۔۔۔۔شادی روکنا۔۔۔۔اُن لوگو نے۔ مجھے۔۔۔"

کہتے کہتے وہ پھر سے رو پڑی ۔

عالمگیر نے آہستہ سے اُسے خود سے لگا لیا۔

"تمہیں ایسے وہاں نہیں جانا چاہئے تھا ۔ "

عالمگیر نے اُسے ساتھ لگائے کہا۔

"میں۔۔میں اُس لڑکی۔۔۔۔میں کیسے ایسے۔۔۔"

اُس نے پھر سے کچھ کہنا چاہا۔

"عشنا۔۔۔۔تمہیں کچھ ہو جاتا تو۔۔۔تم  کہاں ہو مامو کو معلوم ہے؟"۔

عالمگیر نے پوچھا۔

"ہاں۔۔۔میں۔۔۔۔میں نے۔۔۔میں نے بتایا تھا ۔۔۔لیکن وہ تو دوپہر کو۔۔۔۔۔"

"عشنا تم آئندہ کالج کے علاوہ کہیں نہیں جاؤگی۔۔۔تم اب عشنا ابراہیم نہیں۔۔۔۔عشنا عالمگیر سجاد ہو۔۔۔ اور تم خود سے زیادہ میری امانت ہو۔۔۔۔اور عالمگیر سجّاد اپنی امانت میں خیانت برداشت نہیں کرتا۔۔۔۔"

عالمگیر نے عشنا کو اپنے مقابل کر کے اُسے بازوں سے تھام کر کہا اور اُسکا بازو چھوڑ کر کار اسٹارٹ کر دی۔

وہ 234 دنوں کا غصّہ جو عشنا کو اُس ابتر حالت میں دیکھا کر کہیں جا سویا تھا یہ جان کر کہ عشنا وہاں اکیلے گئی تھی پھر سے عود آیا۔

اُس نے اپنے ہاتھوں کو سختی سے اسٹیرنگ وہیل پر رکھ کر اپنا غصّہ دبانا چاہا۔ وہ اس وقت عشنا پر غصّہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔عشنا کے زخم اُسکا خوف ۔۔۔۔وہ اُسے اور کسی تکلیف میں مبتلا نہیں کر سکتا تھا ۔

خود وہ اندر سے بے چینی میں گھیرا ہوا تھا۔

وہ یہ سوچ کر ہی کانپ گیا تھا کے اگر آج وہ لاہور نہیں آتا تو وہ لوگ عشنا کے ساتھ۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔اُس کے آگے وہ سوچ بھی نہیں پایا تھا۔

"عالمگیر تم۔۔۔اور عشنا تمہارے ساتھ۔۔۔۔۔اور اُسے کیا ہوا۔۔۔۔"

عالمگیر نے ابراہیم ہاؤس آکر کار روکی اور  عشنا  کے ساتھ چلتا ہوا اندر آیا تو ابراہیم صاحب جو شائد عشنا کا ہی انتظار کر رہے تھے اُسے عالمگیر کے ساتھ دیکھ کر حیران ہو گئے۔

پہلے تو عالمگیر کو دیکھ کر شوک ہوئے اور پھر عشنا کو  اُس کے ساتھ دیکھ کر۔

"عشنا تم اندر جاؤ۔"

عالمگیر نے عشنا کو اندر جانے کا کہا تو وہ آہستہ سے قدم اٹھاتی کمرے کی طرف بڑھ گئی۔

"مامو کچھ نہیں ہوا۔۔۔تھوڑی چوٹ لگ گئی ہے۔میں آج ہی لاہور آیا تھا اور عشنا کو اُس شادی میں ملا دراصل وہاں میرے اکاؤنٹنٹ کی بیٹی کی شادی ہو رہی تھی۔

وہاں کچھ حادثہ ہو گیا اور شادی نہیں ہی سکی ۔ اسی میں عشنا کو تھوڑے زخم آ گئے ہیں۔ میں نے ڈاکٹر کو دیکھا دیا ہے اور دوا بھی دلوا دی ہے ۔آپ پلیز اس سے کوئی سوال مت کریں۔۔۔اور ہاں۔۔۔آئندہ عشنا کالج کے علاوہ کہیں بھی نہیں جائیگی۔۔۔اگر اسے کہیں بھی جانا ہوا تو میری اجازت کے بعد ہی جائیگی بغیر میری اجازت وہ کہیں بھی نہیں جا سکتی۔"

عالمگیر نے عشنا کے جانے کے بعد ابراہیم صاحب کو کہا اور بنا اُنکی بات سنے باہر کھڑی اپنی کار کی طرف بڑھ گیا۔

اب وہ رحمت بیگم کے پاس اپنے لاہور والے گھر کی طرف جا رہا ت۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


حال


"عالمگیر نے جب خود کو دیر تک سیراب کر لیا تو عشنا سے الگ ہو کر اُسے دیکھا جو عالمگیر کو دیکھتا پا کر نظریں جھکا گئی تھی۔

عالمگیر اُس کی شرمیلے پن پر مسکرا دیا۔

"عشنا۔۔۔۔جان۔۔۔کیسا لگ رہا ہے اب؟"

عالمگیر نے محبت میں ڈوبے لحظے میں کہا۔

"عالم۔۔۔۔عالمگیر پلیز۔۔۔۔۔"

عشنا زیرِ لب مسکراتے اُس کے سینے سے لگ گئی۔ اُس کی سانسیں اب تک تیز تھیں جو عالمگیر اپنے سینے پر صاف محسوس کر سکتا تھا۔

عشنا اُس کی بنیان دیکھ رہی تھی جو جا بجا خون کے دھبوں سے بھری ہوئی تھی۔

"آپ کے کپڑے۔۔۔۔۔آپ کے کپڑوں میں خون ہے عالمگیر۔۔۔پلیز اٹھیں۔ ۔۔اُنھیں چینج کر لیں۔۔۔میں آپ کو ایسے خون میں لت پت نہیں دیکھ سکتی۔۔۔۔۔"

عشنا نے عالمگیر سے الگ ہوتے ہوئے کہا۔

عشنا کے کہنے پر عالمگیر نے بھی نظریں جھکا کر اتنی دیر میں پہلی بار اپنے کپڑوں کو دیکھا جو سفید کی جگہ ہر طرف سے سرخ ہو رہے تھے۔

"ٹھیک ہے۔۔۔۔۔ میں چینج کر لیتا ہوں۔"

عالمگیر عشنا کے گال پر ہاتھ پھیر کر کھڑا ہوا اور ساتھ ہی الماری سے اپنے کپڑے لے کر واشروم کی طرف بڑھ گیا۔

عشنا اُس کے چینج کر کے آنے کا انتظار کرنے لگی لیکن جب وہ کافی دیر تک باہر نہیں آیا تو عشنا چلتی ہوئی واشروم کے پاس آئی۔

"عالمگیر۔۔۔۔آپ ٹھیک ہیں نہ؟"

عشنا نے ہے چینی سے پوچھا۔

"ہاں جان۔۔۔میں ٹھیک ہوں۔۔ تم چلو ۔۔۔میں چینج کر کے آتا ہوں۔۔"

عالمگیر نے دروازہ کھول کر اُسے دیکھتے ہوئے کہا اور واپس پلٹ  گیا لیکن دروازہ مقفل نہیں کیا۔

عشنا نے دیکھا تھا کہ وہ اب تک ایسے ہی بنیان اور پاجامے کے ساتھ کھڑا اُس سے کچھ دیر کا کہہ کر دوبارہ اندر جا چکا تھا۔

عشنا کچھ سوچتے ہوئے اندر آ گئی اور اُس نے دیکھا عالمگیر بہت کوشش کی بعد بھی بنیان نکالنے سے قاصر ہے کیونکہ اُسکا دایاں کندھا بری طرح زخمی تھا ۔ جیسے ہی وہ ہاتھ اوپر کرنے کی کوشش کرتا، درد کی ایک لہر اُس کے جسم میں دوڑ جاتی تھی اور وہ تکلیف کی شدّت سے  کراہ کر ہاتھ نیچے کر لیتا تھا۔

شاید وہ کئی بار کوشش کر چکا تھا کیونہ عشنا عالمگیر کے چہرے پر درد کی رمق کو دیکھ چکی تھی۔ وہ بے چینی سے عالمگیر کی طرف بڑھی۔

"عشنا۔۔۔۔۔۔۔".

عالمگیر نے عشنا کو دیکھا تو مسکرا دیا۔

"آپ کو۔۔۔۔آپ کو تکلیف ہو رہی ہے نہ۔۔۔؟"

عشنا کی آنکھوں میں پانی تیرنے لگا۔

"نہیں جان۔۔۔بس یہ بنیان نکالنے میں دشواری ہو رہی ہے۔۔۔ "

عالمگیر نے قریب آ کر ایک انگلی سے اُس کے آنسوؤں صاف کرتے بنیان کی طرف اشارہ کیا۔

"آئیں میرے ساتھ۔"

عشنا، عالمگیر کا ہاتھ پکڑ کر اُسے کمرے میں لے آئی اور اُسے بیڈ پر بیٹھا دیا۔

عشنا آہستہ سے عالمگیر کی بنیان کو پیٹ کے اوپر سے پکڑ کر سینے تک لائی اور بایاں ہاتھ اُس میں سے نکال کر بنیان کو سر سے نکال دیا پھر داہنے طرف آ کر آہستہ سے اُسے داہنے طرف سے بھی نکال دیا۔

عالمگیر پلکیں جھپکائیں بنا اُسے دیکھ رہا تھا 

عشنا نظریں جھکائے ہوئے تھی۔

بنیان نکالنے کے بعد عشنا واشروم میں گئی اور سپنج گیلا کر کے لے آئی کیونکہ اُس نے خون کے دھبے عالمگیر کی پیٹھ، پیٹ اور سینے پیر دیکھے تھے۔

عشنا نے سپنج کی مدد سے پیٹھ کی طرف آ کر سارا خون صاف کیا اس سارے عمل کے دوران اُسکی نظریں جھکی رہیں۔

اُس کے پیٹھ کو صاف کرنے کے بعد اُس نے سامنے آ کر پیٹ اور سینہ بھی صاف کیا ۔پھر عشنا نے آہستہ سے دوسری بنیان اُسکے گلے میں ڈال کر پہلے بایاں ہاتھ اُس میں ڈالا اور آہستہ سے آرام آرام سے سیدھی طرف سے بنیان کو اُس کے ہاتھ میں ڈال کر بنیان پیٹھ اور پیٹ پر برابر کی۔

عالمگیر اُس کے چہرے پر رقم شرم کو بخوبی سمجھ سکتا تھا لیکن ساتھ ہی اُسے عشنا کا یوں فکر کرنا بہت اچھا لگا تھا۔

اس نے مسکرا کر عشنا کا ہاتھ تھاما اور اپنے برابر بیٹھا کر اُس کے کانوں میں جھک کر بولا

"میں تمہارا محرم ہوں۔۔۔تم مجھے ایسے دیکھ سکتی ہو جان۔۔۔۔"

عالمگیر نےکہا تو عشنا نے نظر اُٹھا کر اُسے دیکھا جو اُسے محبت پاش نظروں سے دیکھ رہا تھا۔

"عالم۔۔۔عالمگیر۔۔۔"

عالمگیر عشنا کے اتنے قریب تھا کہ عشنا اُس کی سانسوں کی گرماہٹ کو اپنے چہرے پر محسوس کر سکتی تھی 

عالمگیر نے پیار  سے اُس کے ماتھے پر لب رکھ کر اُسے معتبر کیا اور ساتھ ہی اُسے بیڈ پر لٹا کر اُس پر جھکا۔

عشنا نے مضبوطی سے عالمگیر کی بنیان سینے سے تھام لی اور آنکھیں زور سے بند کر لیں۔

عالمگیر اُس کے اوپر جھک کر اُس کے چہرے پر محبت لوٹانے لگا اور اُس کے کان میں سرگوشی کے سے انداز  میں بولا۔

"عشنا۔۔۔میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں۔۔۔۔اگر آج تمہیں کچھ ہو جاتا تو تمہارا عالمگیر مر جاتا"

عالمگیر نے عشنا کے چہرے کو دیکھا۔

"عالمگیر۔۔۔۔"

عشنا نے تڑپ کر اُسے پُکارا۔

"جب تک ہماری سانسیں چلیں گی ۔۔۔ہمیں ایک دوسرے سے کوئی الگ نہیں کر سکتا۔۔۔"

عالمگیر نے سرگوشيانا انداز میں کہا تو عشنا نے ذرا سا چہرہ اوپر کر کے اس کے گال پر اپنے لب رکھ دیئے۔

عالمگیر عشنا کی حرکت پر سرشار ہوں کر اُس کی گردن پر جھکا لیکن اُسے فوراََ ہی اپنا سر عشنا کی گردن سے اٹھانا پڑ گیا کیونکہ تکیے کے پاس پڑا عالمگیر کا موبائل زور زور سے چیخنے لگا تھا۔

عشنا نے آنکھیں کھول کر اُسے دیکھا اور اُس کے چہرے پر ایک شاراتی مسکراہٹ نے احاطہ کر لیا تھا۔

عالمگیر بری طرح بدمزہ ہوا لیکن عشنا کو ہنستے دیکھ کر وہ بھی ہنس دیا اور اُس کے ماتھے پر لب رکھ کر ایک ہلکی سے جسارت اُس کے لبوں پر کرتا اٹھ کر موبائل چیک کرنے لگا تھا۔

عشنا اٹھ کر بیٹھی اور آہستہ سے بیڈ سے اتر کر واشروم میں بند ہو گئی کیونکہ خون کے دھبے اُس کے کپڑوں پر بھی لگے تھے۔


۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عشنا واشروم نے باہر آئی تو عالمگیر کھڑکی کے پاس کھڑا بائیں ہاتھ میں موبائل پکڑے باہر دیکھتے ہوئے فون پر باتیں کرنے میں مشغول تھا۔

عشنا چلتی ہوئی اُس کے پاس آئی اور اُس کے مقابل آ کر اُس کے بلکل قریب آ کر کھڑی ہو گئی اور اپنے پیرو پر ذرا اونچا ہو کر اپنا چہرہ عالمگیر کے سامنے کیا اور  آنکھیں  موند لی۔

عالمگیر جو نادر سے فون پر کچھ بات کر رہا تھا عشنا کے ایسے قریب آکر کھڑے ہونے پر وہ مبھویت سے اُسے دیکھے گیا۔

عشنا نے جب اپنے پیر اوپر کر کے اپنا چہرہ اُس کے سامنے کیا تو عالمگیر کے چہرے پر ایک دل فریب مسکراہٹ نے احاطہ کر لیا۔ وہ ذرا سا جھکا اور اپنے لب عشنا کے ماتھے پر رکھ، ہاتھ بڑھا کر اُسے اپنے ساتھ لگا لیا۔

عشنا گلابی کرتا شلوار میں گلاب کی طرح کھلی کھلی اُس کے دل کے تارو کو چھیڑ رہی تھی۔

عالمگیر اُسے سینے سے لگائے کھڑا فون پر بات کر رہا تھا۔

عشنا اُس کے سینے پر ہاتھ رکھے کھڑی تھی۔۔

"ہاں۔۔۔۔ٹھیک ہے۔۔۔تم لے لو ایک کاپی۔۔۔ہاں۔۔۔نہیں بس مجھے لا کر دے جاؤ۔۔۔۔نہیں تھوڑا کام ہے۔"

اُس نے نادر کو کہا اور کال منقطع کر کے مراد کو کال ملائی۔

"ہاں مراد۔۔۔۔نہیں۔۔۔اوہ۔۔۔ لیکن اتنی جلدی۔۔۔ ٹھیک ہے لیکن وہ بچنی نہیں چاہیے۔۔۔ہاں۔۔۔اوکے آ جاؤ۔۔۔"

عالمگیر نے مراد سے باتیں کرتے ہوئی عشنا کی کمر سے پکڑ کر خود میں بھینچ لیا تھا ۔ 

 عشنا نے اپنے ہاتھ آہستہ سے عالمگیر کے سینے سے ہٹا کر اُس کے گرد باندھ کر اُس کی قربت کو محسوس کرنا چاہا۔

"عشنا ۔۔۔۔میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گا۔۔۔کچھ بھی نہیں۔۔۔"

عالمگیر نے کال منقطع کی اور اپنا بایاں ہاتھ بھی اُس کی کمر کے گرد لپیٹ کر اُسے پوری طرح سے اپنے حصار میں لے کر آہستہ سے کہا۔

"عالمگیر۔۔۔آپ کو یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔مجھے پتہ ہے کہ آپ کبھی مجھے کچھ نہیں ہونے دینگے۔۔۔۔۔آپ ہمیشہ مجھ سے ایسے ہی محبت کرتے رہنا۔

عالمگیر میں آپ کی قربت کی اس قدر عادی ہو گئی ہوں کہ کبھی آپ نے مجھے خود سے دور کرنے کی کوشش بھی کی نہ تو میں۔۔۔میں۔۔۔۔۔"

"شش۔۔۔۔"

عشنا جو ابھی کچھ اور بھی کہہ رہیں تھی عالمگیر نے اُس کے ہونٹوں پر انگلی رخ کر اُسے فقرہ مکمل کرنے نہیں دیا

"عشنا تم میری سانسوں میں بس چکی ہو۔۔۔۔میں تمہیں اب خواب میں بھی خود سے الگ نہیں کر سکتا۔۔۔۔تم سے دوری مجھے مار دیگی۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کی کمر کے گرد سختی بڑھاتے ہوئے کہا 

عشنا کو ایک بار پھر اپنی محبت پر رشک آیا۔

"عشنا تم صرف میری ہو۔۔۔میں تمہیں دنیا سے چھُپا کر اپنے پاس رکھ لینا چاہتا ہو۔۔۔۔جہاں صرف تم ہوگی اور میں۔۔۔۔بس اور کوئی نہیں۔۔۔"

عالمگیر جذب سے بولے جا رہا تھا۔

"میں بھی آپ کے پاس رہنا چاھتی ہیں ہمیشہ۔۔۔۔"

عشنا بھی آنکھیں بند کیے عالمگیر کے گرد اپنے ہاتھوں کے گھیرے کو تنگ کرتے اُس کی قربت میں مہکتے ہوئے بولی۔

"تو پھر جان۔۔جلدی سے آ جاؤ نہ میرے پاس ۔۔۔۔ہمیشہ کے لیے۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کے سر پر اپنے لب رکھ کر کہا 

"آپ کے پاس ہی تو ہوں۔۔۔۔"

عشنا نے کہا۔

"ایسے نہیں۔۔۔۔ایسے پاس ہو لیکن کچھ وقت بعد تم مجھے فراق دے کر چلی جاؤگی۔

میں اب اس فراق میں مبتلا نہیں ہونا چاہتا۔ میں اب وصل یار چاہتا ہوں۔۔۔میں تمہیں ہمیشہ اپنے پاس چاہتا ہوں۔۔۔" 

عالمگیر نے آہستہ سے اُسے الگ کر کی اُس کے چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں بھر کر اُس کے ماتھے سے اپنا ماتھا لگا کر سرگوشی نما آواز میں بولا۔

"عالمگیر۔۔۔۔"۔

عشنا ابھی کچھ کہہ ہی رہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی تو عالمگیر نے آہستہ سے اُس کے چہرے سے ہاتھ ہٹایا اور دروازے کی سمت بڑھ گیا۔

عشنا نے اپنا دوپٹہ ٹھیک کرتے ہوئے دروازے کی سمت دیکھا۔

"سر وہ نادر صاحب آئے تھے اور اُنہونے نے یہ آپ کو دینے کے لئے کہا ہے اور مراد صاحب آئے ہیں میں نے اُنھیں لاؤنج میں بیٹھا دیا ہے۔ "

عالمگیر کے دروازہ کھولتے ہی ملازم نے کاغذوں کا ایک پلیندہ عالمگیر کی طرف بڑھاتے ہوئے اُس مراد کے آنے کا بتایا 

"ٹھیک ہے اُنھیں چائے وغیرہ پلائیں۔۔۔۔میں آتا ہوں۔۔۔ "

عالمگیر نے ملازم کو کہا اور کمرے میں کھڑی عشنا کو دیکھا۔

"اہہہ۔۔۔۔ جدائی کی گھڑی آ گئی۔۔۔۔"

عالمگیر نے دل میں سوچا اور کمرے کے اندر آ کر اپنا کرتا اٹھا کر پہننا چاہا ۔

عشنا نے عالمگیر کو کرتا اٹھاتا دیکھا تو آگے آکر اُس کے ہاتھ سے کرتا لے لیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر بیڈ پر بیٹھا دیا۔کرتے کا بٹن کھول کر بہت احتیاط کے ساتھ اُسے کرتا پہنایا۔

عالمگیر بس اُسے دیکھے گیا۔

وہ عشنا کی دید سے اپنی پیاسی آنکھوں کو سیراب کر  لینا چاہتا تھا کیوں کہ عشنا نے تھوڑی دیر میں اپنی ٹریپ پر واپس چلے جانا تھا۔

مراد نے عالمگیر کو فون پر بتایا تھا کہ سنبل اُس کے پہنچنے سے پہلے ہی نیو یارک کے لیے فلائی کر چکی ہے۔ عالمگیر کو بہت غصّہ آیا تھا لیکن وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ پھر عالمگیر سے مراد کو آنے کا کہا تھا تا کہ وہ عشنا کو واپس اُس کی ٹریپ پر چھوڑ سکے۔ کچھ نوٹس جو عشنا کے عالمگیر کے ساتھ آنے پر مس ہوئے تھے وہ بھی عالمگیر نے نادر کے ذریعے منگوا لیا تھا جو وہ تھوڑی دیر پہلے ملازم کو دے گیا تھا اور ملازم نے اُسے کمرے میں آکر دے دیا تھا۔

عالمگیر نے کاغذوں کا وہ پولیندہ ہاتھوں میں اٹھایا اور اٹھنا چاہا۔

عشنا نے کرتا پہنا کر اُس کے اپر کے بٹن بند کیے اور اُس کا کالر ٹھیک کیا

عالمگیر عشنا کا ہاتھ تھام کر اُسے اپنے ساتھ لیے سیڑھیاں عبور کرتا لاؤنج میں آ گیا۔

مراد جو صوفے پر بیٹھا تھا اُن دونوں کو آتا دیکھ کر کھڑا ہی گیا اور عالمگیر سے مصافحہ کیا 

عالمگیر نے اُس سے ہاتھ ملایا اور اُس کے برابر صوفے پر آ بیٹھا۔

"اب کیسی طبیعت ہے بھابھی آپ کی؟"

مراد نے عشنا کو دیکھتے ہوئے اُس کی خیریت دریافت کی۔

"جی۔۔۔جی میں۔۔۔ٹھیک ہوں۔۔۔"

عشنا نے آہستہ سے کہا اور کیچن  میں آ کر چائے جو ملازم ٹرے میں لائے باہر جا تھا تھا اُس کے ساتھ چلتی پھر سے لاؤنج میں آ گئی۔

"مراد ۔۔۔۔تم عشنا کو اُس کی ٹریپ پر چھوڑ  دو ۔۔۔۔"

عالمگیر نے مراد سے کہا۔

عشنا جو ملازم کے ساتھ لاؤنج میں آ رہی تھی عالمگیر کی بات پر رک گئی ۔ملازم آگے جا کر ٹرے ٹیبل پر رکھ کر چائے سرو کرنے لگا۔

عشنا وہیں کھڑی رہی۔

"لیکن عالمگیر ۔۔۔مجھے لگتا ہے بھابھی کو ابھی ۔۔۔۔"

مراد نے کچھ کہنا چاہا لیکن عالمگیر نے اُس کی بات کاٹ دی۔

"مراد۔۔۔۔میں ٹھیک ہوں۔۔۔ میں نہیں چاہتا عشنا کو اُس کی اسٹڈیز میں میری وجہ سے کوئی نقصان ہو۔۔۔۔عشنا ۔۔۔۔عشنا اپنے مارکس کے ساتھ کمپرومائز نہیں کر سکتی اور میں بھی یہی چاہتا ہوں۔۔۔۔"

عالمگیر نے چائے کا کپ ہاتھوں میں لے کر ٹیبل پر رکھ دیا اور اُداس لحظے میں بولا۔

عشنا وہیں کھڑی عالمگیر کو دیکھنے لگیں۔

"ابھی تھوڑی دیر پہلے انھونے نے کہا تھا کہ یہ مجھے خود سے دور نہیں کرنا چاہتے اور اب۔۔۔۔اب ۔۔۔۔لیکن میں عالمگیر کو ایسے اس حالت میں چھوڑ کے نہیں جا سکتی ۔۔۔کبھی نہیں۔۔۔۔"

عشنا نے دل میں سوچا اور رخساروں پر بکھرے آنسوؤں کو ہاتھ سے صاف کرتی لاؤنج کی طرف بڑھی


"عالمگیر۔۔۔۔"

عشنا نے لاؤنج میں آ کر عالمگیر کو پکار تو عالمگیر کے ساتھ مراد بھی کھڑا ہو گیا تھا۔

"عشنا۔۔۔۔مراد ۔۔۔۔مراد تمہیں تمہاری ٹریپ پر چھوڑ دیگا اور یہ۔۔۔۔۔"

عالمگیر نے عشنا کو دیکھتے ہوئے کہا اور ساتھ ہی کاغذوں کا پلینده اُس کی طرف بڑھایا۔

عشنا بس چپ چاپ کھڑی اُسے دیکھے گئی۔

"یہ تمہارے مس ہوئے نوٹس ہیں۔۔۔تمہیں آگے کی ٹریپ پر کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔"

عالمگیر نے کاغذوں کے پلیندیے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تو عشنا نے اُسے تھام لیا اور اُس کو درمیان سے پھاڑ کر ایک طرف اچھال دیا۔

"عالمگیر ۔۔۔۔مجھے کسی ٹریپ پر نہیں جانا۔۔ "

عشنا عالمگیر کے پاس آ کر بولی۔

"لیکن عشنا ۔۔۔۔تمہارا پروجیکٹ۔۔۔اُس کے مارکس۔۔۔"

عالمگیر نے کچھ کہنا چاہا۔۔۔

"نہیں بنانا مجھے کوئی پروجیکٹ۔۔۔۔نہیں چاہیے مجھے مارکس۔۔۔"

عشنا کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں۔

"عشنا تمہیں پتہ ہے نہ کہ اس وجہ سے تمہاری اسٹڈیز  سفر ہو سکتی ہے۔۔۔؟"

عالمگیر نے اُس کی آنسوؤں سے تر آنکھیں دیکھی۔

" نہیں مطلب ہے مجھے کسی سے۔۔۔۔مجھے صرف آپ سے مطلب ہے اور آج آپ کو میری ضرورت ہے ۔۔۔۔میں اب آپ کو چھوڑ کے کہیں نہیں جاؤنگی۔۔۔سنا آپ نے۔۔۔۔میں آپ کو چھوڑ کر کہیں بھی نہیں جا رہی۔۔۔۔آپ چاہے یہ نہ چاہیں۔۔۔آپ کو مجھے برداشت کرنا پڑےگا عالمگیر۔۔۔۔میں آپ کے پاس رہوں گی ہمیشہ۔۔۔سمجھے آپ۔۔۔"

عشنا اُس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر بولی اور رخ موڈ کر سیڑھیاں عبور کرتی اُپر عالمگیر کے کمرے میں آ گئی اور دروازہ بند کر کے وہیں دروازے سے ٹیک لگائیے بیٹھتی چلی گئی۔


"عالمگیر۔۔۔۔یار مجھے جلن ہی رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔"

مراد جو کب سے چپ چاپ کھڑا اُن کی باتیں سن رہا تھا عشنا کے جاتے ہیں بولا۔

عالمگیر جو حیرت اور خوشی کے ملے ہولے تصورات کے ساتھ کھڑا عشنا کو اپنے کمرے میں جاتا دیکھ رہا تھا مراد کی بات پر چونک کر استحفامیاں نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔

"بھئی صبح مجھے بھابھی کی قسمت پر رشک آ رہا تھا تُجھے اُن کے لیے تڑپتے دیکھ کر۔ لیکن اب مجھے تیری قسمت پر رشک آ رہا ہے۔ تم دونوں ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے ہو۔۔۔۔اللہ تمہاری محبت کو نذرِ بد سے بچائے۔"

مراد نے آخری بات پر دونوں ہاتھ سے اُس کی بلائیں لے کر کان کے پاس ہاتھ لے جا کر اُنگلیاں فولڈ کی تو عالمگیر نے بے ساختہ  قہقہہ لگایا۔

مراد بھی مسکرا دیا۔

"لگتا ہے بھابھی ناراض ہو گئی ہیں۔۔۔۔تو اُنھیں منا۔۔۔۔میں چلا ڈیوٹی پر۔۔۔اور ہاں۔۔۔ویسے مجھے کہنے کی ضرورت تو نہیں کیونکہ بھابھی تیرا خیال بخوبی رکھ رہیں ہیں۔ لیکن پھر بھی اپنا دھیان رکھنا اور آفس جانے کی ضرورت نہیں۔۔۔ٹھیک؟"

مراد نے بڑوں کی طرح کہا اور مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھا دیا

عالمگیر نے مسکرا کر اُس کا ہاتھ تھاما تو مراد اُسے بائے کہتا باہر کی طرف بڑھ گیا۔ 

عالمگیر بھی مسکراتے ہوئے کمرے کا رُخ کیا جہاں اُسکی جان سے پیاری بیوی اُس سے ناراض ہو کر گئی تھی۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



عالمگیر اوپر آیا لیکن کمرے کے دروازے تک آ کر رک گیا کیونکہ دروازہ اندر سے بند تھا۔

"عشنا۔۔۔۔۔۔۔۔"

عالمگیر نے دروازہ کے پاس سے اُسے پُکارا۔۔وہ جانتا تھا عشنا دروازے کے پاس ہی بیٹھی ہے۔

عشنا نے جواب نہیں دیا ویسے ہی چہرہ گھٹنوں میں دیے بیٹھی رہی۔

"عشنا پلیز۔۔۔۔۔"

عالمگیر کی آواز سرگوشی سے کم نہ تھی۔

عشنا نے اب بھی کچھ نہیں کہا۔

"عشنا دروازہ کھولو۔۔۔۔۔۔ جان پلیز۔۔۔۔"

عالمگیر نے ایک بار پھر اُسے پُکارا۔

اب بھی جواب ندارد۔

"اہہہہ۔۔۔۔"

عالمگیر کی کراہنے کی آواز آئی۔

عشنا جو اُس کی پُکار کو نظر انداز کیے گھٹنوں میں سر دیئے بیٹھی تھی عالمگیر کی کراہ سن کر ایک جھٹکے سے اٹھی اور دروازہ کھول کر اُس کی طرف بڑھی۔

"عالم۔۔۔عالمگیر۔۔۔۔کیا ہوا آپ کو۔۔۔۔درد ہو رہا ہے آپ کو؟۔۔۔۔پلیز آئیں۔۔۔"۔

عشنا نے دروازہ کھول کر اُسکے سینے پر ہاتھ پھیر کر اُس سے پوچھنے کے ساتھ اُس کا ہاتھ پکڑ کر بیڈ تک لائی اور اُسے بیڈ پر بیٹھا دیا۔ وہ عالمگیر کے کراہنے پر اس قدر حواس باختہ ہوئی کہ اُس نے عالمگیر کے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ دیکھ ہی نہیں پائی تھی۔

عالمگیر نے جب دیکھا عشنا دروازہ کھولنے پر آمادہ نہیں تو اُس نے ہلکی سے کراہ کی آواز نکالی اور نتیجہ اُس کی سوچ کے بلکل مطابق نکلا۔

عشنا اُس کے درد پر تڑپ کر جلدی سے دروازہ کھول کر پریشانی کے عالم میں اُسے ساتھ لیے بیڈ تک آ گئی تھی۔

عالمگیر کے چہرے پر ایک دلفریب سی مسکراہٹ بکھر گئی تھی۔

"عالم۔۔۔۔عالمگیر ۔۔۔آپ کو درد ہو رہا ہے؟ آپ کی دوائیں کہاں ہیں۔۔۔میں ۔۔۔میں دیتی ہوں۔۔۔"

عشنا عالمگیر کے گال پر ہاتھ رکھ کر اُس کے درد کا پوچھتی ٹیبل پر پڑے دوائیوں کی شاپر کی طرف بڑھی۔ 

عالمگیر نے عشنا کی کلائی پکڑ کر اُسے اپنی گود میں بیٹھا لیا اور مسکراتے ہوئے اُسے دیکھے گیا کہا کچھ نہیں۔

"عالمگیر۔۔۔آپ کو درد۔۔۔"

عشنا اب بھی اُس کے درد کی وجہ سے پریشان لگ رہی تھی۔

"اب نہیں ہو رہا۔۔۔"

عالمگیر نے آہستہ سے کہا۔

"آپ کو درد۔۔۔عالمگیر پلیز بتائیں نہ درد ہو رہا ہے نہ آپ کو؟ "

عشنا نے اُس کے کندھوں پر اپنا ہاتھ پھیلا دیا آنکھوں میں اب بھی پریشانی تھی۔

"ہاں۔۔۔درد ہو رہا تھا۔۔۔لیکن اب نہیں۔۔۔۔"

عالمگیر نے مسکراتے ہوئے کہا۔

"ایسے۔۔۔۔اچانک۔۔۔۔رکیں۔۔۔میں ڈاکٹر کو فون کرتی ہوں۔۔۔"

عشنا نے اٹھتے ہوئے کہا لیکن عالمگیر نے اُس کی کمر پر ہاتھ رکھ کر اُسے اٹھنے نہیں دیا۔

"میری ڈاکٹر تو میرے پاس بیٹھی ہے۔۔۔۔"

عالمگیر نے آہستہ سے کہا۔

"عالمگیر ۔۔۔۔پلیز۔۔۔۔سچ بتائیں نہ سچ میں درد ہو رہا ہے۔۔۔؟"

عشنا، عالمگیر کے لبوں پر کھیلتی مسکراہٹ دیکھ چکی تھی لیکن اُس کے دل کو قرار نہیں ملا۔

"عشنا ۔۔۔۔درد ہو رہا تھا لیکن کندھے پر نہیں۔۔۔۔یہاں۔۔۔۔"

عالمگیر نے عشنا کا ہاتھ پکڑ کر اپنے دل پر رکھ دیا۔

"عشنا جب تم میری بات کا جواب نہیں دے رہیں تھی تب مجھے درد ہوا۔۔۔۔یہاں درد ہوا تھا۔۔۔۔"

عالمگیر نے آہستہ سے کہا۔

"آپ نے بھی تو مجھے خود سے دور بھیجنا چاہا تھا۔۔۔۔مجھے بھی تو درد ہوا تھا۔۔۔۔"

عشنا نے کہا تو عالمگیر نے اُس کے سینے پر سر رکھ دیا اور اُس کے دل کے مقام پر ایک گستاخی کر دی۔

"عالمگیر۔۔۔۔۔"

عشنا نے آنکھیں بند کر کے عالمگیر کے لمس کو محسوس کیا۔ اُس کی دھڑکنوں نے اچانک بہت تیز چلنا شروع کر دیا تھا۔

عالمگیر نے چہرہ اوپر کر کے عشنا کو دیکھا کیوں کی وہ جو اُس کے سینے پر سر رکھے ہوئے تھا اُس کی تیز چلتی دھڑکنوں کو سن چکا تھا۔

عشنا آنکھیں بند کیے اُس کے لمس میں کھوئی تھی۔

عالمگیر نے مسکرا کر اپنا سر دوبارہ اُس کے سینے پر رکھ لیا۔

عشنا نے آہستہ سے اپنا بازو پھیلا کر اُسے خود سے قریب کر لیااور اپنی ٹھوڑی عالمگیر کے سر پر رکھ دی۔ آنکھیں اُس نے اب بھی نہ کھولی تھی۔ وہ دونوں ایک دوسرے  کے لمس میں کھو گئے۔


عالمگیر یوں ہی عشنا کو ساتھ لگائے بیٹھ تھا جب دروازے پر دستک ہوئی۔

عشنا نے نظر اٹھا کر پہلے عالمگیر  اور پھر دروازے کو دیکھا

وہ آہستہ سے عالمگیر سے الگ ہوئی اور دروازے کی سمت بڑھ کر دروازہ کھول دیا۔

ملازم ہاتھ میں ناشتے کی ٹرے لیے کھڑا تھا۔

عشنا نے ٹرے  لے کر سر کے اشارے سے شکریہ کہا اور دروازہ بند کرتی کمرے میں آ گئی۔ 

ٹرے صوفے کے سامنے موجود گلاس ٹیبل پر رکھ کر عالمگیر کی طرف دیکھا جو اُسے ناشتہ لاتا دیکھ کر اُس کے پاس صوفے کی طرف آ رہا تھا۔

عالمگیر چلتا ہوا عشنا کے پاس صوفے میں اُس کے ساتھ بیٹھ گیا۔ 

عشنا نے ناشتہ پلیٹ میں نکالا اور پراٹھے کا ایک لقمہ قیمے کے ساتھ ڈوبو کر عالمگیر کی طرف بڑھایا۔

عالمگیر عشنا کو اپنی نظروں کے حصار میں لیے آہستہ سے منہ کھول کر لقمہ منہ میں رکھنے لگا۔

عشنا عالمگیر کو چھوٹے چھوٹے لقمے کھلانے لگی لیکن جب عالمگیر نے دیکھا کہ وہ صرف اُسے کھیلا رہی ہے تو عالمگیر نے پلیٹ سے پراٹھا توڑ کر اُسے کھلایا۔

"میں کھا لونگی۔۔۔۔آپ پہلے کھا لیں۔۔۔۔آپ کو میڈیسن بھی لینی ہے۔"

عشنا نے اُس کے ہاتھ سے لقمہ کھانے کے بعد کہا۔

"عنہہہہ۔۔۔۔ تم میرے ساتھ کھاؤ۔۔۔۔"

عالمگیر نے نفی میں گردن ہلا کر کہا تو عشنا نے مسکرا کر اُسے دیکھا اور اور ایک لقمہ عالمگیر کو کھلانے کے بعد ایک لقمہ خود کھانے لگی۔ 

عالمگیر چپ چاپ کھانے لگا کیونکہ اُس کے داہنے شولڈر جہاں زخم تھا وہاں درد ہونے لگا تھا۔ شاید انجکشن کے ذریعے لگائے گئے پین کیلر کا اثر زائل ہو رہا تھا۔ اُسے ہاتھ اٹھانے میں بھی دشواری محسوس ہو رہی تھی لیکن اُس نے عشنا پریشان نہ ہو جائے اس لیے چہرے پر مسکان سجائے رکھی ۔

عشنا نے پراٹھا کھلانے کے بعد عالمگیر کو جوس پلایا اور اُس کے لیے چائے بنانی چاہئے تو عالمگیر نے اُسے منع کر دیا۔

درد بڑھ رہا تھا اور اس کی آنکھیں درد کو شدّت کو برداشت کرتے سرخ ہو رہی تھی۔

"عالمگیر۔۔۔۔کیا ہوا آپکو۔۔۔۔آپکو۔۔۔آپکو درد ہو رہا ہے؟ عالمگیر بولیں نہ۔۔۔"

عشنا نے اُس کی سرخ آنکھوں کو دیکھا تو گھبرا کر اُس کے داہنے گال پر ہاتھ رکھ کر اُسے دیکھے گئی ۔

"عشنا ۔۔۔۔وہ۔۔۔وہ میری میڈیسن لے آؤ۔۔۔۔آہہہ"۔

عالمگیر اُسے میڈیسن لانے کا کہتے درد سے کراہ اٹھا۔

"ہاں۔۔۔ہاں ۔میں لاتی ہوں۔۔۔ آپ ۔۔۔آپ رکیں۔۔۔۔میں لاتی ہوں۔۔۔"۔

عشنا تقریباً بھاگتے ہوئے ٹیبل تک گئی اور میڈیسن لا کر اُس کے سامنے کیا۔عشنا کے  دوسرے ہاتھ میں پانی کا گلاس تھا۔

عالمگیر نے آہستہ سے منہ کھولا تو عشنا نے جلدی سے میڈیسن اُس کے منہ میں رکھ دی اور پانی گلاس لبوں سے لگا دیا۔

عالمگیر نے پانی سے میڈیسن نگل لی اور آنکھیں بند کر کے صوفے سے ٹیک لگا کر درد کی شدّت کو برداشت کرنے کی کوشش کی۔

عشنا پریشان سی کبھی اُس کے چہرے پر پھیلے کرب کو دیکھتی تو کبھی اُس کے زخمی کندھے کو جو اب کرتے سے ڈھکہ  ہوا تھا۔

عشنا نے آہستہ سے اُسکا دایاں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر اپنے دونوں ہاتھوں کے درمیان رکھا اور ذرا سا دباؤ ڈال کر تسلّی دینی چاہی۔

عالمگیر نے اپنی سرخ آنکھیں کھول کر اُسے دیکھا اور ہاتھ بڑھا کر اُسے اپنے ساتھ لگا لیا۔ اور پھر سے آنکھیں بند کر کے صوفے کی پشت سے ٹیک لگا لیا۔

عشنا تھوڑی دیر یوں ہی اُس کے سینے سے لگی رہی پھر دھیرے سے الگ ہونا چاہا تو عالمگیر نے اُس کی کمر کے گرد اپنے ہاتھوں کی گرفت کو سخت کر کے اُسے روک دیا۔

"عالمگیر ۔۔۔۔"

عشنا نے آہستہ سے اُسے پُکارا۔

"ہممم۔۔۔"

عالمگیر نے جواب میں صرف "ہمم" کہا۔ آنکھیں اُس کی اب بھی بند تھیں۔۔۔درد میں افاقہ اب بھی نہیں ہوا تھا لیکن شاید دوائیوں کی وجہ سے یا رات بھر جاگنے کی وجہ سے اُسکی آنکھیں بوجھل ہو رہیں تھیں۔

"عالمگیر۔۔۔۔آپ بیڈ پر چل کر ریسٹ کر لیں۔۔۔۔رات بھر کے جاگے ہیں اور پھر آپکو درد بھی ہو رہا ہے نہ۔۔۔"

عشنا نے اُسکے سینے پر سر رکھے رکھے اُس کے آرام کے خیال سے کہا۔

"چلیں نہ۔۔۔۔"

عشنا نے عالمگیر کو ایسے ہی بیٹھے دیکھا تو پھر سے بولی۔

"ہاں چلو۔۔۔۔"

عالمگیر نے آہستہ اپنی گرفت اُس کی کمر پے ڈھیلی کی اور کھڑا ہو کر عشنا کے ساتھ بیڈ تک آیااور لیٹ کر عشنا کو دیکھا۔

عشنا ایسے ہی کھڑی رہی۔

"عشنا۔۔۔تم بھی رات بھر نہیں سوئی۔۔۔تم بھی سو جاؤ۔۔۔۔"

عالمگیر نے عشنا کو دیکھتے ہوئے فکر مندانہ انداز میں کہا۔

"ہاں آپ سو جائیں۔میں تھوڑی دیر میں سو جاؤنگی۔"

عشنا بیڈ پر بیٹھ کر ہاتھوں سے اُس کے بکھرے بال ٹھیک کرتے ہوئے بولی۔

"بعد میں نہیں ۔۔۔۔ابھی۔۔۔۔"

عالمگیر نے اپنا بایاں ہاتھ تکیے پر پھیلا کر کہا 

"عالم۔۔۔۔عالمگیر آپ سو جائیں نہ۔۔۔میں میں بعد میں صوفے پر ۔۔۔۔"

عشنا ۔۔۔۔۔تم ۔۔۔"

عالمگیر کی بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ دروازہ ایک بار پھر بجا۔

عالمگیر اٹھ کر بیٹھ گیا۔

عشنا نے ایک نظر اُسے دیکھا اور دروازے کی سمت بڑھ گئی۔

عشنا نے دروازہ کھولا تو ملازم سامنے کھڑا تھا۔ اُس نے دروازے سے ہٹ کر راستہ دیا تو ملازم اندر آ کر برتن سمیٹ کر لے گیا۔

عشنا نے دروازہ بند کیا اور چلتی ہوئی عالمگیر کے پاس آئی جو اب بیڈ پر بیٹھا اُسے دیکھ رہا تھا۔

"آپ۔۔۔آپ سو جائیں۔۔۔۔"

عشنا نے اُسے بیٹھا دیکھ کر کہا۔

"مجھے نیند نہیں آ رہی۔۔۔۔۔۔"

عالمگیر نے کہہ کر رخ پھیر لیا۔

عشنا چلتی ہوئی بیڈ  کے سرہانے تک آئی اور عالمگیر کے پاس بیٹھ کر اُس کے گال پر ہاتھ رکھ کر اُس کا چہرہ اپنی طرف موڑا۔۔۔

"عالمگیر۔۔۔۔آپ کو ریسٹ کی ضرورت ہے۔۔۔۔آپ سو جائیں۔۔۔۔پلیز۔۔۔"

عشنا نے التجایا لحظے میں کہا 

عالمگیر نے نیند میں ڈوبی آنکھوں سے اُسے دیکھا اور اُسے کندھوں سے پکڑ کر اپنے حصار میں لیتا بیڈ پر لیٹ گیا اور آنکھیں موند لی۔

عالمگیر کی گرفت اُس کی کمر پر اس قدر سخت تھی کہ وہ مزاحمت نہیں کر سکی۔

کچھ دیر بعد جب عشنا کو لگا کے عالمگیر سو چکا ہے تو اس نے عالمگیر سے الگ ہونا چاہا لیکن عالمگیر کی گرفت نیند میں بھی اتنی سخت تھی کہ عشنا اُس کی گرفت سے آزاد نہ ہو سکی۔

شاید عالمگیر نیند میں بھی اُسے خود سے دور نہیں کرنا چاہتا تھا۔

اُس نے جب دیکھا کہ وہ اب عالمگیر کی گرفت سے نہیں نکل سکتی تو اُس نے بھی عالمگیر کی پیٹھ پر اپنا بایاں ہاتھ پھیلا کر اُس کے قریب ہو گئی۔

عالمگیر کروٹ کے بل اپنا دایاں کندھا جہاں زخم لگا تھا اوپر کر کے عشنا کو اپنی باہوں میں لیے سو رہا تھا۔

عشنا نے عالمگیر کے چہرے کو دیکھا جہاں سکون ہی سکون تھا۔ اُس نے گردن ذرا سی اونچی کر کے اس کی آنکھوں کو اپنے لبوں سے چھوا۔ اور پھر اُس کے رخسار پر اپنے لب رکھ دیئے۔

عالمگیر کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی۔ عشنا نے اُسے مسکراتا دیکھا تو اپنا چہرہ پیچھے کر کے اُسے دیکھا۔عالمگیر کی بھاری سانسیں اُس کی نیند میں ہونے کی گواہی دے رہے تھے۔ عشنا نے حیران ہو کر اُس دیکھا جو اُس کے لمس کو گہری نیند میں بھی پہچان سکتا تھا۔

شاید اسے ہی سچی محبت کہتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عشنا کی آنکھ کھُلی تو اُس نے سامنے دیوار پر لگی گھڑی میں وقت دیکھا جہاں شام کے 4 بج رہے تھے۔ پھر اُس نے ایک نظر عالمگیر کو دیکھا جو اُسکے گرد بازو لپیٹے بےخبر سو رہا تھا۔ 

عشنا بس اُسے دیکھے گئی ۔

کچھ دیر اُسے دیکھنے رہنے کے بعد عشنا نے عالمگیر کے ہاتھ اپنی کمر سے ہٹانے چاہے۔

"عشنا ۔۔۔۔یار لیٹی رہو نا۔۔۔۔ کیا پریشانی ہے۔۔۔۔"

عشنا جو اُس کے ہاتھ اپنی کمر سے ہٹانا چاہتی تھی عالمگیر کی آواز پر چونکی۔ اُس کی نیند میں ڈوبی ہوئی آواز آئی اور  ساتھ ہی اُس  نے عشنا کے گرد بازوں کا گھیرا تنگ کرتے اُسے اور قریب کر لیا تھا۔

"عالمگیر۔۔۔۔آپ۔۔۔۔آپ جاگ رہے ہیں۔۔۔۔"

عشنا نے اُس کی بند آنکھوں کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"نہیں۔۔۔۔تم نے جگا دیا۔۔۔۔"

عالمگیر نے آنکھیں ہنوز بند رکھی۔

"میں نے۔۔۔۔میں نے کب جگایا آپ کو۔۔۔؟" 

عشنا نے حیرت سے پوچھا۔

"جب تم نے مجھ سے دور جانے کی کوشش کی تھی۔۔ "

عالمگیر نے اپنی آنکھیں کھول کر عشنا کو دیکھتے ہوئے کہا 

"میں تو۔۔۔آپ ۔۔۔آپ سو جائیں۔۔۔"

عشنا،عالمگیر کی آنکھوں میں اب بھی نیند کی رمق  دیکھ سکتی تھی۔

"نہیں۔۔۔۔بہت سو گیا یار۔۔۔۔"

عالمگیر نے کہا اور اُس کے ماتھے پر لب رکھ کر اُس سے الگ ہوتے ہوئے بیڈ پر بیٹھ کر گھڑی دیکھی ۔

عشنا عالمگیر کی گرفت ڈھیلی پڑتے ہی اٹھ بیٹھی اور اپنا دوپٹہ جو تھوڑا بیڈ پر اور تھوڑا عالمگیر کے کندھے پر تھا لینا چاہا۔

 عالمگیر نے دوپٹے کا کونا پکڑ لیا۔

عشنا جو بیڈ پر پڑا دوپٹہ اٹھا رہی تھی اُس پر کھنچاؤ محسوس کر کے اس نے دوپٹے کا سرا جو عالمگیر کے ہاتھ میں تھا اُسے دیکھا۔

عالمگیر کی خمار آلود آنکھوں سے شرارت چھلک رہی تھی۔

وہ لبوں پر شرارتی مسکان سجائے اُسے دیکھ رہا تھا۔ 

"عالمگیر۔۔۔۔۔دوپٹہ چھوڑیں میرا۔۔۔۔"

عشنا نے اُس کی آنکھوں میں شرارت دیکھتے ہوئے دوپٹہ لینا چاہا۔

 عالمگیر کو عشنا کی شرم اور  جھجھک  شرارت پر اکسا رہی تھی۔

عشنا نظریں نیچے کیے بیٹھی تھی۔ آج تک عالمگیر نے اُسے کبھی بھی دوپٹے کے بنا نہیں دیکھا تھا۔ ہمیشہ وہ دوپٹے کو اچھی طرح خود پر لپیٹ کر سر پر جمائے رکھتی تھی۔ اور آج اس طرح۔۔۔اُسے شرم سے نظریں اٹھانا محال لگ رہا تھا۔

عالمگیر کی بے باکیاں اُسے شرمانے پر مجبور کر رہی تھیں۔

"دوپٹہ چاہیے؟"

عالمگیر نے اُسی طرح مسکرا کر پوچھا۔

"عالم۔۔۔۔عالمگیر پلیز۔۔۔ "

اُس نے نظریں نیچے کیے ہوئے کہا۔

عالمگیر اُس کے اپنے درمیان کے فاصلے کو مٹاتا اُس کے قریب آ کر بیٹھا۔

"دوپٹہ چاہیے تو میری ایک شرط ہے۔۔۔۔"

عالمگیر جھٹ اُس کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا۔ دوپٹہ اب پوری طرح اُس کے قبضے میں تھا۔ وہ عشنا کے جھکے چہرے پر پھیلے حیا کے رنگ کو بخوبی دیکھ سکتا تھا۔

"شرط۔۔۔کیسی شرط۔۔۔"

عشنا نے اُسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"پہلے بولو منظور؟"

عالمگیر نے بات منوانے والے انداز میں کہا۔

"لیکن شرط کیا ہے۔۔۔؟"

عشنا نے شرط جاننی چاہی۔

"ابھی نہیں ۔۔۔بعد میں۔۔۔ابھی صرف منظور ہے یہ نہیں ہے بتاؤ۔۔۔"

عالمگیر شرط بتانے سے انکاری تھا۔ 

"ٹھیک ہے۔۔۔مجھے سب منظور ہے۔۔۔۔'

عشنا نے آہستہ سے کہا ابھی اُسے صرف اپنا دوپٹہ چاہیے تھا جس کے لیے عالمگیر کی شرط ماننا مقصود تھا۔

 عالمگیر نے ہاتھو میں تھاما دوپٹہ اُسے تھاما دیا اور اٹھ کر بیٹھ گیا۔

"عشنا ۔۔۔۔"

عشنا جو دوپٹہ ملتے ہی اُسے ٹھیک سے اوڑھتی بیڈ سے اترنے ہی لگی تھی عالمگیر کے پکارنے پر رک کر اُسے دیکھا۔

"جی"

عشنا نے نظر اٹھا کر دیکھا۔

"وہ۔۔۔مجھے پیاس لگی ہے۔۔۔"

عالمگیر نے بائیں ہاتھ سے سر کھجاتے ہوئے کہا۔

"جی۔۔۔میں ابھی پانی لاتی ہوں۔۔۔"

عشنا جلدی سے بیڈ سے اٹھ کر ٹیبل کی طرف بڑھی جہاں جگ میں پانی اور ساتھ ہی گلاس بھی رکھا ہوا تھا۔

"جان۔۔۔۔پانی کی پیاس نہیں لگی۔۔۔"

عالمگیر نے عشنا کو اٹھتے دیکھا تو اُس کا ہاتھ تھام کر ایک جھٹکے سے اُسے بیڈ پر گرا دیا اور خود اُس کے اپر جھک کر اپنے ایک ہاتھ کے انگوٹھے سے اُس کے لبوں کو چھوتے ہوئے کہا۔

عشنا نے آنکھیں بڑی کر کے اُسے دیکھا۔ 

"عالم۔۔۔۔ "

عشنا نے کچھ کہنا چاہا لیکن اُس کے لفظ منہ میں ہی رہ گئے کیونکہ عالمگیر نے اُس کے لبوں پر اپنے لب رکھ کر اُس کی بات کو مکمّل ہونے سے روک دیا تھا۔

عشنا عالمگیر کے کرتے کے کلر کو ہاتھوں کی مٹھیوں میں دبوچے اُس کی شدتیں برداشت کرنے لگی۔

عالمگیر کے انداز میں اس قدر شدّت تھی عشنا کو اپنی سانسیں رکھتی ہوئی محسوس ہوئی۔ عالمگیر اُس کی سانسوں میں اپنی سانسیں منتقل کرتا اُس کے سحر میں جکڑ ہوا تھا۔

عشنا بھی کسی بھی مزاحمت کے بغیر اُس کی قربت کی خوشبوؤں میں نہا رہی تھی۔

تھوڑی دیر بعد جب عالمگیر نے مکمّل خود کو سیراب کر لیا تو آہستہ سے عشنا سے الگ ہوا اور اُس کے چہرے کو دیکھا جو آنکھیں بند کیے اُس کے کرتے کے کالر کو تھامے لمبی لمبی سانسیں لے رہی تھی۔

عالمگیر نے جھک کر اُس کی آنکھوں کو باری باری اپنے لب سے چھوتے اُس کے ماتھے پر اپنے لب رکھ دیئے۔

عشنا آنکھیں بند کیے عالمگیر کی محبتوں کی بارش بھیگ رہی تھی۔

"عشنا۔۔۔۔"

عالمگیر نے سرگوشی نما آواز میں پُکارا تو عشنا نے آہستہ سے آنکھیں کھول کر دیکھا جو محبت پاش نظروں سے اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔

عشنا آنکھوں میں سوال لیے اُسے دیکھے گئی۔

"عشنا۔۔۔ میں تم سے بہت محبت کرتا ہو۔۔۔کیا تم ۔۔۔۔"

عالمگیر کچھ کہتے کہتے رکا۔

"عالمگیر۔۔۔۔"

عشنا نے اُس کے کالر سے ہاتھ ہٹا کر عالمگیر کے ہاتھوں کے بیچ سے اُس کے پیٹھ پر ہاتھوں کی گرفت بناتے اُسے خود سے قریب تر کر لیا۔

عالمگیر اُس کی اس ادا پر جان دل سے فدا ہوتے اُس کے گردن پر جھکا اور ایک جسارت کر دی۔ 

عالمگیر ابھی اُس کی خوشبو میں کھویا ہوا تھے تب ہی اُس کا فون بجا اور ساتھ ہی عشنا جو عالمگیر کے اپنی گردن پر جھکنے پر گُدگُدی محسوس کرتے ہوئے اپنی ہنسی کو روکے ہوئے تھی موبائل کے بجنے پر زور سے ہنس پڑی۔

عالمگیر جو موبائل بجنے کا کوئی نوٹس نہ لیتا ہوا عشنا پر اپنی محبتیں لوٹانے کا ارادہ رکھتا تھا عشنا کی ہنسی سن کر اُس نے گردن زار اونچی کر کے اُسے دیکھا اور اُسے ہنستا ہوا دیکھ کر ایک جھٹکے سے اُس سے الگ ہوا اور بیڈ پر پڑا موبائل جو ایک بار بج بج کے بند ہو گیا تھا اور اب دوبارہ بجنے لگا تھا اُسے اٹھا کر کمرے کی کھڑکی تک آیا اور کال آن کر کے بات کرنے لگا۔

عشنا عالمگیر کے اس طرح سے الگ ہونے پر تھوڑی حیران تو ہوئی تھی لیکن "شاید کوئی ضروری فون ہوگا " یہ سوچ کر بیڈ سے اٹھی اور دوپٹہ ٹھیک کرتی واشروم میں چلی گئی۔

"ہاں نادر بولو۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔ہاں آج طبیعت نہیں ٹھیک تھی۔۔۔۔نہیں ایسی بات نہیں ہے۔۔۔۔اوہ۔۔۔۔ٹھیک ہے میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔۔۔۔"

عالمگیر نے بایاں ہاتھ  ذرا اونچا کر کے گھڑی دیکھی اور نادر کو کچھ دیر میں آتا ہوں کہہ کر کال منقطع کرتا اب کسی اور کو فون کر رہا تھا۔

عشنا واشروم سے باہر آئی تو عالمگیر کو فون پر بات کرتے ہوئے دیکھا۔وہ چلتی ہوئی عالمگیر کے پاس آ گئی۔

عالمگیر نے اُسے اپنے پاس دیکھا اور ایک نظر اُس پر ڈال کر رخ موڈ کر بات کو جاری رکھی۔

عشنا نے پریشانی سے اُسے دیکھا۔

عالمگیر اپنی بات ختم کرتا الماری کی طرف بڑھا اور اپنے کپڑے لیتا واشروم میں بند ہو گیا۔

"انہیں کیا ہوا۔۔۔۔کہیں ناراض۔۔۔لیکن۔۔۔۔"

عشنا ے سوچ ہی رہی تھی کے اُس کا فون رنگ کرنے لگا۔

عشنا نے آگے بڑھ کر فون اٹھایا تو دیکھا کرن کی کال آ رہی تھی۔ اُس نے کال آن کر کے کان سے لگا لیا۔

"ہاں بولو کرن۔۔۔۔"

عشنا نے فون ریسیو کرتے ہوتے کہا 

"کہاں ہو تم۔۔۔؟ اور آئیں کیوں نہیں۔۔۔۔عالمگیر بھائی نے کہا تھےوہ تمہیں اسلام آباد میں ہمارے پاس چھوڑ جائینگے۔۔۔۔لیکن اب تو شام بھی ہو گئی۔۔۔"

کرن نے اُس سے ڈھیر سارے سوال پوچھے۔

"ہاں۔۔۔دراصل کچھ پروبلم ہو گئی تھی۔۔۔۔میں نہیں آ سکتی۔۔۔۔",

عشنا نے اصل بات بتانے سے اجتناب کیا۔

"کیا ہوا عشنا۔۔۔سب ٹھیک ہے؟"

کرن نے پریشانی سے پوچھا۔

"ہاں ٹھیک ہے۔۔۔بس تھوڑی پروبلم ہو گئی تھی۔۔۔۔لیکن اب سب ٹھیک ہے۔۔۔"۔

عشنا نے اُسے تسلّی دیتے ہوئے کہا۔

"ٹھیک ہے اگر تم ٹریپ پر واپس نہیں آ رہی تو تمہارا بیگ میں کراچی سے ساتھ ہی لائی ہوں۔۔۔تم ڈرائیور کو بھیج کے منگوا لو۔۔۔"

کرن نے اُس کے بیگ کا کہا۔

"ٹھیک ہے میں آج ہی بھیج دیتی ہوں۔۔۔۔"

عشنا نے کہہ کر کال منقطع کی تو دیکھا عالمگیر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا بال بنا رہا ہے اور پھر گھڑی پہن کر اپنا کوٹ ہاتھوں میں لے کر دروازے کی طرف بڑھا۔

"عالمگیر۔۔۔۔کہاں جا رہے ہیں آپ۔۔۔"

عشنا نے اُسے دروازے کی سمت جاتے ہوئے دیکھا تو پوچھ بیٹھی۔

"مجھے کچھ کام سے آفس جانا ہے۔۔۔رات تک آ جاؤنگا۔۔۔تم میرا انتظار مت کرنا۔۔۔"

عالمگیر نے بنا موڑے کہا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔

عشنا نے اُس کی پشت کو دیکھا جہاں شرٹ پر خون کے کے کچھ دھبّے نمایاں تھے۔ شاید کپڑے چینج کرنے کے عمل کے دوارن اُس کے زخم سے خون ریس کر اُس کی شرٹ کو خون کی بوندوں سے نم کر گیا تھا۔

"عالمگیر ۔۔۔۔"

عشنا اُسکے پیچھے بھاگی لیکن عالمگیر کار کو گیٹ سے باہر نکال لے گیا تھا۔

عشنا وہیں کھڑی اُسے جاتا ہوا دیکھتی  رہی۔

عالمگیر نے بیک ویؤ مرر سے عشنا کو دیکھا تھا لیکن  کار آگے بڑھا لے گیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عشنا پریشان سی یہاں وہاں ٹہل رہی تھی۔ رات کے 11 بج رہے تھے اور عالمگیر ابھی تک نہیں آیا تھا۔

اُسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ عالمگیر کو اچانک ہوا کیا۔۔۔۔

وہ دونوں کتنے خوش تھے پھر اچانک۔۔۔۔اچانک ایسا کیا ہوا۔۔۔؟

وہ مسلسل ٹہلتے ہوئے عالمگیر کو سوچے جا رہی تھی۔

 لیکن وہ عالمگیر کے برتاؤ کی وجہ جاننے سے قاصر تھی۔

ڈرائیور شام کو ہی کرن سے اُسکا بیگ لے آیا تھا۔جو ایک طرف پڑا تھا ۔ عشنا عالمگیر کے بدلے ہوئے رویہ کی وجہ سوچ سوچ کر  پاگل ہو رہی تھی۔

وہ بار عالمگیر کو کال کرتی لیکن بے سود ۔۔۔اُس کا نمبر بند جا رہا تھا۔

عشنا رات بھر وقفے  وقفے سے اُسے فون کرتی رہی لیکن وہ نہیں آیا۔ 

ساری رات کمرے میں چکر کاٹتے کاٹتے عشنا کی ٹانگیں شل ہو گئیں تھی لیکن اُسے پرواہ ہی نہیں تھی۔ وہ بس عالمگیر کہا ہیں۔۔۔وہ آئے کیوں نہیں۔۔۔انکا فون کیوں بند ہی یہی سوچ سوچ کر پریشان ہو رہی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عالمگیر آفس میں آ کر اُس کی میٹنگ اٹینڈ کرنے کانفرس روم کو طرف آ گیا۔ کوٹ اُس نے پہن رکھا تھا تاکہ اُس کی شرٹ پر پڑے خون کے نشان کسی کو نظر نہ آجائے ورنہ جس طرح سے اُسے شرٹ پہننے میں دشواری ہوئی تھی اور زخم سے خون رسنے لگا تھا اُسی طرح کوٹ پہنتے بھی اُسے دشواری کا سامنے کرنا پڑا تھا اور اُس کے زخم سے ایک بار پھر خون رسنے لگا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عالمگیر میٹنگ ختم کر کے کانفرس روم سے باہر آیا تو اُس کا کوٹ بھی خون آلود ہو چکا تھا۔ نادر نے اُس کے کوٹ پر خون کے نشان دیکھے تو اُس کی طرف بڑھا۔

"سر۔۔۔۔سر۔۔۔آپ کے شولڈر پر خون۔۔۔۔"

نادر جو پریشانی سے اُس کے دائیں کندھے کو دیکھے جا رہا تھا اُس سے خون کا بتانے لگا۔

"ہاں۔۔۔تھوڑا زخم ہو گیا ہے۔"

عالمگیر نے آنکھیں بند کر کے درد کو برداشت کرنے کی کوشش کی تھی

"سر تھوڑا نہیں کافی زخم ہی گیا ہے۔آپ پلیز آئیں میرے ساتھ۔۔۔۔"

نادر نے فکرمندنہ لحظے میں کہتے اُسے ساتھ لے جانا چاہا۔

"نادر مجھے گھر پہنچنا ہے۔۔۔تم جاؤ۔۔۔"

عالمگیر عشنا سے ناراض ضرور ہو کر آیا تھا لیکن وہ بس وقتي غصّہ تھا۔

عالمگیر کو اپنے قریب آنے پر عشنا کہ ہنسنا غصّہ دیلا گیا تھا اور وہ نادر کو میٹنگ میں آنے کا کہہ کر تیار ہو کر آفس چلا آیا تھا۔

لیکن اب وہ عشنا جلد سے جلد عشنا میں پاس پہنچنا چاہتا تھا۔ وہ خود کو زیادہ دیر عشنا سے ناراض نہیں رکھ پایا تھا۔

"سر۔۔۔۔آپ کے زخم سے کافی خون ریس رہا ہے۔۔۔آپ میرے ساتھ ہسپتال چلیں  پہلے۔۔"

نادر نے اُسے اپنے ساتھ ہسپتال لے جانا چاہئے کیونکہ اب عالمگیر کا کوٹ خون خون ہو رہا تھا 

"نادر میں نہیں جا سکتا۔۔۔۔میں بعد میں ڈاکٹر میں پاس چلا جاؤنگا۔۔۔آہ۔۔۔۔"

عالمگیر نادر کو ٹالنے کے کوش کر رہا تھا ساتھ ہی درد سے اُس کی کراہ نکل گئ

"سر۔۔۔۔سر آپکی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔۔۔پلیز آئیں میرے ساتھ۔۔۔۔پلیز۔۔۔۔"

نادر نے التزیا لحظے میں کہا تو عالمگیر بھی اُس کے ساتھ چل پڑا کیونکہ ددرد بڑھتا ہی جا رہا تھا۔

عالمگیر نادر کے ساتھ ہسپتال پہنچا تو ڈاکٹر نے اُس کے زخم کا معائنہ کرنے کے بعد زخم پر پٹی لگائی اور ایک انجکشن لگا دیا۔ جس میں پین کیلر کے ساتھ نیند کی بھی دوا شامل تھی۔

عالمگیر کے کندھے کا زخم بری طرح سے خراب ہو چکا تھا اور اُسے ریسٹ کرنے کی سخت ضرورت تھی لیکن اُس کی بے آرامی اور دائیں ہاتھ کو بار بار حرکت دینے کی وجہ سے اُس کے زخم سے بار بار خون ریس رہا تھا۔عالمگیر تھوڑی ہی دیر میں نیند کی کی وادیوں میں اتر گیا۔

اُس نے عشنا کو فون کر کے اپنے ہسپتال جانے کا بتانا چاہا تھا لیکن اُس کے موبائل کی بیٹری ختم ہو گئی تھی۔

نادر کو ڈاکٹر نے عالمگیر کے زخم اور اُس کی بے احتیاطی کی وجہ سے اُس کے نتائز سے با خبر کر دیا تھا جو نادر کو بھی پرشن کر گیا تھا۔ وہ عالمگیر کو بیڈ پر لیٹا دیکھتا ہوا اُس کی چادر ٹھیک کر کے سامنے پڑی چیئر پر بیٹھ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عالمگیر کی آنکھ کھُلی تو دیکھا نرس  گلوکوز کی سوئی اُس کے ہاتھ میں پیوست کر رہی ہے۔

نادر سامنے چیئر پر بیٹھا فکر مندی سے اُسے دیکھ رہا تھا۔

عالمگیر نے کمرے پر نظر دوڑائی تو اُسے چاروں طرف سفید دیواریں نظر آئی ۔ چند سیکنڈ لگے تھے اُس کے ذہین کو پوری طرح بیدار ہونے میں۔

"نادر ۔۔۔رات بہت ہو گئی ہے۔مجھے گھر جانا ہے۔"

عالمگیر نے خود کو ہسپتال کے کمرے میں دیکھا تو اُسے عشنا کا خیال آیا اور ساتھ یہ بھی کہ عشنا اُس کے لیے کی قدر پریشان ہو رہی ہوگی۔

"سر آپ کو ابھی تھوڑی دیر اور رکنا ہوگا یہاں۔۔۔آپکا زخم کافی خراب ہو گیا ہے۔"

نادر نے اُسے ہوش میں آتا دیکھا تو چیئر پر سے کھڑا ہو گیا۔

"نادر میں نے کہا مجھے گھر جانا ہے۔۔۔رات بہت ہو گئی ہے۔۔۔وہ میرا انتظار کر رہی ہوگی۔"

عالمگیر نے ضدی لحظے میں کہا اور ساتھ ہاتھ میں لگی ڈریپ بھی نوچ دی۔

"سر ۔۔۔پلیز۔۔۔۔"

نادر نے اُسے ڈریپ نوچتے دیکھا تو اُس کی طرف بڑھا۔

"Naadir...... I said I need to go ...."

(نادر میں نے کہا مجھے جانا ہے)

اس بار عالمگیر نے غصے سے کہا۔

"سر اب تو صبح ہو چکی ہے۔۔۔پلیز یہ ڈرپ پوری ہو جانے دیں۔۔۔"

نادر نے پھر اُسے روکنا چاہا۔

"صبح۔۔۔۔کیا کہا؟ صبح ہو گئی؟"

عالمگیر حیرت میں گھیرا بیڈ سے اٹھا اور کھڑکی سے آتی روشنی کو دیکھا جو کمرے کو منوّر کر رہی تھی۔

عالمگیر جلدی سے دروازے کی طرف بڑھا اور ہسپتال سے نکل کر اپنی کار تک آیا اور کار میں بیٹھ کر گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔

نادر نے اُسے بہت روکنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ نہیں رکا تھا۔

نادر ہسپتال کی فورملیٹیس پوری کرنے لگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عشنا صبح تک عالمگیر کو کال کرتی رہی تھی لیکن اس کیا فون ھنوز بند جا رہا تھا۔

اُس نے عالمگیر کے آفس میں فون کیا تو پتہ چلا کہ وہ کل رات نادر کے ساتھ آفس سے نکلا تھا اور ابھی تک وہ لوگ واپس نہیں آئے۔

عشنا کی پریشانی میں اضافہ ہوتا گیا۔

وہ پریشانی میں کبھی پورچ تک آتی تو کبھی واپس کمرے میں جا کر عالمگیر کو فون کرنے لگتی۔

عشنا کا فون بجا تو وہ جلدی سے فون کی طرف بڑھی۔ لیکن وہاں ہارون صاحب کی کال دیکھ کر اُس نے پریشانی میں گھیرے فون اٹھایا۔

"ہیلو۔۔۔السلام علیکم چاچو۔۔۔"

عشنا نے فون اٹھا کر سلام کیا۔

"وعلیکم السلام بیٹا۔۔۔عشنا تم کہاں ہو؟"

ہارون صاحب نے سلام کا جواب دینے کے بعد اُس سے پوچھا۔

"میں۔۔۔چاچو میں۔۔۔وہ۔۔۔"

عشنا کو سمجھ نہیں آیا کہ اُنھیں بتا دے کہ وہ عالمگیر کے گھر پر ہے یہ نہیں۔۔۔کیونکہ ابراہیم صاحب نے اُسے منع کیا تھا ہارون صاحب کو عالمگیر اور اُس کے رشتے کے بارے میں بتانے کے لیے۔

"تم ٹریپ پر جس ہوٹل میں رکی ہی وہاں کا ایڈریس بتاؤ۔۔۔ابراہیم بھائی کی طبیعت خراب ہے۔۔۔میں تمہیں لینے آ رہا ہوں۔۔۔"

ہارون صاحب نے اُسے فون کرنے کی وجہ بتائی۔

"کیا ہوا ابّو کو۔۔۔"

عشنا نے پریشانی سے پوچھا۔

"وہ شاپ پر بیہوش ہو گئے تھے۔ میں اسلام آباد آیا تھا کام سے تو اُس نے کہا تھے ساتھ لے آؤں۔۔۔۔تم تیار ہو جاؤ میں آتا ہوں ۔۔۔تمہارے استاد سے میں بات کر لونگا۔"

ہارون صاحب سے بتایا تو عشنا عالمگیر کے بارے میں سوچ کے اور پریشان ہو گئی۔ وہ الالمگر کو چھوڑ کے ایسے۔۔۔۔لیکن ابّو کو بھی تو اس کی ضرورت تھی۔۔۔لیکن میں عالمگیر کو بنا بتاۓ ۔۔۔کیسے۔۔۔۔"

عشنا فون ہاتھوں میں پکڑے سوچے جا رہی تھی جب ہارون صاحب کی آواز دور سے فون میں سے ابھری۔

"عشنا۔۔۔تم سن رہی ہو نہ۔۔۔"

"ہاں۔۔۔میں ۔۔۔میں آپ کو ہوٹل کی ڈیٹیل ٹیکسٹ کر دیتی ہوں۔۔۔"

عشنا نے کہا اور کال منقطع کر دی 

وہ اب عالمگیر کے لیے پریشان ہو رہی تھی جو کل شام کا گیا اب تک نہیں آیا تھا اور نہ ہی اُس کا فون لگ رہا تھا۔

عشنا ہارون صاحب کو بھی منع نہیں کر پائی تھی کیونکہ ایک تو وہ ابّو کے لیے پریشان ہو گئی تھی دوسرے وہ ہارون صاحب کو  بھی اپنے اور عالمگیر کے بارے میں نہیں بتا سکتی تھی۔

عشنا نے اسٹڈی ٹیبل پر پڑی بک اٹھا کر اُس پر عالمگیر کے لیے چند سطر لکھے جیسے لکھتے اُس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی بہہ رہی تھی۔

عشنا نے خط لکھنے کے بعد پیج بک سے پھاڑ کر ٹیبل پر رکھ دیا اور کمرے پر ایک نظر ڈالی۔ اس کمرے میں عشنا عالمگیر سجّاد نے زندگی کے سب سے خوبصورت لمحے اپنے سب سے خوبصورت رشتے کے ساتھ گزارے تھے۔

وہ آنکھوں میں آنسو لیے کمرے پر ایک الوداعی نظر ڈال کر اپنا بیگ تھام کر پورچ آئی اور ڈرائیور کو ہوٹل کا ایڈریس بتا کر ہوٹل چلنے کا کہا جہاں ہارون صاحب اُس کا انتظار کر رہے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عالمگیر تیزی سے کار کو گیٹ کے اندر لاتا بھاگتا ہوا گھر کے اندر آیا تھا۔

عالمگیر عشنا کے لیے پریشان پریشان سا کمرے میں آیا لیکن کمرے میں اُسے نہ پاکر وہ واشروم کی طرف بڑھا لیکن وہ نہیں تھی۔ عالمگیر پورے گھر میں پاگلوں کی طرح اُسے ڈھونڈھ رہا تھا لیکن عشنا کہیں نہیں تھی۔۔۔۔کہیں بھی نہیں۔


عالمگیر کو لگا اس کا دل بھی اس گھر کی طرح خالی ہو گیا


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عالمگیر پھر سے کمرے میں آیا اور عشنا کو کال کرنی چاہا۔ اُس نے اپنا موبائل جیب سے نکال جو آف پڑا تھا۔

وہ موبائل چارج پر لگاتا لینڈ لائن کی طرف بڑھا۔

عشنا کے فون پر رنگ جا رہی تھی لیکن فون ریسیو نہیں کیا جا رہا تھا۔

عالمگیر لاؤنج میں کھڑا فون ہاتھوں میں تھامے مسلسل اُسے فون کیے جا رہا تھا لیکن بے سود۔

عالمگیر نے پورچ میں دیکھا جہاں ڈرائیور کار اندر لا رہا تھا۔

عالمگیر بھاگتا ہوا پورچ تک آیا اور کار کے اندر جھانکا لیکن کار خالی تھی۔

ایک پل کو تو اُسے لگا کے شاید عشنا کہیں باہر گئی تھی اور اب واپس آ گئی ہے لیکن وہ ننھی سے اُمید کی کرن بھی کار کو خالی دیکھ کار بُجھ چکی تھی۔

"کہاں گئے تھے کار لے کر؟"

عالمگیر نے ڈرائیور کے پاس آ کر پوچھا۔

"سر عشنا میم کو ہوٹل چھوڑنے گیا تھا۔"

ڈرائیور نے مؤديب آواز میں بتایا۔

"ہوٹل؟ کہاں چھوڑ کر آئے ہو تم عشنا کو؟ اور کس کے کہنے پر ؟"

عالمگیر غصے سے اُس کی طرف لپکا۔

"سر عشنا میم نے ہی کہا تھا۔ اُنکی کالج ٹریپ جس ہوٹل میں تھی وہیں۔۔۔"

ڈرائیور نے ڈرتے ڈرتے کہا۔

"ٹریپ؟ تو کیا عشنا ٹریپ پر واپس چلی گئی؟ لیکن وہ تو۔۔۔۔"

عالمگیر نے دل میں سوچا اور گھر کے اندر جانے لگا۔

"سر۔۔۔۔۔"

نادر جو ابھی ابھی آیا تھا عالمگیر کو پورچ میں دیکھ کر وہیں سے پُکارا۔

عالمگیر نے مڑ کر اُسے دیکھا جو ہاتھوں میں دوائیوں کا شاپر لیے کھڑا تھا

"آؤ اندر چل کر بات کرتے ہیں۔۔۔"

عالمگیر نے تھکے تھکے انداز میں نادر کو اندر چلنے کا کہا۔

نادر عالمگیر کے پیچھے لاؤنج میں آیا۔

 عالمگیر نے ملازم کو چائے لانے کا کہا۔

"سر آپ کی میڈیسن۔۔۔۔سر آپ کو اپنا خیال رکھنا چاہئے ۔۔۔۔"

نادر نے فکر مندی سے کہا۔

"ہمم۔۔۔"

عالمگیر نے صرف "ہمم" کہنے پر اکتفا کیا۔

"سر آپ اپنا خیال نہیں رکھیں گے تو جو دو دن کے بعد آپ کو  پریس جانا ہی وہ پاسبل نہیں ہو پائیگا۔"

نادر کے لہزے میں فکر ہی فکر تھی 

"پیرس۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔دو دن بعد۔۔۔۔۔نادر ایک کام کرو ٹریپ پریپون کر دو۔۔۔میں آج ہی پریس جانا چاہتا ہو۔۔۔۔تم ٹیکٹس وغیرہ کا دیکھ لو۔۔۔میں پیکنگ کر لیتا ہوں۔۔۔"

عالمگیر نادر کو کہتا کھڑا ہو گیا اور اپنے کمرے کی طرف جانے لگا۔

"لیکن سر آپ کا زخم۔۔۔۔"

نادر نے کچھ کہنا چاہا

"نادر۔۔۔"

عالمگیر کی آواز نے غصے کی رمق شامل تھی۔

"میں اریجمینٹس کرتا ہوں۔۔۔"

نادر اُس کے غصے سے خائف ہوتے ہوئے کہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عالمگیر کمرے میں آیا تو ہر طرف اُس کی اور عشنا کی یادیں بکھری پڑی تھی۔

"بس اتنی محبت کرتی ہو تم مجھ سے عشنا؟ بس اتنی؟ میرا انتظار نہیں کر پائیں تم۔۔۔۔۔؟

کیوں۔۔۔۔۔۔؟"

عالمگیر چلتا ہوا بیڈ تک آیا اور ڈھہنے کے انداز میں بیٹھ گیا۔

عشنا۔۔۔۔تم تو محبت کے دعوے کر رہی تھی۔۔۔۔میری ذرا سی ناراضگی پر تم مجھے چھوڑ کر چلیں گئی۔۔۔۔عشنا تم ایسے کیسے کر سکتی ہو میرے ساتھ۔۔۔۔کیسے۔۔۔۔؟"

عالمگیر سر جھکائے بیٹھا عشنا  سے تصوّر میں سوال جواب کر رہا تھا۔

عالمگیر نے یوں ہی بیڈ پر نظریں دوڑائیں تو دیکھا عشنا کا موبائل تکیہ کے پاس پڑا تھا۔

عالمگیر نے ہاتھ بڑھا کر موبائل اٹھا لیا۔

تھوڑی دیر وہ یوں ہی بیٹھا رہا پھر الماری کی طرف آ گیا اور اپنا سامان پیک کرنے لگا۔

سامنا پیک کرنے نے بعد وہ واشروم میں چینج کرنے چلا گیا۔

چینج کر کے باہر آیا اور اپنا موبائل جو اُس نے چارج پر لگایا تھا نکال کر آن کر کے سائڈ میں رکھا اور ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا ہو گیا۔

کندھے پر لگے زخم پر لگی پٹی سرخ ہو رہی تھی۔

اُس نے بال ٹھیک کرنے کے بعد ہاتھوں پر گھڑی بندھی اور اپنا سفری بیگ لے کر کوٹ ہاتھوں میں ڈالے عشنا کا فون جیب میں رکھتا اپنا فون اٹھا کر کمرے کے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔

وہ دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھ کر آگے بڑھنے ہی لگا تھا کہ اُس کی نگاہ اسٹڈی ٹیبل پر پڑے  کاغذ پر پڑی جو پیپر ویٹ کے نیچے فڑفڑا رہا تھا۔

عالمگیر نے ایک ہاتھ سے پیپر اُٹھایا اور اُسے پڑھنا چاہا لیکن اُسی وقت اُس کا موبائل بجنے لگا تھا تو وہ پیپر فولڈ کر کے اپنی جیب میں رکھتا موبائل کان سے لگائے باہر کی طرف بڑھ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


نادر ایئرپورٹ پر کھڑا عالمگیر کا انتظار کر رہا تھا۔ عالمگیر دور سے آتا نظر آ رہا تھا۔

عالمگیر نے پاس آ کر اُس سے ٹیکٹس وغیرہ لینا چاہا۔

نادر نے اُس کی طرف ٹیکٹس بڑھا دیے اور خود بھی اُس کے ساتھ چلنے لگا۔

عالمگیر نے اُسے ساتھ آتا دیکھا تو رک کر سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھا۔

"سر۔۔۔۔سر میں بھی آپ کے ساتھ آ رہا ہوں۔۔۔۔"

نادر نے اُس کے سوالیہ نظروں کے جواب میں کہا۔

"کیوں؟"

عالمگیر نے پوچھا۔

""سر آپ کو۔۔۔سر آپ کی طبیعت نہیں ٹھیک۔۔۔۔آپ کا زخم۔۔۔۔سوری سر لیکن ابھی آپ کو کیئر کی ضرورت ہے۔۔۔"

نادر نے ڈرتے ڈرتے کہا

"نادر میں کوئی بچا نہیں ہوں۔۔۔۔میں اپنا خیال رکھ سکتا ہوں۔۔۔۔"

عالمگیر نے اکتائے ہوئے لحظے میں کہا۔

"سر پلیز۔۔۔"

نادر نے درخواست کی۔

عالمگیر نے کچھ کہا نہیں بس آگے بڑھ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


پریس۔۔۔۔۔محبتوں کا شہر۔۔۔

جہاں وہ اپنی محبت سے ناراض ہو کر آیا تھا۔


عالمگیر اور نادر پیرس ایئرپورٹ سے باہر نکلے تو اُنکے ہوٹل کی کار پارکنگ میں کھڑی اُن کا انتظار کر رہی تھی۔ 

وہ لوگ چلتے ہوئے پارکنگ تک آئے اور کار میں بیٹھے تو نادر نے ڈرائیو کو ہسپتال چلنے کہا

"نادر میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُسے دیکھتے ہوئے کہا

"سر آپ کی بینڈ ایج چینج کروا لیں پھر میٹنگ میں بیزی ہو جائینگے پھر آپ کو ٹائم نہیں ملےگا۔"

نادر نے التظا کی۔

عالمگیر نے کچھ نہیں کہا۔

وہ لوگ ہسپتال پہنچے اور عالمگیر کی بینڈ ایج کروا کر ہوٹل آ گئے اور تیار ہو کر میٹنگ کے لیے نکل گئے۔

عالمگیر لگاتار دو دن تک میٹنگ اٹینڈ کرتا رہا  اُسی طرح اپنے زخم سے لاپرواہ ۔

نادر اُس کے ساتھ ساتھ رہا اُس کو دوائیاں دیتا اُس کے کھانے پینے کا خیال رکھتا لیکن عالمگیر  بہت بار اُسے سختی سے ٹال دیا کرتا۔

اگلے 15 دِن وہ میٹنگ اٹینڈ کرتا رہا۔ اور اس کا زخم تھوڑا ٹھیک ہوتا لیکن اُس کی بے احتیاطی اُسے ٹھیک نہیں ہونے دیتی۔

جس دن  اُن کی واپسی کی فلائٹ تھی اُس صبح عالمگیر کو بہت تیز بخار ہو گیا۔

نادر جب اُس کے روم میں آیا تو دیکھا وہ بےسدھ لیٹا ہوا ہے

وہ تیزی سے اُس کی طرف بڑھا اور اُسے جگانے کی کوشش کی لیکن بے سود۔

نادر نے ڈاکٹر کو کال کر کے اُنھیں جلدی آنے کا کہا اور عالمگیر کے پاس کھڑا ڈاکٹر کا انتظار کرنے لگا۔

کچھ دیر بعد ڈاکٹر آئے اور اُس کا معائنہ کرنے کے بعد اُسے ہسپتال لے جانے کا مشورہ دیتے اُس اپنے ساتھ ہسپتال لے آئے ۔

نادر بھی ساتھ تھا۔

عالمگیر کو کچھ دیر بعد ہوش آیا تو اس نے اپنے آپ کو ہسپتال میں پایا۔

نادر اُس کے پاس چیئر پر بیٹھا تھا۔

"سر کیسا لگ رہا ہے اب؟"

عالمگیر کو ہوش میں آتا دیکھ نادر کھڑا ہو گیا اور اُس کے پاس آ کر اُس کا حال پوچھا۔

"میں ٹھیک ہوں۔۔۔مجھے کیا ہوا ہے۔۔۔۔اور تم مجھے یہاں کیوں لائے ہو۔۔۔۔ہماری تو آج کی فلائٹ تھی نہ۔۔۔۔؟"

عالمگیر نے اُسے دیکھ کر اپنے یہاں ہونے کی وجہ پُوچھی

"سر آپ کو بہت فیور ہو گیا تھا اور مجھے آپ کو ہسپتال لانا پڑا۔

سر مجھے نہیں پتہ کے آپ کو کس بات کی ٹینشن ہے جو آپ خود کو ایسے تکلیف پہونچا رہے ہیں لیکن میں آپ سے ریکویسٹ کرتا ہوں سر کہ پلیز آپ کا زخم جب تک ہیل نہیں ہو جاتا آپ پلیز خود کو اور تکلیف مت پہنچائے۔"


نادر عالمگیر کے لیے پریشان تھا۔

عالمگیر نے کچھ کہا نہیں بس آہستہ سے آنکھیں موند لی۔

"عشنا۔۔۔۔کیوں۔۔۔۔کیوں تم مجھے چھوڑ کر گئی۔۔۔۔دیکھو تم نے میری کیا حالت کر دی ہے۔۔۔ اب تو لوگو کو بھی اندازہ ہونے لگا ہے کے میں تمہارے لیے۔۔۔۔"

عالمگیر نے دل میں سوچا۔

آج اُس دشمن جان سے ناراضگی کا 18 واں دن تھا۔ عالمگیر نے پھر اُسے کال نہیں کی تھی اور نہ ہی یہ جاننے کی کوشش کی تھی کہ وہ اب کہاں ہے۔بس رحمت بیگم کو فون کر کے یہ بتا دیا تھا کہ وہ پریس آیا ہوا ہے۔

عالمگیر کا علاج ہو رہا تھا اور اُسے ہسپتال میں ہی رکھا گیا تھا کیوں کی اُسکا زخم ابھی تک بھرا نہیں تھا۔

7 دِن تک وہ ہسپتال میں رہا اور 8 وین دِن نادر اُسے لے کر ہوٹل آ گیا ۔

اب اُس کا زخم کافی حد تک سوکھ چکا تھا۔ اب اُس کے ہاتھوں کو حرکت دینے پر خُون نہیں رستا تھا۔ اور نے ہی اُسے ہاتھوں کو حرکت دینے میں تکییف ہوتی تھی۔

عالمگیر یوں ہی بیڈ پر لیٹا آنکھیں بند کئے عشنا کو سوچے جا رہا تھا ۔

"عشنا۔۔۔۔۔کیوں۔۔۔۔کیوں کیا تم نے ایسا؟ تمہیں ٹریپ پر واپس جانا تھا تو تم مجھے کہتیں۔۔۔۔میں خود تمہیں چھوڑ کر آتا۔۔۔۔میں نے خود تمہیں لے جانا چاہا تھا لیکن تب تم نے منع کر دیا تھا تو پھر۔۔۔۔"

عالمگیر مسلسل عشنا کو ہی سوچے جا رہا تھا۔

"تو پھر ایسا کیا ہوگیا؟۔۔۔ایسا کیا؟۔۔۔کہیں کچھ ایسا تو نہیں ہوا کہ عشنا کو۔۔۔۔۔۔"

عالمگیر نے جھٹکے سے آنکھ خولی۔۔۔

کہیں تو کچھ غلط تھا۔

عشنا کا موبائل۔۔اُسے یاد آیا عشنا کا موبائل تھا اُس کے پاس جو وہ اپنے ساتھ ہی لیے آیا تھا۔

عالمگیر جلدی سے اپنے کمرے میں موجود الماری کی طرف آیا اور اپنے سامان میں ساتھ رکھے عشنا کے موبائل کو اُٹھایا۔ 

یہاں آنے کے بعد اُس نے باقی سامان کے ساتھ عشنا کا موبائل بھی الماری میں رکھ دیا تھا 

عالمگیر نے جلدی سے موبائل لیا اور اُسے آن کرنا چاہا لیکن اتنے دنوں سے ایسے ہی پڑے رہنے کی وجہ سے موبائل آف ہو چکا تھا۔ 

عالمگیر جلدی سے موبائل کو چارج میں لگاتا آن کرنے لگا لیکن شاید بیٹری پوری طرح سے ختم ہو گئی تھی۔ ابھی اُسے آن ہونے میں وقت لگنا تھا۔

عالمگیر کمرے میں یہاں وہاں ٹہلتے ہوئے موبائل کے آن ہونے کا اِنتظار کرنے لگا۔

"شاید کوئی کال آئی ہو۔۔۔شاید کچھ ہوا ہو۔۔۔لیکن ایسا کیا ہوا تھا عشنا؟۔۔۔۔ایسا کیا؟۔۔۔۔تم مجھے ایک بار بتا تو سکتی تھیں۔۔۔۔فون کر دیا ہوتا ہوتا مجھے۔۔۔۔۔لیکن میرا فون تو۔۔۔۔تم کوئی نوٹ تو لکھ کر جا سکتی تھیں۔۔۔نوٹ۔۔۔ ؟ نوٹ۔۔۔۔"

ابھی وہ موبائل کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا کہ اُسے اُس کاغذ کا خیال آیا جو وہ ایئرپورٹ کے لیے نکلنے سے پہلے اپنی جیب میں رکھ چکا تھا۔

عالمگیر جلدی سے اپنے کپڑوں کی طرف بڑھا اور اُس دِن جب وہ پریس آیا تھا اُس نے جو کپڑے پہنے تھے اُس میں وہ پیپر تلاش کرنے لگا لیکن وہ وہاں نہیں تھا۔

اُس نے ایک ایک کر کے سارے کپڑے دیکھ لیے لیکن وہ کاغذ اُسے کہیں نہیں ملا۔ 

"اوہ عشنا۔۔۔۔"

وہ سے ہاتھوں میں سر تھامے بیڈ پر  بیٹھ گیا۔

"مجھے جلد سے جلد عشنا کے پاس جانا ہوگا۔۔۔میں اب اُس سے ہی پوچھوں گا۔۔۔۔"

عالمگیر نے سوچا اور نادر کے کمرے میں جانے کے لیے کھڑا ہو گیا۔

عالمگیر جو کمرے کے دروازے کی طرف بڑھ رہا تھا نادر کو اندر آتا دیکھ رک گیا۔

"سر یہ سب۔۔۔۔"

نادر نے اندر آ کر ایک نظر کمرے پر ڈالی جہاں ہر طرف ہی عالمگیر کے کپڑے فرش پر پڑے تھے۔ بیڈ شیٹ آدھی بیڈ پر آدھی زمین پر لٹک رہی تھی۔

اُس نے کمرے کی ابتر حالت کو دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔

"نادر مجھے ابھی کے ابھی پاکستان جانا ہے۔۔۔۔تم ٹیکٹس کا دیکھ لو۔۔۔۔میں ریڈی ہو کر آتا ہوں۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کے سوال کو نظر انداز کر کے کہا۔

"ٹھیک ہے سر لیکن یہ سب۔۔۔آپ کچھ تلاش کر رہے تھے کیا؟"

نادر نے ہر طرف پڑے کپڑے اٹھا اٹھا کر ہاتھوں میں لیتے ہوئے پوچھا۔

"ہاں۔۔۔نہیں ۔۔۔۔میں وہ۔۔۔وہ ایک ضروری پیپر تھا میرے کپڑوں میں ۔۔۔وہی تلاش کر رہا تھا۔"

عالمگیر نے واشروم کی طرف جاتے ہوئے بتایا۔

"سر کہیں آپ یہ  تو نہیں تلاش کر رہے تھے؟"

نادر نے بیڈ کے سائڈ ٹیبل کی دراز سے ایک فولڈ کیا ہوا پیپر نکال کر عالمگیر کی طرف بڑھایا۔

عالمگیر نے پیپر تھام لیا اور نادر کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

"تمہیں کہا ملا؟"

عالمگیر نے پوچھا۔

"سر وہ ہاؤس کیپنگ دے کر گیا تھا۔ شاید آپ کے کپڑوں میں ہی ملا تھا جب وہ اُنھیں لانڈری کرنے لے گئے تھے ۔ میں نے دراز میں رکھ دیا تھا۔ آپ کو دینا بھول گیا تھا سوری۔۔۔ "

نادر نے سارے کپڑے اٹھا کر الماری میں رکھ دیئے ۔

ٹھیک ہے تم جاؤ اور ٹیکٹس کا انتظام کرو۔۔۔اور ہاں۔۔۔میری ٹیکٹس اسلام آباد کی نہیں بلکہ لاہور کی کرنا۔ مجھے لاہور جانا ہے۔"

عالمگیر نے اُسے کہا اور چلتا ہوا بیڈ پر بیٹھ کر عشنا کا لکھا ہوا کاغذ / خط کھول لیا۔

نادر نے ایک نظر عالمگیر کو دیکھا اور باہر نکل کر کمرے کا دروازہ بند کر دیا۔

عالمگیر نے خط پڑھنا شروع کیا۔

"عالمگیر۔۔۔۔عالمگیر کہاں ہیں آپ۔۔۔۔؟ آپ کی عشنا آپ کا انتظار کر رہی ہے۔۔۔۔پلیز جلدی آ جائیں۔۔۔۔پلیز۔۔۔۔عالمگیر آپ کی ناراضگی میری جان لے رہی ہے۔۔۔مجھے کہیں سکون نہیں مل رہا ہے۔۔۔پلیز لوٹ آئیں۔۔۔پلیز اپنی عشنا کے پاس لوٹ آئیں۔۔۔عالمگیر آپ کی عشنا آپ کی ناراضگی برداشت نہیں کر سکتی۔۔۔۔عالمگیر  آپکی بے رخی میری جان لے لیگی۔۔۔۔۔ عالمگیر۔۔۔۔۔میں آپ سے دور نہیں جانا چاہتی۔۔۔۔آپ کے پاس رہنا چاھتی ہوں۔میری جس بھی غلطی  کی وجہ سے آپ ناراض ہیں آپ مجھے بتا دیجیے۔۔۔مجھے سزا دے دیجئے لیکن ایسے مجھ سے خفا مت رہیے ۔۔عالمگیر میں آپ سے بہت محبت کرتی ہوں۔۔۔بہت ۔۔۔یوں جدائی کی سزا مت دیجئے۔۔۔اپنی عشنا کو خود سے دور مت کیجئے۔۔۔۔پلیز عالمگیر۔۔۔۔پلیز۔۔۔ آپکی عشنا پل پل مر رہی ہے۔۔۔۔

ابّو کی طبیعت خراب ہے اور اُنہوں نے ہارون چاچو کو بھیجا ہے مجھے لینے کے لئے۔ اس لیے میں ہوٹل جا رہی ہوں جہاں میری کالج ٹریپ رکی ہے۔۔۔آپ پلیز جلدی آئیں اور مجھے اپنے ساتھ لے چلیں۔۔۔پلیز عالمگیر۔۔۔اگر آپ نہیں آئے یہ آپکو دیر ہو گئی تو پلیز مجھے فون کیجئے۔۔۔میں آپ کا اور آپ کے فون کا اِنتظار کروں گی۔ پلیز میرے پاس آ جائیں۔۔۔اپنی عشنا کے پاس۔۔۔۔مجھے اپنے آپ سے دور نا کریں۔۔۔۔آپ کی عشنا آپ کر بغیر مر جائیگی عالمگیر پلیز ۔۔۔پلیز آ جائیں میرے پاس۔۔۔میں آپ کا انتظار کروں گی۔


آپ کی عشنا۔۔۔۔


عالمگیر نے خط پڑھنے کے بعد آنکھیں موند کر اپنی آنکھوں میں تیرتے آنسوؤں کو بہنے دیا۔

اُسے اندازہ ہو گیا تھا کہ خط لکھتے ہوئے عشنا بھی روئی ہوگی کیونکہ خط پر جا بجا آنسوؤں کے نشان کی وجہ سے کچھ الفاظ کی روشنائی بھی پھیل گئی تھی۔ عالمگیر نے پاس چارج میں لگا عشنا کا موبائل اٹھا کر آن کیا اور کال ہسٹری نکال کر دیکھی۔

وہاں ایک کال ہارون صاحب کی تھی۔ ایک کرن کی اور لا تعداد کالز اُس کے نمبر پر کی گئی تھی۔ شاید ساری رات۔

" اوہ عشنا۔۔۔۔۔"

عالمگیر نے کرب سے آنکھیں بند کر لی۔ 

عالمگیر نے جلدی سے اپنا موبائل اٹھایا اور ابراہیم صاحب کو کال ملائی۔ اُسے عشنا سے بات کرنی تھی۔ وہ اُس کی آواز سننے کے لیے بے قرار ہو رہا تھا۔

"ہیلو۔۔۔السلام علیکم مامو۔۔۔۔مجھے عشنا سے بات کرنی ہے۔۔۔"

عالمگیر نے کال ریسیو ہوتے ہی سلام کے ساتھ عشنا سے بات کروانے کا کہا۔

"وعلیکم السلام بیٹا۔۔۔۔کیسے ہو۔۔ "

ابراہیم صاحب نے سلام کا جواب دینے کے بعد اُس کی خیریت دریافت کی۔

" مامو میں ٹھیک ہو۔۔۔آپ پلیز میری بات عشنا سے کروا دیں۔۔۔"

عالمگیر نے انداز میں عجلت تھی۔

"عالمگیر عشنا ابھی سو رہی ہے۔۔۔"

ابراہیم صاحب نے کہا۔

ابھی لیکن پاکستان میں تو ابھی دوپہر  ہے نہ؟"

عالمگیر نے بایاں ہاتھ زارا اونچا کر کے وقت دیکھا جہاں صبح کے بج 9 رہے تھے۔

"ہاں بیٹا۔۔۔۔وہ دوائیوں کے زیرِ اثر سو رہی ہے ۔"

ابراہیم صاحب سے ایک گہری سانس لی

"دوائیاں؟ مامو کیا ہوا ہے عشنا کو۔۔۔؟"

عالمگیر دوائیوں کی نام پر جھٹکے سے بیڈ سے کھڑا ہوا تھا۔

"بیٹا اُسے بہت بخار ہو رہا تھا۔ کل ہی ہم اُسے ہسپتال سے گھر لائیں ہیں۔۔۔"

ابراہیم صاحب کی آواز میں پریشانی کا عنصر نمایاں تھا۔

"ہسپتال؟ مامو عشنا کو کیا ہوا تھا؟ اور ہسپتال میں کیوں ۔۔۔مامو آپ نے مجھے بتایا کیوں نہیں۔۔۔؟"

عالمگیر کو جھٹکا لگا تھا عشنا کے ہسپتال کا سن کر

"بیٹا آپا نے بتایا تھا کہ تم پریس میں ہو تو میں تمہیں  پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا"

ابراہیم صاحب نے کہا

"مامو عشنا میری بیوی ہے اور اُسے کچھ بھی ہوا تو میں آپ کو معاف نہیں کرونگا۔"

عالمگیر نے کہا اور فون کاٹ دیا۔

عالمگیر عشنا کی بیماری کا سن کر اور پریشان ہو گیا تھا۔

اُس نے نادر کو کال کی۔

"نادر ٹیکٹس کا کیا ہوا؟"

اُس نے پوچھا

"سر لاہور کی فلائٹ تو دو دن کے بعد کی ہے بک کر دوں؟"

نادر نے بتایا۔

"نہیں۔۔۔مجھے ابھی کے ابھی پاکستان جانا ہے نادر۔۔۔"

عالمگیر پریشان سا بولا

" لیکن آپ اگر اسلام آباد جانے کے بعد وہاں سے لاہور جائیں تو آپ کو آسانی ہوگی"

"ٹھیک ہے تم کرو میں آتا ہوں۔۔۔"


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عُشنا ہوٹل پہنچی اور ہوٹل کے باہر کھڑے رہ کر ہارون صاحب کا انتظار کرنے لگی۔ 

وہ اب بھی عالمگیر کے لیئے پریشان تھی۔

تھوڑی دیر میں ہارون صاحب کی کار نظر آئی تو وہ چلتی ہوئی کار کے پاس آئی اور اُن کے ساتھ بیک سیٹ پر بیٹھ گئی۔

عشنا کے بیٹھتے ہی ڈرائیور نے کار آگے بڑھا لی۔

عشنا سارے راستے عالمگیر کے فون کا انتظار کرتی رہی تھی لیکن اس کا فون نہیں آیا۔

عشنا گھر پہنچی اور ابراہیم صاحب کے کمرے میں آ کر اُن کی طبیعت کے بارے میں پوچھا۔ وہ تھوڑی دیر تک اسے اپنی طبیعت کا بتانے کے بعد باتیں کرتے رہے اور پھر دوائیاں کھا کر سو گئے۔

عشنا اٹھ کر اپنے کمرے میں آ گئی اور اپنا فون چیک کرنا چاہا۔

"کہاں گیا۔۔۔۔یہیں تو رکھا تھا۔۔۔"

 عشنا نے پرس میں یہاں وہاں ہاتھ گھما کر دیکھا لیکن فون نہیں ملا۔

وہ لاؤنج میں آ کر لینڈ لائن سے عالمگیر کو کال کرنے لگی لیکن اس کا نمبر اب بھی بند جا رہا تھا۔

وہ پریشان سی یہاں وہاں ٹہلنے لگی۔

تھوڑی دیر بعد کوثر بیگم جو پڑوس میں کسی سے ملنے گئیں تھی آئیں تو عشنا کو دیکھ کر خوش ہو گئیں۔

ہارون صاحب بھی تھوڑی دیر ابراہیم صاحب سے مل کر چلے گئے تھے۔ اُن کی کوئی بزنس میٹنگ تھی وہ زیادہ دیر تک نہیں رک سکے  تھے۔

عشنا کچھ دیر کوثر بیگم کے پاس بیٹھی رہی پھر اپنے کمرے میں آ گئی۔۔۔۔

وہ پریشان سی یہاں وہاں ٹہل رہی تھی۔

"اب اگر عالمگیر نے مجھے فون کیا تو میں ۔۔۔۔میں کیسے۔۔۔۔"

اتنی دیر میں کوثر بیگم اُسے ڈنر  کے لیے بلانے آ گئیں تو وہ ٹیبل پر آ کر چیئر گھسیٹ کر بیٹھ گئی۔ وہ اب بھی پریشان تھی۔ کوثر بیگم نے ابراہیم صاحب کو کھانا کھلا کر دوا دے دی تھی اور اب وہ سو رہے تھے۔ اس لیے ٹیبل پر صرف وہ دونوں تھیں۔

"عشنا۔۔۔تم ٹھیک ہو؟ پریشان کیوں لگ رہی ہو؟"

کوثر بیگم نے اُسے پریشان دیکھا تو پوچھ لیا۔

"ہاں۔۔۔۔نہیں۔۔۔میں ٹھیک ۔۔۔ٹھیک ہوں۔۔۔"

عشنا جو پلیٹ میں بے دھیانی سے چمچ چلا رہی تھی کوثر بیگم کے سوال پر چونکی۔

عشنا نے پلیٹ میں رکھا کھانا ختم کیا اور کمرے میں آ گئی۔ اُسے اب بھی عالمگیر کا ہی خیال آ رہا تھا۔

رات کا ایک بج گیا تھا لیکن اس کی پریشانی تھی کہ کم ہی نہیں ہو رہی تھی۔وہ آہستہ سے چلتی لاؤنج میں آئی اور فون اٹھا کر عالمگیر کو فون کرنے لگی جو اب بھی بند جا رہا تھا۔

عشنا لگاتار اُسے فون کرتی رہی لیکن اس کا فون لگاتار بند جا رہا تھا۔

وہ صبح تک اُسے فون کرتی رہی اور فجر کے پہلے کمرے میں آ کر نماز کے لیے کھڑی ہو گئی۔

اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو آنسو تواتر سے بہہ نکلے۔ وہ عالمگیر کی سلامتی کی دعائیں مانگتی رہیں۔

صبح 8 بجے کے قریب اس نے رحمت بیگم کو کال کر کے اُن کی خیریت دریافت کی تب اُنہونے اُسے عالمگیر کے پیرس جانے کا بتايا۔

عشنا کو عالمگیر کے ٹھیک ہونے کا پتہ چلا تو ایک سکون سا اس  نے اپنے دل میں اترتا محسوس کیا لیکن ساتھ ہی وہ اس کے پریس جانے پر پریشان بھی تھی۔

"لیکن عالمگیر پیرس کیسے۔۔۔۔کیا انہوں نے میرا خط نہیں دیکھا۔۔یہ پھر دیکھ کر بھی مجھ سے بات کرنے کی کوشش نہیں کی۔۔۔۔؟"

عشنا سوچتے ہوئے اور پریشان ہو گئی تھی۔

پورے ہفتے وہ عالمگیر کے فون کا انتظار کرتی رہی تھی لیکن اس کا فون نہیں آیا۔ اس کے بے چینی اور اُداسی میں دن با دن اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ وہ کھانا بھی برائے نام کھاتی تھی۔

ساری ساری رات وہ کھڑکی پر کھڑے ہو کر عالمگیر کے بارے میں سوچتی رہتی تھی۔ اس کا کالج جانے کا بھی دل نہیں کرتا تھا۔ وہ بس دن رات عالمگیر کے خیالو میں کھوئی رہتی تھی

ان ہی سب ذہنی دباؤ کی وجہ سے اُسے فيور ہو گیا اور اسکا فیور اتنا زیادہ ہونے کے باوجود اس نے نہ کسی کو کچھ بتایا اور ہی کوئی دوا لی۔ نتیجہ دوسری صبح وہ بیہوش سی اپنے کمرے میں پڑی تھی ۔

ابراہیم صاحب اُسے دیکھنے کمرے میں آئے تو اُسے بیہوش دیکھ کر اُسے لے کر ہسپتال گئے جہاں ڈاکٹر نے اس کی کمزوری اور بخار کی شدّت کو دیکھتے ہوئے ایڈمٹ کر لیا۔

4 دن تک وہ ہسپتال میں رہی  اور پھر ابراہیم صاحب ڈاکٹر کے کہنے پر اُسے گھر لے آئے۔

اور ساتھ ہی ڈاکٹر نے عشنا کا بہت خیال رکھنے کی ہدایت بھی دی تھی۔

عشنا گھر آ کر بھی اُداس ہی رہی۔ نہ وہ کھانا کھاتی نہ دوا ۔

ابراہیم صاحب اور کوثر بیگم اس کے لیے بہت پریشان تھے ۔

رحمت بیگم بھی روز آ جاتی تھیں لیکن اس کی اُداسی میں کوئی فرق نہیں آیا تھا

ابراہیم صاحب نے رحمت بیگم سے عالمگیر کا پوچھا تو اُنہونے نے اس کے پیرس میں ہونے کا بتایا تھا۔

اُسی دوپہر عالمگیر نے عشنا کے لیے فون کیا تھا لیکن تب عشنا سو رہی تھی۔

عشنا کی کھانا نہ کھانے اور دوائیوں کی لاپرواہی اُسے ایک بار پھر ہسپتال لیے آئی تھیں۔

وہ آج پھر ہسپتال میں تھی اور ابراہیم صاحب،کوثر بیگم،رحمت بیگم اس کے لیے پریشان سے کوریڈور میں کھڑے تھے۔

ڈاکٹر نے ابراہیم صاحب کو اپنے کبین میں بولا کر اُن کو دوائیوں کی لاپرواہی کیلئے چند سخت الفاظ بھی کہے تھے۔

عشنا کی حالت بگڑتی ہی جا رہی تھی۔ اور وہ بیہوشی میں بھی عالمگیر کو ہی پکارے جا رہی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عالمگیر اسلام آباد ایئرپورٹ پر بیٹھا اپنی لاہور کی فلائٹ کے لیے انتظار کر رہا تھا۔

کچھ ہی دیر میں اس کی فلائٹ تھی۔ اس نے کچھ سوچتے ہوئے ابراہیم صاحب کو کال کی۔

"السلام علیکم مامو۔۔۔۔عشنا سے بات کرو دیں۔۔۔"

عالمگیر نے سلام کے بعد عشنا سے بات کرنے کا کہا۔

"وعلیکم اسلام بیٹا۔۔۔۔بیٹا آپ کہاں ہو۔۔۔۔عشنا۔۔۔"

ابراہیم صاحب سلام کا جواب دے کر عشنا کے بارے میں بتانا چاہا لیکن عشنا کا نام لیتے ہی وہ رو پڑے تھے۔"

"مامو۔۔۔۔مامو عشنا کو کیا ہوا۔۔۔وہ ٹھیک تو ہے۔۔۔"

عالمگیر نے بے چینی سے پوچھا

"عالمگیر تم جہاں بھی ہو جلدی سے آ جاؤ۔۔عشنا ٹھیک نہیں ہے۔۔۔۔وہ تمہیں بلا رہی ہے۔۔۔۔"

ابراہیم صاحب نے آنسوؤں کے درمیان کہا۔

"مامو سچ بتائیں۔۔۔۔عشنا ٹھیک ہے نہ۔۔۔۔اُسے کچھ۔۔۔۔مامو۔۔۔۔۔۔"

عالمگیر کے گلے میں آنسوؤں کا گولا اٹک گیا اور وہ فقرہ مکمل نہ کر سکا۔

"عالمگیر تم جلدی آؤ۔۔۔"

ابراہیم صاحب نے کہا اور فون بند کر دیا۔

عالمگیر فون ہاتھوں میں لیے اپنے آنسوؤں کو روکنے کے کوشش کرنے لگا۔

"آہ۔۔۔۔۔یہ کیا کر دیا میں نے۔۔۔۔۔عشنا۔۔۔۔عشنا میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گا۔۔۔ پلیز۔۔۔۔میرا انتظار کرنا۔۔۔پلیز۔۔۔۔۔۔"

عالمگیر دل ہی دل میں اُسے مخاطب کرتا اپنی فلائٹ کی طرف بڑھا کیونکہ اس کی فلائٹ بورڈنگ کی اناؤسنمینٹ ہو چکی تھی۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عالمگیر لاہور ایئرپورٹ سے تقریباً بھاگتے ہوئے پارکنگ میں آیا تھا اور اپنی کار جو اس نے پہلے ہی بک کر رکھی تھی اُس کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر کار کو ہسپتال کے راستے پر ڈال دی۔

وہ تیزی سے کار چلاتا 20 منٹس کا راستہ 10 منٹ میں طے کرتا ہسپتال پہونچا اور کار کو گیٹ کے اندر لاکر تیزی سے کار سے نکلا اور ہسپتال کے اندر کی طرف بھاگتا ہوا ر ریسیپشن پر آ کر عشنا کے بارے میں پتہ کرتا مطلوبہ کمرے کے طرف بڑھا۔

عشنا کو سیکنڈ فلور کے ایک پرائیویٹ روم میں رکھا گیا تھا۔

وہ اب بھی غنودگی میں تھی اور بار بار عالمگیر کو پکارے جا رہی تھی۔

" عالمگیر کون ہیں؟ آپ پلیز اُنھیں بولا دیں۔۔۔۔۔"

نرس نے عشنا کے کمرے سے باہر آ کر ابراہیم صاحب سے کہا۔

"جی میں نے۔۔۔۔"

ابراہیم صاحب ابھی نرس کو بتا ہی رہے تھے کہ اُنہونے نے عالمگیر کو بولا لیا ہے اور وہ آتا ہی ہوگا اُس کے پہلے ہی عالمگیر بھاگتا ہوا اُن کے پاس آیا تھا۔

"مامو۔۔۔۔مامو عشنا کیسی ہے؟ کہا ہے۔۔۔۔؟"

عالمگیر ابراہیم صاحب کا بازو پکڑتے ہوئے اُن سے عشنا کا پوچھنے لگا۔

کوثر بیگم اور رحمت بیگم عالمگیر کی دیکھ کر کھڑی ہو گئی تھیں۔

"آپ عالمگیر ہیں؟"

نرس نے عالمگیر کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"جی۔۔۔۔۔نرس میری عشنا ۔۔۔۔؟"

عالمگیر نرس کی طرف بڑھا۔

"آئیے میرے ساتھ۔"

نرس نے کہا تو عالمگیر نرس کے ساتھ چلتا ہوا  کمرے میں آیا ۔

عشنا سفید چادر سینے تک اوڑھے آنکھیں بند کئے بیڈ پر دراز تھی۔ اُس کے بائیں ہاتھ میں گلوکوز کی سلائن لگی تھی۔

عالمگیر پھٹی پھٹی نظروں سے عشنا کو دیکھے گیا۔ یہ وہ عشنا تو نہیں تھی جسے وہ 20 دِن پہلے اسلام آباد میں چھوڑ کر گیا تھا۔ یہ تو اُس عشنا سے بلکل مختلف تھی۔

عالمگیر کو لگا اُس میں اندر جانے کی ساری طاقت ختم ہو گئی ہے۔ عشنا کی بند آنکھیں دیکھ کر اسکو اپنی دھڑکن بند ہوتی محسوس ہوئی۔

وہ لڑکھڑاتے قدموں سے چلتا ہوا عشنا کے بیڈ کے سرہانے تک آیا اور دھیرے سے اُسکا سلائن لگا ہوا ہاتھ تھام کر اپنے ہاتھوں میں لیتا ہوا اپنے لب سے چھو کر ایسے ہی پکڑے عشنا کے زرد چہرے کو دیکھنے لگا ۔ اُس کی آنکھوں سے آنسوں بہہ کر عشنا کا ہاتھ بھیگانے لگے۔

عالمگیر ایسے ہی اُسکا ہاتھ پکڑے کھڑا رہا ۔

اچانک عشنا کے آنکھوں میں جنبش ہوئی اور اُس نے آہستہ سے آنکھیں کھول دی اور سامنے عالمگیر کو دیکھ کر پہلے تو اُسے دیکھتی رہی اور پھر آہستہ سے آنکھیں موند گئی۔

عالمگیر نے اُسے آنکھیں کھولتے دیکھ کر ایک پل میں اپنے دل کو مسرت سے بھرتے محسوس کیا لیکن عشنا کو آنکھیں بند کرتا دیکھ وہ بے چین ہو گیا۔

عشنا نے آنکھیں خولی اور عالمگیر کو اپنے پاس دیکھ کر اُسے یقین نہیں آیا کہ عالمگیر سچ میں  اُس کے پاس ہے۔ اُسے یہ اپنی نظروں کا دھوکا لگا اور اُس نے کرب سے آنکھیں بند کر لی۔

"عشنا۔۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُسے آنکھیں بند کرتے دیکھا تو بے چینی سے عشنا کو پُکارا۔

عشنا نے آنکھیں بند رکھی۔

عالمگیر۔۔۔۔کہاں چلے گئے ہیں آپ۔۔۔۔پلیز آ جائے۔۔۔۔پلیز۔۔۔۔۔آپ کی عشنا مر جائیگی۔۔۔۔پلیز آ جائے۔۔۔۔دیکھیے، اب آپ مجھے ہر جگہ نظر آ رہے ہیں۔۔۔مجھے لگ رہا ہے آپ میرے پاس ہی ہیں۔۔۔مجھے تو آپ کی آواز بھی سنائی دے رہی ہے۔۔۔۔پلیز آ جائے۔۔۔۔"

عشنا آنکھیں بند کیے دل ہی دل میں عالمگیر سے بات کیے جا رہی تھی۔ اُسے بولا رہی تھی۔ 

عشنا کی آنکھوں سے دو موتی ٹوٹ کر تکیے میں جذب ہو گئے۔

"عشنا ۔۔۔"

عالمگیر نے عشنا کے آنکھوں سے بہتے آنسو دیکھ لیے تھے۔ عشنا کے جواب نہ دینے پر عالمگیر نے پھر سے اُسے پُکارا۔

دوسری بار عالمگیر کی پُکار پر عشنا نے آہستہ سے آنکھیں خول کر عالمگیر کو دیکھا اور پھر اپنے ہاتھ کو جو عالمگیر اپنے دونوں ہاتھوں میں تھامے کھڑا بھیگی آنکھوں سے اُسے دیکھ رہا تھا۔

"عالم۔۔۔۔عالمگیر۔۔۔۔"

عشنا نے عالمگیر کی دیکھتے ہوئے مشکل سے اُسکا نام لیا۔

اُس کے اندر بولنے کی بھی سکت باقی نہیں تھی۔

"ہاں جان۔۔۔دیکھو میں آ گیا۔۔۔میں آ گیا اپنی جان کے پاس۔۔۔"

عالمگیر نے اُسے محبت سے دیکھتے ہوئے اپنے ہونے کا یقین دلانا چاہا

"عالم۔۔عالمگیر ۔۔آپ۔۔۔۔آپ۔۔۔آ گئے۔۔۔۔آپ۔۔۔عالم۔۔۔۔دیکھیں آپکی عشنا ۔۔۔۔آپ کی عشنا۔۔۔۔۔"

عشنا کی آنکھوں سے آنسوؤں بہنے لگے۔ اُن نے آنسوؤں کے درمیان عالمگیر کے ہاتھوں کو چھو کر اُس کے ہونے کا یقین کرنا چاہا۔

"ہاں جان۔۔۔میں ہوں۔۔۔۔میں ہوں تمہارے پاس۔۔۔۔دیکھو۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کے ہاتھوں پر دباؤ ڈال کر اُس کے یقین کو پختہ کرنا چاہا تھا۔

"عالم۔۔۔"۔

عشنا نے اٹھنا چاہا تو عالمگیر اُسے کندھوں سے تھام کر  بیڈ پر بیٹھا دیا لیکن عشنا میں بیٹھنے کی بھی سکت نہیں تھی وہ گہری گہری سانسیں لینے لگی

عالمگیر نے دھیرے سے اُسے اپنے ساتھ لگا لیا۔

عشنا نے آہستہ سے اپنا سلائن لگا ہوا ہاتھ اٹھا کر عالمگیر کی پیٹھ پر رکھ لیا۔

عشنا عالمگیر کے آغوش میں لپٹی بیٹھی تھی

عالمگیر عشنا کو تھامے بیٹھا اُس کے لمس میں کھو گیا

یہ وہی لمس تھا جس کے لیے وہ پچھلے 20 دنوں سے تڑپ رہا تھا۔

 عشنا کے لمس نے عالمگیر کی بے چینی، بے سکونی  کو کم کر دیا تھا۔ لیکن عشنا کو ایسی حالت میں دیکھ کر وہ پریشان  ضرور تھا۔

"عالمگیر۔۔۔۔آپ کیوں ۔۔۔کیوں چھوڑ کر گئے تھے مجھے۔۔۔کیوں۔۔۔۔"

عشنا نے رک رک کر بات پوری کی۔

"سوری جان۔۔۔۔مجھے معاف کر دو۔۔۔۔آئی ایم سو سوری۔۔۔۔"

عالمگیر اُس سے معافی مانگ رہا تھا۔

"ایکسکیوژ مي سر۔۔۔۔آپ پلیز پیشنٹ سے زیادہ بات نہ کریں۔۔۔انہیں ریسٹ کرنے دیں۔۔۔۔"

نرس نے کہا تو عالمگیر نے اپنے ہاتھوں کی پشت سے اپنے رخساروں پر بہتے آنسو صاف کیے اور آہستہ سے عشنا کو الگ کرنا چاہا۔

لیکن عشنا نے آہستہ سے سر کو اُس کے سینے پر یہاں وہاں مسلتے اُس سے الگ ہونے سے انکار کر دیا۔

"نہیں۔۔۔"

عشنا نے دھیرے سے کہا۔

عالمگیر نے آہستہ سے اُسے کندھوں سے تھام کر سامنے کیا تو عشنا نے اپنے داہنے ہاتھ سے اُس کو شرٹ کو کالر کے نیچے سے دبوچ لیا۔

"نہیں۔۔۔۔"

عشنا نے سر کو دائیں بائیں جنبش دی۔

"عشنا تمہیں ریسٹ کرنے کی ضرورت ہے۔۔۔"

عالمگیر نے آہستہ سے اُسے سمجھانا چاہا۔

"نہیں۔۔۔عالمگیر۔۔۔۔میں۔۔۔میں مر جاؤں گی۔۔۔۔"

عشنا نے روتے ہوئے نقاہت سے عالمگیر کو دیکھتے ہوئے کہا۔

"عشنا پلیز۔۔۔۔کچھ نہیں ہوگا تمہیں۔۔۔۔دیکھو میں تمہارے پاس ہوں۔۔۔۔"

عالمگیر نے پھر سے اُسے سینے سے لگا کر اُسے اپنے ہونے کا یقین دلایا۔

"سر پلیز۔۔۔انہیں انجکشن دینا ہے۔۔۔۔"

پاس کھڑی نرس پھر بولی۔

عالمگیر نے ایک بار پھر عشنا کو الگ کرنا چاہا تو عشنا نے پھر سے اُس سے الگ ہونے سے انکار کر دیا۔

 عالمگیر نے آہستہ سے عشنا کو ایسے ہی تھامے اُسکی کلائی سامنے کی۔ 

نرس نے عالمگیر کو دیکھا اور پھر عشنا کے بائیں طرف آ کر اُسے انجکشن لگانے لگی۔

نرس انجکشن لگا کر گئی تو عشنا تھوڑی ہی دیر میں غنودگی میں چلی گئی ۔

عشنا کی بھاری سانسیں عالمگیر اپنے بہت پاس سن سکتا تھا۔

اُس نے آہستہ سے عشنا کو الگ کرنا چاہا لیکن عشنا نے پیچھے سے اُس کی پیٹھ پر شرٹ کو مٹھیوں سے پکڑ رکھا تھا۔

عالمگیر نے آہستہ سے اُس کا ہاتھ اپنے شرٹ سے ہٹایا اور اُسے بیڈ پر لیٹا دیا۔

عشنا کی چہرے پر اب بھی بے چینی رقم تھی۔ عالمگیر نے جھک کر اُس کے ماتھے پر لب رکھ دیا اور اُس کا ہاتھ تھام کر بیٹھ گیا۔

عشنا نیند میں ہونے کے باوجود عالمگیر کے لمس کو اپنے ماتھے پر محسوس کر کے ہلکے سے مسکرا دی۔

عالمگیر کو اب اُس کے چہرے پر سکون بکھرتا محسوس ہوا۔

شاید عشنا بھی 20 دنوں سے عالمگیر کے اسی لمس کے لیے ترس رہی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عالمگیر کمرے سے باہر آیا تو ابراہیم صاحب،کوثر بیگم اور رحمت بیگم اُس کی طرف بڑھے 

وہ لوگ عالمگیر کی نم آنکھیں بخوبی دیکھ سکتے تھے ۔

"مامو عشنا کو کیا ہوا ہے؟ "

عالمگیر ابراہیم صاحب سے پوچھنے لگا۔

"پتہ نہیں بیٹا۔۔۔۔جب سے اسلام آباد سے واپس آئی ہے تب سے اُسکی ایسی حالت ہے۔۔۔۔نہ کھاتی ہے نہ پیتی ہے۔۔۔۔بس کھوئی کھوئی رہتی ہے۔"

ابراہیم صاحب نے بتایا تو عالمگیر کو ایک بار پھر شرمندگی نے آ گھیرا۔

"مامو۔۔۔۔میں عشنا کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہوں۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُن کی بات کے اِختمام پر کہا۔

"لیکن بیٹا ابھی ڈاکٹر اُسے کچھ دن ہسپتال میں رکھنا چاہتے ہیں"

ابراہیم صاحب نے عشنا کو جس طرح عالمگیر کے لیے تڑپتے دیکھا تھا اُس کے بعد وہ عالمگیر کو عشنا کو لے جانے سے روک نہ سکے۔

"مامو ۔۔۔۔ڈاکٹر سے میں بات کر لونگا۔۔۔"

عالمگیر نے پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالتے ہوئے کہا۔

"لیکن عالمگیر۔۔۔۔ابھی عشنا کی رخصتی نہیں ہوئی۔۔۔اور اگر تم اُسے ایسے اپنے ساتھ لے گئے تو لوگ کیا کہیں گے؟ اور ہارون؟ ہم اُس سے کیا کہیں گے۔۔۔۔؟"

رحمت بیگم نے آگے آ کر کہا تو عالمگیر اُن کے آگے سر جھکا کر کھڑا ہو گیا۔

رحمت بیگم نے آہستہ سے اپنا ہاتھ اُس کے سر پر رکھ دیا۔

عالمگیر رحمت بیگم کے اُس کے سر سے ہاتھ ہٹاتے ہی بولا۔

"امی۔۔۔۔عشنا میری بیوی ہے۔۔۔۔لوگ کچھ بھی کہیں۔۔۔مجھے فرق نہیں پڑتا۔ ہمارا نکاح ہو چکا ہے جو کہ شرعی اور قانونی رشتہِ ہے اور اس رشتے کے تحت دنیا کی کوئی طاقت مجھے عشنا کو لے جانے سے نہیں روک سکتی۔۔۔۔اور میں ان دنیاوی رسموں کے لیے اپنی بیوی کو ایسے تکلیف میں نہیں رکھ سکتا۔

رہی بات ہارون مامو کی تو اُنھیں سمجھانا آپ لوگو کا کام ہے۔ میں عشنا کو ابھی کے ابھی اسلام آباد لے جا رہا ہوں اور اگر ضرورت پڑی تو دنیا کے کسی بھی کونے میں لے جاؤنگا۔ میری عشنا کو میں ایسے تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا۔"

عالمگیر نے کہا اور ایک نظر ابراہیم صاحب،کوثر بیگم اور رحمت بیگم پر ڈالتا ڈاکٹر کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔

"آپا۔۔۔۔عالمگیر جو کر رہا ہے اس وقت عشنا کے لیے وہی ٹھیک ہے۔ عشنا کا علاج ڈاکٹر کے پاس نہیں بلکہ عالمگیر کے پاس ہے۔ 

عشنا کو ڈاکٹر کی نہیں عالمگیر کی ضرورت ہے۔ پلیز آپا۔۔۔۔میرا یقین کریں۔۔۔۔میں نے عشنا کی آنکھوں میں عالمگیر کے لیے اور عالمگیر کی آنکھوں میں عشنا کے لیے جو تڑپ دیکھی ہے اُس کے بعد میں عالمگیر کو عشنا کے ساتھ جانے سے نہیں روک سکتا۔"

ابراہیم صاحب نے رحمت بیگم سے کہا۔ تو اُنہونے ہاں میں سر کو جنبش دی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عالمگیر ڈاکٹر کے کیبن میں آیا تو ڈاکٹر نے عالمگیر سے مصافحہ کیا اور اُسے بیٹھنے کا کہا۔

"ڈاکٹر میں عشنا کو اسلام آباد لے جانا چاہتا ہوں تاکہ اُس کا زیادہ بہتر علاج ہو سکے۔ اور اگر آپ عشنا کو کہیں اور لے جانے کے لیے کہیں گے تو میں عشنا کو دنیا کے کسی بھی کونے میں لے جانے کے لیے تیار ہوں۔۔۔۔آپ صرف یہ بتا دیجئے میری عشنا کیسے ٹھیک ہوگی۔"

عالمگیر نے ٹیبل پر دونوں ہاتھ رکھ کر باہم پھنساتے ہوئے پریشانی سے کہا۔

ڈاکٹر عالمگیر کو دیکھ کر مسکرائے۔

"عالمگیر۔۔۔۔عالمگیر سجّاد رائیٹ؟"

ڈاکٹر نے عالمگیر کی طرف ایک انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے اُس کے نام کی تصدیق چاہی۔

"جی۔۔۔"

عالمگیر نے جی کہہ کر ڈاکٹر کو دیکھا جو اب بھی چہرے پر مسکان سجائے اُسے دیکھ رہے تھے۔

"عالمگیر صاحب آپ کو پتہ ہے آپ کی وائف کو کیا کس وجہ سے یہاں ہسپتال میں رکھا گیا ہے؟"

ڈاکٹر نے عالمگیر کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"نہیں۔۔۔آئ مین۔۔۔شاید فیور کی زیادتی کی وجہ سے؟"

عالمگیر گڑبڑا گیا۔

"جی فیور بھی ایک وجہ ہے لیکن اُن کے ہسپتال میں ہونے کی ایک وجہ آپ  بھی ہیں۔۔۔پچھلی بار بھی جب انہیں یہاں لایا گیا تھا تب بھی وہ صرف آپ کا نام لیتی رہیں تھیں اور اب بھی۔۔۔۔دیکھیے عالمگیر صاحب۔۔۔سائنس بھلے ہی بہت ترقی کر لے۔۔۔۔لیکن محبت کی جدائی میں تڑپتے انسان کا علاج اُس کے محبوب کے ساتھ کے علاوہ کچھ نہیں۔ آپ بلکل عشنا کو اپنے ساتھ لے جائیں لیکن آپ کو اُنھیں دنیا کے کسی کونے میں لے جانے کی ضرورت نہیں۔۔۔بس آپ اُن کے ساتھ رہیں۔۔۔وہ خود بہ خود ٹھیک ہو جائیگی۔باقی دوائیں میں نے لکھ دی ہے اُنھیں دیتے رہیں اور اُنکی غذا کا خاص خیال رکھیں۔"

ڈاکٹر نے مسکراتے ہوئے اُسے عشنا کے بارے میں بتایا تو ایک بار پھر اُسے اپنی محبت پر رشک آیا۔

"ٹھیک ہے ڈاکٹر پھر میں عشنا کو ڈسچارج کروا لیتا ہوں۔"

عالمگیر نے کہنے کے ساتھ ڈاکٹر کے سامنے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا تو ڈاکٹر نے بھی کھڑے ہو کر اُس سے ہاتھ ملایا  اور بولے

"عالمگیر صاحب ۔۔۔آپ عشنا کو لے جائیں لیکن ابھی نہیں صبح۔۔۔عشنا کا ابھی سفر کرنا ٹھیک نہیں۔۔۔کل تک اُن کی حالت تھوڑی تسلی بخش ہو جائے تو آپ بےشک اُنھیں لے جا سکتے ہیں۔ "

ڈاکٹر نے عالمگیر کا ہاتھ تھامے تھامے کہا تو عالمگیر نے ہاں میں سر کو جنبش دی اور کمرے سے باہر نکل گیا۔


 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عالمگیر واپس عشنا کے کمرے کے پاس آیا۔

"مامو امی اور مامی آپ لوگ گھر جائیں۔ میں عشنا کے پاس ہی ہوں۔۔۔ڈاکٹر نے کہا ہے کل میں اُسے اسلام آباد لے جا سکتا ہوں۔"

 عالمگیر نے ابراہیم صاحب،کوثر بیگم اور رحمت بیگم کو گھر جانے کا کہا۔

"لیکن بیٹا۔۔۔آپ کو بھی تو آرام کرنے کو ضرورت ہے۔۔۔آپ ابھی تو پیریس سے آئے ہیں۔۔۔"

رحمت بیگم نے عالمگیر کے لیے فکرمند ہوتے ہوئے کہا۔

"امی۔۔۔میں عشنا کے پاس ہی ٹھیک ہو۔۔۔۔آپ لوگ پلیز گھر جائیں۔۔۔۔"

عالمگیر کہتا ہوا دروازہ کھول کر عشنا کے کمرے میں چلا آیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عالمگیر کمرے میں آیا تو عشنا ایسے ہی آنکھیں موندیں سو رہی تھی۔ 

عالمگیر چلتا ہوا اُس کے پاس آیا اور اُس کے بیڈ کے پاس پڑی چیئر پر بیٹھ گیا اور اُسکا ہاتھ تھام لیا۔

عشنا ویسے ہی بے حس و حرکت پڑی رہی۔

"عشنا۔۔۔یہ کیا کر لیا تم نے؟ کیا حال بنا لیا؟ اگر تمہیں کچھ ہو جاتا تو؟ تمہارا عالمگیر تو مر ہی جاتا۔۔۔۔"

عالمگیر اُس کا ہاتھ تھامے اُس سے شکایتیں کر رہا تھا اور عالمگیر کی آنکھوں سے نکلتے آنسوں عشنا کا ہاتھ بھیگا رہے تھے۔

عشنا نے کسی احساس کے تحت آنکھیں خول کر دیکھا تو عالمگیر اُس کا ہاتھ تھامے اُس سے شکاتیں کر رہا تھا اور ساتھ اُس کی آنکھوں سے آنسو بھی بہہ رہے تھے۔

"عالم۔۔۔عالمگیر۔۔۔۔"

عشنا نے آہستہ سے عالمگیر کو پُکارا۔

عالمگیر جو عشنا کہ ہاتھ اپنے گال سے لگائے سر جھکائے بیٹھا تھا عشنا کی آواز پر سر اٹھا کر دیکھا۔

"ہاں جان۔۔۔۔"

عالمگیر نے عشنا کو دیکھتے ہوئے کہا۔

"عالم۔۔۔عالمگیر آپ ۔۔۔آپ رو رہے ہیں۔۔۔۔۔؟۔۔۔آپ کو درد۔۔۔۔عالمگیر آپ کا کندھا کیسا ہے اب؟ آپ ٹھیک تو ہیں۔۔۔۔؟ میں ڈاکٹر کو بلاتی ہوں۔۔۔۔"

عشنا نے نقاہت سے کہا اور ساتھ ہی اٹھنے کی بھی کوشش کی۔

عالمگیر نے اُسے اٹھتے دیکھا تو آگے بڑھ کر اُس کے بیڈ کے کنارے بیٹھ کر اُسے سہارا دے کر اٹھایا۔

عشنا نے پاس کھڑی نرس کو بولنا چاہا۔

"عشنا۔۔۔میں ٹھیک ہوں۔۔۔ میرا کندھا بھی اب ٹھیک ہو چکا ہے۔۔۔تم فکر مت کرو۔۔۔جان تم اپنی صحت کا خیال رکھو۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُسے کندھوں سے تھام رکھا تھا۔

"مجھے اپنا خیال رکھنے کی کیا ضرورت۔۔۔۔۔اُس کے لیے آپ ہیں نا میرے پاس۔۔۔۔"

عشنا نے نقاہت سے کہا اور سر اُس کے سینے سے ٹیکا دیا ۔اُس کو ب بیٹھنے میں پریشانی ہو رہی تھی۔

عالمگیر نے آہستہ سے اُسے لیٹا دیا اور پھر سے آکر چیئر پر بیٹھنا چاہا۔

عشنا نے اُسکا ہاتھ تھام کر اُسے بیڈ سے اٹھنے سے روک دیا

"آپ یہیں بیٹھیں۔۔۔میرے پاس۔۔۔۔"

عشنا نے اُسے دیکھتے ہوئے درخواست کی۔

"ٹھیک ہے۔۔۔۔میں اپنی جان کے پاس ہی ہوں۔۔۔اب آپ نے آرام سے سو جانا ہے اور ٹینشن بلکل نہیں لینی ہے۔۔۔۔میں یہی ہوں۔۔۔۔ٹھیک؟"

عالمگیر نے پیار سے اُس کی ناک پر بلکہ سا دباؤ ڈال کر کہا تو عشنا مسکرا دی۔

عالمگیر نے مسکرا کر اُسے دیکھا اور جھک کر اُس کے ماتھے پر اپنے لب رکھ کر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔

عشنا بیڈ پر لیٹے لیٹے ہی عالمگیر کو دیکھے گئی۔ عالمگیر بھی مسکراتے ہوئے اُسے ہی دیکھ رہا تھا

"عالم۔۔۔۔۔۔۔"

"ششش۔۔۔۔"

عشنا نے کچھ کہنا چاہا لیکن عالمگیر نے اُس کے لبوں پر انگلی رکھا کر اُسے کچھ بھی کہنے سے روک دیا۔۔

"جان ہم بہت ساری باتیں کریں گے۔۔۔لیکن کل۔۔۔ابھی تم آرام کرو۔۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُسے بولنے کے لیے منع کرتے ہوئے کہا۔

"لیکن عالم۔۔۔۔"

عشنا نے پھر کچھ کہنا چاہا۔

"عشنا ۔۔۔۔۔میرے لیے۔۔۔۔۔میرے لیے ۔۔۔۔۔ ابھی تم سو جاؤ۔۔۔۔ہم کل ڈھیر ساری باتیں کرینگے۔۔۔۔ٹھیک ہے۔۔۔۔"

عالمگیر نے پھر سے اُسے روک دیا  اور سونے کو کہا۔

عشنا نے گردن کو ہاں میں جنبش دی اور آنکھیں موند لی۔

عالمگیر تھوڑی دیر عشنا کو دیکھتا رہا ۔

کچھ دیر بعد عالمگیر نے عشنا کہ ہاتھ اپنے ہاتھ سے نکالا تو دیکھا عشنا جو چہرے پر ہلکی سی مسکان سجائے سو رہی تھی عالمگیر کا ہاتھ، عشنا کے ہاتھ سے نکالتے ہی عشنا کے چہرے پر بے چینی ہی بےچینی پھیل گئی۔

عالمگیر نے مسکراتے ہوئے اُسکا ہاتھ ایک بار پھر تھام لیا۔

عشنا پھر سے پرسکون ہو گئی۔

عالمگیر پوری رات اُسکا ہاتھ تھامے بیٹھا رہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عشنا کی آنکھ کھلی تو دیکھا عالمگیر عشنا کا ہاتھ تھامے اُس کے سرہانے بیٹھا تھا ۔

عالمگیر کی آنکھیں رات بھر جاگنے کی وجہ سے سرخ ہو رہی تھیں۔

عالمگیر نے عشنا کو آنکھ کھولتے دیکھا تو جھک کر اُس کے ماتھے پر لب رکھ کر سیدھا ہوا۔

"اب کیسا لگ رہا ہے جان۔۔۔۔؟

عالمگیر نے اُس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔"

عشنا نے مسکراتے ہوئے کہا۔

"آپ ساری رات جاگتے رہے؟"

عشنا نے اُس کی سرخ آنکھوں کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"میں اپنی جان کے لیے ساری زندگی جاگ سکتا ہوں۔۔۔"

عالمگیر نے محبت میں ڈوبے لحظے میں کہا۔

ابھی عشنا کچھ کہنا ہی چاہتی تھی کہ نرس کمرے میں داخل ہوئی۔

"گڈ مارننگ میم۔۔۔ اب کیسا فیل کر رہی ہیں آپ؟"

نرس نے پیشہ وارانہ مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا۔

"ٹھیک ہو۔۔۔"

عشنا نے اُسے دیکھ کر کہا۔

عالمگیر نرس کے آتے ہی عشنا کے سرہانے سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا تھا۔

نرس نے آگے بڑھ کر عشنا کا بلڈ پریشر چیک کیا پھر اُس کے منہ میں تھرما میٹر رکھ کر اُسکا بخار چیک کرنے لگی۔ 

نرس نے تھرما میٹر عشنا کے منہ سے نکال کر اُس کا بخار پاس رکھی اُس کی فائل میں نوٹ کیا۔

اتنی دیر میں ڈاکٹر بھی کمرے میں آتے دکھائی دیے۔

"کیسی ہیں مسز عالمگیر۔۔۔۔"

ڈاکٹر نے مسکرا کر کہا تو عشنا نے عالمگیر کو اور پھر ڈاکٹر کو دیکھا۔ کیونکہ ڈاکٹر اُسے ہمیشہ مس ابراہیم کہا کرتے تھے۔

ڈاکٹر عشنا کی آنکھوں میں سوال دیکھ کر مسکرائے۔

"مسز عشنا عالمگیر آپ پچھلی بار اور اُس بار جب جب ہسپتال لائیں گئیں ہے تب تب آپ نے صرف اور صرف عالمگیر نام کی رٹ لگا رکھی تھی۔

پہلے تو مجھے لگا عشق و عاشقی کا معاملہ ہے ۔ لیکن آپ کے فادر نے بتایا کہ عالمگیر آپ کے ہسبنڈ کا نام ہے۔ مسز عالمگیر ۔۔۔۔شوہر سے پیار کرنا اچھی بات ہے لیکن ایسے ۔۔خود کو بیمار کر لینا اچّھی بات نہیں۔۔۔۔آپ ان سے ناراضگی ظاہر کرنے کا کوئی اور طریقہ اپنائیں۔۔۔۔"

ڈاکٹر نے ہنس کر کہا اور عشنا کی فائل چیک کی۔ ساتھ ہی نرس کو کچھ ہدایات بھی دینے لگے ۔

عشنا نے عالمگیر کو دیکھا جو اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔

ڈاکٹر نے آگے بڑھ کر عالمگیر سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔

"مسٹر عالمگیر ۔۔۔۔آپ اپنی وائف کو اسلام آباد لے جا سکتے ہیں۔۔۔۔میں نے اُس کے کیس کی ساری ہسٹری فائل میں لکھ دی ہے۔ آپ جہاں چاہیں جس ڈاکٹر کو چاہئیں یہ ہسٹری دیکھا کر ان کا علاج جاری رکھ سکتے ہیں۔ویسے اب انہیں زیادہ سے زیادہ آرام اور غذا کی ضرورت ہے۔ آپ انکا خیال رکھیں اور میری بتائی ہوئی ادویات کھلاتے رہیں۔۔۔۔انشاء اللہ جلد ہی یہ صحت یاب ہو جائیگی۔"

ڈاکٹر نے پیشہ وارانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا اور باہر نکل گئے۔

نرس نے آگے بڑھ کر عشنا کے ہاتھ میں ڈریپ لگا دی اور کمرے سے باہر آ گئی۔

عالمگیر نے عشنا کو دیکھا اور بولا۔

"میں ڈسچارج کی فورمیلیٹی پوری کر لوں۔۔۔"

عالمگیر کہتا ہوا باہر کی طرف بڑھا۔

"عالم۔۔۔۔عالمگیر میں۔۔۔میں آپ کے ساتھ۔۔۔"

عشنا نے روتے ہوئے کہا۔

"جان۔۔۔۔جان۔۔۔جان۔۔۔۔میں تمہیں چھوڑ کر نہیں جا رہا۔۔۔بلکہ میں تمہیں اپنے ساتھ اسلام آباد لے جا رہا ہوں۔۔۔۔تم رونا نہیں بلکل۔۔۔"

عالمگیر تیزی سے اُس کے پاس آیا اور عشنا جو اٹھنے کی کوشش کر رہی تھی اُسے کندھوں سے تھام کر سینے سے لگاتا ہوا بولا۔

"لیکن ابّو۔۔۔ابو نہیں مانیں گے۔"

عشنا نے سر اٹھا کر عالمگیر کو دیکھا۔

"میں نے مامو سے بات کر لی ہے۔میں تمہیں اپنے ساتھ لے جا رہا ہو۔۔۔"

عالمگیر نے اُسے تسلّی دی اور آہستہ سے بیڈ پر لیٹا دیا۔

عالمگیر جو ریسیپشن کی طرف جا رہا تھا ابراہیم صاحب کے ساتھ کوثر بیگم اور رحمت بیگم کو اندر آتا دیکھا تو اُنھیں عشنا کا خیال رکھنے کا کہتا باہر کی طرف بڑھ گیا۔

"کیسی ہو بیٹا۔۔۔"

ابراہیم صاحب، کوثر بیگم اور رحمت بیگم عشنا کے بیڈ کے پاس آئے اور اُس سے حال دریافت کیا۔

"ٹھیک ہوں ابّو۔۔۔"

عشنا نے باری باری تینوں کو دیکھا اور مسکرا کر بولی۔

تھوڑی دیر تک وہ لوگ عشنا کے پاس بیٹھے اُس سے باتیں کرتے رہے ۔ عالمگیر بلز وغیرہ پے کر کے ڈسچارج پیپرس بنوا کر واپس عشنا کے کمرے میں آیا تو دیکھا عشنا نیم دراز بیٹھی اُن سب سے باتیں کر رہی ہے۔

عالمگیر چلتا ہوا عشنا کے بیڈ  کے پاس آ کر رکا۔

"مامو میں نے سارے پیپرس بنوا لیے ہیں ۔ میں تھوڑی دیر میں عشنا کو لے کر اسلام آباد کے لیے نکلوں گا۔"

عالمگیر نے ابراہیم صاحب سے کہا اور سب کو ساتھ لے کر باہر آ گیا۔

نرس نے سب کے جاتے ہی عشنا کے کپڑے تبدیل کرنے میں اُس کی مدد کی۔

 تھوڑی دیر بعد عالمگیر کمرے میں آیا اور عشنا کے بیڈ پر جھک کر اُسے اپنی گود میں اٹھا لیا۔

"عالم۔۔۔عالمگیر یہ کیا کر رہیں ہیں۔۔۔۔"

عشنا نے گھبرا کر پوچھا۔

"کچھ نہیں۔۔۔بس اپنی پیاری سی بیوی کو اپنے ساتھ لے جا رہا ہوں۔۔۔"

عالمگیر نے جھک کر اُس کی ناک سے اپنی ناک مس کرتے ہوئے کہا۔

"لیکن عالمگیر۔۔۔۔ابّو امی اور پھوپھو بھی ہیں باہر۔۔۔"

عشنا اب بھی پریشان تھی اور بار بار دروازے پر دیکھے جا رہی تھی۔

"کیسی غیر کو نہیں اپنی بیوی کو اٹھایا ہے جان۔۔۔۔اور کوئی کچھ نہیں کہتا۔۔۔۔کوئی کچھ کہے تب بھی تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔۔۔"

عالمگیر نے کہا اور باہر کی طرف بڑھ گیا۔

عشنا مارے شرم کے نظریں جھکا گئی۔

عالمگیر جلتا ہوا کوریڈور میں آیا جہاں ابراہیم صاحب کے ساتھ کوثر بیگم اور رحمت بیگم بھی کھڑی تھی۔عالمگیر اُسے لیے کوریڈور عبور کرتا پارکنگ میں کھڑی اپنی کار تک آیا اور عشنا کو بیک سیٹ پر بیٹھا دیا ۔ 

عشنا کو کار میں بیٹھانے کے بعد عالمگیر ابراہیم صاحب سے مصافحہ کرتا رحمت بیگم اور کوثر بیگم سے پیار لیتا گھوم کر دوسری طرف آیا اور عشنا کے برابر میں بیٹھ گیا۔

عشنا کی فائلز وغیرہ وہ پہلے ہی کار میں رکھ چکا تھا۔

کوثر بیگم اور رحمت بیگم نے آگے بڑھ کر عشنا کو پیار کیا اور ابراہیم صاحب نے اُس کے سر پر ہاتھ رکھا تھا۔

سب سے ملنے کے بعد عالمگیر نے ڈرائیور کو اشارہ کیا تو اُس نے کار آگے بڑھا لی۔ عشنا سب کو کھڑکی سے بائے کرنے لگی۔

کار جب ہسپتال کے احاطے سے دور نکل گئی تو عشنا نے عالمگیر کے کندھے پر سر رکھ کر آنکھیں موند لی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عالمگیر لاہور ایئرپورٹ سے تقریباً بھاگتے ہوئے پارکنگ میں آیا تھا اور اپنی کار جو اس نے پہلے ہی بک کر رکھی تھی اُس کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر کار کو ہسپتال کے راستے پر ڈال دی۔

وہ تیزی سے کار چلاتا 20 منٹس کا راستہ 10 منٹ میں طے کرتا ہسپتال پہونچا اور کار کو گیٹ کے اندر لاکر تیزی سے کار سے نکلا اور ہسپتال کے اندر کی طرف بھاگتا ہوا ر ریسیپشن پر آ کر عشنا کے بارے میں پتہ کرتا مطلوبہ کمرے کے طرف بڑھا۔

عشنا کو سیکنڈ فلور کے ایک پرائیویٹ روم میں رکھا گیا تھا۔

وہ اب بھی غنودگی میں تھی اور بار بار عالمگیر کو پکارے جا رہی تھی۔

" عالمگیر کون ہیں؟ آپ پلیز اُنھیں بولا دیں۔۔۔۔۔"

نرس نے عشنا کے کمرے سے باہر آ کر ابراہیم صاحب سے کہا۔

"جی میں نے۔۔۔۔"

ابراہیم صاحب ابھی نرس کو بتا ہی رہے تھے کہ اُنہونے نے عالمگیر کو بولا لیا ہے اور وہ آتا ہی ہوگا اُس کے پہلے ہی عالمگیر بھاگتا ہوا اُن کے پاس آیا تھا۔

"مامو۔۔۔۔مامو عشنا کیسی ہے؟ کہا ہے۔۔۔۔؟"

عالمگیر ابراہیم صاحب کا بازو پکڑتے ہوئے اُن سے عشنا کا پوچھنے لگا۔

کوثر بیگم اور رحمت بیگم عالمگیر کی دیکھ کر کھڑی ہو گئی تھیں۔

"آپ عالمگیر ہیں؟"

نرس نے عالمگیر کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"جی۔۔۔۔۔نرس میری عشنا ۔۔۔۔؟"

عالمگیر نرس کی طرف بڑھا۔

"آئیے میرے ساتھ۔"

نرس نے کہا تو عالمگیر نرس کے ساتھ چلتا ہوا  کمرے میں آیا ۔

عشنا سفید چادر سینے تک اوڑھے آنکھیں بند کئے بیڈ پر دراز تھی۔ اُس کے بائیں ہاتھ میں گلوکوز کی سلائن لگی تھی۔

عالمگیر پھٹی پھٹی نظروں سے عشنا کو دیکھے گیا۔ یہ وہ عشنا تو نہیں تھی جسے وہ 20 دِن پہلے اسلام آباد میں چھوڑ کر گیا تھا۔ یہ تو اُس عشنا سے بلکل مختلف تھی۔

عالمگیر کو لگا اُس میں اندر جانے کی ساری طاقت ختم ہو گئی ہے۔ عشنا کی بند آنکھیں دیکھ کر اسکو اپنی دھڑکن بند ہوتی محسوس ہوئی۔

وہ لڑکھڑاتے قدموں سے چلتا ہوا عشنا کے بیڈ کے سرہانے تک آیا اور دھیرے سے اُسکا سلائن لگا ہوا ہاتھ تھام کر اپنے ہاتھوں میں لیتا ہوا اپنے لب سے چھو کر ایسے ہی پکڑے عشنا کے زرد چہرے کو دیکھنے لگا ۔ اُس کی آنکھوں سے آنسوں بہہ کر عشنا کا ہاتھ بھیگانے لگے۔

عالمگیر ایسے ہی اُسکا ہاتھ پکڑے کھڑا رہا ۔

اچانک عشنا کے آنکھوں میں جنبش ہوئی اور اُس نے آہستہ سے آنکھیں کھول دی اور سامنے عالمگیر کو دیکھ کر پہلے تو اُسے دیکھتی رہی اور پھر آہستہ سے آنکھیں موند گئی۔

عالمگیر نے اُسے آنکھیں کھولتے دیکھ کر ایک پل میں اپنے دل کو مسرت سے بھرتے محسوس کیا لیکن عشنا کو آنکھیں بند کرتا دیکھ وہ بے چین ہو گیا۔

عشنا نے آنکھیں خولی اور عالمگیر کو اپنے پاس دیکھ کر اُسے یقین نہیں آیا کہ عالمگیر سچ میں  اُس کے پاس ہے۔ اُسے یہ اپنی نظروں کا دھوکا لگا اور اُس نے کرب سے آنکھیں بند کر لی۔

"عشنا۔۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُسے آنکھیں بند کرتے دیکھا تو بے چینی سے عشنا کو پُکارا۔

عشنا نے آنکھیں بند رکھی۔

عالمگیر۔۔۔۔کہاں چلے گئے ہیں آپ۔۔۔۔پلیز آ جائے۔۔۔۔پلیز۔۔۔۔۔آپ کی عشنا مر جائیگی۔۔۔۔پلیز آ جائے۔۔۔۔دیکھیے، اب آپ مجھے ہر جگہ نظر آ رہے ہیں۔۔۔مجھے لگ رہا ہے آپ میرے پاس ہی ہیں۔۔۔مجھے تو آپ کی آواز بھی سنائی دے رہی ہے۔۔۔۔پلیز آ جائے۔۔۔۔"

عشنا آنکھیں بند کیے دل ہی دل میں عالمگیر سے بات کیے جا رہی تھی۔ اُسے بولا رہی تھی۔ 

عشنا کی آنکھوں سے دو موتی ٹوٹ کر تکیے میں جذب ہو گئے۔

"عشنا ۔۔۔"

عالمگیر نے عشنا کے آنکھوں سے بہتے آنسو دیکھ لیے تھے۔ عشنا کے جواب نہ دینے پر عالمگیر نے پھر سے اُسے پُکارا۔

دوسری بار عالمگیر کی پُکار پر عشنا نے آہستہ سے آنکھیں خول کر عالمگیر کو دیکھا اور پھر اپنے ہاتھ کو جو عالمگیر اپنے دونوں ہاتھوں میں تھامے کھڑا بھیگی آنکھوں سے اُسے دیکھ رہا تھا۔

"عالم۔۔۔۔عالمگیر۔۔۔۔"

عشنا نے عالمگیر کی دیکھتے ہوئے مشکل سے اُسکا نام لیا۔

اُس کے اندر بولنے کی بھی سکت باقی نہیں تھی۔

"ہاں جان۔۔۔دیکھو میں آ گیا۔۔۔میں آ گیا اپنی جان کے پاس۔۔۔"

عالمگیر نے اُسے محبت سے دیکھتے ہوئے اپنے ہونے کا یقین دلانا چاہا

"عالم۔۔عالمگیر ۔۔آپ۔۔۔۔آپ۔۔۔آ گئے۔۔۔۔آپ۔۔۔عالم۔۔۔۔دیکھیں آپکی عشنا ۔۔۔۔آپ کی عشنا۔۔۔۔۔"

عشنا کی آنکھوں سے آنسوؤں بہنے لگے۔ اُن نے آنسوؤں کے درمیان عالمگیر کے ہاتھوں کو چھو کر اُس کے ہونے کا یقین کرنا چاہا۔

"ہاں جان۔۔۔میں ہوں۔۔۔۔میں ہوں تمہارے پاس۔۔۔۔دیکھو۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کے ہاتھوں پر دباؤ ڈال کر اُس کے یقین کو پختہ کرنا چاہا تھا۔

"عالم۔۔۔"۔

عشنا نے اٹھنا چاہا تو عالمگیر اُسے کندھوں سے تھام کر  بیڈ پر بیٹھا دیا لیکن عشنا میں بیٹھنے کی بھی سکت نہیں تھی وہ گہری گہری سانسیں لینے لگی

عالمگیر نے دھیرے سے اُسے اپنے ساتھ لگا لیا۔

عشنا نے آہستہ سے اپنا سلائن لگا ہوا ہاتھ اٹھا کر عالمگیر کی پیٹھ پر رکھ لیا۔

عشنا عالمگیر کے آغوش میں لپٹی بیٹھی تھی

عالمگیر عشنا کو تھامے بیٹھا اُس کے لمس میں کھو گیا

یہ وہی لمس تھا جس کے لیے وہ پچھلے 20 دنوں سے تڑپ رہا تھا۔

 عشنا کے لمس نے عالمگیر کی بے چینی، بے سکونی  کو کم کر دیا تھا۔ لیکن عشنا کو ایسی حالت میں دیکھ کر وہ پریشان  ضرور تھا۔

"عالمگیر۔۔۔۔آپ کیوں ۔۔۔کیوں چھوڑ کر گئے تھے مجھے۔۔۔کیوں۔۔۔۔"

عشنا نے رک رک کر بات پوری کی۔

"سوری جان۔۔۔۔مجھے معاف کر دو۔۔۔۔آئی ایم سو سوری۔۔۔۔"

عالمگیر اُس سے معافی مانگ رہا تھا۔

"ایکسکیوژ مي سر۔۔۔۔آپ پلیز پیشنٹ سے زیادہ بات نہ کریں۔۔۔انہیں ریسٹ کرنے دیں۔۔۔۔"

نرس نے کہا تو عالمگیر نے اپنے ہاتھوں کی پشت سے اپنے رخساروں پر بہتے آنسو صاف کیے اور آہستہ سے عشنا کو الگ کرنا چاہا۔

لیکن عشنا نے آہستہ سے سر کو اُس کے سینے پر یہاں وہاں مسلتے اُس سے الگ ہونے سے انکار کر دیا۔

"نہیں۔۔۔"

عشنا نے دھیرے سے کہا۔

عالمگیر نے آہستہ سے اُسے کندھوں سے تھام کر سامنے کیا تو عشنا نے اپنے داہنے ہاتھ سے اُس کو شرٹ کو کالر کے نیچے سے دبوچ لیا۔

"نہیں۔۔۔۔"

عشنا نے سر کو دائیں بائیں جنبش دی۔

"عشنا تمہیں ریسٹ کرنے کی ضرورت ہے۔۔۔"

عالمگیر نے آہستہ سے اُسے سمجھانا چاہا۔

"نہیں۔۔۔عالمگیر۔۔۔۔میں۔۔۔میں مر جاؤں گی۔۔۔۔"

عشنا نے روتے ہوئے نقاہت سے عالمگیر کو دیکھتے ہوئے کہا۔

"عشنا پلیز۔۔۔۔کچھ نہیں ہوگا تمہیں۔۔۔۔دیکھو میں تمہارے پاس ہوں۔۔۔۔"

عالمگیر نے پھر سے اُسے سینے سے لگا کر اُسے اپنے ہونے کا یقین دلایا۔

"سر پلیز۔۔۔انہیں انجکشن دینا ہے۔۔۔۔"

پاس کھڑی نرس پھر بولی۔

عالمگیر نے ایک بار پھر عشنا کو الگ کرنا چاہا تو عشنا نے پھر سے اُس سے الگ ہونے سے انکار کر دیا۔

 عالمگیر نے آہستہ سے عشنا کو ایسے ہی تھامے اُسکی کلائی سامنے کی۔ 

نرس نے عالمگیر کو دیکھا اور پھر عشنا کے بائیں طرف آ کر اُسے انجکشن لگانے لگی۔

نرس انجکشن لگا کر گئی تو عشنا تھوڑی ہی دیر میں غنودگی میں چلی گئی ۔

عشنا کی بھاری سانسیں عالمگیر اپنے بہت پاس سن سکتا تھا۔

اُس نے آہستہ سے عشنا کو الگ کرنا چاہا لیکن عشنا نے پیچھے سے اُس کی پیٹھ پر شرٹ کو مٹھیوں سے پکڑ رکھا تھا۔

عالمگیر نے آہستہ سے اُس کا ہاتھ اپنے شرٹ سے ہٹایا اور اُسے بیڈ پر لیٹا دیا۔

عشنا کی چہرے پر اب بھی بے چینی رقم تھی۔ عالمگیر نے جھک کر اُس کے ماتھے پر لب رکھ دیا اور اُس کا ہاتھ تھام کر بیٹھ گیا۔

عشنا نیند میں ہونے کے باوجود عالمگیر کے لمس کو اپنے ماتھے پر محسوس کر کے ہلکے سے مسکرا دی۔

عالمگیر کو اب اُس کے چہرے پر سکون بکھرتا محسوس ہوا۔

شاید عشنا بھی 20 دنوں سے عالمگیر کے اسی لمس کے لیے ترس رہی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عالمگیر کمرے سے باہر آیا تو ابراہیم صاحب،کوثر بیگم اور رحمت بیگم اُس کی طرف بڑھے 

وہ لوگ عالمگیر کی نم آنکھیں بخوبی دیکھ سکتے تھے ۔

"مامو عشنا کو کیا ہوا ہے؟ "

عالمگیر ابراہیم صاحب سے پوچھنے لگا۔

"پتہ نہیں بیٹا۔۔۔۔جب سے اسلام آباد سے واپس آئی ہے تب سے اُسکی ایسی حالت ہے۔۔۔۔نہ کھاتی ہے نہ پیتی ہے۔۔۔۔بس کھوئی کھوئی رہتی ہے۔"

ابراہیم صاحب نے بتایا تو عالمگیر کو ایک بار پھر شرمندگی نے آ گھیرا۔

"مامو۔۔۔۔میں عشنا کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہوں۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُن کی بات کے اِختمام پر کہا۔

"لیکن بیٹا ابھی ڈاکٹر اُسے کچھ دن ہسپتال میں رکھنا چاہتے ہیں"

ابراہیم صاحب نے عشنا کو جس طرح عالمگیر کے لیے تڑپتے دیکھا تھا اُس کے بعد وہ عالمگیر کو عشنا کو لے جانے سے روک نہ سکے۔

"مامو ۔۔۔۔ڈاکٹر سے میں بات کر لونگا۔۔۔"

عالمگیر نے پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالتے ہوئے کہا۔

"لیکن عالمگیر۔۔۔۔ابھی عشنا کی رخصتی نہیں ہوئی۔۔۔اور اگر تم اُسے ایسے اپنے ساتھ لے گئے تو لوگ کیا کہیں گے؟ اور ہارون؟ ہم اُس سے کیا کہیں گے۔۔۔۔؟"

رحمت بیگم نے آگے آ کر کہا تو عالمگیر اُن کے آگے سر جھکا کر کھڑا ہو گیا۔

رحمت بیگم نے آہستہ سے اپنا ہاتھ اُس کے سر پر رکھ دیا۔

عالمگیر رحمت بیگم کے اُس کے سر سے ہاتھ ہٹاتے ہی بولا۔

"امی۔۔۔۔عشنا میری بیوی ہے۔۔۔۔لوگ کچھ بھی کہیں۔۔۔مجھے فرق نہیں پڑتا۔ ہمارا نکاح ہو چکا ہے جو کہ شرعی اور قانونی رشتہِ ہے اور اس رشتے کے تحت دنیا کی کوئی طاقت مجھے عشنا کو لے جانے سے نہیں روک سکتی۔۔۔۔اور میں ان دنیاوی رسموں کے لیے اپنی بیوی کو ایسے تکلیف میں نہیں رکھ سکتا۔

رہی بات ہارون مامو کی تو اُنھیں سمجھانا آپ لوگو کا کام ہے۔ میں عشنا کو ابھی کے ابھی اسلام آباد لے جا رہا ہوں اور اگر ضرورت پڑی تو دنیا کے کسی بھی کونے میں لے جاؤنگا۔ میری عشنا کو میں ایسے تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا۔"

عالمگیر نے کہا اور ایک نظر ابراہیم صاحب،کوثر بیگم اور رحمت بیگم پر ڈالتا ڈاکٹر کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔

"آپا۔۔۔۔عالمگیر جو کر رہا ہے اس وقت عشنا کے لیے وہی ٹھیک ہے۔ عشنا کا علاج ڈاکٹر کے پاس نہیں بلکہ عالمگیر کے پاس ہے۔ 

عشنا کو ڈاکٹر کی نہیں عالمگیر کی ضرورت ہے۔ پلیز آپا۔۔۔۔میرا یقین کریں۔۔۔۔میں نے عشنا کی آنکھوں میں عالمگیر کے لیے اور عالمگیر کی آنکھوں میں عشنا کے لیے جو تڑپ دیکھی ہے اُس کے بعد میں عالمگیر کو عشنا کے ساتھ جانے سے نہیں روک سکتا۔"

ابراہیم صاحب نے رحمت بیگم سے کہا۔ تو اُنہونے ہاں میں سر کو جنبش دی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عالمگیر ڈاکٹر کے کیبن میں آیا تو ڈاکٹر نے عالمگیر سے مصافحہ کیا اور اُسے بیٹھنے کا کہا۔

"ڈاکٹر میں عشنا کو اسلام آباد لے جانا چاہتا ہوں تاکہ اُس کا زیادہ بہتر علاج ہو سکے۔ اور اگر آپ عشنا کو کہیں اور لے جانے کے لیے کہیں گے تو میں عشنا کو دنیا کے کسی بھی کونے میں لے جانے کے لیے تیار ہوں۔۔۔۔آپ صرف یہ بتا دیجئے میری عشنا کیسے ٹھیک ہوگی۔"

عالمگیر نے ٹیبل پر دونوں ہاتھ رکھ کر باہم پھنساتے ہوئے پریشانی سے کہا۔

ڈاکٹر عالمگیر کو دیکھ کر مسکرائے۔

"عالمگیر۔۔۔۔عالمگیر سجّاد رائیٹ؟"

ڈاکٹر نے عالمگیر کی طرف ایک انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے اُس کے نام کی تصدیق چاہی۔

"جی۔۔۔"

عالمگیر نے جی کہہ کر ڈاکٹر کو دیکھا جو اب بھی چہرے پر مسکان سجائے اُسے دیکھ رہے تھے۔

"عالمگیر صاحب آپ کو پتہ ہے آپ کی وائف کو کیا کس وجہ سے یہاں ہسپتال میں رکھا گیا ہے؟"

ڈاکٹر نے عالمگیر کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"نہیں۔۔۔آئ مین۔۔۔شاید فیور کی زیادتی کی وجہ سے؟"

عالمگیر گڑبڑا گیا۔

"جی فیور بھی ایک وجہ ہے لیکن اُن کے ہسپتال میں ہونے کی ایک وجہ آپ  بھی ہیں۔۔۔پچھلی بار بھی جب انہیں یہاں لایا گیا تھا تب بھی وہ صرف آپ کا نام لیتی رہیں تھیں اور اب بھی۔۔۔۔دیکھیے عالمگیر صاحب۔۔۔سائنس بھلے ہی بہت ترقی کر لے۔۔۔۔لیکن محبت کی جدائی میں تڑپتے انسان کا علاج اُس کے محبوب کے ساتھ کے علاوہ کچھ نہیں۔ آپ بلکل عشنا کو اپنے ساتھ لے جائیں لیکن آپ کو اُنھیں دنیا کے کسی کونے میں لے جانے کی ضرورت نہیں۔۔۔بس آپ اُن کے ساتھ رہیں۔۔۔وہ خود بہ خود ٹھیک ہو جائیگی۔باقی دوائیں میں نے لکھ دی ہے اُنھیں دیتے رہیں اور اُنکی غذا کا خاص خیال رکھیں۔"

ڈاکٹر نے مسکراتے ہوئے اُسے عشنا کے بارے میں بتایا تو ایک بار پھر اُسے اپنی محبت پر رشک آیا۔

"ٹھیک ہے ڈاکٹر پھر میں عشنا کو ڈسچارج کروا لیتا ہوں۔"

عالمگیر نے کہنے کے ساتھ ڈاکٹر کے سامنے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا تو ڈاکٹر نے بھی کھڑے ہو کر اُس سے ہاتھ ملایا  اور بولے

"عالمگیر صاحب ۔۔۔آپ عشنا کو لے جائیں لیکن ابھی نہیں صبح۔۔۔عشنا کا ابھی سفر کرنا ٹھیک نہیں۔۔۔کل تک اُن کی حالت تھوڑی تسلی بخش ہو جائے تو آپ بےشک اُنھیں لے جا سکتے ہیں۔ "

ڈاکٹر نے عالمگیر کا ہاتھ تھامے تھامے کہا تو عالمگیر نے ہاں میں سر کو جنبش دی اور کمرے سے باہر نکل گیا۔


 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عالمگیر واپس عشنا کے کمرے کے پاس آیا۔

"مامو امی اور مامی آپ لوگ گھر جائیں۔ میں عشنا کے پاس ہی ہوں۔۔۔ڈاکٹر نے کہا ہے کل میں اُسے اسلام آباد لے جا سکتا ہوں۔"

 عالمگیر نے ابراہیم صاحب،کوثر بیگم اور رحمت بیگم کو گھر جانے کا کہا۔

"لیکن بیٹا۔۔۔آپ کو بھی تو آرام کرنے کو ضرورت ہے۔۔۔آپ ابھی تو پیریس سے آئے ہیں۔۔۔"

رحمت بیگم نے عالمگیر کے لیے فکرمند ہوتے ہوئے کہا۔

"امی۔۔۔میں عشنا کے پاس ہی ٹھیک ہو۔۔۔۔آپ لوگ پلیز گھر جائیں۔۔۔۔"

عالمگیر کہتا ہوا دروازہ کھول کر عشنا کے کمرے میں چلا آیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عالمگیر کمرے میں آیا تو عشنا ایسے ہی آنکھیں موندیں سو رہی تھی۔ 

عالمگیر چلتا ہوا اُس کے پاس آیا اور اُس کے بیڈ کے پاس پڑی چیئر پر بیٹھ گیا اور اُسکا ہاتھ تھام لیا۔

عشنا ویسے ہی بے حس و حرکت پڑی رہی۔

"عشنا۔۔۔یہ کیا کر لیا تم نے؟ کیا حال بنا لیا؟ اگر تمہیں کچھ ہو جاتا تو؟ تمہارا عالمگیر تو مر ہی جاتا۔۔۔۔"

عالمگیر اُس کا ہاتھ تھامے اُس سے شکایتیں کر رہا تھا اور عالمگیر کی آنکھوں سے نکلتے آنسوں عشنا کا ہاتھ بھیگا رہے تھے۔

عشنا نے کسی احساس کے تحت آنکھیں خول کر دیکھا تو عالمگیر اُس کا ہاتھ تھامے اُس سے شکاتیں کر رہا تھا اور ساتھ اُس کی آنکھوں سے آنسو بھی بہہ رہے تھے۔

"عالم۔۔۔عالمگیر۔۔۔۔"

عشنا نے آہستہ سے عالمگیر کو پُکارا۔

عالمگیر جو عشنا کہ ہاتھ اپنے گال سے لگائے سر جھکائے بیٹھا تھا عشنا کی آواز پر سر اٹھا کر دیکھا۔

"ہاں جان۔۔۔۔"

عالمگیر نے عشنا کو دیکھتے ہوئے کہا۔

"عالم۔۔۔عالمگیر آپ ۔۔۔آپ رو رہے ہیں۔۔۔۔۔؟۔۔۔آپ کو درد۔۔۔۔عالمگیر آپ کا کندھا کیسا ہے اب؟ آپ ٹھیک تو ہیں۔۔۔۔؟ میں ڈاکٹر کو بلاتی ہوں۔۔۔۔"

عشنا نے نقاہت سے کہا اور ساتھ ہی اٹھنے کی بھی کوشش کی۔

عالمگیر نے اُسے اٹھتے دیکھا تو آگے بڑھ کر اُس کے بیڈ کے کنارے بیٹھ کر اُسے سہارا دے کر اٹھایا۔

عشنا نے پاس کھڑی نرس کو بولنا چاہا۔

"عشنا۔۔۔میں ٹھیک ہوں۔۔۔ میرا کندھا بھی اب ٹھیک ہو چکا ہے۔۔۔تم فکر مت کرو۔۔۔جان تم اپنی صحت کا خیال رکھو۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُسے کندھوں سے تھام رکھا تھا۔

"مجھے اپنا خیال رکھنے کی کیا ضرورت۔۔۔۔۔اُس کے لیے آپ ہیں نا میرے پاس۔۔۔۔"

عشنا نے نقاہت سے کہا اور سر اُس کے سینے سے ٹیکا دیا ۔اُس کو ب بیٹھنے میں پریشانی ہو رہی تھی۔

عالمگیر نے آہستہ سے اُسے لیٹا دیا اور پھر سے آکر چیئر پر بیٹھنا چاہا۔

عشنا نے اُسکا ہاتھ تھام کر اُسے بیڈ سے اٹھنے سے روک دیا

"آپ یہیں بیٹھیں۔۔۔میرے پاس۔۔۔۔"

عشنا نے اُسے دیکھتے ہوئے درخواست کی۔

"ٹھیک ہے۔۔۔۔میں اپنی جان کے پاس ہی ہوں۔۔۔اب آپ نے آرام سے سو جانا ہے اور ٹینشن بلکل نہیں لینی ہے۔۔۔۔میں یہی ہوں۔۔۔۔ٹھیک؟"

عالمگیر نے پیار سے اُس کی ناک پر بلکہ سا دباؤ ڈال کر کہا تو عشنا مسکرا دی۔

عالمگیر نے مسکرا کر اُسے دیکھا اور جھک کر اُس کے ماتھے پر اپنے لب رکھ کر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔

عشنا بیڈ پر لیٹے لیٹے ہی عالمگیر کو دیکھے گئی۔ عالمگیر بھی مسکراتے ہوئے اُسے ہی دیکھ رہا تھا

"عالم۔۔۔۔۔۔۔"

"ششش۔۔۔۔"

عشنا نے کچھ کہنا چاہا لیکن عالمگیر نے اُس کے لبوں پر انگلی رکھا کر اُسے کچھ بھی کہنے سے روک دیا۔۔

"جان ہم بہت ساری باتیں کریں گے۔۔۔لیکن کل۔۔۔ابھی تم آرام کرو۔۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُسے بولنے کے لیے منع کرتے ہوئے کہا۔

"لیکن عالم۔۔۔۔"

عشنا نے پھر کچھ کہنا چاہا۔

"عشنا ۔۔۔۔۔میرے لیے۔۔۔۔۔میرے لیے ۔۔۔۔۔ ابھی تم سو جاؤ۔۔۔۔ہم کل ڈھیر ساری باتیں کرینگے۔۔۔۔ٹھیک ہے۔۔۔۔"

عالمگیر نے پھر سے اُسے روک دیا  اور سونے کو کہا۔

عشنا نے گردن کو ہاں میں جنبش دی اور آنکھیں موند لی۔

عالمگیر تھوڑی دیر عشنا کو دیکھتا رہا ۔

کچھ دیر بعد عالمگیر نے عشنا کہ ہاتھ اپنے ہاتھ سے نکالا تو دیکھا عشنا جو چہرے پر ہلکی سی مسکان سجائے سو رہی تھی عالمگیر کا ہاتھ، عشنا کے ہاتھ سے نکالتے ہی عشنا کے چہرے پر بے چینی ہی بےچینی پھیل گئی۔

عالمگیر نے مسکراتے ہوئے اُسکا ہاتھ ایک بار پھر تھام لیا۔

عشنا پھر سے پرسکون ہو گئی۔

عالمگیر پوری رات اُسکا ہاتھ تھامے بیٹھا رہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عشنا کی آنکھ کھلی تو دیکھا عالمگیر عشنا کا ہاتھ تھامے اُس کے سرہانے بیٹھا تھا ۔

عالمگیر کی آنکھیں رات بھر جاگنے کی وجہ سے سرخ ہو رہی تھیں۔

عالمگیر نے عشنا کو آنکھ کھولتے دیکھا تو جھک کر اُس کے ماتھے پر لب رکھ کر سیدھا ہوا۔

"اب کیسا لگ رہا ہے جان۔۔۔۔؟

عالمگیر نے اُس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔"

عشنا نے مسکراتے ہوئے کہا۔

"آپ ساری رات جاگتے رہے؟"

عشنا نے اُس کی سرخ آنکھوں کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"میں اپنی جان کے لیے ساری زندگی جاگ سکتا ہوں۔۔۔"

عالمگیر نے محبت میں ڈوبے لحظے میں کہا۔

ابھی عشنا کچھ کہنا ہی چاہتی تھی کہ نرس کمرے میں داخل ہوئی۔

"گڈ مارننگ میم۔۔۔ اب کیسا فیل کر رہی ہیں آپ؟"

نرس نے پیشہ وارانہ مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا۔

"ٹھیک ہو۔۔۔"

عشنا نے اُسے دیکھ کر کہا۔

عالمگیر نرس کے آتے ہی عشنا کے سرہانے سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا تھا۔

نرس نے آگے بڑھ کر عشنا کا بلڈ پریشر چیک کیا پھر اُس کے منہ میں تھرما میٹر رکھ کر اُسکا بخار چیک کرنے لگی۔ 

نرس نے تھرما میٹر عشنا کے منہ سے نکال کر اُس کا بخار پاس رکھی اُس کی فائل میں نوٹ کیا۔

اتنی دیر میں ڈاکٹر بھی کمرے میں آتے دکھائی دیے۔

"کیسی ہیں مسز عالمگیر۔۔۔۔"

ڈاکٹر نے مسکرا کر کہا تو عشنا نے عالمگیر کو اور پھر ڈاکٹر کو دیکھا۔ کیونکہ ڈاکٹر اُسے ہمیشہ مس ابراہیم کہا کرتے تھے۔

ڈاکٹر عشنا کی آنکھوں میں سوال دیکھ کر مسکرائے۔

"مسز عشنا عالمگیر آپ پچھلی بار اور اُس بار جب جب ہسپتال لائیں گئیں ہے تب تب آپ نے صرف اور صرف عالمگیر نام کی رٹ لگا رکھی تھی۔

پہلے تو مجھے لگا عشق و عاشقی کا معاملہ ہے ۔ لیکن آپ کے فادر نے بتایا کہ عالمگیر آپ کے ہسبنڈ کا نام ہے۔ مسز عالمگیر ۔۔۔۔شوہر سے پیار کرنا اچھی بات ہے لیکن ایسے ۔۔خود کو بیمار کر لینا اچّھی بات نہیں۔۔۔۔آپ ان سے ناراضگی ظاہر کرنے کا کوئی اور طریقہ اپنائیں۔۔۔۔"

ڈاکٹر نے ہنس کر کہا اور عشنا کی فائل چیک کی۔ ساتھ ہی نرس کو کچھ ہدایات بھی دینے لگے ۔

عشنا نے عالمگیر کو دیکھا جو اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔

ڈاکٹر نے آگے بڑھ کر عالمگیر سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔

"مسٹر عالمگیر ۔۔۔۔آپ اپنی وائف کو اسلام آباد لے جا سکتے ہیں۔۔۔۔میں نے اُس کے کیس کی ساری ہسٹری فائل میں لکھ دی ہے۔ آپ جہاں چاہیں جس ڈاکٹر کو چاہئیں یہ ہسٹری دیکھا کر ان کا علاج جاری رکھ سکتے ہیں۔ویسے اب انہیں زیادہ سے زیادہ آرام اور غذا کی ضرورت ہے۔ آپ انکا خیال رکھیں اور میری بتائی ہوئی ادویات کھلاتے رہیں۔۔۔۔انشاء اللہ جلد ہی یہ صحت یاب ہو جائیگی۔"

ڈاکٹر نے پیشہ وارانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا اور باہر نکل گئے۔

نرس نے آگے بڑھ کر عشنا کے ہاتھ میں ڈریپ لگا دی اور کمرے سے باہر آ گئی۔

عالمگیر نے عشنا کو دیکھا اور بولا۔

"میں ڈسچارج کی فورمیلیٹی پوری کر لوں۔۔۔"

عالمگیر کہتا ہوا باہر کی طرف بڑھا۔

"عالم۔۔۔۔عالمگیر میں۔۔۔میں آپ کے ساتھ۔۔۔"

عشنا نے روتے ہوئے کہا۔

"جان۔۔۔۔جان۔۔۔جان۔۔۔۔میں تمہیں چھوڑ کر نہیں جا رہا۔۔۔بلکہ میں تمہیں اپنے ساتھ اسلام آباد لے جا رہا ہوں۔۔۔۔تم رونا نہیں بلکل۔۔۔"

عالمگیر تیزی سے اُس کے پاس آیا اور عشنا جو اٹھنے کی کوشش کر رہی تھی اُسے کندھوں سے تھام کر سینے سے لگاتا ہوا بولا۔

"لیکن ابّو۔۔۔ابو نہیں مانیں گے۔"

عشنا نے سر اٹھا کر عالمگیر کو دیکھا۔

"میں نے مامو سے بات کر لی ہے۔میں تمہیں اپنے ساتھ لے جا رہا ہو۔۔۔"

عالمگیر نے اُسے تسلّی دی اور آہستہ سے بیڈ پر لیٹا دیا۔

عالمگیر جو ریسیپشن کی طرف جا رہا تھا ابراہیم صاحب کے ساتھ کوثر بیگم اور رحمت بیگم کو اندر آتا دیکھا تو اُنھیں عشنا کا خیال رکھنے کا کہتا باہر کی طرف بڑھ گیا۔

"کیسی ہو بیٹا۔۔۔"

ابراہیم صاحب، کوثر بیگم اور رحمت بیگم عشنا کے بیڈ کے پاس آئے اور اُس سے حال دریافت کیا۔

"ٹھیک ہوں ابّو۔۔۔"

عشنا نے باری باری تینوں کو دیکھا اور مسکرا کر بولی۔

تھوڑی دیر تک وہ لوگ عشنا کے پاس بیٹھے اُس سے باتیں کرتے رہے ۔ عالمگیر بلز وغیرہ پے کر کے ڈسچارج پیپرس بنوا کر واپس عشنا کے کمرے میں آیا تو دیکھا عشنا نیم دراز بیٹھی اُن سب سے باتیں کر رہی ہے۔

عالمگیر چلتا ہوا عشنا کے بیڈ  کے پاس آ کر رکا۔

"مامو میں نے سارے پیپرس بنوا لیے ہیں ۔ میں تھوڑی دیر میں عشنا کو لے کر اسلام آباد کے لیے نکلوں گا۔"

عالمگیر نے ابراہیم صاحب سے کہا اور سب کو ساتھ لے کر باہر آ گیا۔

نرس نے سب کے جاتے ہی عشنا کے کپڑے تبدیل کرنے میں اُس کی مدد کی۔

 تھوڑی دیر بعد عالمگیر کمرے میں آیا اور عشنا کے بیڈ پر جھک کر اُسے اپنی گود میں اٹھا لیا۔

"عالم۔۔۔عالمگیر یہ کیا کر رہیں ہیں۔۔۔۔"

عشنا نے گھبرا کر پوچھا۔

"کچھ نہیں۔۔۔بس اپنی پیاری سی بیوی کو اپنے ساتھ لے جا رہا ہوں۔۔۔"

عالمگیر نے جھک کر اُس کی ناک سے اپنی ناک مس کرتے ہوئے کہا۔

"لیکن عالمگیر۔۔۔۔ابّو امی اور پھوپھو بھی ہیں باہر۔۔۔"

عشنا اب بھی پریشان تھی اور بار بار دروازے پر دیکھے جا رہی تھی۔

"کیسی غیر کو نہیں اپنی بیوی کو اٹھایا ہے جان۔۔۔۔اور کوئی کچھ نہیں کہتا۔۔۔۔کوئی کچھ کہے تب بھی تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔۔۔"

عالمگیر نے کہا اور باہر کی طرف بڑھ گیا۔

عشنا مارے شرم کے نظریں جھکا گئی۔

عالمگیر جلتا ہوا کوریڈور میں آیا جہاں ابراہیم صاحب کے ساتھ کوثر بیگم اور رحمت بیگم بھی کھڑی تھی۔عالمگیر اُسے لیے کوریڈور عبور کرتا پارکنگ میں کھڑی اپنی کار تک آیا اور عشنا کو بیک سیٹ پر بیٹھا دیا ۔ 

عشنا کو کار میں بیٹھانے کے بعد عالمگیر ابراہیم صاحب سے مصافحہ کرتا رحمت بیگم اور کوثر بیگم سے پیار لیتا گھوم کر دوسری طرف آیا اور عشنا کے برابر میں بیٹھ گیا۔

عشنا کی فائلز وغیرہ وہ پہلے ہی کار میں رکھ چکا تھا۔

کوثر بیگم اور رحمت بیگم نے آگے بڑھ کر عشنا کو پیار کیا اور ابراہیم صاحب نے اُس کے سر پر ہاتھ رکھا تھا۔

سب سے ملنے کے بعد عالمگیر نے ڈرائیور کو اشارہ کیا تو اُس نے کار آگے بڑھا لی۔ عشنا سب کو کھڑکی سے بائے کرنے لگی۔

کار جب ہسپتال کے احاطے سے دور نکل گئی تو عشنا نے عالمگیر کے کندھے پر سر رکھ کر آنکھیں موند لی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عالمگیر نے آہستہ سے عشنا کے گرد بازو پھیلا کر اُسے مکمل طور پر اپنے حصار میں لے لیا۔

عشنا پر سکون سی آنکھیں مُوندیں بیٹھی رہی۔

عالمگیر نے راستے میں ایک جگہ کار رکوائی اور جا کر عشنا کے لیے تازہ پھلوں کا جوس لے آیا اور ساتھ ہی کچھ پھل بھی لے لیے۔

عشنا نے جوس دیکھا تو برا سا منہ بنا لیا۔

عالمگیر اُس کے اس طرح سے منہ بنانے پر مسکرائے بنا نہ رہ سکا۔

عالمگیر کے بیٹھتے ہی ڈرائیور نے ایک بار پھر کار آگے بڑھا لی۔

عالمگیر نے آج کار کے ساتھ ڈرائیور بھی ہائر کیا تھا تاکہ وہ خود سارا وقت عشنا کا خیال رکھ سکے۔ 

"چلو جلدی سے اسے پی لو پھر میں فروٹ کھیلاتا ہوں۔۔۔"

عالمگیر نے جوس کا گلاس اُس کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔

"عالمگیر۔۔۔۔"

عشنا نے منہ بنا کر عالمگیر کو پُکارا۔

"جی عالمگیر کی جان۔۔۔۔۔"

عالمگیر نے مسکراتے ہوئے جواب دیا

"کیا اسے پینا ضروری ہے؟"

عشنا نے جوس کو طرف اشارہ کرتے منہ بنایا۔

"یس میری جان۔۔۔۔بہت ضروری ہے۔۔۔۔چلو منہ کھولو۔۔۔"

عالمگیر نے کہنے کے ساتھ ہی جوس کا گلاس اُس کے لبوں سے لگا دیا اور جب وہ پورا ختم نہیں ہو گیا عالمگیر نے گلاس اُس کے لبوں سے ہٹایا نہیں تھا۔

"عالمگیر۔۔۔۔"

عشنا نے لبوں پر ہاتھ رکھ کر بگڑے منہ کے ساتھ اُسے پُکارا۔

"یس میری جان۔۔۔۔آپ کا عالمگیر آپ کے پاس ہی۔۔۔۔کہو تو اور پاس آ جاؤں؟"

عالمگیر نے عشنا کے کان میں سرگوشی کی۔

"نہیں۔۔۔۔"

عشنا نے ایک نظر آگے کار چلاتے ڈرائیور کو دیکھا اور پھر عالمگیر کو۔ 

عشنا نے آنکھیں بڑی کر کے عالمگیر کو گھورا تو عالمگیر مسکرا دیا۔

"ٹھیک ہے۔۔۔۔اسلام آباد پہنچنے تک تم سیف ہو۔۔۔لیکن اُس کے بعد نہیں۔۔۔۔"

عالمگیر نے آنکھوں میں شرارت سموئے کہا تو عشنا نے شرما کر اپنا سر جھکا لیا 

عالمگیر نے اُسے شرماتا دیکھ اپنے لبوں سے اُس کے سر پر ایک بوسہ دیا اور شاپر سے سیب نکالنے لگا۔

"عالمگیر پلیز۔۔۔۔ابھی تو جوس پیا ہے نہ۔۔۔۔۔اب اور نہیں پلیز۔۔۔۔"

عشنا نے عالمگیر کو سیب نکالتے دیکھا تو منع کرنے لگی۔

"ٹھیک ہے لیکن کچھ دیر بعد کھانا پڑےگا۔"

عالمگیر نے سیب پھر سے شاپر میں رکھ دیا اور شاپر کو سیٹ کے پاس رکھ کر عشنا کے کندھوں پر اپنا ہاتھ پھیلا کر اُسے پھر سے اپنے حصار میں لے لیا۔

عشنا نے اپنے ہاتھ عالمگیر کے گرد لپیٹ کر آنکھیں موند لی۔

عشنا کی اتنے دنوں کی بے سکون دل کو اب عالمگیر کی باہوں میں سکون مل رہا تھا۔

سارے راستے عالمگیر اُسے کچھ نہ کچھ کھلاتا رہا اور عشنا نا نا کرتی منہ بناتی زبردستی  کھاتی رہی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ لوگ اسلام آباد پہنچے تو ڈرائیور نے کار گیٹ کے اندر لا کر روک دی۔

عالمگیر کار سے نکل کر عشنا کی طرف آیا اور اُسے باہوں میں اُٹھا لیا۔

"عالم۔۔۔عالمگیر یہ کیا کر رہے ہیں۔۔۔۔میں ۔۔۔میں چلتی ہوں نہ۔۔۔۔"

عشنا نے عالمگیر کے اُسے باہوں میں اُٹھانے پر ہچکچاتے ہوئے کہا۔ کیونکہ ابھی دوپہر کا وقت تھا اور سارے ملازم اپنے اپنے کاموں میں لگے تھے۔

"میری جان۔۔۔فیلحال آپ کی طبیعت آپ کو چلنے پھرنے کی  اجازت نہیں دیتی  ۔"

عالمگیر نے کہا  اور قدم گھر کے اندر کی جانب بڑھا دیے۔

عشنا نے شرما کر اُس کے سینے میں سر کو چھپانے کی کوشش کی۔

عالمگیر اُسے لیے اپنے کمرے میں آیا اور آہستہ سے اُسے بیڈ پر لیٹا کر اُس کے ماتھے کو لبوں سے چھو کر سیدھا ہوا۔

تم ریسٹ کرو میں خانساماں کو تمہارے لیے پرہیزی کھانا بنانے کا کہہ آتا ہو۔۔۔تم نے کافی وقت سے کچھ کھایا نہیں ہے۔ کچھ کھا لو پھر میں تمہیں میڈیسن دے دیتا ہوں۔"

عالمگیر نے اُسے نظروں کے حصار میں رکھتے ہوئے کہا۔

"عالمگیر ۔۔۔۔"

عشنا نے آنکھیں بڑی کر کے اُسے دیکھا۔

"کیا۔۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کی نظروں میں حیرت دیکھ کر پوچھا۔

"عالمگیر آپ کہہ رہے ہیں کہ میں نے کچھ کھایا ہی نہیں۔۔۔۔اور وہ ۔۔وہ جو آپ سارے راستے کھلاتے آئیں ہے۔۔۔وہ کیا تھا؟"

عشنا اٹھ کر بیڈ پر بیٹھ گئی۔

کل کے مقابلے آج وہ کافی بہتر محسوس کر رہی تھی۔

"وہ تو بس ایسے ہی ذرا سا ریفریشمینٹ تھا نہ جان۔۔۔۔وہ کھانا تو نہیں تھا۔۔۔۔۔کھانا تو آپ اب کھائیں گی اور اُس کے بعد دوا بھی ۔۔"

عالمگیر اُس کے پاس بیڈ پر بیٹھ کر اُس کے گالوں کو انگلی سے چٹکی سے چھوتا مسکرا کر بولا۔

"اللہ۔۔۔۔۔عالمگیر میرا پیٹ پوری طرح سے بھرا ہوا۔۔۔۔میں اب کچھ نہیں کھا سکتی۔۔۔کم از کم شام تک۔۔۔"

عشنا معصومیت نے آنکھیں گھمائی اور ساتھ ہی اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھا اور اُسے دیکھاتے ہوئے بولی۔

"اچھا۔۔۔ذرا میں بھی تو دیکھوں کتنا بھرا ہوا ہے۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کے پیٹ کو دیکھتے ہوئے کہا اور ساتھ ہی اُس کے گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا۔

"عالم۔۔۔۔عالمگیر دروازہ کھلا ہوا ہے۔۔۔۔"

عشنا نے اُسے اپنی گود میں لیٹتے دیکھا تو گھبرا کر دروازے کی طرف دیکھا۔

"جان کوئی نہیں آتا۔۔۔۔اور ویسے بھی تم میری بیوی ہو یار۔۔۔اتنا ڈرتی کیوں ہو۔۔۔۔"

عالمگیر کہتا ہوا سیدھا ہو کر بیڈ پر بیٹھ گیا۔

"عالمگیر۔۔۔۔"

عشنا نے گھبرا کر عالمگیر کو دیکھا۔

عالمگیر نے عشنا کے آنکھوں میں خوف دیکھا تو اپنے اور اُس کے درمیان کے فاصلے کو طے کرتا اُس کے بلکل پاس آ گیا۔

"عالمگیر۔۔۔۔عالمگیر۔۔۔پلیز۔۔۔پلیز پھر سے ۔۔۔پھر سے مجھے چھوڑ کے مت جائیگا۔۔۔۔پلیز۔۔۔آپ آپ یہاں سو جائیں۔۔۔۔لیکن پلیز مجھ سے ناراض نہیں ہونا۔۔۔۔۔نہیں تو۔۔۔نہیں تو میں۔۔۔۔میں اس بار۔۔۔۔"

عشنا کی آنکھوں میں خوف کے سائے لہرائے۔ ساتھ ہی اُس نے اپنے پیروں کی طرف اشارہ کرتے اُسے وہاں سونے کے لیے کہا۔ اُس کے لہزے میں التظا کی تھی ۔ عالمگیر نے تڑپ کر اُسے سینے سے لگا لیا۔ اُسے ایک بار پھر شرمندگی نے آ گھیرا۔

"عشنا۔۔۔۔کیا ہو گیا جان۔۔۔۔ میں نہیں جا رہا کہیں تمہیں چھوڑ کر۔۔۔۔۔میں کبھی تمہیں چھوڑ کر نہیں جاؤنگا اور نہ ہی ناراض ہو سکتا ہو۔۔۔۔جان پلیز مجھے معاف کر دو۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُسے سینے میں بھینچے کر اُس کے ڈر کو کم کرنے کی کوشش کی۔

عالمگیر نے آہستہ سے اُسے خود سے الگ کیا اور اُس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں بھر کر اُسے دیکھا

"عشنا جان۔۔۔بس ایک بار معاف کر دو اپنے عالمگیر کو۔۔۔صرف ایک بار۔۔۔۔میں زندگی میں کبھی تم سے دور نہیں جاؤنگا۔۔۔۔پلیز اپنے دل سے اس خوف کو نکال دو۔۔۔۔میں ہمیشہ تمہارے ساتھ۔۔۔۔تمہارے پاس رہونگا۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کی بھیگی آنکھوں کو دیکھا اور باری باری اپنے لب رکھ دیئے۔

عشنا نے آنکھیں بند کر لی۔

عالمگیر اُس سے الگ ہوا اور آہستہ سے اُسے بیڈ پر لیٹا کر اُس کے اوپر چادر ٹھیک کرتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔

"اب تم تھوڑا ریسٹ کر لو۔۔۔میں ابھی آیا۔"

عالمگیر نے اُسے پیار سے دیکھتے ہوئے کہا۔

"عالمگیر۔۔۔۔۔"

عشنا نے اُس کے جانے کا سن کر اٹھنا چاہا کیونکہ وہ اُسے دور جانے نہیں دینا چاھتی تھی۔ وہ عالمگیر کو اپنی نظروں کے سامنے رکھنا چاھتی تھی۔

"جان لیٹی رہو۔۔۔۔میں کہیں نہیں جا رہا۔۔۔بس کچن تک جا رہا ہوں۔۔۔۔ابھی گیا اور ابھی آیا۔۔۔۔"

عالمگیر نے جھک کر اُس کے کندھوں پر ذرا سا دباؤ ڈال کر پھر سے اُسے لیٹا دیا۔

"آنکھیں بند کرو۔۔۔۔۔شاباش۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کی آنکھوں کی دیکھتے ہوئے اُسے سونے کا کہا۔

عشنا نے آنکھیں تو بند کر لی لیکن اُس کی بے چینی ویسی ہی برقرار رہی۔

عالمگیر آہستہ سے کمرے سے نکل کر کچن میں آیا اور خانساماں کو عشنا کے لیے پرہیزی کھانے کا بتانے لگا۔ 

عالمگیر کچن سے باہر آیا تو اُس کا موبائل بجنے لگا۔

نادر کی کال تھی۔ وہ کال اٹھا کر وہیں کھڑا بات کرنے لگا۔

ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے اُسے بات کرتے کہ اچانک اُس کے کمرے سے زور دار آواز آئی۔

عالمگیر نے نظر اُٹھا کر اپنے کمرے کو دیکھا اور بھاگتا ہوا کمرے میں پہونچا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عشنا، عالمگیر کے کمرے سے چلے جانے کے بعد اٹھ کر بیٹھ گئی تھی۔

وہ بیڈ پر بیٹھی بےچینی سے عالمگیر کا انتظار کرنے لگی تھی۔

اُسکی نظریں دروازے پر ہی ٹیکی تھیں۔

جب عالمگیر کو گئے کافی دیر ہو گئی تو عشنا پریشان ہو کر بیڈ سے اٹھی اور آہستہ قدموں سے دروازے کی طرف بڑھنے لگی۔

وہ آہستہ سے چلنے لگی لیکن کمزوری کی وجہ سے اُسے چلنے میں پریشانی ہو رہی تھی ۔ وہ چلتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی کہ اچانک اسٹڈی ٹیبل سے ٹکڑا کر زور سے پیٹ کے بل فرش پر گر پڑی۔

اُس کے پیٹ کو دھچکا لگا وہ پیٹ پکڑ کر کراہنے لگی۔

 آنکھوں سے آنسوؤں رواں ہو گئے۔

"عشنا ۔۔۔۔۔"

عالمگیر دروازہ کھول کر اندر آیا تو دیکھا عشنا فرش پر پڑی درد سے کراہ رہی۔

عالمگیر بھاگتا ہوا اُس کے پاس آیا اور عشنا کو کندھوں سے پکڑ کر اٹھایا۔

"عالم۔۔۔عالمگیر۔۔۔۔۔"

عشنا نے عالمگیر کو بھیگے آنکھوں سے اُسے دیکھتے ہوئے پُکارا۔

عالمگیر اُسے گود میں اٹھا کر بیڈ پر لایا اور اُسے بیٹھا دیا۔

"جان یہ۔۔۔۔تم کیسے۔۔۔تم ٹھیک ہو؟"

عالمگیر اُسے کندھوں،گلے پر پیرو کو چھو چھو کر دیکھنے لگا۔

"عالمگیر۔۔۔۔"

عشنا روتے ہوئے عالمگیر کے گلے میں باہیں ڈالتی اُس سے لپیٹ گئی۔

"عالم۔۔۔۔عالمگیر۔۔۔آپ مجھے چھوڑ کر کہاں چلے گئے تھے۔۔۔۔آپ مجھ سے ناراض ہو گئے تھے نہ۔۔۔۔عالمگیر مجھے ۔۔۔مجھے معاف کر دیں۔۔۔۔پلیز۔۔۔پلیز۔۔۔پلیز مجھے چھوڑ کے مت جائیں ۔۔۔"

عشنا نے روتے روتے اُس سے لپٹے ہوئے کہا۔

عشنا عالمگیر کے جدائی کے خوف سے اس قدر خائف تھی کہ عالمگیر کے کچھ دیر کے لیے نظروں سے اوجھل ہوتے ہی وہ ایک بار پھر خوف میں مبتلا ہو گئی تھی۔

"جان۔۔۔۔پلیز۔۔۔۔میں کہیں بھی نہیں گیا تھا۔۔۔میں یہی تھا۔۔۔بس کچن تک گیا تھا۔۔۔"

عالمگیر نے عشنا کے بالوں کو سہلاتے ہوئے شرمندہ لحظے میں کہا

"نہیں۔۔۔مجھے پتہ ہے آپ۔۔۔آپ مجھے پھر سے چھوڑ جائینگے۔۔۔۔پھر سے مجھے۔۔۔۔"

عشنا کہتے کہتے چپ ہو گئی ساتھ اُس کی باہیں جو اُس نے عالمگیر کی گردن کے اطراف لپیٹ رکھی تھی وہ بھی عالمگیر کی گردن پر ڈھیلی پڑ گئی۔

عالمگیر نے عشنا کے چپ ہوتے ہی اُسے خود سے الگ کر سامنے کیا تو عشنا عالمگیر کی باہوں میں جھول گئی۔

ڈر اور خوف کے زیرِ اثر وہ اپنے حواس خو بیٹھی تھی۔

"عشنا۔۔۔۔عشنا۔۔۔۔جان۔۔۔"

عالمگیر اُس کے گالوں کو تھپکتا اُسے آوازیں دینے لگا لیکن وہ ہوش و حواس سے بیگانہ اُس کی باہوں میں بےسدھ پڑی تھی۔

عالمگیر اُسے باہوں میں اُٹھا کر باہر کی طرف بڑھا۔

عشنا کو کار کی بیک سیٹ پر لیٹا کر کار کی ڈرائیونگ سیٹ پر آیا اور کار کو تیزی سے ہسپتال کی طرف لے جانے لگا۔۔کار ڈرائیونگ کے دوران بھی وہ مڑ مڑ کر عشنا کو دیکھتا رہا جو بےسدھ پڑی تھی۔

عالمگیر ہسپتال کے احاطے میں کار روکتا عشنا کو باہوں میں اٹھائے ہسپتال کی اندرونی سمت بڑھا۔

"ڈاکٹر ۔۔۔ڈاکٹر پلیز عشنا کو دیکھیں۔۔۔۔پلیز ڈاکٹر۔۔۔۔"

عالمگیر عشنا کو سٹریچر پر لیٹا کر ڈاکٹر کی طرف بڑھا اور اُس سے التجائیں کرنے لگا۔

"آپ فکر نہ کریں۔۔۔۔ہم دیکھتے ہیں اُنھیں۔۔۔۔"

ڈاکٹر نے عالمگیر کے بازو پر ہاتھ رکھ کر اُسے تسلی دیتے ہوئے کہا اور کمرے کی طرف بڑھ گئے جہاں ابھی عشنا کو سٹریچر پر لیے جایا گیا تھا۔

عالمگیر یوں ہی یہاں وہاں ٹہل رہا تھا۔

"اللہ تعالیٰ میری عشنا کو بچا لیجئے۔۔۔۔پلیز۔۔۔۔پلیز ۔۔۔۔میری عشنا کو بچا لیجئے ۔۔۔"

عالمگیر دل ہی دل میں اللہ سے دعائیں کرنے لگا۔

عالمگیر یہاں سے وہاں ٹہلتا  بالوں میں ہاتھ پھیرتا پریشان سا لگتا تھا۔

آدھے گھنٹے بعد ڈاکٹر عشنا کے کمرے کے باہر آئے تو عالمگیر تیزی سے اُنکی طرف بڑھا۔

"ڈاکٹر۔۔۔۔ڈاکٹر میری عشنا۔۔۔۔پلیز بتائیں عشنا کو کچھ ہوا تو نہیں۔۔۔۔ڈاکٹر۔۔۔۔"

عالمگیر کے لہجہے میں درد،تڑپ ،بے چینی سب کچھ دیکھا جا سکتا تھا۔

"جی۔۔۔آپ کی وائف اب ٹھیک ہیں ۔ وہ صرف ڈر اور خوف کے زیرِ اثر بیہوش ہو گئی تھیں۔ ہم نے انہیں انجکشن دے دیا ہے۔ تھوڑی دیر میں ہوش آ جا تا ہے اُنھیں۔۔۔"

ڈاکٹر عالمگیر کو تسلی دیتے آگے چلے گئے تو عالمگیر تیزی سے عشنا کے کمرے میں آیا اور چلتا ہوا عشنا کے بیڈ کے سرہانے رک گیا۔

"عشنا۔۔۔تم اپنے عالمگیر سے اس قدر بدگُمان ہو گئی ہو؟"۔

عالمگیر عشنا کے گالوں پر ہاتھ رکھ کر اُسے دیکھتے ہوئے سوال کر رہا تھا۔

تھوڑی دیر بعد عشنا نے آنکھیں کھولیں تو عالمگیر عشنا کے کچھ کہنے سے پہلے ہی بول پڑا۔

"عشنا۔۔۔۔تم کیا مجھے ایک بار معاف نہیں کر سکتی؟ صرف ایک بار عشنا۔۔۔اپنے عالمگیر پر بھروسہ تو کر کے دیکھو۔۔۔۔پلیز عشنا۔۔۔۔"

عالمگیر نے بھیگی آنکھوں سے عشنا کو دیکھتے ہوئے اُس سے التیجا کی۔

عشنا نے عالمگیر کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو تڑپ کر اٹھنا چاہا۔

 عالمگیر نے آگے بڑھ کر اُسے کندھوں سے تھام کر بیٹھنے میں اُس کی مدد کی تو عشنا اُس کے سینے پر سر رکھ کر بولی

"عالمگیر پلیز ایسے مت کہیں۔۔۔میں آپ پر بہت بھروسہ کرتی ہوں۔۔۔لیکن میں کیا کرو۔۔۔آپ جب مجھ سے دور جاتے ہے نہ۔۔۔میں بہت ڈر جاتی ہوں۔۔۔۔مجھے آپ سے جدا ہونے سے بہت ڈر لگتا ہے۔"

عشنا نے روتے ہوئے کہا تو عالمگیر نے زور سے اُسے اپنے سینے میں بھینچ لیا۔

عالمگیر اور عشنا دونوں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔

ڈاکٹر کمرے میں آئے تو عالمگیر نے آہستہ سے عشنا کو خود الگ کیا ۔

ڈاکٹر نے عشنا کا مکمل چیک آپ کرنے کے بعد اُسے ڈسچارج کر دیا ۔

عالمگیر عشنا کو لے کر گھر آ گیا۔

عشنا دوائیوں کے زیرِ اثر سو رہی تھی اور عالمگیر اُس کے پاس بیٹھا یہی سوچے جا رہا تھا کہ کیسے وہ عشنا کے ڈر اور خوف کو دور کرے۔

۔۔فاطم


عالمگیر کافی دیر تک بیٹھا عشنا کو دیکھتا رہا۔ اُس کا تسلسل نادر کی کال نے توڑا۔

عالمگیر کال آن کرکے کان سے لگاتا کھڑکی پاس آ کر بات کرنے لگا تاکہ اُس کی باتوں کی عوضi سے عشنا کی نیند نہ خراب ہو جائے۔

"ہاں نادر۔۔۔

ہمم۔۔

ٹھیک ہے۔۔۔۔

میل بھیج دو۔۔۔۔

ہاں میں دیکھ لیتا ہوں۔۔۔۔"

عالمگیر نادر کی باتوں کا جواب دے رہا تھا۔ 

وہ کھڑکی کے پاس کھڑا ضرور تھا لیکن اُس کی نظر اب بھی عشنا پر مرکوز تھی۔

"عالمگیر۔۔۔ "

عشنا نیند میں عالمگیر کو آواز دے رہی تھی۔

"I wil call you later"

(میں تمہیں بعد میں فون کرتا ہوں)

عالمگیر نے عشنا کی پُکار سنی تو نادر کو بعد میں کال کرنے کا کہتا فون منقطع کر کے عشنا کے پاس آگیا

عالمگیر نے بیڈ پر اُس کے قریب بیٹھ کر اُس کا ہاتھ تھام لیا۔

"عشنا۔۔۔۔دیکھو۔۔۔میں تمہارے پاس ہی ہوں۔۔ "

عالمگیر نے عشنا کا ہاتھ تھام کر اُس کی بند آنکھوں کو دیکھ کر اُسے بتانا چاہا کہ وہ اُس کے پاس ہی ہے۔

عشنا عالمگیر کے ہاتھوں کا لمس ملتے ہی پر سکون ہو گئی۔

عالمگیر اُس کے پاس بیڈ پر بیٹھا تھا۔

 عشنا کا ہاتھ اب بھی عالمگیر کے ہاتھوں میں تھا۔

عالمگیر یوں ہی ساری رات اُس کا ہاتھ تھامے بیٹھا رہا۔ وہ عشنا کو اور بے چین نہیں دیکھ سکتا تھا۔

صبح فجر کی اذان کی آوازوں کے ساتھ عشنا کی آنکھ کھلی تو دیکھا عالمگیر اُس کا ہاتھ تھامے بیٹھ پر اُس کے پاس بیٹھا اُسے دیکھے جا رہا ہے۔

"عالم۔۔۔۔عالمگیر آپ۔۔۔آپ ساری رات ایسے ہی بیٹھے رہے۔۔۔"

عشنا نے آنکھیں کھول کر اُسے حیرت سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"کیسا لگ رہا ہے اب؟"

عالمگیر نے اپنی سرخ آنکھیں زور سے بند کر کے کھولیں اور عشنا کے گال پر ہاتھ رکھ کر پوچھا۔

"میں ٹھیک ہوں۔۔۔لیکن آپ۔۔۔"

عشنا اٹھتے ہوئے بولی۔

"لیٹی رہو۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُسے کندھوں سے تھام کر پھر سے لیٹا دیا۔

"عالمگیر آپ ۔۔۔آپ ریسٹ کر لیں پلیز۔۔۔۔کل رات بھی نہیں سوئے تھے آپ۔۔۔۔"

عشنا نے لیٹے لیٹے اُسے دیکھتے ہوئے  کہا۔

"میں کر لونگا۔۔۔۔تم ریسٹ کرو۔۔"

عالمگیر نے عشنا کو مسکرا کر دیکھا۔

"عشنا۔۔۔جان۔۔۔۔میں نماز پڑھ لو؟  "

عالمگیر نے اُس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں لے کر اُس پر دباؤ ڈال کر کہا۔

"میں بھی۔۔۔"

عشنا نے اٹھتے ہوئے کہا۔

"لیکن۔۔۔"

عالمگیر نے کچھ کہنا چاہا لیکن عشنا کی صورت دیکھ کر اُسے منع نہ کر سکا۔

عالمگیر عشنا کو کندھوں سے تھام کر واشروم تک لے گیا اور وضو کرنے میں اُس کی مدد کرنے لگا اور خود بھی وضو کر کے عشنا کو کندھوں سے تھام کر  کمرے میں لا کر بیڈ پر بیٹھا دیا۔

عالمگیر نے نماز کے لیے کھڑے ہونے سے پہلے عشنا کو نماز کے لیے اپنے ساتھ کھڑا کر دیا۔

"تم ٹھیک ہو؟ "

عالمگیر نے عشنا کو کھڑا کرتے ہوئے پوچھا۔

"جی۔۔۔" 

عشنا اپنا دوپٹہ ٹھیک کرتے ہوئی بولی۔

دونوں نے ساتھ کھڑے ہو کر نماز کی نیت باندھی اور ساتھ ہی نماز ادا کرنے لگے۔

عشنا نے دعا کے لیے ہاتھ اُٹھایا تو دعا میں عالمگیر کے لیے ہی دعا کرتی رہی۔

عالمگیر نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو سوائے عشنا کے لیے دعا کرنے کے اُس کے لبوں پر اور کچھ نہیں آیا جو وہ اللہ سے مانگتا۔

عالمگیر نے دعا کے بعد عشنا کو دیکھا اُسکا چہرہ کھڑکی سے آتی نو خیز روشنی میں دمک رہا تھا۔ اُسکی اُجلی رنگت پاکیزگی سے مُنور دیکھنے والوں کی آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی۔

عالمگیر اُسے مبھوہیت سے دیکھے گیا ۔۔

"عالمگیر ۔۔۔کیا دیکھ رہے ہیں۔۔۔۔؟"

عشنا نے دعا کے بعد ہاتھ نیچے کیا تو عالمگیر کو اپنی طرف ایک ٹک دیکھتے پایا۔

 عشنا نے اُس کے کندھے کو ہلا کر پوچھا۔

"ہاں۔۔۔۔کچھ نہیں۔۔۔۔بس میں دیکھ رہا تھا کہ اللہ نے مجھے کتنی قیمتی نعمت دے رکھی ہے۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کے چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں لے کر کہا تو عشنا نے مسکرا کر اُسے دیکھا

"نعمت تو اللہ نے مجھے دے رکھی ہے آپ کی صورت میں۔۔۔مجھے لگتا ہے اللہ نے آپ کو صرف میرے لیے اس روئے زمین پر بھیجا ہے۔۔۔۔۔"

عشنا نے مسکرا کر اپنے گال پر رکھے عالمگیر کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں سے تھام کر کہا تو عالمگیر نے مسکرا کر اپنا ماتھا اُس کے ماتھے سے لگا دیا۔

کھڑکی سے آتی روشنی دونوں کے چہرے پر پڑتی اُنکے چہرہ پر بکھری محبت کو اجاگر کرتے سارے کمرے میں بکھر رہی تھی۔


عالمگیر نے عشنا کو بیڈ پر لٹا دیا اور انٹرکام پر خانساماں کو عشنا کے لیے پرہیزی ناشتہ لانے کا کہا۔


عشنا بیڈ پر بیٹھی اُسے دیکھے گئی۔

تھوڑی دیر بعد ملازم ٹرے میں عشنا کے لیے پرہیزی ناشتہ لے آیا تو عشنا نے ٹرے دیکھ کر عالمگیر کو دیکھا۔

عالمگیر نے سوپ کا چمچ عشنا کی طرف بڑھایا تو عشنا نے چمچ ہاتھوں سے پرے کر دیا۔

عالمگیر نے عشنا کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

"عالم۔۔۔عالمگیر آپ نے کل سے کچھ نہیں کھایا۔۔۔۔اور اب بھی آپ ۔۔۔۔"

عشنا نے ٹرے کی طرف دیکھا

"جان۔۔۔میں نے کھا لیا تھا۔۔۔۔تم جلدی سے یہ سوپ ختم کرو پھر میڈیسن بھی لینی ہے نہ جان۔۔۔"

عالمگیر نے پیار سے اُسے مناتے ہوئے کہا 

"نہیں۔۔۔۔مجھے نہیں کھانا۔۔۔۔پہلے آپ اپنے لیے بھی ناشتہ منگوائیں اور میرے ساتھ ہی کھائیں۔۔۔۔"

عشنا نے دونوں ہاتھ سینے پر باندھ کر رخ موڈ لیا۔

"جان۔۔۔۔کبھی ایسے مت کرنا۔۔۔۔۔"

عالمگیر نے ایک ہاتھ سے اُس کا چہرے اپنی طرف موڑا اور اُس کے رخ پھیرنے والی بات کہی۔

"عشنا کبھی مجھ سے ایسے رُخ نہیں موڑنا پلیز۔۔۔۔۔"

عالمگیر کے لہذا التظایہ ہو گیا۔

"عالمگیر۔۔۔میں کبھی بھی آپ سے رخ نہیں موڈ سکتی۔۔۔۔لیکن پلیز۔۔۔آپ بھی تو میری بات مانے نہ۔۔۔۔کچھ کھا لیں پلیز۔۔۔"

عشنا نے عالمگیر کے چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں لے کر کہا تو عالمگیر کی آنکھیں اُس کی محبت پر نم ہو گئی۔

عالمگیر نے آہستہ سے اُس کے ہاتھوں کو اپنے لبوں سے چھو لیا اور ایک بار پھر سُوپ کا چمچ عشنا کی طرف بڑھایا۔

"عالم۔۔۔۔۔"

عشنا نے کچھ کہنا چاہا لیکن عالمگیر نے اُس کے منہ کھولتے ہی سوپ والا چمچ اُس کے منہ میں رکھ دیا اور ساتھ ہی دوسرا چمچ اپنے منہ میں رکھتا عشنا کو دیکھا۔

"عالمگیر۔۔۔یہ آپ۔۔۔یہ اچھا نہیں ہے۔۔۔آپ اسے نہ کھائیں۔۔۔۔میں خانساماں کو کچھ اور لانے کہا کہتی ہوں۔۔۔"

عشنا نے عالمگیر کو سوپ پیتے دیکھا تو اُسے اس پرہیزی سوپ کو کھانے سے منع کرنے لگی۔

"نہیں۔۔۔۔میں بھی وہی کھاؤں گا جو میری جان کو کھانا ہے۔۔۔۔۔میری جان تکلیف میں ہے۔۔۔اور میں اپنی جان کے ساتھ اُس تکلیف میں ساتھ رہونگا ۔"

عالمگیر نے اُس کا ہاتھ جو وہ انٹرکام کے لیے بڑھا رہی تھی پکڑ کر اُسے روک لیا۔

"لیکن عالم۔۔۔"

عشنا نے پھر کچھ کہنا چاہا لیکن عالمگیر نے اُسے روک دیا اور ساتھ ہی اُسے سوپ پلانے لگا۔ساتھ وہ خود بھی پیتا رہا۔

عالمگیر نے عشنا کو سوپ پلا کر اُسے میڈیسن دے دی ۔تھوڑی ہی دیر میں عشنا کونیند آنے لگی۔

اُس کی دواؤں میں کافی مقدار میں خواب آور دوائیں شامل تھی تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ اپنے ذہین کو پریشانی سے دور رکھے اور جلد سے جلد صحت یاب ہو سکے۔

"عالمگیر۔۔۔۔۔"

عشنا نے بند آنکھوں کو مشکل سے کھول کر عالمگیر کو پُکارا

عالمگیر جو پاس ہی بیڈ پر عشنا کے ساتھ بیٹھا نادر سے فون پر بات کر رہا تھا عشنا کی پُکار پر کال منقطع کرتا عشنا کی طرف دیکھا جو اپنی بند آنکھوں کو مشکل سے کھول کر اُسے دیکھے جا رہی تھی۔

"ہاں۔۔۔جان ۔۔بولو۔۔۔"

عالمگیر نے اس کے ہاتھ پکڑ کر کہا۔ اُس نے بھی عشنا کی بند آنکھیں کو جو وہ بہت مشکل سے کھولنے کی کوشش کر رہی تھی انکو دیکھا۔

"عالمگیر ۔۔۔عالمگیر مجھے نیند آ رہی ہے۔۔۔"

عشنا نے نیند میں ڈوبی آواز میں کہا۔

"آؤ۔۔۔یہاں لیٹ جاؤ۔۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُسے کندھوں سے تھام کر لیٹانا چاہا۔

"نہیں۔۔۔۔مجھے آپ کے پاس ۔۔۔پاس رہنا۔۔۔مجھے۔۔۔"

عشنا نیند میں نجانے کیا کہنے کی کوشش کر رہی تھی۔ عالمگیر کو سمجھنے میں مشکل ہو رہی تھی۔

"جان میں پاس ہی ہو۔۔۔۔تم سو جاؤ۔۔۔۔"

عالمگیر نے ایک بار پھر اُسے لیٹانا چاہا۔

عشنا  نے عالمگیر کے کندھے پر سر رکھ دیا اور نیند کی وادیوں کی سیر کرنے لگی۔

عالمگیر نے آہستہ سے اُس کا سر اپنے کندھے پر سے ہٹا کر اُسے تکیے پر رکھ کر سیدھا ہونا چاہا

 اپنی  شرٹ پر کھنچاؤ محسوس کر کے عالمگیر نے جھک کر اپنی شرٹ کو دیکھا جہاں عشنا اُس کی شرٹ کو مٹھیوں میں تھامے آنکھیں بند کئے بےخبر سو رہی تھی۔

عالمگیر نے ایک نظر اپنی شرٹ کو اور پھر عشنا کی بند آنکھوں کو دیکھا ۔ اور جھک کر اُس کے ماتھے پر اپنے لب رکھ دیئے۔

عالمگیر عشنا کو باہوں میں لے کر خود بھی لیٹ گیا ۔ 

وہ دو راتوں سے نہیں سویا تھا۔

عشنا کو ایسے بیمار دیکھ کر اُس کی ساری نیند جیسے کسی نے چورا لی ہو۔ وہ چاہ کر بھی دونوں راتوں کو سے نہیں پایا تھا۔

 عشنا کے ساتھ لیٹتے ہی اُس کی پلکیں بھاری ہونے لگیں۔عالمگیر نے ایک نظر عشنا کے سوتے ہوئے مطمئن چہرے کو دیکھا اور آہستہ سے آنکھیں موند لی۔


عالمگیر عشنا کا بہت خیال رکھ رہا تھا۔ وہ عشنا کے ڈر کی وجہ سے آفس بھی نہیں جاتا تھا۔کچھ ضروری کام ہوتا تو نادر گھر آ جایا کرتا تھا یہ عالمگیر اپنے لیپ ٹاپ پر کام کر لیا کرتا تھا۔ اُس کے علاوہ وہ سارا وقت ہی عشنا کے ساتھ رہتا۔

عشنا کو کھانا کھلانا دوائیں کھلانا سب وہ خود اپنے ہاتھوں سے کرتا تھا۔

 وہ ریگیولر عشنا کہ چیکپ بھی کروا رہا تھا۔ 

عشنا دھیرے دھیرے صحت یاب ہو رہی تھی اور یہ سب عالمگیر کی دِن رات کی محنت کا ہی نتیجہ تھا کہ عشنا اتنی جلدی صحت یاب ہو گئی تھی۔

عالمگیر نے عشنا کے لیے ایک عورت کو رکھ لیا تھا جو عشنا کو واشروم لے جا نے کپڑے تبدیل کرنے اور نہانے میں مدد کیا کرتی تھی کیونکہ عشنا کی کمزوری کی وجہ سے وہ بہت جلدی تھک جاتی تھی اور اُسے یہ سب روز مرہ کے معمول کے کام کرنے میں بھی مشکل پیش آیا کرتی تھی۔

ایک دن عالمگیر،  عشنا کو واش روم میں چھوڑ آیا لیکن جب کافی دیر تک وہ باہر نہیں آئی تو عالمگیر نے دروازہ بجایا جو کھولتا چلا گیا ۔

عالمگیر اندر آیا تو دیکھا عشنا زمین پر بیٹھی گھٹنوں میں سر دیئے رو رہی تھی۔

"عشنا جان۔۔۔کیا ہوا۔۔۔ایسے کیوں رو رہی ہو۔۔۔"

عالمگیر نے عشنا کا چہرہ گھٹنوں پر سے اٹھایا تو عشنا بھیگی آنکھوں کے ساتھ عالمگیر سے لپیٹ گئی۔

"عالمگیر۔۔۔"

عشنا نے روتے ہوئے اُس سے لپٹے لپٹے ہی کچھ کہنا چاہا لیکن کہہ نہ سکی۔

"کیا ہوا جان۔۔۔۔مجھے بتاؤ۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کے بالوں کو سہلاتے ہوئے اُس سے پوچھا۔۔۔

"نہیں۔۔میں۔۔۔مجھ سے زیادہ دیر کھڑا نہیں ہوا جا رہا تھا۔۔۔اُس۔ لیے میں۔۔اس لیے میں بیٹھ گئی تھی۔"

عشنا نے عالمگیر سے الگ ہو کر اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔

"شیور؟"

عالمگیر نے شق بھری نظروں سے عشنا کو دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔

"ہاں۔۔۔"

عشنا نے کہا تو عالمگیر اُسے اٹھا کر کمرے میں لے آیا اور اُس کے کپڑے جو وہ چینج کر کے پہننے کے لئے واشروم میں لے گئی تھی  لا کر بیڈ پر رکھے اور کھڑکیوں کے پردے برابر کرتا عشنا کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔

"عشنا۔۔۔۔جان تم مجھ سے سب کچھ کہہ سکتی ہو۔۔۔سب کچھ۔۔۔میں باہر جا رہا ہوں۔۔۔تم آرام سے چینج کر لو ۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کے ماتھے پر اپنے لب رکھ دیئے اور کپڑے اُسے پکڑا کر کمرے سے باہر نکل گیا۔ 

اُس دن سے ہی عالمگیر نے اُس عورت جس کا نام ہاجرہ تھا اُس کو عشنا کے لیے رکھ لیا تھا۔ وہ عشنا کو واشروم لے جانے اور کپڑے تبدیل کرنے کے ساتھ اُسے باتھ لینے میں بھی مدد کرتی تھی

باقی سارے کام عالمگیر خود اپنے ہاتھوں سے کرتا۔ حتٰی کہ اُس کے بال بھی وہ خود بناتا تھا۔ یوٹیوب سے دیکھ دیکھ کے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


"بھائی صاحب آپ نے یہ ٹھیک نہیں کیا۔۔۔۔آپ عشنا کو ایسے کیسے اکیلے عالمگیر کے ساتھ علاج کروانے اسلام آباد بھیج سکتے ہیں۔۔۔۔آپ کو پتہ ہے نہ آپا بھی وہاں نہیں ہیں آج کل؟"

ہارون صاحب عشنا کی بیماری کی خبر سن کر لاہور عشنا میں ملنے آئے تھے ۔

جب انہیں پتہ چلا کہ عالمگیر عشنا کو اپنے ساتھ اسلام آباد لے گیا ہے تو وہ غصے میں ابراہیم صاحب کو سخت سست سنانے لگے۔

"ہارون عالمگیر اپنا ہی بچہ ہے ۔ میرا شاپ کا کچھ کام تھا یہاں۔ میں اُسے چھوڑ کر نہیں جا سکتا تھا۔ڈاکٹر نے کہا اسلام آباد میں اُس کا علاج بہتر ہو سکتا ہے  تو میں نے اُسے عالمگیر کے ساتھ بھیج دیا ۔"

ابراہیم صاحب نے بہانہ بنایا۔

پھر بھی بھائی صاحب۔۔۔۔آپ مجھے کہتے ۔۔۔میں عشنا کو اپنے ساتھ کراچی لے جاتا۔۔یہ پھر میں اُسے اسلام آباد بھی لے جا سکتا تھا۔ عشنا مجھے مرحہ ہی کی طرح عزیز ہے۔ اس طرح سے آپ نے اُسے عالمگیر کے ساتھ بھیج کر اچھا نہیں کیا۔۔۔۔وہ بھی اکیلے۔۔۔بھائی صاحب اگر آپ اور آپا  عالمگیر کے ساتھ عشنا کی شادی کے خواب دیکھ رہیں ہے تو یاد رکھنا میں آپ لوگو سے سارے رشتے ناطے توڑ لونگا۔۔۔۔آپ لوگ میرا چہرہ دیکھنے کے لیے ترس جائیں گے۔

عالمگیر نے میری بیٹی سے شادی کرنے سے انکار کیا تھا میں اُسے کبھی معاف نہیں کرونگا۔ اگر وہ میری بیٹی سے شادی نہیں کر سکتا تھا تو وہ عشنا سے بھی کسی قیمت پر شادی نہیں کر سکتا۔"

ہارون صاحب نے غصے سے کہا تو ابراہیم صاحب نے ایک نظر پاس بیٹھی کوثر بیگم کو دیکھا جو بہت پریشان سی لگتی تھیں۔

"ہارون بھائی اب جو ماضی میں ہو گیا اُسے بھول جائیں۔۔۔عالمگیر نے ایسا کچھ نہیں کیا جس کے لیے زندگی بھر ہم اُس سے ناراض رہیں۔ بچّے بڑے ہو چکے ہیں۔ اپنی پسند کے مطابق زندگی گزارنے کا اُنھیں پورا حق ہے۔"

کوثر بیگم نے ہارون صاحب کو سمجھانے کی کوشش کی۔

"نہیں  بھابھی۔۔۔مرحہ اور عشنا دونوں بہنے ہیں اگر وہ میری ایک بیٹی سے شادی کے لیے انکار کر چکا ہے تو میں اُسے اپنی دوسری بیٹی سے شادی کی اجازت کتائی نہیں دے سکتا۔"

ہارون صاحب کا غصّہ کم ہی نہیں ہو رہا تھا۔

"بھائی صاحب چلیں۔۔۔"

ہارون صاحب نے اٹھتے ہوئے کہا۔

"کہاں۔۔۔"

ابراہیم صاحب نے پوچھا۔

 "عشنا کو لانے۔۔۔۔اسلام آباد"

ہارون صاحب نے بتایا اور باہر کی طرف جانے لگے۔

"لیکن ہارون۔۔۔مجھے کچھ کام ہے۔۔میں نہیں جا سکتا۔۔۔"

ابراہیم صاحب نے بہانہ بنایا۔

"ٹھیک ہے۔۔۔میں جا کر لے کر آتا ہوں۔۔۔"

ہارون صاحب نے پلٹ کر کہا۔

ابراہیم صاحب نے ایک نظر کوثر بیگم کو دیکھا اور باہر کی طرف قدم بڑھا دیے۔

"ٹھیک ہے میں چل رہا ہوں۔۔"

اُنہونے پیچھے سے کہا اور جلدی سے آ کر کار میں ہارون صاحب کے برابر میں بیٹھ گئے۔

 ابراہیم صاحب کے بیٹھتے ہی ڈرائیور نے کار کو اسلام آباد کے راستے پر ڈال دی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عشنا اب کافی حد تک صحت یاب ہو چکی تھی اور اپنے معمول کے کام خود کرنے لگی تھی۔ اس لیے ہی عشنا نے ہاجرہ  کو گھر کے دوسرے کام کرنے کی ہدایت دے رکھی تھی۔

عالمگیر اب بھی زیادہ تر وقت عشنا کے آس پاس ہی گزرا کرتا تھا۔

عالمگیر کا سارا کام یہ تو فون کال یہ پھر لیپ ٹاپ پر ہو رہا تھا۔

عالمگیر عشنا کو ناشتہ کرانے کے بعد کھڑکی کے پاس کھڑا فون کان سے لگائے نادر نے بات کر رہا تھا۔

اس کی نظر عشنا پر پڑی جو پھولوں کی کیاریوں کے پاس کھڑی ہاتھوں میں پائپ لیے انہیں پانی دے رہی تھی ساتھ ہی پھولوں کو دیکھ کر مسکرا بھی رہی تھی

عالمگیر کو عشنا اس سارے پھولوں سے ایک پھول ہی لگ رہی تھی۔

اس کی مسکراہٹ جیسے پھولوں کے اوپر بکھری اوس کی بوندیں۔۔۔۔

عالمگیر کال منقطع کرتا نیچے آ گیا۔

عشنا مگن سے پھولوں کو پانی دینے میں اس قدر کھوئی ہوئی تھی کے اُسے عالمگیر کے آنے کا بھی پتہ نہیں چلا۔

عالمگیر چلتا ہوا اس کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔

"عشنا۔۔۔۔۔"

عالمگیر نے پُکارا تو عشنا ڈر کے پیچھے مڑی اور اسکے ساتھ عشنا کی ہاتھ کی پانی کی پائپ بھی تھی۔

عالمگیر جو عشنا کی طرف قدم بڑھا رہا تھا اچانک پانی کی دھار کو اپنی طرف آتا دیکھ کر اسے اپنے ہاتھوں سے پیچھے کرنا چاہا۔ 

 عشنا جو عالمگیر کے پکارنے پر ڈر کر مڑی تھی عالمگیر کو ایسے بھیگتے دیکھ کر اسے ہنسی آ گئی اور وہ ہنستی ہی چلی گئی

عالمگیر نے عشنا کو ہنستے دیکھا تو آگے بڑھ کر پائپ اس کے ہاتھوں سے لیتا دوسرا ہاتھ اس کی کمر میں ڈال کر اسے اپنے قریب تر کر لیا ۔

اب عشنا عالمگیر کی باہوں میں تھی اور پانی کی پائپ کا منہ اوپر کر کے عالمگیر نے اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا تھا جس کی وجہ سے پانی اوپر سے بارش کی طرح عشنا اور عالمگیر کو مکمل بھیگا رہی تھی۔

عالمگیر عشنا کی آنکھوں میں دیکھے جا رہا تھا اور عشنا عالمگیر کے سینے پر ہاتھ رکھے اس کی آنکھوں میں رقم محبت کی تحریروں کو پڑھنے کی سعی کر رہی تھی۔

عالمگیر اور عشنا مکمّل طور پر بھیگ چکے تھے۔ 

عالمگیر نے پائپ پھینک دی۔

عالمگیر نے عشنا کو اپنی نظروں کے حصار میں رکھتے ذرا سا جھک کر اسے اپنی گود میں اٹھا لیا

عشنا کے بھیگے بال اس کے گالوں پر چپک رہے تھے اور پانی کی ننھی ننھی بوندیں عشنا کے چہرے پر موتیوں کی طرح چمک رہی تھی۔

عالمگیر نے عشنا کو اپنی باہوں میں اٹھایا تو عشنا نے اپنی باہیں عالمگیر کے گردن میں ڈال دی ۔

عشنا بھی مسلسل عالمگیر کی آنکھوں میں دیکھے جا رہی تھی ۔

عالمگیر عشنا کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا اسے باہوں میں اٹھائے کمرے کی طرف بڑھ گیا

عالمگیر کمرے کے دروازے کو ایک پیر کی ٹھوکر سے کھول کر عشنا کو اندر لے آیا اور پیر سے ہی دروازے کو زور سے بند کرتا عشنا کو لیے بیڈ تک آیا۔

عالمگیر نے عشنا کو آہستہ سے بیڈ پر لیٹا کر خود بھی اس کے بالکل قریب بیٹھ کر اسے دیکھنے لگا۔

عشنا نے عالمگیر کے نظروں میں چھپے مفہوم کو سمجھتے اپنے دونوں ہاتھ چہرے پر رکھ کر اپنا چہرہ ڈھانپ لیا۔

عالمگیر اُس کی شرمانے کی ادا پر مسکرا کر جھکا اور اُس کے کان کے پاس سرگوشی نما آواز میں بولا

"جان آج تم مجھے اپنے قریب آنے سے نہیں روک سکتی"

عالمگیر نے کہا اور اُس کے کانوں کی لو کو اپنے لبوں سے چھو کر معتبر کیا۔

"عالمگیر۔۔۔"

عشنا نے بند آنکھوں کے ساتھ عالمگیر کا نام لیا ۔

 عشنا کے ہاتھ اب اُس کے چہرے پر تھے۔۔۔

عالمگیر نے آہستہ سے اُس کےہاتھ چہرے سے ہٹا كر تکیے کے ساتھ لگا دیے اور اُس کے چہرے کو تھام کر  اُس کے ماتھے پر اپنے لب رکھ دیئے۔

عشنا کی آنکھیں بند تھیں ۔

وہ عالمگیر کی سانسوں کو اپنے چہرے پر محسوس کر رہی تھی۔

"جان۔۔۔۔"

عالمگیر نے عشنا کی بند آنکھوں کو لبوں سے چھو کر اُسے پُکارا تو عشنا نے دھیرے سے آنکھیں کھول کر عالمگیر کو دیکھا

عالمگیر کی آنکھیں محبت کی شدّت سے لبریز تھی۔

عشنا نے آہستہ سے عالمگیر کے گلے میں باہیں ڈال دی تو عالمگیر اُس کے چہرے کو لبوں سے چھوتے عشنا کے ہونٹوں کو اپنے ایک ہاتھ کے انگوٹھے کو مسلتے ہوئے اُسے دیکھے گیا۔ تھوڑی دیر وہ یوں ہی اُسے کے بھیگے لب دیکھتا رہا اور  پھر جھک کر اُس کو لبوں کو اپنے لبوں میں قید کر لیا۔

عالمگیر کے انداز میں شدّت،محبت،اپنائیت سب کچھ تھا اور عشنا اُس کے بالوں میں اُنگلیاں گھماتی عالمگیر کی محبت بھرے لمس کھوئی ہوئی تھی۔


عالمگیر بہت دیر تک اُس کو اپنی قید میں جھکڑے رہتا اگر عشنا لمبی لمبی سانسیں نہ لینے لگتی۔

عالمگیر کا انداز شدّت اختیار کر گیا تھا جس کی وجہ سے عشنا کو اپنی سانس لینا محال ہو رہا تھا لیکن نہ عالمگیر اُس سے الگ ہو رہا تھا اور نہ ہی عشنا اُسے الگ ہونے دے رہی تھی۔

عالمگیر نے عشنا کی اکھڑتی سانسوں کے دیکھتے ہوئے اُس کے لبوں کو آزادی بخش دی اور عشنا کا چہرہ دیکھنے لگا جو گہری  گہری سانس لیتی خود کو نورمل کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔

"عالمگیر ۔۔۔۔"

عشنا سرگوشی نما آواز میں عالمگیر کی پُکارا تو عالمگیر "یس جان کہتا " اُس کے گلے میں لٹک رہے "ع" پر اپنے لب رکھ کر جا بجا اُس کے گردن کر اپنی محبت برسانے لگا۔

عشنا عالمگیر کے گردن پر کس کرنے پر گدگدی محسوس کرتے اپنی ہنسی روکنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن عالمگیر نے اُس کی ہنسی سن لی تھی۔ 

عالمگیر اُس کی ہنسی سنتے ہی اُس سے الگ ہوا اور عشنا سے پرے ہو کر دوسرے کنارے پر کہنیوں کے بل ذرا سا اونچا ہو کر اُسے دیکھنے لگا۔

"عالم۔۔۔۔"

عشنا، عالمگیر کے الگ ہونے پر ایک بار پھر دہشت میں گھیر گئی۔

اُس نے عالمگیر کو پکارنا چاہا لیکن عالمگیر اُس کے کچھ کہنے سے پہلے ہی عشنا کو کھینچ کر اپنے حصار میں لے چکا تھا۔

عشنا عالمگیر کے سینے پر سر رکھے ہوئے تھی اور عالمگیر اُس کے گرد ہاتھوں کا گھیرا تنگ کرتا اُسے خود سے قریب کرنے لگا

"عالم۔۔۔عالمگیر۔۔۔آپ۔۔۔آپ مجھے۔۔۔"

عشنا اب بھی ڈری ہوئی تھی۔

" ششش۔۔۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُسے کچھ کہنے سے روک دیا۔

"عشنا جان۔۔۔میں کہیں بھی نہیں جا رہا۔۔۔یہی ہوں۔۔۔تمہارے پاس۔۔۔۔دیکھو۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کا خدشہ سمجھتے ہوئے اُسے اُس کی بدگمانی کم کرنی چاہی۔

"جان۔۔۔یہ ہنسی کس بات کی۔۔۔"

عالمگیر نے عشنا کے کانوں کے قریب اپنے لبوں کو جنبش دی۔

عالمگیر نے اُسے پھر سے بیڈ پر لیٹا دیا اور خود اُس کے اوپر جھک کر اُس کے گال سہلاتے ہوئے بولا۔

اب بتاؤ۔۔۔ہنسی کیوں تم۔۔۔"

عالمگیر محبت بھری نظروں سے اُسے دیکھتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔

"وہ۔۔۔آپ جب۔۔۔مجھے۔۔۔مجھے گُدگُدی۔"

عشنا نے بتایا تو عالمگیر نے ایک قہقہہ لگایا۔

"پاگل ہو تم بھی بلکل۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کی ناک کھینچی۔

"آپ کی محبت میں۔۔۔۔"

عشنا نے آنکھوں میں ہاتھ رکھ کر کہا۔

"آج تم مجھے میرے سارے باندھ توڑنے پر مجبور کر رہی ہو۔۔۔۔جان۔۔۔۔ آج تمہارا عالمگیر تمہیں اپنا بنانا چاہتا ہے۔۔۔اجازت؟"

عالمگیر نے اُس کے آنکھوں سے ہاتھ ہٹا کر اُس سے اجازت مانگی۔

 عشنا نے شرما کر نظریں جھکا لیں۔

عالمگیر اُس کی شرمانے پر اُس کی رضامندی جانتے ہوئے اُسکے لبوں کو اپنی قید میں کر کے خود کو سیراب کیا اور اُس کے  ماتھے پر اپنے لب رکھ کر اُسے کمر سے پکڑ کر ذرا اونچا کر کے اس کی شرٹ کی زپ کھول دی۔

عشنا عالمگیر کو کندھوں سے تھامے اُس کی انگلیوں کے لمس کو اپنے پیٹھ اور پھر پیٹ پر محسوس کر رہی تھی۔

عالمگیر نے آہستہ سے اُسے نیچے کیا اور اُس کی گردن پر اپنے لب رکھ  دیئے۔

عشنا ایک بار پھر ہنسنے لگی۔

"جان۔۔۔۔ایسے ہنسوگی تو۔۔۔"

عالمگیر نے چہرہ اونچا کر کے اُسے دیکھا

عشنا اب بھی ہنس رہی تھی۔

"رکو۔۔۔ابھی تمہاری ہنسی کو بریک لگاتا ہوں۔۔۔عالمگیر نے اُسے دھمکاتے ہوئے کہا اور بیٹھ کر اپنی شرٹ کے بٹن کھولنے لگا

عالمگیر نے اپنی شرٹ نکال کر ایک طرف رکھی اور عشنا کے اوپر جھک کر اپنے لبوں سے اُسے چھونے لگا۔ اس بار عشنا کی ہنسی بھی عالمگیر کو نہ روک پائی۔

تھوڑی دیر بعد عشنا نے اپنی شرٹ کندھوں سے سرکتی  محسوس کی تو عالمگیر کے گرد گھیرا تنگ کر کے اُسے زور سے پکڑ لیا۔

"جان۔۔۔۔میری شدتیں برداشت تو کر لوگی نہ۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کے ہاتھوں کی سختی کو اپنی پیٹھ پر محسوس کی تو عشنا کے کانوں میں بولا۔

عشنا نے کچھ نہیں کہا بس اپنے ہاتھوں سے اُس کی کمر کو اور زور سے پکڑ لیا۔

عالمگیر عشنا کا جواب نہ پا کر ایک بار پھر عشنا کے کریں تر ہوتا گیا۔

عشنا آنکھیں بند کیے عالمگیر کے لمس کو محسوس کرتی رہی۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 


عالمگیر کو عشنا کے ساتھ مشکل سے ابھی 10 ہی منٹ ہی گزرے تھے کے اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔

عالمگیر پوری طرح سے عشنا کے سحر میں جکڑا اُس پر جا بجا اپنی محبت رقم کرنے میں مگن تھا۔

عشنا اُس کے سحر کے کھوئی عالمگیر کو منمانیا کرنے دے رہی تھی۔

"عالم۔۔۔۔عالمگیر۔۔۔۔"

عشنا دستک کو سن کر عالمگیر کو پکارنے لگے۔

"یس جان۔۔۔۔"

عالمگیر  کے انداز میں عشنا کے پکارنے پر اور زیادہ شدّت آ گئی۔

"عالم۔۔۔عالمگیر دروازے پر کوئی ہے۔۔۔۔"

عشنا نے ایک بار پھر عالمگیر کو پُکارا جو کہ سرگوشی نما ہی تھی۔

"جان۔۔۔اب تم بچ کے نہیں جا سکتی۔۔۔بہانے بنانا بند کرو۔۔۔۔اینڈ دونٹ ڈسٹرب میں ۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کی بات کو نظر انداز کرتے اُس کے کانوں میں کہا اور ساتھ اُس کے کان کو ذرا سا دانت میں دبا کر اُسے کچھ کہنے سے روکا۔

دستک اب بھی ہو رہی تھی۔

"عالم۔۔۔پلیز۔۔۔دیکھیں۔۔۔"

عشنا نے پھر سے اُس کی توجہ دروازے کی طرف کرنی چاہی لیکن عالمگیر نے اُس کے لبوں کو قید کر کے اُسے کچھ بھی بولنے سے روک دیا۔

عشنا اب آنکھیں بڑی کیے عالمگیر کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اُسے خود سے الگ کرنا چاہا لیکن عالمگیر نے اُس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر تکیے پر لگا دیا۔

کچھ دیر بعد جب عشنا کی سانسیں تیز تیز چلنے لگی تو عالمگیر نے اُس کے لبوں سے ہٹ کر اُس کے رخسار کو چھوتا ایک بار پھر سے اُس کے لمس سے خود کو سیراب کرنے لگا۔

"علم۔عالمگیر پلیز دیکھیں۔۔۔کوئی ہے دروازے پر۔۔۔۔"

"عشنا نے عالمگیر کے گلے پر ہاتھ پھیر کر کہا جو گردن جھکائے اُس پر محبت لوٹا رہا تھا۔

اس بار عالمگیر نے اپنا چہرہ عشنا کی گردن سے اٹھا کر دروازے کی سمت دیکھا جہاں اب دستک تیز ہو چکی تھی۔

عالمگیر عشنا سے الگ ہوا اور بیڈ پر پڑی شرٹ کو اٹھا کر پہننے لگا۔

عالمگیر شرٹ کے بٹن تیزی سے بند کرتا بیڈ سے اٹھنے سے پہلے عشنا جو بیڈ سے اُٹھ کر اپنی شرٹ جو کندھوں سے کافی نیچے تھی اُسے ٹھیک کر رہی تھی اپنا چہرہ اُس کے قریب لا کے بولا۔

"ہم یہی سے کنٹینو کرینگے۔۔۔۔میں ذرا دیکھ کے آتا ہوں۔۔۔۔آج خلاصی نہیں ہے جان۔۔"

عالمگیر نے اُس کے برہنہ کندھوں پر اپنے لب رکھ دیئے ۔ اٹھنے سے پہلے وہ اُس کے ماتھے پر لب رکھنا نہ بھولا تھا۔

عالمگیر کے اٹھتے ہی عشنا اپنا بلانکیٹ صحیح کرنے لگی۔

عالمگیر نے دروازے کے پاس پہنچ کر عشنا کو دیکھا جو بلنکیٹ کو اچھی طرح خود پر اوڑھ کر اپنے آپ کو مکمّل طور پر چھپا چکی تھی۔

عالمگیر نے مڑ کر دروازہ کھولا تو ملازم کو کھڑا پایا۔

"سر ۔۔۔نیچے آپ کے مامو آئیں ہیں۔۔۔میں نے اُنھیں بیٹھا دیا ہے اور چائے بھی دے دی ہے ۔"

ملازم نے بتایا ۔

"ٹھیک ہے میں ابھی آتا ہو۔۔۔"

عالمگیر نے ہاتھوں سے اپنے بال سنوارتے ہوئے کہا اور دروازہ بند کر نے لگا۔

"سر ہارون سر عشنا میم کا پوچھ رہے تھے ۔ اور انکا کمرا بھی پوچھ رہے تھے"

ملازم نے بتایا تو عالمگیر ہارون صاحب کے نام پر ٹھٹکا۔

"ہارون مامو آئیں ہے؟"

عالمگیر نے حیران ہو کر پوچھا۔اُسے لگا تھا ابراہیم صاحب عشنا سے ملنے آئے ہیں۔۔۔۔کیونکہ ہارون صاحب بہت کم ہی اُنکے گھر آیا جایا کرتے تھے ۔

"جی۔۔۔ آپ کے دونوں مامو آئے ہیں ۔ہارون صاحب اور ابراہیم صاحب بھی۔"

"ٹھیک ہے میں اور عشنا آ رہے ہیں۔۔۔"

عالمگیر نے دروازہ بند کیا اور بیڈ پر آکر عشنا کے پاس بیٹھ گیا۔

عشنا صرف مامو آئیں ہے یہی سن پائی تھی اس لیے سوالیہ نظریں سے عالمگیر کو دیکھا ۔

"عشنا نیچے ہارون مامو اور تمہارے ابّو آئیں  ہیں۔

ہمیں جلدی سے نیچے جانا ہوگا "

عالمگیر نے عشنا کے گالوں پر ہاتھ رکھ کر کہا تو عشنا نے بھی اثبات میں گردن ہلا دی اور بلانکیٹ ہٹا کر واشروم کی طرف بڑھ گئی۔

تھوڑی دیر بعد وہ شاور لے کر آئی تو عالمگیر عشنا کے ماتھے کو اپنے لبوں سے چھو کر واشروم کی طرف بڑھ گیا۔

عشنا جلدی جلدی اپنے بال سلجھانے لگی۔

عالمگیر باہر آیا اور بالوں کو ہاتھوں سے سیٹ کرتا 

عشنا کے پاس آ کھڑا ہوا۔

عالمگیر نے عشنا کو آئینے میں سے دیکھتے ہوئے ایک فلائنگ کس اپنے داہنے ہاتھ کو لبوں کے آگے کر کے اس کی طرف اچھال دی۔

عشنا اُس کی حرکت پر مسکرا دی۔

عالمگیر نے اُس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اُسے خود سے قریب کر لیا۔

"اس بار تو ظالم سماج آ گیا ہمارے بیچ لیکن ہر بار تم نہیں بچو گی۔ بس چند گھنٹے اور۔۔۔۔اُسکے بعد کوئی ہمیں ڈسٹرب نہیں کرے گا۔" 

عالمگیر نے کہا اور اُسکے گالوں پر کس کرکے اُسے خود سے الگ کیا۔

عشنا نے دوپٹہ سر پر ٹھیک کیا۔

عالمگیر عشنا کا ہاتھ تھامے محبت سے اُسے دیکھتا سیڑھیوں کی طرف بڑھا اور اُسے لیے لاؤنج میں آ گیا۔

ابراہیم صاحب نے عالمگیر کو عشنا کو ساتھ دیکھا ۔ عشنا عالمگیر کی صحبت میں بلکل ٹھیک اور خوش نظر آ رہی تھی۔

ابراہیم نے صاحب آگے بڑھ کر عشنا کو گلے لگا لیا۔

ہارون صاحب تھوڑی دور کھڑے رخ موڑے کسی سے محو گفتگو تھے۔

"کیسی ہی میرے جان؟"

ابراہیم صاحب نے پوچھا۔

"بہت خوش ہوں ابّو۔۔۔"

عشنا نے عالمگیر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تو عالمگیر نے مسکرا کر اُسے دیکھا۔

"بلکل بیٹا۔۔۔تمہارا چہرہ بتا رہا ہے۔۔"

ابرہیم صاحب عشنا کی خوشی اُس کے چہرے سے دیکھ سکتے تھے۔

"بیٹھے نہ مامو۔۔۔"

عالمگیر نے ہاتھ کے اشارے سے اُنھیں بیٹھنے کے لیے کہا تو ابراہیم صاحب صوفے کی طرف بڑھ گئے

عالمگیر اور ابراہیم صاحب صوفے پر ایک ساتھ بیٹھے تھے جب کہ عشنا دوسری طرف سنگل صوفے پر بیٹھ گئی۔

"عالمگیر میں وہ..۔۔"

ابراہیم صاحب نے ہارون صاحب کی طرف دیکھا جو ذرا فاصلے پر اُنکی طرف پشت کیے فون پر بات کر رہے تھے۔

"جی مامو۔۔۔۔"

عالمگیر نے ابراہیم صاحب کو ہارون صاحب کی طرف دیکھتے دیکھ لیا تھا۔

"میں عشنا کو۔۔۔عالمگیر میں عشنا کو اپنے ساتھ لے جانے آیا ہوں۔۔۔۔"

ابراہیم صاحب نے کہا تو عشنا جو ٹیبل پر رکھے ٹی سیٹ سے چائے بنا رہی  رہی تھی اُس کے ہاتھوں سے پیالے چھوٹ کر زمین پر گر گئی اور ساتھ ہی ٹوٹ کر کّیرچیوں میں بکھر گئی۔

عشنا کو لگا اُس کی ذات بھی فرش پر پڑے کپ کی طرح بکھر کر ریزہ ریزہ ہو گئی ہو۔

عالمگیر جو ابراہیم صاحب سے بات کر رہا تھا اُنکی آخری بات پر عشنا کا ردِّ عمل دیکھ کر جلدی سے اُس کی طرف بڑھا تھا۔

"عشنا۔۔۔۔تم ٹھیک ہو۔۔۔؟"

عالمگیر نے اُس کے ہاتھ پھر پاؤں کی طرف دیکھ کر پوچھا تھا جو آنسوؤں سے بھری آنکھوں سمیت اُسے ہی دیکھے جا رہی تھی۔

عشنا کے پیر اور ہاتھ  پر چائے نہیں گیری تھی۔ لیکن عشنا کو تکلیف بہت ہو رہی تھی

عشنا بھاگتی ہوئی اپنے پرانے کمرے جہاں وہ عالمگیر سے نکاح کے پہلے رہا کرتی تھی وہاں آ کر کمرا بند کر لیا۔

عالمگیر نے عشنا کو ایسے جاتا دیکھا تو اُس کے پیچھے جانا چاہا۔

"عالمگیر۔۔۔۔میری بات سنو۔۔۔۔۔"

ابرہیم صاحب نے اُسے پیچھے سے آواز دی

"نہیں مامو۔۔۔۔عشنا کہیں نہیں جائے گی۔۔۔"

عالمگیر نے بنا موڑے کہا تھا اور آگے بڑھنا چاہا۔

"کیسے ہو برخوردار۔۔۔۔"

ہارون صاحب نے پیچھے سے عالمگیر کو آواز دی تو آلمگے رک کر اُنکی بات سننی پڑی۔

" اسلام علیکم مامو۔۔۔۔جی میں ٹھیک ۔۔۔آپ سنائیں۔۔۔۔"

عالمگیر نے ہارون صاحب سے مصافحہ کرتے ہوئے اُنکی خیریت دریافت کی لیکن اُس کا ذہین اب بھی عشنا میں اٹکا تھا۔

"ہم بھی ٹھیک ہیں۔۔۔۔اور عشنا کہاں ہے۔۔۔۔طبیعت کیسی ہے۔۔۔؟"

ہارون صاحب نے عشنا کہ پوچھا۔

"وہ ٹھیک ہے۔۔۔۔ریسٹ کر رہی ہے۔"

عالمگیر نے سر کو جھکائے ہوئے کہا۔

"تو بلاؤ اُسے ۔۔۔ہم اُسے لینے آئیں ہے ۔۔"

ہارون صاحب نے سختی سے کہا۔

"مامو۔۔۔۔عشنا کہیں بھی نہیں جائیگی۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُن کے سامنے کھڑے ہو کر جیبوں میں ہاتھ ڈال کر کہا۔

"ہاں۔۔۔عالمگیر نے مجھے بتایا تھا کہ ابھی عشنا پوری طرح سے صحت یاب نہیں ہوئی اس لیے کہہ رہا ہے"

ابراہیم صاحب نے عالمگیر کی بات سنتے ہی جلدی سے صفائی دی۔

"میں اُسے کراچی لے کر جاؤنگا۔۔۔وہاں اُس کا علاج بہتر ہوگا"

ہارون صاحب نے ایک بار پھر عشنا کو لے جانے کا کہا

"مامو۔۔۔۔میں۔۔۔۔"

عالمگیر ابھی کچھ سخت کہنے ہی والا تھا کے ابراہیم صاحب نے پیچھے سے ہاتھ کے اشارے سے اُسے کچھ بھی کہنے سے روک دیا

ہارون صاحب جو عالمگیر کو دیکھ رہے تھے اور اُسکی اگلی بات جو عالمگیر کہتے کہتے رک گیا تھا اُس کی بات کو مکمل ہونے کا انتظار کرنے لگے لیکن اُسے وقت اُن کا موبائل بجا تھا 

ہارون صاحب فون کو کان سے لگاتے ایک طرف آ گئے 

"عالمگیر ۔۔۔پلیز ہارون کے سامنے ایسا کچھ مت کہہ دینا کہ اب میں اپنے بھائی کو کھو دوں

"پلیز عالمگیر۔۔۔"

ابراہیم صاحب نے با قاعدہ ہاتھ جوڑ دیئے۔

"مامو آپ ہارون مامو کو سمجھائیں ۔۔۔عشنا میری بیوی ہے اور میں اُسے آپ کو یہ ہارون مامو کو کہیں نہیں جانے دونگا۔

"عالمگیر پلیز میری بات سمجھنے کی کوشش کرو بیٹا۔۔۔۔"

ابراہیم صاحب نے اُسے سمجھانا چاہا

"مامو بات آپ سمجھیں۔۔۔۔میں عشنا کو کہیں نہیں جانے دے سکتا۔۔۔۔آپ نے اُس کی حالت دیکھی تھی؟ آپ کو پتہ بھی ہے عشنا مجھ سے دور نہیں رہ سکتی۔ پھر بھی آپ۔۔۔۔۔۔؟"

عالمگیر نے حیران ہو کر اُنھیں دیکھا۔ ابھی کچھ دن پہلے تک تو اُس کی حالت کو دیکھ کر وہ رو دیئے تھے اور اب۔۔۔۔ایک بار پھر وہ عشنا کو ایسے ہی تکلیف میں مبتلا کرنے آ گئے تھے۔

"عالمگیر۔۔۔۔۔پلیز میری بات سمجھو۔۔۔۔میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں بیٹا۔۔۔۔۔مجھے 2 مہینے کا وقت دو بیٹا۔۔۔۔۔میں سب کچھ ٹھیک کر دونگا۔۔۔۔میں ہارون سے بھی بات کر لونگا۔2 مہینے بعد میں پوری عزت و احترام کے ساتھ عشنا کو تمہارے ساتھ رخصت کرونگا بیٹے۔۔۔۔بس مجھے 2 مہینے کا وقت دے دو"

ابراہیم صاحبِ نے باقاعدہ ہاتھ جوڑ کر عالمگیر سے التظہ کی تو عالمگیر نے آگے آ کر اُن کے جوڑے ہوئے ہاتھ تھام لیے۔

"مامو یہ آپ۔۔۔۔۔مامو میری عشنا کو اگر کچھ ہوا اس دوران تو بنا کسی کی پرواہ کیے اُسے اپنے پاس لے آؤں گا اس بار آپ میں سے کسی نے مجھے روکا تو ٹھیک نہیں ہوگا"

عالمگیر نے کہہ کر اُن کے ہاتھ چھوڑ دیے اور عشنا کے کمرے کی طرف بڑھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"عشنا۔۔۔۔"

عالمگیر نے عشنا کے دروازے کے پاس آ کر اُسے پُکارا

"عالم۔۔۔۔عالمگیر "

عشنا نے دروازہ کھولا تو عالمگیر اندر آ گیا اور دروازہ بند کر لیا۔

عالمگیر کے اندر آتے ہی عشنا عالمگیر کے سینے سے لگ کر بلکنے لگی۔۔۔۔وہ جب سے کمرے میں آئی تھی تب سے رو رہی تھی۔

"جان۔۔۔۔۔پلیز۔۔۔۔ایسے تو نہیں روؤ۔۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کی پیٹھ سہلای

"عالم۔۔۔۔عالمگیر مجھے نہیں جانا۔۔۔۔مجھے آپ کے پاس۔۔۔۔مجھے مت بھیجیں۔۔۔۔"

عشنا نے ہچکیوں کے درمیان کہا تو عالمگیر تڑپ ہی اٹھا۔

"جان۔۔۔میری طرف دیکھو۔۔۔"

عالمگیر نے اُسے خود سے آگ کر کے اپنے مقابل کیا تھا۔

"عالم۔۔۔۔۔۔"

عشنا نے عالمگیر کی آنکھوں میں دیکھا۔عالمگیر کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے اور اُس کی آنکھیں ضبط کی شدّت سے سرخ ہو رہے تھے۔

عشنا نے کچھ کہنا  چاہا لیکن عالمگیر نے اُس کے چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں بھر کر ذرا سا اونچا کیا اور اپنے لبوں کو اُس کے لبوں پر رکھ کر سیراب کرنے لگا۔

عالمگیر نے خود کو سیراب کرنے کے بعد عشنا کو خود سے الگ کیا تو عشنا ایک بار پھر عالمگیر کے سینے سے لگ گئی۔

"جان۔۔۔۔۔یہاں بیٹھو۔۔۔"

عالمگیر اُسے لیے بیڈ تک آیا اور اُسے بیڈ پر بیٹھا کر خود اُس کے سامنے دو زانوں ہو کر بیٹھ گیا

"جان میری ایک بات مان گی؟ یہ فیصلہ  میں نے اپنے دل پر پتھر رکھ کر کیا ہے۔پلیز مجھ پر بھروسہ کرنا۔۔۔پلیز اپنے عالمگیر سے بدگُمان نہیں ہونا۔۔۔"

عالمگیر سے اُسکے ہاتھ تھام کر کہا تو عشنا کے دل میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگی

"عالم۔۔۔۔میں۔۔۔"

عشنا نے کچھ کہنا چاہا

"عشنا پلیز۔۔۔۔پلیز میری بات سن لو پہلے۔۔۔۔"

عالمگیر  اٹھ کر اُس کے برابر بیٹھا اور اُس کے گرد بازو پھیلا کر اُسے اپنے حصار میں لیتا ہوا اُسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا۔

عشنا بنا کچھ بولے بس اُسے دیکھے گئی۔

"جان۔۔۔مامو تمہیں اپنے ساتھ لے جانا چاہتے ہیں ۔۔۔۔"

عالمگیر کہتے کہتے رکا

"جان مامو چاہتے ہیں کے تم ابھی اُنکے ساتھ چلی جاؤ۔۔"

عالمگیر نے بتایا تو عشنا ایک بار پھر سے رونے لگی۔

"عالم۔۔۔عالمگیر پلیز۔۔۔۔میں نہیں جانا چاھتی۔۔۔۔۔مجھے ۔۔۔"

عشنا نے کہتے کہتے ہیچکی لی۔

"مجھ پر بھروسہ ہے نہ؟ ہے نہ؟"

عالمگیر نے اُس سے پوچھا تو عشنا ہیچکی لیتے ہوئے سر کو ہاں میں جنبش دی

"تو پھر جان۔۔۔۔آج تم مامو کے ساتھ چلی جاؤ۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُسے نظروں کے حصار میں رکھتے ہوئے کہا۔

"عالم۔۔۔۔عالم آپ مجھے ۔۔۔مجھے ایک بار پھر۔۔۔پھر مجھے۔۔۔۔"

عشنا مسلسل ہچکیاں لے رہی تھی۔

"نہیں جان۔۔۔۔میں تمہیں خود سے دور بلکل نہیں کر رہا۔۔۔تمہیں لگتا ہے یہ میرے لیے آسان ہے؟ نہیں نا؟ پلیز مجھ پر بھروسہ کرو۔۔۔۔میں تمہیں 2 مہینے کے بعد لینے آؤنگا ہمیشہ کے لیے۔

مامو نے وعدہ کیا ہے کے وہ ان 2 مہینوں میں ہارون مامو سے بات کر لینگے۔۔۔۔"

عالمگیر کی آنکھوں سے ایک آنسو نکل کر اُس کے رخسار پر بہہ گیا۔

"اگر۔۔۔اگر وہ نہیں مانے تو۔۔۔"

عشنا نے اپنے دل میں چھپے ڈر کو زبان دی۔۔۔

"اگر وہ نہیں مانے تب بھی میں تمہیں اپنے پاس لے آؤنگا۔۔۔۔"

"عالمگیر نے بازو پر دباؤ ڈال کر کہا۔

"وہ۔۔۔وہ پھر ۔۔۔وہ پھر ایسے ۔۔۔ایسے ہی مجھے ۔۔۔مجھے لے جائینگے۔۔۔"

عشنا نے روتے روتے ہوئے کہا۔

"نہیں۔۔۔۔اُس کے بعد کوئی تمہیں مجھ سے دور نہیں لے جا سکتا۔۔۔۔۔اور اگر کسی نے ایسا کرنے کی کوشش بھی کی تو میں تمہیں ان سب سے دور لے جاؤنگا۔۔۔جہاں کوئی تمہیں مجھ سے دور نہیں کر پائیگا۔۔۔۔"

عالمگیر نے کہا اور زور سے اُسے اپنے سینے میں بھینچ لیا۔

"عالم۔۔۔عالم۔۔۔"

عشنا اُس کے گلے لگی رو رہی تھی۔

عالمگیر نے آہستہ سے اُسے الگ کیا اور اُس کی بھیگی آنکھیں صاف کیے 

"یقین ہے نہ مجھ پر؟"

عالمگیر نے اُسے دیکھتے ہوئے پوچھا تھا

"ہاں۔۔۔۔"

عشنا نے سر کو ہاں میں ہلایا۔

"تو پھر تمہیں وہاں اپنا بہت خیال رکھنا ہوگا۔ بہت۔۔۔اپنے لیے نہیں۔۔۔اپنے عالمگیر کے لیے۔۔۔۔رکھو گی نا اپنا خیال۔۔۔؟"

عالمگیر نے اُس کے چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں بھر کر اُس سے وعدہ لینا چاہا۔

عشنا نے اب بھی صرف سر ہلانے پر اکتفا کیا۔

عالمگیر نے جھک کر اُس کی آنکھوں پر اپنے لب رکھ دیئے اور آہستہ سے اُس کا ماتھا چوم کر اُس سے الگ ہوا۔

"تم تیار ہو جاؤ۔۔۔۔میں باہر ہوں۔۔۔"

عالمگیر نے کہا اور باہر کی طرف قدم بڑھا دیے۔

عالمگیر لاؤنج میں آیا تو ہارون صاحب اور ابراہیم صاحب اُن کا انتظار کر رہے تھے

"عشنا نہیں آئی۔۔۔عالمگیر ہمیں نکلنا ہے۔۔۔"

ہارون صاحب نے عالمگیر کی طرف دیکھ کر کہا۔

"وہ تیار ہو رہی ہے۔"

عالمگیر نے کہا اور تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔

عالمگیر اپنے کمرے میں آ کر بیگ اٹھا کر عشنا کا سامان پیک کرنے لگا۔ 

عشنا کا سارا سامان عالمگیر کے کمرے میں ہی تھا حتٰی کے اُس کے کپڑے بھی۔

عالمگیر نے ملازم کو انٹرکام کر کے اپنے کمرے میں بلایا اور عشنا کا ایک ڈریس اُسے دے کر اُس کے پرانے کمرے میں بھیج دیا اور خود اُس کا سامان لے کر نیچے آیا اور ڈرائیور سے کہہ کر ہارون صاحب کی کار میں رکھوا دیا۔

ہارون صاحب اور ابراہیم صاحب لاؤنج میں بیٹھے آپس میں بات کر رہے تھی۔

عالمگیر عشنا کے کمرے میں آیا تو عشنا واشروم سے باہر آ رہی تھی۔

عالمگیر نے آگے بڑھ کر اُس کے ماتھے پر اپنے لب رکھ دیئے۔

"جان۔۔۔میرا انتظار کرنا۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔

عشنا نے بھیگی آنکھوں سے اُسے ہاں کہا اور اُس کے سینے سے لگ کر بلکنے لگی۔

"بس۔۔۔۔اب اور نہیں۔۔۔۔میں میری جان کو ایسے روتا ہوا نہیں دیکھ سکتا۔"

عالمگیر نے عشنا کی کمر کے گرد گھیرا تنگ کر کے ایک ہاتھ سے اُس کی پیٹھ سہلاتے ہوئے کہا۔

تھوڑی دیر بعد جب عشنا کے رونے میں کمی آئی تو عالمگیر اُس سے الگ ہوتا ہوا اُس کے آنسو صاف کرنے لگا۔

"میں آپ کا انتظار کروں گی عالمگیر۔۔۔۔"

عشنا نے کہا تو عالمگیر بھیگی آنکھوں سمیت مسکرا دیا۔

"میں آؤنگا جان۔۔۔۔اپنی جان کو لینے آؤنگا۔۔۔۔۔"

عالمگیر نے کہا اور اُس کے ماتھے کے ساتھ ماتھا لگا دیا


"تم تیار ہو جاؤ۔۔مامو انتظار کر رہے ہیں۔۔۔"

عالمگیر اُس کے گال تھپکتا  باہر آ گیا۔

تھوڑی دیر بعد عشنا کمرے سے باہر آئی۔

ہارون صاحب نے آگے بڑھ کر اُسے گلے لگا لیا۔

عشنا نے عالمگیر کو دیکھا ۔

عالمگیر کی آنکھیں ضبط کی شدّت سے سرخ ہو رہی تھیں۔

"چلو بیٹا۔۔۔گھر چلتے ہیں۔۔۔۔ تمہارا بہت شکریہ۔

 عشنا کی فائل وغیرہ۔۔۔؟"

ہارون صاحب پہلے عشنا اور پھر عالمگیر سے اُس کی فائل کا پوچھنے لگے۔

"مامو عشنا اب بالکل ٹھیک ہے۔۔۔آپ فلھال اُسے لے جائیں۔۔۔۔"

عالمگیر نے ہارون صاحب کو دیکھ کر کہا تو اُنہونے نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھ دیا۔

عالمگیر نے اُن کا ہاتھ تھام کر اُن سے مصافحہ کیا اور پھر ابراہیم صاحب سے مصافحہ کیا۔

سب لوگ کار میں بیٹھ گئے 

عالمگیر وہی کھڑا اُنکی کار کو گیٹ سے باہر نکلتے دیکھتا رہا۔

عشنا نے کھڑکی سے سر نکال کر عالمگیر کو دیکھا تھا۔

دونوں کی انکھوں میں آنسو تیر رہے تھے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ایک سال پہلے


"السلام علیکم امی۔۔۔"

عشنا کو گھر چھوڑنے کے بعد عالمگیر گھر آ گیا تھا۔

رحمت بیگم اُسے دیکھ کر خوش ہو گئی تھیں۔ آخر عالمگیر ایک مہینے بعد آیا تھا۔

عالمگیر نے آگے بڑھ کر اُن کے سامنے سر جھکا دیا تو رحمت بیگم نے اُس کے سر پر پیار کیا اور اُسے گلے سے لگا لیا۔ 

رحمت بیگم کی آنکھیں بھیگ گئی۔

عالمگیر اس کے کندھے پر بازو پھیلا کر اُنھیں لیے اندر لے جانے لگا تب ہی مراد گیٹ کے اندر داخل ہوا

"السلام علیکم آنٹی۔۔۔"

مراد نے آگے بڑھ کر عالمگیر کی طرح اُن کے سامنے سر جھکا دیا تو رحمت بیگم نے اُس کے سر پر پیار کیا اور اُن دونوں کو لے کر گھر کے اندر چلی گئیں تھی۔

رحمت بیگم نے آج ساری ڈشیز عالمگیر کی پسند کی بنوائی تھے۔

عالمگیر بس برائے نام ہی کھا سکا تھا کیونکہ اُس کا ذہین عشنا کی فکر میں لگا ہوا تھا۔

اُس کے مقابلے مراد نے ڈٹ کر کھایا ۔

عالمگیر کھانا کھانے کے بعد اپنے کمرے میں آ گیا۔

مراد کے لیے رحمت بیگم نے گیسٹ روم کھلوا دیا تھا لیکن اُسے وہاں سکون نہیں مل رہا تھا۔ وہ اٹھ کر عالمگیر کے کمرے میں آ گیا۔

"عالمگیر۔۔۔۔"

مراد عالمگیر کے کمرے میں آیا تو عالمگیر کمرے میں یہاں سے وہاں ٹہل رہا تھا۔ 

مراد نے عالمگیر کو ایسے ٹہلتے دیکھا تو اُسے پُکارا۔

عالمگیر مراد کی آواز پر پلٹ کر  اُسے دیکھنے لگا۔

"ارے مراد۔۔۔۔کیا ہوا۔۔۔۔کچھ چائیے تھا؟"

عالمگیر نے مراد کو کمرے کے دروازے پر دیکھا تو پوچھ بیٹھا۔

"نہیں۔۔۔بس وہاں نیند نہیں آ رہی تھی تو سوچا تمہارے پاس آ جاؤ۔۔۔۔لیکن تمہیں کیا ہوا؟ کچھ پروبلم ہے؟"

مراد  نے اُسے جواب دیا اور ساتھ ہی سوال بھی کر دیا۔

"ہاں۔۔۔۔نہیں۔۔۔بس ویسے ہی۔۔۔"

عالمگیر نے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا۔

"عالمگیر۔۔۔۔بتاؤ مجھے ہوا کیا ہے؟"

مراد چلتا ہوا عالمگیر کے پاس آیا اور اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اُس کے پریشان چہرے کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"وہ یار۔۔۔۔مجھے۔۔۔۔مجھے اُسے ایسے ڈانٹنا نہیں چاہیے تھا۔۔"

عالمگیر نے اُسے اپنی پریشانی بتائی اور ایک گہری سانس لی۔

"کیسے؟ کیسے نہیں ڈانٹنا چاہیے تھا؟"

مراد نے حیران ہو کر پوچھا۔

"تو نہیں جانتا۔۔۔"

عالمگیر نے بات بنائی۔۔۔

اوہ۔۔۔۔میرا یار مجنوں کب سے بن گیا؟ اور بھابھی کون ہے؟ کیا یہی لاہور میں رہتی  ہیں۔۔۔؟"

مراد نے ایک بعد دیگرے کئی سوال کر ڈالے۔

"ہاں۔۔۔یہی رہتی ہے اور تمہارے جانے کے بعد میں نے اُسے بہت ڈانٹ دیا۔اُسے بھی کیا ضرورت تھی وہاں اکیلے جانے کی؟ پتہ بھی ہی اگر ہم وہاں نہ پہنچ جاتے تو کیا ہو سکتا تھا؟ "

عالمگیر نے بتایا تو مراد نے حیران ہو کر اُسے دیکھا۔

"مطلب بھابھی۔۔۔بھابھی جنید صاحب کی بیٹی کی شادی میں تھیں۔۔۔؟"

مراد نے حیرت  میں گھرے پوچھا۔

"ہاں۔۔۔میں نے بھی بعد میں دیکھا۔۔۔جس کمرے سے آواز آ رہی تھی۔۔۔یاد ہے؟ ان لوگو نے اُسے وہاں بند کر رکھا تھا۔اُس کے ہاتھوں کو پیرو کو رسي سے باندھ کر ۔ پتہ ہے کتنے زخم آئے تھے اُسے۔۔۔۔اوپر سے میں نے اُسے ڈانٹ دیا۔۔۔پتہ نہیں اب کیسی ہوگی وہ۔۔۔دوا بھی لی ہوگی کہ نہیں۔۔۔۔کھانا کھایا ہوگا اُس نے یہ نہیں۔۔۔؟"

عالمگیر پریشانی سے یہاں وہ ٹہلنے ٹہلنے لگا۔

"اوہو۔۔۔۔یار تو تو پکّا مجنو بن گیا ہے۔۔۔"

مراد نے اوہو کو ذرا کھینچ کر کہا۔

"بکواس نا کر۔۔۔۔کچھ حل بتا۔۔۔"

عالمگیر نے مراد کو آنکھیں دکھائی۔

"حل تو بس یہی ہے کہ تو ابھی سو جا۔۔۔۔صبح جا کر بھابھی سے معافی مانگ لینا۔سیمپل۔۔۔"

مراد نے شانے اچکا کر اپنے حساب سے حل بتایا۔

"معافی۔۔۔۔ہممم۔۔۔۔چل۔۔۔۔"

عالمگیر نے دروازے کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے مراد کو بھی ساتھ چلنے کا کہا۔

"کہاں؟"۔

مراد نے حیرانی سے پوچھا۔

"اُس کے گھر۔۔۔معافی مانگنے۔۔۔"

عالمگیر نے پلٹ کر کہا۔

"سالے۔۔۔۔صبح چلے جانا۔۔۔۔اتنی رات کو گیا تو بھابھی ملے نہ ملے۔۔۔اگر اُن کے ابّا جی مل گئے نا تو تیری پٹائی پکی ہے۔۔۔۔"

مراد نے آنکھیں گھوما گھوما کر کہا۔

"تو اس لیے تو تُجھے ساتھ چلنے کو کہہ رہا  ہوں۔۔۔"

عالمگیر نے مسکرا کر کہا

"کیا مطلب؟ تو میری پٹائی کروانے کے لیے مجھے ساتھ لے جا رہا ہے؟"

مراد نے کمر پر ہاتھ رکھ کر لڑاکا عورتوں کے سٹائل میں کہا تو عالمگیر نے ایک زوردار قہقہہ لگایا تھا۔

"نہیں۔۔۔۔پٹائ تو نہیں۔۔۔اگر پکڑے گئے تو تیرے اتنے سالوں کی پولیس سروس میں کمایا گیا تیرا ایکسپیرینس بھاگنے میں ہمارے کام آ سکتا ہے اس لیے ۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا تو مراد نے آنکھوں کی پُتلیاں سیکوڈ کر اُسے دیکھا۔

"پکڑے گئے؟ مطلب تو وہاں چوری کرنے جا رہا ہے؟"

مراد نے آنکھیں بڑی کر کے پوچھا۔

"چوری کرنے نہیں چوری سے جا رہے ہیں۔۔۔۔اب چل جلدی۔۔۔۔باقی سوال راستے میں کر لینا۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کا ہاتھ کھینچتے ہوئے اُسے اپنے ساتھ گھسیٹا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عالمگیر نے کار کو ابراہیم ہاؤس کے تھوڑی دور پر روک دی اور مراد کے ساتھ پیدل چلتا ہوا گھر کے پاس آ گیا۔ 

"ابے سالے۔۔۔۔اندر کیسے جائینگے۔۔۔گیٹ پر چوکی دار بھی تو ہوگا۔۔۔۔"

مراد نے اُس کے ساتھ چلتے ہوئے کہا۔

"تو تُجھے کیا یہاں تیری بکواس  سننے کے لیے لے کر آیا ہوں؟"

عالمگیر نے رک کر اُسے گھورا۔

"مطلب۔۔۔۔میں کیا چوکیدار کا دوست ہوں جو اُس سے کہونگا کہ بھائی پلیز میرے مجنو دوست کو اندر جانے دیں۔۔۔۔کسی کو کچھ بتائیں بنا۔۔۔"

مراد نے ناک چڑھاتے ہوئے کہا۔

"اچھا اچھا۔۔۔رک کچھ سوچتا ہوں۔۔۔۔"

مراد عالمگیر کی گھورتی نظروں سے گھبرا کر خائف ہوتے ہوئے بولا۔

"ہمیں یہ دیوار کودنی ہوگی۔۔۔"

مراد نے باؤنڈری والا کو دیکھتے ہوئے کہا۔

"بھائی مجھے میرے ہاتھ پیر نہیں توڑوانے۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کی بات کے جواب میں دیوار کو دیکھتے ہوئے کہا جو ذرا اونچی تھی۔

"کچھ نہیں ہوتا میرے مجنو بھائی۔۔۔لوگ تو محبت میں دریا پار کر جاتے ہیں۔۔۔۔۔اور تُو ایک دیوار نہیں كود سکتا؟"

مراد نے شہادت کی انگلی پر دوسری انگلی سے تھوڑی سی انگلی کو چھوتے ہوئے آنکھیں چھوٹی کر کے کہا تو عالمگیر نے اُسے دیکھا اور پھر دیوار کو۔۔۔

وہ لوگ تھوڑا آگے آئے تو دیوار کے ساتھ ایک پیڈ تھا۔

عالمگیر اور مراد اُس پیڈ پر چڑ گئے اور دیوار سے اندر کی طرف چھلانگ لگا دی۔

دھپ کی آواز آئی اور دونوں زمین پر ہاتھوں کو فولڈ کیے گٹھنوں کے بل بیٹھ گئے۔

"شّش۔۔۔۔"

مراد نے لبوں پر انگلی رکھ کر کہا اور اُسے لیے گھر کی طرف بڑھنے لگا۔

"اب بتا بھابھی کا کمرا کونسا ہے۔۔۔۔"

مراد میں عالمگیر کے ساتھ چلتے پوچھا۔

عالمگیر نے ایک نظر گھر کو دیکھا اور اشارے سے اوپر کے ایک کمرے کی طرف انگلی اٹھا کر مراد کو بتایا۔

"اب۔۔۔اوپر سے نیچے تو کود کے آ گئے لیکن نیچے سے اوپر کیسے جائینگے؟"

عالمگیر نے مراد کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"رک میں سوچتا ہوں کچھ۔۔۔۔"

مراد نے کہا اور آس پاس نظریں دوڑانے لگا۔

" تو رک میں ابھی آتا ہوں۔۔۔"

مراد ایک طرف دیکھتا ہوا آگے بڑھ گیا تو عالمگیر نیچے کھڑا ہو کر عشنا کی کھڑکی کی طرف دیکھنے لگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عشنا عالمگیر کے جانے کے بعد سے کمرے سے نہیں نکلی تھی۔ 

جہاں عالمگیر کا محبت بھرا لمس عشنا کی خوشی کا باعث بنا تھا کہ عالمگیر اب بھی اُس سے بہت محبت کرتا ہے۔

وہی محبت جو اُس نے فیرول والے دن عالمگیر کی آنکھوں میں دیکھی تھی اور جس محبت سے وہ نکاح کے بعد عالمگیر کے کہے گئے لفظوں کے بعد بدگُمان ہو گئی تھی کہ شاید عالمگیر اُس سے محبت نہیں کرتا۔ اُس نے صرف سمجھوتہ کیا ہے۔لیکن آج جس طرح سے عالمگیر نے اُس کی حفاظت کی ،محبت سے اُس کے ہاتھوں اور پیروں کے زخم دیکھ کر وہ تڑپا تھا وہ بھی عشنا سے چھپا نہیں تھا۔

 عشنا ایک بار پھر ہواؤں میں اڑنے لگی تھی لیکن عالمگیر کی غصے میں کہی گئی آخری بات پر وہ بری طرح خائف بھی تھی۔

وہ ایک کشمکش میں گھری ہوئی تھی۔ اُسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کے عالمگیر کے رویے پر اُسے خوش ہونا۔ چاہیے یہ اُس کے غصے سے خائف۔۔۔اسی کشمش میں اُس نے نہ کھانا کھایا تھا اور نہ ہی میڈیسن جو عالمگیر نے اُسے لا کر دی تھی ۔

میڈیسن کا شاپر جوں کا توں پڑا تھا۔

"عالمگیر۔۔۔۔کیا آپ کو بھی مجھ سے محبت نہیں؟"

عشنا عالمگیر کا کوٹ ہاتھوں میں لیے اُس سے سوال کر رہی تھی۔

"عالمگیر میں آپ سے بہت محبت کرتی ہوں۔۔۔پلیز مجھے ایسے سزا مت دیں۔۔۔"

عشنا عالمگیر کا کوٹ ہاتھوں میں لیے کافی دیر تک اُس سے شکوے شکایت کرتی رہی۔ساتھ ہی اُس کے آنسو بھی بہہ رہے تھے۔

نجانے کب اُس کی آنکھ لگ گئی ۔ ابھی اُسے سوئے کچھ ہی وقت گزر تھا کہ کسی احساس کے تحت اُس کی آنکھ کھل گئی۔ اُسے لگا اُس کے علاوہ بھی کمرے میں کوئی ہے۔

عشنا نے ڈر کر تھوک نگلا اور دروازے کی طرف بھاگنا چاہا لیکن اندھیرے میں وہ کسی سے ٹکڑا گئی۔ 

اس سے پہلے کہ وہ چیختی۔۔۔پاس کھڑے شخص نے اُس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اُسے چیخنے سے روک دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عالمگیر کھڑکی کے نیچے کھڑا تھا تب ہی مراد ایک لکڑی کی سیڑھی لیے اُس کے پاس آیا اور عشنا کے کمرے کی کھڑکی کے ساتھ لگا دیا۔

"چل چلتے ہیں۔۔۔ "

مراد میں سیڑھی لگانے کے بعد کہا۔

چلتے ہیں؟ تُو یہیں رک۔۔۔میں جاتا ہوں۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اُسے پرے کیا۔

"مطلب؟ میں کیا بھابھی کو دیکھوں بھی نہیں؟"

مراد نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔

"پہلے میں تو مل لوں۔۔۔تو بعد میں دیکھ لینا۔"

عالمگیر نے کہا اور سیڑھیاں چڑ کر عشنا کے کمرے میں آ گیا۔

عالمگیر نے شکر کیا کہ کمرے کی کھڑکی کھلی ہوئی تھی ورنہ اُس کا آنا بیکار ہو جاتا۔

عشنا کا کمرا اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا عالمگیر نے اپنے جیب سے لائٹر نکال کر کمرے کا جائزہ لیا تو عشنا بیڈ پر نیم دراز تھی اور اُس کے پاس ہی عالمگیر کا کوٹ رکھا تھا جس پر عشنا نے اپنا ایک ہاتھ رکھا ہوا تھا۔

عالمگیر لائٹر بند کر کی عشنا کے بیڈ کی طرف بڑھ رہا تھا اتنے میں عشنا بیڈ سے اُٹھتی ہوئی نظر آئی۔

عالمگیر نے اُسے کمرے کے دروازے کی طرف  بڑھتا دیکھا تو آگے بڑھ کر اُس کی کمرا میں ہاتھ ڈال کر دوسرا ہاتھ اُسکے منہ پر رکھ دیا۔ کیونکہ عشنا کی ہلکی سے چیخ جو کبھی بھی تیز ہو سکتی تھی اُس سے بچنے کے لیے اُس کے منہ کو اپنے ایک ہاتھ سے بند کر دیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عالمگیر عشنا کو دیوار کے ساتھ لگاے ایک ہاتھ اُس کے منہ پر رکھے ہوئے تھا دوسرے ہاتھ سےلائٹر جلا کر اُسے عشنا کے چہرے کے قریب لے آیا۔

لائٹر جلتے ہی روشنی میں عالمگیر کا چہرہ دیکھتے ہی عشنا کی جان میں جان آئی تھی لیکن وہ بند کمرے میں کیسے آیا یہ سوچ کر وہ خائف بھی ہوئی تھی۔

عالمگیر کی گرفت اس کے منہ پر بہت سخت تھی جس کی وجہ سے عشنا کی آنکھوں سے ایک آنسو نکل کر اُس کے رخسار بھیگوتا عالمگیر کے ہاتھ پر آ رکا۔

عالمگیر جو عشنا کے چہرے کے ایک ایک نقوش کو اپنی آنکھوں سے چھو رہا تھا اپنے ہاتھوں پر نمی محسوس کر کے اس نے عشنا کی آنکھوں میں دیکھا اور آہستہ سے ہاتھ ہٹا کر سوئچ بورڈ کے پاس آ کر لائیٹ آن کر دی۔

عشنا نے گھبرا کر عالمگیر کو دیکھا

"کیسی ہو؟"

عالمگیر عشنا کی طرف آیا اور اُس کے ہاتھوں اور پیروں کو دیکھ کر پوچھا

"ٹھ۔۔۔ٹھیک ۔۔۔"

عشنا نے گھبرا کر کہا۔

"لگ تو نہیں رہی"

عالمگیر چلتا ہوا اُس کے پاس آیا اور اُس کی کلائی تھام کر اُسے بیڈ تک لے آیا۔

عشنا چپ چاپ اُس کے ساتھ بیڈ پر بیٹھ گئی۔

"کھانا کھایا؟"

عالمگیر نے پھر پوچھا۔

عشنا کچھ نہیں بولی۔ بس چپ چپ بیٹھی اپنے گود میں رکھے اپنے ہاتھو کو دیکھتی رہی

"عشنا ۔۔۔۔میں کچھ پوچھ رہا ہوں۔۔۔۔"

عالمگیر نے ذرا تیز آواز میں پوچھا تو عشنا نے نفی میں گردن کو جنبش دی۔

"ہمم۔۔۔۔میڈیسن بھی نہیں کھائی ہوگی پھر تو۔۔۔۔"

عالمگیر نے میڈیسن کے شاپر کو دیکھ جو ویسا ہی پڑا تھا جیسا اُس نے دیا تھا۔

عشنا میں پھر نہ میں سر ہلا دیا۔

عالمگیر نے جھٹکے سے اُسے بیڈ پر گرا دیا اور اُس کے اوپر جھکا۔

عشنا نے زور سے آنکھیں بند کر لیں۔

"بہت منمانیہ کر لی تم نے عشنا ابراہیم بن کے۔۔۔۔لیکن اب تم عشنا عالمگیر سجّاد ہو۔۔۔اور تمہیں میری ساری باتیں ماننی پڑےگی۔۔۔۔اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو مجھے اپنی باتیں منوانے کے بہت سے طریقے آتے ہیں۔ تو تمہاری بہتری اسی میں ہے کہ تم میری ساری باتیں چپ چاپ مان جایا کرو۔

جب تک تمہارا زخم ٹھیک نہیں ہوتا تم کالج نہیں جاؤ گی اور نہ ہی کہیں باہر۔

اور ہاں اب تم کالج کے علاوہ کہیں نہیں جاؤ گی۔۔۔عشنا تم اب  اپنی بھی نہیں ہو۔۔۔تم میری ہو۔۔۔عالمگیر سجّاد کی۔۔۔۔اور عالمگیر سجّاد نہیں چاہتا کہ اُس کی بیوی پر کسی کی بھی غلط نظر پڑے۔۔اس لیے اب میری ہی بات ماننا پڑے گی تمہیں۔۔۔اور اپنا بہت خیال بھی رکھنا پڑےگا۔"

عالمگیر عشنا کے گالوں پر ہاتھ پھیرتا ہوا اُسے دھمکا رہا تھا۔

عالمگیر سے نکاح کے بعد ابراہیم صاحب نے عشنا کو پھر اسلام آباد نہیں جانے دیا تھا بلکہ اُس کا ایڈمیشن پاس کے ایک کالج میں کروا دیا تھا۔

جب عالمگیر کو پتہ چلا کہ اب عشنا اپنا لاسٹ یئر لاہور سے ہی کمپلیٹ کرنے والی ہے تو اُس نے ایک کار با عدد ڈرائیور کے اُس کے گھر بھیج دیا تھا تا کہ اُسے کالج آنے جانے  میں کوئی پریشانی نا ہو۔ وہ کالج کے علاوہ بھی جہاں جانا ہوتا، کار سے ہی آتی جاتی تھیں۔


عالمگیر اسی طرح عشنا پر جھکا اُس کے گال سہلا رہا تھا اور عشنا آنکھیں زور سے بند کیے اُس کے لمس پر بری طرح کانپ رہی تھی۔

آج پہلی بار عالمگیر عشنا کے اتنے قریب تھا۔ عشنا کی دھڑکنیں بھی بہت تیز رفتار سے بھاگ رہی تھیں۔عالمگیر نجانے کب تک ایسے ہی عشنا کے سحر میں جکڑا اُس کے گال سہلاتا رہتا ۔اُس کا تسلسل عالمگیر کے فون نے توڑا تھا ۔

عالمگیر عشنا کے گال سے ہاتھ ہٹا کر اٹھ بیٹھا اور موبائل نکال کر دیکھا جہاں مراد کی کال آ رہی تھی۔

عالمگیر کال لیتا کھڑکی کے پاس آ گیا تو عشنا جلدی سے اٹھ کر اپنا دوپٹہ ٹھیک کرنے لگی تھی۔

"بھائی کیا آج ساری رات یہیں رکنے کا پروگرام ہے؟ معافی مانگنے میں اتنا ٹائم تو نہیں لگتا ۔۔۔"

مراد نے چھوٹتے ہی سوال کر ڈالا

"تُجھے کیا پریشانی ہے؟ کھڑا رہ چپ چاپ۔۔"

عالمگیر نے کہہ کر کال منقطع کرنے چاہی۔

"کمینے جلدی آ ورنہ ان مچھروں نے مجھے اٹھا لے جانا ہے۔۔۔بھابھی سے کہنا آپ کے گھر کے آس پاس بہت مچّھر ہے۔۔۔کچھ دوا وغیرہ مروائیں۔۔۔۔"

مراد نے پیر کو کھجاتے ہے کہا۔

"ہاں میں آ رہا ہو۔۔۔تو رک۔۔۔"

عالمگیر نے کال منقطع کر دی اور ایک بار  پھر عشنا کی طرف بڑھا۔

میسیز عالمگیر سجاد تو میں کیا کہہ رہا تھا؟

ہاں۔۔۔یاد آیا۔۔۔تو میں کہہ رہا تھا کہ آپ نے اپنا بہت سارا خیال رکھنا ہے اور کھانا اور دوائیں وقت پر لینی ہے تا کہ میری بیوی  صحت یاب رہے۔ ٹھیک ہے؟"

عالمگیر کی بات سن کر عشنا نے نظریں جھکا لی۔

اُسے عالمگیر کا طرزِ تخاطب بہت اپنا اپنا سا لگا

عالمگیر نے ایک نظر کھڑکی کو دیکھا اور پھر عشنا کے دونوں ہاتھوں کو تھام کر اُسے دیکھا 

عشنا بھی عالمگیر کو دیکھ رہی تھی۔

"اب جا کر کھانا کھاؤ جلدی سے اور پھر دوا کھاؤ۔۔۔میں چلتا ہوں۔۔۔۔اور میں تھوڑی دیر بعد فون کرونگا۔ تب تک کھانا اور میڈیسن لے لینا۔"

عالمگیر نے کہا اور ساتھ ہی اُس کے ماتھے کو اپنے لبوں سے چھوتا کھڑکی کی طرف آ گیا اور سیڑھی کی مدد سے نیچے اترنے لگا۔

عشنا عالمگیر کے لبوں کا لمس ماتھے پر محسوس کر کے اس کے لمس کی خوشبو میں کھو گئی۔

عالمگیر نیچے آیا تو مراد نے اُسے خونخوار نظروں سے گھورا تھا

"چل ورنہ کوئی آ جائیگا ۔"

عالمگیر نے مراد کا بازو پکڑ کر اُسے اپنے ساتھ گھسیٹا اور جیسے وہ لوگ اندر آئے تھے ویسے ہی باہر بھی چلے گئے

عشنا ایک بار پھر عالمگیر کی باتوں کی وجہ سے کشمکش میں گھر گئی۔

وہ یہی سوچتی رہی کہ کیا اُسے اُس کی باتوں سے خائف ہونا چاہیے یہ اُس کی پرواہ اور محبت بھرے لمس اور اُس کی محبت پر یقین کرنا چاہیے؟

عشنا یہی سوچتی ہوئی کچن تک آئی اور کھانا نکال کر وہی پاس پڑی چھوٹی سی ٹیبل کی چیئر پر بیٹھ کر کھانے لگی۔

کھانا کھانے کے بعد اُس نے کمرے میں آ کر دوا کھائی اور سونے کے لیے لیٹنے لگی تب ہی عالمگیر کی کال آنے لگی۔

عشنا نے کال نہیں لی بس میڈیسن کی ایک پک نکال کر اُسے وہٹاسپ کر دی۔ جس میں نظر آ رہا تھا کہ ان دواؤں کو استعمال کیا جا رہا ہے۔

عالمگیر بھی مطمئن ہو کر سو گیا۔

دوسرے دن عالمگیر مراد کے ساتھ رحمت بیگم کی دعاؤں کے ساتھ اسلام آباد واپس چلا گیا اور پھر اُس کی ملاقات عشنا سے پورے ایک سال بعد ہوئی تھی جب وہ رات  3 بجے گھر آیا تھا۔

پچھلے ایک سال میں عالمگیر، عشنا کو وقتاً فوقتا فون کر ایک اُس کا حال احوال لے لیا کرتا تھا اور ساتھ ہی کبھی اُسے پھول تو کبھی چاکلیٹس یہ پرفیوم بھیج کر اُسے اپنی محبت کی یاد دلا دیا کرتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حال


عالمگیر عشنا کے جانے کے بعد کافی وقت تک وہیں پورچ میں کھڑا رہا تھا۔ اُسکا دل ہی نہیں چاہئے رہا تھا کے وہ اب اندر جائے۔ 

کچھ دیر پہلے وہ دونوں ایک دوسرے کے کتنے قریب تھے اور اب۔۔۔اب دونوں کے بیچ کتنی دوریاں آ گئیں تھی۔

عالمگیر نے کچھ سوچتے ہوئے نادر کو کال کی۔

"ہاں۔۔۔ہاں نادر۔۔۔۔ہاں سنو۔۔۔۔پرسو کا پروگرام کینسل کر دو۔۔۔۔"

عالمگیر نے نادر کو حکم دیا۔

"لیکن سر۔۔۔سارے انویٹیشن جا چکے ہیں۔۔۔۔اور ساری تیاریاں بھی ہو چکی ہے ۔۔

یوں اچانک سب کینسل کرنا۔۔۔؟"

نادر کی فکرماندانا آواز آئی۔

"ٹھیک ہے تم ایک اور کارڈ پرنٹ کرو، اُس میں لکھوانا کہ ریسیپشن کسی ریزن کی وجہ سے 2 مہینے کے لیے پوسٹ پون کر دیا گیا ہے۔ اور باقی لوگو سے بات کر کے سارے دوسری چیزوں کا بھی دیکھ لو۔"

عالمگیر نے کہہ کر کال کاٹ دی۔

عالمگیر نے 2 دِن بعد اپنا اور عشنا کا ریسیپشن رکھا تھا اور کل وہ عشنا کے ساتھ لاہور جا کر رحمت بیگم، ابراہیم صاحب اور کوثر بیگم کو اسلام آباد لانے والا تھا۔

 عشنا کو وہ آفیشیلی اپنی بیوی کے طور پر سب کو ملوانا چاہتا تھا اور عالمگیر عشنا کو یہ سرپرائز دینا چاہتا تھا۔

عالمگیر نے ایک گہری سانس لے کر خود کو ریلیکس کرنا چاہئے اور اپنی کار لے کر گھر سے باہر نکل گیا۔

اُسکا دل بھی اُس کے گھر کی طرح خالی ہو گیا تھا۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


 عالمگیر بہت دیر تک سڑکوں پر بے مقصد کار کو چلاتا رہا۔

رات 3 بجے وہ گھر واپس آیا۔

"عالمگیر۔۔۔۔۔کہاں تھے آپ۔۔۔۔؟ میں کب سے آپ کا انتظار کر رہی ہوں۔۔۔۔چلیں کھانا کھاتے ہیں۔۔۔مجھے بہت زور سے بھوک لگی ہے۔"

عالمگیر جیسے ہی گھر کے اندر آیا عشنا نے اُسے دیکھتے ہی کہا۔

وہ عالمگیر کا ہاتھ پکڑ کر ڈائننگ ٹیبل تک لے آئی اور اُسے ایک چیئر پر بیٹھا دیا۔

عالمگیر حیران سا اُسے دیکھتے ہوئے اُس کے ساتھ آ گیا تھا۔

"ایسے کیا دیکھ رہے ہیں؟ میں عشنا ۔۔۔۔"

عشنا نے عالمگیر کی آنکھوں میں حیرت دیکھتے ہوئے اُسے بتانا ضروری سمجھا۔

وہ گھر کے اندر آیا۔

 "عشنا۔۔۔"

عالمگیر نے ہاتھ بڑھا کر عشنا کو چھونا چاہا لیکن عالمگیر کے ہاتھ بڑھاتے ہی عشنا ہوا میں تحلیل ہو گئی۔

عشنا یہاں نہیں تھی۔وہ تو عالمگیر کے خیالو میں تھی۔ 

"عشنا۔۔۔۔۔"

عالمگیر نے اپنے سر کے بالوں کو دونوں ہاتھوں سے تھام کر عشنا کا نام زور سے لیا اور زمین پر بیٹھتا چلا گیا۔ اُسکی آنکھوں سے تواتر سے آنسو بہنے لگے تھے۔

وہ کافی دیر تک وہیں بیٹھا بے آواز روتا رہا تھا۔

کچھ دیر بعد وہ اٹھا اور اپنے خستہ حال وجود کو گھسیٹتا لاؤنج میں آ کر صوفے پر ڈھہ گیا۔

وہ اپنے کمرے میں جانا نہیں چاہتا تھا۔ وہاں تو ہر طرف ہی عشنا کے وجود  کی خوشبو بکھری پڑی تھی۔

عالمگیر نے صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر اپنی جلتی ہوئی آنکھوں کو قرار دینا چاہا لیکن جیسے ہی اُس نے آنکھیں بند کی عشنا چھم سے اُس کی آنکھوں کے پردے پر مسکراتی ہوئی آ ٹھہری۔

عالمگیر نے آنکھیں بند کر کے عشنا کا مسکراتا چہرہ دیکھتے رہنے کی سعی کی۔ وہ اب عشنا کو ایسے ہی دیکھتے رہنا چاہتا تھا۔ ایسے ہی آنکھیں بند کیے پتہ نہیں کب اُس کی آنکھ لگ گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عشنا سارے راستے سر جھکائے روتی رہی تھی۔ 

ہارون صاحب ڈرائیور کے ساتھ آگے بیٹھے تھے اس لیے عشنا کے آنسو نہیں دیکھ سکے تھے۔

وہ لوگ گھر پہنچے تو عشنا سیدھے اپنے کمرے میں چلی گئی۔ کوثر بیگم اُس سے ملنے کمرے میں آئیں تو وہ آنسو صاف کرتے ہوئے انہیں سلام کر کے ان کے گلے لگ گئی۔

وہ اپنے آنسو کو بہنے سے روک ہی نہیں پا رہی تھی۔

عالمگیر کی یاد اُسے بے چین کیے ہوئے تھی۔

کوثر بیگم نے عشنا کو روتے دیکھا تو اُس کے آنسو صاف کرتے ہوئے کمرے سے چلی گئیں۔

عشنا یوں ہی بیٹھی رہی۔

کوثر بیگم نے اُسے کھانا کھیلنا چاہا تو اُس نے کہا بعد میں کھا لونگی۔

اب آدھی رات بیت گئی تھی۔

نہ اُس نے کھانا کھایا تھا نہ چینج کیا تھا۔

بس روئے جا رہی تھی۔

ایسے ہی بیٹھے ب بیٹھے اُس نے کھڑکی کی طرف دیکھا۔

اُسے لگا ایک سال پہلے کی طرح آج بھی عالمگیر کھڑکی سے اُس کے کمرے میں آئیگا اور اُسے کھانا کھانے کا کہے گا۔

ساری رات وہ کھڑکی کے پاس بیٹھی رہی لیکن عالمگیر کا انتظار انتظار ہی رہا۔

صبح نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہوئے بھی اُس کی آنکھیں بار بار بھیگ رہیں تھی۔

اُس نے نماز کے بعد دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو اُسے سمجھ ہی نہیں آیا کہ وہ کیا دعا مانگے۔۔۔سوائے عالمگیر کے وہ دعا میں اور کچھ مانگ ہی نہیں پائی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عالمگیر ساری ساری رات آفس میں بیٹھا کام کرتا رہتا تھا۔

 اُسے نہ کھانے کی فکر تھی اور نہ ہی سونے کی۔

مراد بھی 3 بار گھر آیا تھا لیکن وہ اُسے نا ملا تھا کیونکہ وہ گھر جو نہیں آتا تھا۔

مراد عالمگیر کی حالت دیکھ کر پریشان رہنے لگا تھا۔

مراد کچھ سوچتے ہوئے پولیس اسٹیشن سے نکلا اور بجائے گھر جانے کے، اپنی جیپ کو عالمگیر کے آفس کی طرف موڑ لی۔

مراد عالمگیر کے آفس میں آیا تو سارا آفس اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا صرف عالمگیر کے کیبن کی لائیٹ آن تھی۔ 

مراد چلتا ہوا عالمگیر کے کمرے میں آیا تو دروازہ کھولتے ہی اُسے بری طرح کھانسی کا پھندا لگا۔

عالمگیر کرسی پر بیٹھا ہاتھوں میں سگریٹ لیے کش بھرتے ہوئے چھت کو گھور رہا تھا۔ 

اُسے مراد کے آنے کا بھی پتہ نہیں چلا تھا۔ 

عالمگیر عشنا کے خیالو میں اُس قدر غرق تھا کہ اُسے اپنے آس پاس کی بھی کچھ خبر نہیں تھی۔

مراد نے آگے بڑھ کر کھڑکی کھولی اور چلتا ہوا عالمگیر کے پاس آیا ۔

"عالمگیر۔۔۔۔"

عالمگیر نے سر اٹھا کر مراد کو دیکھا جس کا ایک ہاتھ اُس کے کندھے پر تھا۔

"مراد۔۔۔۔۔تو یہاں۔۔۔۔کب آیا۔۔۔۔"

عالمگیر نے سگریٹ کو عیش ٹرے میں مسلتے ہوئے مراد سے پوچھا تھا۔

اُس کے لحظے میں نہ کوئی گرم جوشی تھی نہ مراد سے ملنے کی خوشی۔

"کیا ہوا بھائی۔۔۔ایسے کیوں اپنی زندگی کو عذاب بنا رہا ہی تو۔۔۔۔اور اتنی سگریٹ۔۔۔اتنی سگریٹ کون پیتا ہے عالمگیر۔۔۔۔۔"

مراد نے آگے بڑھ کر عیش ٹرے کی ہاتھوں میں لے کر اُس کے سامنے کیا جو پوری طرح سگریٹ کے ٹکڑوں سے بھری پڑی  تھی۔ چند ٹکڑے ٹیبل پر بھی پڑے تھے کیونکہ اب عیش ٹرے میں جگہ ہی نہیں بچی تھی۔

وہ نہ جانے کب سے اس آگ سے اپنا سینا جلا رہا تھا۔

عالمگیر ایک پھیکی ہنسی ہنس دیا اور پیکٹ سے دوسرا سگریٹ نکالنے لگا۔

"سٹاپ اٹ عالمگیر۔۔۔۔"

مراد نے اُس کے ہاتھ سے سگریٹ لے کر ایک طرف اچھال دی۔

عالمگیر نے ایک نظر مراد کو دیکھا اور پھر چلتا ہوا کھڑکی  کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔

کھڑکی سے آتی ہوا اُس سے ٹکرا کر کمرے میں منتقل ہو رہی تھی۔

"مراد جب آپ کے اپنے ہی آپ کے  دکھ کی وجہ بنتے ہے نہ تو انسان بہت مجبور ہو جاتا ہے۔ آج میرے اپنوں نے ہی مجھے میری محبت سے دور کر دیا ہے۔"

عالمگیر نے کھڑکی کے باہر دیکھتے ہوئے کہا۔

"عالمگیر۔۔۔۔کیا ہو گیا ہے یار۔۔۔۔تو نے تو کہا تھا صرف 2 مہینے کی بات ہے؟ اُس میں سے بھی 15 دِن تو بیت ہی گئیں ہے۔۔۔

باقی دن بھی  کٹ  جائینگے۔ "

مراد اُس کے پاس کھڑکی کے دوسرے طرف کھڑا ہو گیا

"یہی تو مسلہ ہے مراد۔۔۔یہی تو مسئلہ ہے۔۔۔وہ میری سانسوں میں بسی ہے۔۔۔اُس کے بنا مجھے سانس نہیں آ رہی۔۔۔مجھے لگ رہا ہے میرا دم گھٹ جائیگا۔۔۔مراد میں اُس کے بنا نہیں رہ سکتا ۔۔۔پچھلے 15 دنوں سے میں مر مر کے جی رہا ہوں۔۔۔وہ میرے لیے لازم و ملزوم ہیں مراد۔۔۔مراد میں اُس کے بنا نہیں جی سکتا۔۔۔"

عالمگیر کہتے کہتے رو پڑا۔

مراد اُسے روتا دیکھ کر اُس کی محبت پر اش اش کر اٹھا۔

"کوئی کسی سے اتنی محبت بھی کر سکتا ہے۔۔۔۔؟"

مراد نے دل میں سوچا اور عالمگیر کے پاس آ کر اُسے گلے لگا لیا۔

عالمگیر اُس کے کندھے پر سر رکھے بس روئے جا رہا تھا۔

"عالمگیر سمبھال خود کو۔۔۔ایسے بچوں کی طرح رونا تُجھ جیسے بزنس مین کو زیب نہیں دیتا۔"

مراد اُس کو لے کر صوفے تک آیا اور اُسے بیٹھا کر اُس کے لبوں سے پانی کا گلاس لگا دیا۔

عالمگیر نے چند گھونٹ کے بعد گلاس پرے کر دیا۔

"عالمگیر بھابھی کا تو سوچ۔۔۔وہ بھی تو تُجھ سے ایسی ہی محبت کرتی ہیں۔۔۔تو کیوں خود کو سزا دے رہا ہے ؟"

مراد نے عالمگیر سے پوچھا تھا جو اب نظر جھکائے بیٹھا تھا۔

"کیوں کہ وہ جانا نہیں چاہتی تھی۔۔۔میں نے اُسے زبردستی بھیج دیا ہے۔۔۔۔مجھے پتہ ہے وہ بہت رو رہی ہوگی۔ روز روتی ہوگی۔ پتہ نہیں کھانا بھی کھایا ہوگا اُس نے یہ نہیں۔۔۔مراد تُجھے پتہ ہے میری سزا کیا ہے؟ یہ میری سزا نہیں ہے۔۔۔اُس کی دوری میری سزا ہے"

عالمگیر نے نظریں اٹھا کر مراد کو دیکھا۔

عالمگیر کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھی۔ جیسے اُسکی آنکھوں سے ابھی خون چھلک اٹھے گا۔

اُس کی آنکھیں بہت رونے اور اُس کی بے سکونی کی غمازی کر رہے تھے۔

"چل۔۔۔۔"

مراد نے اُس کا ہاتھ تھاما اور باہر کی طرف بڑھ گیا۔

"کہاں۔۔۔"

عالمگیر نے مراد کے ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے کہا جس میں اُس نے عالمگیر کے ہاتھوں کو تھام رکھا تھا۔

"بھابھی کے پاس۔۔۔۔"

مراد نے بنا رکے کہا۔

"مراد لیکن وہ تو۔۔۔وہ تو لاہور میں ہے۔۔۔"

عالمگیر نے حیرت کے ساتھ اُسے بتانا چاہا۔

" اگر وہ امریکہ میں بھی ہوتی تو میں تُجھے وہاں لے کر بھی جا سکتا ہوں عالمگیر۔۔۔۔میں تُجھے اور بھابھی کو ایسے تڑپتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔"

مراد کہتا ہوا اُسے پارکنگ میں کھڑی اپنی جیپ تک لایا اور اُسے فرنٹ سیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خود ڈرائیونگ سیٹ پر آ بیٹھا۔

عالمگیر جیسے ہی جیپ میں بیٹھا مراد نے جیپ کو تیزی سے لاہور کے راستے پر ڈال دی۔

عالمگیر چپ چاپ مراد کو ڈرائیونگ کرتے دیکھتا رہا۔

"اچھے دوست بھی اللہ کی طرف سے کتنی بڑی نعمت ہوتے ہیں۔۔۔"۔

عالمگیر نے دل میں سوچا اور سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند لی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

 

 عشنا ہر وقت اُداس ہی رہتی تھی آج اُسے عالمگیر سے جُدا ہوئے 15 دِن ہ ہوں گئے تھے۔

کھانا بھی وہ برائے نام ہی کھاتی تھی۔ کھاتی بھی اس لیے تھی کیونکہ عالمگیر نے اُسے آنے سے پہلے تاکید کی تھی ورنہ شاید اب بھی وہ پچھلی بار ہی کی طرح اپنی صحت خراب کر چکی ہوتی۔

وہ ہر رات عالمگیر کے انتظار میں کھڑکی پاس آ کر کھڑی ہو جایا کرتی تھی لیکن اُس کا انتظار رائیگاں ہی جاتا تھا۔

وہ نہیں آیا تھا لیکن تب بھی وہ ہر رات اُس کا ایسے ہی انتظار کیا کرتی تھی۔ آج بھی وہ کھڑکی پر کھڑی عالمگیر کو سوچ رہی تھی ۔ سوچتے سوچتے وہ چلتی ہوئی بیڈ پر آ گئی ۔ نیند اُسے اب بھی نہیں آ رہی تھی۔ وہ بیڈ پر نیم دراز ہو کر بیٹھ گئی اور آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"عالمگیر۔۔۔۔" 

مراد نے پُکارا تو عالمگیر نے مڑ کر مراد کو دیکھا جو جیپ ڈرائیو کر رہا تھا۔

"ہم لاہور پہونچ گئے ہیں۔۔۔۔تم بھابھی کا ایڈریس تو بتاؤ۔۔۔"

مراد نے اسٹیرنگ گھماتے ہوئے عالمگیر کی طرف دیکھ کر پوچھا تھا۔

"وہیں ۔۔۔جہاں ایک سال پہلے گئے تھے۔۔۔"

عالمگیر نے کہا اور آنکھیں موند لی۔

مراد نے جھٹکے سے جیپ کو بریک لگایا۔

عالمگیر جھٹکے کی وجہ سے آنکھیں خول کر مراد کو دیکھنے لگا۔

"مطلب۔۔۔۔مطلب وہ جس کے لیے تو مجنو بنا ہوا تھا اُن دنوں۔۔۔وہ کوئی اور نہیں عشنا بھابھی ہی تھیں۔۔۔؟"

مراد نے عالمگیر کی طرف رخ کر کے ایک ہاتھ کی کوہنی اسٹیرنگ پر رکھ کر عالمگیر کو دیکھتے ہوئے حیرت سے پوچھا۔

عالمگیر نے کچھ نہیں کہا بس چپ چپ اُسے دیکھے گیا۔

"تب ہی میں سوچوں۔۔۔۔اگر تو بھابھی کی محبت میں اس طرح مجنو بن کے پھر رہا ہے تو وہ کیا تھا جو تو آدھی رات کو چورو کے طرح کسی لڑکی سے ملنے گیا تھا۔"

مراد نے آنکھیں سکوڑ کر کہا تو عالمگیر نے نفی میں گردن کو جنبش دی۔ اُس کے چہرے پر سنجیدگی اب بھی رقم تھی۔

"عالمگیر ۔۔۔۔یو چیٹر۔۔۔۔"

مراد عالمگیر پر جھپٹا۔۔۔۔

عالمگیر اس حملے کے لیے تیار نہیں تھا اس لیے سمبھل نہیں پایا اور مراد اُس کا گلا پکڑے بیٹھا تھا۔

"کمینے۔۔۔۔تو مجھے یہاں مارنے لایا ہے یہ پھر عشنا ملوانے؟"

عالمگیر نے اُس کے ہاتھ اپنی گردن سے ہٹاتے ہوئے اُسے پرے دھکیلا

"کتے کام تو تونے ایسے ہی کیے ہیں۔۔۔۔دل کر رہا ہے یہیں تیری جان لے لوں ۔۔۔تو نے اُس دن بھی نہیں بتایا تھا مجھے۔۔۔"

مراد نے کہہ کر رخ موڈ لیا۔

"اچھا بابا سوری۔۔۔۔معاف کر دیں بھائی۔۔۔۔یہ لے میں نے ہاتھ جوڑ دیئے۔۔۔۔"

عالمگیر نے باقائدہ ہاتھ جوڑ کر کہا تو مراد نے مڑ کر اُسے دیکھا۔

"بچوں۔۔۔۔اس کی سزا تو تمہیں میں دونگا۔۔۔۔پہلے ذرا بھابھی سے مل لے پھر دیکھتا ہوں تُجھے۔۔۔"۔

مراد نے غصے سے اُسے دیکھا اور جیپ اسٹارٹ کر دی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مراد نے گھر میں تھوڑا فاصلے پر ہی جیپ روک دی اور اُس دن ہی کی طرح وہ لوگ پیڈ کی مدد سے وال کود کر گھر میں داخل ہوئے ۔

لیکن آج وہ سیڑھی کہیں نظر نہیں آ رہی تھی۔ عالمگیر اور مراد نے سب جگہ دیکھ کیا لیکن بے سود۔۔۔۔

"اب۔۔۔۔۔"

عالمگیر نے مراد کو دیکھا۔

"اب کیا۔۔۔چل دروازے کی طرف ۔۔۔سالے تو کیا چورو کی طرح یہاں آتا جاتا رہتا ہے۔۔۔۔تو تو اس گھر کا داماد ہے ۔۔۔ڈائریکٹ دروازے سے آیا جایا کر۔ چل۔۔۔"

مراد نے دروازے کی طرف قدم بڑھا دیے۔

عالمگیر بھی کچھ سوچتے ہوئے اُس کے پیچھے آیا۔

"مراد اتنی رات کو اُنھیں ڈسٹرب کرنا ٹھیک نہیں۔۔۔چل ہم واپس چلتے ہیں۔۔۔۔"

عالمگیر نے مراد کو کہا تو مراد نے اُسے گھور کر دیکھا۔

"کون کہہ رہا ہے کے ہم آپکے محترم مامو جان پلس سسر جی کو ڈسٹرب کرنے والے ہیں؟"

مراد نے دروازے کے پاس ایک کھڑے ہوں کر اُسے دیکھا اور ساتھ ہی کسی چیز کی تلاش میں نظریں یہاں وہاں دوڑائی۔

"مطلب؟ اگر ہم ڈور بیل بجائینگے تب تو وہ لوگ جاگ ہی جائینگے نہ۔۔۔؟"

عالمگیر نے حیرت سے پوچھا۔

"تو کون ڈور بیل بجانے والا ہے۔۔۔تو رک تو سہی میری جان۔۔۔"

مراد پاس ہی پڑا ایک تار اٹھا لایا اور دروازے کے لوک میں ڈال کر گھمانے لگا

"یہ تو کیا کر رہا ہے۔۔۔"۔

عالمگیر نے اسے حیرت سے دروازے کے ہول میں تار داخل کرتے دیکھا۔

"شش۔۔۔"

مراد نے اُسے چپ رہنے کا کہا اور تار کو ذرا ٹیڑھا کیا تو کلک کی آواز کے ساتھ ایک جھٹکے میں دروازہ کھل گیا۔

"چل۔۔۔"

مراد نے مسکرا کر عالمگیر کی طرف دیکھ کر کہا تو عالمگیر نے شک بھری نظروں سے اُسے دیکھا 

"تو پکّا پولیس والا ہی ہے نہ؟ "

عالمگیر نے آنکھیں سیکوڈ کر اُسے دیکھا۔

"تُجھے کوئی شک ہے؟تُجھے کیا میں چور لگ رہا ہوں؟"

مراد نے چڑھ کر کہا۔

"حرکتیں تو تیری ساری چورو والی ہی ہے۔۔۔"۔

عالمگیر نے کہا تو مراد نے ایک گھُسا اُس کی پیٹھ پر مارا۔

"کمینے۔۔۔"

عالمگیر نے اپنی پیٹھ سہلای۔

"اب چل ورنہ تیرے سسر جی آ جائینگے۔۔۔"

مراد نے کہا اور اندر کی طرف قدم بڑھا دیے۔

عالمگیر بھی چلتا ہوا اندر آ گیا۔

"تو یہیں لاؤنج میں بیٹھ ۔ میں ابھی آتا ہوں۔۔۔"

عالمگیر لاؤنج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا ۔

"ابے مجھے بیٹھنا نہیں ہے۔۔۔تو یہ بتا کچن کس طرف ہے۔۔۔مجھے زوروں کی بھوک لگی ہے۔۔۔"

مراد نے یہاں وہاں دیکھتے عالمگیر سے پوچھا تو عالمگیر نے  مسکرا کر کچن کی طرف اشارہ کر دیا۔

مراد جلدی سے کچن کی طرف بڑھ گیا

عالمگیر سیڑھیاں چڑھتے ہوئے عشنا کے کمرے کے دروازے کے پاس آ کر رکا۔

تھوڑی دیر وہ وہاں کھڑا عشنا کا کیا ریکشن ہوگا یہ سوچتا رہا پھر ہلکے سے دروازے پر ہاتھ رکھا تو وہ کھلتا چلا گیا۔

عالمگیر اندر آیا تو عشنا بیڈ پر نیم دراز آنکھوں پر ہاتھ رکھے بیٹھی ہوئی تھی۔

"عشنا۔۔۔۔"

عالمگیر نے عشنا کو پُکارا تو عشنا نے ہاتھ ہٹا کر عالمگیر کو دیکھا۔

"کیوں آ جاتے ہے آپ بار بار۔۔۔۔۔۔۔کیوں۔۔۔۔"

عشنا بیڈ سے کھڑی ہو کر اب عالمگیر کی طرف آ رہی تھی۔

عالمگیر نے حیرت سے عشنا کو دیکھا۔

"میرے خیالوں سے نکل کر کبھی سچ میں بھی آ جائیں ۔۔۔۔عالمگیر  پلیز آ جائیں۔۔۔آپ کی عشنا۔۔۔"

عشنا کہتے کہتے رو پڑی۔

عالمگیر کو چند سیکنڈ لگے تھے اُس کی بات سمجھنے میں

عالمگیر نے آگے بڑھ کر عشنا کو اپنی باہوں میں بھر کر اُس کی کمر کے گرد گھیرا تنگ کر دیا۔

"عالمگیر۔۔۔۔"

عشنا جو عالمگیر کو اپنا خیال سمجھ رہیں تھی جس کو چھوتے ہی وہ غائب ہو جایا کرتا تھا آج وہ غائب نہیں ہوا تھا بلکہ عشنا اپنی کمر پر اُس کے ہاتھوں کے لمس کو محسوس کر رہی تھی۔

عالم۔۔۔۔۔عالمگیر آپ۔۔۔۔آپ آ گئے۔۔۔"

عشنا نے عالمگیر کے سینے پر ہاتھ پھیر کر اُسے چھونا چاہا

"ہاں جان۔۔۔دیکھو۔۔۔۔میں آ گیا اپنی جان کے پاس۔"۔عالمگیر نے کہا اور اُس کے ماتھے پر اپنے لب رکھ دیئے۔ عالمگیر کے ہاتھ اب بھی عشنا کی کمر پر تھے۔

عالمگیر ۔۔۔۔عالمگیر۔۔۔۔مجھے اپنے ساتھ لے چلیں پلیز۔۔۔پلیز عالمگیر۔۔۔۔۔"

عشنا نے عالمگیر کے گرد باہوں کا گھیرا تنگ کرتے ہوئے روتے روتے اُس سے التیزا کی۔

"جان۔۔۔پلیز ایسے مت روؤ۔۔۔پلیز۔۔۔۔"

عالمگیر نے اسے کے سر پر اپنی تھوڑی رکھ دی۔

"عالمگیر۔۔۔۔مجھے آپ کے پاس رہنا ہے۔۔۔۔آپ کے ساتھ۔۔۔پلیز مجھے لے چلیں۔۔۔"

عشنا میں ایک بار پھر اُس سے علتظا کی۔

عشنا۔۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کی کمر کے گرد گھیرا تنگ کرتے ہوئے اُسے خود سے قریب تر کر لیا۔

عشنا عالمگیر کے ساتھ لگی آنسو بہاتی رہی۔

عالمگیر نے دھیرے سے اُسے باہوں میں اُٹھا کر بیڈ پر لیٹا دیا اور خود اُس کے پاس بیٹھ گیا۔

عشنا بھی اُٹھ کر عالمگیر کے پاس بیٹھ گئی

"عالم۔۔۔۔"

عشنا کچھ کہنا ہی چاہتی تھی کہ عالمگیر نے عشنا کے چہرے کو ہاتھوں میں لے کر اس کے لبوں پر اپنے لب رکھ دیئے۔

عشنا نے اپنے ہاتھ عالمگیر کی گردن میں پھنسا لیے ۔

دونوں ایک دوسرے کے لمس میں کھوئے ہوئے تھے۔

عالمگیر کے انداز میں  شدّت تھی تو عشنا نے بھی کوئی مزاحمت نہیں کی اور عالمگیر کی شدتوں کو برداشت کرتی رہی۔

جب عشنا کی سانسیں زور سے چلنے لگیں تو عالمگیر اُس سے الگ ہوا۔

عشنا لمبی لمبائی سانسیں لے کر اپنا تنفّظ بحال کرنے لگی تو عالمگیر نے اُسے کھینچ کر اپنے سینے سے لگا لیا۔

"جان اب بس 45 دنوں کی بات اور ہے۔۔۔۔بس ۔۔۔پھر اُس کے بعد تم ہمیشہ کے لیے میری ہو جاؤ گی۔۔۔۔پلیز تب تک خود کا خیال رکھو۔۔۔۔مجھے پتہ ہے تم اب بھی ٹھیک سے کھانا نہیں کھاتی۔ پلیز اپنے عالمگیر کے لیے اپنا خیال رکھا کرو۔۔۔پلیز ۔۔۔اور رونا بلکل نہیں۔۔۔بس 45 دِن اور۔۔۔پھر دنیا کی کوئی طاقت ہمیں جُدا نہیں کر سکتی۔"

عالمگیر نے اُسے سینے سے لگائے ہوئے اُس سے کہا تو عشنا نے گردن اٹھا کر عالمگیر کو دیکھا۔

"آپ بھی تو نہیں کھاتے کھانا۔۔۔آپ بھی تو نہیں رکھتے اپنا خیال۔۔۔مجھے میرے عالمگیر ویسے ہی چاہئے جیسا میں اُنھیں چھوڑ کر آئی تھی"۔

عشنا نے عالمگیر کے گال پر ہاتھ رکھ کر کہا تو عالمگیر نے اُس کے ہاتھ پکڑ کر اپنے لبوں سے لگا لیا اور ایک بار پھر اُس کے لبوں پر جھکتا خود کو سیراب کرنے لگا۔

عالمگیر اور عشنا ایک دوسرے کے سحر میں کھوئے ہوئے تھے جیسے عالمگیر کے بجتے موبائلنے توڑا تھا۔

عالمگیر عشنا سے الگ ہو کر اپنا موبائل نکالا تو وہاں مراد کی کال آ رہی تھی۔

"بھائی رات یہی گزارنی ہے؟ ٹھیک ہے۔۔۔بھابھی کو بول کر کوئی کمرا ہی کھلوا دّے۔ 

زبردست نیند آ رہی ہے۔"

مراد نے انگڑائی لیتے ہوئے کہا۔

"بکواس مت کر۔۔۔۔آ رہا ہوں۔۔"

عالمگیر نے ڈپٹ کر فون کاٹ دیا۔

عشنا حیرانی سے عالمگیر کو دیکھا۔

"وہ ۔۔۔مراد ہے۔۔۔مراد نیچے میرا انتظار۔۔۔"

عالمگیر نے سر کھجایا۔

"کیا۔۔۔آپ مراد بھائی کے ساتھ آئیں ہیں؟ لیکن آپ لوگ اندر آئے کیسے۔۔۔"

عشنا نے عالمگیر کی شرٹ کو پکڑ کر پوچھا۔

"تم اُسے جانے دو۔۔۔اور مجھ سے وعدہ کرو کے اب رووگی نہیں اور میرا اِنتظار کروگی اور اپنا بہت سارا خیال رکھوگی اور مجھے بہت سارا یاد کروگی ۔۔

روئے بنا۔۔۔اور مجھ سے بہت سرا پیار۔۔۔"

عشنا نے عالمگیر کے لبوں پر ہاتھ رکھ کر اُسے کچھ کہنے سے بعض رکھنا چاہا۔

عالمگیر نے اُس  جھک کر عشنا کو ایک ہلکی سے کس لبوں پر کی اور پھر اُس کے ماتھے کو لبوں سے چھو کر اُسے باہوں میں بھر لیا۔

تھوڑی دیر تک وہ یوں ہی عشنا کے لمس کو محسوس کرتا رہا اور اُس سے الگ ہو کر دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ 

اس سے پہلے کے وہ دروازہ کھولتا عشنا بھاگتی ہوئی آئی اور اُسے پیچھے سے اپنی گرفت میں لے لیا۔

عالمگیر نے عشنا کے ہاتھ جو عالمگیر کے سینے سے لپٹے تھے انھیں پکڑ کر عشنا کو اپنے مقابل کیا۔

"جان۔۔۔"

عالمگیر نے کچھ کہنا چاہا لیکن عشنا اپنے پیرو پر ذرا اونچی ہو کر اُس کے لبوں پر آنے لب رکھ کر اُس کے گلے میں باہیں ڈال کر اُس کی خوشبو اپنی سانسوں میں منتقل کرنے لگی۔

عالمگیر نے بہت نرمی سے اُسے خود کے قریب کیا تھا اور اُس کی کمر کو پکڑ کر اُسے ذرا اونچا کر کے فرش سے اٹھا لیا تھا۔

اب عشنا کے پیر ہوا میں تھے اور وہ پوری طرح عالمگیر کی پناہوں میں تھی۔

بہت دیر تک وہ ایک دوسرے کو سیراب کرتے رہے۔ عالمگیر نے آہستہ سے عشنا کو فرش پر کھڑا کیا اور اُس کے ماتھے کو لبوں سے چھوا۔

"میں چلوں؟"

عالمگیر نے پوچھا تو عشنا نے نظریں جھکا کر ہاں میں گردن کو جنبش دی۔

عالمگیر نے جھک کر اُس کے بائیں گال پر کس کی اور ساتھ ہی دانت سے اُس کے گال کو ذرا کھینچا تو عشنا نے "سی" کی آواز کے ساتھ گال پر ہاتھ رکھ کر عالمگیر کو دیکھا۔

 عالمگیر مسکرا کر اُس کے ماتھے کو اپنے ماتھے سے ٹکرا کر باہر کی طرف بڑھ گیا۔

عشنا کھڑکی پر آ کر اُسے جاتا ہوا دیکھنے لگی۔

عالمگیر نیچے آیا تو مراد تیار کھڑا تھا۔ دونوں جیسے آئے تھے ویسے ہی لوٹنے لگے۔ دیوار سے دوسری طرف کودنے سے پہلے عالمگیر نے عشنا کی کھڑکی کی طرف دیکھا تو عشنا وہاں کھڑی اُسے مسکراتے ہوئے دیکھے جا رہی تھی۔

عالمگیر نے اُسے وہاں کھڑے دیکھا تو ایک فلائنگ کس کا اشارہ کرتا دوسری طرف کے پیڈ سے نیچے اترنے لگا۔

عالمگیر اب کافی مطمئن لگ رہا تھا 

مراد بھی عالمگیر کو مطمئن دیکھ کر مسکراتے ہوئے جیپ ڈرائیو کرتا رہا۔


۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


 عالمگیر بہت دیر تک سڑکوں پر بے مقصد کار کو چلاتا رہا۔

رات 3 بجے وہ گھر واپس آیا۔

"عالمگیر۔۔۔۔۔کہاں تھے آپ۔۔۔۔؟ میں کب سے آپ کا انتظار کر رہی ہوں۔۔۔۔چلیں کھانا کھاتے ہیں۔۔۔مجھے بہت زور سے بھوک لگی ہے۔"

عالمگیر جیسے ہی گھر کے اندر آیا عشنا نے اُسے دیکھتے ہی کہا۔

وہ عالمگیر کا ہاتھ پکڑ کر ڈائننگ ٹیبل تک لے آئی اور اُسے ایک چیئر پر بیٹھا دیا۔

عالمگیر حیران سا اُسے دیکھتے ہوئے اُس کے ساتھ آ گیا تھا۔

"ایسے کیا دیکھ رہے ہیں؟ میں عشنا ۔۔۔۔"

عشنا نے عالمگیر کی آنکھوں میں حیرت دیکھتے ہوئے اُسے بتانا ضروری سمجھا۔

وہ گھر کے اندر آیا۔

 "عشنا۔۔۔"

عالمگیر نے ہاتھ بڑھا کر عشنا کو چھونا چاہا لیکن عالمگیر کے ہاتھ بڑھاتے ہی عشنا ہوا میں تحلیل ہو گئی۔

عشنا یہاں نہیں تھی۔وہ تو عالمگیر کے خیالو میں تھی۔ 

"عشنا۔۔۔۔۔"

عالمگیر نے اپنے سر کے بالوں کو دونوں ہاتھوں سے تھام کر عشنا کا نام زور سے لیا اور زمین پر بیٹھتا چلا گیا۔ اُسکی آنکھوں سے تواتر سے آنسو بہنے لگے تھے۔

وہ کافی دیر تک وہیں بیٹھا بے آواز روتا رہا تھا۔

کچھ دیر بعد وہ اٹھا اور اپنے خستہ حال وجود کو گھسیٹتا لاؤنج میں آ کر صوفے پر ڈھہ گیا۔

وہ اپنے کمرے میں جانا نہیں چاہتا تھا۔ وہاں تو ہر طرف ہی عشنا کے وجود  کی خوشبو بکھری پڑی تھی۔

عالمگیر نے صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر اپنی جلتی ہوئی آنکھوں کو قرار دینا چاہا لیکن جیسے ہی اُس نے آنکھیں بند کی عشنا چھم سے اُس کی آنکھوں کے پردے پر مسکراتی ہوئی آ ٹھہری۔

عالمگیر نے آنکھیں بند کر کے عشنا کا مسکراتا چہرہ دیکھتے رہنے کی سعی کی۔ وہ اب عشنا کو ایسے ہی دیکھتے رہنا چاہتا تھا۔ ایسے ہی آنکھیں بند کیے پتہ نہیں کب اُس کی آنکھ لگ گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عشنا سارے راستے سر جھکائے روتی رہی تھی۔ 

ہارون صاحب ڈرائیور کے ساتھ آگے بیٹھے تھے اس لیے عشنا کے آنسو نہیں دیکھ سکے تھے۔

وہ لوگ گھر پہنچے تو عشنا سیدھے اپنے کمرے میں چلی گئی۔ کوثر بیگم اُس سے ملنے کمرے میں آئیں تو وہ آنسو صاف کرتے ہوئے انہیں سلام کر کے ان کے گلے لگ گئی۔

وہ اپنے آنسو کو بہنے سے روک ہی نہیں پا رہی تھی۔

عالمگیر کی یاد اُسے بے چین کیے ہوئے تھی۔

کوثر بیگم نے عشنا کو روتے دیکھا تو اُس کے آنسو صاف کرتے ہوئے کمرے سے چلی گئیں۔

عشنا یوں ہی بیٹھی رہی۔

کوثر بیگم نے اُسے کھانا کھیلنا چاہا تو اُس نے کہا بعد میں کھا لونگی۔

اب آدھی رات بیت گئی تھی۔

نہ اُس نے کھانا کھایا تھا نہ چینج کیا تھا۔

بس روئے جا رہی تھی۔

ایسے ہی بیٹھے ب بیٹھے اُس نے کھڑکی کی طرف دیکھا۔

اُسے لگا ایک سال پہلے کی طرح آج بھی عالمگیر کھڑکی سے اُس کے کمرے میں آئیگا اور اُسے کھانا کھانے کا کہے گا۔

ساری رات وہ کھڑکی کے پاس بیٹھی رہی لیکن عالمگیر کا انتظار انتظار ہی رہا۔

صبح نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہوئے بھی اُس کی آنکھیں بار بار بھیگ رہیں تھی۔

اُس نے نماز کے بعد دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو اُسے سمجھ ہی نہیں آیا کہ وہ کیا دعا مانگے۔۔۔سوائے عالمگیر کے وہ دعا میں اور کچھ مانگ ہی نہیں پائی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عالمگیر ساری ساری رات آفس میں بیٹھا کام کرتا رہتا تھا۔

 اُسے نہ کھانے کی فکر تھی اور نہ ہی سونے کی۔

مراد بھی 3 بار گھر آیا تھا لیکن وہ اُسے نا ملا تھا کیونکہ وہ گھر جو نہیں آتا تھا۔

مراد عالمگیر کی حالت دیکھ کر پریشان رہنے لگا تھا۔

مراد کچھ سوچتے ہوئے پولیس اسٹیشن سے نکلا اور بجائے گھر جانے کے، اپنی جیپ کو عالمگیر کے آفس کی طرف موڑ لی۔

مراد عالمگیر کے آفس میں آیا تو سارا آفس اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا صرف عالمگیر کے کیبن کی لائیٹ آن تھی۔ 

مراد چلتا ہوا عالمگیر کے کمرے میں آیا تو دروازہ کھولتے ہی اُسے بری طرح کھانسی کا پھندا لگا۔

عالمگیر کرسی پر بیٹھا ہاتھوں میں سگریٹ لیے کش بھرتے ہوئے چھت کو گھور رہا تھا۔ 

اُسے مراد کے آنے کا بھی پتہ نہیں چلا تھا۔ 

عالمگیر عشنا کے خیالو میں اُس قدر غرق تھا کہ اُسے اپنے آس پاس کی بھی کچھ خبر نہیں تھی۔

مراد نے آگے بڑھ کر کھڑکی کھولی اور چلتا ہوا عالمگیر کے پاس آیا ۔

"عالمگیر۔۔۔۔"

عالمگیر نے سر اٹھا کر مراد کو دیکھا جس کا ایک ہاتھ اُس کے کندھے پر تھا۔

"مراد۔۔۔۔۔تو یہاں۔۔۔۔کب آیا۔۔۔۔"

عالمگیر نے سگریٹ کو عیش ٹرے میں مسلتے ہوئے مراد سے پوچھا تھا۔

اُس کے لحظے میں نہ کوئی گرم جوشی تھی نہ مراد سے ملنے کی خوشی۔

"کیا ہوا بھائی۔۔۔ایسے کیوں اپنی زندگی کو عذاب بنا رہا ہی تو۔۔۔۔اور اتنی سگریٹ۔۔۔اتنی سگریٹ کون پیتا ہے عالمگیر۔۔۔۔۔"

مراد نے آگے بڑھ کر عیش ٹرے کی ہاتھوں میں لے کر اُس کے سامنے کیا جو پوری طرح سگریٹ کے ٹکڑوں سے بھری پڑی  تھی۔ چند ٹکڑے ٹیبل پر بھی پڑے تھے کیونکہ اب عیش ٹرے میں جگہ ہی نہیں بچی تھی۔

وہ نہ جانے کب سے اس آگ سے اپنا سینا جلا رہا تھا۔

عالمگیر ایک پھیکی ہنسی ہنس دیا اور پیکٹ سے دوسرا سگریٹ نکالنے لگا۔

"سٹاپ اٹ عالمگیر۔۔۔۔"

مراد نے اُس کے ہاتھ سے سگریٹ لے کر ایک طرف اچھال دی۔

عالمگیر نے ایک نظر مراد کو دیکھا اور پھر چلتا ہوا کھڑکی  کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔

کھڑکی سے آتی ہوا اُس سے ٹکرا کر کمرے میں منتقل ہو رہی تھی۔

"مراد جب آپ کے اپنے ہی آپ کے  دکھ کی وجہ بنتے ہے نہ تو انسان بہت مجبور ہو جاتا ہے۔ آج میرے اپنوں نے ہی مجھے میری محبت سے دور کر دیا ہے۔"

عالمگیر نے کھڑکی کے باہر دیکھتے ہوئے کہا۔

"عالمگیر۔۔۔۔کیا ہو گیا ہے یار۔۔۔۔تو نے تو کہا تھا صرف 2 مہینے کی بات ہے؟ اُس میں سے بھی 15 دِن تو بیت ہی گئیں ہے۔۔۔

باقی دن بھی  کٹ  جائینگے۔ "

مراد اُس کے پاس کھڑکی کے دوسرے طرف کھڑا ہو گیا

"یہی تو مسلہ ہے مراد۔۔۔یہی تو مسئلہ ہے۔۔۔وہ میری سانسوں میں بسی ہے۔۔۔اُس کے بنا مجھے سانس نہیں آ رہی۔۔۔مجھے لگ رہا ہے میرا دم گھٹ جائیگا۔۔۔مراد میں اُس کے بنا نہیں رہ سکتا ۔۔۔پچھلے 15 دنوں سے میں مر مر کے جی رہا ہوں۔۔۔وہ میرے لیے لازم و ملزوم ہیں مراد۔۔۔مراد میں اُس کے بنا نہیں جی سکتا۔۔۔"

عالمگیر کہتے کہتے رو پڑا۔

مراد اُسے روتا دیکھ کر اُس کی محبت پر اش اش کر اٹھا۔

"کوئی کسی سے اتنی محبت بھی کر سکتا ہے۔۔۔۔؟"

مراد نے دل میں سوچا اور عالمگیر کے پاس آ کر اُسے گلے لگا لیا۔

عالمگیر اُس کے کندھے پر سر رکھے بس روئے جا رہا تھا۔

"عالمگیر سمبھال خود کو۔۔۔ایسے بچوں کی طرح رونا تُجھ جیسے بزنس مین کو زیب نہیں دیتا۔"

مراد اُس کو لے کر صوفے تک آیا اور اُسے بیٹھا کر اُس کے لبوں سے پانی کا گلاس لگا دیا۔

عالمگیر نے چند گھونٹ کے بعد گلاس پرے کر دیا۔

"عالمگیر بھابھی کا تو سوچ۔۔۔وہ بھی تو تُجھ سے ایسی ہی محبت کرتی ہیں۔۔۔تو کیوں خود کو سزا دے رہا ہے ؟"

مراد نے عالمگیر سے پوچھا تھا جو اب نظر جھکائے بیٹھا تھا۔

"کیوں کہ وہ جانا نہیں چاہتی تھی۔۔۔میں نے اُسے زبردستی بھیج دیا ہے۔۔۔۔مجھے پتہ ہے وہ بہت رو رہی ہوگی۔ روز روتی ہوگی۔ پتہ نہیں کھانا بھی کھایا ہوگا اُس نے یہ نہیں۔۔۔مراد تُجھے پتہ ہے میری سزا کیا ہے؟ یہ میری سزا نہیں ہے۔۔۔اُس کی دوری میری سزا ہے"

عالمگیر نے نظریں اٹھا کر مراد کو دیکھا۔

عالمگیر کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھی۔ جیسے اُسکی آنکھوں سے ابھی خون چھلک اٹھے گا۔

اُس کی آنکھیں بہت رونے اور اُس کی بے سکونی کی غمازی کر رہے تھے۔

"چل۔۔۔۔"

مراد نے اُس کا ہاتھ تھاما اور باہر کی طرف بڑھ گیا۔

"کہاں۔۔۔"

عالمگیر نے مراد کے ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے کہا جس میں اُس نے عالمگیر کے ہاتھوں کو تھام رکھا تھا۔

"بھابھی کے پاس۔۔۔۔"

مراد نے بنا رکے کہا۔

"مراد لیکن وہ تو۔۔۔وہ تو لاہور میں ہے۔۔۔"

عالمگیر نے حیرت کے ساتھ اُسے بتانا چاہا۔

" اگر وہ امریکہ میں بھی ہوتی تو میں تُجھے وہاں لے کر بھی جا سکتا ہوں عالمگیر۔۔۔۔میں تُجھے اور بھابھی کو ایسے تڑپتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔"

مراد کہتا ہوا اُسے پارکنگ میں کھڑی اپنی جیپ تک لایا اور اُسے فرنٹ سیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خود ڈرائیونگ سیٹ پر آ بیٹھا۔

عالمگیر جیسے ہی جیپ میں بیٹھا مراد نے جیپ کو تیزی سے لاہور کے راستے پر ڈال دی۔

عالمگیر چپ چاپ مراد کو ڈرائیونگ کرتے دیکھتا رہا۔

"اچھے دوست بھی اللہ کی طرف سے کتنی بڑی نعمت ہوتے ہیں۔۔۔"۔

عالمگیر نے دل میں سوچا اور سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند لی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

 

 عشنا ہر وقت اُداس ہی رہتی تھی آج اُسے عالمگیر سے جُدا ہوئے 15 دِن ہ ہوں گئے تھے۔

کھانا بھی وہ برائے نام ہی کھاتی تھی۔ کھاتی بھی اس لیے تھی کیونکہ عالمگیر نے اُسے آنے سے پہلے تاکید کی تھی ورنہ شاید اب بھی وہ پچھلی بار ہی کی طرح اپنی صحت خراب کر چکی ہوتی۔

وہ ہر رات عالمگیر کے انتظار میں کھڑکی پاس آ کر کھڑی ہو جایا کرتی تھی لیکن اُس کا انتظار رائیگاں ہی جاتا تھا۔

وہ نہیں آیا تھا لیکن تب بھی وہ ہر رات اُس کا ایسے ہی انتظار کیا کرتی تھی۔ آج بھی وہ کھڑکی پر کھڑی عالمگیر کو سوچ رہی تھی ۔ سوچتے سوچتے وہ چلتی ہوئی بیڈ پر آ گئی ۔ نیند اُسے اب بھی نہیں آ رہی تھی۔ وہ بیڈ پر نیم دراز ہو کر بیٹھ گئی اور آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"عالمگیر۔۔۔۔" 

مراد نے پُکارا تو عالمگیر نے مڑ کر مراد کو دیکھا جو جیپ ڈرائیو کر رہا تھا۔

"ہم لاہور پہونچ گئے ہیں۔۔۔۔تم بھابھی کا ایڈریس تو بتاؤ۔۔۔"

مراد نے اسٹیرنگ گھماتے ہوئے عالمگیر کی طرف دیکھ کر پوچھا تھا۔

"وہیں ۔۔۔جہاں ایک سال پہلے گئے تھے۔۔۔"

عالمگیر نے کہا اور آنکھیں موند لی۔

مراد نے جھٹکے سے جیپ کو بریک لگایا۔

عالمگیر جھٹکے کی وجہ سے آنکھیں خول کر مراد کو دیکھنے لگا۔

"مطلب۔۔۔۔مطلب وہ جس کے لیے تو مجنو بنا ہوا تھا اُن دنوں۔۔۔وہ کوئی اور نہیں عشنا بھابھی ہی تھیں۔۔۔؟"

مراد نے عالمگیر کی طرف رخ کر کے ایک ہاتھ کی کوہنی اسٹیرنگ پر رکھ کر عالمگیر کو دیکھتے ہوئے حیرت سے پوچھا۔

عالمگیر نے کچھ نہیں کہا بس چپ چپ اُسے دیکھے گیا۔

"تب ہی میں سوچوں۔۔۔۔اگر تو بھابھی کی محبت میں اس طرح مجنو بن کے پھر رہا ہے تو وہ کیا تھا جو تو آدھی رات کو چورو کے طرح کسی لڑکی سے ملنے گیا تھا۔"

مراد نے آنکھیں سکوڑ کر کہا تو عالمگیر نے نفی میں گردن کو جنبش دی۔ اُس کے چہرے پر سنجیدگی اب بھی رقم تھی۔

"عالمگیر ۔۔۔۔یو چیٹر۔۔۔۔"

مراد عالمگیر پر جھپٹا۔۔۔۔

عالمگیر اس حملے کے لیے تیار نہیں تھا اس لیے سمبھل نہیں پایا اور مراد اُس کا گلا پکڑے بیٹھا تھا۔

"کمینے۔۔۔۔تو مجھے یہاں مارنے لایا ہے یہ پھر عشنا ملوانے؟"

عالمگیر نے اُس کے ہاتھ اپنی گردن سے ہٹاتے ہوئے اُسے پرے دھکیلا

"کتے کام تو تونے ایسے ہی کیے ہیں۔۔۔۔دل کر رہا ہے یہیں تیری جان لے لوں ۔۔۔تو نے اُس دن بھی نہیں بتایا تھا مجھے۔۔۔"

مراد نے کہہ کر رخ موڈ لیا۔

"اچھا بابا سوری۔۔۔۔معاف کر دیں بھائی۔۔۔۔یہ لے میں نے ہاتھ جوڑ دیئے۔۔۔۔"

عالمگیر نے باقائدہ ہاتھ جوڑ کر کہا تو مراد نے مڑ کر اُسے دیکھا۔

"بچوں۔۔۔۔اس کی سزا تو تمہیں میں دونگا۔۔۔۔پہلے ذرا بھابھی سے مل لے پھر دیکھتا ہوں تُجھے۔۔۔"۔

مراد نے غصے سے اُسے دیکھا اور جیپ اسٹارٹ کر دی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مراد نے گھر میں تھوڑا فاصلے پر ہی جیپ روک دی اور اُس دن ہی کی طرح وہ لوگ پیڈ کی مدد سے وال کود کر گھر میں داخل ہوئے ۔

لیکن آج وہ سیڑھی کہیں نظر نہیں آ رہی تھی۔ عالمگیر اور مراد نے سب جگہ دیکھ کیا لیکن بے سود۔۔۔۔

"اب۔۔۔۔۔"

عالمگیر نے مراد کو دیکھا۔

"اب کیا۔۔۔چل دروازے کی طرف ۔۔۔سالے تو کیا چورو کی طرح یہاں آتا جاتا رہتا ہے۔۔۔۔تو تو اس گھر کا داماد ہے ۔۔۔ڈائریکٹ دروازے سے آیا جایا کر۔ چل۔۔۔"

مراد نے دروازے کی طرف قدم بڑھا دیے۔

عالمگیر بھی کچھ سوچتے ہوئے اُس کے پیچھے آیا۔

"مراد اتنی رات کو اُنھیں ڈسٹرب کرنا ٹھیک نہیں۔۔۔چل ہم واپس چلتے ہیں۔۔۔۔"

عالمگیر نے مراد کو کہا تو مراد نے اُسے گھور کر دیکھا۔

"کون کہہ رہا ہے کے ہم آپکے محترم مامو جان پلس سسر جی کو ڈسٹرب کرنے والے ہیں؟"

مراد نے دروازے کے پاس ایک کھڑے ہوں کر اُسے دیکھا اور ساتھ ہی کسی چیز کی تلاش میں نظریں یہاں وہاں دوڑائی۔

"مطلب؟ اگر ہم ڈور بیل بجائینگے تب تو وہ لوگ جاگ ہی جائینگے نہ۔۔۔؟"

عالمگیر نے حیرت سے پوچھا۔

"تو کون ڈور بیل بجانے والا ہے۔۔۔تو رک تو سہی میری جان۔۔۔"

مراد پاس ہی پڑا ایک تار اٹھا لایا اور دروازے کے لوک میں ڈال کر گھمانے لگا

"یہ تو کیا کر رہا ہے۔۔۔"۔

عالمگیر نے اسے حیرت سے دروازے کے ہول میں تار داخل کرتے دیکھا۔

"شش۔۔۔"

مراد نے اُسے چپ رہنے کا کہا اور تار کو ذرا ٹیڑھا کیا تو کلک کی آواز کے ساتھ ایک جھٹکے میں دروازہ کھل گیا۔

"چل۔۔۔"

مراد نے مسکرا کر عالمگیر کی طرف دیکھ کر کہا تو عالمگیر نے شک بھری نظروں سے اُسے دیکھا 

"تو پکّا پولیس والا ہی ہے نہ؟ "

عالمگیر نے آنکھیں سیکوڈ کر اُسے دیکھا۔

"تُجھے کوئی شک ہے؟تُجھے کیا میں چور لگ رہا ہوں؟"

مراد نے چڑھ کر کہا۔

"حرکتیں تو تیری ساری چورو والی ہی ہے۔۔۔"۔

عالمگیر نے کہا تو مراد نے ایک گھُسا اُس کی پیٹھ پر مارا۔

"کمینے۔۔۔"

عالمگیر نے اپنی پیٹھ سہلای۔

"اب چل ورنہ تیرے سسر جی آ جائینگے۔۔۔"

مراد نے کہا اور اندر کی طرف قدم بڑھا دیے۔

عالمگیر بھی چلتا ہوا اندر آ گیا۔

"تو یہیں لاؤنج میں بیٹھ ۔ میں ابھی آتا ہوں۔۔۔"

عالمگیر لاؤنج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا ۔

"ابے مجھے بیٹھنا نہیں ہے۔۔۔تو یہ بتا کچن کس طرف ہے۔۔۔مجھے زوروں کی بھوک لگی ہے۔۔۔"

مراد نے یہاں وہاں دیکھتے عالمگیر سے پوچھا تو عالمگیر نے  مسکرا کر کچن کی طرف اشارہ کر دیا۔

مراد جلدی سے کچن کی طرف بڑھ گیا

عالمگیر سیڑھیاں چڑھتے ہوئے عشنا کے کمرے کے دروازے کے پاس آ کر رکا۔

تھوڑی دیر وہ وہاں کھڑا عشنا کا کیا ریکشن ہوگا یہ سوچتا رہا پھر ہلکے سے دروازے پر ہاتھ رکھا تو وہ کھلتا چلا گیا۔

عالمگیر اندر آیا تو عشنا بیڈ پر نیم دراز آنکھوں پر ہاتھ رکھے بیٹھی ہوئی تھی۔

"عشنا۔۔۔۔"

عالمگیر نے عشنا کو پُکارا تو عشنا نے ہاتھ ہٹا کر عالمگیر کو دیکھا۔

"کیوں آ جاتے ہے آپ بار بار۔۔۔۔۔۔۔کیوں۔۔۔۔"

عشنا بیڈ سے کھڑی ہو کر اب عالمگیر کی طرف آ رہی تھی۔

عالمگیر نے حیرت سے عشنا کو دیکھا۔

"میرے خیالوں سے نکل کر کبھی سچ میں بھی آ جائیں ۔۔۔۔عالمگیر  پلیز آ جائیں۔۔۔آپ کی عشنا۔۔۔"

عشنا کہتے کہتے رو پڑی۔

عالمگیر کو چند سیکنڈ لگے تھے اُس کی بات سمجھنے میں

عالمگیر نے آگے بڑھ کر عشنا کو اپنی باہوں میں بھر کر اُس کی کمر کے گرد گھیرا تنگ کر دیا۔

"عالمگیر۔۔۔۔"

عشنا جو عالمگیر کو اپنا خیال سمجھ رہیں تھی جس کو چھوتے ہی وہ غائب ہو جایا کرتا تھا آج وہ غائب نہیں ہوا تھا بلکہ عشنا اپنی کمر پر اُس کے ہاتھوں کے لمس کو محسوس کر رہی تھی۔

عالم۔۔۔۔۔عالمگیر آپ۔۔۔۔آپ آ گئے۔۔۔"

عشنا نے عالمگیر کے سینے پر ہاتھ پھیر کر اُسے چھونا چاہا

"ہاں جان۔۔۔دیکھو۔۔۔۔میں آ گیا اپنی جان کے پاس۔"۔عالمگیر نے کہا اور اُس کے ماتھے پر اپنے لب رکھ دیئے۔ عالمگیر کے ہاتھ اب بھی عشنا کی کمر پر تھے۔

عالمگیر ۔۔۔۔عالمگیر۔۔۔۔مجھے اپنے ساتھ لے چلیں پلیز۔۔۔پلیز عالمگیر۔۔۔۔۔"

عشنا نے عالمگیر کے گرد باہوں کا گھیرا تنگ کرتے ہوئے روتے روتے اُس سے التیزا کی۔

"جان۔۔۔پلیز ایسے مت روؤ۔۔۔پلیز۔۔۔۔"

عالمگیر نے اسے کے سر پر اپنی تھوڑی رکھ دی۔

"عالمگیر۔۔۔۔مجھے آپ کے پاس رہنا ہے۔۔۔۔آپ کے ساتھ۔۔۔پلیز مجھے لے چلیں۔۔۔"

عشنا میں ایک بار پھر اُس سے علتظا کی۔

عشنا۔۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کی کمر کے گرد گھیرا تنگ کرتے ہوئے اُسے خود سے قریب تر کر لیا۔

عشنا عالمگیر کے ساتھ لگی آنسو بہاتی رہی۔

عالمگیر نے دھیرے سے اُسے باہوں میں اُٹھا کر بیڈ پر لیٹا دیا اور خود اُس کے پاس بیٹھ گیا۔

عشنا بھی اُٹھ کر عالمگیر کے پاس بیٹھ گئی

"عالم۔۔۔۔"

عشنا کچھ کہنا ہی چاہتی تھی کہ عالمگیر نے عشنا کے چہرے کو ہاتھوں میں لے کر اس کے لبوں پر اپنے لب رکھ دیئے۔

عشنا نے اپنے ہاتھ عالمگیر کی گردن میں پھنسا لیے ۔

دونوں ایک دوسرے کے لمس میں کھوئے ہوئے تھے۔

عالمگیر کے انداز میں  شدّت تھی تو عشنا نے بھی کوئی مزاحمت نہیں کی اور عالمگیر کی شدتوں کو برداشت کرتی رہی۔

جب عشنا کی سانسیں زور سے چلنے لگیں تو عالمگیر اُس سے الگ ہوا۔

عشنا لمبی لمبائی سانسیں لے کر اپنا تنفّظ بحال کرنے لگی تو عالمگیر نے اُسے کھینچ کر اپنے سینے سے لگا لیا۔

"جان اب بس 45 دنوں کی بات اور ہے۔۔۔۔بس ۔۔۔پھر اُس کے بعد تم ہمیشہ کے لیے میری ہو جاؤ گی۔۔۔۔پلیز تب تک خود کا خیال رکھو۔۔۔۔مجھے پتہ ہے تم اب بھی ٹھیک سے کھانا نہیں کھاتی۔ پلیز اپنے عالمگیر کے لیے اپنا خیال رکھا کرو۔۔۔پلیز ۔۔۔اور رونا بلکل نہیں۔۔۔بس 45 دِن اور۔۔۔پھر دنیا کی کوئی طاقت ہمیں جُدا نہیں کر سکتی۔"

عالمگیر نے اُسے سینے سے لگائے ہوئے اُس سے کہا تو عشنا نے گردن اٹھا کر عالمگیر کو دیکھا۔

"آپ بھی تو نہیں کھاتے کھانا۔۔۔آپ بھی تو نہیں رکھتے اپنا خیال۔۔۔مجھے میرے عالمگیر ویسے ہی چاہئے جیسا میں اُنھیں چھوڑ کر آئی تھی"۔

عشنا نے عالمگیر کے گال پر ہاتھ رکھ کر کہا تو عالمگیر نے اُس کے ہاتھ پکڑ کر اپنے لبوں سے لگا لیا اور ایک بار پھر اُس کے لبوں پر جھکتا خود کو سیراب کرنے لگا۔

عالمگیر اور عشنا ایک دوسرے کے سحر میں کھوئے ہوئے تھے جیسے عالمگیر کے بجتے موبائلنے توڑا تھا۔

عالمگیر عشنا سے الگ ہو کر اپنا موبائل نکالا تو وہاں مراد کی کال آ رہی تھی۔

"بھائی رات یہی گزارنی ہے؟ ٹھیک ہے۔۔۔بھابھی کو بول کر کوئی کمرا ہی کھلوا دّے۔ 

زبردست نیند آ رہی ہے۔"

مراد نے انگڑائی لیتے ہوئے کہا۔

"بکواس مت کر۔۔۔۔آ رہا ہوں۔۔"

عالمگیر نے ڈپٹ کر فون کاٹ دیا۔

عشنا حیرانی سے عالمگیر کو دیکھا۔

"وہ ۔۔۔مراد ہے۔۔۔مراد نیچے میرا انتظار۔۔۔"

عالمگیر نے سر کھجایا۔

"کیا۔۔۔آپ مراد بھائی کے ساتھ آئیں ہیں؟ لیکن آپ لوگ اندر آئے کیسے۔۔۔"

عشنا نے عالمگیر کی شرٹ کو پکڑ کر پوچھا۔

"تم اُسے جانے دو۔۔۔اور مجھ سے وعدہ کرو کے اب رووگی نہیں اور میرا اِنتظار کروگی اور اپنا بہت سارا خیال رکھوگی اور مجھے بہت سارا یاد کروگی ۔۔

روئے بنا۔۔۔اور مجھ سے بہت سرا پیار۔۔۔"

عشنا نے عالمگیر کے لبوں پر ہاتھ رکھ کر اُسے کچھ کہنے سے بعض رکھنا چاہا۔

عالمگیر نے اُس  جھک کر عشنا کو ایک ہلکی سے کس لبوں پر کی اور پھر اُس کے ماتھے کو لبوں سے چھو کر اُسے باہوں میں بھر لیا۔

تھوڑی دیر تک وہ یوں ہی عشنا کے لمس کو محسوس کرتا رہا اور اُس سے الگ ہو کر دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ 

اس سے پہلے کے وہ دروازہ کھولتا عشنا بھاگتی ہوئی آئی اور اُسے پیچھے سے اپنی گرفت میں لے لیا۔

عالمگیر نے عشنا کے ہاتھ جو عالمگیر کے سینے سے لپٹے تھے انھیں پکڑ کر عشنا کو اپنے مقابل کیا۔

"جان۔۔۔"

عالمگیر نے کچھ کہنا چاہا لیکن عشنا اپنے پیرو پر ذرا اونچی ہو کر اُس کے لبوں پر آنے لب رکھ کر اُس کے گلے میں باہیں ڈال کر اُس کی خوشبو اپنی سانسوں میں منتقل کرنے لگی۔

عالمگیر نے بہت نرمی سے اُسے خود کے قریب کیا تھا اور اُس کی کمر کو پکڑ کر اُسے ذرا اونچا کر کے فرش سے اٹھا لیا تھا۔

اب عشنا کے پیر ہوا میں تھے اور وہ پوری طرح عالمگیر کی پناہوں میں تھی۔

بہت دیر تک وہ ایک دوسرے کو سیراب کرتے رہے۔ عالمگیر نے آہستہ سے عشنا کو فرش پر کھڑا کیا اور اُس کے ماتھے کو لبوں سے چھوا۔

"میں چلوں؟"

عالمگیر نے پوچھا تو عشنا نے نظریں جھکا کر ہاں میں گردن کو جنبش دی۔

عالمگیر نے جھک کر اُس کے بائیں گال پر کس کی اور ساتھ ہی دانت سے اُس کے گال کو ذرا کھینچا تو عشنا نے "سی" کی آواز کے ساتھ گال پر ہاتھ رکھ کر عالمگیر کو دیکھا۔

 عالمگیر مسکرا کر اُس کے ماتھے کو اپنے ماتھے سے ٹکرا کر باہر کی طرف بڑھ گیا۔

عشنا کھڑکی پر آ کر اُسے جاتا ہوا دیکھنے لگی۔

عالمگیر نیچے آیا تو مراد تیار کھڑا تھا۔ دونوں جیسے آئے تھے ویسے ہی لوٹنے لگے۔ دیوار سے دوسری طرف کودنے سے پہلے عالمگیر نے عشنا کی کھڑکی کی طرف دیکھا تو عشنا وہاں کھڑی اُسے مسکراتے ہوئے دیکھے جا رہی تھی۔

عالمگیر نے اُسے وہاں کھڑے دیکھا تو ایک فلائنگ کس کا اشارہ کرتا دوسری طرف کے پیڈ سے نیچے اترنے لگا۔

عالمگیر اب کافی مطمئن لگ رہا تھا 

مراد بھی عالمگیر کو مطمئن دیکھ کر مسکراتے ہوئے جیپ ڈرائیو کرتا رہا۔

۔۔ش


 15 دِن بعد


عالمگیر آفس میں بیٹھا اپنے لیپ ٹاپ پر کام کر رہا تھا۔ 

عالمگیر کا موبائل بجا تو اُس نے دیکھا رحمت بیگم کو کال آ رہی تھی۔

اُس نے کال آن کر کے کان سے لگا لیا۔

"السلام علیکم امی۔۔۔"

عالمگیر نے کال آن کرتے ہی سلام کیا۔

"وعلیکم السلام بیٹا۔۔۔کیسے ہو۔۔۔"

رحمت بیگم نے سلام کا جواب دینے کے بعد اُس کی خیریت دریافت کی۔

"میں ٹھیک ہوں امی۔۔۔آپ کیسی ہیں۔۔۔"

 عالمگیر نے اپنی خیریت بتانے کے بعد اُن کی خیریت دریافت کی۔

"میں بھی ٹھیک ہوں بیٹا۔۔۔۔بس کل تھوڑا سے بخار تھا۔"

رحمت بیگم نے بتایا تو عالمگیر اپنی چیئر سے کھڑا ہو گیا۔

"امی آپ کی طبیعت خراب تھی اور آپ نے مجھے بتایا بھی نہیں؟"

عالمگیر نے ناراضگی سے پوچھا۔

"بیٹا ذرا سا بخار تھا بس۔۔۔ اب تو سب ٹھیک ہے۔۔۔"

رحمت بیگم نے اُسے تسلّی دیتے ہوئے کہا۔

"ٹھیک ہے امی میں آج یہ کل رات تک پہنچ جاؤں گا لاہور۔۔۔اور آپ بہت رہ لیں وہاں۔اب واپس آ جائیں نہ۔۔۔۔"

عالمگیر نے سوچ لیا تھا کے اب وہ اُنھیں اور لاہور نہیں رہنے دیگا۔

"بیٹا میں ابھی۔۔۔"

"نہیں امی۔۔۔۔بس اب آپ واپس آ رہیں ہیں ۔۔۔میں کچھ نہیں جانتا۔"

عالمگیر نے رحمت بیگم کی بات کاٹ کر ضدی لحظے میں کہا۔

"ٹھیک ہے پہلے تم لاہور تو آؤ۔"

رحمت بیگم نے اُسے اس موضوع سے ہٹانا چاہا۔

"ٹھیک ہے میں جلدی ہی آتا ہوں۔"

عالمگیر نے اپنے آنے کا بتایا

"ٹھیک ہے بیٹا۔۔۔"

رحمت بیگم نے کال منقطع کر دی۔

عالمگیر اب جلدی جلدی اپنے کام ختم کر رہا  تھا تاکہ لاہور کے لیے نکل سکے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عالمگیر رات 1 بجے لاہور پہنچا تھا۔

وہ ڈپلیکیٹ چابی سے دروازہ خول کر اندر آیا اور چلتا ہوا پہلے رحمت بیگم کے کمرے میں آیا تا کہ چیک کر سکے کہ اُنکی طبیعت زیادہ خراب تو نہیں۔

عالمگیر نے کمرے میں قدم رکھا۔

 رحمت بیگم  اپنے سینے تک لحاف اوڑھے سو رہیں تھیں۔

عالمگیر چلاتا ہوا اُن کے پاس آیا اور ہاتھ سے اُن کا ماتھا چھو کر بخار چیک کیا۔

اُنھیں بخار نہیں تھا۔

عالمگیر نے مطمئن ہو کر اُن کا لحاف ٹھیک کیا اور کمرے سے نکلنے لگا۔

اچانک کسی احساس کے تحت اُس نے مڑ کر پیچھے دیکھا تو رحمت بیگم بیڈ پر اکیلی نہیں تھی۔

 عشنا اُن کے برابر میں سو رہی تھی۔

عالمگیر کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ وہ بیڈ کے قریب آ کر عشنا کی طرف آیا اور عشنا کو چھو کر دیکھا۔ 

عشنا بےخبر سو رہی تھی ۔

عالمگیر نے اپنا کوٹ جو اُس نے ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا اُسے کندھے پر ڈالا اور احتیاط سے عشنا کو اپنی بازوں میں اٹھا کر دبے قدموں اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا

عشنا شاید بہت تھکی ہوئی تھی یہ پھر بہت گہری نیند میں تھی۔ عالمگیر کے اٹھانے پر وہ ذرا سا کسمسائی ضرور تھی لیکن مکمل طور پر بیدار نہیں ہوئی تھی

عالمگیر پیر سے اپنے کمرے کا  دروازہ کھول کر عشنا کو لے کر بیڈ تک آیا۔

عالمگیر نے بہت احتیاط سے عشنا کو بیڈ پر لیٹا دیا اور اپنا کوٹ وہیں بیڈ پر رکھ کر دروازہ بند کرنے لگا۔

عالمگیر چلاتا ہوا بیڈ تک آیا اور عشنا کو دیکھا جو اب کروٹ کے بل سو رہی تھی۔

عالمگیر کچھ پل اُسے ایسے ہی دیکھتا رہا پھر اٹھ کر الماری سے کپڑے نکال کر چینج کرنے چلا گیا۔

عالمگیر چینج کرکے آیا تب بھی عشنا بےخبر سو رہی تھی عالمگیر کے بالوں سے پانی کی بوندیں ٹپک رہیں تھی کیونکہ وہ ابھی ابھی شاور لے کر آیا تھا۔

عالمگیر چلاتا ہوا دوسری طرف آیا اور بیڈ پر لیٹ گیا۔

عالمگیر نے عشنا کے طرف کروٹ لے کر کہنیوں کے بل ذرا اونچا ہو کر عشنا کو دیکھا جو بند آنکھیں سمیت عالمگیر کو بے چین کیے جا رہی تھی۔

عالمگیر نے سر کو ذرا سی جنبش دی تو سر سے ٹپکتے پانی کی بوندیں عشنا کے گال اور آنکھوں پر پڑے اور اُسے جگانے کا باعث بنے تھے۔

عشنا نے اپنے آنکھوں پر پانی کی بوندوں کو محسوس کر کے آنکھیں خول کر دیکھا جہاں عالمگیر کہنیوں کے بل لیٹا مسکراتے ہوئے اُسے دیکھے جا رہا تھا۔

عشنا نے ہاتھ بڑھا کر عالمگیر کے گال پر رکھ دیا اور مسکرانے لگی۔

"عالمگیر۔۔۔۔۔پتہ ہے میں آپ کو بہت مس کرتی ہوں لیکن بنا روئے۔۔۔جیسا آپ نے کہا تھا۔"

عشنا نے کہا تو عالمگیر نے اُسکا ہاتھ پکڑ کر لبوں سے لگا لیا۔

"سچ۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کے ہاتھ پر کس کیا تو عشنا جو مندی آنکھوں سے عالمگیر کو اپنا خیال سمجھ  رہی تھی عالمگیر کی آواز پر آنکھیں پوری کھول کر عالمگیر کو دیکھنے لگی۔

عالمگیر اب بھی مسکرا کر اُسے دیکھ رہا تھا۔

"عالم۔۔۔۔عالمگیر آپ۔۔۔۔" 

عشنا جھٹکے سے بیڈ سے اٹھی تھی۔

"یس جان۔۔۔"

عالمگیر بھی اٹھ کر اُس کے سامنے بیٹھ گیا۔

"عالمگیر۔۔۔آپ ۔۔آپ سچ میں ہیں یہاں۔۔۔۔"

عشنا نے عالمگیر کے کندھے اور پھر سینے کو چھو کر دیکھا تھا۔

"یس جان۔۔۔میں ہوں ۔۔۔سچ میں۔۔۔"

عالمگیر نے جھک کر اُس کی ناک کھینچی تھی۔

"عالمگیر۔۔۔"۔

عشنا اور پاس ہوتے ہوئے عالمگیر کے سینے سے لگ گئی۔

عالمگیر نے بھی اُسے مکمل طور پر اپنی پناہوں میں لے لیا تھا۔

عشنا اُس کے گلے میں باہیں ڈالے اُس کے سینے سے لگی بیٹھی تھی۔

"عشنا۔۔۔"

عالمگیر نے پُکارا۔

"جی۔۔۔۔"

عشنا نے اُس کی بات کا جواب دیا 

"کیسی ہو۔۔۔۔؟"

عالمگیر نے اُس کے بال سہلاتے ہوئے اُس سے اُس کی خیریت دریافت کی۔

بہت بری۔۔۔"

عشنا نے ناک چڑھا کر کہا تو عالمگیر نے اُسے الگ کر کی عشنا کہ چہرہ دیکھا جو وہ جھکائے بیٹھی تھی

عالمگیر نے اُس کی تھوڑی پکڑ کر اُسکا چہرہ ذرا سا اونچا کیا۔

عشنا نے نظریں جھکائے رکھی۔

"عشنا۔۔۔جان میری طرف دیکھو۔۔۔۔"

عالمگیر اُسکی جھکی پلکوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔

عشنا نے نظر اٹھا کر عالمگیر کی آنکھوں میں دیکھا۔

عالمگیر کی آنکھوں میں محبت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر اُمڈ آیا تھا۔

عشنا نے گھبرا کر نظریں جھکا لیں۔

عالمگیر نے اُس کی جھکی نظروں کو دیکھتے ہوئے اپنے تشنہ لب باری باری عشنا کے آنکھوں پر رکھ دیئے

 "اب بتاؤ۔۔۔۔۔کیسی ہو۔۔۔۔؟"

عالمگیر نے اُس کے آنکھوں پر سے لب ہٹا کر پوچھا

"بہت اچھی۔۔۔۔۔۔"

عشنا نے مسکرا کر کہا 

عالمگیر نے اُسے مسکراتا دیکھ، بیڈ پر لیٹ گیا اور عشنا کو بھی کھینچ کے اپنے برابر میں لیٹا لیا۔

"عالم۔۔۔۔عالمگیر ۔۔۔۔ میں یہاں آپ کے کمرے میں کیسے۔۔۔۔کیسے آئی۔۔۔۔"

عشنا نے عالمگیر کے برابر لیٹ کر عالمگیر کے کمرے کو دیکھ کر پوچھا۔

"تم ہوا میں تیر کر آئی ہو۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کے چہرے کو نظروں کے حصار میں رکھتے ہوئے کہا۔

"عالمگیر بتائیں نہ۔۔۔۔۔"

عشنا نے اُس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا تھا۔

"میں لے کر آیا تھا جان۔۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کے بالوں میں ہاتھ پھنسا کر اُس کے چہرے اونچا کیا تھا۔

"عالمگیر ۔۔۔پھوپھو کو ۔۔۔۔پھوپھو اگر جاگ گئیں تو ۔۔۔۔"

عشنا نے آنکھیں بڑی کر کے پوچھا۔

"تو کہہ دینا کے آپ کی خدمت کر لی۔۔۔اب اپنے شوہر کی خدمت کر رہی ہوں۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُسے دیکھتے ہوئے کہا اور اُس کے ماتھے پر اپنے لب رکھ دیئے۔

"عالم ۔۔۔۔۔عالمگیر۔۔۔۔آپ نے کھانا کھایا؟"

عشنا کو اچانک اُس کی بھوک کی فکر ہوئی۔۔۔۔

"نہیں۔۔۔۔کھایا تو نہیں لیکن ابھی بھوک بھی نہیں ہے۔۔۔"

عالمگیر نے کہا تھا۔

"چلیں ۔۔۔۔میں آپ کو کھانا دیتی ہو۔۔۔۔"

عشنا نے بیڈ سے اٹھتے ہوئے کہا تھا۔

"یار سوئی رہو۔۔۔۔مجھے بھوک نہیں۔۔۔"

عالمگیر نے عشنا کی کلائی پکڑ کر اُسے اٹھنے سے روک دیا

"عالمگیر چلیں۔۔۔۔۔پہلے کھانا کھائیں۔۔۔۔"

عشنا اٹھ کر بیٹھی اور ساتھ ہی عالمگیر کا ہاتھ پکڑ کر اُسے بھی اٹھانا چاہا۔

"کیا میں نے تمہیں کبھی بتایا کہ تم۔۔۔۔"

عالمگیر نے اٹھتے ہوئے کہا۔

"تم کیا۔۔۔۔۔"

عشنا نے حیران ہو کر پوچھا۔

"یہی کے تم کبھی کبھی بہت ظالم بن جاتی ہو۔۔۔"

عالمگیر نے برا سا منہ بنا کر کہا تو عشنا زور سے ہنس دی اور ہستی ہی چلی گئی۔۔۔

عالمگیر اُس کی ہنسی کی جلرترانگ میں کھو سا گیا تھا

 "عالمگیر ۔۔۔چلیں۔۔۔"

عشنا نے عالمگیر کا ہاتھ کھینچا تھا۔

عالمگیر بیڈ سے اٹھتا اُس کے ساتھ کچن میں آ گیا اور چیئر گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔

عشنا جلدی جلدی کھانا گرم کرنے لگی۔

عشنا نے کھانا گرم کرنے کے بعد لا کر ٹیبل پر رکھا اور اُسے سرو کرنے لگی۔

عالمگیر چھوٹے چھوٹے لقمے کھاتے ہوئے عشنا کو دیکھے جا رہا تھا جو سامنے بیٹھی مسکرا کر اُسے کھاتا ہوا دیکھے جا رہی تھی۔

عالمگیر کھانا کھا چکا تو عشنا نے برتن سمیٹے۔

عالمگیر یوں ہی بیٹھا رہا۔

عشنا سارے کام نپٹا کر مڑی تو دیکھا عالمگیر اب بھی ویسے ہی بیٹھا تھا۔

 "عالمگیر۔۔۔۔آپ نے ریسٹ نہیں کرنا؟"

عشنا نے اُسے ایسے ہی بیٹھے دیکھا تو اُس کی طرف آ کر پوچھا۔

"کرنا ہے نہ یار۔۔۔۔اس لیے تو تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔۔۔۔چلو۔۔۔"

عالمگیر نے کھڑے ہو کر اُس کی کلائی تھام کر اپنے ساتھ چلاتے ہوئے کہا۔

عشنا بس مسکرا دی۔

عالمگیر اُسے لیے اپنے کمرے میں آ گیا اور اُسے بیڈ پر بیٹھا کر خود اُس کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا۔

عشنا نے اُس کے بال اپنے ہاتھوں سے بکھر دیئے۔

عالمگیر نے مسکرا کر اُسے دیکھا۔

"تم کب آئیں یہاں؟"

عالمگیر نے اُسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"شام کو۔۔۔۔ابّو نے کہا کچھ دِن پھوپھو کے پاس رہ لو۔۔اُن کی طبیعت خراب تھی نہ۔۔۔۔"

عشنا نے اُس کے بالوں میں انگلی پھیرتے ہے کہا۔

"اوہ۔۔۔۔امی کی طبیعت کیسی ہے اب۔۔۔۔"

عالمگیر نے فکرمندی سے پوچھا۔

"ٹھیک ہیں۔۔۔میں نے میڈیسن دی تھی رات۔۔۔اُس کی وجہ سے ہی سو رہیں ہیں ورنہ فیوور کی وجہ سے انکو نیند نہیں آ رہی تھی۔"۔

عشنا نے بتایا۔

"تب ہی ۔۔۔میں اُنکے کمرے میں گیا لیکن وہ جاگي نہیں تھیں۔کل میں اُنھیں کسی اور ڈاکٹر کے پاس لے جاتا ہو۔۔۔"

عالمگیر اب بھی رحمت بیگم کے لئے فکر مند تھا۔

"ہاں ۔۔۔میں بھی کل اُنھیں دُوسرے ڈاکٹر کے پاس کے جانے کا سوچ رہی تھی۔"

عشنا نے بتایا۔

"ٹھیک ہے چلتے ہیں پھر کل۔"

عالمگیر نے کہا اور آنکھیں بند کر لیں۔

عشنا ایسے ہی اُس کے بالوں میں ہاتھ چلاتی رہی۔

تھوڑی دیر بعد عالمگیر کی بھاری سانسوں کی آواز کمرے میں گونجنے لگی تو عشنا نے عالمگیر کی بند آنکھوں کو دیکھا اور جھک کر اُس کے ماتھے کو اپنے لبوں سے چھوا۔

عالمگیر گہری نیند میں تھا اور عشنا اُسے جگانا نہیں چاہتی تھی اس لیے خود بھی بیڈ کراؤن سے سر لگا کر آنکھیں موند لی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 عالمگیر کی آنکھ کھلی تو دیکھا عشنا بیڈ کے کراؤن سے ٹیک لگائیے سو رہی ہے۔ اُسکا ایک ہاتھ اب بھی عالمگیر کے بالوں میں تھا۔

عالمگیر نے مسکرا کر اُسے دیکھا تھا۔

وہ ساری رات ایسے ہی بیٹھی رہی تھی تا کے عالمگیر کی نیند نہ خراب ہو جائے 

عالمگیر آہستہ سے اٹھا اور اُس کے گال پر کس کرتے اُس کے گال کو دانتوں سے ذرا سا کھینچ لیا۔

عشنا جو اُس کے کس کرنے پر مسکرا دی تھی گال پر کھینچاو محسوس کر کے آنکھیں خول کر عالمگیر کو دیکھا جو اُسے دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔

"عالمگیر آپ۔۔۔"

عشنا نے نیند بھری آنکھوں سے عالمگیر کو دیکھا۔

"گڈ مارننگ جان۔۔۔"

عالمگیر نے کہتے ہوئے اُس کے ماتھے پر اپنے لب رکھ دیئے۔

عشنا مسکرا دی۔

"گڈ مارننگ۔۔۔"

عشنا نے بھی وش کیا۔

"اور میری کس۔۔۔"

عالمگیر نے اپنے لبوں پر ہاتھ رکھ کر پوچھا 

"مجھے۔۔۔۔مجھے کام ہے۔۔۔"

عشنا کہہ کر بیڈ سے اٹھنے لگی۔

عالمگیر نے اُس کی کلائی تھام کر اُسے کھینچا تو وہ پوری طرح اُس کی باہوں میں آ سمائی۔

"عالم۔۔۔عالمگیر چھوڑیں۔۔۔۔پھوپھو آ جائیں گی۔۔۔۔"

عشنا نے دروازے کی سمت دیکھا جو بند تھا۔

"چھوڑ دونگا لیکن اپنی گڈ مارننگ کس لینے کے بعد۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کے بالوں میں ہاتھ پھنسا کر اُس کے چہرے کو اپنے قریب لاتے ہوئے اُس کے لبوں کو اپنے لبوں سے چھوا۔

عشنا اُس کے شرٹ کے کالر کو زور سے پکڑ چکی تھی کیونکہ عالمگیر کا انداز شدّت سے بھرپور تھا۔

عشنا کو اپنی سانسیں رکتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔

عالمگیر اُس کے سحر میں کھویا اُس کی خوشبو اپنی سانسوں میں منتقل کر رہا تھا۔

بہت دیر بعد عالمگیر نے عشنا کی حالات پر رحم کھاتے ہوئے اُس کے لبوں کو آزادی بخشی۔

عشنا لبوں پر ہاتھ رکھے عالمگیر کو دیکھے گئی۔

"تھینک یو جان۔۔میری صبح کو اتنی حسین بنانے کے لئے۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کے ماتھے پر لب رکھ کر کہا تو عشنا مسکراتے ہوئے اُس کے سینے سے لگ گئی۔

تھوڑی دیر تک وہ لوگ ایسے ہی ایک دوسرے کی باہوں میں ایک دوسرے کے لمس میں کھوئے رہے پھر عشنا نے آہستہ سے عالمگیر کی پناہوں سے نکلنا چاہا لیکن عالمگیر نے اُس کی کمر کے گرد ہاتھوں کی سختی بڑھا کر اُسے روک دیا۔

"عالمگیر ۔۔۔چھوڑیں نہ۔۔۔۔پھوپھو اٹھ گئیں ہوں گی۔مجھے آپکے کمرے میں دیکھ کر نجانے کیا سوچیں۔۔۔۔"

عشنا نے چہرہ اونچا کر کے عالمگیر کو دیکھتے ہوئے کہا 

"ٹھیک ہے۔۔۔لیکن ایک شرط ہے۔۔۔"

عالمگیر نے شرط رکھی۔

"عالمگیر ۔۔۔۔"

عشنا نے بےبسی سے اُسے دیکھا۔

"اچھا بتائیں۔۔۔۔کیا شرط ہے؟"

عشنا نے پوچھا

"شرط یہ ہے کہ جب تک میں یہاں ہوں۔۔۔۔تب تک جب جب میں تمہیں کمرے میں بلاؤ۔۔۔تب تب تمہیں یہاں آنا پڑےگا۔۔۔بولو منظور؟"

عالمگیر نے اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔

"عالم۔۔۔۔عالمگیر لیکن۔۔۔لیکن یہ کیسے ۔۔۔ ؟"

عشنا نے حکلاتے ہوئے پوچھا۔

"مجھے نہیں پتہ کیسے۔۔۔لیکن جب میں بلاؤں۔۔۔تمہیں آنا ہوگا۔"

عالمگیر ٹس سے مس نہ ہوا۔

"اچھا ٹھیک ہے۔۔۔"

عشنا نے منہ بناتے ہوئے کہا۔

عالمگیر نے جھک کر اُس کے ماتھے پر لب رکھے اور اُس کی کمر سے ہاتھ ہٹا لیا۔

عشنا دوپٹہ صحیح کرتی ہوئی کھڑی ہو گئی اور دروازے کی طرف بڑھ کر کمرے سے نکلنے سے پہلے عالمگیر کو دور سے انگوٹھا دیکھا کر بھاگ گئی۔

عالمگیر جو اُسے ہی دیکھ رہا تھا اُس کے انگوٹھے دکھانے پر ایک قہقہہ لگا کر واشروم میں بند ہو گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عشنا ناشتہ بنا رہیں تھی۔

رحمت بیگم کچن میں آئیں۔

عشنا نے اُن کو آتے دیکھا تو فوراً سلام کیا۔

"السلام علیکم پھوپھو۔۔۔"

"وعلیکم السلام بیٹا۔۔۔عالمگیر آیا ہے کیا؟"

اُنہونے سلام کا جواب دینے کے بعد پوچھا۔

"جی۔۔۔۔۔جی پھوپھو۔۔۔وہ اپنے کمرے میں ہیں۔۔۔۔"

عشنا نے اُنھیں عالمگیر کا بتایا اور ساتھ ہی پراٹھا توے پر ڈال دیا۔

"اچھا میں دیکھتی ہوں۔۔۔"

"اسلام علیکم امی۔۔۔۔۔کیسی ہیں۔۔۔"

رحمت بیگم کچن سے باہر جا رہی تھی جب ہی عالمگیر چلتا ہوا اُن کی طرف آیا اور اُنھیں سلام کرتا اُن کے گلے لگ گیا ساتھ ہی اُن کی خیریت بھی دریافت کی

 عشنا نے چولہا بند کر کے عالمگیر کو دیکھا جو رحمت بیگم کے گلے لگا ہوا تھا۔

عالمگیر نے عشنا کو پلٹتے دیکھا تو ایک فلائنگ کس اُس کی طرف اچھال دی۔

عشنا نے گھور کر عالمگیر کو دیکھا اور رخ موڈ گئی

عالمگیر اُس کے گھورنے پر مسکرا دیا۔

"میں ٹھیک ہوں۔۔۔تم کیسے ہو؟کب آئے۔۔۔؟"

رحمت بیگم نے عالمگیر سے الگ ہوتے ہوئے پوچھا تھا ساتھ کی اُس کے سر پر پیار بھی کیا تھا۔

"میں تو اب بلکل ٹھیک ہوں امی۔۔۔"

عالمگیر نے مسکراتے ہوئے بتایا۔

"اب؟ مطلب پہلے ٹھیک نہیں تھے۔۔۔؟ کیا ہوا تھا بیٹا۔۔۔۔؟"

رحمت بیگم نے فکرمندی سے پوچھا تو عشنا نے بھی مڑ کر عالمگیر کو دیکھا۔ وہ اب بھی مسکرا رہا تھا۔

"کچھ نہیں امی۔۔۔۔بس جدائی کا غم تھا۔۔۔۔۔اب تو آ گیا ہوں نہ۔۔۔۔اب جا کر آرام ملا ہے۔۔۔۔"

عالمگیر نے کہا تو رحمت بیگم بھی مسکرا دی۔

"کس کی جدائی کا غم تھا بیٹا؟"

اُنہوں نے مسکرا کر پوچھا

"آ۔۔۔۔۔آپ کی۔۔۔۔آپ کی جدائی امی۔۔۔۔"

عالمگیر نے گڑبڑا کر سر کھجاتے ہوئے کہا۔

"شریر۔۔۔۔۔۔ماں کی جدائی یہ بیوی کی۔۔۔۔۔"

رحمت بیگم نے عالمگیر کے کان پکڑے۔۔۔۔۔

"امی ۔۔۔۔امی یہ آپ کسی باتیں کر رہیں ہیں۔۔۔۔"

عالمگیر نے اپنے کان کو چھڈواتے ہوئے کہا۔

"بیٹا میں سب سمجھتی ہوں۔۔۔۔"

رحمت بیگم نے کہا تو عالمگیر مسکرا دیا۔

وہ دونوں ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھے تو عشنا ملازم کے ساتھ مل کے تو ٹیبل پر ناشتا لگانے لگی۔

"امی تیار ہو جائیں ہم آپ کو ڈاکٹر کے پاس کے جا رہے ہیں"

عالمگیر نے رحمت بیگم کو کہا

"لیکن بیٹا اب تو میں بلکل ٹھیک ہو۔"

"نہیں امی۔۔۔۔آپ ٹھیک نہیں ہیں۔۔۔اور میں آپ کو کوئی بات نہیں سن رہا۔

آپ چلیں میں آپ کو ڈاکٹر کے پاس لے چلوں۔ آپ کا مکمّل چیک اپ ہوگا۔"۔

عالمگیر نے ضدی لحظے میں کہا تو رحمت بیگم نے ہاں میں گردن کو جنبش دی۔

عشنا نے رحمت بیگم کے بعد عالمگیر کو ناشتہ سرو کیا اور کچن میں جانے لگی تو عالمگیر نے اُس کی کلائی پکڑ کر اُسے اپنے ساتھ بیٹھا لیا۔

"تم کہا جا رہی ہو؟ ناشتہ نہیں کرنا؟"

عالمگیر نے عشنا کو دیکھتے ہوئے پوچھا

"ہاں۔۔۔نہیں۔۔۔۔ہاں کرنا ہے۔۔۔۔"

عشنا عالمگیر کے ایسے رحمت بیگم کے سامنے اُس کی کلائی پکڑنے پر گڑبڑا گئی تھی۔

"چلو پھر کرو ۔۔۔ "

عالمگیر نے اُس کی توجہ ناشتے کی طرف دلائی تو عشنا اپنی پلیٹ میں ناشتہ نکال کر چھوٹے چھوٹے لقمے لینے لگی۔

"عشنا تم بھی تیار جو جاؤ۔۔۔پھر نکلتے ہیں"

عالمگیر نے ناشتہ ختم کرنے کے بعد کہا تو وہ سر ہلاتی اپنے کمرے میں آ گئی۔

رحمت بیگم پہلے ہی تیار ہونے جا چکی تھی۔ عالمگیر بھی اپنے کمرے میں آ کر تیار ہونے لگا۔

وہ دونوں پورچ میں آئے تو عالمگیر آنکھوں میں سن گلاسز لگائے  کار کے پاس کھڑا نظر آیا۔

رحمت بیگم آ کر پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی اور عشنا فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھول کر بیٹھ گئی۔

عالمگیر نے بھی ڈرائیونگ سیٹ سمبھال لی اور کار کو گیٹ کے باہر نکال لے گیا۔

وہ لوگ رحمت بیگم کو ایک بڑے سے ہسپتال میں لے کر آئے تھے۔

عالمگیر نے اُن کا مکمل چیک آپ کروایا۔

گھر آتے وقت عالمگیر نے راستے سے رحمت بیگم کی دوائیں لی اور ایک اچھے سے ہوٹل میں اُنھیں لنچ کروایا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوپہر 3 بجے کے قریب وہ لوگ گھر آئے تھے۔

عالمگیر اور عشنا دونوں بہت خوش تھے۔

عالمگیر نے کار گیٹ کے اندر پارک کی اور رحمت بیگم کی طرف کا دروازہ کھول کر اُنھیں ساتھ لیتا گھر کے اندر کی طرف بڑھا تھا۔ عشنا بھی اُن کے ساتھ تھی۔

عالمگیر عشنا اور رحمت بیگم نی جیسے ہی گھر میں قدم رکھا سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر عشنا نے گھبرا کر رحمت بیگم کا بازو تھام لیا اور عالمگیر بے تاثر چہرے کے ساتھ اُنھیں دیکھے گیا۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


 

رحمت بیگم نے ایک نظر عشنا کو دیکھا اور پھر عالمگیر کو۔

"ہارون۔۔۔۔کیسے ہو ۔۔۔۔"

رحمت بیگم ہارون صاحب کی طرف بڑھیں۔

"السلام علیکم آپا۔۔۔۔کیسی ہیں۔۔۔؟"

ہارون صاحب عشنا کو عالمگیر کو دیکھتے ہوئے رحمت بیگم کی طرف بڑھے تھے۔

"میں ٹھیک ہوں۔۔۔تم بتاؤ۔۔۔۔کیسے آنا ہوا۔۔۔۔"

رحمت بیگم نے پوچھا۔

عالمگیر نے بھی آگے بڑھ کر سلام کرتے ہوئے سپاٹ چہرے کے ساتھ اُن سے مصافحہ کیا تھا۔

رحمت بیگم اُنھیں لیے اندر کی طرف بڑھ گئیں تو عشنا نے عالمگیر کو دیکھا

عالمگیر بھی اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔

عشنا عالمگیر کی طرف آئی ۔

"عالم۔۔۔عالمگیر۔۔۔۔چاچو۔۔۔۔"

عشنا نے عالمگیر کا دیکھتے ہوئے کہا تھا۔

"عشنا۔۔۔۔کچھ نہیں ہوگا۔۔۔۔ریلیکس۔۔۔۔میں ہوں نہ۔۔۔۔۔چلو اندر چلتے ہیں۔"

عالمگیر نے عشنا کہ ہاتھ تھام کر اُسے اندر لے جانا چاہا۔

"عالم۔۔۔عالمگیر چاچو دیکھ لینگے۔۔۔۔"

عشنا نے اُس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نکالنا چاہا

"شٹ اپ عشنا۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کے ہاتھ پر گرفت مضبوط کر لی اور اُسے لیے گھر کے اندر آ گیا

رحمت بیگم اور ہارون صاحب سامنے صوفے پر بیٹھے تھے۔

عشنا عالمگیر کے ہاتھوں سے اپنا ہاتھ نکال کر کچن کی طرف بڑھ گئی۔

عالمگیر نے اُسے جاتا دیکھا اور صوفے کی طرف بڑھ گیا

"ہارون۔۔۔کوئی ہوٹل نہیں۔۔۔۔تم یہیں رک رہے ہو۔۔۔۔جب تک تمہارا کام ہے تب تک۔۔۔۔گھر کے ہوتے ہوئے تم ہوٹل میں رہوگے؟"

رحمت بیگم نے ہارون صاحب کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔

"لیکن آپا۔۔۔"

"ہارون میں کچھ نہیں سننا چاہتی۔۔۔"

ہارون صاحب نے کچھ کہنا چاہ لیکن رحمت بیگم نے اُن کی بات کاٹ دی۔

"ٹھیک ہے آپا۔۔۔۔"

ہارون صاحب نے ہاں کر دی۔

عالمگیر صوفے پر بیٹھا چپ چاپ اُنکی باتیں سن رہا تھا۔

عشنا ملازم کے ساتھ ٹرے میں چائے اور دیگر لوازمات لے کر لاؤنج میں داخل ہوئی۔

"السلام علیکم چاچو۔۔۔"

عشنا نے اُن کو سلام کرتے ہوئے ٹرے میں رکھی ٹی سیٹ سے چائے بنانے لگی 

"کیسی ہو۔۔۔اور یہاں کیسے۔۔۔؟"

ہارون صاحب نے عشنا نے پوچھا تو عشنا نے ایک نظر عالمگیر کو دیکھا۔

عالمگیر بھی اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔

"میں۔۔۔میں کل شام کو آئی تھی۔۔پھوپھو کی طبیعت خراب تھی اس لیے ۔۔۔۔"

عشنا نے بتایا۔

"آپا ۔۔۔آپ کی طبیعت خراب ہے؟"

ہارون صاحب نے رحمت بیگم کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"ہاں۔۔نہیں۔۔۔بس تھوڑا سا بخار تھا۔۔۔۔اب ٹھیک ہے۔۔۔ابھی عالمگیر ڈاکٹر کے پاس ہی لے گیا تھا۔"

رحمت بیگم نے ہارون صاحب کو بتایا۔

عشنا نے سب کو چائے سرو کی آخر میں عالمگیر کو چائے دیتے وقت عالمگیر نے جان بوجھ کر عشنا کے ہاتھ کو چھو لیا۔

عشنا نے گھبرا کر عالمگیر کو اور پھر ہارون صاحب کو دیکھا جو رحمت بیگم کی طرف متوجہ تھے۔

عشنا نے جلدی سے ہاتھ کھینچ لیا ۔

عالمگیر نے اپنی مسکراہٹ چھپانے کی لیے چائے کا کپ لبوں سے لگا لیا۔

ہارون صاحب نے ڈرائیور کو بھیج کر اپنے ہوٹل روم سے اپنا سامان منگوا لیا تھا۔

عشنا کیچن میں کھڑی ملازمہ کے ساتھ ڈنر کی تیاری کر رہی تھی اور عالمگیر اپنے کمرے میں اپنا لیپ ٹاپ لیے کام میں مصروف ہو گیا تھا۔

رحمت بیگم اور ہارون صاحب بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔

"عشنا۔۔۔۔۔"

عالمگیر اچانک کچن کی داخل ہوا تھا

"ج۔۔۔جی۔۔۔"

 عشنا نے عالمگیر کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"پیاس لگ رہیں ہے۔۔۔۔"

عالمگیر نے کہا تو عشنا نے فریج سے پانی کی بوتل نکال کر گلاس میں پانی انڈیلا اور گلاس عالمگیر کی طرف بڑھایا

عالمگیر نے پہلے اُسے پھر پانی کے بھرے ہوئے گلاس کو دیکھا۔

"اسے میرے کمرے میں لے کر آؤ"

عالمگیر نے کہا اور کیچن سے باہر چلا گیا۔

عشنا نے ایک نظر اُسے جاتے دیکھا اور پانی کے گلاس کو۔

"صفیہ۔۔۔۔یہ پانی ذرا عالمگیر کو دے آئیں۔۔۔۔میں سالن دیکھ لوں۔۔۔۔"

عشنا نے ملازمہ کو کہا اور خود چولہے کی طرف متوجہ ہو گئی۔

ملازمہ "جی" کہتی پانی لے کر کچن سے باہر نکل گئی۔

عشنا سالن میں چمچ ہلانے لگی۔

"جی وہ سر کہہ رہے ہیں کہ عشنا میم کو بھیجیں۔۔۔۔"

تھوڑی دیر بعد ملازمہ کچن میں واپس آئی۔ اُس کے ہاتھ میں ٹرے تھی جس میں پانی کا گلاس جوں کا توں رکھا ہوا تھا۔

عشنا پریشان سی ہو کر ٹرے لیے کیچن سے باہر آئی اور عالمگیر کے کمرے کی طرف بڑھی تھی۔

"تم کہاں جا رہی ہو۔۔۔"

ہارون صاحب نے اُس کے ہاتھ میں پانی کی ٹرے دیکھی تو عشنا سے پوچھنے لگے 

"وہ ۔۔۔وہ۔۔۔۔چاچو ۔۔۔میں ۔۔۔میں وہ۔۔۔۔۔"

عشنا ہارون صاحب کو دیکھ کر گڑبڑا گئی۔

"کیا میں وہ وہ لگا رکھی ہے۔۔۔۔"

ہارون صاحب نے کڑک آواز میں کہا۔

 عالمگیر بھی کمرے سے باہر آ گیا۔ شاید وہ ہارون صاحب کی آواز کو سن چکا تھا

"عشنا۔۔۔۔کتنا وقت بھئی۔۔۔۔کب سے پانی منگوایا ہے۔۔۔۔۔"

عالمگیر نے ہارون صاحب کو عشنا کو ایسے گھورتے دیکھا تو آگے بڑھ کر اُن کے درمیان میں کھڑا ہو گیا اور ٹرے سے پانی کا گلاس اٹھا کر پانی پینے لگا۔

ہارون صاحبِ نے ایک نظر اُن دونوں کو دیکھا ابھی وہ کچھ کہنے ہی جا رہے تھے کہ اُن کا موبائل بجنے لگا۔ وہ فون کان سے لگاتے دوسری طرف چلے گئے۔

عالمگیر مسکرا کر عشنا کو دیکھے جا رہا تھا۔

"عالمگیر۔۔۔"

عشنا نے کچھ کہنا چاہا تھا لیکن عالمگیر نے اُس کے لبوں پر انگلی رکھ کر اُسے کچھ بھی کہنے سے روک دیا۔

"عشنا۔۔۔۔۔۔۔ابراہیم مامو اگر ان سے ڈرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں بھی ڈرتا ہو۔۔۔۔تم میری۔۔۔"

"عالمگیر پلیز۔۔۔"

عشنا نے اُس کی بات کاٹ دی۔

"عشنا میں کسی سے نہیں ڈرتا۔۔۔۔۔اور نیکسٹ ٹائم جب میں بلاؤ تو میرے کمرے میں آ جانا۔۔۔۔"

وہ وارننگ دینے والے انداز میں بولتا اپنے کمرے میں چلا گیا۔

 عشنا بس اُسے دیکھ کے ره گئی۔

رات ڈنر پر بھی عالمگیر خاموش ہی رہا ۔

عشنا کھانا سرو کرتے ہوئی بار بار اُسے دیکھ رہی تھی لیکن عالمگیر نے نظر اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا تھا اور نہ ہی اُسے کھانے کا کہا تھا۔

عشنا کچن میں آئی اور سینک پر کھڑی ہو کر اپنے آنکھوں میں اُمڈ رہے آنسوؤں کو روکنے کی سعی کی۔ 

عالمگیر کی ناراضگی سوچ کر اُس کی جان پر بن آئی تھی۔

اُس سے کھانا بھی نہیں کھایا گیا تھا۔ 

سب لوگ اپنے اپنے کمرے میں چلے گئے۔

عشنا آہستہ قدموں سے چلتی عالمگیر کے کمرے کی طرف آئی۔ 

عشنا نے عالمگیر  کے کمرے کا دروازہ کھولنا چاہا لیکن وہ اندر سے مقفل تھا۔

عشنا نے آہستہ سے دروازہ بجایا لیکن عالمگیر جو کمرے کی کھڑکی پر کھڑا تھا اُس نے دروازہ نہیں کھولا۔

اُسے عشنا پر بہت غصّہ آ رہا تھا۔

"عالمگیر پلیز۔۔۔۔"

عشنا نے عالمگیر کو پُکارا تھا۔

"عشنا ۔۔۔۔جاؤ۔۔۔جا کر سو جاؤ۔۔۔۔"

عالمگیر نے دروازہ کھول کر اُسے کہا اور دروازہ بند کرنا چاہا تھا۔

"عالمگیر پلیز۔۔۔۔"۔

عشنا نے عالمگیر کا بازو پکڑ لیا۔

عالمگیر نے اُسے کمرے کے اندر لے کر دروزا بند کر لیا۔

"رونا بند کرو۔۔۔۔"

عالمگیر نے عشنا کے گال پر ہاتھ پھیرا تھا۔

عالمگیر کو عشنا کا ہارون صاحب سے ڈرنا غصّہ دیلا گیا تھا۔  لیکن عشنا کے بازو پکڑتے ہی اُس کا سارا غصّہ اُڑنچھو ہو گیا تھا۔

اب عالمگیر نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ ہارون صاحب کو اپنے اور عشنا کے بارے میں بتا کر رہے گا۔

عشنا روتے روتے عالمگیر کے سینے سے لگ گئی

"عشنا۔۔۔۔یار رونا تو بند کرو۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کی کمر کے گرد گھیرا تنگ کرتے اُس کے آنسوؤں کو اپنے سینے پر محسوس کر کے اُسے رونے سے روکنا چاہا تھا۔

"عالم۔۔۔عالمگیر آپ مجھ سے ناراض۔۔۔۔"

عشنا نے سر اٹھا کر عالمگیر کو دیکھتے ہوئے پوچھنا چاہا تھا۔

"نہیں۔۔۔۔میں اپنی جان سے ناراض ہو سکتا ہوں بھلا؟۔۔"

عالمگیر نے اُس کی پیٹھ سہلاتے اُس کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا۔

"اچھا۔۔۔۔تو پھر باہر ۔۔۔باہر وہ کیا تھا۔۔۔۔آپ نے مجھے دیکھا تک نہیں اور نہ ہی مجھے۔۔۔۔۔"

عشنا کے آنسو اب تھم چکے تھے۔ اب وہ عالمگیر سے اُس کی ہی شکایت لگا رہے رہی تھی۔

"تم ہی تو میرے دیکھنے پر گھور کر دیکھتی رہی ہو شام سے۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔

عشنا اب بھی عالمگیر کی گرفت میں تھی۔

"چلو آؤ۔۔۔۔"

عالمگیر اُسے لیے کمرے میں رکھے صوفے تک آیا تھا۔ 

عالمگیر نے عشنا کو صوفے بیٹھا اور خود اُس کے برابر بیٹھ گیا۔

 ٹیبل پر کھانے کی ٹرے پہلے سے رکھی ہوئی تھی۔ شاید عالمگیر نے ملازمہ سے پہلے ہی کھانا منگوا لیا تھا۔

عالمگیر نے دیکھا تھا کہ عشنا نے کھانا نہیں کھایا ہے اس لیے اُس نے ملازمہ سے کھانا کمرے میں ہی منگوا لیا تھا۔

اُسے پتہ تھا عشنا اُس کے پاس ضرور آئیگی۔

"عالمگیر یہ۔۔۔"۔

عشنا نے کھانے کی ٹرے دیکھ کر عالمگیر سے پوچھا تھا۔

"یہ کھانا ہے اور یہ میری جان کے لیے ہے کیونکہ میری جان نے کھانا نہیں کھایا۔

چلو منہ کھولو۔۔۔۔"

عالمگیر نے کہتے ہوئی نوالہ بنا کر عشنا کی طرف بڑھایا ۔

عشنا نے منہ کھول کر لقمہ منہ میں رکھ لیا اور آہستہ سے کھانے لگی۔

عالمگیر ایسے ہی چھوٹے چھوٹے لقمے بناتا عشنا کو کھلاتا رہا۔

"چلو۔۔۔اب جا کر ریسٹ کر لو۔۔۔آج بہت کام کیا ہے میری جان نے ۔۔۔۔تھک گئی ہو نہ۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کے گال پر کس کی اور اُسے کمرے میں جانے کا کہا۔

"عالمگیر ۔۔۔۔آپ مجھ سے ناراض مت ہونا پلیز۔۔۔"

عشنا نے دل میں چھپے ڈر سے کو زبان دی۔

"نہیں۔۔۔کبھی نہیں۔۔۔بس ذرا سا غصہ آ گیا تھا۔۔۔بس "

عالمگیر نے جھک کر اُس کے ماتھے پر لب رکھے اور اُسے سونے کے لیے بھیج دیا۔

اور خود بھی بیڈ پر آ کر لیٹ گیا۔

عشنا بھی مطمئن ہو کر سے گئی۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسری صبح عالمگیر ناشتہ کرنے کے لیے ڈائننگ ٹیبل تک آیا تو رحمت بیگم اور ہارون صاحب ناشتہ کر رہے تھے اور عشنا بھی ایک چیئر پر بیٹھی تھی۔

عالمگیر چلتا ہوا آیا اور عشنا کے بغل والی چیئر پر بیٹھ گیا۔

"عشنا۔۔۔۔"

عالمگیر نے عشنا کو دیکھتے ہوئے کہا تو عشنا فوراً کھڑی ہو گئی اور عالمگیر کے لیے ناشتہ اُس کی پلیٹ میں نکالنے لگی۔

"عشنا ۔۔۔آج یہ کھانے کا دل نہیں چاہ رہا۔ جاؤ جا کر چکن قیمہ پراٹھا بنا کر لاؤ۔۔۔جیسے تم نے کراچی میں بنایا تھا۔"

عالمگیر نے اپنی پلیٹ میں رکھے آلو کے پراٹھے کو دیکھتے ہوئے عشنا کو مخاطب کر کے فرمائش کی تو عشنا تھوک نگل کر رحمت بیگم اور پھر ہارون صاحب کو دیکھنے۔

"جاؤ۔۔۔"

"جاؤ بیٹا۔۔۔۔"

عالمگیر کے بعد رحمت بیگم نے عشنا سے کہا تو وہ کچن کی طرف بڑھ گئی

 "عالمگیر ۔۔۔تم خانساماں کو کہہ سکتے تھے  پراٹھوں کے لیے۔۔۔عشنا کو کہنے کی کیا ضرورت تھی؟ وہ ناشتہ کر رہی تھی نہ؟"

ہارون صاحب کو عالمگیر کا عشنا کو پراٹھوں کے لیے کہنا پسند نہیں آیا تھا۔

"مامو آپ ناشتہ کریں نا۔۔۔اُسے کوئی پروبلم نہیں ہے۔۔۔اُسے تو یہ سب کرنے کی عادت ہے۔۔۔"

عالمگیر نے کہا اور جوس کا گلاس منہ سے لگا لیا۔

عشنا نے کچھ دیر بعد پراٹھے لا کر عالمگیر کی پلیٹ میں رکھے اور خود ٹیبل پر چیزیں صحیح کرنے لگی۔

"تم نے نہیں کرنا ناشتہ ۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کی کلائی پکڑ کر اُسے اپنے بغل میں بیٹھا لیا۔

عشنا نے ہارون صاحب کو دیکھا 

ہارون صاحب عشنا کو آنکھیں بڑی کر کے دیکھ رہے تھے۔ 

عشنا نے جلدی سے نظریں اپنی پلیٹ پر جھکا لی۔

"تمہارے ہاتھوں میں تو جادو ہے۔۔۔۔دل کرتا ہے۔۔۔"

عالمگیر نے پراٹھے کے لقمہ منہ میں رکھتے ہے عشنا کو دیکھا اور کہہ ہی رہا تھا کے عشنا سے اُسے ٹوک دیا۔

"یہ اچار لیں نہ۔۔۔یہ اس کے ساتھ اور اچھا لگے گا۔"

عشنا نے کہتے ہوئے عالمگیر کو آنکھوں ہی آنکھوں میں چپ رہنے کا اشارہ بھی کیا تھا۔

عالمگیر نے اُس کے بعد کچھ نہیں کہا بس ناشتہ کر کے اپنے کمرے میں چلا گیا۔

عشنا نے عالمگیر کے جانے کے بعد ایک گہری سانس لے کر خود کو ریلیکس کرنا چاہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔

"ہاں۔۔۔نہیں۔۔۔میں ابھی نہیں آ سکتا۔۔۔"

عالمگیر اپنے کمرے کی کھڑکی کے پاس کھڑا نادر سے فون پر بات کر رہا تھا 

"لیکن سر۔۔۔۔آپ کے نہ آنے سے بہت لوث ہو سکتا ہے۔۔۔۔"

نادر کی پریشانی میں ڈوبی آواز آئی۔

"نادر اگر میں ابھی آ گیا تو میری زندگی میں بہت لوث ہو جائیگا۔

بات سمجھنے کی کوشش کرو۔۔۔میں نہیں آ سکتا۔۔۔۔تم کیسے بھی ایڈجسٹ کر لو۔۔۔"

عالمگیر نے کال منقطع کر کے فون بیڈ پر اچھال دیا ۔

عالمگیر چلتا ہوا دروازے کے پاس آیا ۔ سامنے ایک ملازم صفائی کر رہا تھا۔

"عشنا کو بولو میرے لیے چائے لے کر آئے۔۔۔۔"۔

عالمگیر ملازم کو کہتا کمرے میں چلا گیا۔

عالمگیر واش روم میں کھڑا شیو  کر کے منہ دھو رہا تھا ۔

اُس کی آنکھوں پر صابن لگا ہوا تھا اور آنکھیں بند تھیں۔ 

اچانک نل میں پانی چلا گیا۔

عالمگیر نے نل کو ہاتھوں سے چھو کر یہاں وہاں گھوما کر دیکھا لیکن پانی نہیں آیا ۔

اُس نے ایک آنکھ سے صابن کا جھاگ پوچھ کر نل کو دیکھا جہاں پانی نہیں آ رہا تھا۔

"کون ہے۔۔۔۔عشنا کیا تم ہو۔۔۔۔؟"

کمرے میں کسی کے آنے کی آواز آئی تو عالمگیر نے وہیں سے ہانک لگائی۔

"جی۔۔۔۔"

عشنا جو چائے رکھ کر جانے لگی تھی عالمگیر کی آواز پر رک گئی۔

"عشنا ۔۔۔پلیز جلدی آؤ۔۔۔میری آنکھوں میں بہت جلن ہو رہی ہے۔۔۔یہاں نل میں پانی نہیں آ رہا۔"

عالمگیر نے عشنا کی آواز سنی تو اُسے واشروم میں بولا لیا۔

عشنا چلتی ہوئی واشروم کے اندر آئی تو دیکھا عالمگیر چہرے پر صابن لگائے کھڑا تھا۔

عشنا نے دوسرے نل سے مگ میں پانی لیا اور عالمگیر کے پاس گرانے لگی۔

"عالمگیر۔۔۔"

عشنا نے اُسے پُکارا اور ساتھ ہی اُس کا ہاتھ پکڑ کر پانی کی طرف کیا۔

عالمگیر نے جلدی سے پانی لے کر اپنا چہرہ دھویا اور آنکھیں کھول عشنا کو دیکھنے لگا۔

عشنا ہاتھوں میں مگ تھامے کھڑی اُسے ہی دیکھا رہی تھی۔

عالمگیر نے اُس کے دوپٹے کا ایک سرا ہاتھ سے پکڑا اور اپنا چہرہ پوچھنے لگا۔

عشنا نے حیرانی سے اسٹینڈ پر لگے ٹاول کو دیکھا اور پھر عالمگیر کو جو اب مسکرا کر اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔

"آپ۔۔۔آپ کی چائے رکھ دی ہے میں نے۔۔۔"

عشنا نے کہا اور جانے کے لیے پر تولنے لگی لیکن عالمگیر نے اُس کی کلائی تھام کر اُس کی کوشش کو ناکام بنا دیا۔

"عالمگیر ۔۔۔کیا کر رہے ہیں۔۔۔چھوڑیں نہ۔۔۔چاچو دیکھ لینگے۔۔۔"

عشنا نے اپنی کلائی عالمگیر کے ہاتھ سے نکالنی چاہی۔

عالمگیر نے اُس کے ہاتھ پر ایک جھٹکا دیا تو عشنا اُسکی باہوں میں آ سمائی۔

"عالمگیر ۔۔۔"

عشنا نے عالمگیر کو سر اٹھا کر دیکھا لیکن اُس کی آنکھوں میں چھلک رہے پیغام سے گھبرا کر اُس نے پلکیں جھکا لیں۔

"جان ۔۔۔۔"

عالمگیر نے کہا تو عشنا نے گھبرا کر اُسے دیکھا۔

عالمگیر اسے کمر سے تھامے اُس کمر پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔

"عالمگیر۔۔۔۔کیا۔۔۔چاچو۔۔۔۔"

عشنا نے گھبرا کر کہا ۔

عالمگیر جھک کر اپنے لبوں کی پیاس اُس کے لبوں سے بجھانے لگا۔

عشنا اُس کو کالر سے تھامے اُس کی شددّتیں برداشت کرتی رہی۔

عالمگیر نے کچھ دیر بعد عشنا کے لبوں سے اپنے لب ہٹائے تو عشنا گہری گہری سانسیں لینے لگی۔

عالمگیر اُسے تھامے واشروم کے اور اندر آ گیا۔

اب وہ لوگ جہاں کھڑے تھے اُس کے ایک دم اوپر شاور لگا ہوا تھا۔

عالمگیر نے ہاتھ بڑھا کر شاور کا نوب گھوما دیا۔

پانی بارش کی صورت اُس پر برسنے لگا۔

وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے اس مصنوعی بارش میں بھیگ رہے تھے۔

 پانی ٹھنڈا تھا 

عشنا عالمگیر کی شرٹ کو کالر کے پاس سے پکڑ کر کھڑی اُسے دیکھے جا رہی تھی۔ 

عشنا نے ہونٹ پانی کی ٹھنڈک کی وجہ سے کپکپا رہے تھے۔

عالمگیر نے آہستہ سے جھک کر اُس کے لبوں پر اپنے لب رکھ کر پھر سے اُس کی خوشبو کو اپنی سانسوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا۔

عشنا اُس کی شرٹ کو کالر کے پاس سے تھامے اُس کی شدّت برداشت کرتی رہی۔

عشنا کی گرفت عالمگیر کی شرٹ پر اور سخت ہو گئی تھی کیوں کہ عالمگیر کا انداز شدّت اختیار کر گیا تھا۔

عالمگیر نے جب دیکھا عشنا کو سانس نہیں آ رہی تب وہ اُس سے الگ ہوا تھا۔

عشنا لمبی سانسیں لے کر اپنا تنففس بحال کرنے لگی۔

عالمگیر نے آہستہ سے اُسے خود سے لگا لیا۔

عشنا اُس کے سینے سے لگی لمبی لمبی سانسیں لے رہی تھی۔

"جان۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کے کان کے پاس  سرگوشی کی۔

عشنا کانپ گئی۔

ایک تو پانی کی ٹھنڈک کا احساس دوسرے عالمگیر کا انداز

عشنا عالمگیر کے ہاتھوں کو اپنے پیٹھ اور کمر پر رینگتے ہوئے محسوس کر رہی تھی۔

عالمگیر نے عشنا کے کندھے پر لب رکھ دیئے۔

"عالمگیر۔۔۔۔"

عشنا نے تھر تھر کانپتے وجود کے ساتھ عالمگیر کو پُکارا تھا۔

"یس جان۔۔۔۔"۔

عالمگیر نے عشنا کی کمر پر گرفت اور تنگ کر دی تھی۔

وہ دونوں ایک دوسرے کے سحر میں کھوئے ہوئے تھے۔

"عالمگیر۔۔۔۔۔"

کمرے سے ہارون صاحب کی آواز آئی تو عشنا نے گھبرا کر عالمگیر کو دیکھا۔

عالمگیر نے ایک نظر اُسے دیکھا اور پھر واشروم کے دروازے کو جو عشنا نے بند تو کیا تھا لیکن مقفیل نہیں کیا تھا۔

"عالم۔۔۔"۔

عشنا نے آہستہ سے لبوں کی جنبش سے عالمگیر کو پُکارا تھا 

"رکو۔۔۔۔۔میں دیکھتا ہوں۔۔۔"

عالمگیر  نے ہاتھ بڑھا کر شاور کا نوب بند کیا اور عشنا کو وہیں کھڑا کر کے واشروم کے دروازے کی طرف آیا۔

"جی مامو۔۔۔"

عالمگیر نے دروازے کے پاس سے جواب دیا۔

"عالمگیر مجھے تمہارا لیپ ٹاپ چاہیے تھا۔میرے لیپ ٹاپ کی بیٹری ڈاؤن ہو گئی ہے۔"

ہارون صاحب نے کہا۔

"ٹھیک ہے ۔۔۔وہ میرے بیڈ کے سائڈ ٹیبل پر رکھا ہوا ہے۔ آپ لے سکتے ہیں"

عالمگیر نے بتایا تو وہ لیپ ٹاپ لے کر تھینکس کہتے کمرے سے باہر چلے گئے۔

عالمگیر نے اُن کے باہر جانے اور پھر دروازہ بند ہونے کی آواز سنی۔

عالمگیر عشنا کی طرف آیا اور ٹاول سے اُس کے بال سکھانے لگا۔

عشنا بری طرح سے کانپ رہی تھی۔

عالمگیر نے جلدی سے اُس کے بال خشک کیے اور ٹاول اُس کے گرد لپیٹتا اُسے لیے کمرے میں لے آیا۔

"عالم۔۔۔عالمگیر اگر آج چاچو نے ہمیں دیکھ لیا ہوتا تو؟"

عشنا بیڈ پر بیٹھی عالمگیر سے سوال کر رہی تھی۔

"جاؤ۔۔۔۔جا کر چینج کر کے آؤ۔۔۔ورنہ ٹھنڈک لگ جائیگی۔"

عالمگیر نے اپنا ایک شلوار کرتا اُس کی طرف بڑھا کر کہا تو عشنا اُسے دیکھ کر شلوار کرتا دیکھنے لگی۔

"ایسے تو تم یہاں سے نہیں جا سکتی نہ۔۔۔۔باہر سارے ملازم موجود ہیں"

عالمگیر نے اُس کی آنکھوں میں رقم سوال کو پڑھ کر اُس کے گیلے کپڑے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔

"تم جاؤ۔۔چینج کرو میں ملازین کو یہاں سے ہٹا دیتا ہوں۔ پھر تم اپنے کمرے میں جا کر اپنے کپڑے پہن لینا"

عالمگیر نے اُسے کہا اور ساتھ ہی الماری سے ایک شرٹ نکال کر اپنی شرٹ تبدیل کرنے لگا۔

عشنا نے عالمگیر کو شرٹ نکالتے دیکھا تو جلدی سے اپنے ہاتھوں میں تھامے کپڑے لیے واشروم میں گھس گئی۔

عالمگیر نے اُس کی حرکت پر مسکرا کر سر کو نفی میں جنبش دی۔

عالمگیر نے باہر آ کر ملازمین کو یہاں وہاں بھیج کر عشنا کو اُس کے کمرے میں بھیج دیا اور خود  بھی چینج کرنے واشروم میں چلا گیا۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


 

رحمت بیگم نے ایک نظر عشنا کو دیکھا اور پھر عالمگیر کو۔

"ہارون۔۔۔۔کیسے ہو ۔۔۔۔"

رحمت بیگم ہارون صاحب کی طرف بڑھیں۔

"السلام علیکم آپا۔۔۔۔کیسی ہیں۔۔۔؟"

ہارون صاحب عشنا کو عالمگیر کو دیکھتے ہوئے رحمت بیگم کی طرف بڑھے تھے۔

"میں ٹھیک ہوں۔۔۔تم بتاؤ۔۔۔۔کیسے آنا ہوا۔۔۔۔"

رحمت بیگم نے پوچھا۔

عالمگیر نے بھی آگے بڑھ کر سلام کرتے ہوئے سپاٹ چہرے کے ساتھ اُن سے مصافحہ کیا تھا۔

رحمت بیگم اُنھیں لیے اندر کی طرف بڑھ گئیں تو عشنا نے عالمگیر کو دیکھا

عالمگیر بھی اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔

عشنا عالمگیر کی طرف آئی ۔

"عالم۔۔۔عالمگیر۔۔۔۔چاچو۔۔۔۔"

عشنا نے عالمگیر کا دیکھتے ہوئے کہا تھا۔

"عشنا۔۔۔۔کچھ نہیں ہوگا۔۔۔۔ریلیکس۔۔۔۔میں ہوں نہ۔۔۔۔۔چلو اندر چلتے ہیں۔"

عالمگیر نے عشنا کہ ہاتھ تھام کر اُسے اندر لے جانا چاہا۔

"عالم۔۔۔عالمگیر چاچو دیکھ لینگے۔۔۔۔"

عشنا نے اُس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نکالنا چاہا

"شٹ اپ عشنا۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کے ہاتھ پر گرفت مضبوط کر لی اور اُسے لیے گھر کے اندر آ گیا

رحمت بیگم اور ہارون صاحب سامنے صوفے پر بیٹھے تھے۔

عشنا عالمگیر کے ہاتھوں سے اپنا ہاتھ نکال کر کچن کی طرف بڑھ گئی۔

عالمگیر نے اُسے جاتا دیکھا اور صوفے کی طرف بڑھ گیا

"ہارون۔۔۔کوئی ہوٹل نہیں۔۔۔۔تم یہیں رک رہے ہو۔۔۔۔جب تک تمہارا کام ہے تب تک۔۔۔۔گھر کے ہوتے ہوئے تم ہوٹل میں رہوگے؟"

رحمت بیگم نے ہارون صاحب کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔

"لیکن آپا۔۔۔"

"ہارون میں کچھ نہیں سننا چاہتی۔۔۔"

ہارون صاحب نے کچھ کہنا چاہ لیکن رحمت بیگم نے اُن کی بات کاٹ دی۔

"ٹھیک ہے آپا۔۔۔۔"

ہارون صاحب نے ہاں کر دی۔

عالمگیر صوفے پر بیٹھا چپ چاپ اُنکی باتیں سن رہا تھا۔

عشنا ملازم کے ساتھ ٹرے میں چائے اور دیگر لوازمات لے کر لاؤنج میں داخل ہوئی۔

"السلام علیکم چاچو۔۔۔"

عشنا نے اُن کو سلام کرتے ہوئے ٹرے میں رکھی ٹی سیٹ سے چائے بنانے لگی 

"کیسی ہو۔۔۔اور یہاں کیسے۔۔۔؟"

ہارون صاحب نے عشنا نے پوچھا تو عشنا نے ایک نظر عالمگیر کو دیکھا۔

عالمگیر بھی اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔

"میں۔۔۔میں کل شام کو آئی تھی۔۔پھوپھو کی طبیعت خراب تھی اس لیے ۔۔۔۔"

عشنا نے بتایا۔

"آپا ۔۔۔آپ کی طبیعت خراب ہے؟"

ہارون صاحب نے رحمت بیگم کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"ہاں۔۔نہیں۔۔۔بس تھوڑا سا بخار تھا۔۔۔۔اب ٹھیک ہے۔۔۔ابھی عالمگیر ڈاکٹر کے پاس ہی لے گیا تھا۔"

رحمت بیگم نے ہارون صاحب کو بتایا۔

عشنا نے سب کو چائے سرو کی آخر میں عالمگیر کو چائے دیتے وقت عالمگیر نے جان بوجھ کر عشنا کے ہاتھ کو چھو لیا۔

عشنا نے گھبرا کر عالمگیر کو اور پھر ہارون صاحب کو دیکھا جو رحمت بیگم کی طرف متوجہ تھے۔

عشنا نے جلدی سے ہاتھ کھینچ لیا ۔

عالمگیر نے اپنی مسکراہٹ چھپانے کی لیے چائے کا کپ لبوں سے لگا لیا۔

ہارون صاحب نے ڈرائیور کو بھیج کر اپنے ہوٹل روم سے اپنا سامان منگوا لیا تھا۔

عشنا کیچن میں کھڑی ملازمہ کے ساتھ ڈنر کی تیاری کر رہی تھی اور عالمگیر اپنے کمرے میں اپنا لیپ ٹاپ لیے کام میں مصروف ہو گیا تھا۔

رحمت بیگم اور ہارون صاحب بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔

"عشنا۔۔۔۔۔"

عالمگیر اچانک کچن کی داخل ہوا تھا

"ج۔۔۔جی۔۔۔"

 عشنا نے عالمگیر کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"پیاس لگ رہیں ہے۔۔۔۔"

عالمگیر نے کہا تو عشنا نے فریج سے پانی کی بوتل نکال کر گلاس میں پانی انڈیلا اور گلاس عالمگیر کی طرف بڑھایا

عالمگیر نے پہلے اُسے پھر پانی کے بھرے ہوئے گلاس کو دیکھا۔

"اسے میرے کمرے میں لے کر آؤ"

عالمگیر نے کہا اور کیچن سے باہر چلا گیا۔

عشنا نے ایک نظر اُسے جاتے دیکھا اور پانی کے گلاس کو۔

"صفیہ۔۔۔۔یہ پانی ذرا عالمگیر کو دے آئیں۔۔۔۔میں سالن دیکھ لوں۔۔۔۔"

عشنا نے ملازمہ کو کہا اور خود چولہے کی طرف متوجہ ہو گئی۔

ملازمہ "جی" کہتی پانی لے کر کچن سے باہر نکل گئی۔

عشنا سالن میں چمچ ہلانے لگی۔

"جی وہ سر کہہ رہے ہیں کہ عشنا میم کو بھیجیں۔۔۔۔"

تھوڑی دیر بعد ملازمہ کچن میں واپس آئی۔ اُس کے ہاتھ میں ٹرے تھی جس میں پانی کا گلاس جوں کا توں رکھا ہوا تھا۔

عشنا پریشان سی ہو کر ٹرے لیے کیچن سے باہر آئی اور عالمگیر کے کمرے کی طرف بڑھی تھی۔

"تم کہاں جا رہی ہو۔۔۔"

ہارون صاحب نے اُس کے ہاتھ میں پانی کی ٹرے دیکھی تو عشنا سے پوچھنے لگے 

"وہ ۔۔۔وہ۔۔۔۔چاچو ۔۔۔میں ۔۔۔میں وہ۔۔۔۔۔"

عشنا ہارون صاحب کو دیکھ کر گڑبڑا گئی۔

"کیا میں وہ وہ لگا رکھی ہے۔۔۔۔"

ہارون صاحب نے کڑک آواز میں کہا۔

 عالمگیر بھی کمرے سے باہر آ گیا۔ شاید وہ ہارون صاحب کی آواز کو سن چکا تھا

"عشنا۔۔۔۔کتنا وقت بھئی۔۔۔۔کب سے پانی منگوایا ہے۔۔۔۔۔"

عالمگیر نے ہارون صاحب کو عشنا کو ایسے گھورتے دیکھا تو آگے بڑھ کر اُن کے درمیان میں کھڑا ہو گیا اور ٹرے سے پانی کا گلاس اٹھا کر پانی پینے لگا۔

ہارون صاحبِ نے ایک نظر اُن دونوں کو دیکھا ابھی وہ کچھ کہنے ہی جا رہے تھے کہ اُن کا موبائل بجنے لگا۔ وہ فون کان سے لگاتے دوسری طرف چلے گئے۔

عالمگیر مسکرا کر عشنا کو دیکھے جا رہا تھا۔

"عالمگیر۔۔۔"

عشنا نے کچھ کہنا چاہا تھا لیکن عالمگیر نے اُس کے لبوں پر انگلی رکھ کر اُسے کچھ بھی کہنے سے روک دیا۔

"عشنا۔۔۔۔۔۔۔ابراہیم مامو اگر ان سے ڈرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں بھی ڈرتا ہو۔۔۔۔تم میری۔۔۔"

"عالمگیر پلیز۔۔۔"

عشنا نے اُس کی بات کاٹ دی۔

"عشنا میں کسی سے نہیں ڈرتا۔۔۔۔۔اور نیکسٹ ٹائم جب میں بلاؤ تو میرے کمرے میں آ جانا۔۔۔۔"

وہ وارننگ دینے والے انداز میں بولتا اپنے کمرے میں چلا گیا۔

 عشنا بس اُسے دیکھ کے ره گئی۔

رات ڈنر پر بھی عالمگیر خاموش ہی رہا ۔

عشنا کھانا سرو کرتے ہوئی بار بار اُسے دیکھ رہی تھی لیکن عالمگیر نے نظر اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا تھا اور نہ ہی اُسے کھانے کا کہا تھا۔

عشنا کچن میں آئی اور سینک پر کھڑی ہو کر اپنے آنکھوں میں اُمڈ رہے آنسوؤں کو روکنے کی سعی کی۔ 

عالمگیر کی ناراضگی سوچ کر اُس کی جان پر بن آئی تھی۔

اُس سے کھانا بھی نہیں کھایا گیا تھا۔ 

سب لوگ اپنے اپنے کمرے میں چلے گئے۔

عشنا آہستہ قدموں سے چلتی عالمگیر کے کمرے کی طرف آئی۔ 

عشنا نے عالمگیر  کے کمرے کا دروازہ کھولنا چاہا لیکن وہ اندر سے مقفل تھا۔

عشنا نے آہستہ سے دروازہ بجایا لیکن عالمگیر جو کمرے کی کھڑکی پر کھڑا تھا اُس نے دروازہ نہیں کھولا۔

اُسے عشنا پر بہت غصّہ آ رہا تھا۔

"عالمگیر پلیز۔۔۔۔"

عشنا نے عالمگیر کو پُکارا تھا۔

"عشنا ۔۔۔۔جاؤ۔۔۔جا کر سو جاؤ۔۔۔۔"

عالمگیر نے دروازہ کھول کر اُسے کہا اور دروازہ بند کرنا چاہا تھا۔

"عالمگیر پلیز۔۔۔۔"۔

عشنا نے عالمگیر کا بازو پکڑ لیا۔

عالمگیر نے اُسے کمرے کے اندر لے کر دروزا بند کر لیا۔

"رونا بند کرو۔۔۔۔"

عالمگیر نے عشنا کے گال پر ہاتھ پھیرا تھا۔

عالمگیر کو عشنا کا ہارون صاحب سے ڈرنا غصّہ دیلا گیا تھا۔  لیکن عشنا کے بازو پکڑتے ہی اُس کا سارا غصّہ اُڑنچھو ہو گیا تھا۔

اب عالمگیر نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ ہارون صاحب کو اپنے اور عشنا کے بارے میں بتا کر رہے گا۔

عشنا روتے روتے عالمگیر کے سینے سے لگ گئی

"عشنا۔۔۔۔یار رونا تو بند کرو۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کی کمر کے گرد گھیرا تنگ کرتے اُس کے آنسوؤں کو اپنے سینے پر محسوس کر کے اُسے رونے سے روکنا چاہا تھا۔

"عالم۔۔۔عالمگیر آپ مجھ سے ناراض۔۔۔۔"

عشنا نے سر اٹھا کر عالمگیر کو دیکھتے ہوئے پوچھنا چاہا تھا۔

"نہیں۔۔۔۔میں اپنی جان سے ناراض ہو سکتا ہوں بھلا؟۔۔"

عالمگیر نے اُس کی پیٹھ سہلاتے اُس کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا۔

"اچھا۔۔۔۔تو پھر باہر ۔۔۔باہر وہ کیا تھا۔۔۔۔آپ نے مجھے دیکھا تک نہیں اور نہ ہی مجھے۔۔۔۔۔"

عشنا کے آنسو اب تھم چکے تھے۔ اب وہ عالمگیر سے اُس کی ہی شکایت لگا رہے رہی تھی۔

"تم ہی تو میرے دیکھنے پر گھور کر دیکھتی رہی ہو شام سے۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔

عشنا اب بھی عالمگیر کی گرفت میں تھی۔

"چلو آؤ۔۔۔۔"

عالمگیر اُسے لیے کمرے میں رکھے صوفے تک آیا تھا۔ 

عالمگیر نے عشنا کو صوفے بیٹھا اور خود اُس کے برابر بیٹھ گیا۔

 ٹیبل پر کھانے کی ٹرے پہلے سے رکھی ہوئی تھی۔ شاید عالمگیر نے ملازمہ سے پہلے ہی کھانا منگوا لیا تھا۔

عالمگیر نے دیکھا تھا کہ عشنا نے کھانا نہیں کھایا ہے اس لیے اُس نے ملازمہ سے کھانا کمرے میں ہی منگوا لیا تھا۔

اُسے پتہ تھا عشنا اُس کے پاس ضرور آئیگی۔

"عالمگیر یہ۔۔۔"۔

عشنا نے کھانے کی ٹرے دیکھ کر عالمگیر سے پوچھا تھا۔

"یہ کھانا ہے اور یہ میری جان کے لیے ہے کیونکہ میری جان نے کھانا نہیں کھایا۔

چلو منہ کھولو۔۔۔۔"

عالمگیر نے کہتے ہوئی نوالہ بنا کر عشنا کی طرف بڑھایا ۔

عشنا نے منہ کھول کر لقمہ منہ میں رکھ لیا اور آہستہ سے کھانے لگی۔

عالمگیر ایسے ہی چھوٹے چھوٹے لقمے بناتا عشنا کو کھلاتا رہا۔

"چلو۔۔۔اب جا کر ریسٹ کر لو۔۔۔آج بہت کام کیا ہے میری جان نے ۔۔۔۔تھک گئی ہو نہ۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کے گال پر کس کی اور اُسے کمرے میں جانے کا کہا۔

"عالمگیر ۔۔۔۔آپ مجھ سے ناراض مت ہونا پلیز۔۔۔"

عشنا نے دل میں چھپے ڈر سے کو زبان دی۔

"نہیں۔۔۔کبھی نہیں۔۔۔بس ذرا سا غصہ آ گیا تھا۔۔۔بس "

عالمگیر نے جھک کر اُس کے ماتھے پر لب رکھے اور اُسے سونے کے لیے بھیج دیا۔

اور خود بھی بیڈ پر آ کر لیٹ گیا۔

عشنا بھی مطمئن ہو کر سے گئی۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


دوسری صبح عالمگیر ناشتہ کرنے کے لیے ڈائننگ ٹیبل تک آیا تو رحمت بیگم اور ہارون صاحب ناشتہ کر رہے تھے اور عشنا بھی ایک چیئر پر بیٹھی تھی۔

عالمگیر چلتا ہوا آیا اور عشنا کے بغل والی چیئر پر بیٹھ گیا۔

"عشنا۔۔۔۔"

عالمگیر نے عشنا کو دیکھتے ہوئے کہا تو عشنا فوراً کھڑی ہو گئی اور عالمگیر کے لیے ناشتہ اُس کی پلیٹ میں نکالنے لگی۔

"عشنا ۔۔۔آج یہ کھانے کا دل نہیں چاہ رہا۔ جاؤ جا کر چکن قیمہ پراٹھا بنا کر لاؤ۔۔۔جیسے تم نے کراچی میں بنایا تھا۔"

عالمگیر نے اپنی پلیٹ میں رکھے آلو کے پراٹھے کو دیکھتے ہوئے عشنا کو مخاطب کر کے فرمائش کی تو عشنا تھوک نگل کر رحمت بیگم اور پھر ہارون صاحب کو دیکھنے۔

"جاؤ۔۔۔"

"جاؤ بیٹا۔۔۔۔"

عالمگیر کے بعد رحمت بیگم نے عشنا سے کہا تو وہ کچن کی طرف بڑھ گئی

 "عالمگیر ۔۔۔تم خانساماں کو کہہ سکتے تھے  پراٹھوں کے لیے۔۔۔عشنا کو کہنے کی کیا ضرورت تھی؟ وہ ناشتہ کر رہی تھی نہ؟"

ہارون صاحب کو عالمگیر کا عشنا کو پراٹھوں کے لیے کہنا پسند نہیں آیا تھا۔

"مامو آپ ناشتہ کریں نا۔۔۔اُسے کوئی پروبلم نہیں ہے۔۔۔اُسے تو یہ سب کرنے کی عادت ہے۔۔۔"

عالمگیر نے کہا اور جوس کا گلاس منہ سے لگا لیا۔

عشنا نے کچھ دیر بعد پراٹھے لا کر عالمگیر کی پلیٹ میں رکھے اور خود ٹیبل پر چیزیں صحیح کرنے لگی۔

"تم نے نہیں کرنا ناشتہ ۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کی کلائی پکڑ کر اُسے اپنے بغل میں بیٹھا لیا۔

عشنا نے ہارون صاحب کو دیکھا 

ہارون صاحب عشنا کو آنکھیں بڑی کر کے دیکھ رہے تھے۔ 

عشنا نے جلدی سے نظریں اپنی پلیٹ پر جھکا لی۔

"تمہارے ہاتھوں میں تو جادو ہے۔۔۔۔دل کرتا ہے۔۔۔"

عالمگیر نے پراٹھے کے لقمہ منہ میں رکھتے ہے عشنا کو دیکھا اور کہہ ہی رہا تھا کے عشنا سے اُسے ٹوک دیا۔

"یہ اچار لیں نہ۔۔۔یہ اس کے ساتھ اور اچھا لگے گا۔"

عشنا نے کہتے ہوئے عالمگیر کو آنکھوں ہی آنکھوں میں چپ رہنے کا اشارہ بھی کیا تھا۔

عالمگیر نے اُس کے بعد کچھ نہیں کہا بس ناشتہ کر کے اپنے کمرے میں چلا گیا۔

عشنا نے عالمگیر کے جانے کے بعد ایک گہری سانس لے کر خود کو ریلیکس کرنا چاہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔

"ہاں۔۔۔نہیں۔۔۔میں ابھی نہیں آ سکتا۔۔۔"

عالمگیر اپنے کمرے کی کھڑکی کے پاس کھڑا نادر سے فون پر بات کر رہا تھا 

"لیکن سر۔۔۔۔آپ کے نہ آنے سے بہت لوث ہو سکتا ہے۔۔۔۔"

نادر کی پریشانی میں ڈوبی آواز آئی۔

"نادر اگر میں ابھی آ گیا تو میری زندگی میں بہت لوث ہو جائیگا۔

بات سمجھنے کی کوشش کرو۔۔۔میں نہیں آ سکتا۔۔۔۔تم کیسے بھی ایڈجسٹ کر لو۔۔۔"

عالمگیر نے کال منقطع کر کے فون بیڈ پر اچھال دیا ۔

عالمگیر چلتا ہوا دروازے کے پاس آیا ۔ سامنے ایک ملازم صفائی کر رہا تھا۔

"عشنا کو بولو میرے لیے چائے لے کر آئے۔۔۔۔"۔

عالمگیر ملازم کو کہتا کمرے میں چلا گیا۔

عالمگیر واش روم میں کھڑا شیو  کر کے منہ دھو رہا تھا ۔

اُس کی آنکھوں پر صابن لگا ہوا تھا اور آنکھیں بند تھیں۔ 

اچانک نل میں پانی چلا گیا۔

عالمگیر نے نل کو ہاتھوں سے چھو کر یہاں وہاں گھوما کر دیکھا لیکن پانی نہیں آیا ۔

اُس نے ایک آنکھ سے صابن کا جھاگ پوچھ کر نل کو دیکھا جہاں پانی نہیں آ رہا تھا۔

"کون ہے۔۔۔۔عشنا کیا تم ہو۔۔۔۔؟"

کمرے میں کسی کے آنے کی آواز آئی تو عالمگیر نے وہیں سے ہانک لگائی۔

"جی۔۔۔۔"

عشنا جو چائے رکھ کر جانے لگی تھی عالمگیر کی آواز پر رک گئی۔

"عشنا ۔۔۔پلیز جلدی آؤ۔۔۔میری آنکھوں میں بہت جلن ہو رہی ہے۔۔۔یہاں نل میں پانی نہیں آ رہا۔"

عالمگیر نے عشنا کی آواز سنی تو اُسے واشروم میں بولا لیا۔

عشنا چلتی ہوئی واشروم کے اندر آئی تو دیکھا عالمگیر چہرے پر صابن لگائے کھڑا تھا۔

عشنا نے دوسرے نل سے مگ میں پانی لیا اور عالمگیر کے پاس گرانے لگی۔

"عالمگیر۔۔۔"

عشنا نے اُسے پُکارا اور ساتھ ہی اُس کا ہاتھ پکڑ کر پانی کی طرف کیا۔

عالمگیر نے جلدی سے پانی لے کر اپنا چہرہ دھویا اور آنکھیں کھول عشنا کو دیکھنے لگا۔

عشنا ہاتھوں میں مگ تھامے کھڑی اُسے ہی دیکھا رہی تھی۔

عالمگیر نے اُس کے دوپٹے کا ایک سرا ہاتھ سے پکڑا اور اپنا چہرہ پوچھنے لگا۔

عشنا نے حیرانی سے اسٹینڈ پر لگے ٹاول کو دیکھا اور پھر عالمگیر کو جو اب مسکرا کر اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔

"آپ۔۔۔آپ کی چائے رکھ دی ہے میں نے۔۔۔"

عشنا نے کہا اور جانے کے لیے پر تولنے لگی لیکن عالمگیر نے اُس کی کلائی تھام کر اُس کی کوشش کو ناکام بنا دیا۔

"عالمگیر ۔۔۔کیا کر رہے ہیں۔۔۔چھوڑیں نہ۔۔۔چاچو دیکھ لینگے۔۔۔"

عشنا نے اپنی کلائی عالمگیر کے ہاتھ سے نکالنی چاہی۔

عالمگیر نے اُس کے ہاتھ پر ایک جھٹکا دیا تو عشنا اُسکی باہوں میں آ سمائی۔

"عالمگیر ۔۔۔"

عشنا نے عالمگیر کو سر اٹھا کر دیکھا لیکن اُس کی آنکھوں میں چھلک رہے پیغام سے گھبرا کر اُس نے پلکیں جھکا لیں۔

"جان ۔۔۔۔"

عالمگیر نے کہا تو عشنا نے گھبرا کر اُسے دیکھا۔

عالمگیر اسے کمر سے تھامے اُس کمر پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔

"عالمگیر۔۔۔۔کیا۔۔۔چاچو۔۔۔۔"

عشنا نے گھبرا کر کہا ۔

عالمگیر جھک کر اپنے لبوں کی پیاس اُس کے لبوں سے بجھانے لگا۔

عشنا اُس کو کالر سے تھامے اُس کی شددّتیں برداشت کرتی رہی۔

عالمگیر نے کچھ دیر بعد عشنا کے لبوں سے اپنے لب ہٹائے تو عشنا گہری گہری سانسیں لینے لگی۔

عالمگیر اُسے تھامے واشروم کے اور اندر آ گیا۔

اب وہ لوگ جہاں کھڑے تھے اُس کے ایک دم اوپر شاور لگا ہوا تھا۔

عالمگیر نے ہاتھ بڑھا کر شاور کا نوب گھوما دیا۔

پانی بارش کی صورت اُس پر برسنے لگا۔

وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے اس مصنوعی بارش میں بھیگ رہے تھے۔

 پانی ٹھنڈا تھا 

عشنا عالمگیر کی شرٹ کو کالر کے پاس سے پکڑ کر کھڑی اُسے دیکھے جا رہی تھی۔ 

عشنا نے ہونٹ پانی کی ٹھنڈک کی وجہ سے کپکپا رہے تھے۔

عالمگیر نے آہستہ سے جھک کر اُس کے لبوں پر اپنے لب رکھ کر پھر سے اُس کی خوشبو کو اپنی سانسوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا۔

عشنا اُس کی شرٹ کو کالر کے پاس سے تھامے اُس کی شدّت برداشت کرتی رہی۔

عشنا کی گرفت عالمگیر کی شرٹ پر اور سخت ہو گئی تھی کیوں کہ عالمگیر کا انداز شدّت اختیار کر گیا تھا۔

عالمگیر نے جب دیکھا عشنا کو سانس نہیں آ رہی تب وہ اُس سے الگ ہوا تھا۔

عشنا لمبی سانسیں لے کر اپنا تنففس بحال کرنے لگی۔

عالمگیر نے آہستہ سے اُسے خود سے لگا لیا۔

عشنا اُس کے سینے سے لگی لمبی لمبی سانسیں لے رہی تھی۔

"جان۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کے کان کے پاس  سرگوشی کی۔

عشنا کانپ گئی۔

ایک تو پانی کی ٹھنڈک کا احساس دوسرے عالمگیر کا انداز

عشنا عالمگیر کے ہاتھوں کو اپنے پیٹھ اور کمر پر رینگتے ہوئے محسوس کر رہی تھی۔

عالمگیر نے عشنا کے کندھے پر لب رکھ دیئے۔

"عالمگیر۔۔۔۔"

عشنا نے تھر تھر کانپتے وجود کے ساتھ عالمگیر کو پُکارا تھا۔

"یس جان۔۔۔۔"۔

عالمگیر نے عشنا کی کمر پر گرفت اور تنگ کر دی تھی۔

وہ دونوں ایک دوسرے کے سحر میں کھوئے ہوئے تھے۔

"عالمگیر۔۔۔۔۔"

کمرے سے ہارون صاحب کی آواز آئی تو عشنا نے گھبرا کر عالمگیر کو دیکھا۔

عالمگیر نے ایک نظر اُسے دیکھا اور پھر واشروم کے دروازے کو جو عشنا نے بند تو کیا تھا لیکن مقفیل نہیں کیا تھا۔

"عالم۔۔۔"۔

عشنا نے آہستہ سے لبوں کی جنبش سے عالمگیر کو پُکارا تھا 

"رکو۔۔۔۔۔میں دیکھتا ہوں۔۔۔"

عالمگیر  نے ہاتھ بڑھا کر شاور کا نوب بند کیا اور عشنا کو وہیں کھڑا کر کے واشروم کے دروازے کی طرف آیا۔

"جی مامو۔۔۔"

عالمگیر نے دروازے کے پاس سے جواب دیا۔

"عالمگیر مجھے تمہارا لیپ ٹاپ چاہیے تھا۔میرے لیپ ٹاپ کی بیٹری ڈاؤن ہو گئی ہے۔"

ہارون صاحب نے کہا۔

"ٹھیک ہے ۔۔۔وہ میرے بیڈ کے سائڈ ٹیبل پر رکھا ہوا ہے۔ آپ لے سکتے ہیں"

عالمگیر نے بتایا تو وہ لیپ ٹاپ لے کر تھینکس کہتے کمرے سے باہر چلے گئے۔

عالمگیر نے اُن کے باہر جانے اور پھر دروازہ بند ہونے کی آواز سنی۔

عالمگیر عشنا کی طرف آیا اور ٹاول سے اُس کے بال سکھانے لگا۔

عشنا بری طرح سے کانپ رہی تھی۔

عالمگیر نے جلدی سے اُس کے بال خشک کیے اور ٹاول اُس کے گرد لپیٹتا اُسے لیے کمرے میں لے آیا۔

"عالم۔۔۔عالمگیر اگر آج چاچو نے ہمیں دیکھ لیا ہوتا تو؟"

عشنا بیڈ پر بیٹھی عالمگیر سے سوال کر رہی تھی۔

"جاؤ۔۔۔۔جا کر چینج کر کے آؤ۔۔۔ورنہ ٹھنڈک لگ جائیگی۔"

عالمگیر نے اپنا ایک شلوار کرتا اُس کی طرف بڑھا کر کہا تو عشنا اُسے دیکھ کر شلوار کرتا دیکھنے لگی۔

"ایسے تو تم یہاں سے نہیں جا سکتی نہ۔۔۔۔باہر سارے ملازم موجود ہیں"

عالمگیر نے اُس کی آنکھوں میں رقم سوال کو پڑھ کر اُس کے گیلے کپڑے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔

"تم جاؤ۔۔چینج کرو میں ملازین کو یہاں سے ہٹا دیتا ہوں۔ پھر تم اپنے کمرے میں جا کر اپنے کپڑے پہن لینا"

عالمگیر نے اُسے کہا اور ساتھ ہی الماری سے ایک شرٹ نکال کر اپنی شرٹ تبدیل کرنے لگا۔

عشنا نے عالمگیر کو شرٹ نکالتے دیکھا تو جلدی سے اپنے ہاتھوں میں تھامے کپڑے لیے واشروم میں گھس گئی۔

عالمگیر نے اُس کی حرکت پر مسکرا کر سر کو نفی میں جنبش دی۔

عالمگیر نے باہر آ کر ملازمین کو یہاں وہاں بھیج کر عشنا کو اُس کے کمرے میں بھیج دیا اور خود  بھی چینج کرنے واشروم میں چلا گیا۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


 شام کے 4 بج رہے تھے۔

عالمگیر صبح کا نکلا ابھی ابھی گھر آیا تھا۔ 

اُس کے ہاتھ میں ایک شاپر تھا۔

"عشنا۔۔۔۔۔۔۔عشنا۔۔۔۔۔"

گھر میں آتے ہی اُس نے عشنا کو آواز دینی شروع کر دی تھی۔

ہارون صاحب اپنے کسی کام کی وجہ سے گھر میں نہیں تھے اور رحمت بیگم سو رہی تھیں۔

"جی۔۔۔۔"

عشنا لاؤنج میں بیٹھی کوئی کتاب پڑھ رہی تھی

عالمگیر کی آواز پر اُس کی طرف آ کر بولی۔

"یہ لو۔۔۔اور تیار ہو جاؤ۔۔۔ہمیں شام ایک پارٹی میں جانا ہے۔"

عالمگیر نے شاپر عشنا کو پکڑاتے ہوئے بتایا تھا۔

"لیکن چاچو۔۔۔۔"

عشنا نے شاپر لیتے ہوئے عالمگیر کو دیکھا۔

"عشنا۔۔۔۔شام کو تیار رہنا۔۔۔۔7 بجے نکلنا ہے ہمیں۔۔۔"

عالمگیر نے کہا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔

عشنا ہاتھوں میں شاپر تھامے عالمگیر کو جاتا ہوا دیکھتی رہی۔

عالمگیر کمرے میں آ کر لیپ ٹاپ آن کر کے ایمیل چیک کرنے لگا۔

عشنا شاپر لے کر کمرے میں آئی اور اُس کو کھول کر دیکھا تو اُس میں ایک ڈارک بلیو کلر کی نفیس سی ساڑی رکھی ہوئی تھی۔

"بیوٹیفل۔۔۔۔"

عشنا نے ساڑی نکال کر دیکھا تو تعریف کیے بنا نہ رہ سکی۔

لیکن ساتھ وہ پریشان بھی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"عشنا۔۔۔۔"

رحمت بیگم عشنا کے کمرے میں آئیں تو دیکھا عشنا پریشانی سے ساڑی ہاتھوں میں لیے بیڈ پر بیٹھی تھی۔

"جی۔۔۔ پھوپھو۔۔۔ "

عشنا بیڈ سے کھڑی ہو گئی۔

"کیا ہوا پریشان کیوں ہو۔۔۔۔؟ اور یہ ساڑی؟"

رحمت بیگم اُس کے پاس آتے ہوئے بولی تھیں۔

"یہ۔۔۔یہ عالمگیر لائیں ہیں۔۔۔وہ ۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔کہہ رہے ہیں کہ شام کو کہیں جانا ہے اُنکے ساتھ۔۔۔۔"

عشنا نے رک رک کے بتایا۔

"اچھا۔۔۔۔ٹھیک ہے تم تیار ہو جاؤ۔۔۔"

رحمت بیگم نے اُسے دیکھتے ہوئے کہا۔

"لیکن وہ چاچو۔۔۔۔"

عشنا نے رحمت بیگم سے ہارون صاحب کا بتانا چاہا۔

"وہ آج دیر سے آئیگا۔۔۔مجھے بتا کر گیا تھا صبح۔۔۔تم تیار ہو جاؤ۔۔۔۔۔"

رحمت بیگم نے کہا تو عشنا سر ہلا کر واشروم کی طرف بڑھ گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عشنا ساڑی پہن کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی ساڑی سیٹ کر رہی تھی جب عالمگیر کمرے میں داخل ہوا۔

"عشنا۔۔۔ابھی تک تم تیار نہیں ہوئی۔۔۔۔"۔

عالمگیر عجلت میں کہتا عشنا کی طرف آیا۔

عشنا نے عالمگیر کی آواز پر گھوم کے دیکھا۔

عالمگیر عشنا کے پلٹنے پر اُسے دیکھا تو دیکھتا ہی رہا گیا۔

وہ نیلی ساڑی میں اُس کی توقع کے برعکس اور بھی خوبصورت لگ رہیں تھی۔

عالمگیر چلتا ہوا اُس کے پاس آیا اور ہمیشہ کی طرح اُس کے ماتھے پر لب رکھ دیئے 

عشنا نے مسکرا کر آنکھیں بند کر لی۔

عالمگیر نے ڈریسنگ ٹیبل پر دیکھا جہاں موتیوں کا وہی ہار رکھا ہوا تھا جو اُس نے عشنا کو مرحہ کی بارات والی رات پہننے کے لیے کہا تھا۔

عالمگیر نے ہار اٹھا کر عشنا کے گلے میں پہنا دیا۔

عشنا نے مسکرا کر شیشے میں نظر آ رہے عالمگیر کے عکس کو دیکھا تھا جو محبت لٹاتی نظروں سے اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔ 

عشنا نے جلدی جلدی اپنی تیری مکمّل کی۔ 

عالمگیر اُس کے پاس کھڑا مسکراتے ہوئے اُسے دیکھے گیا۔

عشنا نے پرفیوم اسپرے کرنے کے لئے اٹھایا تو عالمگیر نے اُس کے ہاتھ سے پرفیوم کی بوتل لے کر ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ دی اور اُسے کھینچ کر سینے سے لگا لیا۔

عشنا اُس کی باہوں میں ذرا سا کسمسای تھی۔ لیکن عالمگیر کی گرفت اُس کی کمر پر کافی سخت تھی۔

وہ چاہ کر بھی مزاحمت نہ کر سکی تھی۔

تھوڑی دیر بعد عالمگیر نے اُسے خود سے الگ کیا اور اُس کے کان کے پاس جھکا۔

"میں چاہتا ہوں،تم میری خوشبو سے مہکو۔۔۔۔ہمیشہ۔۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کے کان کے پاس کہا تو عشنا نچلا لب دانتوں سے دبا کر مسکرا دی۔

"چلیں۔۔۔"

عشنا نے عالمگیر کا ہاتھ تھام کر کہا تو عالمگیر نے اُس کی ساڑی کو کندھے سے برابر کی اور اُس کا ہاتھ تھامے باہر آ گیا

وہ لوگ کمرے سے باہر آئے تو رحمت بیگم اُن کی طرف بڑھی تھیں۔

"ماشاء اللہ۔۔۔۔۔۔کسی کی نظر نہ لگے"

رحمت بیگم نے آگے بڑھ کر اُن کی بلائیں لی تو عشنا نے مسکرا کر عالمگیر کو دیکھا۔

"اللہ تم دونوں کو نظریں بد سے بچائے۔۔۔ "

رحمت بیگم نے چند نوٹ اُن کے سر پر وار کر پاس کھڑے ملازم کو تھمایا تو عشنا اُن کے گلے لگ گئی۔

رحمت بیگم نے باری باری دونوں کے ماتھے پر پیار کیا اور اپنی دعاؤں کے سائے میں اُنھیں رخصت کیا ۔

عالمگیر ڈرائیونگ کرتے ہوئے بار بار عشنا کو دیکھ رہا تھا۔ 

وہ لگ ہی اتنی پیاری رہی تھی۔

عشنا کا بھی یہی حال تھا۔

عالمگیر وائٹ شرٹ اور بلیو کلر کے کوٹ پینٹ میں بلیو ٹائی جو عشنا نے دی تھی وہی پہنے ہوئے تھا۔ بالوں کو جیل سے سیٹ کیے ہاتھوں میں قیمتی گھڑی پہنے وہ مردانا وجاہت کا شکار لگ رہا تھا۔

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عالمگیر اور عشنا ہال میں داخل ہوئے تو بہت سی ستائشی نظریں اُن کی طرف اٹھی تھی۔

وہ دونوں ایک ساتھ بہت خوبصورت لگ رہے تھے۔

عشنا عالمگیر کا ایک بازو تھامے اُس کے ساتھ چل رہی تھی۔

"السلام علیکم۔۔۔۔۔۔۔شادی کی سالگرہ مبارک ہو۔۔۔"

عالمگیر نے اپنے دوست سے مصافحہ کرنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تھا۔

"وعلیکم السلام۔۔۔۔اینڈ تھینکس"

آذر نے بھی گرم جوشی سے عالمگیر سے ہاتھ ملایا تھا۔

آذر اور عالمگیر بزنس پارٹنرز تھے۔

کچھ دنوں پہلے آذر نے عالمگیر کو اپنی شادی کی سالگرہ کا انویٹیشن بھیجا تھا۔

عالمگیر نے سوچا نہیں تھا کہ وہ آذر کی پارٹی اٹینڈ کر پائیگا ۔

اب جب عالمگیر لاہور میں تھا تو اُس نے عشنا کے ساتھ یہاں آنے کا سوچ لیا تھا۔

"کیسے ہو۔۔۔مجھے تو لگا ہی نہیں تھا کہ تم آؤگے۔۔۔"

آذر نے عالمگیر کا ہاتھ تھامے کہا تھا۔

"نہیں۔۔۔۔ویسے میرا ارادہ تو نہیں تھا لیکن لاہور میں تھا تو سوچا تمہیں مبارک باد ہی دے دوں۔۔۔۔"

عالمگیر نے  ایک آنکھ دبا کر کہا تو دونوں زور سے ہنس پڑے۔

"یہ۔۔۔۔کہیں یہ سنبل بھابھی تو نہیں۔۔۔ "

آذر نے عشنا کو دیکھ کر اُس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا

"نہیں یہ۔۔۔۔"

عالمگیر سنبل کے نام پر عشنا کو دیکھا لیکن وہ آذر کی غلط فہمی دور کرتا اُس کے پہلے عشنا بول پڑی۔

"السلام علیکم۔۔۔۔۔میں مسز عشنا عالمگیر سجّاد ہوں۔۔۔۔"

عشنا نے عالمگیر کو دیکھتے ہوئے مسکرا کر اپنا تعارف کروایا تو عالمگیر بھی مسکرا دیا۔

"عالمگیر تم نے شادی کر لی؟ اور ہمیں بلایا بھی نہیں؟"۔

آذر عالمگیر کا ہم عمر ہی تھا اس لیے بزنس پارٹنر ہونے کے باوجود اُن میں کافی حد تک دوستی تھی۔

"نیکسٹ منتھ ہمارا ریسیپشن ہے اسلام آباد میں۔۔۔۔کچھ دنوں میں انویٹیشن مل جائےگا۔۔۔"

عالمگیر نے بتایا۔

"اوہ۔۔۔۔۔"

آذر نے اوہ کہا۔

"بھابھی کہاں ہے؟"

 عالمگیر نے آذر کی بیوی کا پوچھا تو وہ بھیڑ میں نظریں دوڑا کر اپنی بیوی اسماء کو تلاش کرنے لگا ۔

"اسماء۔۔۔"

اسماء آذر کو کسی سے بات کرتے نظر آئی تو آذر نے اُسے آواز دے کر بلایا۔

"جی۔۔۔"

اسماء اُن کے پاس آ کر بولی۔

"ان سے ملو۔۔۔۔یہ ہیں عالمگیر سجّاد۔۔۔اور یہ ہیں انکی وائف مسز عالمگیر سجّاد۔۔۔"

آذر نے عالمگیر اور عشنا کا تعارف کروایا۔

"السلام علیکم "

اسماء نے سلام کیا تھا۔

"شادی کی سالگرہ کی بہت بہت مبارک ہو۔۔۔"۔

عشنا نے اسماء سے کہا تو وہ خوش دلی سے مسکرا دی

"آپ میرے ساتھ آئیں۔۔۔۔"

اسماء نے عشنا کو اپنے ساتھ لے جانا چاہا تو عشنا نے عالمگیر کو دیکھا۔

عالمگیر نے آنکھ کے اشارے سے اُسے جانے کی اجازت دی تو وہ اسماء کے ساتھ آگے بڑھ گئی۔

"بھابھی چلیں گئی۔۔ "

آذر نے عالمگیر سے کہا کیونکہ عالمگیر  عشنا کو ہی دیکھے جا رہا تھا۔

"بکواس نا کر۔۔۔"

عالمگیر نے آذر کے پیٹ پر ایک ہاتھ مارا تھا۔

وہ دونوں مسکرا دیئے۔

آذر اور عالمگیر اپنے اور بزنس پارٹنرز کی طرف بڑھ گئے تھے۔


"آپ بہت خوبصورت ہیں۔۔۔"

اسماء نے عشنا کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا 

"آپ بھی بھی خوبصورت ہیں۔"

عشنا نے بھی مسکرا کر کہا تھا۔

"ویسے آپ دونوں کی جوڈی بہت اچھی لگتی ہی ساتھ۔"

اسماء نے کہا تو عشنا نے عالمگیر کو دیکھا جو دور کچھ لوگو کی جھرمٹ میں کھڑا باتیں کر رہا تھا۔

"ہمم۔۔۔لگتا ہے بہت پیار کرتی ہیں آپ عالمگیر بھائی سے۔۔۔"

اسماء نے کہا تو عشنا نے شرما کر نظریں جھکا لی۔

سب لوگ خوش گپیوں میں لگے ہوئے تھے۔ کچھ دیر بعد کھانا لگ گیا۔

کچھ لوگ جھرمٹ میں کھڑے باتیں کرتے کھانا کھا رہے تھی کچھ ٹیبل پر بیٹھے باتیں کرتے کھانے سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔

عالمگیر عشنا آذر اور اسماء ساتھ بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔

 آذر نے عالمگیر عشنا کو ایک ہی پلیٹ میں کھانے کے لیے کہا تھا جس وجہ سے عشنا شرماتی چھوٹے چھوٹے لقمے کے رہی تھی۔

عالمگیر اور آذر ساتھ ساتھ باتیں بھی کر رہے تھے۔

"چلو یار۔۔۔پھر ایک گانا ہو جائے؟"

آذر نے عالمگیر کو کہا۔

"نہ۔۔۔نہیں یار۔۔۔گانا وانا میرے بس کی بات نہیں۔۔۔۔"

عالمگیر نے صاف منع کیا۔

"عالمگیر میں نے سنا ہے کہ تم بہت اچھا گاتے ہو۔۔۔۔"

آذر نے عالمگیر کو سے دیکھتے ہوئے کہا تھا

"کس سے۔۔۔۔؟"

عالمگیر نے سوالیہ نظروں سے آذر کو دیکھا تھا۔

"وہ جانے دو۔۔۔۔بس تم ایک اچھا سا گانا سنا دو۔۔"

آذر نے محبت اسماء بھی بولی

"اور بھابھی بھی آپ کا ساتھ دینگی"

اسماء نے کہا تو عشنا نے گڑبڑا کر عالمگیر کو دیکھا۔

عالمگیر نے مسکرا کر عشنا کو دیکھا اور سر کے اشارے سے اُسے اپنے ساتھ لے کر آگے بڑھ گیا۔

پارٹی میں شاید صرف کپلس کو ہی بلایا گیا تھا۔

عالمگیر اور عشنا بیچ میں کھڑے تھے اور باقی لوگ اپنی اپنی وائف کے ساتھ عالمگیر اور عشنا کے گرد دائرے کی شکل کے کھڑے ہو گئے تھے۔

آذر نے عالمگیر کی طرف گیتار اچھالا ۔

عالمگیر نے گیتار کیچ کر لیا اور اُسے گلے میں لڑکا کر اُس کے تارو کو ہاتھ کی انگلیوں سے چھیڑ دیا۔


ہم تیرے بن اب رہ نہیں سکتے

تیرے بینا کیا وجود میرا

ہم تیرے بن اب رہ نہیں سکتے

تیرے بینا کیا وجود میرا

تُجھ سے جدا گر ہو جاینگے

تو خود سے ہی ہو جائے گی جُدا

کیوں کہ تم ہی ہو

اب تم ہی ہو

زندگی اب تم ہی ہو

چین بھی ، میرا درد بھی

میری عاشقی اب تم ہی ہو

تیرا میرا رشتہِ ہے کیسا

اک پل دوری گوارا نہیں

تیرے لیئے ہر روز ہے جیتے

تُجھ کو دیا میرا وقت سبھی

کوئی لمحہ میرا نہ ہو تیرا بینا

ہر سانس پہ نام تیرا

کیونکہ تم ہی ہو

اب تم ہی ہو

زندگی اب تم ہی ہو

چین بھی میرا درد بھائی

میری عاشقی اب تم ہی ہو

تم ھی ہو ... تم ھی ہو ...

تیرے لیئے ہے  جیا میں

خود کو جو یوں دے دیا ہے

تیری وفا نے مجھکو سنبھالا

سارے غموں کو دل سے نکالا

تیرے ساتھ میرا ہے نصیب جوڑا

تجھ پا کے ادھورا نہ رہا۔۔۔۔۔۔

کیوں کہ تم ہی ہو

اب تم ہی ہو

زندگی اب تم ہی ہو ..

چین بھی ، میرا درد بھی

میری عاشقی اب تم ہی ہو

کیونکہ تم ہی ہو

اب تم ہی ہو

زندگی اب تم ہی ہو ..

چین بھی ، میرا درد بھی

میری عاشقی اب تم ہی ہو


سارے لوگ تالیاں بجا کر عالمگیر کی تعریف کی۔

آذر عالمگیر کے گلے لگ گیا۔

سب کی تعریفیں وصول کرتے اُنھیں کافی دیر ہو گئی تھی۔

گھر آتے آتے رات کے 2 بج گئے تھے۔


۔۔۔۔۔۔


۔ 



عالمگیر اور عشنا کار سے نکل کر گھر کے اندر کی طرف بڑھ رہے تھے 

"اگر چاچو نے ہمیں اتنی رات کو ساتھ دیکھ لیا تو؟"

عشنا عالمگیر کے ساتھ چلتے ہوئے بولی تھی۔

"دیکھ لیا تو دیکھ لیا۔۔۔۔بیوی ہو تم میری۔۔۔۔بس یہ بات یاد رکھو اور سب بھول جاؤ۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کے گرد بازو پھیلا کر کہا۔

عشنا،عالمگیر کے بازوں رکھنے پر کسمسائ تھی۔

عالمگیر اُسے لیے گھر کے اندر آیا۔

سارے گھر میں خاموشی کا راز تھا۔ سب اپنے اپنے کمرے میں خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے تھے۔

عشنا اپنے کمرے کی طرف بڑھی

 عالمگیر نے عشنا کی کلائی پکڑ کر اُسے اپنے ساتھ اپنے کمرے میں لے آیا۔

"عالم۔۔۔۔عالمگیر۔۔۔۔۔یہ آپ۔۔۔"

عشنا عالمگیر کو دروازہ بند کرتے دیکھ کر بولی۔

"عشنا ۔۔۔۔میں نے کہا تھا نا کہ جب میں بلاؤ تو کمرے میں آ جانا؟ آج رات تم میرے ساتھ اسی کمرے میں رھوگی۔۔۔"

عالمگیر اُسے لیے بیڈ تک آیا اور اُسے بیڈ پر بیٹھا کر بولا تھا۔

"لیک۔۔۔۔لیکن عالمگیر چاچو۔۔۔۔اگر اُنہونے مجھے آپ کے کمرے میں دیکھ لیا تو۔۔۔۔"

عشنا نے تھوک نگلا۔

"اگر اُنہوں نے تمہیں میرے کمرے میں دیکھ لیا تو میں اُنھیں سب بتا دونگا۔۔۔۔"

عالمگیر نے کوٹ اتارتے ہوئے بیڈ پر رکھا اور عشنا کے پاس بیٹھ گیا۔

"عالم۔۔۔۔عالمگیر لیکن ابّو۔۔۔۔"

عشنا نے پھر کچھ کہنا چاہا لیکن عالمگیر نے اُس کی بات کاٹ دی۔

"عشنا۔۔۔۔میں ابراہیم مامو کے ڈر کی وجہ سے پہلے ہی تم سے بہت دور رہ چکا ہوں۔۔۔اور آج نہیں تو کل اُنھیں پتہ چل ہی جانا ہے۔ میں اب اس ڈر کی وجہ سے تمہیں خود سے دور نہیں رکھ سکتا ۔ عشنا میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں۔۔۔بہت زیادہ۔"

عالمگیر نے عشنا کہ ہاتھ تھام کر کہا۔

عشنا کی آنکھوں میں پانی تیرنے لگا۔

عشنا بیڈ سے اٹھ کر کمرے کے دروازے کی طرف بڑھی

"عشنا۔۔۔۔تم۔۔۔"۔

عالمگیر عشنا کو جاتا دیکھ حیرانی سے بولا۔

"عالمگیر۔۔۔میں چینج کرنے جا رہی ہوں۔۔۔ایسے تو نہیں سو سکتی نہ۔۔۔۔؟"

عشنا نے اپنی ساڑی کی طرف اشارہ کر کے کہا

عالمگیر مسکراتا ہوا اُس کے پاس آیا اور اُس کے کان کے پاس جھک کر کچھ کہا 

عشنا کا چہرہ حیا کے رنگ سے گلنار ہو گیا۔

"عالمگیر ۔۔۔"

عشنا نے عالمگیر کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اُسے پرے کیا تھا ۔

عالمگیر مسکراتا ہوا اُس کے گال پر جھک کر ایک جسارت کرتے سیدھا ہوا۔

عشنا گال پر ہاتھ رکھ کر اُسے گھورنے لگی۔

عالمگیر نے مسکراتے ہوئے دونوں ہاتھ کندھوں تک لے جا کر اوپر کر دیے۔

عشنا پھر سے دروازے کی طرف بڑھی۔

عالمگیر نے عشنا کو دروازے کی طرف بڑھتا دیکھا تو اُس کی کلائی کھینچ کر اُسے خود سے قریب کر لیا۔۔

"تم کہیں۔۔۔نہیں۔۔۔جاؤگی۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کے کمر کے گرد بازوں لپیٹے ہوئے کہا تھا۔

"عالم۔۔۔۔عالمگیر میں چینج۔۔۔"

عشنا عالمگیر کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے نروس ہونے لگی

"اتنی خوبصورت بیوی ہے میری۔۔۔۔۔"

عالمگیر نے عشنا کے بال جو اُس کے رخسار پر آ کر اُسے تنگ کر رہے تھے اُسے انگلی کے پوروں سے چھو کر  عشنا کے کان کے پیچھے لگا دیا

"عالمگیر ۔۔۔لیکن میں۔۔۔۔میں ایسے کیسے سو سکتی ہوں۔۔۔"۔

عشنا نے عالمگیر کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔

"تو میرے کپڑے پہن لو۔۔۔لیکن آپ کمرے سے تو باہر نہیں جا رہیں۔۔۔"

عالمگیر نے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔

"لیکن۔۔۔لیکن عالمگیر آپ کا ایک کرتا شلوار عالریڈی میرے کمرے میں ہے۔۔۔"

عشنا عالمگیر کی بات سن کر حیرانی سے بولی۔

"جان۔۔۔۔تم سارے رکھنے کا اختیار رکھتی ہو۔۔۔۔۔۔۔"

عالمگیر نے اُس کی ناک سے اپنی ناک ٹکرائی۔

"عالمگیر لیکن۔۔۔میں کیسے۔۔۔"

عشنا تذبذب سے بولی۔

"کہو تو میں پہنا دوں؟"

عالمگیر عشنا کے پاس جھک کر بولا ۔

عشنا عالمگیر کی بات سن کر حیا سے شرماتے ہوئے اُس کی گرفت سے نکل کر عالمگیر کی الماری کی طرف بڑھی۔

عالمگیر بھی مسکراتے ہوئے اُس کے پیچھے آ کھڑا ہوا۔

عشنا الماری کھولے اپنے لیے کپڑے دیکھنے لگی لیکن اُسے کچھ بھی اپنی سائز کے مطابق نہیں ملا تھا۔

اُس دِن عالمگیر کا کرتا شلوار بھی اُسے کافی ڈھیلا ہوا تھا۔

 "عالمگیر۔۔۔۔"

عشنا نے منہ بنا کر عالمگیر کی طرف رخ موڑ کر کہا۔

"یس جان۔۔۔۔"۔

عالمگیر نے عشنا کے ماتھے پر لب رکھ کر جواب دیا۔

"عالمگیر۔۔۔۔دیکھیں نہ۔۔۔۔میرے سائز کا کچھ نہیں ہے۔۔۔۔میں کیسے پہنو۔۔۔"

عشنا نے عالمگیر کو دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔

"یہ۔۔۔یہ پہن لو۔۔۔۔"

عالمگیر نے ایک ٹی شرٹ اور ٹریک پینٹ الماری سے نکال کر عشنا کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا تھا۔

"عالمگیر۔۔۔۔یہ۔۔۔میں اس میں کیسے فٹ ہو پاؤں گی؟"

عشنا نے کپڑوں کو ہینگر سے نکل کر عالمگیر کو دکھایا۔

"میں فٹ کر دوں۔۔۔۔؟"

عالمگیر نے عشنا کو کمر سے پکڑ کر کہا تو عشنا جلدی سے اُس کے ہاتھ کمر سے ہٹاتے کپڑے لے کر واشروم میں بند ہو گئی۔

عالمگیر نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور بیڈ پر بیٹھ کر اپنے جوتے کے تسمے کھولنے لگا۔

عالمگیر نے اپنی ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کر دیے اور کف کے بٹن کھول کر آستین فولڈ کرتا الماری سے اپنے کپڑے نکال کر کندھے پر رکھ کر مڑا۔

عشنا ٹی شرٹ اور ٹریک پینٹ پہنے واشروم سے باہر آئی۔

کپڑے واقعی اُسے بہت لوز تھے۔

اُس کے ہاتھ کپڑوں کی آستینوں میں کہیں کھو گئے تھے اور پیروں کے پائنچے اتنے بڑے تھے کہ وہ ہ ہر قدم 20 سیکنڈ بعد اٹھا پا رہی تھی۔

عالمگیر چلتا ہوا عشنا کے پاس آیا اور اُسے باہوں میں اٹھا کر بیڈ تک لایا۔

"عالمگیر۔۔۔۔" 

عشنا نے عالمگیر کو گھور کر دیکھا۔

عالمگیر نے مسکراتے ہوئے اُسے بیڈ پر بیٹھایا اور خود اُس کے پاس بیٹھ کر اُس کے کپڑے کی آستینیں فولڈ کر کے اس کے ہاتھ اُن میں سے باہر نکالے۔

اب وہ عشنا کے پینٹ کے پائنچے فولڈ کر کے اُس کے پیرو کو باہر نکال رہا تھا۔

ٹی شرٹ کافی بڑی تھی اس لیے اُس کا گلا بھی عشنا کو بڑا لگ رہا تھا۔ وہ بار بار ٹی شرٹ کو پیچھے سے کھینچتی،وہ تھوڑی دیر بعد پھر آگے سے گہرا ہو جاتا۔

عشنا نے ٹی شرٹ کے گلے کو پیچھے کرتے عالمگیر کو دیکھا جو عشنا کو گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔

عشنا نے جلدی سے تکیہ اٹھا کر گود میں رکھ لیا۔

عالمگیر مسکراتا ہوا واشروم میں کپڑے چینج کرنے چلا گیا۔

تھوڑی دیر بعد وہ چینج کر کے باہر آیا تو عشنا ویسے ہی بیٹھی تھی۔

عالمگیر نے سوئچ بورڈ سے لائیٹ آف کرتے ہوئی بیڈ کی طرف آ کر سائڈ لیمپ بھی بند کر دیا۔

"عالم۔۔۔عالمگیر یہ آپ۔۔۔"

عشنا کمرے کو گُھپ اندھیرے میں ڈوبتے دیکھ کر  پوچھنے لگی تھی کہ عالمگیر نے اس کی کلائی پکڑ کر اُسے اپنی طرف کھینچ لیا اور اُسے باہوں میں بھر کر اُس کے ماتھے کو لبوں سے چھو کر اُس کے کان کے قریب بولا تھا۔

"سو جاؤ۔۔۔۔ورنہ میں تمہیں سونے نہیں دونگا۔۔۔"۔

عالمگیر نے کہا تو عشنا نے جلدی سے عالمگیر کے سینے سے سر لگا کر آنکھیں بند کر لی


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


"عشنا۔۔۔"

عالمگیر کمرے سے باہر آ کر عشنا کو آوازیں دے رہا تھا۔

عشنا فجرکی آزان کے آواز کے ساتھ اٹھی تھی اور عالمگیر کو سوتا ہوا چھوڑ اُس کے کمرے سے نکل اپنے کمرے میں آ گئی تھی۔

اب نماز ادا کرنے کے بعد کچن میں کھڑی ناشتہ بنا رہی تھی جب عالمگیر اُسے اپنے کمرے کے باہر کھڑا آوازیں دے رہا تھا۔

"عشنا۔۔۔۔"

عالمگیر نے پھر سے پُکارا۔۔۔۔

"جی۔۔۔"

عشنا ہاتھ پونچھتی کیچن سے باہر آئی تھی۔

"عشنا یار جلدی آو۔۔۔۔۔"

عالمگیر اُسے کہتا کمرے میں چلا گیا۔

عشنا نے ایک نظر آس پاس دیکھا جہاں ملازموں کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔

وہ چلتی ہوئے عالمگیر کے کمرے میں آئی۔

عالمگیر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا تھا۔

 عشنا چلاتی ہوئی اُس کے پاس آ رکی۔۔۔۔

"جی۔۔۔"

عشنا نے عالمگیر کے قریب آ کر کہا

"یار یہ دیکھو ۔۔۔۔مجھے ایک ضروری کام کے لیے جانا ہے اور یہ شرٹ کا بٹن ٹوٹ گیا۔۔۔۔مجھے دیر ہو رہی اب۔۔۔۔"

عالمگیر نے شرٹ کو اور ہاتھوں میں پکڑے بٹن کو دکھاتے ہوئے کہا۔

"میں۔۔۔میں دوسری شرٹ نکال دیتی ہوں۔۔۔۔"

عشنا نے عالمگیر کو دیکھتے ہوئے کہا اور الماری کی طرف بڑھی۔

"یار چینج کرنے میں بہت ٹائم لگ جائیگا نا۔۔۔۔تم ایک کام کرو جلدی سے ہے بٹن ٹانک دو۔۔۔"۔

عالمگیر نے عشنا کی کلائی پکڑ کر اُسے خود سے قریب کیا۔

عشنا نے ایک نظر دروازے کو اور پھر عالمگیر کو دیکھا۔

"اچھا۔۔۔"

عشنا کہتی سائڈ ٹیبل کی دراز کھول کر اُس میں سے سوئی دھاگہ نکالنے لگی۔

سوئی میں دھاگہ پیرونے کے بعد عشنا نے عالمگیر سے بٹن لیا اور اُس کے شرٹ پر ٹانکنے لگی۔

عالمگیر مسکراتا ہوا اُس کی کمر کے گرد باہوں کا گھیرا تنگ کر کے اُسے خود سے قریب کرنے لگا

"عالمگیر۔۔۔۔"

عشنا نے عالمگیر کو گھور کر دیکھا۔

"کیا۔۔۔؟ تم اپنا کام کرو ۔۔۔میں اپنا کر رہا ہوں۔۔۔۔"

عالمگیر نے مسکراتے ہوئے کہا۔

عشنا کے لبوں پر بھی مسکراہٹ آ گئی۔

وہ مسکراتے ہوئے بٹن لگا رہیں تھی۔

"عالمگیر۔۔۔۔"۔

عشنا نے بٹن ٹانکتے ہوئے  پُکارا۔

"یس جان۔۔۔۔"

عالمگیر نے محبت لوٹاتے لحظے میں کہا۔

"مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے۔۔۔یہ بٹن ٹوٹا نہیں۔۔۔۔بلکہ آپ نے توڑا ہے؟"۔

عشنا نے شق بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"نہ۔۔۔نہیں۔۔۔۔نہیں تو۔۔۔میں بھلا ایسا کیوں کرونگا۔۔۔۔؟"

عالمگیر گڑبڑا کر بولا۔

"اب تو مجھے پکّا یقین ہو گیا۔۔۔"

عشنا نے کہا اور جھک کر دانتوں سے دھاگہ، بٹن سے کاٹ دیا۔

عشنا کے عالمگیر کے اس قدر قریب آنے پر عالمگیر کچھ پل سانس لینا بھول گیا۔

وہ آنکھیں موندیں سانس روکے عشنا کے لمس کو اپنے سینے پر محسوس کرتا رہا۔

"بس یہ کچھ اور؟"۔

عشنا نے سوئی دھاگہ واپس ڈبّے میں رکھ کر پوچھا۔

"ہاں ۔۔۔وہ میری الماری۔۔۔۔"

عالمگیر کچھ کہہ ہی رہا تھا جب رحمت بیگم نے عشنا کو آواز دی

عشنا عالمگیر کو مسکرا کر دیکھتی باہر کی طرف بڑھ گئی

عشنا عالمگیر کے کمرے سے نکل کر لاؤنج میں آئی جہاں رحمت بیگم ہارون صاحب کے ساتھ بیٹھیں تھی۔

ہارون صاحب سے عشنا کو عالمگیر کے کمرے سے نکلتے دیکھ لیا تھا۔

"تم عالمگیر کے کمرے میں کیا کر رہی تھی۔۔۔؟"

ہارون صاحب نے غصے سے پوچھا

"وہ۔۔۔وہ۔۔۔میں ۔۔۔۔وہ۔۔۔۔"

عشنا ہارون صاحب کے غصے سے خائف ہوتے ہوئے بولی۔۔۔

"ہارون میں نے ہی اُسے بھیجا تھا۔ عالمگیر کو چائے دینے۔۔۔۔"

رحمت بیگم نے عشنا کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔

"بیٹا تم جاؤ ناشتہ لگواؤ۔۔۔"

رحمت بیگم سے عشنا کو وہاں سے بھیجنا چاہا کیوں کہ ہارون صاحب اب بھی عشنا کو غصے سے گھور رہے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عالمگیر ناشتہ کرنے کے بعد کچھ کام سے گھر سے نکل گیا تھا۔

اب شام 4 بجے گھر آیا کمرے میں آکر چینج کیا۔ 

عشنا اُسے آس پاس نظر نہیں آئی تھی۔

عالمگیر نے ملازم کو آواز دے کر بلایا۔

"جی سر۔۔۔۔"

ملازم نے مؤدب آواز میں کہا۔

"عشنا کو کہو چائے لے کر آئے "

اُس نے ملازم سے کہا اور ایک کتاب لے کر بیٹھ گیا

"آپ کی چائے"

عشنا نے ٹیبل پر چائے رکھتے ہوئے عالمگیر کو مخاطب کیا۔وہ بنا کچھ کہے چائے ٹیبل پر رکھ کر چلی جاتی اگر وہ اُسے کتاب کے مطالعے میں غر ق نا دیکھتی تو۔وہ موڑ کر کمرے سے جانے لگی ویسے ہی عالمگیر فرتی سے اُسکے سامنے آیا اور اسکا راستہ روک کے کھڑا ہو گیا۔

عشنا نے نظریں اٹھا کر  اُسے دیکھا اور اُس سے پوچھا 

"کیا۔۔۔۔۔۔؟ راستہ کیوں روکا ہے میرا؟ جانے دیں مجھے،ورنہ چاچو نے دیکھ لیا نہ تو بوال کر دینگے"۔

ارے، ارے، ایوینئیں ہی بوال کر دینگے؟ مجھے تم سے کچھ کام تھا بھئی اس لیے تو تمہیں کمرے میں بلایا اور تم ہو کے بھاگے جا رہی ہو،کچھ پل تو ٹھہرو، آخر کو ۔۔۔۔۔"

عشنا نے اُسکے لبوں پر ہاتھ رکھ کر اُس کی بات کو مکمل نہ ہونے  سے روک دیا۔

عالمگیر نے مسکرا کر اُسکے ہاتھوں کو چوم لیا، اسنے سٹپٹا کر اپنا ہاتھ اُسکے لبوں  سے ہٹا لیا اور رخ موڈ کے کھڑی ہو گئی۔

"کیا کر رہیں ہیں؟ پتہ ہے نہ چاچو گھر پر ہیں پھر بھی آپ۔۔۔۔۔" 

"میں کیا؟  بولو۔۔۔۔۔"

وہ اُسے بولنے پر اکسا رہا تھا۔وہ آج کل بات جو نہیں کرتی تھی اُس سے۔ اور وہ چاہتا تھا کے وہ اُس سے اپنے دل کی ہر بات کرے پہلے کی طرح۔

"آپ تو ایسے کہہ رھیں ہیں، جیسے آپکو کچھ پتہ ہی نہیں۔۔۔آپ سب جان کر بھی مجھے اپنے کمرے میں کیوں بلاتے ہے؟ ابھی بھی چاچو کیسے گھور کے دیکھ رہے تھے مجھے جب میں چائے لے کر آپ کے کمرے میں آ رہی تھی۔۔۔۔"

 اسنے دوپٹے کا کونا مروڑتے ہوئے کہا۔

"دیکھو مجھے تو نہیں پتہ تھا نہ کے تم آئی ہوئی ہو؟ اب امی کی بیماری کو دیکھ کر انکی خدمت کی غرض سے اس گھر میں آ ہی گئ ہو تو امی کی اس بیٹے کی بھی تھوڑی خدمت کر لو۔۔"

کہتا ہوا وہ بیڈ کے سائڈ دراج سے ایک پیکٹ نکال کر اُسکے طرف بڑھا چکا تھا۔

"یہ کیا ہے؟" 

عشنا نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔

"مارکیٹ گیا تھا،وہاں یہ تمہارے لیے اچھی لگی تو لے لئے،کھول کے تو دیکھو."

اسنے پیکٹ کھولا تو اُس میں بہت پیاری  چوریاں تھیں جن کے اوپری حصوں پر ننھے ننھے ہیرے آویزاں تھے۔وہ دیکھنے والو کی آنکھوں کو خیراں کرنے کے لئے کافی تھے۔

عشنا اُنھیں دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔

"شکریہ۔لیکن میں یہ کیسے۔۔۔۔؟ مطلب یہ تو بہت قیمتی ہوگا نا؟ میں اتنا قیمتی تحفہ آپ سے کیسے لے سکتی ہوں؟اور میں۔۔۔"

"شش۔۔۔۔۔۔"

وہ کچھ کہنا ہی چاہتی تھی کے عالمگیر نے اُسکے بات کاٹ دی۔

"اتنا قیمتی،اپنا آپ تمہیں سونپ دیا،تو ان چوریوں کی کیا وقعت ہے؟"

 وہ آنکھوں میں محبت لیے اُسے دیکھ کر کہ رہا تھا۔

"پہن کر دکھاؤ۔۔۔"

اسنے کہتے ساتھ ریپر الگ کر کے چوریاں ایک ہاتھ میں لے کر دوسرے ہاتھ سے اُسکے کلائی تھام کر کہا

 "اجازت۔۔۔۔۔۔؟"

اسنے گھبرا کر  کھلے دروازے کی سمت دیکھا اور پھر اثبات میں سر کو جنبش دی

عالمگیر نے بہت احتیاط سے چوریاں اُسکے کلائی میں پہنائی اور جھک کر اُسکے چوریوں سے بھری کلائی پر اپنے لب رکھ دیئے۔

اسنے گھبرا کر اپنی آنکھیں بند کر لی

"یہ کیا بیہودگی ہے؟ کیا ہو رہا ہے یہاں۔۔۔۔؟"

چاچو کی گرج دار آواز کمرے میں گونجی تو عالمگیر گردن موڑ کر دروازے کی سمت دیکھنے لگا جہاں چاچو آنکھوں میں غیظ و غضب لیے ان دونوں کو دیکھ رہے تھے۔

عشنا نے تو فوراً اپنی کلائی کھینچی اور ڈر کے عالمگیر کے بازؤں کو زور سے پکڑ کر اُسکے پیچھے چھپ گئی ۔ اُسکے بازوؤں میں چھپی وہ چاچو کو ڈری سہمی نظروں سے دیکھے جا رہی تھی۔

"اب کیا ہوگا؟"

اسنے منمینا کر عالمگیر سے پوچھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ہارون صاحب غصے سے  ان دونوں کو دیکھ رہے تھے۔

"مامو ہم نے ایسا کچھ نہیں کیا جسے آپ بیہودگی کا نام دے رہے ہیں۔۔۔"

عالمگیر نے عشنا کہ ہاتھ تھام کر اُسے اپنے ساتھ کھڑا کرتے ہوئے کہا۔

"عالمگیر۔۔۔۔تمہاری ہمت کیسے ہوئی عشنا کہ ہاتھ پکڑنے کی۔۔۔۔۔؟ عشنا جاؤ یہاں سے۔۔۔"

ہارون صاحب دہاڑے تھے۔

عشنا ڈر کی وجہ سے کانپ اٹھی تھی۔

عالمگیر نے عشنا کے ہاتھ پر گرفت اور سخت کر دی۔

"عشنا۔۔۔۔سنا نہیں تم نے۔۔۔"

ہارون صاحب نے عالمگیر کے ہاتھ میں عشنا کے ہاتھ کو دیکھتے ہوئے غرّہ کر کہا۔

"عشنا کہیں نہیں جائیگی۔۔۔۔ عشنا یہی رہیگی۔۔۔میرے پاس۔۔۔میرے ساتھ۔۔۔۔ہمیشہ۔۔۔"

عشنا نے قدم بڑھانا چاہا تو عالمگیر نے اُس کی کلائی تھام کر اُسے قدم آگے بڑھانے سے روکا تھا۔

"عالمگیر تم اتنا زیادہ گر سکتے ہو مجھے اندازہ نہیں تھا ۔۔۔اور تم؟ تم یہاں اس کے ساتھ گلچرے اُڑانے آئی ہو اس کے ساتھ؟"

ہارون صاحب نے عالمگیر کو غصے سے دیکھتے ہوئے کہا اور پھر عشنا کی طرف بڑھے تھے۔

عشنا آنکھوں میں آنسو لیے ہارون صاحب کو دیکھے جا رہی تھی۔

"خبردار۔۔۔۔خبردار مامو جو آپ نے عشنا کے لیے ایک اور غلط لفظ اپنے منہ سے نکال بھی تو۔۔۔۔۔"

عالمگیر غصے میں کہتا دو قدم آگے آ چکا تھا۔

"ایسی پارسا نہیں ہے یہ اور نہ ہی تم۔ جو تم مجھے درس دے رہے ہو۔ 

مجھے تو پہلے شق تھا۔ آج اپنی آنکھوں سے تم دونوں کو بےحیائی کرتے دیکھ لیا۔"

ہارون صاحب کا غصّہ ساتویں آسمان پر پہنچا ہوا تھا۔

"خبردار مامو۔۔۔۔خبردار۔۔۔آپ کو شرم آنی چاہیے ایسی گھٹیا بات کرتے ہوئے۔ اس کے بعد اگر آپ نے ایک بھی غلط لفظ اپنے منہ سے نکالا تو میں بھول جاؤنگا کہ آپ میرے مامو ہے ۔۔۔"

عالمگیر کو ہارون صاحب کی باتیں غصّہ دیلا رہی تھی۔

عشنا دور کھڑی اُن دونوں کو دیکھ رہی تھی۔ ہارون صاحب کی باتیں سن کر وہ فرش پر بیٹی چلی گئی۔

اُسے یقین نہیں ہو رہا تھا کے اُس کے چاچا اُس پر اتنا گھٹیا الزام بھی لگا سکتے ہیں۔ وہ فرش پر بیٹھی ذلت و رسوائی کے ملے جلے احساس کے ساتھ روئے جا رہی تھی۔

"کیوں؟ کیوں نہ کہوں۔۔۔۔؟ جب تم دونوں کو شرم نہیں آتی ایسی کھٹیا حرکت کرتے ہوئے ہوئے تو مجھے کہتے ہوئے کیوں شرم آئے گی؟ کیا رشتے سے تم دونوں ابھی۔۔۔۔۔"

"مامو۔۔۔۔۔"

ہارون صاحب ابھی کچھ اور بھی کہہ رہے تھی کہ عالمگیر زور سے دہاڑا۔ غصے کو ضبط کرنے کی کوشش میں اُس کے جبڑے کی رگیں تن گئی تھیں۔

"جاننا چاہتے ہیں نہ کہ کیا رشتہِ ہے ہم دونو میں۔۔۔تو سنیے۔۔۔۔یہ۔۔۔یہ میری بیوی ہے اور میں اس کا شوہر ہوں۔۔۔اور ہمارے نکاح کو ایک سال سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے۔ عشنا میرے نکاح میں ہے اس لیے ہم تھے اس کمرے میں ایک ساتھ۔ ہو گئی تسلّی یہ اور کچھ سنا چاہتے ہیں؟"

عالمگیر نے عشنا کی کلائی تھام کر اُسے اپنے ساتھ کھڑا  کرتے ہوئے ہارون صاحب کے بالکل سامنے آ کر بولا تھا۔

"بکواس۔۔۔۔بکواس کرتے ہو تم۔۔۔۔۔یہ تم دونوں اپنے غلیظ رشتے کو چھپانے کے لیے جھوٹ بول رہے ہو۔۔۔

میرے بھائی کا خون اتنا گندا بھی ہو سکتا ہے میں سوچ نہیں سکتا تھا۔۔۔۔ اور نکاح ۔۔؟۔۔۔ تم جھوٹ بولتے ہو۔۔۔بکواس کرتے ہو۔۔۔۔۔میرا بھائی مجھے سے اتنی بڑی بات نہیں چھُپا سکتا"

ہارون صاحب اب بھی اُن پر کیچڑ اچھلنے سے بعض نہیں آئے تھے۔

"مامو میں نے کہا ہے کہ میں عشنا اور میرے رشتے کے بارے میں کچھ نہیں سن سکتا۔ آپ میرے ہوتے ہوئے میری بیوی کو کچھ بھی نہیں کہہ سکتے۔ کچھ بھی نہیں۔۔۔۔یہ مسز عشنا عالمگیر سجّاد ہے اور عالمگیر سجّاد اپنی بیوی کی حفات کرنا جانتا ہے۔ رہی نکاح کی بات تو یہ دیکھیے ہمارا نکاح نامہ۔۔۔اور اس پر درج تاریخ بھی دیکھ لیجئے گا۔"

عالمگیر نے عشنا کہ ہاتھ مضبوطی سے تھامے دوسرے ہاتھ سے موبائل میں محفوظ اپنا اور عشنا کا نکاح نامہ ہارون صاحب کے سامنے کرتے ہوئے کہا تھا۔

ہارون صاحب حیرانی سے موبائل میں نظر آتے نکاح نامے کو دیکھ رہے تھے اور اُس پر درج تاریخ کو ۔ 

اُنھیں لگ رہا تھا کہ اُن کے بھائی اور بہن نے ان کی پیٹھ پر خنجر گھونپ دیا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 رحمت بیگم جو ہارون صاحب اور عالمگیر کی زور زور کے بولنے کی آواز سن کر یہاں آئی تھیں۔ عالمگیر کی آخری بات پر وہ پریشانی سے ہارون صاحب کو دیکھے جا رہی تھیں۔

"ہارون میری بات سنوں۔۔۔"

رحمت بیگم نے آگے بڑھ کر ہارون صاحب سے کچھ کہنا چاہا۔

"اب کیا بچا ہے کہنے سننے کو آپا؟ آپ لوگو نے میرے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔اگر آپ کو عشنا کو اپنی بہو بنانا ہی تھا تو یہ سب ڈرامے کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ میری بیٹی میں کیا کمی تھی؟ اُسے ٹھکرا کر کیا ثابت کرنا چاہتی تھیں آپ؟ میری بیٹی کو منع کر کے آپ نے ابراہیم   بھائی کی بیٹی کو اپنی بہو بنانا ٹھیک سمجھا؟ آپ دونوں نے مجھے دھوکا دیا ہے۔۔۔۔بے ایمانی کی ہے میرے ساتھ۔ اب آپ کا اور ابراہیم بھائی کا مجھ سے کوئی واسطہ نہیں۔۔۔۔اب آپ لوگ میری شکل دیکھنے کو ترس جاؤگے۔۔۔"

ہارون صاحب غصے میں کہتے کمرے سے نکل گئے۔

"ہارون میری بات تو سنو ۔۔۔۔"

رحمت بیگم اُن کے پیچھے گئی تھیں۔

"عالم۔۔۔۔عالمگیر آپ نے یہ ۔۔۔۔یہ سب ٹھیک نہیں ہوا۔۔۔۔"

عشنا نے عالمگیر کے سامنے آ کر کہا۔

"عشنا میں نے جو کیا وہ ٹھیک کیا۔۔۔۔آج نہیں تو کل اُنھیں پتہ چلنا ہی تھا۔ "

عالمگیر نے اُسے دیکھتے ہوئے مطمئن انداز میں کہا  اور فون نکال کر نادر کو کال ملانے لگا۔

"ہاں نادر۔۔۔۔تم پرسو کے لیے سارے انتظامات کروا دو ۔ میں کل عشنا کو کے کر اسلام آباد آ رہا ہوں۔"

نادر کو آرڈر دیتا وہ کال کاٹ کر عشنا کی طرف مڑا 

"عشنا تم اپنی تیاری کر لو میں تمہیں مامو کی طرف چھوڑ دیتا ہوں۔۔۔"

عالمگیر اُس کے قریب آ کر بولا۔

عشنا اس کی بات سن کر آنکھوں میں آنسو لیے اُسے دیکھنے لگی۔

"اس کا مطلب یہ پھر مجھے ابّو کے گھر چھوڑ کے اسلام آباد جا رہے ہیں؟"

عشنا نے دل میں سوچا۔

"غلط سوچ رہی ہو۔۔۔۔میں تمہیں صرف آج کے لیے مامو کے گھر چھوڑ رہا ہوں۔۔۔۔"

عشنا نے حیرت سے عالمگیر کو دیکھا۔اُسے کیسے پتہ وہ کیا سوچ رہی ہے۔

"آپ کو کیسے۔۔۔"۔

عشنا نے رندھی ہوئی آواز میں پوچھا۔

"جان۔۔۔۔میں تمہارے دل کی ہر ایک بات جانتا ہوں۔۔۔۔اور تمہیں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔میں صرف آج کے لیے تمہیں مامو کے پاس چھوڑ رہا ہوں۔۔۔اگر میں تمہیں وہاں نہیں لے جاؤنگا تو کل اپنی جان کو رخصت کروا کے کیسے لاؤں گا؟"

عالمگیر اُس کے قریب آ کر بولا اور ساتھ ہی اُس کے چہرے کو تھام کر اُس کے ماتھے کو اپنے لبوں سے چھوا۔

"چلو تیاری کر لو۔۔۔میں تمہیں ڈراپ کر دیتا ہوں اور ساتھ ہی مامو سے بات بھی کر لوں گا۔"

عالمگیر نے اُس کے گال تھپک کر کہا تو عشنا نے اثبات میں سر ہلا دیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 رحمت بیگم ہارون صاحب کے کمرے میں آئیں تو دیکھا وہ اپنا سامان پیک کر رہے تھے۔

"ہارون کیا ہی گیا ہے۔۔۔۔ایسے بچوں کی طرح کیوں برتاؤ کر رہے ہو۔۔۔۔عشنا اور عالمگیر ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے اس لیے ہم نے انکا نکاح کیا تھا۔

اور یہ مرحہ کے پروپوزل کے دو سال بعد کی بات ہے۔

 ہمارا ارادہ تمہیں تکلیف پہنچانے کا نہیں تھا میرے بھائی۔"

رحمت بیگم نے اُنھیں سمجھانا چاہا۔

"آپا مجھے نہ آپ کی کوئی بات سنی ہے اور نہ ہی ابراہیم بھائی کی۔۔۔۔اب میرا آپ لوگوں سے کوئی واسطہ نہیں۔۔۔۔اب میں آپ لوگوں سے کبھی نہ ملوں گا اور نہ ہی بات کرونگا۔۔۔آج سے میرا اور آپ لوگو کا رشتہِ ختم۔۔۔"

ہارون صاحب نے کہا اور اپنا بیگ لے کر نکل گئے۔ 

رحمت بیگم اُن کے پیچھے پورچ تک آئیں تھی لیکن ہارون صاحب نہیں رکے تھے۔

رحمت بیگم پریشان سی کھڑی رہ گئی تھیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عالمگیر عشنا کو لے کر ابراہیم صاحب کی طرف جانے لگا تو رحمت بیگم کو بھی ساتھ لے آیا۔

وہ لوگ گھر میں داخل ہوئے

 ابراہیم صاحب اور کوثر بیگم بےچینی سے اُن کا انتظار کر رہے تھے کیونکہ رحمت بیگم نے اُنھیں فون پر سب کچھ باتا دیا تھا۔

"عالمگیر تمہیں ہارون کو وہ سب نہیں بتانا چاہیے تھا۔"

ابراہیم صاحب عالمگیر کی طرف آتے ہوئے بولے۔

"عشنا۔۔۔۔تم اپنے کمرے میں جاؤ۔۔۔"

عالمگیر نے عشنا کو کہا 

وہ سر ہلاتی اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔

کوثر بیگم رحمت بیگم کو لے کر صوفے تک آئیں ۔ رحمت بیگم پریشانی سے دوچار لگتی تھیں۔

"مامو آپ کو بھی اُنھیں بتانا ہی تھا۔۔۔میں نے بتا دیا۔۔۔۔آپ نے دو مہینے کا کہا تھا لیکن ابھی تک آپ انّ سے بات کر پائے۔ آپ اسے میری خودغرضی سمجھیں یہ کچھ اور لیکن میں آپ لوگو کی ڈر کو وجہ سے اپنی بیوی کو آپ کے پاس نہیں چھوڑ سکتا۔"

عالمگیر کا لہذا حتمی تھا۔

"عالمگیر میں اپنے طریقے سے بات کر لیتا ہارون سے۔۔۔"

ابراہیم صاحب نے کہا 

"مامو آپ بات کرتے تب بھی وہ ایسے ہی ردِّ عمل کا مظاہرہ کرتے۔"

عالمگیر نے اُسے انداز میں کہا۔

"ابراہیم۔۔۔۔عالمگیر ٹھیک کہہ رہا ہے۔۔۔۔۔چاہے تم بتاتے یہ میں ۔۔۔۔ہارون تب بھی اسی طرح کرتا۔"

رحمت بیگم نے کہا تو ابراہیم صاحب ایک گہری سانس لے کر سر کو اثبات میں ہلاتے صوفے پر بیٹھ گئے

اُنھیں اندازہ تھا ہارون صاحب کے ردِ عمل کا۔ اس لیے ہی وہ ہارون صاحب سے بات نہیں کر پائے تھے اب تک

" ابراہیم اب جب ہارون کو سب پتہ ہی چل گیا ہے تو میں چاہتی ہوں کہ تم عشنا کو اب رخصت کر دو۔ 

کل ہی ہم لوگ اسلام آباد جا رہے ہیں اور ہم عشنا کو ساتھ لے جانا چاہتے ہیں۔"

رحمت بیگم نے کہا تو ابراہیم صاحب پریشان ہو گئے۔۔

"لیکن آپا۔۔۔۔۔کل کیسے۔۔۔۔اتنی تیاریاں کرنی ہوگی۔۔۔سب کو بلانا ہوگا۔۔۔"

ابراہیم صاحب پریشانی سے بولے۔

"ابراہیم ہمیں کون سا لمبا چوڑا جہیز چاہیے؟ اور تم اپنے ملنے والو کو فون کر کے کل بولا لو۔ اور رہی رشتےداروں کی بات تو میرے اور ہارون کے علاوہ تمہارا اور کون رشتےدار ہے ہی؟ ہارون تو آئیگا نہیں اور میں پہلے ہی یہاں ہوں۔۔۔اور رہی بات انتظام کی پھول اور ڈیکوریشن والے کو میں بلاوا لیتی ہوں اور کیٹرنگ کے لیے کسی اچھے سے ہوٹل سے بول دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔تم بس عشنا کو رخصت کرنے کا سوچوں۔۔۔"

رحمت بیگم نے ابراہیم صاحب کو جس بات کی فکر ستاتا رہی تھی سب کا حل بتا دیا تھا۔

عالمگیر چپ چاپ بیٹھا ساری گفتگو سنتا رہا تھا

 "لیکن آپا۔۔۔۔میں اپنی بیٹی کو یوں خالی ہاتھ تو رخصت نہیں کر سکتا نہ۔۔۔۔"

ابراہیم صاحب نے رحمت بیگم کو دیکھتے ہوئے کہا 

"مامو عشنا اب میری بیوی ہے اور مجھے اُس کے علاوہ آپ سے کچھ نہیں چاہیے۔۔۔۔آپ رخصتی کی تیاری کریں۔۔۔میں کل عشنا کو لینے آ رہا ہوں۔۔۔۔"

عالمگیر کہتا عشنا کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔

 عالمگیر عشنا کے کمرے میں آیا۔

عشنا کھڑکی کے پاس کھڑی باہر دیکھ رہی تھی۔

عالمگیر دبے پاؤں اُس کے پاس آکر اُسے پیچھے سے اپنے حصار میں لیتا اُس کے کندھے پر تھوڑی رکھ کر اُس کے پیٹ کے گرد ہاتھ لپیٹ کر کھڑا ہو گیا۔

عشنا مسکرا دی۔

"کیا سوچ رہی ہے میری جان؟"

عالمگیر نے ایسے ہی کھڑے ہو کر پوچھا۔

"عالمگیر۔۔۔ابّو نہیں مانے گے۔۔۔"۔

عشنا نے پریشانی سے کہا۔

"تمہارے ابّو کو منا کر آ رہا ہوں۔ کل میں تمہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے ساتھ کے جاؤنگا۔

اور ہاں۔۔۔صبح تیار ہو جانا۔ میں تمہیں شادی کا جوڑا دلانے لے جانا چاہتا ہوں۔ اُس کے بعد تمہیں گھر ڈراپ کر دونگا۔

کل دوپہر تک پارلر والی کو بھی بھیج دوں گا۔ 

شام کو آ کر تمہیں اپنے ساتھ لے جاؤنگا ہمیشہ کے لیے۔"

عالمگیر نے کہا تو عشنا اُس کی طرف گھومی۔

"سچ عالمگیر۔۔۔"

اب عشنا عالمگیر کے سامنے تھی اور عالمگیر اُس کی کمر کے گرد باہیں لپیٹے اُسے اپنے حصار میں لیے کھڑا تھا۔

"بالکل سچ میری جان۔۔۔۔"

عالمگیر نے کہا اور ساتھ ہی جھک کر اُس کے ماتھے پر لب رکھ دیئے۔

عشنا عالمگیر کے لمس کو محسوس کر کے آنکھیں موند گئی۔

وہ اپنے اللہ کا کس قدر شکریہ ادا کرتی ۔۔۔۔ اللہ نے اُس کی زندگی۔۔۔اُس کی محبت اُسے سونپ دی تھی۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عالمگیر دوسری صبح عشنا کو لے کر مال چلا آیا تھا ۔

اُس نے بہت سارے بوتیک گھومنے کے بعد ایک سرخ رنگ کا برائیڈل ڈریس پسند کیا تھا۔

عشنا برائیڈل ڈریس چینج کر کر کے تھک گئی تھی۔

عالمگیر ہر شاپ پر اُس کے لیے تقریباً 10 ڈریس نکال کر دیتا اور اُسے چینج کرنے لیے کہتا۔

جب وہ چینج کر کے آتی تو عالمگیر اُس میں کوئی نہ کوئی خامی نکال کر اُس ڈریس کو ریجیکٹ کر دیتا۔

4 شاپ گھومنے کے بعد عالمگیر کو ایک ڈریس پسند آیا تھا۔

"عالمگیر۔۔۔۔"

عشنا نے تھکی تھکی آواز میں عالمگیر کو پُکارا تھا۔

"یس جان۔۔۔"

عالمگیر اب جویلری شاپ پر بیٹھا عشنا کے لیے جویلری پسند کر رہا تھا۔

"عالمگیر میں بہت تھک گئی ہوں۔۔۔"

عشنا نے عالمگیر کا بازوں تھام کر کہا۔

"میری جان تھک گئی ہے؟"

 عالمگیر نے عشنا کی ناک کھینچی۔

"ہاں۔۔۔بہت۔۔۔"

عشنا نے اپنی ناک سہلای

"بس یہ جویلری لے لوں۔۔باقی سب تو لے لیا ہے پھر تمہیں گھر ڈراپ کر دیتا ہوں۔"

عالمگیر نے محبت سے کہا تو عشنا مسکرا دی۔

عالمگیر نے بہت ساری جویلری خرید کر عشنا کو ساتھ لے کر ایک جگہ اُسے لنچ کروایا اور اُسے گھر ڈراپ کر دیا۔

عشنا گھر آئی تو دیکھا بیوٹیشن اُس کا انتظار کر رہی تھی۔

عشنا کے آتے ہی وہ عشنا کی طرف بڑھی تھی کیونکہ اب رات کی تقریب میں زیادہ وقت نہیں بچا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عالمگیر گھر آ گیا۔

رحمت بیگم اپنی اور اُس کی پیکنگ کر چکی تھیں۔

عالمگیر کے اس بار ضد کرنے پر وہ اسلام آباد جانے کے لیے تیار ہو گئی تھیں۔

عالمگیر اُن سے مل کر اُنھیں تیار ہونے کا کہتا خود بھی تیار ہونے چلا گیا ۔

عالمگیر نے اپنے لیے بھی ایک بہت خوبصورت سی شیروانی خریدی تھی۔

بلیک کلر کی شیروانی میں بالوں کو جیل سے سیٹ کیے کندھے پر قیمتی شال رکھے ،سر پر پگڑی جمائے وہ کسی ریاست کا شہزادہ ہی تو لگ رہا تھا۔

عالمگیر تیار ہو کر کمرے سے باہر آیا۔

 مراد کو وہ صبح ہی فون پر لاہور آنے کا کہہ چکا تھا مراد نے عالمگیر  کو آتا دیکھا تو اُس کی طرف بڑھا اور اُس کے گلے لگ گیا۔

"واہ۔۔۔میرا یار تو آج شہزادہ لگ رہا ہے۔۔۔۔"

مراد عالمگیر سے الگ ہوتے ہوئے بولا تھا۔

"ماشاء اللہ۔۔۔"۔

رحمت بیگم نے بھی آگے بڑھ کر اپنی آنکھوں کے  کونے سے کاجل نکال کر عالمگیر کے کان کے پیچھے لگایا اور ہاتھوں سے اُس کی بلائیں لیں۔

مراد اور عالمگیر کھڑے مسکرا رہے تھے۔

 "چلیں۔۔۔۔۔"

عالمگیر نے کہا تو مراد مسکرایا۔

"صبر رکھ بھائی۔۔۔۔بس کچھ دیر اور۔۔۔۔ہم تُجھے بھابھی کے پاس ہی لے جا رہیں ہیں۔۔۔"

مراد نے عالمگیر کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔

"بکواس نا کر۔۔۔۔"

عالمگیر نے جھینپ کر کہا۔

رحمت بیگم بھی مسکرا دیں۔

 وہ لوگ پورچ میں آئے۔

 رحمت بیگم نے دو کالے بکرے صدقے لیے منگوا رکھے تھے

رحمت بیگم کے اشارے پر عالمگیر نے بڑھ کر اُن بکروں پر ہاتھ رکھا ۔

رحمت بیگم نے اُنھیں ملازموں کے حوالے کیا اور سب کار میں بیٹھ کر ابراہیم صاحب کے گھر کی طرف بڑھ گئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تقریب ابراہیم ہاؤس کے لان میں منعقد کی گئی تھی۔

عالمگیر مراد اور رحمت بیگم کا استقبال پھولوں کے ساتھ کیا گیا ۔

ایک طرف اسٹیج بنا ہوا تھا۔ 

لوگ عالمگیر کو دیکھ کر اُسے سراہے بنا نہ رہ سکے۔

عالمگیر مراد اور رحمت بیگم کے ساتھ چلتا ہوا اسٹیج پر آ بیٹھا۔

تھوڑی دیر بعد عشنا کو بھی باہر لایا گیا۔

عشنا ریڈ کلر کے برائیڈل لہنگے میں آسمان سے اُتری کوئی پری معلوم ہوتی تھی۔

عالمگیر نے عشنا کو آتا دیکھا تو دیکھتا رہ گیا۔

"عالمگیر۔۔۔۔۔صبر کر یار۔۔۔اب بھابھی نے ساری زندگی تیرے ساتھ ہی رہنا ہے۔۔۔تو تو اس طرح سے دیکھ رہا ہی جیسے کبھی انہیں دیکھا ہی نہیں۔۔۔"

مراد نے عالمگیر کو عشنا کو مسلسل دیکھتے پا کر اُس کے کان میں سرگوشی کی۔ 

عالمگیر نے مسکرا کر مراد کو گھورا تھا۔

عشنا کوثر بیگم کے ساتھ چھوٹے چھوٹے قدم بڑھاتی اسٹیج کی طرف آ رہی تھی۔

عالمگیر نے عشنا کے اسٹیج کے قریب آتے ہی آگے بڑھ کر اس کے سامنے ہاتھ پھیلا کر اُسے اسٹیج پر چڑھنے میں مدد کی۔

عشنا مسکراتے ہوئے عالمگیر کا ہاتھ تھامے اسٹیج تک آئی اور کوثر بیگم اور رحمت بیگم کی مدد سے عالمگیر کے برابر میں بیٹھ گئی۔

عالمگیر مسکراتا ہوا اُس کے برابر آ بیٹھا۔

بہت سی ستائشی نظروں نے اُن کی خوبصورت جوڑی کی تعریف کے گن گائے تھے۔

"بہت خوبصورت لگ رہی ہو۔۔۔"

عالمگیر نے جھک کر عشنا کے کان کے قریب کہا۔

"اہم اہم۔۔۔۔"

مراد نے جو عالمگیر کے دوسرے طرف بیٹھا تھا خنخار کر عالمگیر کی توجہ عالمگیر کی توجہ مرکوز کرنی چاہی۔

عالمگیر نے مراد کی طرف دیکھا۔

"کنٹرول۔۔۔۔"

مراد نے لبوں پر مسکراہٹ سجائے کہا تو عالمگیر بس اُسے گھور کر رہ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عشنا کی رخصتی قرآن مجید کے پاک سائے میں کی گئی۔

عشنا کوثر بیگم کے گلے لگ کر رو پڑی۔

ابراہیم صاحب نے عشنا کو گلے لگایا۔ 

"عشنا میں جانتا ہوں کہ مجھ سے بہت سی کوتاہیاں ہوئی ہیں۔

میں نے تمہارے ساتھ بہت نا انصافی کے ہے بیٹا ۔ لیکن ہو سکے تو اپنے باپ کو معاف کر دینا۔"

عشنا کو الگ کرنے کے بعد ابراہیم صاحب بولے۔

"نہیں ابو۔۔۔۔آپ نے مجھے عالمگیر کی صورت زندگی کا سب سے قیمتی تحفہ دیا ہے ۔"

عشنا نے بھیگی آنکھوں سے عالمگیر کو دیکھتے ہوئے کہا۔

ابراہیم صاحب نے مسکرا کر سر ہلایا اور اُس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا۔

عالمگیر نے عشنا کی کلائی تھام کر اُسے کار میں بیٹھنے میں مدد کی۔

عشنا بیک سیٹ پر بیٹھ گئی تو عالمگیر گھوم کر دوسری طرف آ کر عشنا کے برابر بیٹھ گیا۔

مراد ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا اور رحمت بیگم فرنٹ سیٹ پر۔

وہ لوگ وہاں سے سیدھا اسلام آباد آ گئے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلام آباد آتے آتے اُنھیں بہت دیر ہو گئی تھی۔ 

اُن کی کار گیٹ کے اندر داخل ہوئی تو ہر طرف پھولوں کی چادر بچھی تھی۔

نادر نے پورے گھر کو دلہن کی طرح سجا رکھا تھا۔

"شادی آپ کو بہت بہت مبارک  ہو سر۔۔۔۔"

عالمگیر  کے کار سے نکلتے ہی نادر  اُس کی طرف بڑھ کر اُسے مبارک باد دینے لگا۔

عالمگیر نے مسکرا کر نادر سے مصافحہ کرنے کے بعد اُس کے گلے لگ کر اُس سے مبارک باد وصول کی۔

عشنا عالمگیر کا ہاتھ تھامے پھولوں کی رویش پر چل کر گھر کے اندر آئی تھی۔

رحمت بیگم نے عشنا کو تھام کر اُسے عالمگیر کے کمرے میں بیٹھا دیا۔

عشنا نے کمرے پر نظریں دوڑائی۔

ہر طرف دیواروں کو پھولوں کی لڑیوں سے سجایا گیا تھا۔

بیڈ پر بھی پھولوں کی لڑیاں چھت سے فرش تک لٹک رہی تھی۔

پورے بیڈ کو گلاب کی پنکھڑیوں سے بھر دیا گیا تھا۔

عشنا کو آج یہ کمرا اور پیارا لگ رہا تھا۔

اُسے پھول ویسے ہی بہت پسند تھے اب اُس کے پسندیدہ کمرے میں پھولوں کی بہتات اُس کے دل کو بہت بھلي معلوم ہو رہی تھی۔

مراد نے عالمگیر کو دیر تک تنگ کر کے کمرے میں جانے سے روک رکھا تھا۔

جب عالمگیر سے برداشت نہیں ہوا عالمگیر نے بڑھ کر مراد کا گلا پکڑ لیا۔

نادر کھڑا ہنسنے لگا۔

"بھائی تو تو خون خرابے پر اتر آیا ہے۔۔۔"

مراد نے عالمگیر سے اپنی گردن چھوڑواتے ہوئے عالمگیر سے کہا۔

"اب بھی روکے گا؟"

عالمگیر نے اُسے ہاتھ کی مُٹھی دکھائی۔

"نہیں بھائی۔۔۔جا تو۔۔۔"

مراد نے ڈرنے کی ادا کاری کی۔

عالمگیر نے مراد اور نادر کو رات یہیں روک لیا تھا۔

 عالمگیر کمرے میں آیا۔

عشنا گھونگھٹ اوڑھے بیڈ پر بیٹھی محو انتظار تھی۔

عالمگیر دھیرے دھیرے عشنا کی طرف بڑھ رہا تھا۔

عشنا کو اپنی دھڑکنے تیز ہوتی محسوس ہوئی۔

عالمگیر آہستہ سے اُس کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔

عالمگیر نے عشنا کو مسکراتے ہوئے دیکھا اور ہاتھ بڑھا کر اُس کا گھونگھٹ اٹھانا چاہا

عشنا نے اُس کے ہاتھ کو پکڑ کر اُسے گھونگھٹ اٹھانے سے روک دیا۔

"پہلے منہ دکھائی۔۔۔۔"

عشنا نے عالمگیر کے آگے ہاتھ کر کے کہا تو عالمگیر نے ایک زور دار قہقہہ لگایا۔

"ہمم۔۔۔منہ دکھائی۔۔۔۔۔۔ اگر نا دوں تو؟"

عالمگیر نے عشنا کے گھونگھٹ کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"تو پھر منہ دکھائی بھی نہیں ہو سکتی۔"

عشنا نے انگوٹھا دیکھاتے ہوئے کہا۔

"آج تم اس بات کا اختیار نہیں رکھتی جان۔۔۔۔کیونکہ سارے اختیار آج میں اپنے نام کروا کر آیا ہوں۔۔۔۔آج انکار کی گنجائش نہیں ہے جان۔۔۔"

عالمگیر نے عشنا کے انگوٹھے کو پکڑ کر کہا ۔

عشنا کے بدن میں سنسنی سی دوڑ گئی۔

عالمگیر نے اُس کی انگلی چھوڑ کر اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک ڈبیا نکالی اور عشنا کے ہاتھ میں ایک قیمتی بریسلیٹ پہنے دیا۔

عشنا نے گھونگھٹ کے اندر سے اپنے ہاتھ پر باندھے بریسلیٹ کو دیکھا جس میں ننّھے ننھے نگ جگمگا رہے تھے۔

"اجازت؟"

عالمگیر نے عشنا سے کہا تو عشنا نے ہاں میں سر کو جنبش دی۔

عالمگیر نے آہستہ سے اُس کا گھونگھٹ ہٹا دیا۔

عالمگیر عشنا کے چہرے کو مبھوئیت سے تکے جا رہا تھا۔

"عالمگیر ۔۔۔۔"

عشنا نے عالمگیر کو ایک ٹک دیکھتے پا کر پزل ہوتے ہوئے اُسے پُکارا۔

"یس جان۔۔۔آج سے عالمگیر آپ کا ہے اور آپ صرف میری۔۔۔"

عالمگیر نے کہا اور جھک کر عشنا کے ماتھے کو لبوں سے چھوا۔

عشنا نے آنکھیں بند کر کے عالمگیر کے لمس کو اپنے ماتھے پر محسوس کیا۔

 عالمگیر نے عشنا کے دوپٹے کو سر سے ہٹا کر بیڈ کے ایک طرف رکھا اور عشنا کے گلے میں پہنے ہار کو نکال کر سائڈ میں رکھ دیا۔

عشنا آنکھیں موندیں عالمگیر کے ہاتھوں کا لمس اپنے سر پر پھر گردن پر محسوس کرتی رہی۔


عالمگیر نے عشنا کے قریب آ کر اُسے آہستہ سے بیڈ پر لیٹا دیا۔

اور خود اُس کے اوپر جھکا۔

"جان ۔۔۔۔"

 عالمگیر نے عشنا کے قریب سرگوشی نما آواز میں پُکارا 

عشنا نے آنکھیں کھول کر عالمگیر کو دیکھا۔

اُس کی آنکھوں میں چھلتکی محبت کے پیغام کو دیکھ کر عشنا نے اپنا چہرہ ہاتھوں سے چھپا لیا۔

عالمگیر کے لبوں پر مسکراہٹ اُبھری۔

عالمگیر نے آہستہ سے جھک کر اُس کے ہاتھوں کو اپنے لبوں سے چھوا۔

"عالمگیر۔۔۔۔"

عشنا اُس کے لمس پر بری طرح کانپ اٹھی۔

"جان۔۔۔آج تمہارے احتجاج مجھے نہیں روک پائیں گے۔"

عالمگیر نے عشنا کے کان کے قریب آ کر کہا اور ساتھ ہی اُس کے کان پر ایک بائٹ کرتا اُس کے ہاتھ چہرے سے ہٹا دیے۔

عشنا نے آنکھیں بند رکھی تھی۔

عالمگیر اُس کے چہرے پر جھکا جا بجا اپنی محبت اُس کے چہرے پر رقم کرتا اُس کے لبوں پر جھکا اور خود کو سیراب کرنے لگا۔

عشنا آنکھیں بند کیے عالمگیر کی شدتیں محسوس کرتی رہی۔

عالمگیر نے آہستہ سے عشنا کی کمر کو اونچا کر کے اُس کے کرتے کی ڈوریاں کھول دی۔

اب عالمگیر عشنا پر پوری طرح قابض ہو چکا تھا۔

عشنا اُس کے شدتیں برداشت کرتی احتجاج کرنا چاہتی تھی لیکن عالمگیر نے اُس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں سے تھام کر تکیے کے ساتھ لگا دیا۔

عشنا کے سارے احتجاج وہی دم توڑ گئے تھے۔

ساری رات عالمگیر عشنا پر محبت لوٹاتا رہا۔ 

فجر کے کچھ دیر پہلے عشنا نے بہت مشکل سے عالمگیر کو خود سے الگ کیا اور واشروم میں جا کر نہانے لگی۔

عالمگیر بھی باتھ لے  کر آ گیا۔

دونوں نے ایک ساتھ نماز ادا کی اور اللہ کے حضور میں جھک کر اُس پاک پروردگار کا شکر ادا کیا۔

"عشنا ۔۔۔"

عالمگیر نے نماز ادا کرنے کے بعد عشنا کو باہر جاتے دیکھا تو پُکارا۔

"جی۔۔۔"

عشنا عالمگیر سے نظریں نہیں ملا پا رہی تھی۔ کل رات عالمگیر نے اُسے محبت کی بارش میں بھگو کر اُس کے چہرے کو گلنار کر دیا تھا۔

عشنا نظریں جھکائے کھڑی تھی۔

عالمگیر آہستہ سے چلتا ہوا عشنا کے قریب آیا اور اُس کے ماتھے کو لبوں سے چھوا۔

عشنا شرما کر عالمگیر کے سینے میں چہرہ چھپا گئی۔

"کہاں جا رہی تھی تم؟"

عالمگیر نے عشنا کی کمرا کے گرد گھیرا تنگ کرتے ہوئے پوچھا۔

"میں۔۔۔وہ۔۔۔میں۔۔۔"

عشنا نے جواب نہ بن پڑا

وہ اب عالمگیر سے یہ نہیں کہہ سکتی تھی کہ

 "آپ کی شدتوں سے گھبرا کر باہر جا رہی تھی "

"عشنا۔۔۔۔۔۔۔ابھی سے ڈر گئی؟ ابھی تو آغاز ہے میری جان۔۔۔"

عالمگیر، عشنا کو باہوں میں اٹھا کر بیڈ تک لے آیا۔

"عالم۔۔۔عالمگیر صبح۔۔۔صبح ہو گئی ہے۔۔۔۔آپ ۔۔۔آپ یہ۔۔۔" 

عشنا نے عالمگیر کو خود پر جھکتے دیکھا تو گھبرا کر بولی۔

"محبت کرنے کے لیے صبح یہ شام نہیں دیکھی جاتی میری جان۔۔۔۔۔بس کی جاتی ہے۔۔۔"

عالمگیر کہتے  ہوئے ایک بار پھر عشنا کے گردن پر جھک چکا تھا۔

"عالمگیر۔۔۔"

عشنا عالمگیر کی محبت میں ساری رات بھیگتی رہی تھی لیکن اب بھی عالمگیر کا انداز اُسے پاگل کر رہا تھا۔

عشنا عالمگیر کے بالوں میں ہاتھ پھنسائے اُس کی شدّت سے بھرپور محبت کو اپنے آپ پر محسوس کرتی گہری گہری سانسیں لے رہی تھی۔

عالمگیر اب اُس کے لبوں پر جھکا خود کو سیراب کر رہا تھا۔

عالمگیر کی پیاس تھی کی ہر بار کے بعد اور بڑھ جاتی اور ہر بار اُس کی شدّت میں اضافہ کر جاتی تھی۔

عالمگیر ایک بار پھر عشنا کے اوپر حاوی ہو چکا تھا۔

عشنا عالمگیر کی پناہوں میں سمٹی اُس کی محبت میں بھیگ رہی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قریب 10 بجے عالمگیر کے کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی۔

عالمگیر عشنا کو باہوں میں لیے سو رہا تھا۔

عشنا عالمگیر کے سینے سے لگی سو رہی تھی۔

دستک پر عالمگیر نے آنکھیں کھول کر دروازے کو پھر عشنا کو دیکھا جو آنکھیں بند کیے عالمگیر کے سینے سے لگی سو رہی تھی۔

عالمگیر نے آہستہ سے جھک کر اُس کے ماتھے کو لبوں سے چھوا اور اُس کا سر تکیے پر رکھ کر اپنی شرٹ اٹھا کر پہننے لگا۔

عالمگیر نے دروازہ کھولا تو ملازم نظریں جھکائے سامنے کھڑا تھا۔

"سر میم نے کہا آپ اور عشنا میم ناشتہ کرنے آ جائیں۔"

ملازم نے موڈّیب انداز میں کہا۔

"ٹھیک ہے تم چلو ہم آتے ہیں۔۔۔"

عالمگیر نے کہا اور دروازہ بند کر کے بیڈ تک آیا۔

عشنا آنکھیں بند کیے پرسکون سی سو رہی تھی۔

عالمگیر نے اُسے جگایا نہیں بس اپنے کپڑے لے کر واشروم میں چلا گیا۔

عالمگیر نہا کر باہر آیا ۔

عشنا اب بھی ویسے ہی سو رہی تھی۔ 

"جان ۔۔۔اب تم مجھے اور سوتے ہوئے  اچھی نہیں لگ رہی۔۔۔اب اٹھ بھی جاؤ۔۔۔"

عالمگیر کہتا ہوا عشنا کے پاس بیڈ تک آیا اور اپنے سر کو زور سے ہلایا۔

عشنا عالمگیر کے بالوں سے ٹپکتی بوندوں کو اپنے چہرے پر محسوس کر کے آنکھیں کھولے عالمگیر کو دیکھنے لگی۔

"جان۔۔۔اٹھنا نہیں ہے؟"

عالمگیر نے عشنا کے گال پر ہاتھ پھیرتے ہے کہا۔

"عالم۔۔۔سونے دیں نہ۔۔۔۔۔آپ نے مجھے سونے نہیں دیا ہے۔۔۔"

عشنا نے کہا اور لحاف سر تک اوڑھ لیا۔

"جان۔۔۔امی نیچے ناشتے پر ہمارا انتظار کر رہی ہیں۔۔۔۔۔"

عالمگیر نے عشنا کہ لحاف کھینچتے ہوئے کہا۔

"عشنا نے منہ بناتے ہوئے عالمگیر کو دیکھا اور پھر اٹھ کر واشروم میں بند ہو گئی۔

تھوڑی دیر بعد وہ واشروم سے باہر آئی۔ 

عالمگیر نے اُسے دیکھا تو آگے بڑھ کر اُس کے ماتھے پر اپنے لب رکھ دیئے۔

عشنا نے مسکرا کر نظریں جھکا لیں۔

عالمگیر تیار ہو چکا تھا عشنا بھی جلدی جلدی تیار ہونے لگی۔

عالمگیر نے آکر اُسے پیچھے سے پکڑ لیا۔

"جان ۔۔۔اتنا سجو گی تو میں تمہیں کمرے سے باہر ہی نہیں جانے دوں گا۔"

عالمگیر نے عشنا کے سجے سنورے روپ کو قد آور آئینے میں دیکھتے ہوئے کہا۔

"عالمگیر۔۔۔۔" 

عشنا نے حیا سے پلکیں جھکا لی۔

"نہ کرو جان۔۔۔نہیں کرو۔۔۔ورنہ عالمگیر سجّاد بھول جائیگا کہ دین ہی یہ رات۔۔۔۔"

عالمگیر نے عشنا کے کندھے پر ایک بائٹ کر دیا۔

عشنا عالمگیر کے لمس پر کانپ اٹھی۔

ہر بار عشنا کو اُس کے لمس میں ایک نیا پن محسوس ہوتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.............................

وہ دونوں نیچے آئے تو رحمت بیگم نے آگے بڑھ کر اُن کی بلائیں لی اور اُن دونوں کے سر پر نوٹ وار کر ملازموں کی طرف بڑھا دیا۔

نادر صبح ہی ولیمے کی تقریب کے انتظامات دیکھنے کے لیے گھر سے نکل گیا تھا۔

ناشتہ بہت خوش گوار ماحول میں کیا گیا۔

مراد عالمگیر کے کان کے پاس جھک جھک کر نجانے کیا کہہ رہا تھا کہ عالمگیر ہر بار اُسے آنکھیں دیکھا کر مارنے کی دھمکی دے رہا تھا۔

"بیٹا۔۔۔2 بجے بیوٹی سیلون سے لڑکیاں آ جائیگی ۔

آپ کو تیار کرنے کے لیے آپ تب تک ریسٹ کر لو۔ "

رحمت بیگم نے عشنا کو کہا۔

وہ سر ہلاتی کمرے میں چلی گئی۔

عالمگیر نے بھی عشنا کے پیچھے جانا چاہا لیکن مراد نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر اسے روک لیا تھا۔

"عالمگیر۔۔۔تو کہاں چلا؟ تو میرے ساتھ چل"

مراد اُسے زبردستی گھسیٹتا باہر کار تک لایا اور اُسے بیٹھا کر کار گیٹ سے باہر نکال لے گیا

عشنا کمرے میں آ کر سو گئی تھی۔ 

2 بجے سلون سے کچھ لڑکیاں آ گئیں وہ عشنا کو تیار کرنے لگی۔

رات 7 بجے رحمت بیگم اور عشنا ڈرائیور کے ہمراہ ہوٹل پہنچے تھے۔

عالمگیر مراد کے ساتھ مل کر سارا دن انتظامات دیکھتا رہا تھا۔ 

نادر نے سب انتظام بخوبی کر دیا تھا لیکن عالمگیر اور مراد پھر بھی ہر چیز چیک کرتے رہے تھے۔

ولیمے کا انتظام ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں کیا گیا تھا ۔

 ایسا لگتا تھا سارے شہر کو دعوت دی گئی ہو۔ 

ہر طرف لوگوں کا ہجوم تھا۔ پورا ہوٹل لوگو سے بھرا پڑا تھا۔

عالمگیر سجاد کے ولیمے کو کور کرنے سارے ملک سے میڈیا اکٹھا ہوئی ہوئی تھی۔

اسٹیج کے بلکل سامنے سارے میڈیا والے کمرا لئے کھڑے تھے۔

عشنا اور رحمت بیگم کے ہوٹل پہنچتے ہی عالمگیر اُن کی طرف بڑھا اور عشنا کو تھامے اسٹیج تک آیا۔ 

عشنا اتنے لوگو کو دیکھ کر خائف ہو رہی تھی۔

عالمگیر نے اُس کے ڈر کو محسوس کرتے ہوئے اُس کی کلائی پر اپنی گرفت مضبوط کر دی۔

دونوں اسٹیج پر آ کر کھڑے ہو گئے۔

لوگ اسٹیج پر اُن کے پاس آ کر اُنھیں شادی کی مبارک باد دی رہے تھی اور ساتھ ہی فوٹو بھی لی جا رہی تھی۔

اُن دونوں کی تصویریں بن رہیں تھی۔ لائیو رپورٹنگ ہو رہی تھی۔ بہت سے چینل پر اُن دونوں کو لائیو دکھایا جا رہا تھا۔

ہارون صاحب کراچی میں بیٹھے عشنا اور عالمگیر کو دیکھ کر بری طرح سے غصے سے لال پیلے ہو رہے تھے۔

"عالمگیر۔۔۔۔تمہاری وجہ سے۔۔۔۔تمہاری وجہ سے آج میری بیٹی کی زندگی خراب ہوئی ہے۔۔۔اگر تم اس عشنا سے نہیں بلکہ میری بیٹی سے شادی کی ہوتی تو آج وہ تمہارے ساتھ اپنے گھر میں خوش ہوتی۔

عالمگیر سجّاد میں تمہیں کبھی معاف نہیں کرونگا۔۔۔۔کبھی نہیں۔۔ "

ہارون صاحب نے ٹیلیویژن آف کر کے ریموٹ دیوار پر دے مارا۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


السلام وعلیکم

میں کیز فاطمہ آپ لوگوں کا تہے دل سے شکریہ ادا کرنا چاہوں گی آپ 

نے میرے ناول کو  پڑھ کر اُسے پسند کیا۔

اگر کچھ  غلطی ہوئی۔ہو تو معاف کرنا کیوں  

کہ موبائل ایپ پر بنائی 

بہت مشکل سے بنائی ہے pdf

۔


آپ لوگوں کی دعاؤں کی طلبگار

آپ کی ناول نگار

کنیز فاطمہ 


Comments